تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27751
ڈاؤنلوڈ: 2617


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27751 / ڈاؤنلوڈ: 2617
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

ظہور مہدی (ع) اور اسلامی روایات

اگر چہ سنی شیعہ علما ء نے بہت سی کتب میں قیام مہدی (ع) سے متعلق احادیث لکھی ہیں لیکن ہماری نظر میں کوئی چیز اس خط سے بڑھ کر گویا اور جچی تلی نہیں ہیں جو چند علماء حجاز نے ایک سائل کے جواب میں لکھا ہے لہٰذا ہم اس کا بعینہ ترجمہ قارئین محترم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں لیکن پہلے ہم یہ بات یاد دلا دیں کہ قیام مہدی(ع) سے مربوط روایات ایسی ہیں کہ کسی اسلامی محقق نے چاہے وہ کسی گروہ اور مذہب کا پیرو کار ہو ان کے تواتر کا انکار نہیں کیا ۔ اب تک اس سلسلے میں بہت زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور ان کے مولفین نے بالاتفاق عالمی مصلح یعنی حضرت مہدی (ع) سے مربوط احادیث کی صحت کو قبول کیا ہے ۔صرف معدودے چند افراد مثلا ابن خلدون اور احمد امین مصری نے ان اخبار و روایات کے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے صدور کے بارے میں شک و تردید کی ہے، البتہ ہمارے پاس ایسے قرائن موجود ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کام ابھارنے والی چیز ان اخبار کا ضعف نہیں تھا بلکہ ان کا خیال تھا کہ حضرت مہدی(ع) سے مربوط روایات ایسے مسائل پر مشتمل ہیں جن پر آسانی سے یقین نہیں کیا جاسکتایا اس بنا پر کہ وہ صحیح اور غیر صحیح روایات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے تھے یا انہیں ان کی تفسیر نہیں مل سکی، بہرحال ضروری ہے کہ پہلے اس مسائل میں اس جواب کو پیش کیا جائے جو”رابطہ عالم اسلامی“ کی طرف سے سامنے آیا ہے، جب کہ”رابطہ عالم اسلامی“عالم اسلام کے انتہائی سخت گیر افراد، یعنی وہابیوں پر مشتمل ہے، اس سے واضح ہوجائے گا کہ ظہور مہدی (ع) کا معاملہ ایسا ہے جس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے،ہمارے نظرےے کے مطابق اس چھوٹے سے رسالہ میں ضروری مدارک کو اس طرح سے جمع کردیا گیا ہے کہ کسی شخص کو ان کے انکار کی جرات نہیں ہے اور اگر سخت گیر وہابی حضرات نے اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ہے تو اس کی بھی وجہ اس کے ناقابل انکار مدارک ہی ہیں ۔

تقریبا ایک سال پہلے ابو محمد نامی ایک شخص نے کینیا سے ”رابطہ عالم اسلامی“ سے مہدی (ع) منتظر کے بارے میں سوال کیا، رابطہ کے سربراہ محمد الصالح القزاز نے اس کے جواب میں ضمنا تصریح کی ہے کہ ابن تیمیہ جو مذہب وہابی کابانی ہے نے بھی ظہور مہدی (ع) سے مربوط احادیث کو قبول کیا ہے ۔

مذکورہ رسالے کا متن حجاز کے دورحاضر کے پانچ مشہور علماء نے تیار کیا ہے، اس رسالے میں حضرت مہدی (ع) کے نام کی وضاحت کی گئی ہے اوران کے ظہور کا مقام مکہ بیان کیا گیا ہے، اس کے بعد لکھا گیا ہے:

دنیا میں فتنہ وفساد کے ظہور اور کفر وظلم کے پھیل جانے پر خدا وند عالم اس (مہدی (ع) کے ذریعے دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح معمور کردے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی ۔

وہ ان بارہ خلفاء راشدین میں سے آخری ہے جن کے متعلق پیغمبر نے کتب صحاح میں خبر دی ہے ۔

مہدی (ع) سے مربوط احادیث بہت سے صحابہ نے پیغمبر سے نقل کی ہیں ان صحابہ میں سے عثمان بن عفان، علی ابن ابی طالب، طلحہ ابن عبیداللہ، عبدالرحمن ابن عوف، قرة بن اساس مزنی،عبداللہ ابن حارث، ابوہریرہ،حذیفہ بن یمان، جابر ابن عبداللہ ، ابو امامہ، عبداللہ ابن عمر، انس ابن مالک، عمران ابن حصین اور ام سلمہ شامل ہیں ۔

یہ افراد ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے روایات مہدی (ع) کو نقل کیا ہے اور ان کے علاوہ بھی بہت افراد موجود ہیں ۔

خود صحابہ سے بھی بہت سی باتیں منقول ہیں کہ جن میں ظہور مہدی(ع) سے متعلق گفتگو کی گئی ہے کہ جنہیں احادیث پیغمبر کے ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ مسئلہ ایسے مسائل میں سے نہیں ہے کہ جس کے بارے میں اجتہاد کے ذریعے کچھ کہا جا سکے(لہٰذا ظاہر ہے کہ یہ باتیں بھی انھوں نے پیغمبر سے سن کر کی ہیں ) ۔

مزید لکھا ہے:

مذکورہ بالا احادیث جو پیغمبر سے نقل ہوئی ہے اور صحابہ کی گواہی جو یہاں حدیث کا حکم رکھتی ہے بہت سی مشہور اسلامی کتب اور احادیث کی بنیاد کتب میں آئی ہے چاہے وہ سنن و معاجم ہوں یا مسانید، ان میں سے سنن ابو داود، سنن ترمزی، ابن عمرو الدانی ، مسند احمد ،ابن یعلی وبزاز، صحیح حاکم، معاجم طبرانی کبیر ومتوسط، رویانی و دار قطنی اور ابو نعیم نے اخبار المہدی میں ، خطیب نے تاریخ بغداد میں اور ابن مساکر نے تاریخ دمشق میں اور ان کے علاوہ دیگر علماء کی کتب میں یہ روایات موجود ہیں ۔

اس کے بعد مزید لکھا ہے:

بعض علماء اسلام نے اس سلسلے میں مخصوص کتب تالیف کی ہیں جن میں ابو نعیم کی ”اخبار المہدی“ ، ابن حجر ہیثمی کی ”القول المختصر فی علامات المهدی المنتظر “،شوکانی کی”التوضیح فی تواتر ما جاء فی المنتظر والدجال والمسیح “، ادریس عراقی کی”المهدی “ اور ابو العباس ابن عبدالمومن کی”الوهم المکنون فی الرد علی ابن خلدون “ شامل ہیں ۔

اور آخری شخص جس نے اس سلسلے میں مفصل بحث کی ہے وہ اسلامی یونیور سٹی مدینہ کا سربراہ ہے جن نے مذکورہ یونیورسٹی کے مجلہ کے چند شماروں میں اس مسئلے پر بحث کی ہے ۔

مزید لکھا ہے:

قدیم اور جدید بزرگان اور علماء اسلام کی ایک جماعت نے بھی اپنی تحریروں میں تصریح کی ہے کہ مہدی کے سلسلے میں احادیث حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں (اور وہ کسی طرح سے قابل انکار نہیں ہیں )ان میں سے السخاوی نے کتاب”فتح المغیث“ میں ، محمد ابن احمد سفاوینی نے ”شرح العقیدہ “ میں ، ابوالحسن الابری نے”مناقب شافعی“ میں ، ابن تیمیہ نے”کتاب فتاواش“ میں ، سیوطی نے”الحاوی“ میں ، ادریس عراقی نے مہدی (ع) کے بارے میں اپنی تالیف میں ،شوکانی نے ”التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر“ میں ، محمد جعفر کنانی نے ”نظم التناثر“ میں اور ابو العباس ابن عبدالمومن نے” الوھم المکنون “ میں تصریح کی ہے ۔

اس بحث کے آخر میں لکھا گیا ہے:

صرف ابن خلدون ہے جس نے چاہا ہے کہ مہدی (ع) سے مربوط احادیث پر ایک بے بنیاد اور جعلی حدیث کے سہارے اعتراض کرے اور وہ جعلی حدیث ہے:لا مهدی الا عیسی ٰ(مہدی عیسیٰ کے علاوہ کوئی نہیں )لیکن بزرگ ائمہ اور علماء اسلام نے اس کے قول کو رد کیا ہے ۔خصوصا ابن عبدالمومن نے تو اس کے نظریے کے خلاف ایک خصوصی کتاب لکھی ہے کہ جو تیس سال پہلے مشرق ومغرب میں پھیل چکی ہے ۔

حفاظ احادیث اور بزرگ علماء حدیث نے بھی تصریح کی ہے کہ مہدی (ع) کے بارے میں روایات ”صحیح“ اور ”حسن“ احادیث پر مشتمل ہیں اور ان کا مجموعہ متواتر ہے اس لئے ظہور مہدی کا اعتقاد رکھنا (ہرمسلمان پر واجب ہے) اور یہ اہل سنت والجماعت کے عقائد کا جز شمار ہوتا ہے اور سوائے نادان، جاہل یا بدعتی افراد کے اس کا کوئی انکار نہیں کرتا ۔

انتظار ظہور مہدی (ع) کے تربیت کنندہ اثرات

گذشتہ بحث میں ہم جان چکے ہیں کہ یہ عقیدہ اسلامی تعلیمات میں کوئی وارداتی پہلو نہیں رکھتا بلکہ ان بہت زیادہ قطعی ویقینی امور میں سے ہے جو بانی اسلام سے بالذات لئے گئے ہیں اور سب اسلامی مکاتب ومذاہب اس سلسلے میں متفق ہیں اور اس کے بارے میں احادیث متواتر ہیں ۔

اب ہم موجودہ اسلامی معاشروں کی کیفیت میں اس انتظار کے اثرات کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا اس قسم کے ظہورپر ایمان انسان کو خواب و خیال کی دنیا میں لے جاتا ہے کہ جس سے وہ اپنی موجودہ حیثیت سے غافل ہوجاتا ہے اور ہر قسم کے حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے یا یہ کہ واقعا یہ عقیدہ ایک قسم کے قیام اور فرد اور معاشرے کی تربیت کی دعوت ہے؟

کیا یہ عقیدہ تحرک کا باعث ہے یا جمود کا؟

اور کیا یہ عقیدہ مسئولیت ذمہ داری کا احساس ابھارتا ہے یا ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے سے فرار کا باعث بنتا ہے؟

خلاصہ یہ کہ کیا یہ فکری صلاحیتوں کو شل کردینے والی چیز ہے یا بیدار کرنے والی؟

ان سوالات کی وضاحت ورتحقیق سے پہلے ایک نکتے کہ طرف پوری توجہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ بہت زیادہ اصلاح کنندہ قانون اور اعلیٰ ترین مفاہیم جب جاہل، نالائق اور غلط فائدہ اٹھانے والے افراد کے ہاتھ چڑھ جائیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ انہیں اس طرح مسخ کردیں کہ وہ اصلی مقصد کے بالکل خلاف نتیجہ پیدا کریں اور وہ ان کے ہدف سے الٹ راہ پر چل نکلیں ، ایسے امور کی بہت سی مثالیں اور نمونے موجود ہیں اور مسئلہ انتظار کے ساتھ بھی جیسا کہ ہم دیکھیں گے یہی سلوک ہوا ہے ۔

بہرحال ہر قسم کے اشتباہ سے بچنے کے لئے ہم بقول”باید آب را ازسرچشمہ گرفت“(یعنی پانی خودسر چشمہ سے حاصل کرنا چاہیے)اس موضوع کو بھی سر چشمہ سے حاصل کرتے ہیں تاکہ راستے کی نہروں اور کھایوں کی آلود گی سے بچایا جاسکے، یعنی ہم ”انتظار“ کی بحث میں براہ راست اسلام کے اصلی متون کو تلاش کریں گے اور ان مختلف روایات پر بحث کریں گے جو مختلف لب ولہجہ میں مسئلہ انتظارکی تاکید کرتی ہیں تاکہ اصلہ مقصد اور ہدف تک پہنچ سکیں ۔

اب نہایت غور سے ان چند روایات کی طرف توجہ کیجئے:

۱ ۔ کسی امام صادق علیہ السلام سے پوچھا:

آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو ہادیان برحق کی ولایت رکھاہے اور حکومت حق کے ظہور کے انتظار میں رہتا ہے اور اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے ۔

امام (ع) نے جواب میں فرمایا:

ھوبمنزلة من کان مع القائم فی فسطاطہ۔ ثم سکت ھنیئة ۔ ثم قال: ھوکمن کان مع رسول اللّٰہ۔

وہ اس شخص کی طرح ہے جو اس رہبر انقلاب کے خیمے میں (اس کی فوج کے سپاہیوں میں )ہو ۔

پھر آپ(ع) نے کچھ توقف کیا، پھر فرمایا:

اسی شخص کی طرح ہے جو پیغمبر اسلام کے ساتھ (ان کے معرکوں میں )شریک ہو۔(۱)

بعینہ یہی مضمون بہت سی روایات میں مختلف تعبیرات کے ساتھ منقول ہے ۔

۲ ۔بعض روایات میں یہ عبارت آئی ہے:بمنزلة الضارب بسیفه فی سبیل اللّٰه

یعنی ،وہ اس شخص کی طرح ہے جو راہ خدا میں شمشیر زن ہو۔

۳ ۔بعض روایات میں عبارت یوں ہے:کمن قارع مع رسول اللّٰه بسیفه ۔

یعنی، وہ اس شخص کی طرح ہے جو رسول خدا کے ساتھ ہو کر دشمن کے دفاع پر تلوار مارے ۔

۴ ۔ بعض دیگر روایات میں ہے:بمنزلة من کان قائدا تحت لواء القائم ۔

یعنی وہ اس شخص کی طرح ہے جو قائم(مہدی)کے پرچم تلے ہو۔

۵ ۔ بعض دوسری روایات میں ہے:بمنزلة المجاهد بین یدی رسول الله ۔

یعنی، وہ اس شخص کی طرح ہے جو رسول اللہ کی موجود گی میں جہاد کرے ۔

۶ ۔ بعض روایاتم یں ہے:بمنزلة من استشهد مع رسول اللّٰه ۔

یعنی، وہ اس شخص کی طرح ہے جوپیغمبر کی معیت میں شہید ہو۔

ان چھ روایات میں ظہور مہدی (ع) کے انتظار کے بارے میں سات تشبیہیں آئی ہیں ، ان سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ایک طرف ان کا رابطہ اور مشابہت مسئلہ انتظار سے ہے اور دوسری طر ف اس انتظار کا تعلق دشمن کے ساتھ جہاد اور مقابلے کی آخری صورت سے ہے (غور کیجئے گا ) ۔

۷ ۔ کئی ایک روایات میں ایسی حکومت کے انتظار کو بلند ترین عبادات میں سے شمار کیا گیا ہے، یہ مضمون رسول اللہ سے مروی بعض احادیث میں اور امیر المومنین حضرت علی (ع) کے بعض فرمودات میں نقل ہوا ہے ۔

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایاہے:افضل اعمال امتی انتظار الفرج من اللّٰه عزوجل ۔

میری امت کے افضل ترین اعمال میں سے ظہور کا انتظار کرنا ہے ۔(۲)

ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے:افضل العبادة انتظار الفرج ۔

زیادہ فضیلت والی عبادت ظہور کا انتظار کرنا ہے ۔(۳)

یہ حدیث یہاں عمومی مفہوم رکھتی ہے، ”انتظار فرج“ کو یہاں چاہے وسیع معنی میں لیں یا عظیم عالمی مصلح کے ظہور کا انتظارسمجھیں ، دونوں صورتوں میں زیر بحث موضوع کے حوالے سے انتظار کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے ۔

یہ تمام تعبیریں اس بات کی ترجمانی کرتی ہیں کہ ایسے انقلاب کا انتظار ہمیشہ وسیع اور ہمہ گیر جہاد سے منسلک ہوتا ، اس بات کو نظر میں رکھنا چاہئے تاکہ انتظار کا مفہوم سمجھ کر ہم ان سب تعبیروں سے ایک نتیجہ اخذ کو سکیں ۔

____________________

۱-بحار الانوار،ج۱۳،ص۱۳۶(چاپ قدیم)بحوالہ محاسن برقی ۔

۲۔ بحارالانوار ، ج ۱۳،ص ۱۳۷،بحوالہ کافی ۔

۳۔ بحارالانوار ، ج ۱۳،ص ۱۳۶،بحوالہ کافی ۔

انتظار کا مفہوم

لفظ”انتظار“ ایسے شخص کی کیفیت پر بولا جاتا ہے جو موجودہ حالت سے پریشان ہو اور اس سے بہتر کیفیت کے ایجاد کرنے میں لگا ہو ، مثلا وہ بیمار جو صحت کے انتظار میں یا وہ باپ جو سفر پر گئے ہوئے بیٹے کے انتظار میں ، بیمار بیماری پر پریشان اور دکھی ہوتا ہے اور باپ بیٹے کے فراق میں پریشان ہوتا ہے ، دونوں بہتر حالت کی کوشش میں ہوتے ہیں ، اسی طرح وہ تاجر جو کاروبار کی بدحالی پر پریشان ہو اور اقتصادی بحران کے خاتمے کے انتظار میں ہو، ایسے تاجر کی دو ھالتیں ہوتی ہیں ایک موجودہ حالت پر پریشانی اور ناپسندیدگی اور دوسرا بہتر حالت کے لئے کوشش ۔

اس بنا پر حضرت مہدی(ع) کی عادلانہ حکومت اور عالمی مصلح کے قیام کا انتظار بھی دو عناصر کا مرکب ہے، ۱ ۔ ”نفی“ کا عنصر اور دوسرا”اثبات“ کا عنصر، منفی عنصر جوجودہ حالت کی نا پسندیدگی ہے اورمثبت عنصر بہتر اور اچھی حالت کی آرزو ہے ۔

اب اگر یہ دونوں پہلو روح انسانی میں اتر جائیں تو دو قسم کے وسیع اعمال کا سرچشمہ بن جائیں گے، ان دو قسم کے اعمال میں ایک طرف تو ظلم و فساد کے عوامل سے ہر طرح کا تعلق ترک کرنا ہے یہاں تک کہ ان سے مقابلہ اور جنگ کرنا ہے اور دوسری طرف خود سازی، اپنی مدد آپ اور عوام کی واحد عالمی حکومت کی تشکیل کے لئے جسمانی اور روحانی طور پر تیاری کرنا ہے، اور اگر ہم اچھی طرح غور کریں تو دیکھیں گے کہ اس کے دونوں حصے اصلاح کن ، تربیت کنندہ اور تحرک، آگاہی اور بیداری کے عوامل ہیں ۔

”انتظار“ کے حقیقی اور اصلی مفہوم کی طرف توجہ کریں تو مندرجہ بالا متعددروایات میں جو انتظار کی جزا اور نتیجہ بتایا گیا ہے وہ اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے اور سمجھ آتا ہے کہ کس طرح حقیقی انتظار کرنے والے کبھی ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو مہدی (ع) کے کیمپ میں یا ان کے پرچم کے نیچے یا اس شخص کی طرح قرار پاتے ہیں جو راہ خدامیں تلوار چلائے یا جو اپنے خون میں غلطاں ہو اور یا جو شہید ہوجائے، کیا یہ حق و عدالت کی راہ کے مختلف مراحل اور مجاہدہ کے مخلتف درجات کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ جو مختلف لوگوں کو ان کی تیاری اور انتظار کے درجے کی مناسبت سے حاصل ہوتے ہیں ، یعنی جس طرح راہ خدا کے مجاہدین کی فداکاری اور اس کے نتیجہ و اثر کے مختلف درجے ہوتے ہیں اسی طرح انتظار کے خودسازی اور آمادگی کے بھی بالکل مختلف درجے ہوتے ہیں ”مقدمات“ اور نتائج کے لحاظ سے ان کی ایک دوسرے سے مشابہت ہوتی ہے دونوں جہاد ہیں ، دونوں کے لئے تیاری اور خود سازی کی ضرورت ہے، جو شخص ایسی حکومت کے قائد کے کیمپ میں ہوں یعنی ایک عالمی حکومت کے فوجی مرکز میں ہو وہ ایک غافل اور جاہل شخص نہیں ہوسکتا اور نہ وہ لاابالی پن کا مظاہرہ کرسکتا ہے، ایسے مرکز میں ہرکوئی نہیں آسکتا، یہ جگہ تو ان افراد کے لئے ہے جو حقیقتاً اس حیثیت، مقام اور اہمیت کی لیاقت اور صلاحیت رکھتے ہیں ۔

اسی طرح جس شخص کے ہاتھ میں ہتھیار ہو اور وہ اس قائد انقلاب کے سامنے اس کی صلح و آشتی اور عادلانہ حکومت کے مخالفین سے جنگ کرے تو اس میں روحانی اور فکری جنگی لحاظ سے پوری آمادگی اور تیاری ہونا چاہئے ۔

ظہور مہدی(ع) کے انتظار کے حقیقی اثرات سے مزید آگاہی کے لئے حسب ذیل وضاحت کی طرف توجہ کریں :

انتظار۔ یعنی بھرپور تیاری میں اگر ظالم اور ستمگر ہوں تو کیسے ممکن ہے اس شخص کا انتظار کروں کہ جس کی تلوار ستمگروں کے خون سے سیراب ہوگی، میں اگر گناہ آلود اور ناپاک ہوں تو میں کیوں کر ایسا انقلاب کا منتظر ہوں گا جس کا پہلا شعلہ ناپاک لوگوں کے دامن کو لپکے گا، وہ لشکر جو ایک عظیم جہاد کے انتظار میں ہے وہ اپنے سپاہیوں کی جنگی تربیت کو آخری حد تک پہنچائے گا اوران میں انقلاب کی روح پھونک دے گا اور کمزوری کے ہر نقطے کی اصلاح کرے گا ۔

کیوں کہانتظار کی کیفیت ہمیشہ اس ہدف اور مقصد کے مطابق ہوتی ہے جس کے ہم انتظار میں ہوتے ہیں ۔

ایک عام مسافر کے آنے کا انتظار ۔

ایک بہت ہی عزیز دوست کے لوٹ آنے کا انتظار۔

درخت سے پھلوں کے اتارنے کے موسم کا انتظار۔

فصل کی کٹائی کے سمے کا انتظار۔

ان میں سے ہر انتظار میں ایک طرح کی آمادہ گی اور تیاری شامل ہوتی ہے ۔

مہمان کے لئے گھر کو تیار کرنا پڑتا ہے، اس کی پذیرائی اور خدمت کے ذرائع مہیا کرنا پڑتے ہیں ۔

پھل اتارنے اور فصل کاٹنے کے لئے ضروری سازوسامان، درانتی اور متعلقہ مشین وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جو فراہم کرنا پڑتی ہے ۔

اب غور کریں کہ وہ جو ایک عظیم عالمی مصلح کے قیام کا انتظار کررہے ہیں وہ درحقیقت صورت حال کو یکسر پلٹ دینے والے انقلاب اور ایک تحول کا انتظار کررہے ہیں کہ جو پوری انسانی تاریخ میں سب سے بڑا اور سب سے بنیادی انسانی انقلاب ہوگا ۔

وہ انقلاب کہ جو گذشتہ انقلابوں کے برعکس علاقائی نہیں ہوگا بلکہ ہمہ گیر اور سب کے لئے ہوگا اور انسانی زندگی کے تمام پہلوو-ں پر محیط ہوگا ۔

وہ انقلاب سیاسی ، ثقافتی، اقتصادی اور اخلاقی ہر حوالے سے انقلاب ہوگا ۔

پہلا فلسفہ: انسان سازی

اس قسم کا تحول ہر چیز سے پہلے آمادہ اور تیار عنصر کا محتاج اور انسانی قدروقیمت کا حامل ہے، اسے ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جو پوری دنیام ین وسیع اصلاحات کابھاری بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکیں ۔

پہلی منزل میں اس عظیم پروگرام کو عملی شکل دینے میں تعاون کرنے کی فکر اور آگاہی کی سطح بلند کرنے کی ضرورت ہے اور روحانی فکری آمادگی کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔

تنگ نظری، کوتاہ بینی، کج فکری، حسد،بچگانہ اور غیر عقلانہ اختلافات اور ہر قسم کا نفاق و انتشار حقیقی انتظار کرنے والوں کے شایان شان نہیں ۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ حقیقی انتظار کرنے والا اس قسم کے اہم پروگرام کا فقط تماشائی ہرگز نہیں ہوسکتا، اسے چاہئے کہ وہ ابھی سے حتمی طور پر انقلابیوں کی صف میں شامل ہوجائے، اس انقلاب کے نتائج پر ایمان اسے ہر گزاجازت نہیں دیتا کہ وہ مخالفین کی صف میں کھڑا ہو، دوسری طرف موافقین کی صف میں کھڑا ہونے کے لئے بھی پاک اعمال، پاکہزہ روح، کافی دلیری اور آگاہی کی ضرورت ہے ۔

میں اگر فاسد، خراب اور نادرست ہوں تو ایسے نظام کے ایام کو کیسے یاد کرسکتا ہوں جس میں فاسد، خراب اور نادرست افراد کی کوئی حیثیت نہ ہوگی بلکہ وہ تو اس میں ٹھکرا دئےے جائیں گے اور قابل نفرت ہوں گے ۔

کیا یہ انتظار فکر وروح اور جسم وجان کی پاکیزگی کے لئے کافی نہیں ۔

وہ لشکر جو آزادی بخش جہاد کے انتظار میں وقت گزار رہاہے یقینا مکمل طور پر آمادہ اور تیار ہوگا، وہ ہتھیار جو ایسے میدان جنگ کے لئے مناسب اور ضروری ہے اسے مہیا رکھے گا، ایسا لشکر ضرور مورچہ بند رہے گا، اپنے افراد کی تیاریوں میں اضافہ کرتا رہے گا اور اپنے فوجیوں کے دلوں کو مضبوط کرے گا اور ایسے جہاد اور مقابلے کے لئے اپنے ہر سپاہی کے دل میں عشق اور شوق زندہ رکھے گا، جو لشکر اس طرح سے تیار نہ ہو وہ کبھی منتظر نہیں رہ سکتااور اگر تیار رہنے کا دعویٰ کرے توجھوٹ ہے ۔

ایک عالمی مصلح اور مربی کا انتظار تمام جہانوں کی مکمل فکری، اخلاقی، مادی اور روحانی اصلاح کی آمادگی کا مفہوم رکھتا ہے، اب آپ سوچئے کہ ایسی آمادگی اور انتظار کس قدر انسان ساز اور تربیت کنندہ ہے ۔

تمام روئے زمین کے اصلاح اور تمام مظالم اور خرابیوں کا خاتمہ کوئی مزاق نہیں اور نہ یہ کوئی آسان کام ہے، ایسے عظیم مقصد کی تیاری اس کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہئے، یعنی تیاری بھی اس پروگرام کی گہرائی اور گیرائی کے مطابق ہوناچاہے، ایسے انقلاب کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لئے عظیم مصمم اردوں والے، بہت قوی اور شکت ناپذیر، انتہائی باز، بلند نظر، پوری طرح تیار اور گہری نگاہ رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے ۔

ایسے مقصد کے لئے خودسازی اور اپنی عمیق ترین تربیت کی ضرورت ہے، ایسے ہدف کے لئے بہت سے اخلاقی، فکری اور اجتماعی منصبوں پر عمل درآمدانہ گزیر ہے ۔

یہ ہے حقیقی انتظار کا مفہوم تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ایسا انتظار انسان ساز اور اصلاح کنندہ نہیں ہے؟

دوسرا فلسفہ :اجتماعی کاوشیں

سچے انتظارکرنے والوں کی ساتھ ساتھ یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ فقط اپنی اصلاح نہ کریں بلکہ ایک دوسرے کے حالات پر بھی نظر رکھیں اور اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح کی بھی کوشش کریں کیوں نکہ جس عظیم اور بھاری پروگرام کی تکمیل کے وہ منتظر ہیں انفرادی نہیں بلکہ ایساپروگرام ہے جس میں تمام عناصرانقلاب کو شرکت کرنا ہوگی لہٰذا کام گروہی اور اجتماعی صورت میں ہونا چاہیے مساعی اور کاوشیں ہم آہنگ ہونا چاہئیں ،اس ہم آہنگی کی گہرای اور وسعت اس عالمی انقلاب کے پروگرام کی عظمت کے مطابق ہونا چاہیے کہ جس کا وہ انتظار کر رہے ہیں ۔

ایک اجتماعی اور وسیع جنگ کے میدان میں کوئی شخص دوسروں کے حال سے غافل نہیں رہ سکتا بلکہ اس کی ذمہ داری ہے،کہ کمزوری کا کوئی نقطہ اسے جہاں نظر آئے اس کی اصلاح کرے اور جو بھی نقصان زدہ جگہ ہو اس کی مرمت کرے اور کمزور حصے کو تقویت پہنچائے کیوں کہ میدان جنگ میں موجود تمام مجاہدین کی فعال اور ہم آہنگ شرکت کے بغیر ایسے پروگرام کو عملی شکل دینا ممکن نہیں ہے ۔

لہٰذاحقیقی انتظار کرنے والے نہ صرف اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ دوسروں کی بھی اصلاح کریں ۔

یہ ہے ایک عالمی مصلح کے قیام کے انتظار کا ایک اور تعمیری اور تربیتی اثر اور یہ ہے فلسفہ ان تمام فضیلتوں کا جو ایک سچے انتظار کرنے والے کے لیے شمار کی گئی ہیں ۔

تیسرا فلسفہ: خراب ماحول کا مقابلہ

حضرت مہدی(ع) کے انتظار کا ایک اور اثر ماحول کے مفاسد میں گھل مل جانا اور برائیوں کے سامنے ہتھیا نہ ڈالنا ہے ۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب کوئی برائی عام ہو جاتی ہے اور سب کو گھیر لیتی ہے ،اکثریت یا جماعت کا ایک بڑا حصہ اس کی طرف چلا جاتا ہے تو بعض اوقات نیک لوگ ایک سخت قسم کی نفسیاتی تنگی میں پھنس جاتے ہیں اس گھٹن میں وہ اصلاح سے مایوس ہو جاتے ہیں ،بعض اوقات وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے اور اب اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں رہی، اب اپنے آپ کو پاک رکھنے کی کوشش اور جدوجہد فضول ہے ،ممکن ہے ایسی ناامیدی اور مایوسی آہستہ آہستہ انہیں برائی اور ماحول کی ہمرنگی کی طرف کھیچ لے جائے اور وہ اپنے آپ کو ایک صالح اقلیت کے طور پر فاسد اکثریت کے مقابلے میں محفوظ نہ رکھ سکیں اور دوسروں کے رنگ میں نہ رنگے جانے کو رسوائی کا سبب سمجھیں ۔

تنہا جو چیزان میں امید کی روح پھوک سکتی ہے ،انہیں مقابلے اور کھڑے رہنے کی دعوت دے سکتی ہے اور انہیں فاسد ماخول میں گھل مل جانے سے روک سکتی ہے،۔وہ ہے مکمل اصلاح کی امید ۔صرف یہی صورت ہے کہ جس میں وہ اپنی پاکیزگی کی حفاظت کرسکتے ہیں اور دوسروں کی اصلاح کی جد وجہد جاری رکھ سکتے ہیں ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی قوانین میں بخشش سے مایوسی کو بہے بڑا گناہ شمار کیا گیا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ با سمجھ اور بے خبر افرادتعجب کریں کہ رحمت خدا سے مایوسی کو اس قدر اہمیت کیوں دی گئی ہے، یہاں تک کہ بہت سے گناہوں سے اسے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے ۔ تو اس کا فلسفہ در حقیقت یہی ہے کہ رحمت خدا سے مایوس گنہگار کو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ تلافی کی فکر کرے یا کم از کم گناہ کو جاری رکھنے سے دستبردار ہوجائے اور اس کی منطق یہ ہے کہ اب جب پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے تو چاہے ایک قد کے برابر ہو چاہے سو قد کے برابر ہو ۔وہ سوچتا ہے کہ میں دنیا میں رسوا ہوچکا ہوں ، اب دنیا کا غم فضول ہے ۔ سیاہی سے بڑھ کر کوئی رنگ نہیں ، آخر جہنم ہے، میں تو ابھی سے اسے اپنے لئے خرید چکا ہوں ، اب دوسری کسی چیز سے کیاڈروں ، اسی طرح کی دیگر باتیں اسے گناہ کے راستے پر باقی رکھتی ہیں ۔

مگر۔ جب اس کے لئے امید کا دریچہ کھلا ہو، عفو الٰہی کی امید ہو اور موجود کیفیت کے بدل جانے کی توقع ہو، تو اس کی زندگی میں ایک طرح کا میدان پیدا ہوگا جو اسے راہ گناہ سے لوٹ آنے اور پاکیزگی و اصلاح کی طرف واپسی کی دعوت دے گا، یہی وجہ ہے کہ فاسد افراد کی اصلاح کے لئے امید کو ہمیشہ ایک موثر تربیتی عامل سمجھا گیا ہے، اسی طرح وہ نیک افراد جو خراب ماحول میں گفتار ہیں ، امید کے بغیر اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتے ۔

خلاصہ یہ کہ دنیا جس قدر فاسد اور خراب ہوگی مصلح کے ظہور کے انتظار میں امید بڑھے گی جومعتقدین پر زایدہ روحانی اثر ڈالے گی، برائی اور خرابی کے طاقتور موجوں کے مقابلے میں یہ امید ان کی حفاظت کرے گی اور وہ نہ صرف ماحول کے دامن فساد کی وسعت سے مایوس نہیں ہوں گے بلکہ

وعدہ وصل چوں شد نزدیکآتش عشق تیز تر گردد

یعنی ۔ وعدہ وصل کا لمحہ جوں جوں نزدیک آیا، آتش عشق تیز تر ہوگئی ۔

اس کے مطابق مقصد انہیں قریب تر نظر آئے گا اور بربرائی جنگ کرنے میں ان کی کوشش یا اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں اضافہ ہوگا اور مزید شوق و ولولہ پیدا ہوگا ۔

گذشتہ مباحث سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انتظار جمود کا باعث صرف اس صورت میں بنتا ہے جب اس کے مفہوم کو مسخ کردیا جائے یا اس میں تحریف کردی جائے جیسا کہ مخالفین کے ایک گروہ نے اس میں تحریف کردی ہے اور موافقین کے ایک گروہ نے اسے مسخ کردیا ہے لیکن اگر اس کے حقیقی مفہوم میں افراد اور معاشرہ اس پر عمل کرے تو انتظار تربیت، خود سازی، تحرک اور امید کا ایک اہم عامل اور داعی ثابت ہوگا ۔

قیام مہدی(ع) کے بارے میں واضح مدارک میں سے ایک یہ آیت ہے:

وعد اللّٰه الذین اٰمنوا منکم وعملوا الصالحٰت لیستخلفنهم فی الارض ۔

ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ روئے زمین کی حکومت ان کے قبضے میں دے ۔

اس آیت کے ذیل میں اسلام کے ہادیوں سے منقول ہے کہ:هو القائم واصحابه ۔

( یعنی یہ جن سے خدا نے وعدہ کیا ہے )وہ قائم(حضرت مہدی(ع) اور آپ کے اصحاب ہیں ۔(۱)

ایک اور حدیث میں ہے:نزلت فی المهدی(ع) ۔

یعنی ۔ یہ آیت حضرت مہدی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔

اس آیت میں حضرت مہدی (ع) اور ان کے یاروانصار کا تعرف اس عنوان سے کروایا گیا ہے:

الذین آمنوا منکم وعملوا الصٰلحٰت .

یعنی ۔ وہ جو تم میں سے ایمان لے آئے اور انھوں نے نیک عمل کئے ۔

لہٰذا اس عالم انقلاب کا قائم ہونا اور عالم وجود میں آنا ایک مستحکم ایمان کے بغیر جو ہر قسم کے ضعف ، کمزوری اور ناتوانی کو دور کردے کے بغیر ممکن نہیں ، نیز نیک اعمال جو اصلاح عالم کا راستہ کھول دیں ، کے بغیر بھی ممکن نہیں ، اور وہ لوگ جو اسے پروگرام کے انتظار میں ہیں انہیں اپنی آگاہی، علم اور ایمان کی سطح بھی بلند کرنا ہوگی اور اپنے اعمال کی اصلاح کی کوشش بھی کرنا ہوگی، صرف وہی لوگ ایسی حکومت میں ہم قدم اور ہمکام ہونے کی خوشخبری کے مستحق ہیں ناکہ وہ لوگ جو ظلم وستم کا ساتھ دیں اور نہ ہی وہ جو ایمان اور عمل صالح سے بیگانہ ہوں اور نہ ڈرپوک اور بزدل لوگ جو ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہر چیز سے یہاں تک کہ اپنے سائے سے بھی سکوت اختیار کئے ہوئے ہیں اور ان سے مقابلے کی کچھ بھی کوشش نہیں کرتے ۔

یہ ہے قیام مہدی (ع) کے انتظار کا معاشرے میں تعمیری اور اصلاحی اثر۔

____________________

۱۔بحارالانوارطبع قدیم،ج۱۳،ص۱۴۔