تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27753
ڈاؤنلوڈ: 2621


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27753 / ڈاؤنلوڈ: 2621
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیت ۴۹

۴۹( وَمِنْهُمْ مَنْ یَقُولُ ائْذَنْ لِی وَلَاتَفْتِنِّی اٴَلَافِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیطَةٌ بِالْکَافِرِینَ ) ۔

ترجمہ

۴۹ ۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ ہمیں اجازت دو( تاکہ ہم جہاد میں شرکت نہ کریں ) اور ہمیں گناہ میں گرفتار نہ کرو آگاہ رہو کہ وہ (ابھی سے )گناہ میں گر چکے ہیں اور جہنم کفار پر محیط ہے ۔

شان نزول

کچھ مفسرین نے نقل کیا ہے کہ جب پیغمبر اسلام مسلمانوں کو جنگ تبوک کے لئے تیار کررہے تھے اور اس کے لئے جانے کی دعوت دے رہے تھے بنی سلمہ قبیلے کا ایک سردار جدّ بن قیس آپ کی خدمت میں آیا ۔یہ منافقین میں سے تھا ۔ اس نے عرض کی: اگر آپ اجازت دیں تو میں اس میدان جنگ میں حاضر نہ ہوں کیوں کہ مجھے عورتوں سے بہت پیار ہے مخصوصا اگر میری نظر رومی لڑکیوں پر جاپڑی تو ہوسکتا ہے میں دل ہار بیٹھوں اور ان پر عاشق ہوجاؤں اور میدان سے ہاتھ کھینچ لوں ۔

اس پر پیغمبر اکرم نے اسے اجازت دے دی ۔ اس موقع پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی جس میں اس شخص کے کردار کی مذمت کی گئی ہے ۔

پیغمبر اسلام نے بنی سلمہ کے ایک گروہ کی طرف رخ کرکے فرمایا : تمہارا سردار اور بڑا کون ہے؟

انہوں نے کہا: جد ّبن قیس، لیکن وہ بخیل اور ڈرپوک شخص ہے ۔

آپ نے فرمایا: بخل سے بڑھ کر کونسا درد ہے، پھر فرمایا-: تمہارا سردار وہ سفید رو جوان بشر بن براء ہے(جو کہ بہت سخی اور کشادہ روا انسان ہے) ۔

بہانہ تراش منافقین

مندرجہ بالا شان نزول نشاندہی کرتی ہے کہ انسان جب چاہے ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتار پھینکے تو اپنے لئے کسی نہ کسی طرح بہانہ بنا ہی لیتا ہے، جیسے جدّ بن قیس منافق نے میدان جہاد میں شرکت نہ کرنے کا کیا عذر کھڑا کیا تھا اور وہ یہ ہوسکتا ہے کہ خوبصورت رومی لڑکیاں اس کا دل لوٹ لیں اور وہ جنگ نہ کرسکے اور ”اشکال شرعی“ میں گرفتار ہوجائے ۔

جد ّبن قیس جیسا ہی ایک جابر حکمران کے کارندے کا موقف ہے جو کہتا تھا کہ اگر ہم لوگوں پر سختی اور تشدد نہ کریں تو ہم جو تنخواہ لیتے ہیں وہ ”شرعا“ ہمارے لئے اشکال رکھے گی یعنی اس اشکال سے بچنے کے لئے ہمیں مخلوق خدا پر ظلم وستم کرنا چاہیے ۔

بہرحال قرآن یہاں روئے سخن پیغمبر اسلام کی طرف کئے ہوئے اس قسم کے رسوا اور ذلیل بہانہ جو لوگوں کے جواب میں کہتا ہے: ان میں بعض کہتے ہیں کہ ہمیں اجازت دے دیجئے کہ ہم میدان جہادمیں حاضر نہ ہوں اور ہمیں (خوبصورت رومی لڑکیوں کا فریفتہ کرکے) گرفتار گناہ نہ کیجئے( وَمِنْهُمْ مَنْ یَقُولُ ائْذَنْ لِی وَلَاتَفْتِنِّی ) ۔

آیت کی تفسیر اور شان نزول میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جد بن قیس چاہتا تھا کہ یہ بہانہ کرکے کہ میری بیوی، بچے اور اموال کا کوئی سرپرست نہیں ، جہاد سے بچنا چاہتا تھا ۔ بہرحال قرآن ایسے لوگوں کے جواب میں کہتا ہے: آگاہ رہو کہ وہ ابھی سے فتنہ گناہ اور حکم خداکی مخالفت میں گھر چکے ہیں ، اور جہنم نے کافروں کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے( اٴَلَافِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیطَةٌ بِالْکَافِرِینَ ) ، یعنی وہ بے ہودہ معذرتوں کی وجہ سے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بجائے اس کے کہ بعد میں آلودہ گناہ ہوں ، ابھی سے گناہ میں گھرے ہوئے ہیں اور جہنم ان پر محیط ہے، وہ جہاد کی طرف روانگی کے بارے میں خدا اور رسول کے صریح حکم کو پاؤں تلے روند رہے ہیں کہ شاید کہیں شبہ میں گرفتار نہ ہوجائیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ منافقوں کی ایک پہچان:

ہر معاشرے میں منافقین کی پہچان کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان کے طرز استدلال اور عذربہانوں پر غور کیا جائے کہ وہ اپنی لازمی ذمہ داریوں کی انجام دہی کو ترک کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں ، ان عذر بہانوں کی کیفیت ان کے باطن کو اچھی طرح واضح کردیتی ہے ، وہ زیادہ تر جزوی، ناچیز، حقیر اور کبھی مضحکہ خیز امور کا سہارا لیتے ہیں تاکہ وہ اہم اورکلی امور کو نظرانداز کردیں اور بزعم خود اہل ایمان کو غافل کرنے کے لئے ان کی سطحی فکر کا سہارا لیتے ہیں ، شرعی مسائل اور خدا اور رسول کے حکم کوبیچ میں کھینچ لاتے ہیں حالانکہ وہ گناہ میں غوطہ زن ہیں شمشیر بکف پیغمبر اکرم اور ان کے دین کے خلاف دوڑ پڑتے ہیں ۔

۲ ۔ ”( وان جهنم لمحیطة بالکٰفرین ) “ کا مفہوم:

اس جملے کی تفسیر کے بارے میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں ۔

بعض کہتے ہیں کہ جہنم کے اسباب وعوامل یعنی گناہوں نے ان کا احاطہ کررکھا ہے ۔

بعض کہتے ہیں کہ یہ آئندہ کے حتمی اور یقینی حوادث کے ذکر کی طرح ہے جنہیں ماضی یا حال کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے یعنی قطعی اور یقینی طور پر جہنم انہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔

البتہ یہ احتمال بھی ہے کہ اس جملے کی تفسیر اس کے حقیقی معنی کے ساتھ کی جائے اور ہم کہیں کہ اسی وقت جہنم موجود ہے، اس جہان کے باطن میں جہنم موجود ہے اور وہ جہنم میں گھرے ہوئے ہیں اگرچہ ابھی تک اسے تاثیر کا فرمان صادر نہیں ہوا جیسا کہ بہشت بھی اس وقت موجود ہے اور اس جہان کے باطن اور اس کے اندر سب پر محیط ہے، بہشتی چونکہ بہشت سے مناسبت رکھتے ہیں اس لئے اس سے مربوط ہیں اور دوزخی چونکہ دوزخ سے مناسبت رکھتے ہیں اس لئے ان کا دوزخ سے ربط ہوگا ۔(۱)

____________________

۱۔ اس بحث کی ایک مبسوط تشریح ہے ، اس کا مطالعہ آپ کتاب ”معاد وجہان پس از مرگ“ کے باب”بہشت و دوزخ “ میں کرسکتے ہیں ۔

آیات ۵۰،۵۱،۵۲

۵۰( إِنْ تُصِبْکَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْکَ مُصِیبَةٌ یَقُو لُوا قَدْ اٴَخَذْنَا اٴَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَیَتَوَلَّوا وَهُمْ فَرِحُونَ ) ۔

۵۱( قُلْ لَنْ یُصِیبَنَا إِلاَّ مَا کَتَبَ اللهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُؤْمِنُونَ ) ۔

۵۲( قُلْ هَلْ تَتَربَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اٴَنْ یُصِیبَکُمْ اللهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِهِ اٴَوْ بِاٴَیْدِینَا فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَکُمْ مُتَرَبِّصُونَ ) ۔

ترجمہ

۵۰ ۔اگر تجھے کوئی اچھائی پہنچے تو وہ نہیں بری لگتی ہے اور اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں ہم نے پہلے سے مصمم ارادہ کر رکھا ہے اور وہ خوش و خرم پلٹ جاتے ہیں ۔

۵۱ ۔کہہ دو :کوئی حادثہ ہمارا رخ نہیں کرتا مگر جو کچھ خدا نے ہمارے لے لکھ دیا ہے وہ ہمارا مولیٰ اور سرپرست ہے اور مومنین صرف خدا پر توکل کوتے ہیں ۔

۵۲ ۔کہہ دو: کیا ہمارے بارے میں دونیکیوں میں سے کسی ایک کے علاوہ تمہیں کوئی توقع ہیں (یا تو ہم تم پر کامیاب ہوجائےں گے یا جام شہادت نوش کرےں گے) لیکن ہم توقع رکھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے تمہیں (اس جہان میں )یا ہمارے ہاتھ سے(اس جہان میں )عذاب پہنچے گا ،اب جب کہ معاملہ اےسا ہے تو تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں ۔

تفسیر

زیر نظر آیات میں منافین کی ایک صفت اور نشانی کی طرف اشارہ ہوا ہے اور وہ بحث جو گذشتہ اور آئندہ آیات میں منافقین کی نشانیوں کے سلسلہ میں آئی ہے یہ اسی کے ضمن میں ہے ۔

پہلے کہا گیا ہے:۔اگر تجھے کوئی اچھائی پہنچے تو وہ نا راحت ہو جاتے ہیں اور انہیں برا لگتا ہے( إِنْ تُصِبْکَ حَسَنَةٌ تَسُؤْھُمْ ) ۔

یہ ناراحتی اور دکھ ان کی باطنی عداوت اور ایمان کے فقران کی دلیل ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص تھوڑا سا ایمان بھی رکھتا ہو اور وہ پیغمبر خدا یا کسی عام صاحب ایمان شخص کی کامیابی پر رنجیدہ ہو۔

-”لیکن اگر اس مقابلے میں تجھے کوئی مصیبت پہنچے اور تم کسی مشکل میں مبتلا ہو جاؤ تو خوش ہو کر کہتے ہیں کہ ہم تو پہلے سے ایسے حالات کی پیش بینی کر رہے تھے اور ہم نے تو مصمم ارادہ کر رکھا تھا“ اورکو ہلاکت کے اس گڑھے سے بچا چکے تھے( وَإِنْ تُصِبْکَ مُصِیبَةٌ یَقُو لُوا قَدْ اٴَخَذْنَا اٴَمْرَنَا مِنْ قَبْل ) ،”اور جب وہ اپنے گھروں کو پلٹ جاتے ہیں تو تمہاری شکست“مصیبت یا پریشانی پرخوش ہوتے ہیں ( وَیَتَوَلَّوا وَھُمْ فَرِحُونَ) ۔

یہ دل کے اندھے منافقین ہر موقع سے فا ئدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی عقل کے بارے میں لاف زنی کرتے ہیں کہ یہ ہماری دانشمندی تھی کہ ہم نے فلاں میدان میں شرکت نہ کی اور وہ مشکلات جو دوسروں کو عقل نہ ہونے جی وجہ سے دامن گیر ہوئی، ہم ان میں مبتلا نہیں ہوئے، ایسی باتیں کرتے ہیں کہ جامے میں پھولے نہیں سماتے، لیکن اے پیغمبر ! تم انہیں دو طرح سے جواب دو، ایسا جواب جو دندان شکن اور منطقی ہے ۔

پہلے ان سے کہو کہ ہمیں کوئی حادثہ پیش نہیں آتا مگر وہ کہ جو خدا نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے، وہ خدا جو ہمارا مولا، سرپرست، حکیم اور مہربان ہے اور جو ہماری بھلائی کے کے سوا ہمارے لئے کچھ مقدر نہیں کرتا( قُلْ لَنْ یُصِیبَنَا إِلاَّ مَا کَتَبَ اللهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ) ، جی ہاں ! اہل ایمان فقط خدا پر توکل رکھتے ہیں( وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُؤْمِنُونَ ) ، اہل ایمان صرف اس کے عاشق ہیں ، اسی سے نصرت طلب کرتے ہیں ، اپنی پیشانی اسی کی چوکھٹ پر رکھتے ہیں اور ان کی پناہ گا اس کے علاوہ کوئی نہیں ۔

یہ بہت بڑا اشتباہ ہے کہ جس میں منافقین گرفتار ہیں ، وہ خیال کرتے ہیں وہ اپنی معمولی سی عقل اور ناتواں فکر سے تمام مشکلات اور حوادث کی پیش بینی کرلیتے ہیں اور خدا کے لطف ورحمت سے بے نیاز ہیں ، وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی تمام ہستی حوادث کے کسی عظیم طوفان کے سامنے ایک تنکے کی مانند ہے یا کسی بیابان میں گرمیوں کی کسی جلادینے والی دوپہر میں پانی کے ایک قطرے کی طرح ہے، اگر لطف الٰہی شامل حال نہ ہو تو کمزور سا انسان کچھ نہیں کرسکتا ۔

”اور اے پیغمبر! تم انہیں جواب دو کہ تم ہمارے بارے میں کیا توقع رکھتے ہو سوائے اس کے کہ دو میں سے ایک سعادت ہمیں نصیب ہوجائے“ یا ہم دشمنوں کو تہس نہس کردیں گے، اور میدان جنگ سے کامیابی کے ساتھ پلٹ آئیں گے اور یا مارے جائیں گے اور عزت وافتخار سے جام شہادت نوش کریں گے ان دو صورتوں میں جو بھی پیش آئے ہمارے لئے افتخار ہے اور ہماری آنکھوں کی روشنی ہے( قُلْ هَلْ تَتَربَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ ) ، لیکن اس کے برعکس ہم تمہارے بارے میں دو میں سے ایک سیاہ دن اور بدبختی کی توقع رکھتے ہیں یا اس جہان میں تم عذاب الٰہی میں مبتلا ہوں گے اور یا ہمارے ہاتھوں تم ذلیل ونابود ہوں گے( وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اٴَنْ یُصِیبَکُمْ اللهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِهِ اٴَوْ بِاٴَیْدِینَا ) ۔

”جب معاملہ اس طرح ہے تو تم بھی منتظر رہو اور ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں “ تم ہماری خوش بختی اور سعادت کا انتظار کرو اور ہم تمہاری بد بختی کے انتظار میں ہیں( فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَکُمْ مُتَرَبِّصُونَ ) ۔

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ تقدیر اور ہماری کاوشیں :

اس میں شک نہیں ہماری سرنوشت جس قدر ہمارے کام ، کوشش اور جستجو سے مربوط ہیں وہ تو خود ہمارے ہاتھ میں ہیں ، قرآنی آیات بھی صراحت سے یہ بات بیان کررہی ہیں ۔مثلا( وان لیس للانسان الا ما سعی ) ٰ۔

انسان کے حصے میں اس کی کوشش اور سعی کے سوا کچھ نہیں ۔ ( نجم۔ ۳۹)

اسی طرح یہ بھی ہے:( کل نفس بما کسبت رهینة ) ۔

ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہے ۔ (مدثر۔ ۳۸)

اسی طرح دیگر آیات بھی ہیں (اگر چہ سعی و کوشش کی تاثیر بھی سنن الٰہی کے مطابق اور اس کے فرمان کے تحت ہی ہے) ۔

لیکن ہماری کدوکاوش سے ماورا اور ہماری قدرت سے جو کچھ متجاوز ہے اس میں صرف دست قدرت کافرما ہے اور جو کچھ قانون علت کے تقاضے کے مطابق مقدار ہوا اور انجام پذیر ہوکے رہے گا اور یہ سب کچھ پروردگار کی مشیت، علم اور حکمت کے مطابق انجام پاتا ہے ۔

البتہ صاحب ایمان اور خدا پرست افراد کہ جو اس کے علم وحکمت اور لطف ورحمت پر ایمان رکھتے ہیں ان تمام مقدرات کو ”نظام احسن“ اور بندوں کی مصلحت کے مطابق سمجھتے ہیں ہر شخس اپنی حاصل کردہ اہلیت اور صلاحیتوں کے مطابق مقدر رکھتا ہے ۔

ایک منافق، ڈرپوک، سست مزاج اور منتشر جمعیت کو فنا ہی ہونا ہے اور یہ اس کی حتمی سرنوشت ہے لیکن ایک صاحب ایمان، آگاہ متحد اور عزم صمیم رکھنے والی جمعیت کی سرنوشت کامیابی کے سوا کچھی نہیں ۔

جو کچھ کہا گیا ہے اس واضح ہوجاتا ہے کہ مندرجہ بالا آیات نہ ارادہ اختیار کی آزادی کے منافی ہے اور نہ ہی انسانوں کی جبری سرنوشت اور ان کی کاوشوں کے بے اثر ہونے پر دلیل ہیں ۔

۲ ۔ مومنین کی لغت میں ”شکست“ کا لفظ نہیں :

زیر بحث آخری آیت میں ایک عجیب پختہ اور محکم منطق بیان کی گئی ہے، اسی منطق میں مسلمانوں کی تمام کامیابیوں کا حقیقی راز پنہاں ہے اور اگر پیغمبر اسلام اس کے علاوہ کوئی تعلیم اور حکم نہ بھی رکھتے ہوتے تو یہی ان کے پیروکاروں کی کامیابی کی ضمانت کے لئے کافی تھا، آپ شکست اور ناکامی کا مفہوم ان کے صفحہ روح سے مٹا دیا تھا اور ان پر ثابت کیا تھا کہ تم ہر حالت میں کامیاب ہو، تم مارے جاؤ تو کامیاب ہو اور دشمن کو قتل کردو تب بھی کامیاب ہو، تمہارے سامنے دو راستے ہیں کہ جس راستے پر بھی جاؤ منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے، کجی،الجھنیں اور گرنے کی جگہ تمہارے راستے میں نہیں ، تمہارا ایک راستہ شہادت کی طرف جاتا ہے کہ جو ایک صاحب ایمان انسان کا اوج افتخار ، آخری معراج اور بالا ترین نعمت ہے اس سے بڑھ کر افتخار اور نعمت کا انسان کے لئے تصور ہی نہیں کیا جاسکتا، جو خدا کے ساتھ جان کا سودا کرے اور اس کے بدلے ایک ایسی جاودانی حیات حاصل کرے جو جوار الٰہی میں ناقابل توصیف نعمات سے مالامال ہو۔

دوسرا راستہ دشمن پر کامیابی ہے، اس کی شیطانی طاقت کو درہم برہم کرنا ہے اور انسانی ماحول کو ظالموں ، ستم گروں اور بدکاروں کے شر سے پاک وصاف کرنا ہے اور یہ بھی ایک عظیم فیض اور مسلم افتخار ہے ۔

وہ سپاہی جو اس جذبے سے میدان جنگ میں آتا ہے کبھی فرار اور دشمن کو ہشت دکھانے کی نہیں سوچتا، ایسا سپاہی کسی شخص اور کسی چیز سے نہیں ڈرتا ، خوف ووحشت، اضطراب اورشک وتردد اس کے وجود میں راہ نہیں پاتا ۔ جو لشکر ایسے سپاہیوں پر مشتمل ہوتے ہیں وہ ماقابل شکست ہوتا ہے ۔ ایسا جذبہ صرف تعلیمات اسلامی سے پیدا کیا جاسکتا ہے اور اج بھی اگر صحیح تعلیم وتربیت سے یہ منطق دوبارہ مسلمانوں میں اتاردی جائے تو تمام پسماندگیوں اور شکستوں کی تلافی ہوسکتی ہے ۔

وہ لوگ جو پہلے مسلمانوں کی پیش رفت اور آج کے مسلمانون ی پسماندگی کے علل واسباب کا مطالعہ اور تحقیق کرتے ہیں اور اسے ایک عجیب معمّا سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ آئیں اور مندرجہ بالا آیت پر تھوڑی سی غوروفکر کریں ، انہیں اس آیت سے واضح جواب مل جائے گا ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں جب منافقین کی دو شکستوں کے متعلق گفتگو کی گئی ہے تو اس کی الگ الگ تفصیل بیان کی گئی ہے لیکن جب مومنین کی دو کامیابیوں کا ذکر کیا گیا ہے انہیں سربستہ چھوڑ کر گفتگو آگے بڑھا دی گئی ہے گویا یہ دو کامیابیاں ایسی روشن، واضح اور آشکار ہیں کہ جن کی تشریح کی بالکل ضرورت نہیں اور یہ بلاغت کا ایک خوبصورت اور لطیف نکتہ ہے جو مندرجہ بالا آیت میں استعمال کیا گیا ہے ۔

۳ ۔ منافقین کی دائمی صفات:

ہم دوبارہ اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ ان آیات کوتاریخی حوالے سے دیکھنے ساتھ ساتھ ہمیں جاننا چاہیے یہ ہمارے لئے گذشتہ اور آئندہ دور کے لئے ایک درس ہے ۔

عموما کوئی بھی معاشرہ چھوٹے یا بڑے منافقین کے ایک گروہ سے خالی نہیں ہوتا اور ان کی صفات تقریبا ایک جیسی ہوتی ہے اور وہ ایک ہی طرز کے ہوتے ہیں ، یہ لوگ نادان اور بے وقوف ہوتے ہیں اور اس کے باوجود خوپرست اور متکبر ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا عقلمند اور سمجھدار سمجھتے ہیں ، انہیں ہمیشہ لوگوں کے راحت و آرام میں رنج ہوتا ہے اور وہ ان کی پریشانیوں پر خوشحال اور خندہ زن ہوتے ہیں ، یہ لوگ ہمیشہ فضول خیالات اور شک وتردد میں کھوئے رہتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ ویک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں اور ایک پیچھے پٹ جاتے ہیں ، ام کے مقابلے میں سچے مومنین ہیں جو لوگوں کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں اوران کے غم میں شریک ہوتے ہیں وہ کبھی اپنے علم اورفہم و فراست پر ناز نہیں کرتے اور کبھی اپنے آپ کو لطف الٰہی سے بے نیاز نہیں سمجھتے، وہ عشق خدا سے لبریز رہتے ہیں اور اس راہ میں کسی حادثے اور مشکل نہیں ڈرتے ۔

آیات ۵۳،۵۴،۵۵

۵۳( قُلْ اٴَنفِقُوا طَوْعًا اٴَوْ کَرْهًا لَنْ یُتَقَبَّلَ مِنْکُمْ إِنَّکُمْ کُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِینَ ) ۔

۵۴( وَمَا مَنَعَهُمْ اٴَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلاَّ اٴَنَّهُمْ کَفَرُوا بِاللهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَایَاٴْتُونَ الصَّلَاةَ إِلاَّ وَهُمْ کُسَالَی وَلَایُنفِقُونَ إِلاَّ وَهُمْ کَارِهُونَ ) ۔

۵۵( فَلَاتُعْجِبْکَ اٴَمْوَالُهُمْ وَلَااٴَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَتَزْهَقَ اٴَنفُسُهُمْ وَهُمْ کَافِرُونَ ) ۔

ترجمہ

۵۳ ۔کہہ دو کہ تم چاہے میلان اور رغبت سے خرچ کرو چاہے جبرواکراہ سے، تم سے ہرگز قابل قبول کیوں کہ تم فاسق ہو ۔

۵۴ ۔ان کے انفاق اورخرچ کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنی مگر یہ کہ وہ خدا اور اس کے پیغمبرکے منکر تھے،نماز نہیں بجالاتے تھے مگر کسالت اور سستی کے ساتھ اور انفاق نہیں کرتے مگر کراہت کے ساتھ۔

۵۵ ۔اور ان کے مال واولاد( کی کثرت )تجھے تعجب میں نہ ڈالے، خدا چاپتا ہے کہ انہیں اس کے ذریعے دنیا کی زندگی میں عذاب کرے اور وہ حالت کفر میں مرجائیں ۔

تفسیر

یہ آیات منافقین کی کچھ اور نشانیوں اور ان کے کام کے انجام کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور انہیں واضح کرتی ہے کہ کس طرح سے ان کے اعمال بے روح اور بے اثر ہیں اور ان سے انہیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، نیز نیک اعما ل میں سے چونکہ راہ خدا میں خرچ کرنا (یعنی زکٰوة کی ادائیگی اپنے وسیع معنی کے لحاظ سے )اور نماز کا قیام (خالق ومخلوق کے درمیان رشتے کی حیثیت سے )خاص مقام رکھتے ہیں لہٰذا خصوصیت کے ساتھ ان دو حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے: اے پیغمبر! انہیں کہہ دو چاہے ارادہ و اختیار سے راہ خدا میں خرچ کرو اور چاہے کراہت و مجبوری اور شخصی واجتماعی رکھ رکھاؤ کی وجہ سے تم منافقین سے کسی حالت میں کچھ قبول نہیں کیا جائے گا( قُلْ اٴَنفِقُوا طَوْعًا اٴَوْ کَرْهًا لَنْ یُتَقَبَّلَ مِنْکُمْ ) ۔(۱)

واضح ہے کہ ” فسق“ یہاں کوئی عام اور معمولی گناہ نہیں ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ انسان کسی گناہ کا مرتکب لیکن اس کے باوجود ایک نیک عمل بھی انجام دے دے بلکہ یہاں مراد اس سے کفر یا نفاق ہے یا ان کے نفاق کاریاکاری سے آلودہ ہونا ہے ۔

اس میں بھی مانع نہیں مندرجہ بالا جملے میں ”فسق“ اپنے وسیع مفہوم کے لحاظ سے دونوں معانی میں ہو جیسا کہ بعد والی آیت بھی اس حصے کی وضاحت کرے گی ۔

اگلی آیت میں ان کے خرچ کئے ہوئے مال کے قابل قبول نہ ہونے کہ دوبارہ وضاحت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان کے انفاق اور مخارج کے قبول ہونے میں اس کے سوا کوئی امر مانع نہیں کہ وہ خدا اور اس کے پیغمبر کے منکر اور کافر ہیں اور ہر وہ کام جس میں خدا پر ایمان اورتوحید پریقین شامل نہ ہو بارگاہ خداوندی میں قابل قبول نہیں ہے( وَمَا مَنَعَهُمْ اٴَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلاَّ اٴَنَّهُمْ کَفَرُوا بِاللهِ وَبِرَسُولِه ) ۔

قرآن نے بارہا اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اعمال صالح کے قبول ہونے شرط ایمان ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی عمل ایمان کی بنا پر سرزد ہو اور ایک مدت کے بعد عمل کرنے والا شخص کفر کی راہ اختیار کرلے تو اس کا عمل حبط، نابود اور بے اثر ہوجائے گا(اس سلسلے میں ہم تفسیر نمونہ جلد ۲ میں تفصیلی بحث کرچکیں ہیں ) (دیکھئے صفحہ ۶۶ اردو ترجمہ) ۔

ان کے انفاق اور مالی اخراجات قبول نہ ہونے کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کی عبادات کی کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ نماز بجانہیں لاتے مگر کسالت وناراحتی کے ساتھ اور بوجھ سمجھتے ہوئے( وَلَایَاٴْتُونَ الصَّلَاةَ إِلاَّ وَهُمْ کُسَالَی ) ، جیسا کہ وہ خرچ بھی بس کراہت ومجبوری کے عالم میں کرتے ہیں( وَلَایُنفِقُونَ إِلاَّ وَهُمْ کَارِهُونَ ) ۔

درحقیقت دووجوہ کی بنیاد پر ان کے خرچ شدہ اموال قابل قبول نہیں ہوئے، ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ حالت کفر اور عدم ایمان میں سرزد ہوئے ہیں اور دوسری وجہ ی ہے کراہت اور مجبوری کے عالم میں خرچ کئے گئے ہیں ، اسی طرح ان کی نماز بھی دو وجوہ سے قبول نہیں ہوئی ایک کفر کی وجہ سے اور دوسرا کسالت اور ناپسندیدگی کی حالت میں ادئیگی کے سبب۔

مندرجہ بالا جملوں میں منافقین کی کیفیت ان کے بے ثمر اعمال کے لحاظ سے بیان کی گئی ہے اس کے باوجود ان میں ان کی ایک اور نشانی بھی بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ حقیقی مومنین کو عبادت میں ان کی خوشی اور نشاط کے سبب اور نیک اعمال سے ان کی رغبت اور خلوص کی بنا پر وہ سرد مہری، بے رغبتی، ناراحتی اور کراہت سے کار خیر انجام دینے کے لئے قدم اٹھاتے ہیں گویا کوئی شخص جبرا ان کا ہاتھ پکڑے انہیں کار خیر کی طرف لیے جارہا ہو۔

واضح ہے کہ پہلے گروہ کے اعمال چونکہ عشق الٰہی کی بنا پر سرزد ہوتے ہیں اور ان میں دلسوزی ہوتی ہے لہٰذا ان اعمال کے آداب و قواعد کا خیا رکھا جاتا ہے لیکن دوسرے گروہ کے اعمال میں چونکہ کراہت، ناپسندیدگی اور بے رغبتی ہوتی ہے لہٰذا وہ ناقص، ٹوٹے پھوٹے اور بے روح ہوتے ہیں ، لہٰذا ان کے اسباب وعلل کا اختلاف ان کی مختلف شکلیں صورتیں اختیار کرنے کا سبب بنتا ہے ۔

آخری آیت میں روئے سخن پےغمبر کی طرف کرتے ہوئے فرمیا گیا ہے:”ان کے مال و اولاد کی کثرت تجھے تعجب میں نہ ڈال دے“ اور تم یہ نہ سوچنے لگ جاؤ کہ اس کے باوجودکہ وہ منافق ہیں انہیں یہ سب نعمات الٰہی کیونکر میسر ہیں( فَلَاتُعْجِبْکَ اٴَمْوَالُهُمْ وَلَااٴَوْلَادُهُمْ ) کیونکہ یہ چیزےں ظاہرا تو ان کے لے نعمات ہیں لیکن حقےقت میں خدا چاہتاہے کہ اس طرح انہیں دنیاوی زندگی میں معذب کرے اور ان چیزوں سے بے انتہادل بستگی کی وجہ سے وہ کفر اور بے ایمانی کی حالت میں مرجائیں( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَتَزْهَقَ اٴَنفُسُهُمْ وَهُمْ کَافِرُونَ ) ۔

در حقیقت وہ ان اموال واولاد (اقتصادی اور افرادی قوت) کے ذریعے دو راستوں سے معذّب ہوں گے، پہلا تو یہ کہ عام طور پر ایسے افرد کی اولاد غیر صالح ہوتی ہے اورمال بے برکت ہوتا ہے جوکہ دنیاوی زندگی میں ان کے لئے رنج والم کا باعث بنتے ہیں ، کیا یہ بات باعث رنج الم نہیں کہ شب وروز ایسی اولاد کے لئے کوشش کی جائے جو ننگ و عار اور پریشانی کا باعث ہے اور ایسے مال کی حفاظت میں جان جوکھوں میں ڈالی جائے جو گناہ کے راستے سے کمایا ہے، دوسری طرف یہ لوگ چونکہ ان اموال اور اولاد سے لگاؤ رکھتے ہیں اور آخرت کی پر نعمت اور وسیع دنیا اور موت کے بعد کی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا اس سب مال متال سے آنکھیں بند کرلینا ان کے لئے مشکل ہے یہاں تک کہ انہیں چیزوں پر ایمان رکھ کر کفر کے ساتھ دنیا سے چلے جاتے ہیں اور سخت ترین حالت میں جان دیتے ہیں ۔

مال و اولاد اگرپاک اور صالح ہوں تو نعمت ہے اور رفاہ وآسائش کا سبب ہے اور اگر ناپاک اور غیر صالح ہو تو رنج وتکلیف اور عذاب الیم ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ کیا منافقین خوشی سے خرچ کرتے ہیں :

بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ پہلی آیت کے شروع یہ کیسے کہہ دیا گیا ہے کہ چاہے اختیار سے خرچ کرو چاہے مجبوری سے، تم سے قبول نہیں ہوگا جب کہ دوسری آیت کے آخر میں تصریح کی گئی ہے کہ وہ صرف کراہت اور مجبوری کے عالم ہی میں خرچ کرتے ہیں ، کیا یہ دونوں آیتیں ایک دوسرے کے منافی ہیں ؟

ایک مطلب کی طرف متوجہ ہوا جائے تو اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ پہلی آیت کی ابتدا درحقیقت ایک ”قضیہ شرطیہ “ کی صورت میں ہے یعنی اگریا اکراہ کی صورت میں خرچ کرو، جس صورت میں بھی ہو قابل قبول نہیں ہوگا اور ہم جانتے ہیں کہ قضیہ شرطیہ وجود شرط کی دلیل نہیں ہے یعنی فرض کریں کہ وہ میل ورغبت اور اختیار وارادہ سے بھی خرچ کریں تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں چونکہ وہ ایمان نہیں رکھتے ۔

لیکن دوسری آیت میں ”قضیہ خارجیہ“ کو بیان کیا جارہا ہے اور وہ یہ کہ یہ لوگ ہمیشہ اکراہ اور ناپسندیدگی ہی سے خرچ کرتے ہیں (غور کیجئے گا) ۔

۲ ۔ صرف نماز روزہ کافی نہیں :

دوسرا درس جو مندرجہ بالا آیات سے حاصل کیا جاسکتا ہے یہ ہے کہ صرف لوگوں کی نماز، روزہ اور زکٰواة پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ منافقین نماز بھی پڑھتے ہیں اور ظاہرا راہ خدا میں خرچ بھی کرتے ہیں بلکہ منافقوں کی نمازوں اور سخاوتوں کو سچے مومنین کے پاک اور مصلحانہ اعمال الگ پہچاننا چاہیے اور اتفاق کی بات ہے کہ غور کرنے اور تحقیق وجستجو سے ظاہرعمل سے بھی عموما پہچان ہوجاتی ہے ۔

حدیث میں ہے :

لا تنظروا الی رکوع الرجل وسجوده فان ذالک شیء اعتاده ولوترکه استوحش ولیکن انظروا الی صدق حدیثه واداء امانته ۔

کسی کے لمبے لمبے رکوع اور سجدوں کو نہ دیکھو کیوں کہ ہوسکتا ہے یہ عادتی عبادت ہو جسے چھوڑنے سے اسے پریشانی ہوتی ہے بلکہ اس کی راست گوئی اور امانت کی ادائیگی پر نظر رکھو کیوں کہ سچائی ، راستی اور امانت کا سرچشمہ ایمان ہے جبکہ عادتی رکوع وسجود کفر ونفاق کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔

اس کے بعد اس کی دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: کیوں کہ تم فاسق گروہ ہو ( إِنَّکُمْ کُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِینَ)، تمہاری نیتیں غلط، تمہارے اعمال ناپاک اور تمہارے دل تاریک ہیں اور خدا صرف اس عمل کو قبول کرتا ہے جو پاک وپاکیزہ ہو اور جسے ایک پاکیزہ شخص تقویٰ وپرہیزگاری کے ساتھ انجام دے ۔

____________________

۱۔ ”انفقوا“ اگرچہ صیغہ امر کی شکل میں ہے لیکن مفہوم شرط رکھتا ہے یعنی اگرتم خرچ کرو چاہے اختیار سے یا مجبوری سے تم سے قابل قبول نہیں ہوگا ۔

آیات ۵۶،۵۷

۵۶( وَیَحْلِفُونَ بِاللهِ إِنَّهُمْ لَمِنْکُمْ وَمَا هُمْ مِنْکُمْ وَلَکِنَّهُمْ قَوْمٌ یَفْرَقُونَ ) ۔

۵۷( لَوْ یَجِدُونَ مَلْجَاٴً اٴَوْ مَغَارَاتٍ اٴَوْ مُدَّخَلًا لَوَلَّوْا إِلَیْهِ وَهُمْ یَجْمَحُونَ ) ۔

ترجمہ

۵۶ ۔وہ خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں اور وہ لوگ ہے جو ڈرتے ہیں (اور وحشت زدہ ہیں لہٰذا وہ جھوٹ بولتے ہیں ) ۔

۵۷ ۔اگر انہیں کوئی پانہ گاہ یا غاریں یا کوئی زیر زمین راستہ مل جائے تو وہ اس کی طرف چل پڑلیں حالانکہ وہ تیزی میں بھاگ کھڑے ہوں گے ۔

منافقین کی ایک اور نشانی

مندرجہ بالاآیات میں منافقین کے اعمال اور حاالت کے بارے میں ایک اور نشانی بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :وہ خدا کی قسم کھاتے ہیں وہ تم میں سے ہیں

( وَیَحْلِفُونَ بِاللهِ إِنَّهُمْ لَمِنْکُمْ ) ، ”حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں اور نا ہی کسی چیز میں تمہارے مواقف ہیں بلکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو بے حد ڈرپوک ہیں “ اور شدت خوف ہی کے باعث اپنے کفر کو چھپاتے ہیں اور ایمان کا اظہار کرتے ہیں کہ کہیں گرفتارِ بلا نہ ہوجائیں( وَمَا هُمْ مِنْکُمْ وَلَکِنَّهُمْ قَوْمٌ یَفْرَقُونَ ) ۔

”یفرقون“ مادہ ”فرق“ (بروزن” شفق“)سے ہے اور اس کا معنی ہے شدت خوف وہراس ، راغب نے ”مفردات“ میں کہا ہے کہ یہ مادہ اصل میں تفرقہ، جدائی اور پراگندگی کے معنی میں ہے، گویا اس طرح ڈرتے ہیں کہ چاہتے ہیں کہ ان کا دل متفرق اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے ۔

درحقیقت باطن میں چونکہ ان کا کوئی سہارا نہیں لہٰذا ہمیشہ کے لئے خوف وہراس اور شدید وحشت میں گرفتار ہیں اور اسی خوف ووحشت کی وجہ سے جو کچھ ان کے باطن میں ہے اس کا کبھی اظہار نہیں کرپاتے اور چونکہ خدا سے نہیں ڈرتے اس لئے ہر چیز سے ڈرتے ہیں اور ہمیشہ وحشت زدہ رہتے ہیں جب کہ سچے اور حقیقی مومن ایمان کے سائے میں سکون واطمینان اور ایک خاص شہامت وجرات سے رہتے ہیں ۔

بعد والی آیت میں مومنین سے ان کے شدید بغض، عداوت اور نفرت کو مختصر سی عبارت میں لیکن رسا اور واضح انداز میں بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ ایسے ہیں کہ اگر کوئی پناہ گاہ (مثلاً مستحکم قلعہ) انہیں مل جائے یا پہاڑوں کی غاروں تک جاسکتے ہوں یا انہیں زیر زمین کوئی راستہ مل جائے تو جتنا جلدی ہوسکے اس کی طرف کھڑے ہوں تاکہ وہ تم سے دور ہوکر اپنے کینہ اور عداوت کو ظاہر کرسکیں( لَوْ یَجِدُونَ مَلْجَاٴً اٴَوْ مَغَارَاتٍ اٴَوْ مُدَّخَلًا لَوَلَّوْا إِلَیْهِ وَهُمْ یَجْمَحُونَ ) ۔

”ملجاء“ کا معنی ہے ”پناہ گاہ“ مثلا کوئی مستحکم قلعہ یا اس قسم کی کوئی جگہ۔

”مغارات“ جمع ہے ”مغارہ“ کی جس کا معنی ہے ”غار“ ۔

”مدخل“ کا معنی ہے پوشیدہ اور چھپے ہوئے راستے، مثلا وہ نقب جو زیر زمین لگاتے ہیں اور اس کے کسی جگہ میں داخل ہوجاتے ہیں ۔

”یجمحون“ “جماح“کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے تیزی اور شدت کے ساتھ چلنا کہ جیسے کوئی چیز روک نہ سکے، مثلا سرکش اور موہ زور گھوڑے کا دوڑنا کہ جسے روجا نہ جاسکتا ہو، اسی اسے گھوڑے کو ”جموح“ کہتے ہیں ۔

بہرحال یہ ایک واضح ترین اور نہایت عمدہ تعبیر ہے جو قرآن منافقین کے خوف ووحشت کے بارے میں یا ان کے بغض ونفرت کے سلسلے میں بیان کرتا ہے کہ اگر انہیں پہاڑوں یا زمین پر کوئی راہ فرار مل جائے تو خوف یا دشمنی کی وجہ سے تم سے دور ہوجائیں لیکن چونکہ ان کی قوم وقبیلہ اور مال وثروت تمہارے علاقے میں ہے لہٰذا مجبور ہیں کہ خون جگر پی کر تم میں رہ جائیں ۔