تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27294
ڈاؤنلوڈ: 2412


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27294 / ڈاؤنلوڈ: 2412
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

جامع اخلاقی ترین آیت

امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:قرآن مجید میں کوئی آیت اخلاقی مسائل میں اس آیت سے زیادہ جامع نہیں ہے ۔(۱)

بعض علماء نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا ہے کہ قوائے انسانی کے اصول تین ہیں : عقل، غضب اور شہوت اور اخلاقی فضائل بھی تین حصّوں میں ہیں :

۱ ۔ فضائل عقلی:

جن کا نام ”حکمت“ ہے اور آیت میں ”وَاٴْمُرْ بِالْعُرْفِ “ میں ان کا خلاصہ کیا گیا ہے (یعنی نیک اور شائستہ کاموں کا حکم دے)

۲ ۔ فضائل جنسی:

جو کہ طغیان اور شہوت کے مقابلے میں ہیں ، انھیں ”عفّت“ کہتے ہیں اور زیرِ بحث آیت میں ”خذ العفو“ میں ان کی تلخیص کی گئی ہے ۔

۳ ۔ قوتِ غضبیہ کے مقابلے میں نفس پر کنٹرول کو ”شجاعت“ کہتے ہیں ، اس کی طرف اشارہ ”( وَاٴَعْرِضْ عَنْ الْجَاهِلِینَ ) “ میں کیا گیا ہے ۔

مندرجہ بالا حدیث کی تشریح چاہے اس صورت میں کی جائے جیسے مفسرین نے کی ہے یا رہبر کی شرائط کی صورت میں جیسے ہم نے بیان کیا ہے، بہرحال اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ زیر نظر آیت میں مختصر اور اچھے انداز میں اخلاقی اور اجتماعی حوالے سے ایک جامع، وسیع اور ہمہ گیر پرورگرام پیش کیا گیا ہے، اس طرح سے کہ اس میں تمام مثبت اصلاحی امور اور انسانی فضائل مل سکتے ہیں ، بعض مفسّرین کے بقول اس آیت میں جچے تلے انداز میں جس طرح سے معانی کی وسعت وگہرائی سمودی گئی ہے وہ اعجازِ قرآن کی مظہر ہے ۔

اس نکتے کی طرف توجہ ضر وری ہے کہ آیت میں مخاطب اگرچہ پیغمبر اکرم ہیں لیکن آیت ساری امت اور تمام رہبروں اور مبلغوں کے بارے میں ہے ۔

اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں مقام علم عصمت کے خلاف کوئی مطلب موجود نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اور معصوم ہستیوں کو بھی وساوسِ شیطانی کے مقابلے میں اپنے آپ کو سپردِ خدا کرنا چاہیے اور وساوسِ شیاطین کے مقابلے میں کوئی بھی خدا کے لطف اور حمایت سے بے نیاز نہیں ، یہاں تک کہ معصومین بھی ۔

بعض روایات میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم نے اس کے بارے میں جبرئیل سے وضاحت چاہی (کہ لوگوں سے کس طرح سے نرمی برتی جائے اور سخت گیری نہ کی جائے) ۔

جبئیل نے کہا: میں تو نہیں جانتا، لازم ہے کہ میں سے سوال کروں جو جانتا ہے ۔

اس کے بعد جبرئیل دوبارہ نازل ہوئے اور کہا:

یا محمد انّ اللّٰه یاٴمرک اٴن تعفوا عمّن ظلمک وتعطی عمّن حرمک وتصل من قطعک

یا محمد!خدا آپ کو حکم دیتا ہے کہ جنھوں نے آپ پر ظلم کیا ہے (جب آپ میں قدرت آجائے) تو ان سے انتقام نہ لیں اور درگزکردیں ، جنھوں نے آپ کو محروم کیا ہے انھیں عطا کریں اور جنھوں نے آپ سے قطع رحمی کی ہے ان سے رحمی کریں(۲)

ایک اور حدیث میں ہے:جب یہ آیت نازل ہوئی اور پیغمبرخدا کوحکم دیا گیا کہ جاہلوں کے مقابلے میں تحمل کیجئے، تو پیغمبر نے عرض کیا: پروردگار! خشم وغضب کے ہوتے ہوئے کیسے تحمل کیا جاسکتا ہے؟

اس پر دوسری آیت نازل ہوئی اور پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ ایسے موقع پر اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردیں(۳)

روی عن جدنا الامام جعفر الصادق رضی اللّٰه عنه ....

یعنی ہمارے جد امام جعفر صادق رضی الله عنہ سے یوں نقل کیا گیا ہے....

اس نکتے کا ذکر بھی مناسب ہے کہ دوسری آیت بعینہ سورہ حٰم السجدہ کی آیت ۳۶ ہے صرف فرق اتنا ہے کہ ”انّہ سمیع علیم“ کی جگہ وہاں پر ”انه هو السمیع العلیم “ ہے ۔

بعد والی آیت میں پشیطانی وسوسوں پر غلبے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: شیطان وسوسے جب پرہیزگار لوگوں کو گھیر لیتے ہیں تو وہ خدا کو یاد کرلیتے ہیں ، اس کی لامتناہی نعمات کا ذکر کرتے ہیں اور گناہوں کے بُرے نتائج اور دود عذاب کو یاد کرتے ہیں تو اس وقت وسوسوں کے تاریک بادل اطرافِ قلب سے چھٹ جاتے ہیں اور وہ راہ حق کو دیکھتے ہیں اور اُسے ہی انتخاب کرلیتے ہیں( إِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّیْطَانِ تَذَکَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ ) ۔

”طائف“ کا معنی ہے ”طواف کرنے والا“ گویا شیطانی وسوسے طواف کرنے والے کی طرح انسانی روح اور فکر کے مسلسل چکر لگاتے رہتے ہیں تاکہ نفوذ کرنے اور اندر جانے کا کوئی راستہ پالیں ۔ ایسے موقع پر اگر انسان خدا کو یاد کرے اور گناہوں کے برے نتائج پر نظر کرے تو انھیں دور کرکے رہائی حاصل کرلیتا ہے ورنہ آخر کاران وسوسوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے ۔

اصولی طور پر ہر شخص ایمان کے ہر عمر میں کبھی نہ کبھی شیطانی وسوسوں میں گرفتار رہتا ہے اور کبھی یوں محسوس کرتا ہے کہ خود اس کے اندر کوئی سخت محرک قوت پیدا ہوگئی ہے جو اسے گناہ کی طرف دعوت دے رہی ہے ۔ مسلم ہے کہ یہ وسوسے اور تحریکیں جوانی میں زیادہ ہوتی ہیں اور اسی طرح گناہ کے ماحول میں بہت زیادہ ہوتی ہیں ۔ جیسے آجکل کے آلودہ معاشرں اور ماحول کہ جن میں فساد اخلاقی کے مراکز بہت زیادہ ہیں ، ہر طرف بے قید و بند آزادی میسر ہے، نشرو اشاعت کے ادارے زیادہ تر شیطان کی خدمت میں مصروف ہیں اور شیطانی وسوسوں کی اشاعت کررہے ہیں ۔ ایسے حالات میں راہ نجات کا صرف اور صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے ”تقویٰ“ کی جس کی طرف زیر بحث آیت میں اشارہ ہوا ہے، اس کے بعد مراقبت ہے اور آخر میں اپنی طرف توجہ کرنا، خدا سے پناہ مانگتا، اس کے الطاف و نعمات کو یاد کرنا اور خطا کاروں کے دردناک عذاب کو یاد کرنا ہے ۔

روایات میں بارہا شیطانی وساوس کو دور کرنے کے لئے ذکر خدا کی گہری تاثیر کا تذکرہ ہوا ہے ۔ یہاں تک کہ بہت سے صاحب ایمان علماء اور شخصیات ہمیشہ شیطانی وسوسوں سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے مراقبت کے ذریعے اپنا دفاع کرتے تھے ۔ (مراقبت علم اخلاق میں ایک تفصیلی موضوع ہے) ۔ اصولی طور پر نفس اور شیطان کے وسوسے بیماری کے جراثیم کی طرح ہیں جو ہر کسی میں مجود ہوتے ہیں لیکن وہ کمزور اور ناتوان گوشوں اور جسموں کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ وہاں نفوذ کریں لیکن جن کا جسم صحیح یالم، قوی اور طاقت ورہے وہ ان جراثیم کے اثرات سے خود کو بچالیتے ہیں ”( اذاهم مبصرون )

(یعنی یاد خدا کے وقت ان کی آنکھیں بینا ہوجاتی ہیں اور وہ حق کو دیکھ لیتے ہیں ) یہ جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ شیطانی وسوسے انسان کی باطنی نگاہ پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور حالت یہ ہووجاتی ہے کہ راہ اور چاہ کی، دوست اور دشمن کی اور نیک اور بد کی پہنچان نہیں رہتی لیکن خدا کی یاد انسان کو بینائی اور روشنی بخشتی ہے اور اسے حقائق کی شناخت کی قدرت عطا کرتی ہے ۔ ایسی شناخت اور معرفت کے جس کے ذریعے انسان وسوسوں کے چنگل سے نجات پالیتا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ پرہیزگار ذکر خدا کے سائے میں شیطانی وسوسوں سے رہائی حاصل کرتے ہیں لیکن یہ اس حالت میں ہے کہ جب گناہ آلودہ افراد جو شیطان کے بھائی ہیں اس کے دام اور جال میں گرفتار ہوں ۔ اگلی آیت میں قرآن اس بارے میں کہتا ہے: ان پر آپ نے جملے جاری رکھتے ہیں( وَإِخْوَانُهُمْ یَمُدُّونَهُمْ فِی الغَیِّ ثُمَّ لَایُقْصِرُونَ ) ۔

”اخوان“ شیاطین کے لئے کنایہ ہے اور ”ہم“ کی ضمیر مشرکوں اور گناہگاروں کے لئے ہے ۔ جیسا کہ سورہ اسراء کی آیت ۲۷ میں ہے:( إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ )

فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں

”یمدونهم“” امداد“ کے مادہ سے ہے ۔ اس کا معنی ہے مددینا، دوام بخشنا اور اضافہ کرنا ۔ یعنی وہ اس راہ کی طرف ہمیشہ اور مسلسل انھیں کھینچتے رہتے ہیں اور آگے بڑھاتے رہتے ہیں ۔

” لا یقصرون “ کا معنی ہے کہ شیاطین انھیں گمراہ کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتے ۔

اس کے بعد مشرکوں اور گنہگاروں کی ایک جماعت کی حالت بیان کرتا ہے ۔ یہ لوگ منطق و استدلال سے دور ہیں فرمایا گیا ہے: جب ان کے سامنے قرآن کی آیات پڑھو تو وہ ان کی تکذیب کرتے ہیں اور جب ان کے لئے کوئی آیت نہ لاؤ اور نزولِ وحی میں تاخیر ہوجائے تو کہتے ہیں کہ ان آیات کا کیا بنا، اپنی طرف سے کیوں نہیں بنالیتے ہیں ، یہ سب خدا کی وحی تھوڑی ہیں( وَإِذَا لَمْ تَاٴْتِهِمْ بِآیَةٍ قَالُوا لَوْلَااجْتَبَیْتَهَا ) (۴) ۔لیکن ان سے ”کہہ دو کہ میں تو صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی ہوتی ہے اور جو کچھ خدا نازل کرتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہتا“( قُلْ إِنَّمَا اٴَتَّبِعُ مَا یُوحیٰ إِلَیَّ مِنْ رَبِّی ) ۔

یہ قرآن اور اس کی نورانی آیات پروردگار کی طرف سے بینائی اور بیداری کا ذریعہ ہیں کہ جو ہر آمادہ انسان کو بصارت، روشنی اور نور عطا کرتی ہیں( هٰذَا بَصَائِرُ مِنْ رَبِّکُمْ ) ۔ ”اور با ایمان اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے افراد کے لئے سرمایہ ہدایت اور رحمت ہے ۔“

اس آیت سے ضمنی طور پر واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی تمام گفتار اور کردار کا سرچشمہ وحی آسمانی تھی اور جو لوگ اس بات کے خلاف کچھ کہتے ہیں وہ در اصل قرآن سے ناواقف ہیں ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان، زیر بحث آیت کے ذیل میں

۲۔ مجمع البیان، زیر بحث آیت کے ذیل میں

۳۔ المنار کے مولف نے جلد ۹ صفحہ۵۳۸ پر یہ حدیث اس عنوان کے تحت درج کی ہے:

۴۔ ”اجتناء“ ”جبایت“ سے ہے ۔ اس کا معنی ہے حوض یا اس قسم کی چیز میں پانی جمع کرنا ۔ اس لئے حوض کو ”جابیة“ کہا جاتا ہے ۔ خراج کی جمع آوری کو بھی ”جبایت“ کہتے ہیں ۔ بعد ازاں کسی چیز کو انتخاب کے لئے جمع کرنے کو ”اجتباء“ کہا جانے لگا ۔ ” لو لا اجتبیتہا “ کا معنی ہے تو نے کیوں انتخاب نہیں کیا ۔

آیات ۲۰۴،۲۰۵،۲۰۶

۲۰۴( وَإِذَا قُرِءَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَاٴَنصِتُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ) .

۲۰۵( وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِی نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَخِیفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَاتَکُنْ مِنَ الْغَافِلِینَ ) .

۲۰۶( إِنَّ الَّذِینَ عِنْدَ رَبِّکَ لَایَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَیُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ یَسْجُدُونَ ) .

ترجمہ

۲۰۴ ۔ جب قرآن پڑھا جائے تو کان دھر کر سنو اور خاموش رہوتا کہ رحمت خدا تمھارے شامل حال ہو۔

۲۰۵ ۔ اپنے پروردگار کو اپنے دل میں تضرع اور خوف سے آہستہ اور آرام سے صبح و شام یاد کرو اور غافلیں میں سے نہ ہو جاؤ۔

۲۰۶ ۔ وہ جو (مقام قرب میں ) تیرے پروردگار کے نزدیک ہیں کسی حالت میں اس کی عبادت کے بارے میں تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے لئے سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔

تلاوتِ قرآن ہو رہی ہو تو خاموش رہو

اس سورة (اعراف) کا آغاز عظمتِ قرآن کے بیان سے ہوا ہے اور قرآن ہی کے بارے میں اس کی آخری آیات گفتگو کررہی ہیں ۔

بعض مفسّرین نے زیر بحث آیات میں سے پہلی کے بارے میں کئی ایک شان نزول ذکر کی ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ابن عباس اور دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان ابتداء میں کبھی کبھی نماز میں باتیں کرلیتے تھے ۔ کبھی یوں ہوتا کہ جماعت ہو رہی ہوتی اور نیا آنے والا پوچھ لیتا کہ کتنی رکعتیں ادا ہوچکی ہیں اور وہ جواب دیتے کہ اتنی رکعتیں ادا ہوچکی ہیں ۔ اسی صورتِ حال کے پیش نظریہ آیت نازل ہوئی اور اس کام سے منع کیا گیا ۔

نیز زہری سے منقول ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم قرآن کی تلاوت کررہے ہوتے تو ایک انصاری نوجوان بلند آواز سے قرآن پڑھتا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کام سے روکا گیا ۔

بہر صورت قرآن مندرجہ بالا آیت میں حکم دیتا ہے: جب قرآن کی تلاوت ہورہی ہو تو توجہ سے اسے سنو اور خاموش رہو، شاید رحمتِ خدا تمھارے شاملِ حال ہو( وَإِذَا قُرِءَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَاٴَنصِتُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ) ۔

( وَاٴَنصِتُوا ) “ ”( انصاب ) “ کے مادہ سے ہے ۔ اس کا معنی ہے کان دھر کر خاموشی سے سننا ۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خاموشی اور سننے کا یہ حکم تمام مواقع کے لئے ہے کہ جب قرآن کی تلاوت ہورہی ہو یا صرف حالت نماز کے لئے ہے جبکہ امام جماعت قرات کررہا ہو۔ اس سلسلے میں مفسّرین میں بہت اختلاف ہے ۔ اس ضمن میں حدیث و تفسیر کی کتابوں میں مختلف احادیث نقل کی گئی ہیں ۔

ظاہر آیت سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ حکم عمومی ہے اور سب کے لئے ہے اور کسی معین حالت سے مخصوص نہیں ہے لیکن متعدد روایات جو ہادیاں اسلام سے نقل ہوئی ہیں سے معلوم ہوتا ہے اور علماء نے بھی جس امر پر اجماع و اتفاق کیا ہے یہ ہے کہ تمام اوقات میں استماع اور تلاوت کا سننا واحب نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستحب حکم ہے ۔ یعنی بہتر اور مستحب یہ ہے کہ جہاں کہیں اور جس حالت میں کوئی تلاوت قرآن کررہا ہو دوسرے سننے والے احترام قرآن میں سکوت اور خاموشی اختیار کریں اور کان لگا کر خدا کا پیغام سنیں اور اپنی زندگی میں اس سے سبق حاصل کریں کیونکہ قرآن صرف پڑھنے کی کتاب نہیں بلکے سمجھنے اور اس کے بعد عمل کرنے کی کتاب ہے ۔ اس مستحب حکم کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ بعض روایات میں اسے واجب سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

یحب الانصات للقرآن فی الصلٰوة و فی غیرهاو اذا قرء عندک القراٰن وجب علیک الانصات والا ستماع

تجھ پر واجب ہے کہ نماز کے علاوہ بھی تلاوت قرآن ہورہی ہو تو خاموشی اختیار کرے اور اسے سنے اور جب تیرے سامنے قرآن پڑھا جائے تو ضروری ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے اور کان دھر کے اسے سنا جائے ۔(۱)

یہاں تک کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر امام جماعت قرات میں مشغول ہو اور کوئی دوسرا آدمی کسی آیت کی تلاوت کرنے لگے تو مستحب ہے کہ امام خاموش ہوجائے یہاں تک کہ وہ آیت ختم کرے پھر امام قرات کی تکمیل کرے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

حضرت علی علیہ السلام نماز صبح میں مشغول تھے اور (ایک تاریک دل منافق) ”ابن کوا“ آپ(علیه السلام) کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا اچانک اس نے نماز میں اس آیت کی تلاوت کی:

( و لقد اوحیٰٓ الیک والی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک و لتکونن من الخاسرین ) ۔(۲)

(اس آیت کی تلاوت سے اس کا مقصد یہ تھا کہ بطور کنایہ حضرت علی (علیه السلام) پر احتمالی طور پر میدان صفین میں حکمیت قبول کرنے پر اعتراض کرے) ۔

لیکن امام نے اس حالت میں بھی احترام قرآن میں سکوت اختیار کیا یہاں تک کہ اس نے آیت ختم کی اس کے بعد امام(علیه السلام) اپنی نماز کی قرات کی طرف لوٹے ۔ ”ابن کوا“ نے دوبارہ وہی کام امام نے پھر سکوت اختیار کیا ۔ ”ابن کوا“ نے تیسری مرتبہ آیت کا تکرار کیا اور حضرت علی (علیه السلام)نے پھر سے احترام قرآن میں سکوت فرمایا ۔ اس کے بعد آپ نے اس آیت کی تلاوت کی :( فاصبرانّ وعد اللّٰه حق ولا یستخفنک الّذین لا یوٴمنون )

(یہ اس طرف اشارہ تھا کہ خدا کا دردناک عذاب منافقین اور بے ایمان لوگوں کے انتظار میں ہے اور ان کے مقابلے میں تحمل اور حوصلہ مندی کا ثبوت دو) ۔آخر کار امام نے سورت کو تمام کیا اور رکوع میں گئے ۔(۳)

اس ساری بحث سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کی آیات کو سنتے وقت استماع اور سکوت بہت ہی مناسب اور اچھا کام ہے لیکن ایسا کلی طور پر واجب نہیں اور شاید اجماع اورروایات کے علاوہ ”( لعلکم ترحمون ) “ (شاید رحمت خدا تمھارے شاملِ حال ہو) بھی اس حکم کے مستحب ہونے کی طرف اشارہ ہو۔

صرف ایک ہی مقام پر یہ حکم الٰہی واجب ہے اور وہ نماز جماعت کا موقع ہے کہ جہاں ماموم سے حمد اور سورة کی قرات کے سقوط کی دلیل سمجھاہے ۔

منجملہ ان روایات کے جو اس حکم پر دلالت کرتی ہیں ایک حدیث ہے جو امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے جس میں آپ(علیه السلام) نے فرمایا ہے:و اذا قرء القرآن فی الفریضة خلف الامام فاستمعواله و انصتوا لعلکم ترحمون

اور جب قرآن نمازِ واجب میں پڑھا جارہا ہو اور تم پیش نماز کے پیچھے ہو تو کان دھر کر سنو اور خاموش رہو۔ شاید رحمت خدا تمھارے شامل حال ہو۔(۴)

رہا سوال لفظ ”لعل“ (شاید)کے بارے میں جو ایسے مواقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ تو پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ رحمت خدا تمھارے شامل حال ہونے کے لئے صرف یہ کافی نہیں کہ بس تم سکوت اختیار کرو اور اسے کان دھر کے سنو بلکہ اس کی اور بھی شرائط ہیں کہ جن میں سے ایک اس پر عمل کرنا ہے ۔

اس نکتے کا ذکر بھی برمحل ہے کہ مشہور فقیہ ”فاضل مقداد“ نے کتاب ”کنز العرفان“ میں اس آیت کی ایک اور تفسیر بیان کی ہے اور وہ یہ کہ اس سے مراد آیات قرآن کا سننا، ان کے مفاہیم کو سمجھنا اور اس کے معجزہ ہونے کا کھوج لگانا ہے ۔

یہ تفسیر شاید اس بناء پر کی گئی ہوکہ اس سے پہلے کی آیت میں مشرکین کے متعلق گفتگو تھی کہ وہ نزول قرآن کے بارے میں بہانہ جوئی کرتے تھے، لہٰذا قرآن ان سے کہتا ہے: خاموش رہو اور کان لگا کر سنو تاکہ حقیقت کو پاسکو۔(۵)

اس میں کوئی مانع نہیں کہ مندرجہ بالا آیت کا مفہوم اس قدر وسیع سمجھا جائے کہ اس میں مسلمان اور کافر سب سے خطاب ہو۔ غیر مسلمان سنیں تو سکوت اختیار کریں اور اس میں غور و فکر کریں تاکہ ایمان لے آئیں اور خدا کی رحمت ان کے شامل حال ہو اور مسلمان بھی کان دھریں ، اس کے مفاہیم کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں تاکہ رحمت الٰہی انھیں اپنے جلوہ میں لے لے کیونکہ قرآن سب کے لئے ایمان ،علم اور عل کی کتاب ہے اور یہ کسی ایک گروہ کے لئے مخصوص نہیں ہے ۔

اگلی آیت میں مندرجہ بالا حکم کی تکمیل کے لئے پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے (البتہ یہ ایک عمومی حکم ہے اگر چہ روئے سخن پیغمبر کی طرف ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں دیگر مقامات پر بھی ایسا ہوا ہے): اپنے پروردگار کو اپنے دل میں تضرع وزاری اور خوف کے ساتھ یاد کرو( وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِی نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَخِیفَة ) ۔(۶)

مزید ارشاد ہوتا ہے: اور آہستہ ، آرام اور سکون کے ساتھ اس کا نام زبان پر لاؤ ( وَدُونَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ ) ۔اور ہمیشہ صبح و شام یہ کام جاری رکھو( بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ) ۔

”اصال“”اصیل“ کی جمع ہے جو غروب اور شام کے قریب کا معنی دیتا ہے ۔

اور یاد خدا سے غافل اور بے خبر لوگوں میں سے ہرگز نہ ہوجا( وَلَاتَکُنْ مِنَ الْغَافِلِینَ ) ۔

ہر حالت میں ، ہر روز صبح و شام خدا کی یاد دولوں کی بیداری کا سب ہے اور غفلت کے تاریک بادلوں کو انسان سے دور رکھنے کا ذریعہ ہے ۔ یاد خدا باران بہار کی طرح ہے کہ اس کی پھوار جب دل پر پڑتی ہے تو بیداری، توجہ، احساسِ ذمہ داری، روشن بینی اور ہر قسم کے مثبت اور اصلاحی عمل کے پھول اُگاتی ہے ۔

اس کے بعد سورة کو اس گفتگو پر ختم کیا گیا ہے کہ نہ صرف تمھیں ہی ہر حالت میں یاد خدا میں رہنا چاہیے بلکہ مقرب بارگاہ پروردگار فرشتے اور وہ جو مقام َ قرب میں تیرے پروردگار کے قریب ہیں کسی وقت بھی اس کی عبادت کرنے پر تکبر نہیں کرتے اور مسلسل اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس کی پاک ذات کو ہر اس چیز سے منزہ سمجھتے ہیں جو اس کے مقام و منزلت کے لائق نہیں اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہتے ہیں( إِنَّ الَّذِینَ عِنْدَ رَبِّکَ لَایَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَیُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ یَسْجُدُونَ ) ۔

”عند ربک“ یعنی وہ جو تیرے پروردگار کے پاس ہیں ، یہ قربِ مکانی کے معنی نیں ہے کیونکہ خدا کا کوئی مکان نہیں ہے بلکہ قربِ مقام کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ اس حیثیت ومقام کے باوجود بندگی، سجدہ اور تسبیح میں کوتاہی نہیں کرتے لہٰذا تم بھی کوتاہی نہ کرو۔

اس آیت کی تلاوت کے وقت سجدہ کرنا مستحب ہے لیکن بعض ال سنّت مثلاً ابوحنیفہ کے پیروکار اسے واجب شمار کرتے ہیں ۔

بارالٰہا! ہمارے دل کو اپنی یاد کے نور سے روشن کردے، وہی روشنی جس کے سائے میں ہم اپنا راستہ حقیقت کی طرف کھول سکیں اور اس نور سے پرچمِ حق لہرائے، ظالموں سے برسرِپیکار رہنے اور ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اپنے ذمہ پیغاموں کو پہنچانے میں مدد لیں ۔

سورہ اعراف کی تفسیر اختتام کو پہنچی

____________________

۱۔ تفسیر برہان جلد ۲ ص ۵۷.

۲۔آیت کا مفہوم یہ ہے:

۳۔تفسیر برہان جلد ۲ ص ۵۶.

۴۔تفسیر برہان جلد ۲ ص ۵۷.

۵۔ کنز العرفان جلد اول ص ۱۹۵.

۶۔ ”تضرع“”ضرع“کے مادہ سے ”پستان“ کے معنی میں ہے اس شخص کے کام کو بھی ”تضرع“کہتے ہیں جو انگلیوں کی پوروں سے دودھ دو ہے ۔ بعد ازاں یہ لفظ اظہار خضوع اور تواضع کے لئے استعمال ہونے لگا ۔

سورہ انفال

سورہ انفال کے مختلف اور اہم مباحث

سورہ انفال کی پچھتر آیات میں نہایت اہم مباحث موجود ہیں :

۱ ۔ پہلے اسلام کے اہم مالی مسائل کے کچھ حصّوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، انفال اور غنائم بھی ان میں شامل ہیں کہ جن سے بیت المال کا ایک بڑا حصّہ تشکیل پاتا ہے۔

۲ ۔ دوسرے مباحث میں حقیقی مومنین کی صفات اور امتیازات کا ذکر ہے، جنگ بدر کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو کہ دشمنوں کے ساتھ مسلمانوں کا مسلح ٹکراؤ تھا، اس جنگ کے عجیب وغریب اور حیرت انگیز حوادث کا ذکر کیا گیا ہے۔

۳ ۔ سورہ کا ایک اہم حصّہ مسلمانوں پر دشمن کے پیہم حملوں کے مقابلے میں احکامِ جہاد پر مشتمل ہے، اس میں مسلمانوں کی اس سلسلے میں ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں ۔

۴ ۔ اس میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے حالات اور ہجرت کی تاریخی رات کا واقعہ بیان ہوا ہے جسے ”لیلة المبیت“ کہتے ہیں ۔

۵ ۔ اسلام سے پہلے مشرکین کی کیفیت اور ان کی خرافات کا بھی تذکرہ ہے

۶ ۔ ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی کمزوری اور ناتوانی کی کیفیت اور اس کے اسلام کے زیر سایہ ان کی تقویت کا ذکر بھی اس میں موجود ہے۔

۷ ۔ خمس کا حکم اور اس کی تقسیم کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔

۸ ۔بیان کیا گیا ہے کہ ہر دور میں ہر مقام پر جہاد کے لئے جنگی، سیاسی اور اجتماعی تیاری ضروری ہے۔

۹ ۔ظاہری افرادی کمی ہے باوجود معنوی اور روحانی طاقت کے حوالے سے دشمن پر مسلمانوں کی برتری کا ذکر بھی اس میں موجود ہے۔

۱۰ ۔جنگی قیدیوں کے بارے میں احکام اور ان سے سلوک کے بارے میں بھی گفتگو کی گئی ہے۔

۱۱ ۔ہجرت کرنے والوں اور ہجرت نہ کرنے والوں کے بارے میں بات کی گئی ہے۔

۱۲ ۔منافقوں سے مبارزہ ومقابلہ بھی اس میں موجود ہے اور ان کی پہچان کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔

۱۳ ۔آخر میں اخلاقی، اجتماعی اور دیگر اصلاحی حوالے سے متعدد مسائل بیان کئے گئے ہیں ۔

ان تمام امور کے پیشِ نظر مقامِ تعجب نہیں اگر کچھ روایات میں اس سورہ کی تلاوت کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے، مثلاً امام صادق علیہ السلام سے مروی ایک روایت میں ہے آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

من قرء الانفال وبرائة فی کلّ شهر لم یدخله نفاق ابداً وکان من شیعة اٴمیرالمومنین (ع) حقاً ویاٴکل یوم القیامة من موائد الجنة معهم حتی یفرغ الناس من الحساب -

جو شخص ہر ماہ سورہ انفال اور برائت کی تلاوت کرے اس کے وجود میں ہر گز روحِ نفاق داخل نہیں ہوگی اور وہ حقیقی طور پر امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کاپیرو ہوگا اور قیامت کے دن ان کے ساتھ بیٹھ کر جنت کے کھانوں میں سے کھائے گا یہاں تک کہ لوگ اپنے حساب سے فارغ ہوجائیں گے(۱)

جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ہے، قرآن کی سورتوں کے فضائل اور عظیم ثواب کہ جن کا تلاوت کرنے والوں کے لئے وعدہ کیا گیا ہے فقط الفاظ پڑھنے سے ہاتھ نہیں آئیں گے بلکہ پڑھنا تو مقدمہ ہے غور وفکر کرنے کا اور غورو فکر وسیلہ ہے سمجھنے کا اور سمجھنا تمہید ہے عمل کرنے کی اور چونکہ سورہ انفال اور سورہ برائت میں منافقین اور سچّے مومنین کی صفات بیان کی گئی ہیں تو جو افراددونوں سورتوں کو پڑھیں اور اپنی زندگی میں ان کی ہدایت پر عمل پیرا ہوں ان کے وجود میں کبھی بھی روحِ نفاق داخل نہیں ہوسکتی، اسی طرح چونکہ ان دونوں سورتوں میں سچّے مجاہدین کی صفات بیان کی گئی ہیں اور سرورِ مجاہدین حضرت علی علیہ السلام کی فداکاریوں کا کچھ ذکر ہے تو جو افراد ان دونوں سورتوں کے مفاہیم کا ادراک کرلیں اور انھیں اپنے اوپر نافذ کرلیں یقیناً وہ امیرالمومنین علیہ السلام کے سچّے شیعوں میں سے ہوجائیں گے۔

____________________

۱۔ تفسیر مجمع البیان، مذکورہ آیت کے ذیل میں -