تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27700
ڈاؤنلوڈ: 2605


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27700 / ڈاؤنلوڈ: 2605
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۳۶،۳۷

۳۶( إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِی کِتَابِ اللهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ مِنْهَا اٴَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ فَلَاتَظْلِمُوا فِیهِنَّ اٴَنْفُسَکُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِینَ کَافَّةً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَافَّةً وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ )

۳۷( إِنَّمَا النَّسِیءُ زِیَادَةٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِهِ الَّذِینَ کَفَرُوا یُحِلُّونَهُ عَامًا وَیُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِیُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللهُ فَیُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللهُ زُیِّنَ لَهُمْ سُوءُ اٴَعْمَالِهِمْ وَاللهُ لَایَهْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ )

ترجمہ

۳۶ ۔ مہینوں کی تعداد خدا کے نزدیک خدا کی (آفرینش کی)کتاب میں جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے،بارہ ہیں کہ چار مہینے ماہ حرم ہیں (اور ان میں جنگ کرنا ممنوع ہے) یہ (اللہ کا) ثابت وقائم آئین ہے لہٰذا ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو (اور ہر قسم کی خوں ریزی سے پرہیز کرو) اور مشرکین کے ساتھ (جنگ کے وقت )سب مل کر جنگ کرو جیسا کہ وہ سب مل کر تم سے جنگ کرتے ہیں اور جان لوں کے خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ۔

۳۷ ۔نسیٴ (حرام مہینوں میں تقدم وتاخر )(مشرکین)کے کفر میں زیادتی ہے کہ جس کی وجہ سے کافر گمراہ ہوجاتے ہیں ، ایک سال اسے حلال اور دوسرے سال اسے حرام کردیتے ہیں تاکہ ان مہینوں کی تعداد کے مطابق ہوجائے کہ جنہیں خدا نے حرام کیا ہے(اور ان کے خیال میں چار کا عدد پورا ہوجائے) اور اس طرح سے خدا کے حرام کردہ کو حلال شمار کریں ، ان کے برے اعمال ان کی نظر میں زیبا ہوگئے ہیں اور خدا کافروں کی جماعت کو ہدایت نہیں کرتا ۔

لازمی جنگ بندی

سورہ میں چونکہ مشرکین سے جنگ کے بارے میں تفصیلی مباحث آئی ہیں لہٰذا زیر نظر دو آیات میں بحث کے دوران جنگ اور اسلامی جہاد کے ایک اور قانون کی طرف اشارہ کیا گیاہے اور وہ حرام مہینوں کے احترام کا قانون ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : خدا کے ہاں کتاب خلقت میں اس دن سے جب اس نے آسمان اور زمین پیدا کئے مہینوں کی تعداد بارہ ہے( ا( ِٕنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِی کِتَابِ اللهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ )

”کتاب اللّٰہ“کی تعبیر ہوسکتا ہے قرآن مجید یا دیگر آسمانی کتب کی طرف اشارہ ہو لیکن ”ِیَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْض“ کی طرف توجہ کرتے ہوئے زیادہ موزوں یہی لگتا ہے کہ یہ کتاب آفرینش اور کتاب جہان ہستی کی طرف اشارہ ہو، بہرحال جس دن سے نظام شمسی نے موجودہ اختیار کی ہے سال اور مہینے موجود ہیں ، سال عبارت ہے سورج کے گرد زمین کے ایک مکمل دورے سے اور مہینہ عبارت ہے کرہ ماہتاب کے زمین کے گرد ایک مکمل دورے سے اور ہر سال کرہ آفتاب کے ایسے ۱۲ ، دورے ہوتے ہیں ۔

یہ در حقیقت ایک قیمتی طبیعی اور ناقابل تغیر تقویم ہے کہ جو تمام انسانوں کی زندگی کو ایک طبیعی نظام بخشی ہے اور ان کے تاریخی حسابات کو بڑے اچھے طریقے سے منظم کرتی ہے اور یہ نوع انسانی کے لئے خدا کی ایک عظیم نعمت شمار ہوتی ہے جیسا سورہ بقرہ کی آیہ ۸۹ کے ذیل میں تفصیل سے بحث ہوچکی ہے، آیت یوں ہے:

( یسئلونک عن الاهلة قل هی مواقیت للناس والحج )

اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے :”ان بارہ مہینوں میں سے چار حرام ہیں “ کہ جن میں ہر قسم کی جنگ وجدال حرام ہے(منھا اربعة حرم)

بعض مفسرین کے مطابق ان چار مہینوں میں جنگ کی حرمت حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے دور سے ہے اور یہ حرمت زمانہ جاہلیت کے عربوں میں بھی پوری قوت سے ایک سنت کے طور پر موجود تھی اگرچہ میلانات اور ہواوہوس کے مطابق کبھی کبھی وہ ان مہینوں کو آگے پیچھے کرلیتے تھے لیکن اسلام میں یہ ماہ غیر متغیر ہیں ، ان میں تین مہینے یکے بعد دیگر ہیں اور وہ ہیں ذاالقعدة، ذی الحجة اور محرم ۔ ایک ماہ الگ اور وہ رجب ہے، اربوں میں اصلاح میں تین ماہ ”سرد“(یکے بعد دیگرے)اور ایک ماہ”فرد“(اکیلا)ہے ۔

اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ ان مہینوں میں جنگ کی اس صورت میں سے جب جنگ دشمن کی طرف ٹھونسی ہوئی نہ ہو ورنہ اس میں شک نہیں کہ دوسری صورت میں مسلمانوں کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے رہنا چاہیے کیوں کہ اس صورت میں ماہ حرام کی حرمت مسلمانوں کی طرف سے زائل نہیں کی گئی بلکہ اسے دشمن کی طرف سے توڑا گیا ہے(جیسا کہ اس کی تفصیل سورہ بقرہ کی آیہ ۱۹۴ میں گزرچکی ہے) ۔

اس کے بعد تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے یہ دین وآئین ثابت، قائم و دائم اور ناقابل تغیر ہے ناکہ غلط وسم جو عربوں میں تھی وہ پائیددار ہے کہ وہ اپنی خواہش اور ہوا وہوس سے اسے آگے پیچھے کردیتے تھے( ذٰلِکَ الدِّینُ الْقَیّم ) ۔

چند ایک روایات(۱) سے معلوم ہوتا ہے کہ چار ماہ جنگ کی یہ حرمت دین ابراہیمی کے علاوہ یہود ونصاریٰ اور باقی آسمانی ادیان میں بھی تھی اور ”ذٰلِکَ الدِّینُ الْقَیّم“)ہوسکتا ہے اس نکتے کی طرف بھی اشارہ ہو یعنی پہلے سے ایک قانون مستقل اور ثابت طور پر موجود تھا ۔

اس کے بعد کہا گیا ہے: ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم روا نہ رکھو اور ان کا احترام زائل نہ کرو اور اپنے تئیں دنیا کی سزاؤں اور آخرت کے عذابوں میں مبتلا نہ کرو( فَلَاتَظْلِمُوا فِیهِنَّ اٴَنْفُسَکُمْ ) ۔

لیکن چونکہ ادھر ممکن ہے کہ ان چار مہینوں میں حرمت جہاد دشمن کے لئے فائدہ اٹھانے کا سبب بنے اور اسے مسلمانوں پر حملے کرنے پر ابھارے لہٰذا اگلے جملے میں مزید فرمایا گیا ہے:مشرکین کے ساتھ سب مل کر جنگ کرو جیسا کہ وہ سب اکٹھے ہوکر تم سے جنگ کرتے ہیں( وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِینَ کَافَّةً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَافَّةً ) ، یعنی باوجودیکہ وہ مشرک ہیں اور شرک وبت پرستی اختلاف و انتشار کا سرچشمہ ہے لیکن وہ ایک ہی صف میں تم سے جنگ کرتے ہیں اور تم موحد یکتا پرست ہو اور توحید ،دین، اتحاد و یک جہتی ہے لہٰذا تم زیادہ حق رکھتے ہو کہ دشمن کے مقابلے میں وحدت کلمہ کی حفاظت کرو اور ایک ہی آہنی دیوار کی طرح دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہوجاؤ۔

آخر میں ارشاد ہوتا ہے: اور جا ن لو کہ اگر پرہیزگار بنوگے اور تعلیمات اسلامی کے اصولوں پر پوری طرح سے عمل پیرا ہو گے تو خدا تمہاری کامیابی کی ضمانت دیتا ہے کیوں کہ خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے( وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ ) ۔

زیر نظر دوسری آیت میں زمانہ جاہلیت کی ایک غلط سنت یعنی مسئلہ نسئی(حرام مہینوں کو آگے پیچھے کردینا ہے)کی طرف اشارہ کیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: حرام مہینوں کو ادل بدل کردیناایساکفر ہے جو ان کے کفر میں زیادتی کا سبب ہے( إِنَّمَا النَّسِیءُ زِیَادَةٌ فِی الْکُفْرِ ) اس عمل کے ذریعے بے ایمان لوگ مزید گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ( یُضَلُّ بِہِ الَّذِینَ کَفَرُوا)وہ ایک سال ایک ماہ کو حلال شمار کرتے ہیں اوردوسرے سال اسی ماہ کو حرام قرار دے لیتے ہیں تاکہ اپنے گمان میں اسے خدا معین کردہ حرام مہینوں کی تعداد پر منطبق کریں یعنی جب ایک حرام مہینے کو حزف کردیتے ہیں تو اس کی جگہ دوسرا مہینہ مقرر کرلیتے ہیں تاکہ چار ماہ کہ تعداد مکمل ہوجائے( یُحِلُّونَهُ عَامًا وَیُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِیُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللهُ ) ، حالانکہ اس برے مضحکہ خیز عمل سے حرام مہینوں کی حرمت کا فلسفہ بالکل ختم ہوکر رہ جاتا ہے اور وہ اس طرح حکم خدا کو اپنی خواہشات کا بازیچہ بنا دیتے ہیں اورتعجب کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے اس کام پر بڑے خوش اور راضی ہیں کیوں کہ ان کے برے اعمال ان کی نگاہ میں بڑے زیبا ہوچکے ہیں( زُیِّنَ لَهُمْ سُوءُ اٴَعْمَالِهِمْ ) ۔

جیساکہ آگے آئے گا وہ شیطانی وسوسوں سے حرام مہینوں کو ادل بدل کردیتے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ اس کام کو تدبیر زندگی اورمعیشت کے لئے مفید خیال کرتے یا جنگ اور جنگ کی تیاری کے لئے اچھا سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ طویل جنگ بندی سے جنگی مہارت کم ہوجاتی ہے لہٰذا آتش جنگ بھڑکائی جائے ۔

خدا بھی ان لوگوں کو جو ہدایت کی اہلیت نہیں رکھتے ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے اور ان کی ہدایت سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے کیوں کہ خدا کافر گروہ کو ہدایت نہیں کرتا( وَاللهُ لَایَهْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ ) ۔

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ حرام مہینوں کا فلسفہ:

ان چار مہینوں میں جنگ کو حرام قرار دینا طویل المدت جنگوں کے خاتمے کا طریقہ اور صلح و آشتی کی دعوت دینے کا ذریعہ ہے کیوں کہ اگر جنگجو افراد سال میں چار مہینے ہتھیار زمین پر رکھ دے اور تلواروں کی جھنکار اور بموں کے دھماکوں کی آواز خاموش ہوجائے اور غوروفکر کا موقع مل جائے تو جنگ ختم ہوجانے کا احتمال پیدا ہوجاتا ہے ۔

کسی کام کو جاری و ساری رکھنا، اسے چھوڑ کر نئے سرے سے شروع کرنے سے ہمیشہ مختلف ہوتا ہے نیز پہلے کی نسبت کئی درجے زیادہ مشکل ہوتا ہے، ویت نام کی بیس سالہ جنگوں کی وہ کیفیت بھلائی نہیں جاسکتی جب نئے عیسوی سال کی آمد کے موقع پر صرف چوبیس گھنٹے کی جنگ بندی کے لئے کس قدر زحمت اٹھانا پڑتی تھی لیکن اسلام اپنے پیروکاروں کے لئے ہرسال چار ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کئے ہوئے ہے اور یہ خود اسلام کی امن پسندی کی ایک نشانی ہے،

لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اگر دشمن اس اسلامی قانون سے غلط فائدہ اٹھانا چاہے اور حرام مہینوں کی حرمت کو پائمال کردے تو پھر مسلمانوں کا اس کا ویسا ہی جواب دینے کی اجازت دی گئی ہے ۔

۲ ۔ زمانہ جاہلیت میں ”نسئی“کا مفہوم اور فلسفہ:

نسیٴ “ (بروزن کثیر)”نساء “کے مادہ سے تاخیر میں ڈالنے کے معنی میں ہے (اور خود یہ لفظ اسم مصدر یا مصدر ہوسکتا ہے)، وہ لین دین کہ جس میں قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کی جائے اسے ”نسیہ“کہتے ہیں ۔

زمانہ جاہلیت میں عرب کبھی کبھی کسی ماہ حرام کو موخر کردیتے تھے یعنی مثلا محرم کے بجائے صفر کا انتخاب کرلیتے تھے، اس کا طریقہ اس طرح تھا کہ بنی کنانہ کا کوئی ایک سردار مراسم حج میں منیٰ کے مقام پر نسبتا ایک بڑے اجتماع میں لوگوں کے تقاضے کے بعد کہتا:

میں ماہ محرم کو اس موخر کرتا ہوں اور اس کے لئے ماہ صفر کا انتخاب کرتا ہوں ۔

ابن عباس سے منقول ہے کہ پہلا شخص جس نے اس طریقے کا آغاز کیا عمرو بن لحی تھا اور بعض کہتے ہیں کہ اس کام کا آغاز کرنے والا قلمس تھا جس کا تعلق بنی کنانہ سے تھا ۔

بعض کے خیال میں ان کی نگاہ میں اس کام کا فلسفہ یہ تھا کہ بعض اوقات مسلسل تین ماہ کی پابندی (یعنی ذی القعدہ،ذی الحجہ اور محرم) انہیں مشکل لگتی تھی اور وہ اسے اپنے خیال میں جذبہ جنگ کی کمزوری کا باعث سمجھتے اور خیال کرتے کہ یہ سپاہیوں کی کارکردگی رک جانے کا سبب ہے کیوں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ غارت گری، خونریزی اور جکگ سے ایک عجیب سا لگاؤ رکھتے تھے اور اصلی طور پر جنگ وجدال ان کی زندگی کا ایک حصہ تھا اور ان کے پے در پے تین ماہ کی جنگ بندی ایک طاقت فرسا امر تھا لہٰذا وہ کوشش کرتے تھے کہ کم از کم ماہ محرم کو ان تین مہینوں سے جدا کرلیں ۔

یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کبھی ماہ ذی الحجہ گرمیوں میں آجاتا رتھا اور اس سے معاملہ ان کے لئے مشکل ہوجاتا تھااور یم جانتے ہیں کہ حج اور اس کے مراسم زمانہ جاہلیت کے عربوں کے لئے عبادت میں منحصر نہ تھے یہ عظیم مراسم حضرت ابراہیم (ع)کے زمانے سے بطوریادگار چلے آرہے تھے، یہ ایک عظیم کانفرنس شمار ہوتی تھی جو ان کی تجارت اور کاروبار کی رونق کا سبب بھی تھی، انہیں اس عظیم اجتماع سے بہت سے فوائد نصیب ہوتے تھے لہٰذا وہ ماہ ذی الحجہ کو اس کی جگہ سے اپنی خواہش اور رغبت کے مطابق تبدیل کردیتے تھے اور اس کی جگہ موسم میں کوئی دوسرا مہینہ مقرر کردیتے تھے اور ہوسکتا ہے کہ دونوں وجوہ صحیح ہوں ، بہرحال یہ عمل سبب بنتا کہ آتش جنگ اسی طرح بھڑکتی رہتی اور حرام مہینوں کا مقصد پامال ہوجاتا، یوں مراسم حج اس کے اور اس کے ہاتھ میں کھلونا اور ان کے مادی مفادات کا ذریعہ بن گئے ۔

قرآن اس کام کو کفر کی زیادتی شمار کرتا ہے کیوں کہ ان کے ”اعتقادی شرک اور کفر“کے علاوہ اس حکم کو ٹھکراکر وہ ”عملی کفر“ کا ارتکاب کرتے تھے خصوصاً جب اس کام کی وجہ سے وہ دو حرام عمل بجالاتے تھے، ایک یہ کہ حرام خدا کو انہوں نے حلال کیا ہوا تھا اور دوسرے یہ کہ حلال خدا کو انہوں نے حرام کررکھا رتھا ۔

۳ ۔ دشمن کے مقابلے میں وحدت کلمہ:

مندرجہ بالا آیات میں قرآن حکم دیتا ہے کہ دشمن سے جنگ کرنے کے موقع پر مسلمان متفق ہوکر ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر ان سے جنگ کریں ، اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان سیاسی ،ثقافتی، اقتصادی اور فوجی میدان میں بھی اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں تیار کرےں اور وہ صرف ایسی وحدت سے جس کا سرچشمہ توحید اسلامی کی روح ہے، دشمن پر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ۔

یہ وہی حکم ہے جو مدت ہوئی طاق نسیاں ہوچکا ہے اور یہی بات مسلمانوں کے انحطاط اور پسماندگی کی علت ہے ۔

۴ ۔ برے کام کیوں زیبا معلوم ہوتے ہیں :

جب تک انسان برے راستے پر گامزن نہ ہو اس کا وجدان اچھی طرح سے اچھائی اور برائی کی تمیز کر سکتا ہے لیکن جب وہ جان بوجھ کر جادہ گناہ پر چل نکلے اور غلط کاری کی راہ پر قدم رکھ لے تو وجدان کی روشنی مدہم پڑ جاتی ہے اور بات رفتہ رفتہ یہاں تک جاپہنچی ہے کہ گناہ کی قباحت اس لئے آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے اور اگر وہ اسے کام جاری رکھے تو آہستہ آہستہ برے کام اس کی نظر میں اچھے اور اچھے کام برے لگنے لگتے ہیں اوراسی بات کی طرف زیر نظر آیات میں اور متعدد دیگر آیات میں اشارہ کیا گیاہے ۔

بعض اوقات”برے اعمال کی تزئین “کی نسبت شیطان کی طرف دی جاتی ہے، مثلا سورہ نحل کی آیہ ۶۳ میں ہے:

( فَزَیَّنَ لَهُمْ الشَّیْطَانُ )

اور کبھی فعل مجہول کی صورت میں ذکر ہوئی ہے، جیسا کہ زیر نظر آیت میں ہے، اس کا فاعل ہوسکتا ہے شیطانی وسوسے ہوں یا پھر سرکش نفس ہو۔

کبھی یہ نسبت”شرکاء“ (یعنی بتوں )کی طرف دی گئی ہے، اس کی مثال سورہ انعام کی آیہ ۱۳۷ ہے یہاں تک کہ کبھی خدا کی طرف بھی نسبت دی گئی ہے، مثلا سورہ نمل کی آیہ ۴ میں ہے:

( إِنَّ الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَیَّنَّا لَهُمْ اٴَعْمَالَهُمْ )

وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے برے اعمال کو ان کی نظر میں مزین کردیا ۔

ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ اس قسم کے امور کی خدا کی طرف نسبت اس بنا پر ہے کہ یہ چیزیں ان کے عمل کی خاصیت شمار ہوتی ہے اور تمام چیزوں کے خواص اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، وہ مسبب الاسباب ہے، نیز ہم کہہ چکے ہیں کہ اس قسم کی نسبتیں انسان کے اختیار اور ارادے کی آزادی سے مختلف نہیں رکھتیں ۔

____________________

۱۔ تفسیر برہان، ج۲،ص ۱۲۲۔

آیات ۳۸،۳۹

۳۸( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَا لَکُمْ إِذَا قِیلَ لَکُمْ انفِرُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَی الْاٴَرْضِ اٴَرَضِیتُمْ بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ قَلِیلٌ )

۳۹( إِلاَّ تَنفِرُوا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا وَیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَاتَضُرُّوهُ شَیْئًا وَاللهُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ )

ترجمہ

۳۸ ۔اے ایمان والوں ! جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ راہ خدا میں جہاد کرنے کے لئے نکل پڑو تو کیوں زمین پر اپنا بوجھ ڈال دیتے ہو (اور سستی کرتے ہو)، کیا تم آخرت کے بدلے دنیاوی زندگی پر راضی ہوگئے ہو حالانکہ حیات دنیا کی متاع آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں مگر بیت ہی کم۔

۳۹ ۔اگر (میدان جہاد کی طرف)حرکت نہ کرو تو تمہیں دردناک عذاب دے گا اور کسی دوسرے گروہ کو تمہاری جگہ مقرر کردے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

شان نزول

ابن عباس اور دوسرے صحابہ سے منقول ہے کہ مندرجہ بالا آیات میں جنگ تبوک کے بارے میں اس وقت نازل ہوئیں جب پیغمبر اکرم طائف سے مدینہ کی طرف لوٹے اور لوگوں کو رومیوں سے جنگ کرنے پر آمادی کیا ۔

اسلامی روایات میں آیا یے کہ رسول اللہ عام طور پر جنگ کی بنیادی باتیں اور تفصیلات مسلمانوں کے سامنے واضح نہیں کیا کرتے تھے تاکہ اسلام کے فوجی راز دشمنوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں لیکن تبوک کے معاملے کی صورت مختلف تھی لہذا پہلے سے آپ نے انہیں بتایا کہ ہم رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے جارہے ہیں کیوں کہ مشرقی روم کی سلطنت سے جنگ مشرکین مکہ یا یہود خیبر سے جنگ کی طرح کوئی آسان کام نہ تھا لہٰذا ضرورت تھی کہ مسلمان اس عظیم مشکل کے لئے پوری طور پر اپنے آپ کو تیار کریں ۔

علاوہ ازیں مدینہ اور سرحد روم کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا مزید برآں گرمی کا موسم تھا اور غلوں اور پھلوں کی فصل کی کٹائی کے دن بھی تھے ۔

یہ تمام امور یکجا ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے میدان جنگ کی طرف جانا بہت زیادہ مشکل ہوگا تھا، یہاں تک کہ بعض رسول اللہ کی دعوت پر لبیک کہنے میں متردد تھے اور گنگوں کی کیفیت میں تھے ۔

ان حالات میں مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور قاطع انداز میں سختی کے ساتھ مسلمان کو تنبیہ کی، اس کیفیت کے خطرے سے انہیں خبر دار کیا اور انہیں اس عظیم معرکے کے لئے تیار کیا ۔(۱)

دوبارہ میدان جنگ کی طرف روانگی

جیسا کہ ہم شان نزول میں کہہ چکے ہیں مندرجہ بالاآیات جنگ بتوک کے بارے میں ہیں ۔

تبوک مدینہ اورشام کے درمیان اےک علاقہ ہے جو آجکل سعودی سرحدشمار ہوتا ہے، اس زمانے میں مشرقی روم کے سرحد کے قرےب تھا ،وہ حکومت اس وقت شامات پر قابض تھی ۔(۲)

یہ واقعہ نو ہجری یعنی فتح مکہ سے تقریبا ایک سال بعد رونما ہوا،مقابلہ چونکہ اس وقت کی ایک عالمی سو پر طاقت سے تھا نہ کہ عرب کے کسی چھوٹے بڑے گروہ سے لہٰذا بعض مسلمان اس جنگ میں شرکت سے خوف زدہ تھے، اس صورت حال میں منافقین کے زہریلے پراپیگنڈا اور وسوسوں کے لیے ماحول بالکل سازگار تھا اور وہ بھی مومنین کے دلوں اور جذبات کو کمزور کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کر رہے تھے ۔

پھل اتارنے اورفصل کاٹنے کا موسم تھا، جن لوگوں کی زندگی تھوڑی سی کھتی باڑی اور کچھ جانور پالنے پر بسر ہوتی تھی یہ ان کی قسمت کے اہم دن شمار ہوتے تھے کیونکہ ان کی سال بھر کی گزر بسر انہی چیزوں سے وابستہ تھے ۔

جیسا کہ ہم آئے ہیں مسافت کی دوری اور موسم کی گرمی بھی روکنے والے عوامل کی مزید مدد کرتی تھی، اس موقع پر آسمانی وحی لوگوں کی مدد کے لے آپہنچی اور قرآنی آیات یکے بعد دیگرے نازل ہوئیں اوران منفی عوامل کے سامنے آکھڑی ہوئیں ۔

زیرے بحث پہلی آیت میں قرآن جس قدر ہو سکتی ہے اتنی سختی اور شددت سے جہاد کی دعوت دیتا ہے،کبھی تشویق سے، کبھی سرزنش کے لہجے میں اور کبھی دھمکی کی زبان میں ان سے بات کرتا ہے اور انہیں آمادی کرنے کے لئے ہر راستہ اختیار کرتاہے ۔

پہلے کہتا ہے: اے ایمان والو! جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں ، میدان جہاد کی طرف حرکت کرو تو تم سستی کا مظاہرہ کرتے ہو اور بوجھل پن دکھاتے ہو( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَا لَکُمْ إِذَا قِیلَ لَکُمْ انفِرُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَی الْاٴَرْضِ )

” اثَّاقَلْتُم“”ثقل“کے مادہ سے بوجھ کے معنی میں ہے،”( اثَّاقَلْتُم إِلَی الْاٴَرْضِ ) “وطن میں رہ جانے کی خواہش اور میدان جہاد کی طرف حرکت نہ کرنے کے لئے کنایہ ہے یا پھر مادی زرق وبرق دنیا سے چمٹے رہنے کے لئے کنایہ ہے، دونوں صورتوں میں بہرحال مسلمانوں کے ایک گروہ کی یہ حالت تھی، سب ایسے نہ تھے، سچے مسلمانوں اور راہ خدا میں جہاد کے عاشقوں کی یہ حالت نہ تھی ۔

اس کے بعد ملامت آمیز لہجے میں قرآن کہتا ہے: کیا آخرت کی وسیع اور دائمی زندگی کی بجائے اس دنیاوی پست اور نا پائیدار زندگی پر راضی ہوگئے ہو

( اٴَرَضِیتُمْ بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا مِنَ الْآخِرَة ) حالانکہ دنیاوی زندگی کے فوائد اور مال متاع آخرت کی زندگی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور بہت ہی کم ہے( فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ قَلِیل ) ۔

ایک عقل مند انسان ایسے کھاٹے کے سودے پر کیسے تیار ہوسکتا ہے اور کیوں کر وہ ایک نہایت گراں بہا متاع اور سرمایہ چھوڑ کر ایک ناچیز اور بے وقعت متاع کی طرف جاسکتا ہے ۔

اس کے بعد ملامت کی بجائے ایک حقیقی تہدید کا انداز اختیار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے:اگر تم میدان جنگ کی طرف حرکت نہیں کرو گے تو خدا درد ناک عذاب کے ذریعے تمہیں سزا دے گا( إِلاَّ تَنفِرُوا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا ) ۔

اور اگر تم گمان کرتے ہو کہ تمہارے کنارہ کش ہونے اور میدان جہاد سے پشت پھرنے سے اسلام کی پیشرفت رک جائے گی اور آئینہ الٰہی کی چمک ماند پڑ جائے گی تو تم سخت اشتباہ میں ہو کیوں کہ خدا تمہارے بجائے اسے صاحبان ایمان کو لے آئے گا جو عزم صمیم رکھتے ہوں گے اور فرمان خدا کے مطیع ہوں گے( وَیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ) ، وہ لوگ کہ جو ہر لحاظ سے تم سے مختلف ہیں ، نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ ان کا ایمان، ارادی، دلیری اور فرماں برداری بھی تم سے مختلف ہے لہٰذا ”اس طرح تم خدا اور اس کے پاکیزہ دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے“( وَلَاتَضُرُّوهُ شَیْئًا ) ۔

یہ ایک حقیقت ہے نہ کہ ایک خالی گفتگو یادور دراز کی آرزو کیوں کہ” وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے“اور جب وہ اپنے پاک آئین کی کامیابی کا ارادہ کرے گا تو اس میں کلام نہیں کہ اسے عملی جامہ پہنا دے گا( وَاللهُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر ) ۔

____________________

۱۔ بیت سے مفسرین مثلا طبرسی نے نمجمع البیان میں ، فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں اور آلوسی نے روح المعانی میں اس شان نزول کو اجمالی طور پر بیان کیا ہے ۔

۲۔ تبوک کا فاصلہ مدینہ سے ۶۱۰ کلو میٹر اور شام سے ۶۹۲ کلو میٹر بیان کیا جاتا ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ جہاد پر سات تاکیدیں :

مندرجہ بالا آیات میں سات طریقوں سے مسئلہ جہاد پر تاکید کی گئی ہے ۔

۱ ۔ اہل ایمان کو اس کے لئے خطاب کیا گیا ہے ۔

۲ ۔ میدان جہاد کی طرف حرکت کا حکم دیا گیا ہے ۔

۳ ۔ ”فی سبیل اللّٰہ“ کی تعبیر استمال کی گئی ہے ۔

۴ ۔ آخرت کے بدلے دنیا کا زکر استفہام انکاری کی سورت میں کیا گیا ہے ۔

۵ ۔ جہاد سے کنارہ کشی پر ”عذاب الالیم“ کی دھمکی دی گئی ہے ۔

۶ ۔ یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ تمہیں منظر سے ہٹا کر تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا ۔

۷ ۔ خدا کی لامتناہی قدرت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اس بات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ہے تمہاری سستیاں امور الٰہی کی پیشرفت میں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں بلکہ جو نقصان بھی ہوا وہ تم ہی کو دامن گیر ہوگا ۔

۲ ۔ دنیا کی دلبستگی جہاد کے لئے سد راہ ہے:

مندرجہ بالا آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ دنیاوی زندگی سے دل بستگی مجاہدین کو امر جہاد میں سست کردیتی ہے، سچے مجاہدین کو پاکباز، زہدپیشہ اورزرق وبرق دنیا سے بے پرواہ ہوبنا چاہیے، امام علی بن حسین (ع) اسلامی حکومت کی سرحدوں کے محافظین کے لئے کی گئی دعا میں کہتے ہیں :وانسهم عند لقائهم العدو ذکر دنیاهم الخداعة وامح عن قلوبهم خطوات المال الفتون

بارالہا جب وہ دشمن کے مقابل ہوں اس پر فریب دنیا کے ذکر وفکر کو ان سے دور رکھ اور فتنہ انگیز دلکش اموال کی اہمیت ان کے صفحہ دل سے محو کردے (تاکہ تیرے عشق سے لبریز دل کے ساتھ تیرے لئے جنگ کریں ) ۔

یہ حقیقت ہے اگر ہم دنیا وآخرت کی کیفیت کو اچھی طرح پہچانتے ہوں تو ہم جان لےں گے آخرت کے مقابلے میں دنیا اس قدر محدود اور حقیر ہے کہ ان کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس سلسلے میں پیغمبر خدا سے ایک حدیث منقول ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے:واللّٰه ماالدنیا فی الآخرة الا لما یجعل احدکم اصبعه فی الیم ثم یرفعها فلینظر بم ترجع

بخدا آخرت کے مقابلے میں دنیا اس طرح ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنی انگلی دریا میں ڈبوئے اور پھر اسے نکال لے اور دیکھئے کہ دریا کا کتناپانی اس کے ساتھ لگا ہوا ہے ۔

۳ ۔ آیت میں کس گروہ کی طرف اشارہ ہے؟

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آیت میں جس گروہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ایرانی ہیں بعض یہاں یمن کے لوگ مراد لیتے ہیں کہ جن میں سے ہر ایک گروہ نے اسلام کی پیشرفت میں اپنی بے انتہا جرات و استقامت سے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، بعض ان لوگوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جنہوں نے ان آیات کے نزول کے بعد اسلام قبول کیا اور دل وجان سے اس کی راہ میں فداکاری کی ۔

آیت ۴۰

۴۰( إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ اٴَخْرَجَهُ الَّذِینَ کَفَرُوا ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ هُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَاٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَهُ عَلَیْهِ وَاٴَیَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ کَلِمَةَ الَّذِینَ کَفَرُوا السُّفْلَی وَکَلِمَةُ اللهِ هِیَ الْعُلْیَا وَاللهُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ )

ترجمہ

۴۰ ۔ اگر اس کی مدد نہیں کرو گے تو خدا اس کی مدد کرے گا (جیسا کہ اس نے مشکل ترین لمحات میں اسے تنہا نہیں چھوڑا)، اس وقت جب کفار نے انہیں (مکہ سے) نکال دیا جب کہ وہ دو میں سے دوسرے تھے (ان کے ساتھ صرف ایک شخص اور تھا) جب وہ دونوں غار میں تھے تو وہ ہمسفر سے کہہ رہے تھے غم نہ کھاؤ خدا ہمارے ساتھ ہے، تو اس موقع پر خدا نے اپنا سکینہ (اور اطمینان )ان پر بھیجا اور ان کی ایسے لشکروں سے تقویت کی جنہیں تم نہیں دیکھتے تھے اور کافروں کی گفتار(اور ہدف ) کو پست قرار دیا (اور انہیں شکست سے دوچار کیا) اور خدا کی بات (اور اس کا دین ) بلند (اور کامیاب )ہوا اور خدا عزیر وحکیم ہے ۔

حسا س ترین لمحات میں خدا نے اپنے پیغمبر کو تنہا نہیں چھوڑا

جیسا کہ وضاحت کی جاچکی ہے گذشتہ آیات میں جہاد کے مسئلے پر متعدد حوالوں سے تاکید کی گئی، ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ گمان نہ کرو کہ اگر تم جہاد اور پیغمبر کی مدد سے کنارہ کش ہوگئے تو اس کا پروگرام اور اسلام زمین بوس ہوجائے گا، زیر بحث آیت اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہے: اگر اس کی مدد کرو گے تو وہ خدا جس نے سخت ترین حالات اور پیچیدہ ترین مواقع پر معجزانہ طور پر اس کی مدد کی ہے قدرت رکھتا ہے کہ پھر اس کی مدد کرے( إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ ) ۔(۱)

یہ وہ زمانہ تھا جب مشرکین مکہ پیغمبر اکرم کو قتل کرنا کی ایک خطرناک سازش کر چکے تھے، جبکہ سورہ انفعال کی آیہ ۳۰ کے ذیل میں اس کی تفسیر گزر چکی ہے ، تفصیلی غوروخوض اور منصوبہ بندی کے بعدانہوں نے آخری فیصلہ یہ کیا تھا کہ عرب کے مختلف قبائل کے بہت سے شمشیر زن رات کے وقت رسول اللہ کے گھر کا محاصرہ کرلیں اور صبح سب مل کر آنحضرت پر حملہ کریں اور بستر پر ہی تلواروں سے ان کے جسم مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں ۔

پیغمبر اکرم جو حکم خدا سے اس سازش سے آگاہ ہوچکے تھے مکہ سے باہر جانے اور مدینہ کی طرف ہجرت کے لئے تیار ہوئے لیکن ابتدا میں کفر کی دسترس سے محفوظ رہنے کے لئے غار ثور میں پناہ گزیں ہوئے جو مکہ کے جنوب میں مدینہ کے راستے کی مخالف سمت میں تھی، اس سفر میں ابوبکر بھی آنحضرت کے ساتھ تھا ۔

دشمن نے رسول اللہ کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن مایوس ہوکر پلٹ گئے، رسول اللہ تین راتیں اور دن غار میں ٹھہرے رہے، جب دشمن کے پلٹ جانے کا اطمینان ہوگیا تو رات کے وقت عام راستے سے ہٹ کر مددینہ کی طرف روانہ ہوئے، چند دنوں میں آپ صحیح وسالم مدینہ پہنچ گئے اور اس طرح تاریخ اسلام میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ۔

مندرجہ بالا آیت اس تاریخی سفر کے ایک حساس ترین موقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے: خدا نے اپنے پیغمبر کی اس وقت مدد کی جب کافروں نے انہیں نکال باہر کیا( إِذْ اٴَخْرَجَهُ الَّذِینَ کَفَرُوا ) ۔

البتہ کفار کا ارادہ انہیں مکہ سے خارج کرنے کا نہیں تھا بلکہ وہ آپ کو قتل کرنے کا مصمم ارادہ کرچکے تھے لیکن ان کے کام کے نتیجے میں چوں کہ پیغمبر خدا کو مکہ سے باہر نکل جانا پڑا لہٰذا یہ نسبت ان کی طرف دی گئے ہیں ۔

اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: یہ اس حالت میں تھا کہ آپ دو میں سے دوسرے تھے( ثَانِیَ اثْنَیْنِ ) ، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آپ کے ساتھ صرف ایک ہی شخص تھا یہ چیز اس پر خطر سفر میں آپ کی انتہائی تنہائی کی نشاندہی کرتی ہے، ابوبکر آپ کے ہمسفر تھے، جس وقت ان دونوں نے غار (یعنی غاع ثور ) میں پناہ لی( إِذْ هُمَا فِی الْغَارِ ) ، اس موقع پر پیغمبر کے ساتھی اور ہمسفر کو خوف اور وحشت نے گھیر رکھا تھا اور پیغمبر نے اسے تسلی دی اور کہا غم نہ کھاؤ خدا ہمارے ساتھ ہے( إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا ) ، اس وقت اللہ نے سکون اطمینان کی روح آپ پر نازل کی جو حساس اور پر خطر لمحات میں اپنے پیغمبر پر نازل کیا کرتا تھا( فَاٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَهُ عَلَیْهِ ) ، اور آپ کی ایسے لشکروں سے مدد کی جنہیں تم نہیں دیکھ سکتے تھے،( وَاٴَیَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا ) ۔

یہ غیبی لشکر ہوسکتا ہے کہ ان فرشتوں کی طرف اشارہ ہو جو خوف وخطر سے بھر پور اس سفر میں پیغمبر کے محافظ ہوں یا ان کی طرف جو بدر، حنین وغیرہ کے میدانوں میں آپ کی مدد کے لئے آئے تھے ۔

____________________

۱۔ادبی نقطہ نظر سے اس جملے میں کچھ محذوف ہے اور اصل میں یہ اس طرتھا”إِلاَّ تَنصُرُو ینَصَرَهُ اللهُ “کیوں کہ فعل ماضی جس کا مفہوم گذشتہ زمانے میں واقع ہوچکا ہو، جزائے شرط نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ فعل ماضی ایسا ہے جو مضارع کا معنی دیتا ہو ۔