تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27255
ڈاؤنلوڈ: 2405


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27255 / ڈاؤنلوڈ: 2405
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۹،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴

۹-( إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اٴَنِّی مُمِدُّکُمْ بِاٴَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَةِ مُرْدِفِینَ )

۱۰-( وَمَا جَعَلَهُ اللهُ إِلاَّ بُشْریٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُکُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ )

۱۱-( إِذْ یُغَشِّیکُمْ النُّعَاسَ اٴَمَنَةً مِنْهُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِیُطَهِّرَکُمْ بِهِ وَیُذْهِبَ عَنکُمْ رِجْزَ الشَّیْطَانِ وَلِیَرْبِطَ عَلیٰ قُلُوبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِهِ الْاٴَقْدَامَ )

۱۲-( إِذْ یُوحِی رَبُّکَ إِلَی الْمَلَائِکَةِ اٴَنِّی مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِینَ آمَنُوا سَاٴُلْقِی فِی قُلُوبِ الَّذِینَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْاٴَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ کُلَّ بَنَانٍ )

۱۳-( ذٰلِکَ بِاٴَنَّهُمْ شَاقُّوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَمَنْ یُشَاقِقْ اللهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ )

۱۴-( ذَلِکُمْ فَذُوقُوهُ وَاٴَنَّ لِلْکَافِرِینَ عَذَابَ النَّارِ )

ترجمہ

۹ ۔ وہ وقت یاد کرو (جب انتہائی پریشانی کے عالم میں میدانِ بدر میں ) اپنے پروردگا سے تم مدد چاہ رہے تھے اور اس نے تمھاری خواہش کو پورا کردیا (اور کہا) کہ میں تمھاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا جو ایک دوسرے کے پیچھے آرہے ہوں گے۔

۱۰ ۔ لیکن خدا نے یہ صرف تمھاری خوشی اور اطمینانِ قلب کے لئے کیا ورنہ بغیر خدا کی جانب کے کامیابی نہیں ہے خدا توانا اور حکیم ہے۔

۱۱ ۔ وہ وقت یاد کرو جب اونگھ نے جو کہ آرام اور سکون کا سبب تھی خدا کی طرف سے تمھیں گھیر لیا اور آسمان کی طرف سے تم پر پانی نازل کیا تاکہ اس سے وہ تمھیں پاک کرے اور شیطانی پلیدی تم سے دُور کرے اور تمھارے دلوں کو مضبوط کرے اور تمھیں ثابت قدم بنادے۔

۱۲ ۔ وہ وقت یاد کرو جب تیرے پروردگار نے فرشتوں کو وحی کی کہ میں تمھارے ساتھ ہوں ، جو لوگ ایمان لائے ہیں انھیں ثابت قدم رکھو، میں جلد ہی کافروں کے دل میں خوف اور وحشت ڈال دوں گا۔ ضربیں (دشمنوں کے سروں ) گردنوں کے اُوپر لگاو اور اُن کے ہاتھ پاوں بے کار کردو۔

۱۳ ۔ یہ اس بناء پر ہے کہ انھوں نے خدا اور اس کے پیغمبر سے دشمنی کی ہے اور جو بھی خدا اور اس کے پیغمبر سے دشمنی کرے گا (وہ سخت سزا پائے گا کہ) خدا شدید العقاب ہے۔

۱۴ ۔ یہ (دنیاوی سزا) چکھو اور کافروں کے لئے تو (جہنم کی) آگ کی سزا (دوسرے جہان میں ) ہوگی۔

بدر کے تربیتی درس

یہ آیات جنگ بدر کے حسّاس مواقع کی طرف اشارہ کرتی ہیں ، اس خطرناک موقع پر خدا نے مسلمانوں کو جن کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا تھا ان میں ان کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ ان میں اطاعت اور شکرگزاری کا جذبہ ابھارا جائے اور ان کے سامنے آئندہ کی کامیابیوں کا راستہ کھول دیا جائے۔

پہلے فرشتوں کی مدد کا ذکر ہے، ارشاد ہوتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب دشمن کی کثرتِ تعداد اور ان کے زیادہ جنگی سازوسامان سے وحشت واضطراب کے باعث تم نے خدا کی پناہ لی اور دستِ حاجت اس کی طرف دراز کیا اور اس سے مدد کی درخواست کی( إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ ) ۔

کچھ روایات میں آیا ہے کہ خدا سے استغاثہ اور مدد طلب کرنے میں رسول الله بھی مسلمانوں کے ساتھ ہم آواز تھے آپ نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کررکھے تھے اور کہہ رہے تھے:

( اللّٰهمّ انجز لی ماوعدتنی اللّٰهمّ ان تهلک هٰذه العصابة لاتعبد فی الارض ) -

خدایا! مجھ سے جو تو نے وعدہ کیا تھا اُسے پورا کردے ۔ پروردگار! اگر مومنین کا یہ گروہ مارا گیا تو زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

آپ نے اس تسغاثہ اور دعا کو اتنا طول دیا کہ عبا آپ کے دوش مبارک سے گرگئی۔(۱)

اس وقت خدا نے تمھاری دعا اور درخواست کو قبول کرلیا اور فرمایا کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمھاری نصرت کروں گا جوایک دوسرے کے پیچھے آرہے ہوں گے( فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اٴَنِّی مُمِدُّکُمْ بِاٴَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَةِ مُرْدِفِینَ ) ۔ ”مردفین“ کا مادہ ”ارداف“ ہے، اس کا معنی میں یہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ یہ ایک ہزار کا دستہ تھا اور دیگر دستے اس کے پیچھے تھے۔ اس طرح سے سورہ آل عمران کی آیہ ۱۲۴ بھی اس مفہوم پر منطبق ہوجاتی ہے جس میں ہے کہ پیغمبر نے مومنین سے کہا:

کیا یہ کافی نہیں ہے کہ خدا نے تمھاری تین ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی۔

لیکن ظاہر یہ ہے کہ جنگ بدر میں فرشتوں کی تعداد ایک ہزار تھی اور ”مردفین‘ ‘ اس ایک ہزار کی صفت ہے، سورہ آل عمران کی آیت مسلمانوں سے ایک خدا ئی وعدہ تھا کہ اگر ضرورت پڑھی تو خدا مزید تمھاری مدد کے لئے بیجے گا۔

اس کے بعد کہ کہیں یہ خیال پیدا ہو کہ کامیابی فرشتوں یا اِن جیسوں کے ہاتھ میں ہے، فرمایا گیا ہے: خدا نے ایسا صرف بشارت کے طور پر اور تمھارے اطمینانِ قلب کے لئے کیا( وَمَا جَعَلَهُ اللهُ إِلاَّ بُشْریٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُکُمْ ) ۔ ورنہ کامیابی تو صرف خدا کی طرف سے ہے اور ان ظاہری اور باطنی اسباب کے اوپر اس کا ارادہ مشیت ہے( وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللهِ ) ۔ کیونکہ ایسا خدا قادر وقوی ہے کہ کوئی بھی اس کے اراد ہ اور مشیّت کے سامن نہیں ٹھہرسکتا اور ایسا حکیم ودانا ہے کہ اس کی مدد اصل افراد کے علاوہ کو نہیں پہنچتی (إ( نَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ) ۔

کیا فرشتوں نے جنگ گی تھی؟

مفسّرین کے درمیان اس سلسلے میں بہت اختلاف ہے۔

بعض کا نظریہ ہے کہ فرشتے یاقاعدہ معرکہ جنگ میں شریک ہوئے اور انھوں نے ایسے ہتھیاروں سے دشمن کے لشکر پر حملہ کیا جو انہی سے مخصوص تھے۔ انھوں نے ان میں سے کچھ افراد کو ڈھیر کردیا۔ اس سلسلے میں ان مفسّرین نے کچھ زیادہ روایات بھی نقل کی ہیں ۔

کچھ قرائن ایسے بھی ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ دوسرے گروہ کا نظریہ حقیقت کے زیادہ قریب ہے جو کہتے ہیں کہ فرشتے صرف مومنین کی دلجوئی اور روحانی تقویت کے لئے نازل ہوئے تھے ۔ کیونکہ:

۱ ۔ ہم مندرجہ بالا آیت میں پڑھ چکے ہیں کہ فرمایا گیا ہے : یہ سب کچھ تمھارے اطمینانِ قلب کے لئے تھا تاکہ اس پشت پناہی کے احساس سے بہتر طور پر جنگ کرسکو، نہ یہ کہ فرشتوں نے جنگ کے لئے قدم بڑھایا۔

۲ ۔ اگر فرشتوں نے بہادرانہ جنگ سے دشمن کے سپاہیوں کو چت کردیا تو مجاہدین بدر کی کونسی فضیلت باقی رہ جاتی ہے جو روایات میں بڑے زور وشور سے بیان کی گئی ہے۔

۳ ۔ بدر میں شدمن کے مقتولین کی تعداد ستر( ۷۰) افراد ہے۔ اس میں ایک بڑا حصّہ حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے قتل ہوا اور باقی دیگر مجاہدینِ اسلام کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان مجاہدین میں سے بیشتر کے نام تاریخ میں مذکور ہیں اس بناء پر فرشتوں کے لئے کونسے باقی رہ جاتے ہیں اور انھوں نے کتنے افراد قتل کئے۔

اس کے بعد خداتعالیٰ مومنین کو اپن یدوسری نعمت باد دلاتے ہوئے فرماتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب تمھیں اونگھ نے گھیر لیا جو خدا کی طرف سے تمھارے جسم وروح کے لئے باعثِ سکون تھی( إِذْ یُغَشِّیکُمْ النُّعَاسَ اٴَمَنَةً مِنْهُ ) ۔”یغشی“”غشیان“ کے مادہ سے ہے، اس کا معنی ہے ڈھاپنا اور احاطہ کرنا۔ گویا نیند ایک پردے کی طرح ان پر ڈال دی گئی اور اس نے انھیں ڈھانپ لیا۔

”نعاس“ نیند کی ابتدا (اونگھ) یا تھوڑی اور ہلکی سی آرام بخش نیند کو کہا جاتا ہے اور شاید اس طرف اشارہ ہے کہ عین استراحت کے باوجود اس طرح گہری نیند تم پر مسلط نہیں ہوئی کہ دشمن موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تم پر شبخون مارے۔ اس طرح مسلمانوں نے ا س پُر اضطراب رات میں اس عظیم نعمت سے فائدہ اٹھایا جس نے اگلے روز میدان جنگ میں ان کی بڑی مدد کی۔

تیسری نعمت جو اس میدان میں تمھیں عطا کی گئی یہ تھی کہ آسمان سے تم پر پانی برسا( وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ) ۔ تاکہ اس کے ذریعے تمھیں پاک کرے اور شیطانی نجاست تم سے دور کرے( لِیُطَهِّرَکُمْ بِهِ وَیُذْهِبَ عَنکُمْ رِجْزَ الشَّیْطَانِ ) ۔

یہ نجاست ہوسکتا ہے شیطانی وسوسے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس شب بعض کے مجنب ہوجانے کی وجہ سے جسمانی ناپاکی ہو یا ممکن ہے دونوں قسموں کی نجاست ہو۔

بہرحال اس حیات بخش پانی نے جو بدر کے اطراف کے گھڑوں میں جمع ہوگیا تھا۔ دشمن نے کنویں اپنے قبضے لے رکھے تھے اور مسلمانوں کو طہارت اور پینے کے لئے پانی کی سخت ضرورت تھی۔ اس حالت میں بارش کے اس پانی نے ان سب نجاستوں کو دھوڈالا اور انھیں بہالے گیا۔

علاوہ ازیں خدا چاہتا تھا کہ اس نعمت کے ذریعے تمھارے لوں کو محکم کردے( وَلِیَرْبِطَ عَلیٰ قُلُوبِکُمْ ) ۔ نیز چاہتا تھا کہ یہ ریتلی زمین جس میں تمھارے پاوں دھنس جاتے تھے اور پھسل جاتے تھے بارش کے برسنے کی وجہ سے مضبوط ہوجائے تاکہ تمھارے قدم مضبوط ہوجائیں( وَیُثَبِّتَ بِهِ الْاٴَقْدَامَ ) ۔

ثابت قدمی سے مراد روح کی تقویت اور جوش وولولہ میں اضافہ ہو یا ہوسکتا ہے دونوں چیزیں مراد ہوں ۔

مجاہدینِ بدر پر پروردگار کی نعمتوں میں سے ایک نعمت وہ خوف وہراس تھا جو دشمنوں کے دلوں میں ڈال دیا گیا تھا جس نے ان کے حوصلوں کو متزلزل کررکھا تھا، اس سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب خدا نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی کہ میں تمھارے ساتھ ہوں اور تم اہلِ ایمان کو تقویت دو اور انھیں ثابت قدم رکھو( إِذْ یُوحِی رَبُّکَ إِلَی الْمَلَائِکَةِ اٴَنِّی مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِینَ آمَنُوا ) ۔ اور عنقریب میں کافروں کے دلوں میں خوف اور وحشت ڈال دوں گا

( سَاٴُلْقِی فِی قُلُوبِ الَّذِینَ کَفَرُوا الرُّعْبَ ) ۔

واقعاً یہ عجیب وغریب بات تھی کہ تواریخ کے مطابق مسلمانوں کے چھوٹے سے لشکر کے مقابلے قریش کی طاقتور فوج نفسیاتی طور پر اس قدر شکست خوردہ ہوچکی تھی کہ ان میں سے ایک گروہ مسلمانوں سے جنگ کرنے سے ڈرتا تھا، بعض اوقات وہ دل میں سوچتے کہ یہ عام انسان نہیں ہیں ، بعض کہتے کہ یہ موت کو اپنے اونٹوں پر لادکر مدینہ سے تمھارے لئے سوغات لائے ہیں ۔

اس میں شک نہیں کہ دشمن کے دل میں یہ خوف ڈالنا کہ جو کامیابی کے عوامل میں سے ایک موثر عامل ہے، بلاوجہ نہ تھا۔ مسلمانوں کی وہ پامردی، ان کی نماز جماعت، ان کے حرارت بخش شعار اور سچّے مومنین کا اظہارِ وفاداری، سب کچھ اپنی تاثیر مرتب کررہا تھا۔

سعد بن معاذ انصار کے نمائندہ کے طور پر خدمتِ پیغمبر میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اے الله کے رسول! ہم آپ پر ایمان لائے اور ہم نے آپ کی نبوت کو گواہی دی ہے کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں خدا کی طرف سے ہے، آپ جو بھی حکم دینا چاہیں دیجئے اور ہمارے مال میں جو کچھ آپ چاہیں لے لیں ، خدا کی قسم اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ اس دریا (دریائے احمر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جو وہاں سے قریب تھا) کود پڑو تو ہم کو پڑیں گے، ہماری یہ آرزو ہے کہ خدا ہمیں توفیق دے کہ ایسی خدمت کریں جو آپ کی آنکھ کی روشنی کا باعث ہو۔

جی ہاں ، ایسی گفتگو جو دوست اور دشمن میں پھیل جاتی تھی، اس استقامت کے علاوہ جو وہ پہلے ہی مکہ میں مسلمان مردوں اور عورتوں میں دیکھ چکے تھے۔ سب باتیں اکھٹی ہوگئیں اور اس سے دشمن وحشت زدہ ہوگیا۔

دشمن کی طرف سخت آندھی چل رہی تھی، اُن پر موسلا دھار بارش برس رہی تھی، عاتکہ کے وحشت ناک خواب کا بھی مکہ میں چرچا ہوچکا تھا، یہ اور دوسرے عوامل مل کر انھیں خوفزدہ کئے ہوئے تھے، اس کے بعد الله تعالیٰ نے میدانِ بدر میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے ذریعے مسلمانوں کو جو پیغام دیا تھا وہ انھیں یاد دلایا جارہا ہے اور وہ یہ کہ: مشرکین سے جنگ کرتے وقت غیرموثر ضربوں سے پرہیز کرو اور انھیں ضائع نہ کرو بلکہ دشمن پر کاری ضربیں لگاو ”گردن سے اُوپر ان کے مغز اور سر پر ضرب لگاو“( فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْاٴَعْنَاقِ ) ۔ ”اور ان کے ہاتھ پاوں بیکا رکردو“( وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ کُلَّ بَنَانٍ ) ۔

”بَنَانٍ“ ”بَنَانة“ کی جمع ہے، اس کا معنی ہے ہاتھ پاؤں کی انگلی کی پور، خود انگلی کو بھی ”بَنَانة“ کہتے ہیں ۔ زیر بحث آیات میں ہوسکتا ہے ہاتھ پاؤں کے لئے کنایہ کے طور پر یہ لفظ آیا ہو اور یا پھر اپنے اصل معنی میں ہو، کیونکہ اگر ہاتھ کی انگلیاں کٹ جائیں اور بے کار ہوجائیں تو انسان ہتھیار اٹھانے کے قابل نہیں رہتا اور اگر ہاتھ کٹ جائیں تو چلنے کی طاقت نہیں رہتی۔

یہ احتمال بھی ہے کہ اگر حملہ آور دشمن پیادہ ہو تو اسکے سر کو نشانہ ن بناو اور اگر سوار ہو تو اس کے ہاتھ پاوں کو۔

جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے کہ بعض اس جملے کو ملائکہ سے خطاب سمجھتے ہیں لیکن قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ اس میں مخاطب مسلمان ہی ہیں اور اگر فرشتے بھی مخاطب ہوں تو ہوسکتا ہے کہ دماغ اور ہاتھ پاوں پر ضرب لگانے سے مراد یہ ہو کہ ان پر اسیا خوف طاری کرو کہ کام کرتے ہوئے ان کے پاوں ہل جائیں اور سر نیچے جھک جائیں (البتہ یہ تفسیرظاہر عبارت کے خلاف ہے اور ملائکہ کے جنگ نہ کرنے کے بارے میں قرائن بیان کئے جاچکے ہیں اسی کوثابت سمجھنا چاہیے)۔

ان تمام باتوں کے بعد اس بنا پر کوئی ان سخت فرامین اور سرکوبی کرنے والے ان لازمی وقطعی احکام کو آئین جوانمردی اور رحم وانصاف کے خلاف تصور نہ کرے فرمایا گیا ہے: وہ اس چیز کے مسحتق ہیں کیونکہ وہ خدا اور اس کے پیغمبر کے سامنے عداوت، دشمنی، نافرانی اور سرکشی پر اُتر آئے ہیں( ذٰلِکَ بِاٴَنَّهُمْ شَاقُّوا اللهَ وَرَسُولَهُ ) ۔

”شَاقُّوا“”شقاق“ کے مادہ سے ہے، اس کا معنی ہے شگاف اور جدائی اور چونکہ مخالف دشمن اور معصیت کار اپنی صف جدا کرلیتا ہے لہٰذا اس عمل کو ”شقاق“ کہتے ہیں اور جو شخص بھی خدا اور پیغمبر کی مخالفت کے دروازے سے داخل ہوگا وہ دنیا وآخرت میں دردناک سزا میں گرفتار ہوگا کیونکہ (جس طرح اس کی رحمت وسیع اور لامتناہی ہے) اس کی سزا بھی شدید اور دردناک ہے (وَمَنْ یُشَاقِقْ اللهَ وَرَسُولَہُ فَإِنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ)۔

اس کے بعد اس امر کی تاکید کے لئے ارشاد ہوتا ہے: اس دنیا کی سزا کا مزہ چکھو، میدان جنگ میں کاری ضربوں ، قتل، قید او شکست کی سزا بھگتو اور دوسرے جہاں کی سزا کے منتظر رہو (کیونکہ جہنم کی) آگ کا عذاب کافروں کے انتظار میں ہے( ذَلِکُمْ فَذُوقُوهُ وَاٴَنَّ لِلْکَافِرِینَ عَذَابَ النَّارِ ) ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں -

آیات ۱۵،۱۶،۱۷،۱۸

۱۵-( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا لَقِیتُمْ الَّذِینَ کَفَرُوا زَحْفًا فَلَاتُوَلُّوهُمَ الْاٴَدْبَارَ )

۱۶-( وَمَنْ یُوَلِّهِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ اٴَوْ مُتَحَیِّزًا إِلیٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنْ اللهِ وَمَاٴْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ )

۱۷-( فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَکِنَّ اللهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلَکِنَّ اللهَ رَمَی وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا إِنَّ اللهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ )

۱۸-( ذَلِکُمْ وَاٴَنَّ اللهَ مُوهِنُ کَیْدِ الْکَافِرِینَ )

ترجمہ

۱۵ ۔ اے ایمان والو! جب میدانِ جنگ میں کافروں کا سامنا کرو تو ان سے پشت نہ پھیرو۔

۱۶ ۔ اور جو شخص اس وقت ان سے پیٹھ پھیرے گا مگر یہ کہ اس کا مقصد میدان سے پلٹ کر نیا حملہ کرنا یا (مجاہدین کے) گروہ سے ملنا ہو، تو (ایسا شخص) غضبِ پروردگار میں گرفتار ہوگا اور اس کی قرارگاہ جہنم ہے اور یہ کیسی بُری جگہ ہے۔

۱۷ ۔ یہ تم نہ تھے جنھوں نے انھیں قتل کیا بلکہ خدا نے انھیں قتل کیا ہے اور (اے پیغمبر!) یہ تُو نہ تھا(کہ جس نے اُن کے چہروں پر مٹی پھینکی) بلکہ خدا نے پھینکی تھی اور خدا چاہتا تھا کہ وہ مومنین کو اس طرح سے آزمالے اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔

۱۸ ۔ مومنین اور کافرین کی سرنوشت یہی تھی جو تم نے دیکھ لی اور خدا کفار کی سازشوں کو کمزور کرنے والا ہے۔

جہاد سے فرار ممنو ع ہے

جیسا کہ گذشتہ آیات کی تفاسیر میں اشارہ ہوچکا ہے کہ جنگ بدر کی کامیابی اور خدا کی اور بہت سی نعمتیں جو اس نے مسلمانوں پر اس واقعہ میں کی تھی تاکہ وہ گذشتہ اور آئندہ کے حوالے سے ان سے سبق حاصل کریں لہٰذا زیرِ نظر آیات میں روئے سخن مومنین کی طرف کرتے ہوئے ان سے ایک عمومی جنگی اصول اور حکم نصیحت اور تاکید کے طور پر بیان کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: اے وہ لوگو! جو ایمان لاچکے ہو جب بھی میدان جنگ میں کافروں سے تمھارا آمنا سامنا ہو تو انھیں پشت نہ دکھاو اور راہِ فرار اختیار نہ کرو( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا لَقِیتُمْ الَّذِینَ کَفَرُوا زَحْفًا فَلَاتُوَلُّوهُمَ الْاٴَدْبَارَ ) ۔

( لَقِیتُمْ ) “ ”لَقِاء “ کے مادہ سے اجتماع اور روبرو ہونے کے معنی میں ہے لیکن اکثر مواقع پر میدانِ جنگ میں آمنا سامنا ہونے کے معنی میں آیا ہے۔

”زحف“ اصل میں کسی چیز کی طرف حرکت کرنے کے معنی میں ہے اس طرح سے کہ پاوں زمین کی طرف کھنچے چلے جائیں جیسے بچہ ٹھیک طرح سے چلنے پھرنے سے پہلے چلنے کی کوشش کرتا ہے یا جیسے اونٹ جب تھک جاتا ہے تو اپنے پاوں زمین پر کھینچتا ہے، بعدازاں کثیر تعداد والے لشکر کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہونے لگا کیونکہ دُور سے یوں لگتا ہے جیسے زمین پر لڑکھڑاتا ہوا آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

مندرجہ بالا آیت میں لف ”رحف“ اس طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ دشمن کی تعداد سازوسامان کے لحاظ سے تم سے بڑھ کر ہو اور تم اقلیّت میں ہو پھر بھی تمھیں میدانِ جنگ سے فرار نہیں کرنا چاہیے جیسے میدانِ بدر سے دشمنوں کی تعداد تم سے کئی گُنا زیادہ تھی اور تے نے ثابت قدمی دکھائی اور بالآخر کامیاب ہوگئے۔ اصولی طور پر جنگ سے بھاگنا اسلام میں ایک بہت بڑا گناہ شمار ہوتا ہے۔ قرآن کی بعض آیات پر توجہ کی جائے تو زیادہ سے زیادہ ان میں یہ بات اس امر سے مشروط ہے کہ دشمن کا لشکر زیادہ سے زیادہ دوگنا ہو، اس کے بارے میں اسی سورہ کی آیت ۶۵ و ۶۶ کے ذیل میں انشاء الله بحث کی جائے گی۔

اسی بناپر اگلی آیت میں بعض مواقع کے استثناء کے ساتھ میدانِ جنگ سے پیٹھ پھیرنے والوں کے بارے میں کہا گیا ہے: جو لوگ دشمن سے جنگ کرتے وقت ان سے پشت پھیر لیں مگر یہ کہ یہ کنارہ کشی جنگی چال کے لئے ہو یا مسلمان گروہ سے مل کر نئے حملے کے لئے ہو، تو ایسے لوگ الله کے غضب میں گرفتار ہوں گے( وَمَنْ یُوَلِّهِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ اٴَوْ مُتَحَیِّزًا إِلیٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنْ اللهِ ) ۔

جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ فرار کے معاملے میں اس آیت میں دواستثنائی صورتیں بیان کی گئی ہیں جو ظاہری طور پر فرار ہیں لیکن دراصل مقابلے اور جہاد کی صورتیں ہیں ۔

پہلی صورت کو ”( مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ ) “ کہا گیا ہے۔ ”متحرف“ ”تحرف“ کے مادہ سے ہے اس کا معنی ہے درمیان سے اطراف کی طرف ہٹنا، اس سے مراد یہ ہے کہ سپاہی ایک جنگی تکنیک کے طور پر دشمن کے مقابلے سے بھاگ کھڑے ہوں اور ایک طرف ہٹ جائیں تاکہ اُسے اپنے کھینچ لائیں اور اسے غفلت میں دال کر اس کے پیکر پر اچانک ضرب لگائیں اور ایا جنگ اور بھاگنے کے تکنیک سے دشمن کو تھکادیں کیونکہ جنگ میں کبھی حملہ کیا جاتا ہے اور کبھی نئے حملے کے لئے پیچھے ہٹ آنا پڑتا ہے عرب کے بقول: ”الحرب کروفر؛یعنی جنگ جھپٹنے اور پلٹنے کا نام ہے“۔

دوسری صورت یہ ہے کہ سپاہی میدان میں اپنے کو اکیلا پائے اور یگر فوجی سپاہیوں سے ملنے کے لئے پیچھے ہٹ آئے اور ان سے مل جانے کے بعد حملہ شروع کرے۔

بہرحال میدان سے بھاگنے کی حرمت کی خشک صورت میں تفسیر نہیں کی جانی چاہئے کہ جس سے جنگی حکمتِ عملی اور تدابیر ہی ختم ہوجائیں کیونکہ جنگی تدایر بہت سی کامیابیوں کا سرچشمہ ہوتی ہیں ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: جنگ سے بھاگ جانے والے نہ صرف غضب الٰہی کا شکار ہوں گے بلکہ ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ کیسی بُری جگہ ہے( وَمَاٴْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ) ۔

”باء“ ”بواء“ کے مادہ سے مراجعت اور جگہ لینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے اصلی معنی ہیں کسی مقام یا مکان کو صاف وشفّاف اور ہموار کرنا چونکہ انسان جب کوئی مکان لیتا ہے تواپنی جگہ صاف اور ہموار کرتا ہے لہٰذا یہ لفظ اس مفہوم میں ایا ہے اور اسی طرح چونکہ انسان رہائش گاہ کی طرف پلٹ کر آتا ہے لہٰذا بازگشت اور لوٹ آنے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے، مندرجہ بالا آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ پروردگار کا مسلسل اور دائمی غضب ان کے شاملِ حال رہے گا گویا انھوں نے غضب الٰہی میں گھر بنالیا ہے۔

”ماویٰ“ اصل میں ”پناہگاہ“ کے معنی میں ہے اور یہ جو مندرجہ بالا آیت میں ہے کہ جہاد سے بھاگنے والوں کا ”ماویٰ“ جہنم ہے تو یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے بھاگ کر اپنے لئے کوئی پناہگاہ ڈھونڈتے ہیں تاکہ ہلاکت سے محفوظ رہیں ، لیکن (ان کی خواہش کے) برعکس ان کی پناہگاہ جہنم ہوگی، نہ صرف دوسرے جہان میں بلکہ وہ اس جہان میں بھی ذلّت، بدبختی، شکست اور محرومیت کی جلانے والی جہنم کی پناہگاہ میں ہوں گے۔

اسی لئے کتاب ”عیون الاخبار“ میں ہے کہ امام علی بن موسی الرضا علیہمالسلام کے ایک صحابی نے بہت سے احکام فلسفے کے بارے میں پوچھا،اس سلسلے میں آپ(علیه السلام) نے تحریر فرمایا:

جہاد سے فرار کو خدا نے اس لئے حرام قرار دیا ہے کیونکہ یہ دین کی کمزوری اور تنزّلی کا سبب اور انبیاء، آئمہ اور عادل پیشواوں کے پرورگرام کی تحقیر وتذلیل کا باعث ہوتا ہے۔، نیز اس کے سبب مسلمان دشمن پر کامیابی حاصل نہیں کرپاتے اور دشمن کو توحیدِ پروردگار، اجرائے عدالت اور ترک ظلم وفساد کے دعوت کی مخالفت پر سزا نہیں دے سکتے اور اس کے سبب دشمن مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ جسور اور بے باک ہوجائیں گے، یہاں تک کہ مسلمان ان کے ہاتھوں قتل ہوں گے اور قید ہوں گے اور آخر کار الله کا دین سفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔(۱)

حضرت علی علیہ السلام کو جو بہت سے امتیازات حاصل تھے اور آپ(علیه السلام) کبھی کبھار دوسروں کی تشویق کے لئے جن کی طرف اشارہ کرتے تھے ان میں سے ایک میدانِ جنگ سے فرار نہ کرنا بھی تھا۔ آپ(علیه السلام) فرماتے ہیں :

( انّی لم افر من الزحف قط ولم یبرزنی اٴحد الّا سقیت الارض من دمه ) -

(حالانکہ میں نے پوری زندگی میں بہت سی جنگو ں میں شرکت کی ہے لیکن) میں نے دشمن کی فوج کے سامنے کبھی فرار نہیں کیا اور کوئی شخص میدانِ جنگ میں میرے سامنے نہیں آیا مگر یہ کہ میں نے اس کے خون سے زمین کو سیراب کردیا۔(۲)

تعجب کی بات ہے کہ بعض اہل سنّت مفسّرین اس بات پر مصر ہیں کہ زیر بحث آیت کا حکم جنگ بدر سے مخصوص تھا اور یہ تہدید وسرزنش جو جہاد سے فرار کرنے والوں کے بارے میں ہے صرف بندر کے مجاہدین سے مربوط ہے حالانکہ نہ صرف آیت کے لئے اختصاص کی کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ آیت کا مفہوم تمام جنگ کرنے والوں اور تمام مجاہدین کے لئے عمومی ہے، نیز آیات وروایات کے قرائن بھی اسی امر کی تائید کرتے ہیں (البتہ اس اسلامی حکم کی کچھ شرائط ہیں جن کا تذکرہ اسی سورہ کی آئندہ آیات میں آئے گا)

اس کے بعد اس بناء پر کہ مسلمان جنگ بدر کی کامیابی پر مغرور نہ ہوں اور صرف اپنی جسمانی قوت وطاقت پر بھروسہ نہ کرنے لگ جائیں بلکہ ہمیشہ اپنے قلب وروح کو یادِ الٰہی اور نصرتِ خدا سے گرم اور روشن رکھیں ، ارشاد فرمایا گیا ہے: میدان بندر یہ تم نے دشمن کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے انھیں قتل کیا ہے( فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَکِنَّ اللهَ قَتَلَهُمْ ) ۔

اور اے پیغمبر! ان کے چہروں پر تونے مٹی اور ریت نہیں پھینکی بلکہ خدا نے پھینکی ہے (وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلَکِنَّ اللهَ رَمیٰ)۔

اسلامی روایات میں ہے اور مفسّرین نے بیان کیا ہے کہ روزِ بدر رسول الله نے حضرت علی(علیه السلام) سے فرمایا:

زمین سے مٹی اور سنگریزوں کی ایک مٹھی بھر کے مجھے دے دو۔

حضرت علی(علیه السلام) نے ایسا ہی کیا اور رسولِ خدا نے اسے مشرکین کی طرف پھینک دیا اور فرمایا:

شاهت الوجوه “تمھارے منھ قبیح اور سیاہ ہوجائیں ۔

لکھا ہے کہ معجزانہ طور پر وہ گردو غبار اور سنگریزے دشمنوں کی آنکھوں میں جاپڑے اور وہ سب وحشت زدہ ہوگئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ظاہراً یہ سب کام رسول الله نے اور مجاہدینِ بدر نے انجام دیئے لیکن یہ جو کہا گیا ہے کہ تم نے یہ کام نہیں کیا، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ:

اوّل تو وہ جسمانی ، روحانی اور ایمانی طاقت کہ جو اس سارے معاملے ک سرچشمہ تھی، تمھیں خدا کی طرف سے بخشی گئی تھی اور تم نے اس راستے میں خدا کی بخشی ہوئی طاقت سے قدم اٹھایا۔

دوم یہ کہ میدان بدر میں پر اعجاز حوادث ظاہر ہوئے کہ جن کی طرف پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے، یہی مجاہدین اسلام کی روحانی تقویت اور دشمنوں کی نفسیانی شکست کا سبب بنے، یہ غیر معمولی امور اور اثرات خدا کی طرف سے ہی تھے۔

در حقیقت یہ آیت اس نظریے کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ:

لا جبر ولا تفویض بل امرٌبین الامرین

یعنی: نہ جبر ہے اور نہ تفویض اور مکمل سپردگی بلکہ معاملہ ان دونوں کے درمیان ہے۔

جیسے دشمنوں کو قتل کرنے کی نسبت مسلمانوں کی طرف دی گئی اور مٹی پھینکنے کی نسبت پیغمبر کی طرف دی گئی ہے اور ساتھ ہی ان سے یہ نسبت سلب بھی کرلی گئی ہے (غور کیجئے گا)

اس میں شک نہیں کہ اسی عبارتوں میں کوئی تناقض نہیں بلکہ مقصدیہ ہے کہ یہ کام بھی ہے اور خدا کا کام بھی -- تمہارا اس وجہ سے کہ تمھارے ارادے سے انجام پایا ہے اور خدا کا اس لئے کہ قوت اور مدد اس کی طرف سے ہے۔ لہٰذا وہ لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ یہ آیت نظریہ جبر کی دلیل ہے ان کا جواب خود نفس آیت میں پنہاں ہے۔

”وحدت وجود“ کے نظریے کے قائل جو افراد اس آیت کو اپنے نظریے کی دستاویز کے طور پر پیش کرتے ہیں ، ان کا جواب بھی خود آیت میں لطیف انداز میں موجود ہے کیونکہ اگر خدا اور مخلوق ایک ہی ہیں تو پھر ایک شکل میں فعل کی نسبت ان کے لئے ثابت اور دوسری صورت میں نہیں کی جاسکتی ۔ یہ نفی و اثبات خود خالق و مخلوق کے تعدد کی دلیل ہے اور اگر اپنی فکر کو پہلے سے کیے گئے نادرست اور تعصب آمیز فیصلوں سے خالی کرلیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ اس آیت کا کسی بھی انحرافی اور ٹیڑھے مکتب اور نظریے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مکتب واسطہ اور ”امربین الامرین“ کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ بھی ایک ترتیبی مقصد کے لئے یعنی آثار غرور ختم کرننے کے لئے جو عموماً کامیابیوں کے بعد انسانوں کو دامن گیر ہوجاتے ہیں ۔

آیت کے آخر میں ایک اور اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ میدان بدر مسلمانوں کے لئے ایک آزمائش کا میدان تھا اور خدا چاہتا تھا کہ مومنین کو اپنی طرف سے اس کامیابی کے ذریعے آزمائے (وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْہُ بَلَاءً حَسَنًا )۔

”بلآء“ در اصل آزمائش کرنے کے معنی میں ہے البتہ آزمائش کبھی نعمتوں کے ذریعے ہوتی ہے جسے ”بلآء حسن“ کہتے ہیں اور کبھی مصیبتوں اور سختیوں کے ذریعے ہوتی ہے جسے ”بلاء سیٴ “ کہتے ہیں جیسا کہ بنی اسرائیل کے بارے میں ہے:

( وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ ) ”انھیں ہم نے نعمتوں اور مصیبتوں کے ذریعے آزمایا“ ۔(اعراف۔ ۱۶۸)

خدا چاہتا تھا کہ طاقتور دشمن سے پہلے مسلح تصادم میں مسلمانوں کو کامیابی کا لطف عطا کرے تاکہ وہ آئندہ کے لئے پر امید اور پر حوصلہ ہوسکیں ۔

آزمائش کی صورت میں یہ الہٰی نعمت سب کے لئے تھی اور انھیں اس کامیابی سے کبھی منفی نتیجہ نہیں لینا چاہیے اور غرور و تکبر میں گرفتار نہیں ہونا چاہیے کہ کہیں وہ دشمن کو معمولی سمجھنے لگیں اور خودسازی اور تیاری کا عمل چھوڑدیں اور لطفِ پروردگار پر بھروسہ کرنے میں غفلت کرنے لگیں ۔ لہٰذا آیت کو اس جملے پر تمام کیا گیا ہے: خدا سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی( إِنَّ اللهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ) ۔ یعنی خدا نے پیغمبر اور مومنین کی صدائے استغاثہ سنی اور وہ ان کی صدقِ نیت و اخلاص نیت اور پامردی و استقامت کے مطابق ہی ان سے سلوک کرے گا۔ مخلص اور مجاہد مومن آخر کار کامیاب ہوں گے اور دکھاوا کرنے والے ریاکار اور صرف باتیں کرنے ں الے بے عمل شکست کھا جائیں گے۔

بعد والی آیت میں اس امر کی تاکید اور اظہار عمومیت کے لئے فرمایا گیا ہے:مومنین اور کافرین کا انجام وہی تھا جو تم نے سن لیا ہے( ذَلِکُمْ ) ۔(۳)

اس کے بعد علت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: اللہ کفار کی سازشوں کو مومنین کے مقابلے میں کمزور کردیتا ہے تاکہ انھیں اور ان کے پروگراموں کو کوئی نقصان اور زدنہ پہنچا سکیں( وَاٴَنَّ اللهَ مُوهِنُ کَیْدِ الْکَافِرِینَ ) ۔

____________________

۱۔ نور الثقلین، ج۲، ص۱۳۸-

۲۔ نور الثقلین، ج۲، ص۱۳۹-

۳۔ یہ جملہ در حقیقت یہ ہے:ذٰلکم الذی سمعتم هوحال المومنین و الکافرین -