تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27704
ڈاؤنلوڈ: 2607


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27704 / ڈاؤنلوڈ: 2607
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

۲ ۔ مسیح(ع) خدا کے بیٹے نہ تھے

عیسائیوں کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہ حضرت عیسی(ع) کو خدا کا حقیقی بیٹا سمجھتے تھے اور اس کا نام صرف احترام کے طور پر نہیں بلکہ حقیقی معنی میں ان پر اطلاق کرتے ہیں اور صراحت سے اپنی کتابوں میں کہتے ہیں کہ مسیح کے علاوہ اس کا حقیقی معنی کسی اور پر اطلاق جائز نہیں اور جیسا کہ ہم (جلد دوم صفحہ ۱۷۶ تا ۱۸۴ اردو ترجمہ میں ) کہہ چکے ہیں کہ حضرت مسیح(ع) نے کبھی اس قسم کا دعویٰ نہیں کیا ، وہ تو اپنا تعارف صرف خدا کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہونے کی حیثیت سے کرواتے تھے اور اصولاً اس کی کوئی وجہ نہیں کہ باپ بیٹے کا رابطہ جو کہ عالم مادہ اور عالم ممکنات کے ساتھ مربوط ہے وہ خدا اور کسی شخص کے درمیان موجود ہو۔

۳ ۔ یہ خرافات دوسروں سے اخذ کئے گئے

مندرجہ بالا آیت میں قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ ان کجرویوں میں گذشتہ بت پرستوں کی طرح ہیں اور ان سے شاہت رکھتے ہیں ۔

وہ بعض خداوں کو باپ اور بعض کو خدا کا بیٹا یہاں تک کہ بعض کو ماں خدا اور بیوی خدا جانتے تھے، ہندوستان، چین اور قدیم مصر کے بت پرستوں کے اصولِ عقائد میں ایسے ہی افکار دکھائی دیتے ہیں ، یہی افکار بعد ازاں یہودیوں اور عیسائیوں میں داخل ہوگئے تو گویا انھوں نے ان میں بت پرستوں ہی کی تقلید کی ہے ۔

دورِ حاضر میں بعض محققین اس فکر میں ہیں کہ عہدین (تورات، انجیل اور ان سے متعلق کتب) کے مندرجہات کا بدھ مذہب اور برہمنوں سے موازنہ کیا جائے اور ان کتب کے مضامین کی جڑیں اُن کے عقائد میں تلاش کی جائیں اور یہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ انجیل اور تورات کے بہت سے معارف بدھ مذہب اور برہمنوں کے خرافات پر منطبق ہوتے ہیں یہاں تک کہ بہت سے واقعات وحکایات جو انجیل میں ہیں بعینہ وہی ہیں کہ جو ان دو مذہب میں نظر آتے ہیں ۔

۴ ۔ ”( قاتلهم الله ) “ کا مفہوم

”قاتلھم الله“ گرچہ اصل میں اس معنی میں ہے کہ خدا ان سے جنگ کرے یا خدا انھیں قتل کردے لیکن جیسا کہ طبرسی نے ”مجمع البیان“ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ یہ جملہ لعنت سے کنایہ ہے یعنی خدا انھیں اپنی رحمت سے دُور رکھے ۔

اگلی آیت میں (اعتقادی شرک کے مقابلے میں ) ان کے عملی شرک کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، دوسروں لفظوں میں ”شرک درعبادت“ کی نشاندہی کی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے: یہود ونصاریٰ نے پروردگار کے مقابلے میں اپن علماء اور راہبوں کو اپنا خدا قرار دیا( اتَّخَذُوا اٴَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اٴَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ ) ۔ نیزمسیح ابن مریم کو بھی مرتبہ الوہیت پر فائز مانا( وَالْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ ) ۔

اٴحبار “ ”حبر“ کی جمع ہیں اور ”رهبان “”راهب “ کی جمع ہے ”حبر“ عالم ودانشمند کو کہتے ہیں اور راہب ایسے شخص کو کہتے ہیں جس نے ترکِ دنیا کے طور پر دیر گرجے میں سکونت اختیار کررکھی ہو اور مشغول عبادت رہتا ہو۔

کیا یہود ونصاریٰ اپنے پیشواوں کی عبادت کرتے تھے

اس میں شک نہیں ہے کہ یہود ونصاریٰ اپنے علماء اور راہبوں کو سجدہ نہیں کرتے تھے اور نہ ان کے لئے نماز، روزہ یا دیگر عبادات انجام دیتے تھے لیکن چونکہ انھوں نے غیرمشروط طور پر اپنے آپ کو ان کی اطاعت میں دے رکھا تھا یہاں تک کہ حکمِ خدا کے خلاف بھی جو احکام وہ دیتے تھے انھیں واجب العمل سمجھتے تھے ۔ اس اندھی اور غیر منطقی پیروی کو خدا نے عبادت سے تعبیر کیا ہے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں یہ معنی بیان کیا گیا ہے ۔ انھوں نے فرمایا:

اٴما والله ماصا موالهم ولاصلوا ولٰکنهم احلوا لهم حراما وحرموا علیهم حلالاً فاتبعوهم وعبدوهم من حیث لایشعرون .

خدا کی قسم! وہ (یہود ونصاریٰ) اپنے پیشواوں کے لئے روزہ نماز نہیں بجالاتے لیکن ان کے پیشواوں نے ان کے لئے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیا اور انھوں نے اسے قبول کرلیا، ان کی پیروی کی اور توجہ کئے بغیر ان کی پرستش کی ۔(۱) ایک اور حدیث میں ہے:

عدی بن حاتم کہتا ہے: میں رسول الله کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ صلیب میری گردن میں تھی ۔ آپ نے مجھ سے فرمایا:

اے عدی! یہ بت اپنی گردن سے اتاردو۔

میں نے ایسا ہی کیا، پھر میں آپ کے مزید قریب گیا تو میں نے سُنا کہ آپ یہ آیت تلاوت کررہے تھے:

اتَّخَذُوا اٴَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ ....

جب آپ نے آیت تمام کی تو میں نے عرض کیا: ہم کبھی اپنے پیشواوں کی پرستش نہیں کرتے، آپ نے فرمایا:

کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ حلالِ خدا کو حرام اور حرامِ خدا کو حلال کرتے ہیں اور تم ان کی پیروی کرتے ہو؟

میں نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، اس پر آپ نے فرمایا:یہی ان کی عبادت ہے ۔(۲)

اس امر کی دلیل واضح ہے کہ کیونکہ قانون بنانا خدا کا کام ہے اور اس کے علاوہ کوئی حق نہیں رکھتا کہ کوئی چیز لوگوں کے لئے حلال یا حرام کرے اور اسے قانون قرار دے، جو کام لوگ کرسکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ وہ قوانین کو کشف کریں اور جہاں ضرورت ہو مصادیق پر ان کی تطبیق کریں ۔

اس لئے اگر کوئی شخص قوانین الٰہی کے خلاف قانون بنائے اور کوئی اسے باقاعدہ مان لے اور بلا چون وچرا اسے قبول کرلے تو گویا وہ غیر خدا کے لئے خدا کے مقام کا قائل ہوا ہے اور یہ ایک طرح کا عملی شرک اوربت پرستی ہے اور دوسرے لفظوں میں غیر خدا کی عبادت ہے ۔

قرائن سے نتیجہ نکلتا ہے کہ یہود ونصاریٰ اپنے پیشواوں کے لئے اس قسم کے اختیارات کے قائل تھے کہ وہ بعض اوقات قوانینِ الٰہی میں جہاں مصلحت دیکھیں تبدیلی کردیں اور اب بھی گناہ بخشنے کا طریقہ عیسائیوں میں رائج ہے ۔ وہ پادری کے سامنے گناہ کا اعتراف کرلیں تو وہ کہتا ہے: میں نے بخش دیا ۔(۳)

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عیسائی کی طرف سے حضرت عیسی(ع) کی پرستش اور یہودیوں کی طرف سے اپنے پیشواوں کی پرستش کی نوعیت میں فرق ہے، عیسائی حقیقتاً حضرت مسیح(ع) کو خدا کا بیٹا سمجھتے تھے جبکہ یہودی اپنے پیشواوں کی غیرمشروط اطاعت کی وجہ سے ان کی عبادت کرتے تھے ۔ لہٰذا مندرجہ بالا آیت نے بھی اس فرق کو ملحوظ رکھا ہے اور ان کا حساب ایک دوسرے سے الگ رکھا ہے ۔ آیت کہتی ہے:( اتَّخَذُوا اٴَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اٴَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ )

پھر حضرت مسیح(ع) کا ذکر جدا کیا گیا ہے:( وَالْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ )

یہ صورت نشاندہی کرتی ہے کہ قرآنی تعبیرات میں ہر طرح کی باریکیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔

آخر میں اس معاملے کی تاکید کی گئی ہے کہ یہ سب انسان پرستیاں بدعت اور جعلی مسائل میں سے ہیں اور کبھی بھی ان کا حکم نہیں دیا گیا کہ اپنے لئے ایک خدا بنالو بلکہ انھیں حکم دیا گیا ہے کہ صرف ایک تنہا خدا کی پرستش کرو( وَمَا اٴُمِرُوا إِلاَّ لِیَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا ) ۔ وہ معبود کہ جس کے علاوہ کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں( لَاإِلَهَ إِلاَّ هُوَ ) ۔ وہ معبود جو منزہ ہے اس سے جسے اس کا شریک قرار دیتے ہیں( سُبْحَانَهُ عَمَّا یُشْرِکُونَ ) ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان، زیر نظر آیت کے ذیل میں اور نور الثقلین، ج۲، ص۲۰۹.

۲۔ مجمع البیان مذکورہ آیت کے ذیل میں

۳۔ تفسیر نمونہ جلد دوم میں اہلِ کتاب کی انسان پرستی کے بار ے میں ہم نے کچھ وضاحتیں کی ہیں (دیکھئے: صفحہ۳۸۹، اردو ترجمہ).

ایک اصلاحی درس

قران مجید مندرجہ بالا آیت میں اپنے پیروکاروں کو ایک بہت ہی قیمتی درس دیتا ہے اور توحید کا ایک اعلیٰ ترین مفہوم اس سلسلے میں دلنشین کرواتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی مسلمان یہ حق نہیں رکھتا کہ کسی انسان کی بلاشرط اطاعت قبول کرلے کیونکہ یہ کام اس کی پرستش کے مساوی ہے، تمام اطاعتیں اطاعتِ الٰہی میں محدود ہونا چاہئیں اور حکم انسانی کی پیروی اس وقت تک ہی جائز ہے جب تک قوانینِ خداوندی کے مخالفت نہ ہو چاہے حکم دینے والا انسان کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کتنا ہی بلند مقام کیوں نہ رکھتا ہو۔

ایسا اس لئے ہے کہ بلاشرط اطاعت عبادت کے مساوی ہے اور بت پرستی اور عبودیت کی ایک شکل ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے مسلمان اس اہم اسلامی حکم سے دور ہونے اور انسانی بت بنالینے کی وجہ سے تفرقہ بازی، پراگندگی، استعمار اور استثمار کا شکار ہوگئے ہیں ، جب تک یہ بت نہیں توڑے جائیں گے اور انھیں دور نہ کیا جائے گا اس وقت تک بے سروسامانیاں اور پریشانیاں برطرف نہیں ہوسکتیں ۔

اصولی طور پر ایسی بت پرستی زمانہ جاہلیت کی بت پرستی کہ جس میں پتھر اور لکڑی کے سامنے سجدہ کیا جاتا تھا سے زیادہ خطرناک ہے ۔ کیونکہ وہ بے روح بت اپنے پجاریوں کا کبھی استعمال نہیں کرتے تھے، لیکن انسان جب بتوں کی جگہ لیتے ہیں تو وہ اپنی خود غرضی کی بناء پر اپنے پیروکاروں کو اپنی قید کی زنجیروں میں جکڑ لیتے ہیں اور انھیں ہر طرح کی پستی اور بدبختی میں مبتلا کرتے ہیں ۔

زیرِ بحث آیات میں سے تیسری میں قرآن نے یہودیوں اور عیسائیوں یا تمام مخالفینِ اسلام یہاں تک کہ مشرکین کی بھی جان توڑ اور بے نتیجہ کوششوں کو ایک جاذب نظر تشبیہ کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: وہ چاہتے ہیں کہ اپنی پھونکوں سے نورِ خدا کو خاموش کردیں لیکن خدا کا ارادہ ہے کہ اس نورِ الٰہی کو اس طرح وسیع اور کامل کردے یہاں تک کہ وہ تمام دنیا پر چھاجائے اور تمام لوگ اس کے سائے سے مستفید ہوں اگرچہ کافروں کو یہ ناپسند ہے( یُرِیدُونَ اٴَنْ یُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِاٴَفْوَاهِهِمْ وَیَاٴْبَی اللهُ إِلاَّ اٴَنْ یُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُونَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ نور سے تشبیہ:

اس آیت میں دینِ خدا، قرآن اور تعلیمات اسلامی کو نور اور روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ نور زندگی، حرکت، نشو ونما اور روئے زمین پر آبادیکا سرچشمہ اور ہر قسم کے حُسن وزیبائی کا منشاء ہے ۔

اسلام بھی تحرک آفرین دین ہے اور انسانی معاشرے کوو تکامل و ارتقا کی راہ میں آگے لے جاتا ہے اور ہر خیر ووبرکت کا منبع ہے، دشمنوں کی کاوشوں کو بھی پھونکوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ انسان نورِ آفتاب کی طرح روشنی کو پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کرے اور ان کی کوششوں کے حقیر اور ناچیز ہونے کی تصویر کشی کے لئے اس سے عمدہ اور رساتر تعبیر نظر نہیں آتی، درحقیقت حضرتِ حق کے لئے بے پایاں ارادے اور لامتناہی قدرت کے مقابلے میں عاجز وناتواں مخلوق کی کوششیں اس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں ۔

۲ ۔ نور خدا کو بجھانے کی مساعی کا دو مرتبہ ذکر:

نورِ خدا کو بجھانے کی کوششوں کا ذکر قرآن میں دو مواقع پر آیا ہے ۔ ایک زیرِ بحث آیت میں اور دوسرا سورہ صف کی آیہ ۱۸ میں ، دونوں مقامات پر یہ بات دشمنانِ اسلام کی مساعی پر تنقید کے طور پر ہے لیکن ان دونوں آیات میں تھوڑا سا فرق نظر آتا ہے، زیر بحث آیت میں ہے: ”یریدون اٴن یطفئوا “ جبکہ سورہ صف میں ہے: ”یریدون لیطفئوا

تعبیر کا یہ فرق یقیناً کسی نکتے کی طرف اشارہ ہے، مفردات میں راغب ان دونوں تعبیرات کے فرق کی وضاحت کے سلسلے میں کہتا ہے کہ پہلی آیت میں بغیر مقدمہ ووسیلہ کے بجھانے کی طرف اشارہ ہے لیکن دوسری آیت میں مقدمات واسباب کے ذریعے بجھانے کی طرف اشارہ ہے، یعنی وہ اسباب کے بغیر یا پورے وسائل کے ساتھ نورِ حق کو بجھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

۳ ۔ ”( یاٴبیٰ ) “ کا مفہوم:

یاٴبیٰ“ مادہ ”اباء “ سے ہے اس کا مطلب ہے سختی سے کسی چیز سے روکنا اور منع کرنا، یہ تعبیر دینِ اسلام کی تکمیل اور پیش رفت کے لئے پروردگار کے حتمی ارادے اور مشیت کا ثبوت دیتی ہے اور اس دین کے مستقبل کے بارے میں تمام مسلمانوں کو ایک ولولہ اور امید دلاتی ہے، اگر مسلمان واقعی اور حقیقی مسلمان ہوں ۔

اسلام کی عالمگیر حکومت

آخرکار زیرِ بحث آیت میں مسلمانوں کو اسلام کے عالمگیر ہونے کی بشارت دی گئی ہے، گذشتہ آیت کی بحث جس کا مقصد یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام کی جان توڑ کوششیں بارآور نہیں ہوں گی، اس کی تکمیل کرتے ہوئے صراحت سے فرمایا گیا ہے: وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر کامیابی اور غلبہ دے اگرچہ مشرکین اسے پسند نہیں کرتے( هُوَ الَّذِی اٴَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدیٰ وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ ) ۔

ہدایت سے مراد روشن دلائل اور واضح براہین ہیں جو دین اسلام میں موجود ہیں اور دینِ حق سے مراد یہی دین ہے جس کے لئے اصول اور فروع حق ہیں ، مختصر یہ ہے کہ اس کی تاریخ، اس کے مدارک اور اس کا حاصل سب حق ہے اور بلاشبہ وہ دین جس کے مضامین بھی حق ہیں اور جس کے دلائل، مدارک اور تاریخ سب روشن ہیں اسے آخرکار تمام ادیان پر غالب اور کامیاب ہونا چاہیے ۔

رفتارِ زمانہ، علم کی پیشرفت اور روابط کی آسانی کے ساتھ ساتھ زہریلے پراپیگنڈا کا پردہ ہٹتا جائے گا اور حقائق کا چہرہ آشکار ہوتا چلا جائے گا اور مخالفین حق اس کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں وہ سب ختم ہوجائیں گی، یوں دینِ حق تمام جگہوں پر محیط ہوجائے گاچاہے حق کے دشمن نہ چاہیں اور چاہے اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہ آئیں کیونکہ ان کی حرکتیں راہِ تاریخ کے خلاف ہیں اور سننِ آفرینش کی ضد ہیں ۔

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ ہدایت اور دینِ حق سے کیا مراد ہے؟

یہ مندرجہ بالا آیت میں قرآن کہتا ہے: ”( اٴَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدیٰ وَدِینِ الْحَقِّ ) “ یہ گویا تمام ادیانِ عالم پر اسلام کی کامیابی کی دلیل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب پیغمبر اسلام کی دعوت کا مضمون اور متن مبنی بر ہدایت ہے اور عقل ہر مقام پر اس کی گواہی دے گی، نیز جب اصول وفروع حق کے موافق اور حق کے خواہاں ہیں تو ایسا دین فطری طور پر تمام ادیان پر کامیابی حاصل کرے گا ۔

ہندوستان کے ایک دانشور کے بارے میں مرقوم ہے کہ وہ یک مدت تک مختلف عالمی ادیان کا مطالعہ کرتا رہا اور ان کے بارے میں اس نے تحقیق کی اور آخرکار بہت زیادہ مطالعہ کرنے کے اس نے اسلام قبول کرلیا اور انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا: ”میں مسلمان کیوں ہوا“ اس میں اس نے تمام ادیان کے مقابلے میں اسلام کی خوبیاں واضح کی ہیں ، اہم ترین امور جنھوں نے اس کی توجہ جذب کی ان میں سے ایک کے بارے میں وہ کہتا ہے:

اسلام وہ واحد دین ہے جس کی تاریخ ثابت وبرقرار اور محفوظ ہے ۔

وہ تعجب کرتا ہے کہ یورپ نے ایک ایسا دین کیونکر اپنا رکھا ہے کہ جس میں اس کے لانے والے کو ایک انسان کے مقام سے بالاتر جاکر اسے اپنا خدا قرار دے لیا ہے جبکہ اس کی کوئی مستند اور قابلِ قبول تاریخ نہیں ہے ۔(۱)

وہ لوگ جنھوں نے اپنے سابقہ دین کو ترک کرکے اسلام قبول کیا ہے اگر ان کے اظہارات اور خیالات کا مطالعہ اور تحقیق کی جائے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اس دین کی انتہائی سادگی، اس کے مبنی بردلائل احکام، اس کے اصول وفروع کے استحکام اور اس کے پیش کردہ انسانی قوانین سے متاثر ہوئے ہیں اور انھوں نے دیکھا ہے کہ اس کے قوانین ومسائل ہر قسم کی بیہودگی سے پاک ہیں اور ان میں ”حق“ و ”ہدایت“ کا نور جلوہ گر ہے ۔

____________________

۱۔ المنار، ج۱۰، ص۳۸۹.

۲ ۔ منطقی غلبہ یا طاقت کا غلبہ:

اس سلسلہ میں کہ اسلام کس طرح تمام ادیان پر غلبہ حاصل کرے گا اور کامیاب ہوگا اور یہ کامیابی کس صورت میں ہوگی مفسّرین میں اختلاف ہے ۔

بعض اسے صرف منطقی واستدلالی کامیابی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا ہوچکا ہے کیونکہ منطق واستدلال کی نظر سے موجودہ ادیان کا اسلام سے کوئی موازنہ اور مقابلہ نہیں ہے ۔

لیکن لفظ ’اظہار“ جس کا مادہ ”( لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّینِ ) ....“ میں بھی استعمال ہوا ہے، اگر اس کا قرآن کے دیگر مواقع پر مطالعہ کیا جائے اور جہاں جہاں یہ مادہ استعمال ہواہے اس کی تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ مادہ زیادہ ترجسمانی غلبہ اور ظاہری قدرت کے لئے آتا ہے، جیساکہ اصحابِ کہف کے واقعہ میں ہے:( إِنَّهُمْ إِنْ یَظْهَرُوا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوکُمْ )

اگر وہ (دقیانوس اور اس کا لشکر) تم پر غلبہ حاصل کرلیں تو تمھیں سنگسار کریں گے ۔(کہف/ ۲۰)

نیز مشرکین کے بارے میں ہے:( کَیْفَ وَإِنْ یَظْهَرُوا عَلَیْکُمْ لَایَرْقُبُوا فِیکُمْ إِلًّا وَلَاذِمَّةً )

جب وہ تم پر غالب آجاتے ہیں تو رشتہ داری، قرابت اور عہدہ پیمان کا لحاظ نہیں کرتے ۔(توبہ/ ۸)

بدیہی امر ہے کہ ایسے مواقع پر غلبہ منطقی نہیں ہوتا بلکہ عملی اور عینی ہوتا ہے ۔

بہرحال زیادہ صحیح یہ ہے کہ مذکورہ غلبہ اورکامیابی کو ہر قسم کا غلبہ سمجھا جائے کیونکہ یہ معنی مفہوم قرآن سے بھی زیادہ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ وہاں مطلق طور پر غلبہ کا ذکر ہے یعنی ایک دن ایسا آئے گا جب اسلام منطق واستدلال کے لحاظ سے بھی اور ظاہری نفوذ اور حکومت کے حوالے سے بھی تمام ادیان عالم پر کامیابی حاصل کرے گا اور سب اس کے تحت شعاع اور زیرِ نگین ہوں گے ۔

۳ ۔ قرآن اور قیامِ مہدی(ع):

مندرجہ بالا آیت جو بعینہ انہی الفاظ کے ساتھ سورہ صف میں بھی آئی ہے اور کچھ فرق کے ساتھ اس کا تکرار سورہ فتح میں بھی ہوا ہے ایک اہم واقعہ کی خبر دیتی ہے، جس کی اہمیت اس تکرار کا سبب بنی ہے اور جو اسلام کے عالمگیر ہونے کی خبر دیتی ہے ۔

اگرچہ بعض مفسّرین نے زیرِ بحث آیت میں کامیابی کوایک علاقے کی اور محدود کامیابی کے معنی میں لیا ہے کہ جو رسول الله کے زمانے میں یا آپ کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھی لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ آیت میں کسی قسم کی قید اور شرط نہیں ہے اور یہ ہر لحاظ سے مطلق ہے لہٰذا کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کے معنی کو محدود کریا جائے، آیت کا مفہوم اسلام کی تمام پہلووں سے تمام ادیانِ عالم پر کامیابی کی خبر دیتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرکار اسلام تمام کرہ زمین پر محیط ہوجائے گا اور تمام عالم پر کامیاب ہوگا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوپایا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ خدا یہ حتمی وعدہ تدریجاً اور آہستہ آہستہ عملی شکل اختیار کررہا ہے، دنیا میں اسلام کی تیز رفتار ترقی، یورپ کے مختلف ممالک میں اسے باقاعدہ تسلیم کرلیا جانا، امریکہ اور افریقہ میں اس کا نفوذ، بہت سے دانشوروں اور غیر دانشوروں کا قبولِ اسلام اور اس کے دیگر عوامل نشاندہی کرتے ہیں کہ اسلام عالمی ہونے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے، البتہ مختلف روایات جو منابع اسلامی میں وارد ہوئی ہیں ان کے مطابق اس پرورگرام کا تکامل اس وقت ہوگا جب حضرت مہدی علیہ السلام ظہور کریں گے اور اسلام کے عالمی پرورگرام کو تحقق بخشیں گے اور عالمی طور پر اسے نافذ کریں گے ۔

مرحوم طبرسی ”مجمع البیان“ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں آپ(ع) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں :

ان ذٰلک یوکن عند خرج المهدی فلایبقیٰ اٴحداً الّا اٴقر بمحمد (ص) اس آیت میں جو وعدہ کیا گیا ہے مہدی آلِ محمد کے ظہور کے وقت صورت پذیر ہوگا، اس دن کوئی خص روئے زمین میں نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ حضرت محمد کی حقانیت کا اقرار کرے گا ۔

نیز اسی تفسیر میں پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:”لایبقیٰ علیٰ ظهر الاٴرض بیت مدر ولا وبرالا ادخله کلمة الاسلام “

دنیا میں کوئی بھی گھر جو پتھر اور مٹی کا، چادر اور خیمے کا اور اُون اور بالوں سے بنا ہو باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ خدا نامِ اسلام اس میں داخل کردے گا ۔

نیز صدوق کی کتاب اکمال الدین میں امام صادق علیہ السلام سے اس کی آیت کی تفسیر میں یوں منقول ہے:

واللّٰه ما نزل تاویلها بعد ولا ینزل تاٴویلها حتّیٰ یخرج القائم فاذا خرج القائم لم یبق کافر باللّٰه العظیم (نورالثقلین،ج ۲ ،ص ۲۱۱)

خدا کی قسم اس آیت کے مضمون نے عملی صورت اختیار نہیں کی اور ایسا صرف اس زمانے میں ہوگا جب ”قائم“خروج کریں گے اور جب وہ قیام کریں گے تو ساری دنیا میں کوئی ایسا شخص باقی نہیں رہے گا جو خدا کا انکار کرے ۔

اسی مضمون کی اور احادیث بھی پیشوایان اسلام سے نقل ہوئی ہیں اور بعض مفسرین نے بھی اس آیت کے ذیل میں یہی تفسیر ذکر کی ہے لیکن یہ امر تعجب خیز ہے کہ المنار کے مولف نے نہ صرف یہ کہ اس تفسیر کو قبول نہیں کیا بلکہ حضرت مہدی (ع) کے بارے میں احادیث چونکہ زیر نظرآیت سے مناسبت رکھتی ہے اس لئے اس نے ان پر بحث تو کی ہے لیکن شیعوں سے اپنے مخصوص تعصب کی بنا ء بزدلانہ حملوں کے لئے کوئی دقیق فروگذاشت نہیں کیا اور حضرت مہدی (ع) سے مربوط احادیث کا سرے سے انکار کرتے ہوئے انہیں متضاد اور غیر قابل قبول قرار دے دیا ہے، اس کے گمان میں وجود مہدی (ع) کا عقیدہ صرف شیعوں سے یا جو شیعوں کی طرف ہیں انہی سے مربوط ہے، ان سب باتوں ست قطع نظر اس نے وجود مہدی(ع) کے عقیدے کو پسماندگی اور تنزل کا ایک عامل قرار دے دیا ہے ۔

اس صورت حال پیش نظر ہم مجبور ہیں کہ کچھ اختصارسے ظہور مہدی (ع) سے مربوط روایات کا ذکر کریں ، نیز السامی معاشرے کی ترقی اور ظلم وجور کے خلاف قیام میں اس عقیدے کے اثرات پر بحث کریں تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ جب ایک دروازے سے تعصب داخل ہوتا ہے تو علم ودانش دوسرے دروازے سے بھاگ جاتے ہیں ، اس بحث سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ مذکورہ مفسر اگرچہ اسلامی مسائل میں بہت معلومات رکھتاہے لیکن تعصب کے اس کمزور پہلو کی وجہ سے اس نے واضح حقائق کو کس طرح الٹی نظر سے دیکھا ہے ۔