ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) 0%

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر صلاح مہدی الفرطوسی
زمرہ جات: مشاہدے: 20454
ڈاؤنلوڈ: 3133

تبصرے:

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20454 / ڈاؤنلوڈ: 3133
سائز سائز سائز
ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نام کتاب :

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

مولف :

ڈاکٹر صلاح مہدی الفرطوسی

مترجم :

محمد تقی

مقدمہ

۱۹۹۹ ء کے موسم گرما کی بات ہے میں دارالحکومت عثمانیہ استنبول میں واقع ''توپ کاپی سرائے'' عجائب گھر کی سیر کیلئے نکلا۔اور یہ اسلامی عجائب گھروں میں سب سے زیادہ مشہور اور زیادہ دیکھا جانے والا عجائب گھر ہے۔ اس کی شہرت کی وجہ اس کے بڑے بڑے کمرے ہیں جس میں مقدس امانات محفوظ ہیں۔اس میں تقریباً چھ سو(۶۰۰) امانتیں بطور تاریخی نمونے ہیں۔

جن میں سے بعض نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،اور بعض امیرالمومنین علی مرتضیٰ ـاور ان کی زوجہ طاہر ہ زہرا اور ان کے بیٹے حسنـ وحسینـسے متعلق نوادرات ہیں۔جبکہ ان میں سے بعض چیزیںبعض انبیاء اور بعض اصحاب کی طرف منسوب ہیںجن کے بارے میں کچھ کاقرآن میں بھی ذکر ہے۔کہا جاتا ہے کہ جب سلطان سلیم نے اسے فتح کیا تھا تو ان دنوں میں بنی عثمان کے بادشاہوں کی تاج پوشی اور آخر میں تکفین و تشیع جنازہ یہیں ہو ئی تھی۔

اب تک ان نوادرات کے یہاں جمع ہونے کے بارے میں تاریخ معلوم نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان میں سے کچھ سلطان سلیم نے حجاز، مصر،فلسطین اور دوسری جگہوں سے جمع کئے تھے۔روزانہ تقریباً ۲۰ہزار زائرین پوری دنیا سے اس کمرے کی زیارت کرتے ہیں ان میں سے اکثریت مسلمانوں کی ہے اور اس میں رکھے ہوئے نوادرات زیادہ تر یہاں آنے والے لوگ دیکھ سکتے ہیںسوائے بعض مقدس نوادرا ت کے جو ضائع ہونے کے خوف سے نہیں دکھائے جاتے۔

امام علی کے مرقد کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات پرانے اور جدید محققین کے درمیان زیر بحث ہیں اور روضہ کی عمارت کی تاریخ اور ان کے اندر محفوظ تحفے اور نوادرات ہیں۔جب میں نے استنبول کے عجائب گھر کو دیکھا تو میں بہت حیران ہوا کہ ہم امام کی روضہ کے آثار کو اس کے مادی اور معنوی حوالے سے کما حقہ اہمیت کیوں نہیں دیتے۔

جب میں نے وہاں استنبول میں ان عجائبات کو دیکھا تو ایک پیرو کارِامام ہونے کے ناطے میں بہت پریشان ہوااور کئی مواقع پر میں نے شہر نجف اشرف میں ایک اسلامی آثار قدیمہ جوکہ روضہ سے ملحق ہو جس میں تمام نوادرات کو رکھا جائے کے بارے میں بیان کیا۔ ایک ایسا مرکز ہو جو پورے اسلام کی نمائندگی کرے جس کی نشر و اشاعت کے لئے امام نے جہاد کیا۔

اور اس کے ساتھ اس مرکز کے حوالے سے کیسٹ اور سی ڈی وغیرہ تیار کی جائے تاکہ اس مرکز کے حوالے سے معلومات دنیا کے کونے کونے میں زائرین اور پڑھنے والوں تک پہنچ جائیں۔

اچانک استاد محترم ڈاکٹر احمد آقندوز سربراہ اسلامی یونیورسٹی روٹریم ( ROTRAM )نے مجھے صوفیاء کی ایک کتاب عطا کی جو بعض اسکالرز کی مشترکہ تالیف تھی۔اس کی طباعت مجھے اتنی خوبصورت لگی کہ اس جیسی اب تک میں نے کوئی اسلامی کتاب کو نہیں دیکھی تھی۔یہ دیکھ کر میں نہایت غمزدہ ہوا کہ ہم ابھی تک اس طرح کی طباعت امام کے روضہ اور نوادرات کی جوبلند اہمیت کی حامل ہیں، نہیں کر سکے لیکن اس حوالے سے اپنے استاد مو صوف کے ساتھ روضہ مقدس کے بارے میں ایک سیمینار کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ الحمد للہ بات طے ہوئی اور بروز ہفتہ ۲۴ستمبر ۲۰۰۵ ء میں یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں یہ سیمینار منعقد ہو ا۔جس کی نظامت استاد محمد سعید طریحی نے کی جبکہ استاد ڈاکٹر آقندوز نے سابق الذکر آثار قدیم کی بعض محفوظ مقدس امانتوں کے حوالے سے گفتگو کی۔مگر میں نے اپنی گفتگو کا موضوع شہر نجف اشرف'روضہ مقدس کی عمارت کی تاریخ اور وہاں موجود بعض مقدس نوادرات کو قرار دیایہ سیمینار جہاں تک میری معلومات ہے اکیڈمک سیمینار میںروضہ مقدس کے حوالے سے پہلا سیمینار تھااور میرے ذہن میں اس حوالیسے ایک بات ہے جسے میں اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔

جہاں تک عراق کے حوالے سے گفتگو ہے قارئین کرام!یہ بات ایک ایسی ثقافت کے بارے میں ہے جس کی ابتدا تاریخ کی ابتدا سے ہے اور اس کی کوئی انتہاء نہیں ہے اور اس سرزمین کی تمام تاریخ کو بیان کرنا مشکل ہے جس کی گواہی عالمی آثار قدیمہ کے کتبے اب بھی دے رہے ہیں۔

یہ علوم و معرفت،شعر و ادب،فن و فلسفہ کا گہوارہ ہے۔اگر آپ کبھی اس ملک کی سیر کرنا چاہیںاور جس راستے سے جائیں اور جہاں جائیں تو آپ کو اس کی ثقافت کے ایسے پہلو نظر آئیں گے جو ابھی دنیا کے سامنے نہیں آئے ہیں ۔

یہ نور کا ٹھکانہ ہے اور ابو الانبیاء حضرت ابراہیمـکا وطن ہے۔ سفینہ نوحـکے رکنے کی جگہ ہے۔ آدم و نوح و صالح و ہود٪کے علاوہ بہت سارے انبیاء کے جائے آرام ہے اسی سرزمین سے انسانیت نے آج سے چار ہزار پانچ سو سال قبل لکھنا سیکھا۔ اسی زمین میں پہلی سلطنت قائم ہو ئی اور اسی میں انسانی حقوق کا پہلا قانون پاس ہوا۔ ان سب باتوں سے بڑھ کے ہمیشہ رہنے والے رمز انسانیت، آزادی علم کا پرچار کرنے والے، سلطنت حق کے بنیاد گزار' امیر البیان اور اسلام کے بہادر امام علی مرتضیٰـبھی اس سرزمین پر محو خواب ہیں۔

ہماری یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہو رہا ہے کہ یورپی لوگوں کے سامنے ہم ایک ایسا گوہر آبدار پیش کر رہے ہیں جس کے برابر دنیا میں کوئی موتی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس کے درمیان امام المتقین کا جسد ہے اور اس کے خزائن مو تیوں سے پُر ہیںان میں سے بعض کی کوئی قیمت تعین نہیں کر سکتابلکہ شاید ان میں سے بعض انتہائی اعلیٰ قیمت کے حامل ہیں اگر یہ لوگوں کے دیکھنے کی جگہ میں رکھے جائیں تو اس کے لئے دنیا کے بڑے میوزیم جیسی جگہ درکار ہے۔

مگر شہر نجف جسے اللہ تعالیٰ نے امیر المومنینـکی روضہ مقدس کا شرف بخشا ہے اس کی حدود کو جاننا آپ کے لئے قدرے مشکل ہے کیونکہ یہ مشرق کی طرف پھیل گیا ہے یہاں تک کہ کوفہ بھی اس میں داخل ہو چکا ہے جو کہ اس سے دس کلو میٹر دور تھا اسی طرح یہ بطرف جنوب بھی پھیل چکا ہے اور مقام ابی صخیر بھی اس میں شامل ہو گیا ہے جو کہ آٹھ کلو میٹر دور تھااور بجانب شمال کربلا کی طرف کی نصف مسافت بھی اس میں شامل ہو گئی ہے اور مغرب کی جانب یہ قدیم بحر کے وسط تک یہ پھیل گیا ہے اب مجموعی طور اس کی کل مسافت جامعہ کوفہ کے مرکز دراسات کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۰۶ ء میں سو مربع کلو میٹر تک پہنچ چکی ہے۔جبکہ اس کی آبادی تقریباً ایک لاکھ ہے اور آج کل یہ ایک اہم تجارتی مرکز بن چکا ہے۔ جہاں تک یہاں آنے والے زائرین کا تعلق ہے وہ کربلا مقدسہ کے زائرین سے زیادہ ہے بلکہ دینی سیاحت کے حوالے سے یہ شہر پوری دنیا میں اہم ترین شہروں میں شامل ہے ۔

شہر نجف اشرف آج کل عراق کے زراعتی میدان میں سب سے زیادہ چاول پیدا کرنے والی جگہ ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس میں مختلف کارخانے فنی اور میکانیکی دونوں حوالوں سے ترقی اور وسعت میں رواں دواں ہیںاور یہ اسلامی ممالک میں سب سے اہم عباء بنانے کا مرکز ہے۔

یہ وسیع شہر آج کل جس کے اطراف بہت زیادہ پھیل چکے ہیں۔۱۹۳۰ ء میں اسکا قطر دوہزار(۲۰۰۰) تھا۔مگر اس کا رقبہ دس مربع کلو میٹر سے زیادہ نہیں تھا چار دیواری کے اندر داخل تھا۔ جو کہ چالیس(۴۰) ہجری میں پہلی بار تمام اطراف میں چار دیواری اٹھوائی گئی تھی۔بعد ازاں جوں جوں آبادی بڑھتی گئی اور جگہ کم پڑگئی تو دیوار سے باہر جنوب کی طرف محلے بننا شروع ہوئے جنہیں ملک غازی کی وجہ سے غازیہ کہا جاتا تھا۔اس کے بعد آخری دیوار نظام الدولہ محمد حسین خان وزیر فتح علی نے ۱۲۲۶ ء میں بنوائی تھی۔بعد ازاں یہ دیواریں سیاسی، اقتصادی اور موسمی تغیرات و مدو جزر اور وہ واقعات جو تیسری صدی کے نصف آخر بمطابق نویں (۹)صدی عیسوی میں واقع ہونے کی وجہ سے گرنا شروع ہوئیں جو کہ اب تاریخی آثار میں شامل ہوتی ہیں۔اس وقت شہر کا قطر پانچ سو میٹر سے زیادہ نہیں تھا جبکہ وہاں رہنے والوں کی تعداد پانچ ہزار تھی یہ اس زمانے کی بات ہے جب آل بویہ کی حکومت نے ضریع مقدس کو ۳۷۱ھ/۹۸۱ء میں دوبارہ تعمیر کروایا تھا۔پھر ہم نے دیکھا جوں جوں نظام مملکت بڑھتا گیا شہر ترقی کرتا گیا یہاں تک کہ مشہور سیاح ابن بطوطہ حج بیت اللہ سے واپسی پر یہاں پہنچا تو اس شہر کی کثرتِ بازار'سڑکوں کی نظامت' یہاں کے باسیوں کی تکریم اور تجارت کے رواج نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کر ڈالا۔ پھر واقعات کے مدو جزر نے ایک مرتبہ پھر اس تمام شہر کو خراباں کر ڈالا۔قحط اور خشک سالی کی وجہ سے فقر و فاقہ یہاں عام ہوا جس کی وجہ سے حکمرانوں نے اس شہر کو چھوڑ دیا اور کثرت سے عرب ڈاکووں نے یہاں لوٹ مار شروع کر دی۔ جب مشہور پرتگالی سیاح ( TAKSEERA ) ۱۰۱۳ھ/۱۶۰۴ ء میں یہاں پہنچا تو اس نے شہر کے وجود کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ یہاں کے باسی معاشی مشکلات جو کہ اپنی حد سے تجاوز کر گئی تھی اور لوگ ایک دانہ جو اور کھجور کے چھلکے کے لئے ترس رہے تھے اس وقت یہاں رہنے والوں کی تعداد صرف پانچ سو گھرانوں پر مشتمل تھی ۔ یہ لوگ روضہ مقدس کے خدمت گزار یا باہر سے آئے ہوئے طلباء تھے جن کے لئے اور کوئی پناہ گاہ یا ٹھکانہ نہیں تھا۔

اپنے تمام شرف و فضیلت کے باوجود زمانے کے نشیب و فراز نے اس شہر کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا، اس کے باسیوں کو خوف زدہ کر دیا، ظلم کے ہاتھوں نے انہیں پوری دنیا میں پرا گندہ کر کے رکھ دیا اور ان کے ساتھ وہ سلوک کر دیا کہ انہیں دوبارہ اٹھنا ممکن نہیں تھا شہر مٹ چکا ہوتا اگر صاحب روضہ کی نظر رحمت شامل حال نہ ہوتی۔ جب سے روضہ مقدس وجود میں آئی ہے اس وقت سے اب تک عراقی، عربی، اسلامی، عالمی واقعات پر اس شہر نے اثر ڈالا ہے اور بڑے بڑے مسلم ممالک پر فضیلت رکھتا ہے کیونکہ اس نے مختلف علوم میں بڑے بڑے علماء پیدا کئے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ بیسویں(۲۰) صدی سے تو زندگی کے تمام میدانوں دینی، علمی، وطنی، سیاسی، اقتصادی اور اجتماعی میں عالم اسلام کی توجہ کا مرکز بنا۔

جہاں تک اس شہر کی جوانی اور بلندی کی بات ہے تو یہ باب مدینة العلم امام امیر المومنین علی بن ابی طالب کی ضریح مقدس اور جسد طاہر کے وجود مبارک اور مسلمانوں کے دلوں میں قدرو منزلت یہاں انہیں چوتھے مقام پر مقدّس شمار کرتے ہیں۔ مرقد مقدس اور اس تعمیر و ترمیم میں آج کل کافی کاوشیں ہوچکی ہیں۔ اس حوالے سے کتابیں وغیرہ بھی شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے بعض میں بطور مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ اگر چہ اس حوالے سے بے شمار چیزیں سیّد جعفر بحر العلوم کی کتاب ''تحفة ا لمعا لم در شرح خطبة ا لمعا لم'' جس سے بہت سارے لوگوں نے استفادہ کیا ہے، شیخ جعفر محبوبہ کی کتاب نجف کا ماضی اور حال ڈاکٹر سعاد ماہر محمد کی کتاب ''مشہد امام علی اور اس میں موجود تحفے و تبرکات ''،محمد علی جعفر التّمیمی کی کتاب ''مشہدالامام '' جعفر خلیلی کی کتاب ''موسوعة عتبات المقدسہ میں نجف کا حصہ موسوعة نجف اشرف ''،جعفر الدّجیلی اور خاص طور سے اس موسوعہ سے میں نے زیادہ استفادہ حاصل کیا ہے اور جس میں مجھے ضریح کے حوالے سے معلومات اور جو کتابیں ضریح کے حوالے سے لکھی گئی تھیں اور میری رسائی براہِ راست ان کتابوں تک نہیں تھی۔ باقاعدہ حوالہ جات کے ساتھ درج تھی اور ان کے حصول میں آسانی پیدا ہوئی۔

کتاب ''تاریخ نجف اشرف ''شیخ محمد حسین حرز الدین ''نجف اشرف علم و تہذیب کا شہر'' شیخ محمد کاظم طریحی''نجف اشرف میں حیات فکریہ ''۔ڈاکٹر محمد باقر البھادلی۔

''نجف کی پہلے دور عباسی تک کی تاریخ ''محمد جواد فخر الدین ''نجف اشرف کی مفصل تاریخ''ڈاکٹر حسن حکیم یہاں آخر میں نے سیّد عبد المطلب الخرسان کی کتاب ''مساجد و معالم در روضہ حیدریہ مطہرة'' دیکھی جس سے ضریح مقدّس کی موجودہ عمارت کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کی۔ جس طرح اس سے قبل مذکوراور غیر مذکورہ کتابوں سے استفادہ حاصل کیا تھا۔

دراصل جس چیز نے مجھے ایک اسلامی میوزیم (جس میں ضریح مقدس کی تبرکات رکھی جائے) کی طرف توجہ مبذول کرا ئی یہ تھی تاکہ امام کی اصل قبر اور ضریح مقدس کی عمارت سے متعلق جو مختلف روایات ہیں اس کا صحیح سے مطالعہ کیا جائے اور کافی بحث و جستجو کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس موضوع کو دوبارہ پرکھا جائے۔ لیکن اس کیلئے تمام زمانی' مکانی واقعات و حوادث کو سامنے رکھتے ہوئے خطا اور ابہام کو رفع کیا جائے۔ اور میں نے دیکھا کہ تمام اشیاء کو موضوع کے اعتبار سے علیحدہ کرکے پڑھا جائے تاکہ غلطیاں اور ملاوٹ نکل جائے جو کہ بہت سارے پرانی روایات اور محدثین کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اس حوالے سے میں ان غلطیوں سے بریٔ الذمہ ہوں جن میں وہ لوگ واقع ہوئے اور مرقد شریف کے مقام کے حوالے سے بعض مورّخین خاص طور سے مسلمان مورّخین کو جو شبہ ہوا تھا وہ بھی واضح ہوجائے بعد ازاں ضریح مقدّس کی عمارت خود بخود واضح ہوجائے گی۔