تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27681
ڈاؤنلوڈ: 2597


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27681 / ڈاؤنلوڈ: 2597
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۱۸۲،۱۸۳

۱۸۲( وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُونَ ) .

۱۸۳( وَاٴُمْلِی لَهُمْ إِنَّ کَیْدِی مَتِینٌ ) .

ترجمہ

۱۸۲ ۔ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہم تدریجاً انھیں اس طریقے سے سزادیں گے وہ نہیں جانتے ۔

۱۸۳ ۔ اور انھیں ہم مہلت دیتے ہیں (تاکہ ان کی سزا زیادہ دردناک ہوجائے) کیونکہ میرا منصوبہ قوی (اور حساب و کتاب کے مطابق) ہے (اور کوئی شخص اس سے فرار کی قدرت نہیں رکھتا)

تدریجی سزا

اس بحث کے بعد جو گذشتہ آیات میں دوزخیوں کے بارے میں ہوئی تھی ۔ان دو آیات میں خدا کی طرف سے سزا کا ذکر ہے جو ایک سنت کے طور پر بہت سے سرکش ۔گنہگاروں کودی جاتی ہے اور یہ وہی سزا ہے جسے ”عذاب استدراج“ یا ”تدریجی سزا “کہتے ہیں ۔

”استدراج“ قرآن میں دو مواقع پر آیا ہے ۔ ایک زیر نظر آیت میں اور دوسرا سورہ ”قلم“ کی آیت ۴۴ میں ، دونوں مواقع پر ”استدراج“کا استعمال آیاتِ الٰہی کا انکار کرنے والوں کے لئے ہوا ہے ۔

لغت میں ”استدراج“ کے دومعانی ہیں : ایک یہ کہ کسی چیز کو تدریجاً اور آہستہ آہستہ لینا (کیونکہ یہ لفظ ”درجہ“ سے اخذ کیا ہے جو سیڑھی کے ایک قدم کے معنی میں ہے جس طرح انسان اوپر چڑھنے اور نیچے اتر نے یا عمارت کے نچلے حصّوں سے اوپر کی طرف جاتے ہوئے سیڑھی کے درجوں یا قدموں سے فائدہ اتھاتا ہے اسی طرح جب کسی چیز کو تدریجاً اور مرحلہ بمرحلہ لیں یا گرفتار کریں تو اس عمل کو استدراج کہتے ہیں ) استدراج کا دوسرا معنی ہے لپیٹنا اور تہ کرنا ۔ جس طرح کاغذوں کے ایک پلندے کو لپیٹتے ہیں (ان دونوں معانی ایک کلی اور جامع مفہوم ”انجام تدریجی“) کی ہی ترجمانی کرتے ہیں ۔

استدراج کا معنی واضح ہوجانے کے بعد ہم آیت کی تفسیر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں خداوند عالم پہلی آیت میں فرماتا ہے: جنہوں نے ہماری آیات کی تذلیل کی اور انکار کیا تدریجاً اور آہستہ آہستہ اس راستے سے کہ جسے وہ نہیں جانتے ہم سزا کے پھندے میں انھیں گرفتار کرلیں گے اور ان کی زندگی (کی بساط) کو لپیٹ دیں گے( وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُونَ ) ۔ دوسری آیت میں تاکید مطلب کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اس طرح نہیں کہ جلد بازی میں ایسے افراد کو ہم فوراً سزا دے دیں بلکہ انھیں ہم کافی مہلت اور وقت دیتے ہیں تاکہ وہ واپس سیدھے راستے پر آجائیں اور ہوش میں آجائیں اور جب وہ نہیں سمجھتے تو انھیں گرفتار کرتے ہیں( وَاٴُمْلِی لَهُم ) ۔ کیونکہ جلد بازی اور تیزی کرنا تو ان لوگوں کا کام ہے جو کافی قدرت نہیں رکھتے ۔ اور انھیں ڈر ہوتا ہے کہ موقع ان کے ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔ ”لیکن میرا طریقہ کار قوی ہے اور سزا اس طرح منصوبہ کے مطابق ہوتی ہے کہ کسی شخص میں اس سے فرار کی قدرت نہیں “( إِنَّ کَیْدِی مَتِینٌ ) .) ۔ ”متین“ قوی اور شدید کے معنی میں ہے اور اصل میں ”متن“ سے لیا گیا ہے کہ جو اس مضبوط پٹھے کو کہتے ہیں جو پشت پر ہوتا ہے ۔

”کید “اور ”مکر “ہم معانی ہیں اورجس طرح سورہ آلِ عمران کی آیت ۵۴( جلد ۲) میں بیان کیاگیاہے ”مکر“لغت میں چارہ جوئی ، باز رکھنے اور کسی کے مقصد تک پہنچنے کے معنی میں ہے اور ”تکلیف دہ سازشیں “ والا معنی جو آجکل کی فارسی میں پایا جاتا ہے وہ اس کے عربی مفہوم میں نہیں ہے ۔

”استدراجی سزا“ کے بارے میں کہ جس کی طرف اوپر والی آیت میں اشارہ ہوا ہے اور دوسری آیات قرآن اور احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے توضیح یہ ہے کہ خدا گنہگاروں اور منہ زور سرکشوں کو ایک سنت کے مطابق فوراً سزا نہیں دیتا بلکہ نعمتوں کے روازے ان پر کھول دیتا ہے تو وہ زیادہ سرکشی دکھاتے ہیں خدا کی نعمتوں کو ضرورت سے زیادہ اکٹھا کر لیتے ہیں ۔ اس کے دو مقاصد ہوتے ہیں یا تو یہ نعمتیں ان کی اصلاح اور سیدھے راستے پر آنے کا سبب بن جاتی ہیں اور اس موقع پر ان کی سزا دردناک مرحلہ پر پہنچ جاتی ہے کیونکہ جب وہ خدا کی بے شمار نعمتوں اور عنائتوں میں غرق ہوجاتے ہیں تو خدا ان سے وہ تمام نعمتیں چھین لیتا ہے اور زندگی کی بساط لپیٹ دیتا ہے ایسی سزا بہت ہی سخت ہے ۔

البتہ یہ معنی اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ صرف لفظ استدراج میں پنہان نہیں ہے بلکہ (من حیث لا یعلمون) کی شرط کی طرف متوجہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے ۔

بہر حال اس آیت میں تمام گنہگاروں کے لئے تنبیہ ہے کہ وہ عذاب الٰہی کی تاخیر کو اپنی پاکیزگی اور راستی یا پروردگار کی کمزوری پر محمول نہ کریں اور وہ عنایات اور نعمتیں جن میں وہ غرق ہیں انھیں خدا سے اپنے تقرب سے تعبیر نہ کریں ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو کامیابیاں اور نعمتیں انھیں ملتی ہیں ۔ پروردگار کی استدراجی سزا کا پیش خیمہ ہوتی ہیں ۔ خدا انھیں اپنی نعمتوں میں محو کردیتا ہے اور انھیں مہلت دیتا ہے انھیں بلند سے بلندتر کرتا ہے لیکن آخر کار انھیں اس طرح زمین پر پٹختا ہے کہ ان کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے ۔ اور ان کے تمام کاروبار زندگی اور تاریخ کو لپیٹ دیتا ہے ۔

امیرالمومنین حضرت علی (علیه السلام) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں ۔

انهُ من وسع علیه فی ذات یده فلم یرهُ ذٰلک استدراجاً فقد امن مخوفا

”وہ شخص کہ جسے خدا بے بہا نعمات اور وسائل دے اور وہ اسے استدراجی سزا نہ سمجھے تو وہ خطرے کی نشانی سے غافل ہے ۔“(۱)

نیز حضرت علی (علیه السلام) سے کتاب ”روضہ کافی“ میں نقل ہوا ہے آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

”ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں کوئی چیز حق سے زیادہ پوشیدہ اور باطل سے زیادہ ظاہر اور خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنے سے زیادہ نہیں ہوگی ۔“

یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:

”اس زمانے میں کچھ افراد ایسے ہوں گے کہ صرف قرآن کی ایک آیت سن کر (اس کی تحریف کریں گے) اور خدا کے دین سے نکل جائیں گے اور ہمیشہ وہ ایک حاکم کے دین کی طرف اور ایک شخص کی دوستی سے دوسرے کی دوستی کی طرف اور ایک حکمران کی اطاعت سے دوسرے حکمرانکی اطاعت کی طرف اور ایک کے عہد و پیمان سے دوسرے کی طرف منتقل ہوتے رہیں گے اور آخر کار ایسے راستے سے کہ جس کی طرف ان کی توجہ نہیں ، پروردگار کی استدراجی سزا میں گرفتار ہوجائیں گے ۔“(۲)

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

کم من مغرو ر بما قد انعم اللّٰه علیه و کم من مستدرج یستر اللّٰه علیه و کم من مفتون بثناء الناس علیه .

”کتنے لوگ ایسے ہیں جو پروردگار کی نعمتوں کی وجہ سے مغرور ہوجاتے ہیں اور کتنے گنہگار ایسے ہیں جن کے گناہوں پر خدا نے پردہ ڈال رکھا ہے لیکن و گناہ کو جاری رکھتے ہوئے سزا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں کہ لوگوں کی خوشامد سے دھوکا کھا جاتے ہیں ۔“(۳)

نیز امام جعفر صادق(علیه السلام) سے مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے ارشاد فرمایا:

ھو العبد یذنب الذنب فتجدد لہ لنعمة معہ تلھیة تلک النعمة عن الاستغفار عن ذٰلک الذنب۔

”اس آیت سے مراد گنہگار بندہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے اور خدا اسے اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے (کہ شاید وہ سدھر جائے) لیکن وہ اس نعمت کو اپنی اچھائی کے حساب میں ڈال لیتا ہے اور وہ اسے گناہ سے توبہ کرنے کی بجائے غفلت میں ڈال دیتی ہے ۔“(۴)

نیز اسی امام (علیه السلام) سے کتاب کافی میں اس طرح نقل ہوا ہے:

ان اللّٰه اذا اٴراد بعبد خیراً فاذنب ذنباً اتبعه بنقمة و یذکره الا ستغفار و اذا اٴراد بعبد شراً فاذنب ذنبا اتبعه بنعمة لینسیه الاستغفار و یتمادی بها و هو قوله عزوجل سنستد رجهم من حیث لا یعلمون بالنعم عند المعاصی ۔(۴)

”جب خدا کسی بندے کی خیر چاہتا ہے تو جب وہ گناہ کرتا ہے تو (فوراً) اسے سزادے دیتا ہے تاکہ وہ توبہ کو یاد رکھے اور جب کسی بندے کی برائی (اس کے اعمال کے نتیجہ میں ) چاہتا ہے تو جب وہ گناہ کرتا ہے تو اسے نعمت عطا کرتا ہے تاکہ وہ استغفار کو بھول جائے اور اس (گناہ) کو جاری رکھے ۔“

اور یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

( سنستدرجهم من حیث لا یعلمون )

یعنی نعمتوں کے ذریعہ گناہوں کے وقت تریجاً ایسے طریقے سے کہ جسے وہ نہیں جانتے ہم انھیں سزا میں مبتلا کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ نوالثقلین جلد ۲ صفحہ ۱۰۶.

۲۔نورالثقلین جلد ۲ صفحہ ۱۰۶.

۳۔نورالثقلین جلد ۲ صفحہ ۱۰۶.

۴۔تفسیر برہان جلد ۲ صفحہ ۵۳.

آیات ۱۸۴،۱۸۵،۱۸۶

۱۸۴( اٴَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوا مَا بِصَاحِبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ نَذِیرٌ مُبِینٌ ) .

۱۸۵( اٴَوَلَمْ یَنظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ وَاٴَنْ عَسیٰ اٴَنْ یَکُونَ قَدْ اقْتَرَبَ اٴَجَلُهُمْ فَبِاٴَیِّ حَدِیثٍ بَعْدَهُ یُؤْمِنُونَ ) .

۱۸۶( مَنْ یُضْلِلْ اللهُ فَلَاهَادِیَ لَهُ وَیَذَرُهُمْ فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ ) .

ترجمہ

۱۸۴ ۔ کیا وہ سوچتے نہیں کہ ان کا ہم نشین (پیغمبر خدا) پر کوئی جنون کے آثار نہیں ہیں (تو پھر وہ کس طرح ایسے بے ہودہ الزام اس پر لگاتے ہیں ) وہ تو صرف ان کو ڈرانے والا ہے (جو لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے) ۔

۱۸۵ ۔ کیا وہ آسمان و زمین کی حکومت میں جسے خدانے پیدا کیا ہے (توجہ سے عبرت کی) نظر نہیں ڈالتے (اور کیا اس میں بھی فکر نہیں کرتے کہ) شاید ان کی زندگی ختم ہونے کے قریب ہے ہے (اگر وہ اس واضح آسمانی کتاب پر ایمان نہ لائے) تو اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے ۔

۱۸۶ ۔ جسے خدا (اس کے برے اعمال کی پاداش میں ) گمراہ کردے تو پھر کوئی اسے ہدایت کرنے والا نہیں اور خدا انھیں ان کی بغاوت اور سرکشی میں چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ سرگرداں رہیں ۔

شان نزول

مفسرین نے بیان کیا ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم ابھی مکہ میں تھے تو ایک رات آپ صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور لوگوں کو ایک خدا کو ماننے اور اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی ۔ خصوصاً آپ نے تمام قبائل قریش کو پکارا اور انھیں خدا کی سزا سے ڈرایا یہاں تک کہ رات کا کافی حصّہ گزرگیا تو بت پرست کہنے لگے (ان صاحبهم قد جنّ بات لیلا یصوت الی الصباح ) ہمارا ساتھی پاگل ہوگیا ہے شام سے لے کر صبح تک پکارتا رہتا ہے اس موقع پر مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور انھیں منھ توڑ جواب دیا گیا ۔

باوجودیکہ اس آیت کی مخصوص شان نزول ہے، پھر بھی اس میں چونکہ پیغمبر کا تعارف اور اس کی تخلیق کا مقصد اور دوسری زندگی کے لئے تیاری کی دعوت ہے یہ گذشتہ مباحث سے تعلق رکھتی ہے جو دوزخی اور بہشتی گروہوں کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ۔

تہمت تراشیاں اوذر بہانہ سازیاں

اس آیت میں پہلے پیغمبر پر جنون کے الزام کے بارے میں بت پرستوں کی بے بنیاد بات کا خدا تعالیٰ اس طرح جواب دیتا ہے: کیا وہ اپنی سوچ بوجھ سے کام نہیں لیتے تاکہ جان لیں کہ ان کا ہم نشین (پیغمبر) میں کسی قسم کے جنون کے آثار نہیں( اٴَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوا مَا بِصَاحِبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ ) ۔(۱)

اس طرف اشارہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم ان کے درمیان کوئی اجنبی نہ تھے بلکہ ان کی اپنی اصطلاح میں ”صاحب“ یعنی دوست وہمسر تھے ۔چالیس سال سے زیادہ عرصہ سے ان میں آپ کا آنا جانا تھا، ہمیشہ انھوں نے آپ کے فکر وتدبّر کو دیکھا اور ہمیشہ دانشمندی کے آثار آپ میں مشاہدہ کئے، جو شخص اس دعوت سے پہلے معاشرے کے مدبّر ترین لوگوں میں شمار ہوتا تھا ۔ تو کس طرح انھوں نے اچانک اس پر یہ بہتنان لگادیا ۔ اس قسم کا بیہودہ الزام لگانے سے بہتر نہیں تھا کہ وہ سوچتے کہ ہوسکتا ہے وہ درست ہی کہہ رہا ہو اور دعوت حق کے لئے خدا نے ہی اُسے مامور کیا ہو۔ جس طرح اس پر الزام تراشی کے بعد قرآن کہتا ہے: ”وہ فقط واضح ڈارنے والا ہے جو اپنی قوم کو آنے والے خطرات سے خبردار کرتا ہے“( إِنْ هُوَ إِلاَّ نَذِیرٌ مُبِینٌ ) ۔ مذکورہ بالا دوسری آیت میں اس بیان کی تکمیل کے لئے عالمِ ہستی، آسمانوں اور زمین کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے: ”کیا وہ آسمان وزمین کی حکومت اور اُس مخلوق پر جسے خدا نے پیدا کیا ہے راستی کی نظر نہیں ڈالتے( اٴَوَلَمْ یَنظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ ) ۔ تاکہ وہ جان لیں کہ اس وسیع عالم کو بنانا اور اس میں حیرت انگیز نظام قائم کرنا فضول نہیں بلکہ اس کا کوئی مقصد تھا اور پیغمبر جو دعوت حق دیتے ہیں وہ در حقیقت اُسی مقصد خلقت کی تکمیل اور انسان کی تربیت وترقی کے مقصد کی ہی ایک کڑی ہے ۔

”مَلَکُوت“ در اصل ”ملک“ سے بنا ہے، جو حکومت اور مالکیت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس میں ”واو“ اور ”ت“ کا اضافہ تاکید اور مبالغہ کے لئے آتا ہے اور عام طور پر عالم ہستی پر خدا کی مکمل حکومت کے لئے بولا جاتا ہے اس عالم ہستی کے بہترین نظام پر نظر ڈالنا جو خدا کے ملک وحکومت کی وسعت رکھتا ہے ایک تو خداپرستی اور حق پر ایمان کو تقویت دیتا ہے ساتھ ہی اس عظیم ومنظم عالم میں ایک اہم مقصد بھی واضح ہوجاتا ہے ۔ دونوں باتیں انسان سے اس بات کا تقاضا کرتی ہیں اور اُسے خدا کے نمائندے اور اس کی رحمت کی جستجو پر ابھارتی ہیں تاکہ انسان اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا کرسکے ۔

اس کے بعد اُنھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے: کیا انھوں نے اس امر پر غور نہیں کیا کہ ہوسکتا ہے کہ ان کی زندگی کی آخری گھڑیاں آپہنچی ہوں اور اگر آج ایمان نہ لائے اور اس پیغمبر کی دعوت کو قبول نہ کیا اور جو قرآن اس پر نازل ہوا ہے اسے ان واضح نشانیوں کے باوجود تسلیم نہ کیا تو اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے( وَاٴَنْ عَسیٰ اٴَنْ یَکُونَ قَدْ اقْتَرَبَ اٴَجَلُهُمْ فَبِاٴَیِّ حَدِیثٍ بَعْدَهُ یُؤْمِنُونَ ) ۔

یعنی پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ان کی عمر جاودانی اور دائمی ہو، مہلت کی گھڑیاں تیزی سے گزررہی ہیں ، کوئی نہیں جانتا کہ کل زندہ ہوگا یا نہیں تو پھر ایسے میں آج اور کل کرنا اور مسائل کو پسِ پشت ڈالنا ہرگز دانشمندانہ کام نہیں ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ قرآن پر باوجود ان سب نشانیوں کے جو خدا کی طرف سے اس میں ہیں ، ایمان نہ لائے تو کیا اس سے برتر اور بالاتر کتاب کے انتظار میں ہیں ، کیا ممکن ہے کہ وہ کسی دوسری بات اور دعوت پر ایمان لے آئیں گے ۔

جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں زیرِ نظر آیت نے مشرکین کے لئے تمام راستے بند کردیئے ہیں ، ایک طرف سے انھیں رسول الله کی اعلانِ رسالت سے قبل کی عقل ودانش کی متوجہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اپ پر جنون کی تہمت لگاکر ان کی دعوت سننے سے فرار نہ کریں ، دوسری طرف سے انھیں نظام خلقت، خالق اور مقصدِ خلقت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے، تیسری طرف سے انھیں دنیا کی زندگی کے جلد گزرجانے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور چوتھی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس طرح کی واضح کتاب پر ایمان نہیں لائے تو کسی چیز پر بھی ایمان نہیں لائیں گے، کیونکہ اس سے بالاتر کا تصوّر نہیں ہوسکتا ۔

آخرکار زیرِ نظر آیات میں سے آخری آیت میں گفتگو کو یوں سمیٹا گیا ہے کہ: جسے خدا اُس کے قبیح اور دائمی بُرے اعمال کی وجہ سے گمراہ کردے اس کے لئے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے اور خداوندعالم انھیں اس طرح طغیان وسرکشی میں چھوڑدے گا تاکہ وہ حیران وسرگرداں رہیں( مَنْ یُضْلِلْ اللهُ فَلَاهَادِیَ لَهُ وَیَذَرُهُمْ فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ ) ۔

____________________

۱۔ جیسا کہ بزرگ اہل لغت نے کہا ہے: ”جنة“ جنون کے معنی میں ہے اور اس کا اصلی معنی پوشش ڈھاپنا اور حائل ہونا ہے گویا جنون کے وقت ایک پردہ عقل کے اوپر پڑجاتا ہے (مزید وضاحت کے لئے جلد پنجم) نمونہ صفحہ ۲۵۷ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

آیت ۱۸۷

۱۸۷( یَسْاٴَلُونَکَ عَنْ السَّاعَةِ اٴَیَّانَ مُرْسَاهَا، قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّی لَایُجَلِّیهَا لِوَقْتِهَا إِلاَّ هُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ لَاتَاٴْتِیکُمْ إِلاَّ بَغْتَةً یَسْاٴَلُونَکَ کَاٴَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللهِ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُونَ ) .

ترجمہ

۱۸۷ ۔ تجھ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب واقع ہوگی، کہہ دو : اس کا علم میرے پروردگار کو ہے اور اس کے علاوہ کوئی اس وقت کو واضح نہیں کرسکتا (لیکن قیامت کا قیام) آسمانوں اور زمین (تک) میں سخت (اہمیت کا حامل) ہے اور وہ تمھارے تعاقب میں نہیں آئے گی مگر یہ کہ اچانک اور ناگہانی طور پر (پھر وہ) تجھ سے یوں سوال کرتے ہیں گویا تو اس کے وقوع پذیر ہونے کے زمانے سے باخبر ہے ۔ کہہ دو: اس کا علم صرف خدا کے پاس ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے ۔

قیامت کب برپا ہوگی؟

جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے(۱) قریش نے چند آدمیوں کو مامور کیا کہ وہ نجران جائیں اور یہودی علماء سے ملیں (کیونکہ عیسائی کے علاوہ نجران میں یہودی بھی آباد تھے) ان کے ذمہ لگایا گیا کہ وہ ان سے پیچیدہ قسم کے سوالات پوچھ آئیں تاکہ وہ سوالات پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم کی خدمت میں پیش کئے جاسکیں (ان کا گمان تھا کہ رسولِ خدا ان کے جواب نہ دے پائیں گے) ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ قیامت کب برپا ہوگی ۔

جب انھوں نے یہ سوال رسول الله سے کیا تو زیرِ نظر آیت کے ذریعے اُنھیں جواب دیا گیا(۲)

تفسیر

اگرچہ آیت کے لئے مخصوص شان نزول بیان کی گئی ہے تاہم یہ قبل کی آیات سے واضح طور سے وابستہ ہے کیونکہ گذشتہ آیات میں مسئلہ قیامت کا ذکر تھا اور ساتھ اس کے لئے تیاری کو لازم وملزوم قرار دیا گیا ہے، فطری طور پر ایسی بحث کے بعد بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیامت کب آئے گی لہٰذا قرآن کہتا ہے: تجھ سے ساعت (روزقیامت) کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب آئے گی( یَسْاٴَلُونَکَ عَنْ السَّاعَةِ اٴَیَّانَ مُرْسَاهَا ) ۔

لفظ ”ساعت“ اگرچہ ”دنیا سے جانے کے آخری وقت“ کے مفہوم میں بھی آتا ہے لیکن زیادہ تر اور بقول بعض ہمیشہ قرآن مجید میں ”قیام قیامت“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، خاص طور پر اس سلسلے میں تاکید کرنے والے کچھ قرائن بھی ہیں جن کا ہم اس بحث کے ضمن میں ذکر کریں گے: مثلاً شانِ نزول کا جملہ ”متیٰ تقوم الساعة“ (یعنی قیامت کب برپا ہوگی) ۔

لفظ ”ایّان“، ”متی“ کے مساوی ہے اور زمانے کے بارے میں سوال کے لئے ہے ۔

”مرسیٰ“ اصطلاح کے مطابق مصدر میمی ہے ”آرساء“ کا ہم معنی ہے اور کسی چیز کے اثبات یا وقوع کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ اسی لئے مستحکم اور ثابت پہاڑوں کو جبال راسیات کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا ”اٴَیَّانَ مُرْسَاهَا “کا مفہوم ہے ”قیامت کس زمانے میں وقوع پذیر اور ثابت ہوگی“۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: اے پیغمبر! اس سوال کے جواب میں صراحت سے کہہ دو کہ یہ علم صرف پروردگار کے پاس ہے اور اس کے علاوہ کوئی اس وقت کا ظاہر نہیں کرسکتا( قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّی لَایُجَلِّیهَا لِوَقْتِهَا إِلاَّ هُوَ ) ۔

لیکن سربستہ طور پر اس کی دو نشانیاں ہیں ۔ پہلے فرمایا گیا ہے: قیامت کا برپا ہونا آسمانوں اور زمین میں ایک سخت معاملہ ہے( ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔اس سے سنگین اور سخت حادثہ اور کونسا ہوسکتا ہے کیونکہ آستانہ قیامت میں تمام آسمانی کرات ریزہ ریزہ ہوکر گرپڑیں گے، آفتاب بے نور ہوجائے گا، ماہتاب تاریک ہوجائے گا، ستارے اپنی روشنی سے محروم ہوجائیں گے اور ذرّارت عالم ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے ۔ ان میں سے جو کچھ بچے گا اس سے ایک نیا جہان معرضِ وجود میں آئے گا ۔(۳)

پھر ارشاد ہوتا ہے: تجھ سے یوں پوچھتے ہیں گویا تو قیامت کے زمانہ وقوع سے باخبر ہے( یَسْاٴَلُونَکَ کَاٴَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْهَا ) ۔(۴)

مزید ارشاد ہوتا ہے: ان کے جواب میں ”کہو کہ یہ علم صرف خدا کے پاس ہے لیکن بہت سے لوگ اس حقیقت سے آگاہی نہیں رکھتے“ کہ یہ علم اس ذاتِ پاک سے مخصوص ہے لہٰذا پے درپے اس کے متعلق سوال کرتے ہیں( قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللهِ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُونَ ) ۔

ہوسکتا ہے یہ سوال کیاجائے کہ یہ علم ذاتِ خدا سے کیوں مخصوص ہے اور کیوں کسی کو یہاں تک کہ انبیاء کو بھی اس سے آگاہ نہیں کیا گیا ۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وقوعِ قیامت سے عدم آگاہی سے اس کے عظیم موقع کے ناگہانی ہونے کا مقصد حاصل ہوتا ہے تاکہ لوگ کسی وقت بھی قیامت کو دور نہ سمجھیں اور ہمیشہ اس کے انتظار میں رہیں اور اس طرح سے اس موقع پر اپنے آپ کو نجات دلانے کے لئے تیار رہیں ۔ یہ عدم آگاہی تربیت نفوس، ذمہ داریوں کی طرف متوجہ ہونے اور گناہ سے پرہیز کرنے کے لئے مثبت اور واضح طور پر موثر ہے ۔

____________________

۱۔ تفسیر برہان: ج۲، ص۵۴.

۲۔ بعض مفسرین (مثلاً مرحوم طبرسی) نے اس آیت کی شانِ نزول کے بارے میں ذکر کی ہے کہ وہ خدمت پیغمبر میں آئے اور انھوں نے قیامت کے متعلق سوال کیا لیکن سہ سورت چونکہ مکّہ میں نازل ہوئی ہے اور وہاں پیغمبر اکرم کا یہودیوں سے سابقہ نہیں پڑتا تھا لہٰذا یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے ۔

۳۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس جملے مراد یہ ہے کہ قیامت کے بارے میں جاننا اور آگاہی حاصل کرنا اہلِ آسمان وزمین کے لئے ثقیل اور بوجھل ہے ۔ لیکن حق وہی ہے جو اوپر بیان کیا جاچکا ہے کیونکہ لفظ ”علم“ اور ”اھل“ کو محذوف مانن آیت کے ظاہر کے خلاف ہے ۔

۴۔ ”حفی“ اصل میں ایسے شخص کو کہتے ہیں جو پے درپے کسی چیز سےمتعلق سوال کرے اور اصرار سے اس کے پیچھے پڑا رہے اور چونکہ سوال میں اصرار انسان کے علم میں پیش رفت کا باعث ہوتا ہے اس لئے کبھی یہ لفظ ”عالم“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

آیت ۱۸۸

۱۸۸( قُلْ لَااٴَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَاضَرًّا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ وَلَوْ کُنتُ اٴَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِی السُّوءُ إِنْ اٴَنَا إِلاَّ نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ) .

ترجمہ

۱۸۸ ۔ کہہ دو: میں اپنے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر جو کچھ خدا چاہے (اور پوشیدہ و غیب اسرار سے بھی باخبر نہیں ہوں مگر وہ کہ جس کا خدا ارادہ کرے) اور اگر میں غیب سے باخبر ہوتا تو اپنے لئے بہت سے منافع فراہم کرلیتا اور مجھے کوئی برائی (اور نقصان) نہ پہنچتا ۔ میں تو صرف ایمان لانے والوں کے لئے (عذاب الٰہی سے) ڈرانے والا اور (اس کی عظیم جزاؤں کی) خوشخبری دینے والا ہوں ۔

شان نزول

بعض مفسرین نے مثلاً مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں نقل کیا ہے کہ اہل مکہ نے پیغمبر اسلام سے کہا کہ اگر تم خدا سے ارتباط رکھتے ہو تو کیا تمہارا پروردگار آئندہ اجناس کی قیمتوں میں ہونے والی کمی بیشی سے باخبر نہیں کرتا تا کہ اس طرح سے تم اپنے فائدے میں جو کچھ ہو اسے مہیا کرلو اور جو کچھ تمھارے نقصان میں ہو اس سے بچ جاؤ یا پھر وہ تمھیں مختلف علاقوں کی خشک سالی یا سیرابی سے آگاہ نہیں کرتا تاکہ خشک سالی کے دوران پر برکت زمینوں کی طرف کوچ کرجاؤ اس موقع پر زیر نظر آیت نازل ہوئی ۔

پوشیدہ اسرار صرف خدا جانتا ہے

اس آیت کے لئے بھی اگر چہ ایک خاص شان نزول مذکورہے تا ہم گذشتہ آیت سے اس کا ارتباط واضح ہے کیونکہ گذشتہ آیت میں اس سلسلے میں تھی کہ قیامت کے برپا ہونے کا وقت خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور زیر نظر آیت میں علم غیب کی خدا کے علاوہ کسی کے لئے کاملاً نفی کی گئی ہے ۔

پہلے جملے میں پیغمبر اکرم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے: ان سے کہہ دو کہ اپنے بارے میں میں کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر وہ کہ جو خدا چاہے( قُلْ لَااٴَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَاضَرًّا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ ) ۔

اس میں شک نہیں کہ ہر شخص اپنے لئے نفع حاصل کرسکتا ہے یا ضرر اپنے سے دور کرسکتا ہے لیکن اس کے باوجود جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مندرجہ بالا آیت میں مطلقاً ہر بشر کی اس قدرت کی نفی کی گئی ہے اور یہ اس لئے ہے کہ درحقیقت انسان اپنے کاموں کے لئے اپنی طرف سے کوئی قدرت و طاقت نہیں رکھتا بلکہ تمام قدرتیں خدا کی طرف سے ہیں اور وہی ہے جس نے یہ قدرتیں انسانی اختیار میں دی ہیں ۔

دوسرے لفظوں میں تمام قدرتوں کا مالک اور عالم ہستی میں بالذات صاحب اختیار صرف خدا کی ذات پاک ہے اور باقی سب یہاں تک کہ انبیاء اور ملائکہ بھی اسی سے قدرت حاصل کرتے اور ان کی مالکیت اور قادریت بالغیر ہے الاماشاء اللہ (مگر وہ جو خدا چاہے اور میرے اختیار میں دے دے) یہ بھی اسی مطلب پر گواہ ہے ۔

قرآن مجید کی اور بہت سی آیات میں بھی نفع و نقصان اور سودوزیاں کی غیر خدا سے مالکیت کی نفی کی گئی ہے ۔ اسی بناء پر بتوں اور جو کچھ غیر خدا ہے اس کی پرستش سے منع کیا گیا ہے ۔

سورہ فرقان آیہ ۳ میں ہے ۔

( وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَایَخْلُقُونَ شَیْئًا وَهُمْ یُخْلَقُونَ وَلَایَمْلِکُونَ لِاٴَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَانَفْعًا )

انہوں نے خدا کے علاوہ اپنے لئے معبود قرار دے رکھے ہیں ، ایسے معبود جو کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں اور اپنے بارے میں سودوزیاں پر اختیار نہیں رکھتے (چہ جائیکہ دوسروں کے بارے میں کچھ کرنے پر قادر ہوں ) ۔

ہر مسلمان خدا کے علاوہ کسی کو بھی خالق، رازق اور نفع و نقصان کا مالک نہیں سمجھتا ۔ اسی لئے اگر وہ کسی سے کوئی چیز مانگتا بھی ہے تو یہ حقیقت اس کی نظر میں ہوتی ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ خدا کی طرف سے ہے (غور کیجئے گا) ۔

یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو لوگ انبیاء اور آئمہ کو کسی بھی کام میں وسیلہ قرار دینے کی نفی میں اس آیت کو دستاویز کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسے ایک قسم کا شرک سمجھتے ہیں در اصل اشتباہ کا شکار ہیں ، انھوں نے تصور کرلیا ہے کہ پیغمبر اور امام سے توسل کا مفہوم یہ ہے کہ انھیں خدا کے مقابلے میں مستقل اور سودوزیاں کا مالک سمجھا جائے حالانکہ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ پیغمبر اور امام خود سے کچھ نہیں رکھتے بلکہ جو کچھ چاہتے ہیں خدا سے چاہتے ہیں اس حالت میں ان سے توسل یا شفاعت و سفارش چاہنا تو عین توحید اور عین اخلاص ہے ۔ ”الاماشاء اللہ“ میں قرآن نے اسی مفہوم کی طرف اشارہ کیا ہے نیز ”( من ذالّذی یشفع عندهٓ الّا باذنه ) “ میں ”الا باذنہ“ بھی اسی طرف اشارہ ہے ۔

اس بناء پر دو گروہ توسل کے معاملے میں اشتباہ میں اشتباہ کا شکار ہیں ۔ ایک وہ جو پیغمبر یا امام کے لئے خدا کے مقابلے میں بالذات قدرت اور مستقل دستگاہ کے قائل ہیں اور یہ ایک قسم کا شرک اور بت پرستی ہے اور دوسرے وہ جو انبیاء اور آئمہ سے قدرت بالغیر کی نفی کرتے ہیں اور یہ بھی صریح آیات قرآن سے انحراف ہے ۔ راہِ حق یہ ہے کہ انبیاء اور آئمہ حکم خدا سے اس کے ہاں شفاعت کرتے ہیں اور متوسل ہونے والے کی مشکل کا حل خدا سے چاہتے ہیں ۔

یہ بات بیان کرنے کے بعد قرآن نے ایک اور اہم مسئلے کی نشاندہی کی ہے، یہ مسئلہ در اصل ایک گروہ نے پیغمبر اکرم سے پوچھا تھا جس کے جواب میں قرآن کہتا ہے: ان سے کہہ دو کہ میں غیب اور پوشیدہ اسرار سے آگاہ نہیں ہوں کیونکہ اگر اسرار نہاں سے آگاہ ہوتا تو اپنے لئے بہت سے منافع مہیا کرلیتا اور مجھے کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچتا( وَلَوْ کُنتُ اٴَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِی السُّوءُ ) (۱) کیونکہ جو شخص تمام مخفی اسرار سے آگاہ ہو وہ ان چیزوں کوانتخاب کرسکتا ہے جو اس کے لئے نفع بخش ہیں اور جن سے اس کا نقصان ہوسکتا ہے اس سے پرہیز کرے گا ۔

اس کے بعد اپنی رسالت کے حقیقی مقام کو ایک مختصر اور صریح جملے میں بیان فرماتا ہے: میں صرف ایمان لانے والوں کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں( إِنْ اٴَنَا إِلاَّ نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ) ۔

____________________

۱ ۔در حقیقت زیر نظر آیت میں ”ولا اعلم بالغیب“ کا جملہ محذوف ہے اور بعد والا جملہ اس پر گواہ ہے.

کیا پیغمبر غیب نہیں جانتے تھے؟

کچھ لوگ جن کا مطالعہ محدود ہے اور جو کسی ایک آیت کو فقط سطحی طورپر دیکھتے ہیں اور دوسری آیاتِ قرآن کو نگاہ میں نہیں رکھتے بلکہ خود اسی آیت میں موجود تمام قرائن پر توجہ نہیں دیتے، فیصلہ کردیتے ہیں ۔ مندرجہ بالا آیت کو بھی ایسے لوگوں نے انبیاء کرام(علیه السلام) سے علم غیب کی مطقاً نفی کی دلیل سمجھا ہے ۔ حالانکہ یہ آیت پیغمبر سے علم بالذات ومستقل کی نفی کرتی ہے جب کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص اپنے بارے میں اور دوسروں کے بارے میں نفع ونقصان کا مالک ہے ۔

لہٰذا قبل کا جملہ گواہ ہے کہ سود وزیاں کی مالکیت کی نفی یا علم غیب کی نفی سے نفی مطلق مراد نہیں ہے بلکہ ہدف نفی استقلال ہے، دوسرے لفظوں میں پیغمبر اپنی طرف سے کچھ نہیں جانتے تھے بلکہ جو کچھ خدا نے غیب اور اسرار نہاں سے انھیں عطا کیا تھا وہ اسے جانتے تھے، جیسا کہ سورہ جن کی آیت ۲۶ اور ۲۷ میں ہے:

( عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَایُظْهِرُ عَلیٰ غَیْبِهِ اٴَحَدًا، إِلاَّ مَنْ ارْتَضَی مِنْ رَسُولٍ )

خدا تمام امورِ غیب سے آگاہ ہے اور وہ کسی کو اپنے علم غیب سے آگاہ نہیں کرتا مگر ان رسولوں کو جن سے وہ راضی ہے ۔

اصول طور پر مقام رہبری کی تکمیل کے لئے اور بالخصوص ایک عالمی قیادت کے لئے تمام مادی وروحانی امور میں ، بہت سے مسائل سے آگاہی ضروری ہے ۔ قیادت کے اس مرتبے کے لئے بہت سے ایسے امور سے واقفیت ضروری ہے جو دوسرے لوگوں سے پوشیدہ ہیں ۔ ایسے رہبر کے لئے نہ صرف احکام وقوانین کا علم ضروری ہے بلکہ جہان ہستی کے اسرار، انسانی عمارت کے امور اور ماضی ومستقبل کے حوادث کا علم کچھ خدا تعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے نمائندوں کوعطا کرتا اور اگر نہ کرے تو ان کی رہبری کی تکمیل نہیں ہوتی ۔

باالفاظ دیگر کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ اسرارِ غیب سے بالکل آگاہ نہ ہوں تو ان کے اقدامات اور گفتگو زمان ومکان میں محدود ہوکر رہ جائیں گے اور ان کا قول وعمل ایک دور اور ایک ماحول میں مقید ہوجائے گا لیکن اگر وہ اسرارِ غیب میں سے ایک حصّہ پر مطلع ہوں تو وہ پروگراموں کی اس طرح تشکیل دیں گے کہ وہ آنے والے اور دوسرے حالات ومقتضیات میں موجود لوگوں کے لئے بھی مفید اور کافی وافی ہوں گے ۔

”غیب کی آگاہی“ کے سلسلے میں مزید توضیح تفسیر نمونہ جلد ۵ صفحہ ۲۰۶ پر ملاحظہ کیجئے ۔