تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27609
ڈاؤنلوڈ: 2569


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27609 / ڈاؤنلوڈ: 2569
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

داستان یار غار

اس سفر میں حضرت ابوبکر کے پیغمبر اکرم کے ساتھ ہونے کے بارے میں جو سر بستہ اشارات مندرجہ بالا آیت میں کئے گئے ہیں اس پر شیعہ اور سنی مفسرین میں بہت سے مباحث پیدا ہوگئی ہیں ۔

اس سلسلے میں بعض نے افراط کی راہ اختیار کی ہے اور بعض نے تفریط کا راستہ اپنایا ہے ۔

فخرالدین رازی نے اپنے مخصوص تعصب کی بناپر اپنی تفسیر میں کوشش کی ہے کہ مندرجہ بالا آیت سے حضرت ابوبکر کی بارہ فضیلتیں ثابت کرے ، اس میں فضائل کی تعدادزیادہ ثابت کرنے کے لئے اس نے زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں اس تفسیر کی صورت یہ ہوگئی ہے کہ تفصیل بیان کرنا شاید ضیاعِ وقت مصداق ہو۔

جب کہ بعض دوسرے لوگ اصرار کرتے ہیں کہ اس آیت سے حضرت ابوبکر کی متعدد مذمتیں معلوم ہوتی ہیں ۔

پہلے یہ دیکھنا ہے کہ کیا لفظ ”صاحب“ فضیلت کی دلیل ہے؟ ظاہرا ایسا نہیں ہے کویں کہ لغت کے لحاظ سے صاحب کے مطلقامعنی ”ہمنشین“ اور ”ہمسفر“ کے ہیں چاہے ہمنشین و ہمسفر اچھا ہو یا برا، جیسا کہ سورہ کہف کی آیہ ۳۷ میں ان دو افراد کا واقعہ آیا ہے کہ جن میں سے ایک صاحب ایمان اور خدا پرست تھا اور دوسرا بے ایمان اور مشرک تھا، ارشاد ہوتا ہے:قال له صاحبه وهو یحاوره اکفرت بالذی خلقک من تراب

اس ساتھی نے اس سے کہا: کیا تو اس خدا کا انکار کرتا ہے جس نے تھے مٹی سے پیدا کیا ہے؟

بعض یہ بھی اصرار کرتے ہیں کہ ”علیہ“ کی ضمیر جو ””فانزل اللّٰه سکینته علیه “کے جملے میں آئی ہے حضرت ابوبکر کی طرف لوٹتی ہے کیوں کہ پیغمبر اکرم کو سکینة اور اطمینان کی ضرورت نہیں تھی اس لئے اس کا نزول ان کے ہمسفر (ابوبکر) کے لئے تھے، جب کہ بعد والے جملے میں :”وایده بجنودلم تروها (اس کی غیر مرئی لشکر سے مدد کی)، اس کی طرف توجہ کی جائے اور دونوں میں مرجع ضمیر کے ایک ہونے کی طرف توجہ کی جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ ”علیہ“کی ضمیر بھی رسول اللہ کی طرف لوٹتی ہے، نیز یہ اشتباہ ہے کہ ہم تصور کریں کہ سکینة کا تعلق حزن وملال کے مواقع سے ہے کیوں کہ قرآن میں بارہا آیا ہے کہ ”سکینة“ذات پیغمبر پر نازل ہوئی جب آپ سخت اور مشکل حالات سے دوچار ہوئے، ان میں سے ایک واقعہ حنین ہے جس کے بارے میں اسی سورہ کی آیہ ۶ ۲ میں ہم پڑھ چکے ہیں :

ثم انزل اللّٰه سکینتة علی رسوله وعلی المومنین

یعنی ، پھر اللہ نے اپنی سکینة اپنے رسول اور مومنین پر نازل کی ۔

نیز سورہ فتح کی آیہ ۶۲ میں ہے:فانزل اللّٰه سکینته علی رسوله وعلی المومنین

جب کہ ان دونوں آیات سے متعلق حزن وملال اور غم واندوہ کے متعلق کسی قسم کی کوئی گفتگو نہیں ہوئی بلکہ حالات کی پیچیدگی کی بات ہوئی ہے ۔

بہرحال آیات قرآنی نشان دہی کررہی ہیں کہ نزول سکینة سخت مشکلات کے وقت ہوتی تھی اور اس میں شک نہیں کہ غار ثور میں رسول اللہ سخت لمحات میں وقت گزاررہے تھے ۔

زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض کہتے ہیں کہ”بجنود لم تراها “(اس میں اس کی ایسے لشکر سے مدد کی جسے تم نہیں دیکھ سکتے تھے) یہ جملہ ابوبکر کے بارے میں ہے جب کہ اس آیت کی ساری بحث جو کہ خدا کی مدد ونصرت کے محور پر گومتی ہے سب پیغمبر کے بارے میں ہیں اور قرآن چاہتا ہے کہ واضح کرے کہ پیغمبر اکیلے نہیں ہیں اگر اس کی مدد نہ کرو گے تو خدا اس کی مدد کرے گا، لہٰذا جس شخص کے گرد تمام بحث گھومتی ہے اسے چھوڑکر ایسے شخص کی تلاش کیوں کی جائے کہ جس کا ذکر اتباع اور پیروی کے حوالے سے آیا ہے، یہ صورت حال نشاندہی کرتی ہے تعصبات یہاں تک حائل ہو گئے ہیں کہ بعض لوگوں کی توجہ آیت کے معنی کی طرف بھی نہیں گئی ۔

آیات ۴۱،۴۲

۴۱( انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِاٴَمْوَالِکُمْ وَاٴَنفُسِکُمْ فِی سَبِیلِ اللهِ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ )

۴۲( لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَاتَّبَعُوکَ وَلَکِنْ بَعُدَتْ عَلَیْهِمْ الشُّقَّةُ وَسَیَحْلِفُونَ بِاللهِ لَوْ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ یُهْلِکُونَ اٴَنفُسَهُمْ وَاللهُ یَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَکَاذِبُونَ )

ترجمہ

۴۱ ۔(سب کے سب میدان جہاد کی طرف )چل پڑو چاہے سبک بار ہو یا سنگین بار اور اپنے اموال اور جانوں کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کرو اور اگر جانو تو یہ تمہارے نفع میں ۔

۴۲ ۔(اور ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے کہ ) اگر غنائم نزدیک (اور دسترس میں )ہوں اور سفر آسان ہو (تو دنیاوی طمع میں ) تیری پیروی کرتے ہیں لیکن اب جب کہ میدان تبوک کے لئے راستہ ان کے طویل (اور مشقت والا )ہے (تو روگردانی کرتے ہیں ) اور عنقریب قسم کھائےں گے کہ اگر ہم میں طاقت ہوتی توہم تمہارے سال چل پڑتے(لیکن ان اعمال اور ایسے صریح جھوٹوں سے ) اپنے آپ کو ہلاک کرتے ہیں اور خدا جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں ۔

ان پر ور لالچی

ہم کہہ چکے ہیں جنگ تبوک ایک استثنائی کیفیت رکھتی تھی اور اس کے لئے ایسے امور ضروری تھے جو بہت مشکل اور پیچیدہ تھے، اسی بنا پر چند ضعیف الایمان یا منافق افراد اس میدان میں شرکت کرنے سے لیت ولعل کرتے تھے، گذشتہ آیات میں خداتعالیٰ نے ایک گروہ کو سرزنش کی ہے کہ جب جہاد کا فرمان صادر ہوتا ہے تو بوجھل کیوں ہوجاتے ہو(اور سستی کیوں دکھاتے ہو)، نیز فرمایا ہے کہ جہاد کا حکم تمہارے فائدے میں ہے ورنہ خدا ایسا کرسکتا ہے کہ بے ارادہ اور تن پرور افراد کے بجائے شجاع، بہادر، صاحب ایمان اور عزم راسخ والے افراد لے آئے بلکہ یہاں تک کہ ان کے بغیر بھی وہ قدرت رکھتا ہے کہ اپنے پیغمبر کی حفاظت کرے جیسا کہ غار ثور اور لیلة المبیت والے واقعہ میں حفاظت کی ہے ۔

تعجب کی بات ہے کہ مکڑی کے جالے کے چند تار جو غار کے دہانے پر تنے ہوئے تھے اس بات کا سبب بن گئے کہ ہٹ دھرم اور سرکش دشمن کی فکرہی بدل جائے اور وہ غار کے دھانے سے ہی پلٹ آئے اور رسول اللہ صحیح وسالم رہے، جب خدا عنکبوت کے چند تاروں کے ذریعے نوع بشر کی تاریخ کا دھاربدل سکتا ہے تو اسے اس کی اس کی مدد کی کیا ضرورت ہے کہ وہ نازنخرے دکھاتے رہیں ، درحقیقت یہ تمام احکام خودان کی ترقی اور تکامل کے لئے ہے ناکہ خدا کو ان کی حاجت ہے، اس گفتگو کے بعد قرآن دوبارہ مومنین کو جہاد کی طرف ہر پہلو سے دعوت دے رہا ہے اور سستی دکھانے والوں کو سرزنش کررہا ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: تم سب کے سب میدان جہاد کی طرف چل پڑو چاہے سبک بار ہو چاہے بوجھل( انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا ) ۔

”خفاف“ جمع ہے ”خفیف“ کی اور ”ثقال“ جمع ہے”ثقیل“ کی اور یہ دونوں لفظ ایک جامع مفہوم رکھتے ہیں جس میں انسان کے تمام تر کیفیات اور حالات شامل ہیں ، چاہے انسان جوان ہو یا بوڑھا، مجرد ہو یا شادی شدہ ، اس کے افراد خانہ کم ہوں یا زیادہم غنی ہو یا فقیرابتلا میں ہوں یا مصیبت میں ، اس کی زراعت ،باغ اور تجارت ہو یا نہ ہو، ہرصورت اور ہر حالت میں اور مقام اور ہر حیثیت میں اس پر لازم ہے کہ جب فرمان جہاد صادر ہوبس اسی آزادی بخش دعوت پر لبیک کہے، دوسرے ہر کام سے آنکھیں بند کرلے اور تلوار بکف میدان جنگ کی طرف چل کھڑا ہو۔

یہ جو بعض مفسرین نے ان دوالفاظ کو مندرجہ بالا معانی میں سے فقط ایک میں محدودقرار دیا ہے اس کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، دراصل ان میں سے ہر لفظ اس وسیع مفہوم کا مصداق ہے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: راہ خدا میں مالوں اور جانوں سے جہاد کرو( وَجَاهِدُوا بِاٴَمْوَالِکُمْ وَاٴَنفُسِکُمْ ) ، یعنی ہر پہلو سے جہاد کرو کیوں کہ ایسے طاقتور دشمن کے مقابلے میں جو اس دور کی سپر طاقت سمجھا جاتا ہے، اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں تھی ۔

لیکن اس بنا پر کہ پھر بھی کسی کو اشتباہ نہ ہوکہ یہ قربانی اور فداکاری خدا کے لئے فائدہ مند ہے، فرمایا گیا ہے : یہ تمہارے فائدے میں ہے، اگر تم جانو( ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ ) ، یعنی اگر تم جان لو کہ جہاد سربلندی اور عزت کی کلید ہے اور ذلت اور کمزوری کے خاتمے کا ذریعہ ہے، اگر تم جان لو کہ کوئی قوم جہاد کے بغیر دنیا میں حقیقی آزادی اور عدالت تک نہیں پہنچ سکتی اور اگر تم جان لو کہ رضائے خدا، دائمی سعادت اور طرح طرح کی نعمات الٰہی تک پہنچنے کی راہ اسی عمومی مقصد نہضت اور ہمہ پہلو فدا کاری میں ہے، اسکے بعد بحث کا رخ سست ، کاہل اور کمزار ایمان والے افرتد کی طرف موڑا گیا ہے، یہ لوگ اس عظیم معرکے میں شرکت سے بچنے کے لئے طرح طرح کے بہانے بناتے تھے ، اس سلسلے میں رسول اللہ سے فرمایا گیا ہے: اگر مال غنیمت دسترس میں ہوتا اور سفر نزدیک کا ہوتا تو متاع دنیا کے لئے یہ بہت ہی جلدی تیری دعوت پر لبیک کہتے اور اس بچھے ہوئے دسترخوان پر بیٹھنے کے لئے بھگ دوڑ کرتے( لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَاتَّبَعُوکَ ) ۔(۱) لیکن اب جب کہ سفر دور کا ہے سستی دکھاتے ہیں اور بہانے بناتے ہیں( وَلَکِنْ بَعُدَتْ عَلَیْهِمْ الشُّقَّةُ ) ۔(۲) تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ صرف بہانے نہیں بناتے بلکہ ”جلدی سے تمہارے پاس آجاتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ اگر ہم میں طاقت ہوتی تو آپ کے ساتھ ہم بھی نکلتے“( وَسَیَحْلِفُونَ بِاللهِ لَوْ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُم ) ، اور اگر آپ دیکھتے ہی کہ ہم اس معرکے میں آپ کے ساتھ شرکت نہیں کررہے ہیں تو اس کی وجہ یماری معذوری اور عدم قدرت ہے اور ہم مختلف مسائل میں گرفتار ہیں ۔

”ان اعمال اور ان دروغگوئیوں کی وجہ سے درحقیقت وہ اپنے آپ کو ہلاک کردیتے ہیں “( یُهْلِکُونَ اٴَنفُسَهُمْ ) ، لیکن خدا جانتا ہے وہ جھوٹ بولتے ہیں( وَاللهُ یَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَکَاذِبُونَ ) ۔

وہ مکمل طور پر طاقت رکھتے ہیں لیکن چوں کہ کام اتنا آسان نہیں ہے بلکہ کٹھن اور مشکل ہے لہٰذا وہ جھوٹی قسموں کا سہارا لیتے ہیں ۔

یہ امر جنگ تبوک اور زمانہ رسول سے مخصوص ننہیں بلکہ ہر معاشرے میں بیکار، سست اور کاہل یا منافقین، لالچی اور ابن الوقت لوگوں کا ایک گروہ ہوتا ہے جو ہمیشہ منتظر رہتا ہے کہ کامیابی اور ثمرات کے لمحات آپہنچیں تو اس وقت پہلی صف میں آکھڑے ہوں گے اور شور مچانے لگےں گے، گریبان چاک کرےں گے، اپنے آپ کو مبارز اور مجاہد اول قرار دیں گے اور اپنا تعارف دلسوز ترین افراد میں سے کروائیں گے تاکہ بغیر زحمت کے دوسروں کی کامیابی کے ثمرات سے بہرہ ور ہوں لیکن یہی مبارز، مجاہد، سینہ چاک اور دلسوز مشکل حوادث کے موقع پر کسی نہ کسی طرف بھاگ کھڑے ہوں گے اور اپنے فرار کے لئے عذر وبہانے تراشیں گے، کوئی خود بیمار ہوگیا ہوگا، کسی کا بیٹا بستر بیماری پر پڑا ہوگا ، کسی کی بیوی وضع حمل میں مبتلا ہوگی، کوئی آنکھیں کمزور ہونے کی بات کرے گا اور کوئی مقدمات کی تیاری میں لگا ہوگا اسی طرح کے بیسیوں بہانے ہوں گے، لیکن بیدار اور روشن دل رہبروں پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں کی شناخت شروع میں کروادیں اور اگر یہ لوگ قابل اصلاح نہ ہوں تو انہیں اپنی صفوں ست نکال باہر کریں ۔

____________________

۱۔ ”عرض“ اس عارضی چیز کو کہتے ہیں جو جلد زائل ہوجاتی ہے اور جسے دوا م حاسل نہیں ہوتا، عام طور پر دنیا کی مادی نعمتوں کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے اور ”قاصد“ سہل وآسان کے معنی میں ہیں کیوں کہ اصل میں یہ لفظ”قصد“ کے مادہ سے ہے اور عموما لوگ اپنے قصد کو آسان مسائل میں سمجھتے ہیں ۔

۲۔ ”شقة“ ایسی سنگلاخ یا دور دراز راہوں کو کہتے ہیں کہ جنہیں عبور کرنے کے لئے بڑی مشقت اور زحمت درکار ہوتی ہے ۔

آیات ۴۳،۴۴،۴۵

۴۳( عَفَا اللهُ عَنْکَ لِمَ اٴَذِنتَ لَهُمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِینَ )

۴۴( لَایَسْتَاٴْذِنُکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اٴَنْ یُجَاهِدُوا بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ وَاللهُ عَلِیمٌ بِالْمُتَّقِینَ )

۴۵( إِنَّمَا یَسْتَاٴْذِنُکَ الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِی رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُونَ )

ترجمہ

۴۳ ۔ خدا نے تمہیں بخش دیا کہ تم نے انہیں اجازت کیوں دی، اس سے پہلے کہ جو راست گوہیں تیرے لئے واضح ہوں اور تم جھوٹوں کو پہچان لو۔

۴۴ ۔ وہ جو خدا اور روز جزا پر ایمان رکھتے ہیں تم سے کبھی بھی (راہ خدا میں )اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے سے رخصت نہیں چاہیں گے اور خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ۔

۴۵ ۔ صرف وہ لوگ تم سے رخصت چاہیں گے جو خدا اور روز جزا پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک وتردد میں ہیں لہٰذا وہ اپنے تردد میں سرگرداں ہیں ۔

کوشش کرو کہ منافقین کو پہچان لو

مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین کا ایک گروہ پیغمبر کے پاس آیا اور طرح طرح کے عذر وبہانے کرنے لگا، یہاں تک کہ قسم کھا کر انہوں نے اجازت چاہی کہ انہیں میدان تبوک میں شرکت سے معذور سمجھیں اور پیغمبر اکرم نے اس گروہ کو اجازت دے دی ۔

زیر بحث پہلی آیت میں خدا وند عالم اپنے پیغمبر کو تنبیہ کے انداز میں کہتا ہے: خدا نے تمہیں بخش دیا کہ تم نے انہیں جہاد میں شرکت سے رخصت کیوں دی( عَفَا اللهُ عَنْکَ لِمَ اٴَذِنتَ لَهُمْ ) ، کیوں ایسا نہ ہونے دیا کہ راست گو لوگ جھوٹوں سے ممتاز ہوجائیں اور تم ان کی کیفیت جان لیتے( حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِینَ ) ۔

اس بارے میں کہ مذکورہ تنبیہ جس کے ساتھ عفوالٰہی کا ذکر ہے اس بات کی دلیل ہے کیا یہ کوئی غلط کام تھا یاصرف کوئی ترک اولیٰ تھا یا کچھ نہ تھا اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے بعض نے تو ایسی تیزی دکھائی ہے کہ رسول اللہ کے مقام مقدس تک میں جسارت اور بے ادبی کی ہے اور یہاں تک کہ اس آیت کو آپ سے صدور گناہ کے امکان کی دلیل قرار دیا ہے ان لوگوں نے کم از کم اتنا ادب بھی ملحوظ نہیں رکھا جو خود خدائے عظیم اپنے پیغمبر کے بارے میں کیا ہے کہ پہلے ”عفو “ کی بات کی گئی ہے پھر تنبیہ کی گئی ہے اس طرح سے یہ لوگ عجیب گمراہی میں جاپڑے ہیں ۔

انصاف یہ ہے کہ اس آیت میں پیغمبر اکرم سے گناہ کے صدور کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے یہاں تک ظاہر آیت میں بھی ایسی کوئی دلیل نہیں کیوں کہ تمام قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ رسول اللہ چاہے انہیں اجازت دیتے یا نہ دیتے منافقین کا وہ گروہ جنگ تبوک میں شرکت نہ کرتا اور بالفرض شرکت کرتا بھی تو مسلمانوں کے کسی کام نہ آتا بلکہ ان کی مشکلات میں اضافہ ہی کرتا جیسا کہ بعد آیت میں ہے :( لو خرجوا فیکم مازادواکم الّاخبالا )

اگر وہ تمہارے ساتھ چل پڑتے تو شر ، فساد، چغلخوری، سخن چینی اور نفاق پیدا کرنے کے سوا کچھ بھی نہ کرتے ( توبہ: ۴۷)

اس لئے اگر پیغمبر اکرم نے انہیں اجازت دے دی تو مسلمانوں کا کائی مفاد ضائع نہیں ہو، صرف جو بات اس میں موجود تھی وہ یہ تھی جکہ اگر آپ انہیں اجازت نہ دیتے تو ان کی قلعی ذرا پہلے کھل جاتی اور لوگ پہلے ہی ان کی کیفیت سے آشنا ہوجاتے لیکن اس کام سے کوئی ارتکاب گناہ نہیں ہوا، شاید اسے فقط”ترک اولیٰ“ کہا جا سکے اس معنی میں کہ ان حالات میں اور منافقین کے قسم کھانے اور اصرار کرنے کی صورت میں پیغمبر اکرم کی طرف سے انہیں اجازت دینا اگرچہ کوئی برا کام نہ تھا مگر اذن نہ دینا اس سے بہتر تھا تاکہ یہ لوگ جلدی پہچانے جائیں ۔

آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ تنبیہ اور مذکورہ خطاب کنایہ کے طور پر ہو، یہاں تک کہ ادس میں ترک اولیٰ بھی نہیں ہے بلکہ یہاں مراد یہ ہے کہ منافقین میں روح منافقت کو ایک لطیف سرائے میں کنایہ کی صورت میں بیان کیا جائے ۔

اس امر کو اس مثال میں واضح کیا جاسکتا ہے، فرض کیجئے ایک ظالم چاہتا ہے کہ آپ کے بیٹے کے منہ پر طمانچہ رسید کرے، آپ کا ایک دوست اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہت تو آپ کو نہ صرف اس کام پر دکھ نہیں ہوگا بلکہ آپ خوش بھی ہوں گے لیکن آپ ظالم کے باطن کی بدی ثابت کرنے کے لئے آپ غصے کے انداز میں اپنے دوست سے گیں کہ تم نے اسے چھوڑا کیوں نہیں کہ وہ طمانچہ مارتا تاکہ تمام لوگ اس سنگدل کو منافق کو پہچان لیتے، آپ کا مقصد اس بیان سے صرف اس کی سنگدلی اور نفاق کا اثبات ہے جب کہ ظاہرا یہ دفاع کرنے والے دوست کی سرزنش ہے ۔

اور بات جو آیت کی تفسیر میں باقی رہ جاتی ہے یہ ہے کہ کیا رسول اللہ منافقین کو نہیں پہچانتے تھے کہ خدا ئے تعالیٰ کہہ رہا ہے:چاہیئے یہ تھا کہ تم انہیں اجازت نہ دیتے تا کہ ان کی کیفیت تمہارے لئے واضح ہوجاتی ۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو پیغمبر اکرم معمول کے علم کے طریقے سے اس گروہ کی کیفیت سے آشنا نہیں تھے اور علم غیب موضوعات کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ معمول کے مدارک سے ان کی کیفیت واضح ہونا چاہیے ۔

دوسری بات یہ کہ مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ پیغمبر جان لیں بلکہ ہوسکتا ہے کہ مقصد یہ ہو کہ تمام مسلمان آگاہ ہوجائیں اگرچہ روی سخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے ۔

اس کے بعد مومنین اور منافقین کی نشانیوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ جو خدا اور روزآخر ت پر یقین رکھتے ہیں وہ اپنے مالوں اور اپنی جان سے راہ خدا میں کہاد کرنے سے تم سے کبھی رخصت نہیں چاہیں گے( لَایَسْتَاٴْذِنُکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اٴَنْ یُجَاهِدُوا بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ ) ۔

بلکہ جب فرمان جہاد صادر ہوگا بغیر لیت ولعل اور سستی کے اس کی طرف بھاگیں گے اور یہی خدا پر ایمان، اس کی طرف سے عائد ذمہ داریوں پر ایمان اور آخرت کی عدالت پر ایمان انہیں اس راہ کی طرف دعوت دیتا ہے ۔

یہ ایمان عذر تراشی اور بہانہ جوئی کی راہ ان کے سامنے بند کردیتا ہے ۔

خدا پرہزگاروں کو اچھی طرح سے پہچانتا ہے اور ان کی نیت اور اعمال سے مکمل طور پر آگاہ ہے( وَاللهُ عَلِیمٌ بِالْمُتَّقِینَ ) ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے: میدان جہاد میں شرکت نہ کرنے کی اجازت تم سے وہی لوگ طلب کرتے ہیں جو خدا اور روز جزا پر ایمان نہیں رکھتے( إِنَّمَا یَسْتَاٴْذِنُکَ الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِر ) ، ان کے عدم ایمان ہی پر زور دیتے ہوئے مزید کہا گیا ہے: وہ ایسے لوگ ہیں جن کے دل مضطرب اور تردد میں گرفتار ہیں( وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ ) ۔

لہٰذاوہ اس شک اور تردد کی بنا ء پر کبھی قدم آگے بڑھاتے ہیں اور کبھی پلٹ آتے ہیں اور ہمیشہ تحیر وسرگردانی میں رہتے ہیں اور اسی وجہ سے بہانے تراشنے اور پیغمبر سے اجازت حاصل کرنے کے منتظر رہتے ہیں( فَهُمْ فِی رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُون ) ۔

مندرجہ بالا صفات اگر چہ فعل مضارع کی صورت میں ذکر ہوئیں ہیں لیکن ان کا مقصد منافقین اور مومنین کی صفات وحالات بیان کرنا ہے اور اس میں ماضی ، حال اور مستقبل کا کوئی فرق نہیں ۔

بہرحال مومنین اپنے ایمان کے زیر سایہ عزم صمیم اور غیر متزلزل ارادہ رکھتے ہیں ، انہوں نے راستے کو روشنی میں دیکھا ہے، ان کا مقصد واضح اور ہدف متعین ہے ، اسی بنا پر وہ عزم راسخ کے ساتھ بلاتردد سیدھے قدموں سے آگے کی طرف جاتے ہیں اور منافقین کا ہدف چوں کہ تارک اور غیر مشخص ہے وہ ھیرت وسرگردانی میں گرفتار ہیں اور وہ ہمیشہ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے سے فرار کے لئے بہانے تراشتے رہتے ۔

یہ دونوں نشانیاں صدر اسلام اور میدان تبوک کے مومنین اور منافقین سے مخصوس نہیں ہیں بلکہ آج بھی شچے مومنین کو جھوٹے دعویداروں کی انہیں دو صفات کو دیکھ کر پہچانا جاسکتا ہے، مومن شجاع اور مصمم ارادے والا ہوتا پے اور منافق بزدل، ڈر پوک، متحیر اور بہانہ تراش ہوتا ہے ۔

آیات ۴۶،۴۷،۴۸،

۴۶( وَلَوْ اٴَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاٴَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَکِنْ کَرِهَ اللهُ انْبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِیلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِینَ )

۴۷( لَوْ خَرَجُوا فِیکُمْ مَا زَادُوکُمْ إِلاَّ خَبَالًا وَلَاٴَوْضَعُوا خِلَالَکُمْ یَبْغُونَکُمْ الْفِتْنَةَ وَفِیکُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ )

۴۸( لَقَدْ ابْتَغَوْا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَکَ الْاٴُمُورَ حَتَّی جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ اٴَمْرُ اللهِ وَهُمْ کَارِهُونَ )

ترجمہ

۴۶ ۔ اگر وہ (سچ کہتے تھے اور ) چاہتے تھے (کہ میدان جہاد کی طرف) نکلیں تواس کے لئے وسیلہ فراہم کرتے لیکن خدا ان کے نکل پڑنے کو ناپسند کرتا تھا لہٰذا اپنی توفیق ان سے سلب کرلی اور انہیں (اس کام سے) روک لیا اور ان سے کہا گیا کہ قائدین (جو بچوں ، بوڑھوں اور بیماروں پر مشتمل ہیں ) کے ساتھ بیٹھیں رہو۔

۴۷ ۔ اگر تمہارے ساتھ (میدان جہاد کی طرف) نکل پڑتے تو اس طرح وہ شک و تردد کے سوا تمہارے لئے کسی چیز کا اضافہ نی کرتے اور بہت جلدی تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کرتے (اور تفرقہ اورنفاق پیدا کرتے) اور تمہارے درمیان (سست اور کمزور) افراد ہیں جو ان کی بات کو زیادہ قبول کرنے والے ہیں اور خدا ظالموں سے باخبر ہے ۔

۴۸ ۔انہوں نے اس سے قبل بھی فتنہ انگیزی کے لئے اقدام کیا ہے اور تمہارے لئے کئی ایک کام دیگر گوں کئے ہیں (اور انہیں خراب کیا ہے) یہاں تک کہ حق آپہنچا اور خدا کا فرمان آشکار ہوا( اور تم کامیاب ہوگئے) جب کہ وہ اسے ناپسند کرتے تھے ۔

تفسیر

ان کا نہ ہونا ہونے سے بہتر تھا

گذشتہ آیات میں فرمایا گیا تھا:( واللّٰه یعلم انهم لکٰذبون ) ۔اور اللہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں ۔

زیر نظر آیات میں اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئے ان کے جھوٹ اور افتراء کی یک اور نشانی بیان کی گئی ہے ۔ فرمایا گیا ہے:یہ اگر سچ کہتے ہیں اور جہاد میں شرکت کے لئے تیار ہیں اور صرف تمہارے اذن کے منتظر ہیں تو انہیں چاہیے کہ جہاد کے تمام وسائل ہتھیار، سواری اور جو کچھ ان کی طاقت میں ہیں اسے فراہم کریں ، جب کہ ان میں تو ایسی کوئی آمادگی نظر نہیں آتی( وَلَوْ اٴَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاٴَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً ) ۔، یہ تارک دل اعر بے ایمان افراد ہیں کہ خدا جن کو جہاد کے پر افتخار میدان میں ناپسند کرتا ہے لہٰذا اس نے اپنی توفیق ان سے سلب کی ہے اور انہیں باہر نکلنے سے باز رکھا ہے( وَلَکِنْ کَرِهَ اللهُ انْبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ ) ۔(۱)

اس بارے میں یہ گفتگو کس طرف سے ہے خدا کی طرف سے یا پیغمبر کی طرف سے یا یہ خود ان کے اپنے نفس اور باطن کی آواز ہے، مفسرین میں اختلاف ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ ایک تکوینی حکم ہے جو ان کے تاریک اور گندے باطن سے اٹھا ہے اور ان کے فاسد عقیدے اور برے اعمال کا تقاضا ہے ۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مقتضائے حال کو امر یا نہی کی صورت میں لایا جاتا ہے ۔ مندرجہ بالا آیت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر عمل اور نیت کا ایک اقتضاء ہے جو خوامخواہ انسان کو دامنگیر ہوتا ہے اور تمام لوگ اس کی اہلیت نہیں رکھتے کہ وہ بڑے کاموں اور راہ خدا میں قدم اٹھائیں ، یہ توفیق خدا ایسے نصیب کرتا ہے جن میں نیت کی پاکیزگی، آمادگی اور خلوص ہوتا ہے ۔

بعد والی آیت میں قرآن اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ایسے لوگوں کا میدان جہاد میں شریک نہ ہوبا نہ صرف مقام افسوس نہیں بلکہ شاید خوشی کا مقام ہے کیوں کہ وہ نہ فقط یہ کہ کوئی مشکل دور نہیں کرتے بلکہ اس نفاق، بے ایمانی اور اخلاقی انحراف کی روح کی وجہ سے نئی مشکلات کا باعث ہوتے ہیں ۔

در اصل یہاں مسلمانوں کو ایک عظیم درس دیا گیا ہے کہ جب کبھی بھی بڑے لشکر اور زیادہ تعداد کی فکر میں نہ رہیں بلکہ اس فکر میں رہیں کہ مخلص اور با ایمان افراد کا انتخاب کیا جائے چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو۔ مسلمانوں کی لئے کل بھی یہی درس تھا، آج بھی یہی درس ہے اور آئندہ بھی یہی درس ہوگا ۔

پہلے فرمایا گیا ہے: اگر وہ تمہارے ساتھ (تبوک کے) روانہ ہوتے تو ان کا پہلا منحوس اثر یہ ہوتا کہ وہ اضطراب اور شک و تردد کے علاوہ تم میں کسی چیز کا اضافہ نی کرتے( لَوْ خَرَجُوا فِیکُمْ مَا زَادُوکُمْ إِلاَّ خَبَالًا ) ۔

”خبال“ کا معنی ہے ”اضطراب اور تردد“ اور ’خبل“ (بروزن”اجل“) جنون کے معنی میں ہے اور”خبل“ (بروزن”طبل“) اعضاء کے فاسد ہونے کے معنی میں ہے ۔ اس بنا پر اس فاسد باطن جو شک وتردد و بزدلی کی آماجگاہ ہے کے ساتھ اگر وہ میدان میں آجاتے تو سپاہ اسلام میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور فساد پھیلانے کے سوا اور کچھ نہ کرتے ۔ علاوہ ازیں وہ بڑی سرعت سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ افراد لشکر میں نفوذ حاصل کریں ، نفاق وتفرقہ پیدا کریں اور اتحاد کے رشتوں کو کاٹ دیں( وَلَاٴَوْضَعُوا خِلَالَکُمْ یَبْغُونَکُمْ الْفِتْنَةَ ) ۔(۲)

اس کے بعد مسلمانوں کو خطرے سے متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ متوجہ رہیں کہ کمزور ایمان والاے افراد تمہارے درمیان موجود ہیں جو ان منافقوں کی باتوں سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں( وَفِیکُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ) ”سماع “ اس شخص کو کہتے ہیں جس میں پذیرائی اور شنوائی کی حالت زیادہ ہو اورجو تحقیق اور غور وخوض کے بغیر ہر بات کا اعتبار کرلے لہٰذا قوی ایمان مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کمزور گروہ پر نظر رکھیں کہ کہیں وہ گرگ صفت منافقین کا لقمہ نہ بن جائیں ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ”سماع“ جاسوس کے معنی میں ہو یعنی تمہارے درمیان کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو منافقین کے لئے جاسوسی کرتے ہیں ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :”خدا ستم گروں کو پہچانتا ہے“ وہ جو علی الاعلان اور وہ جو چھپ کر اپنے اوپر یا معارے پر ظلم کرتے ہیں ، اس کی دید گاہ علم سے مخفی نہیں ہیں( وَاللهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ )

اگلی آیت میں پیغمبر اکرم کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ یہ منافقین سم پاشی اور تخریب کاری میں مشغول ہیں ، یہ پہلے بھی ایسی کاروائیوں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں اور ابھی بھی اپنے مقصد کے لئے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں( لَقَدْ ابْتَغَوْا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ ) ۔

یہ جنگ احد کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ جس میں عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی راستے ہی سے پلٹ آئے تھے اور رسول اللہ کی مدد سے انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا یا دیگر مواقع کی طرف اشارہ ہے کہ جن میں انہوں نے رسول اللہ کی ذات یا مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں کہ جن کا ذکر تاریخ اسلام میں موجود ہے ۔

انہوں نے تمہارے بہت سے کام خراب کئے اور سازشیں کیں تاکہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈال دیں اور انہیں جہاد سے باز رکھیں اور تمہارے ارد گرد کوئی باقی نہ رہے( وَقَلَّبُوا لَکَ الْاٴُمُورَ ) ، لیکن ان کی سازش اور کوشش کا کوئی اثر نہ ہوا اور ان سب کی سازشیں نقش بر آب ہوگئیں اور ان کا وار خالی گیا”آخر کارفتح حاصل ہوئی اور حق واضح ہوگیا“( حَتَّی جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ اٴَمْرُ اللهِ ) ، ” جب کہ وہ تمہاری پیشرفت اور کامیابی کو ناپسند کرتے تھے( وَهُمْ کَارِهُونَ ) ، لیکن پرورگار کے ارادہ اور مشیت کے مقابلے میں بندوں کی خواہش اور ارادہ کچھ بھی اثر نہیں رکھ سکتا، خدا چاہتا تھا کہ تمہیں کامیاب کرے اور تیرے دین کو ساری دنیا تک پہنچائے اور جتنی بھی رکاوٹیں ہوں انہیں راستے سے ہٹا دے، آخر اس نے یہ کام کردکھایا ۔

اہم بات یہ ہے کہ ہم جانیں کہ جو کچھ مندرجہ بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے دوسرے مطالب کی طرح پیغمبر اکرم کے زمانے سے مخصوص نہیں ہے، ہرمعاشرے میں ہمیشہ منافقین کا ایک گروہ موجود ہوتا ہے جو کوشش کرتا ہے کہ حساس اور تاریخ ساز لمحات میں زہریلی باتوں کے ذریعے لوگوں کے افکار خراب کردے، وحدت کی روح کا خاتمہ کردے اور ان کے نظریات میں شکوک وشبہات پیدا کردے لیکن اگر معاشرہ بیدار ہو تو مسلم ہے کہ نصرت الٰہی سے ان کی تمام سازشیں اور منصوبہ بندیاں بے اثر ہوجائیں گی اور ان کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے، کیوں کہ اس نے اپنے دوستوں سے کامیابی کا وعدہ کر رکھا ہے، البتہ شرط یہ ہے کہ مسلمان مخلصانہ جہاد کریں اور ہوشیاری کے ساتھ ان کے داخلی دشمنوں پر نظر رکھیں ۔

____________________

۱۔” ثبطھم“”تثبیط“ کے مادہ سے ہے اور یہ انجام کار سے روکنے کے معنی میں ہے ۔

۲ ”اوضعوا“ ”ایضاع“ کے مادہ سے حرکت میں تیزی کے معنی میں ہے اور یہاں سپاہ اسلام میں نفوذ میں تیزی کے مفہوم میں ہے، نیز ”فتنہ“یہاں اختلاف اور تفرقہ کے معنی میں ہیں ۔