ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) 0%

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر صلاح مہدی الفرطوسی
زمرہ جات: مشاہدے: 20453
ڈاؤنلوڈ: 3133

تبصرے:

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20453 / ڈاؤنلوڈ: 3133
سائز سائز سائز
ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مرقد امامـ اصحاب حدیث کی روایات میں

مرقد مقدس کے موضع کے بارے میں مذکورہ اصحاب حدیث کی کتابوں میں اس طرح تقسیم کی جاسکتی ہے کہ ایک قوم مصدر موضوع مرقد مبارک کے حوالے سے ایک روایت بیان کرتا ہے اور اس کے بعد اکثر کتابوں میں یہی روایت اختلاف کے ساتھ نقل ہوئی ہے جس کی وجہ وہی ہے جو ہم نے بیان کی۔ جیسا کہ ابن سعد اپنی طبقات میں قیس بن ربیع سے یوں بیان کرتا ہے کہ امام حسننے علی ابن ابی طالبکی نماز جنازہ پڑھائی جس کی انہوں نے چار تکبیریں پڑھیں اور انہیں نماز فجر کے وقت لوگوں کے جانے سے قبل مقام رحبہ میں مسجد الجماعة کے پاس ابواب کندہ کے سامنے دفن کیا اور انہوں نے مرقد سے متعلق کچھ بھی بیان نہیں کیا ہے۔ حالانکہ نجف میں اس وقت مرقد بنا ہوا تھا۔ لہٰذا اس کا یہ کہنا کہ تمام مورخین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ امام کو انتہائی راز میں دفن کیا گیا تاکہ خوارج اور بنی امیہ کے ناروا سلوک سے جسد خاکی محفوظ رہے۔ آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ اگر اسی مقام پر امام کو دفن کیا گیا ہے تو یہ بات راز میں کیسے رہ سکتی ہے اور یہ جسد خاکی کی کونسی حفاظت ہے پھر یہ بات کیسے چھپ سکتی ہے کیونکہ یہ جگہ تو کوفہ میں مشہور تھی اور روایت کے مطابق تدفین بھی تمام لوگوں کے سامنے ہوئی ہے کہ نماز فجر کے بعد لوگوں کے منتشر ہونے سے قبل آپ دفن ہوئے۔

پھریہ روایت اشتباہ کی وجہ سے مبہم بھی ہے کہ جائے مدفن مسجد الجماعةکے پاس ہے۔ پھر مقام رحبہ میں ابواب کندہ کے بعد آپ ملاحظہ کریں گے کہ یہ روایت کتب اصحاب حدیث میں کس تبدیلی اور اختلاف کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ اہل انصاف کے لئے یہ بات مشکل ہوتی ہے کہ حقیقت کو کیسے بیان کریں کیونکہ حقیقت ان کے سامنے کچھ متناقض روایات کی وجہ سے بالکل چھپ جاتی ہے اور بعض اوقات عقل کے لئے بھی بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

لیکن یہ جو راوی قیس بن ربیع ہے اس کو تو اکثر جرح و تعدیل کی کتابوں خاص طور سے شیخ محمد حسن مظفر نے کتاب افصاح میں مشکوک قرار دیا ہے اور ان کی روایت کو ضعیف اور متروک رواتیوں میں شمار کیا ہے اور ابو خاتم کے ہاں بھی یہ کوئی مضبوط شخص نہیں ہے جبکہ محمد بن عبید الطنافسی نے کہا ہے کہ یہ شخص ابو جعفر کی طرف سے جب مدائن کا قاضی متعین تھا تو یہ عورتوں کو ان کے پستانوں سے لٹکایا کرتا اور پھر ان پر پتھر برسایا کرتا تھا۔ تو ایسے ظالم اور سنگ دل آدمی کی روایت پر ہم کیسے مطمئن ہوسکتے ہیں اور یہ تمام باتیں کتاب الا فصاح پر تحقیق اور حاشیہ لکھنے والوں نے جرح و تعدیل کی کتابوں کے مصادر کے ذیل میں بیان کی ہیں جیسا کہ الکامل فی ضعفاء الرجال وغیرہ اور یہ عجیب بات ہے کہ ابن سعد نے اس شخص سے کیوں روایت کی جس کے بارے میں تمام علماء نے توثیق نہیں کی ہے اور اس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ اس کی بعد بہت سارے مورخین نے اس روایت کو اس طرح بیان کیا ہے جیسا کہ یہ روایات مسلمات میں سے ہے۔

سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ابن سعد نے امام کی ذریت میں سے سینکڑوں لوگ اس وقت موجود تھے جو اپنے باپ دادا کی قبروں کے حوالے سے زیادہ معرفت رکھتے تھے اور ان میں ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے اس زمانے کو دیکھا بھی تھا اور اگرچہ کچھ حکومتی حصار میں بھی تھے جیسے امام علی بن موسیٰ رضاـ، محمد بن علیـ ، علی بن محمدـ وغیرہ تمام کو چھوڑ کر قیس بن ربیع سے روایت کی ہے۔

ایک اور مثال آپ تاریخ طبری میں ملاحظہ کریں گے جہاں انہوں نے اختصار کے ساتھ نقل کیا ہے لیکن اس میں ابہام زیادہ ہے جیسا کہ وہ کہتا ہے کہ امامـ قصر الا مارہ میں مسجد الجماعة کے پاس دفن ہوئے اور یہ ان دو روایتوں میں سے ایک ہے جسے ابن قتیبہ نے اپنی کتاب الامامة والسیامة میں اضافہ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ان کی قبر خوارج کے نبش کرنے کے خوف سے چھپائی گئی۔ جسے ابن عبدربہ نے یوں اضافہ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ آپ مقام رحبہ میں دفن ہوئے۔ مگر دوسری طرف جس میں علماءے اہل بیت بھی متفق ہیں جسے ہم عنقریب اپنے مقام پر بیان کریں گے۔

اور ابن سعد کی روایت ابن عبدالبر کے ہاں دو روایتیں بیان کی گئی ہیں جس میں پہلی یہ ہے کہ امامـ قصر الا مارہ میں دفن ہوئے جبکہ دوسری روایت کے مطابق کوفہ میں دفن ہوئے۔ پھر انہوں نے ایک تیسری روایت بھی بیان کی ہے جو علماءے اہل بیت کے ساتھ موافقت رکھتی ہے جسے ہم اپنے مقام پر بیان کریں گے۔ اس نے ایک روایت اور بیان کی ہے جسے امام محمد باقرـ کی طرف نسبت دی ہے لیکن اس کے سند میں کوئی علماءے اہل بیت میں کسی کا انہوں نے اپنی کتابوں میں تذکرہ نہیں کیا ہے جیسا کہ یوں ذکر ہوا ہے کہ ابو جعفرـسے روایت ہے کہ امام کی قبر کا مقام معلوم نہیں ہے۔

لیکن ابن العماد نے دو روایتوں کو مخلوط کیا ہے ایک روایت قبر کو چھپاتی ہے جبکہ دوسری روایت کے مطابق قصر الامارة میں دفن ہوئے اور ابن مسعودی بھی اس حوالے سے ابہام کا شکار ہوئے ہیں ہم نے شروع میں اس اختلاف کی طرف اشارہ کیا تھا۔ لہٰذا ابن مسعودی نے ان اختلافات کو یوں بیان کیا ہے کہ ان کے مقام قبر کے بارے میں اختلاف ہوا ہے بعض کے مطابق مسجد کوفہ میں دفن ہوئے، بعض دوسرے گروہ کے مطابق جنازہ مدینہ میں لے جایا گیا اور قبر فاطمہ زہرا کے پاس دفن کئے گئے اور بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنازہ کو ایک تابوت میں ڈال کر اونٹ پر رکھوا کر وادی طی کی جانب لے جایا گیا اور اسی طرح اور بہت ساری روایات بیان ہوئی ہیں اور ان مختلف اقوال کے پیچھے نہ کوئی سند ہے اور نہ ہی کوئی روایت ہے لیکن انہوں نے اپنی کتاب التنبیہ والاشراف میں ایک نئی چیز کا اضافہ کیا ہے جس میں ان روایات کو بیان نہیں کیا ہے بلکہ ایک ایسی روایت کو بیان کیا ہے جو صحیح مقام قبر کو بتاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ ان کے مقام قبر کے بارے میں جھگڑا ہوا تو بعض نے کہا کہ مقام غری میں دفن ہوئے جو کوفہ سے کچھ فاصلے پر آج کل کی مشہور و معروف جگہ ہے اور بعض نے کہا کہ کوفہ کی مسجد میں دفن ہوئے تو بعض نے کہا قصر الامارة کے مقام رحبة میں دفن ہوئے اور ایک گروہ کے مطابق مدینہ منورہ لے جایا گیا اور جناب فاطمہ زہراکے ساتھ دفن ہوئے وغیرہ بہت ساری باتیں ہیں۔

مسعودی کی یہ عبارت زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ مقام قبر کو اس طرح بیان کرتی ہے کہ آج کل مشہور و معروف جگہ جو کوفہ سے کچھ فاصلے پر واقع ہے انہوں نے اسے باقی تمام پر ترجیح دی ہے۔ اسی رائے کو ڈاکٹر حسن حکیم نے قبول کرتے ہوئے مسعودی ہی کی کتاب اثبات الوصیہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت علیکو فہ کے کنارے مقام غری میں دفن ہوئے اور باقی باتوں کو وہ اپنی کتاب مروج الذہب میں بغیر وجہ بتائے رد کرتے ہیں۔

میرے خیال کے مطابق ان تمام سابقہ اور لاحقہ روایات کی صداقت کو نفی کرنے کیلئے صرف ایک دلیل ہی کافی ہے وہ یہ ہے کہ جامع مسجد کوفہ یا قصر امارة میں تدفین کے بعد پوشیدہ رہ جانا عقل و منطق اس بات کو قبول نہیں کرتی ہے کیونکہ کوفہ تو عراق میں شیعوں کا مرکز تھا اور قبر کو ان کے دشمنوں سے چھپایا جارہا ہے جگہ کوئی بھی ہو۔ لیکن بنی امیہ کے والیوںاور خوارج کی آنکھوں سے کوفہ کوئی چھپا ہوا علاقہ نہیں تھا۔ یہ بات ایک طرف جبکہ دوسری طرف اگر ہم اس اختلاف کو فرض کریں کہ مذکورہ مقامات میں کہیں بھی دفن ہوئے ہوں تو کس چیز نے وہاں روضہ بنانے سے منع کیا۔ مذہب اہل بیت کے ماننے والوں نے وہاں ایک عظیم قبہ کی تعمیر کی جہاں زید ابن علی مصلوب ہوئے تھے بلکہ ایک زمانے میں ہر اس مقام پر قبہ بنایا گیا جہاں حضرت علینے قیام کیا تھا یا وہاں سے گزرے تھے یا کسی امامـکو خواب میں وہاں اترتے دیکھا جو کہ آج مقام زیارت بنی ہوئی ہیں۔ انہیں کونسی بات اصرار کرتی ہے کہ امام یہاں دفن ہوئے اور ان کے پاس کونسی دینی یا عقائدی دلیل ہے جو ان کو ایسے مقام کی طرف مرقد مقدس کو نسبت دینے پر اشارہ کرتی ہے جس کے درمیان کوئی تعلق و رابطہ بھی نہیں ہے۔

آپ اس کے بعد یہ ملاحظہ فرمائیں گے کہ ابن سعد کی روایت آگے جا کر تغیر و تبدیل ہو کرکیسے مختلف روایات بن جاتی ہے جن کے اور اصلی روایت کے درمیان کوئی رابطہ و تعلق بھی نہیں ہے جیسا کہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میںیوں بیان کیا ہے کہ کہا جاتا ہے موضع قصر میں دفن ہوئے۔ جس کے لئے انہوں نے نہ سند اور نہ ہی کوئی اور روایت بیان کی ہے تو اس طرح کی روایت مبہم ہے اور حیرت میں ڈالنے والی ہے ان کے اس قول کے کیا معنی ہیں کہ موضع قصر کے پاس ہے۔ کیا یہاں پہلے قصر کوڈھایا گیا پھر یہاں دفن ہوئے یا اس سے مراد کوئی دوسری چیز ہے اسی طرح ابی الحسن زیادی کا قول کہ علیکوفہ میں قصر امارہ کے پاس جامع مسجد کے قریب رات کو دفن ہوئے۔

یہ روایت بھی پہلے کی طرح حیرت میںڈالتی ہے کہ کیا ان دونوں کے درمیان دفن ہوئے یااس سے مراد کوئی اور چیز ہے۔

اسی طرح ابن کثیر نے بھی کتاب البدایة والنہایة میں کہا ہے کہ حضرت علی جب شہید کر دیئے گئے تو ان کے بیٹے حسننے نماز پڑھائی اور نو تکبیریں پڑھیں پھر کوفہ میں دارالامارة میں دفن کیا گیا تاکہ خوارج میت کو قبر سے نہ نکالیں اور یہی مشہور ہے۔

یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ خوف صرف خوارج سے تھا اور بنی امیہ کے والیوں سے نہیں تھا جو تقریباً ایک صدی تک وہاں رہے اور یہ دیکھیں کہ ابن سعد کی چار تکبیریں یہاں آکر نو ہوگئیں اور عند القصر یعنی قصر کے پاس یہاں پہنچ کر ''دفن بدارالامارة'' (یعنی دارالامارة میں دفن ہوئے)۔

اس طرح اور بھی بہت ساری روایات جنہیں ہم بیان کریںگے۔ اس روایت اور اس جیسی اور بھی جتنی روایات ہیں انہیں ہم اخذ نہیں کرسکتے ہیں مرقد مقدس جو آج کل مشہور و معروف ہے اس کے بارے میں بات ملاحظہ کریں کہ اس مقام کو اس لئے شیعوں نے فرضی انتخاب کیا ہے کیونکہ وہ یہاں ان جیسا کوئی دفن ہو مناسب نہیں سمجھتے اور بھی اس طرح کے کمزور دلیلیں ہیں جنہیں ہم ذکر کرتے رہیں گے جن کے پیچھے کوئی موثق روایت وغیرہ کچھ نہیں ہے۔

شاید سب سے پرانی اور پہلی کتاب ابن اعثم کی ہے جنہوں نے یہ روایت لکھی ہے کہ اماممقام غری میں دفن ہوئے وہ کہتا ہے کہ رات کی تاریکی میں غری نامی مقام پر دفن ہوئے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہی ان کے ہاں مرجع ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک قوم نے کہا کہ وہ اپنے گھر اور مسجد کوفہ کے درمیان دفن ہوئے۔ یہ بھی ابن سعد کی روایت جیسی ہے اور ابن اعثم نے بھی سابقہ روایات کے ابہام کو محسوس کیا اور ابن سعد کی روایت کو دہرا کر ایک قوم کی طرف نسبت دی اور کہا کہ امیر المومنینـاپنے گھر اور مسجد کوفہ کے درمیان میں دفن کئے گئے۔

اسکے بعد یعقوبی کی تاریخ کی باری آتی ہے انہوں نے کہا کہ انہیں کوفہ میں غری نامی مقام میں دفن کیا گیا اور انہوں نے اس کے ساتھ دوسری کوئی بھی روایت بیان نہیں کی اور نہ اپنی تئیں کچھ کہا۔

اس کے بعد ابو الفرج نے اپنی چار ایسی روایتوں کو بیان کیا جو اصحاب حدیث کی روایات سے زیادہ اختلاف نہیں رکھتی ہیں ہاں ان میں سے بعض علماءے اہل بیت کی راویتوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں جو کہ مندرجہ صورتوں میں مجمل ہوسکتی ہے۔

۱_ کتاب الصحیفہ میں ابی مخنفف الاسود، کندی اور الاجلنح سے روایت ہے کہ مقام رحبہ جو کہ ابواب کندہ کے بعد ہے وہاں نماز فجر کے وقت دفن ہوئے اور ابن ابی الحدید نے یہ اور اس جیسی روایتوں کے باطل ہونے کو شرح نہج البلاغہ میں بیان کیا ہے اور یہ بعید نہیں ہے کہ یہ ابن سعد ہی کی روایت کچھ تبدل و تغیر کے ساتھ ہو۔

۲_ ابو الفرج نے مذکورہ کتاب میں ایک اور روایت نقل کی ہے کہ راوی نے امام حسنـ سے پوچھا کہ آپ امیرالمومنینـکو کہاں دفن کرکے آئے ہیں؟ تو امام نے جواب دیا کہ ہم انہیں رات کو گھر سے لے کر نکلے اور مسجد اشعث سے ہوتے ہوئے کوفہ کے کنارے مقام غری کی پاس دفن کیا۔ اس روایت کو سید ابن طاوئوس نے کتاب الفرحتہ میں اور اس کے قریب ایک روایت ابن عبد ربہ نے اپنی کتاب العقدہ میں بیان کی ہے۔

۳_ اسی طرح ابو الفرج نے کتاب الصحیفة میں ایک اور روایت نقل کی ہے جو کہ ابی قرة کی طرف منسوب ہے لیکن اس میں تھوڑا سقط موجود ہے مجھے نہیں معلوم کہ مولف کی کوتاہی ہے یا یہ سقط روایت میں ہے یا محقق یا طباعت کی غلطی ہے روایت یوں ہے کہ ایک دفعہ میں رات کے وقت زید ابن علی کے ساتھ مقام الجبان کی طرف نکلا اور وہ خالی ہاتھ تھے ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا تو انہوں نے مجھ سے کہا اے ابا قرة کیا تمہیں بھوک لگ رہی ہے تو میں نے کہا:ہاں!پھر انہوں میرے واسطے مٹھی بھر پھل اپنے ہاتھ سے دیئے جو کہ ذائقہ دار تھے۔

پھر انہوں نے مجھ سے کہا:اے ابا قرة کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہم اس وقت کہاں ہیں؟ ہم اس وقت جنت کے با غات میں ہیں ہم اس وقت امیرالمومنینـکی قبر کے پاس ہیں۔

یہاں پر میرا گمان غالب ہے کہ اگر ہم اصول المقاتل کی طرف رجوع کریں تو اس روایت کی عبارت یوں ہے کہ''قرب قبر المومنین'' یعنی امیر المومنین کی قبر کے قریب کیونکہ اگر لفظ ''عند'' ہو تو وہ یہاں پر نمازپڑھتے اور دعائیں کرتے۔ جبکہ صحیح روایت سید ابن طائوس نے کتاب الفرحة میں ابی قرة سے نقل کی ہے لیکن روایت کی سند میں فرق ہے کہ ہم امیرالمومنین کی قبر کے قریب ہیں، اے ابا قرة!ہم اس وقت جنت کے باغات میں سے ایک باغ میں ہیں۔

اب آپ ملاحظہ فرمائیں کہ دونوں روایتوں کے درمیان فرق بالکل واضح ہے اور مقصد صرف لفظ قرب اور عندکی وجہ سے تبدیل ہوا ہے اور یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ابو الفرج اور ابن طائوس کی روایت میں جو لفظ الجبَّان یا الجبَان آیا ہے نہیں معلوم کہ یہ کسی جگہ کا نام ہے یا قبرستان۔ اگر کسی جگہ کا نام ہے تو اسے میں نہیں قبول کرونگا اور اگر کسی قبرستان کا نام ہے تو یہ مشہور و معروف ہے کہ کوفہ کے اطراف بہت سارے مقبرے ہیں جن میں سے زیادہ مشہور مقبرہ تویتہ ہے جہاں حضرت علیـکے خاص صحابی کمیل بن زیاد اور مغیرہ بن شعبہ(یہ امام کے صحابی تونہیں ہیں)مدفون ہیں اگر یہی مراد ہے تو یہ جگہ امامـکی قبر سے زیادہ دور نہیں ہے۔

۴_ ابو الفرج نے کتاب مقاتل الطالبین میں ۲۹۵ھ میں مقتدر کے دور خلافت میں جب اہل بیت کا قتل عام ہورہا تھا تو ایک روایت نقل کی ہے کہ کوفہ میں طالبین کا ایک آدمی قتل ہوا لیکن اس کا نسب مجھے معلوم نہیں ، واقعہ یوں تھا کہ جامع مسجد کے وسط میں اس مقام پر جہاں امیرالمومنینـقضاوت فرماتے تھے ابو الحسن علی ابن ابراہیم علوی نے ایک مسجد بنائی تھی تو عباسی اور طالبی قبیلے کے درمیان جنگ چھڑی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ عباسی اس مسجد کو مانتے تھے تو انہوں نے اسے ڈھادیا اور پھر قبر امیرالمومنین کی طرف بڑھے اور قبر کے دیواریں کھولنا شروع کیں اور قبر کو ختم کرنا چاہا تو اتنے میں طالبی گروہ نکل اٹھے اور عباسیوں کے ساتھ مقاومت کی پھر ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوا جس کے نتیجے میں فریقین کا ایک ایک آدمی قتل ہوا۔

یہ روایت انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ امام کی روضہ طالبین کے نزدیک اس وقت بھی مشہور ومعروف تھی جب ۲۹۵ھ میں عباسی خلیفہ مقتدر کی بیعت ہوئی۔

اب آپ ملاحظہ فرمائیں کہ ابو الفرج کا ان روایات میں کوئی موقف ہی نہیں ہے اور انہیں بغیر کسی رابطے اور اجتہاد کے چھوڑ دیا ہے اور جب وہ کوئی روایت بیان کرتا ہے تو وہ یہ نہیں سوچتا ہے کہ جسے انہوں نے خود اپنی کتاب الصحیفہ یا دوسرے کتابوں میں اس سے پہلے بیان کیا ہے خاص طور سے ان کی کتاب مقاتل الطالبین میں روضہ امام کے حوالے سے اشارہ گزرا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی حدیث بیان کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ حالانکہ اس وقت انہوں نے غیر مبہم بہت ساری روایات بیان کی ہیں لیکن ان میں آخری روایت جو ہم نے نقل کی ہے جس میں امامـکی قبر کے حوالے سے توثیق نہیں ہوتی لیکن ۲۹۵ھ سے قبل آپ کی قبر پر کسی عمارت کے وجود کا پتہ چلتا ہے جس پر علویین اعتبار کرتے ہیں تو یہ اعتبار دوسروں کی ز بان خود بخود بند کر دیتا ہے ۔

اب ہم ایسی روایات کا ذکر بھی کریں گے جو کہ علماءے حدیث کی ہیں جو یہ توثیق کرتی ہیں کہ اس مدت ۲۹۵ھ سے قبل قبر و روضہ موجود تھی۔

دوسرے متاخر مصادر میں خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد ہے انہوں نے وہ تمام روایات جمع کی ہیں جس وجہ سے روضہ کے بارے میں شک واقع ہوا ہے لیکن اس کے بعد والے مصادر جیسے ابن عساکر وغیرہ نے ان روایات کو رد کیا ہے اور انہوں نے تو اپنی کتاب تاریخ دمشق میں امام کے حوالے سے ایک خاص باب قرار دیا ہے اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ خطیب نے بغیر کسی مناقشے کے تمام روایات پر اکتفا کیا ہے لیکن صحیح موضع روضہ کے بارے میں صرف ایک ہی روایت لی ہے جو کہ ابن ابی دنیا کی سند سے یوں ہے کہ ابوبکر بن عیاش نے کہا کہ میں نے اباحسین ، عاصم بن بھدلة اور اعمش وغیرہ سے کہا تم میں سے کیا کسی نے حضرت علیـپر نماز جنازہ پڑھی ہے یا انہیں دفن ہوتے دیکھا ہے؟ تو انہوں نے نفی میں جواب دیا، پھر انہوں نے محمد بن السائب کے والد سے پوچھا تو اس نے کہا کہ ایک رات میں نے حسن، حسین، محمدحنفیہ، عبداللہ بن جعفر اور بعض اہل بیت ٪کے ساتھ گیا پھر انہیں کوفہ کے اطراف میں دفن کیا تو میں نے پوچھا کہ ایسا انہوں نے کیوں کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا خوارج وغیرہ کے خوف سے کہ کہیں وہ نبش قبر نہ کریں۔

یہ روایت ابن کثیر کی روایت کے ساتھ تقریباً ملتی جلتی ہے اور شیعوں کی روایات سے زیادہ مختلف بھی نہیں ہے جو انہوں نے امام کی قبر کے موضع کے بارے میں کلبی کی سند سے بیان کی ہیں کہ امام حسنـ، امام حسینـ، محمد حنفیہ، عبداللہ بن جعفر وغیرہ اور دوسرے اہل بیت نے انہیں کوفہ کے کنارے دفن کیا اور قبر کو خوارج وغیرہ کے خوف سے پوشیدہ رکھا۔

اس میںکوئی شک نہیں اس وقت جو موقف تھا وہ مشکوک روایات میں تھا لیکن مقبول اور مستحسن تھا۔

روضہ مقدس کے بارے میںجو امر مشکوک ہے جسے خاص طور سے خطیب بغدادی نے مناقشہ کیا ہے اور سید ہبة الدین شہرستانی کے ہاں ان کی دلیل باطل ہوتی ہے جسے انہوں نے باقاعدہ مالا یغفر فی شریعہ التاریخ کے عنوان میں شامل کیا ہے جو متعدد بار شائع ہوا ہے اور اس پر ان سے قبل لوگوں نے مناقشہ کیا ہے یہاں پر یہ اشارہ بھی مناسب ہے کہ اصحاب حدیث کے مصادر کی اکثریت تاریخ اسلام میں تعصب پر مبنی ہے اور ایک خاص گروہ کی نمائندگی کرتی ہے اور طوائف کے عقائد اور ان کے اخبار سے متعلق تمام امور کو مشکوک قرار دیتے اور ان کے کسی بھی مصدر پر اعتماد نہیں کرتے اور علماءے اہل بیت کی مصادر اور ان کے رجال کو مشکوک قراردیتے ہیں۔ بلکہ ان کتابوں میں اکثریت اہل تشیع پر تہمت لگاتی ہے اور عجیب بات تو یہ ہے کہ ان مصادر میں موجود روضہ امام کے بارے میں کوئی بھی حدیث بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے قیام کے اسباب کے حوالے سے کچھ آیا ہے اگرچہ قبر مبارک کے دوسری جگہوں میں ہونے کے بارے میں ان کے پاس روایات موجود ہے۔

ہم کوشش کریں گے کہ جتنا ممکن ہو خطیب بغدادی کی روایات کو بیان کریں اور یہ تمام مصادر میں زیادہ شک پیدا کرنے والی ہیں اور موجودہ روضہ اور اس کی تعمیر کی تاریخ کے بارے میں موجود تمام احادیث کو وہ مہمل قرار دیتے ہیںاور ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ لوگوں کو موضع روضہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ مشکوک کیا جائے۔ ان کی تمام روایات کا محور ایک طرف تو ابن سعد کی روایت ہے جبکہ دوسری طرف مسعودی کی روایات ہیں جنہیں ابن سعد نے ذکر نہیں کیا ہے اور مجھے یقین غالب ہے کہ ان کے موقف کے پیچھے جو حقیقی وجہ ہے وہ اس زمانے میں ایک حاسد سیاسی گروہ کا ابھرنا ہے اور ان کے وہ تمام منفی آثا رہیں جو مورخین کی کتابوں میں موجود ہیں۔

ان تمام روایات کو ان کے راویوں کے ساتھ فرداً فرداً ان سے قبل اور بعد اور ان کے موقف کو بیان کریں گے اور یہ چار اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

۱۔ کوفہ میں دفن ہوئے۔

۲۔ مدینہ منورہ میں لے جایا گیا اور وہاں جنت البقیع میں دفن ہوئے۔

۳۔ ایک اونٹ پر رکھ کر لے جایاگیا اور اونٹ رستے میں کہیں کھوگیا۔

۴۔ جو روضہ موجود ہے جہاں امام کی قبر تو نہیں ہے بلکہ مغیرہ بن شعبہ کی قبر موجود ہے۔

پہلی بات یعنی کوفہ میں دفن ہونے کے حوالے سے تین روایات آئی ہیں۔

اول: تاریخ بغدادی میں آیا ہے کہ اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ نے کہا کہ میں نے جعفر بن محمد بن علیـسے پوچھا کہ علیـکہاں دفن ہوئے ؟ تو انہوں نے جواب دیا وہ رات کی تاریکی میں کوفہ میں دفن ہوئے اور مجھ سے ان کا دفن چھپایا گیا۔

ابن غروہ اس روایت کو کسی طریقے سے بھی نہیں مانتے ہیں اس حوالے سے آپ شیخ محمد حسن المظفر کا نظریہ بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں اور ابن کثیر نے سند کے ساتھ کتاب البدایہ و النہایة میں یہی روایت نقل کی ہے تاہم کچھ اختلاف کے ساتھ کہ جعفر بن محمد الصادقـسے روایت ہے کہ رات کی تاریکی میں حضرت علیـکی نماز جنازہ ہوئی اور کوفہ میں دفن ہوئے اور ان کی قبر کو پوشیدہ رکھا گیا لیکن یہ قصر الامارہ کے نزدیک ہے۔

اب اگر آپ اس روایت کو ملاحظہ کریں تو اس میں یقین اور رد کا تناقص موجود ہے کیا یہ کھلم کھلا تضاد نہیں ہے کہ پہلے قبر کو پوشیدہ رکھنا پھر کہنا کہ قصر امارہ کے نزدیک ہے تو یہ پوشیدہ کہاں ہے؟

اس میںکوئی شک نہیں کہ یہ جملہ کہ ''قصر امارہ کے نزدیک ہے ''زائد ہے یا یہ کہ ابن کثیر کا اجتہاد ہے اسی طرح روایت کے پہلے حصے میں ایک لفظ کم گیا ہے مجھے نہیں معلوم یہ اس روایت میں ایسا ہے یا خطیب بغدادی یا ناسخ یا تحقیق نے عمداً ایسا کیا ہے جیسا کہ اصل روایت یوں ہے کہ ظہر کوفہ میں دفن ہوئے۔ اگر روایت خطیب نے امام صادقـسے لی ہے تو وہ کوفہ کی اس جگہ کیوں نہیں جانتے یا اگر انہوں نے ایسا ہی نقل کیا ہے جو اس کی کتاب میں چھپا ہے تو آپ پر یہ بات واضح ہونا چاہیے کہ یہ ابن سعد کی روایت کا حصہ ہے اور ذہبی نے اپنے دور میں بیان کیا تھا لیکن انہوں نے بھی تبدیلی کی ہے کہ جعفر بن محمدـنے اپنے باپ سے نقل کیا کہ حسنـ نے علیـکی نماز جنازہ پڑھائی اور کوفہ میں قصر امارہ کے نزدیک دفن کیا اور ان کی قبر کو چھپایا گیا۔ آپ ملاحظہ کریں کہ یہ عبارت ''عند قصر الامارة'' جو کہ ابن کثیر کے ہاں ''ولکنہ عند قصر الامارة'' کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ اس روایت میں تبدیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے موضع قبر بھی تبدیلی ہوئی ہے اس کے بعد ذھبی اور ابی بکر بن عیاش نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ اس قبر کو چھپائو تاکہ خوارج اسے کھول نہ دیں۔ پھر ابن عبدالبر نے تمام روایات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک روایت بنائی ہے کہ ابی جعفرـسے روایت ہے کہ علیـکی قبر کی جگہ معلوم نہیں ہے۔

دوم: خطیب نے اپنی تاریخ میں کہا ہے کہ ابو مسلم سے روایات ہے کہ علیـکو کوفہ میں دفن کیا گیا اور یہ نہیں معلوم کہ ان کی قبر کی جگہ کہاں ہے۔ یہ روایت امام الصادقـسے منسوب روایات میں شامل ہے جبکہ اس روایت کی صحت یوں ہے کہ علیـکو ظہر کوفہ میں دفن کیا گیا لیکن جو زائد الفاظ ہیں وہ بعد کی ایجاد ہے۔

سوم: خطیب نے کہا کہ کہا جاتا ہے انہیں یعنی علی کے تابوت کو حسن نے لے جا کر مقا ثویہ میں دفن کیا۔

چہارم: خطیب نے اپنی تاریخ میں ایک روایت یوں بیان کی ہے کہ علی ابن ابی طالبکی قبر کو پوشیدہ رکھا گیا۔

دراصل یہ پچھلی کسی روایت کا ٹکڑا ہے اور وہی روایت ہے جو ابن قتیبہ نے اپنی کتاب مصارف میں بیان کی ہے کہ واقدی سے یوں روایت ہے کہ انہیں رات کو دفن کیا گیا اور ان کی قبر کو پوشیدہ رکھا گیا۔

یہ تو فطری بات ہے کہ عام لوگوں نے اہل بیت سے اس بارے میں پوچھا جبکہ امام جعفر صادق سے تو خاص طور سے اپنے جد بزرگوار کی قبر کے بارے میں پوچھا گیا۔ لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ اس بارے میں انہوں نے سوائے اپنے خاص لوگوں کے جواب دیا ہو۔ امیر المومنین جب پوشیدہ دفن کئے گئے تو فطری امر ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ انہیں کوفہ میں دفن کیا گیااب یہاں پر لفظ کوفہ سے مراد کوفہ کا شہر نہیں ہے بلکہ ان کے اطراف ہے اور مقام الغری مشہور اطراف میں شمار ہوتا ہے اور امام صادق کبھی صرف کوفہ کہہ کر خاموش ہوتے تھے جبکہ کبھی جب پوچھنے والے کے اوپر اطمینان ہوتا تو تفصیل بیان فرماتے تھے ایسا انہوں نے بعض اصحاب کے ساتھ کیا ہے جسے ہم آئندہ سطور میں بیان کریںگے۔

یہ تو معلوم ہے کہ تمام ٹیلے جو کوفہ کے احاطے میں آتے ہیں امام کا مدفن بھی انہی ٹیلوں میں ہے لیکن مقام التویة جسے خطیب بغدادی نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے۔ یہ اس لئے کہ یہ ٹیلہ روضہ مقدس تک پھیلا ہوا تھا اور اس ٹیلے کے مغرب کی جانب ایک فرسخ فاصلے سے زیادہ نہیں ہے۔

روایات کا دوسرا گروہ جن میں مقام قبر معلوم ہے۔ اس حوالے سے خطیب بغدادی نے پانچ روایتوں کو بیان کیا ہے۔

۱_ انہوں نے اپنی کتاب تاریخ بغدادی میں احمد بن عیسیٰ العلوی سے یوں روایت کی ہے کہ حسن ابن علینے فرمایا کہ میں نے اپنے والد علی ابن ابی طالب کو مقام حجلہ میں دفن کیا یا یوں فرمایا کہ قبلہ آل بعدہ بن ھبیرہ کے کسی حجرہ میں دفن کیا۔

اس روایت کو ابن کثیر نے دوبارہ بیان کیا ہے لیکن انہوں نے حسن الحافظ بن عساکر سے روایت کیا ہے حالانکہ یہ گزر چکا ہے کہ خود ابن عساکر نے خطیب کی روایات کو نقل کیا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ جو تعجب مجھے اس روایت سے ہوا ہے وہ آپ کے لئے بھی ہوا ہو گا کہ حضرت امام حسنـنے اپنے والد گرامی کو ایسی جگہ کیوں دفن کیا اور جعدة رضوان اللہ علیہ سے کیا خطرہ تھا اور پھر وہ امام کی ہمشیرہ جناب ام ہانی کا فرزند تھا لیکن امام حسنـنے ان سے بھی چھپایا۔ اس جگہ میں کونسا راز ہے اس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ ایسی روایات بغیر کسی تعلیق، انکار، روایت کی توہین یا راوی کی ذمہ داری کے نقل ہوتی ہیں اگرچہ یہ مرقد امیر المومنینـکی حفاظت سے متعلق ہیں۔

۲_ خطیب نے تاریخ بغدادی میں عبدالملک بن عمیر سے یوں روایت کی ہے کہ جب خالد بن عبداللہ نے یزید کے گھر کی بنیاد کھودی تو انہیں ایک سفید ریش بزرگ کی لاش ملی جیسا کہ کل ہی دفن ہوئے ہوں تو اس نے کہا:تم یہ پسند کرتے ہو کہ میں تمہیں قبر علی ابن ابی طالبـدکھا دوں؟ اور اسماعیل بن بہرام نے اس حدیث میں یوں اضافہ کیا کہ اے غلام!میرے لئے لکڑی اور آگ لے آئو تو ہشیم بن العریان نے کہا خدا امیر کی صلاح کرے کوئی بھی تم سے ایسا کرنا پسند نہیں کرے گا۔ پھر کہا:اے غلام !میرے پاس کپڑا ہے تو اس نے لپیٹ لیا اور حنوط کی اور اسی مقام پر رکھ دی۔ ابو زید بن الطریف نے کہا کہ یہ جگہ مسجد بیت اسکاف کے قبلے کی جانب باب العراقین ہے وہ کوئی وہاں نہیں رہ سکا اور ابن کثیر نے ایک روایت تو لیکن خطیب کی کتاب وغیرہ کی طرف نسبت نہیں دی ہے اب سابقہ روایت کو جھٹلانا یا راوی کو مقدوح کرنا آسان ہے کیونکہ تمام مصادر جو مرقد امام کی ترجمانی کرتی ہیں کے مطابق وہ لاش گنجی تھی۔ تو راوی کو ان کے سفید بال کہاں سے نظر آئے۔ یہ ایک طرف سے جبکہ دوسری طرف اگر یہ روایت صحیح بھی ہو یا کوفہ والے اس کی تائید کریں یا بنی امیہ کی حکومت کے خاتمہ کے بعد بیت اسکاف کا موضوع موجود تھا یا اہل کوفہ یا اہل بیت کے دوستداران وہاں جاتے ہوں۔ خاص طور سے جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ ان مواضع میں جہاں امام ٹھہرے یا کسی نے امام کو وہاں دیکھا یا جہاں سے امام گزرے ہیں تو بصرہ میں تو ایسے بہت سارے مقامات موجود ہیں جو امام کی طرف منسوب ہیں جس کی لوگوں نے زیارت بھی کی ہے۔ ہم عنقریب انہیں بیان کریں گے۔

عبدالملک بن عمیر نے کہا ہے کہ انہیں اصحاب حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس پر تہمت لگائی ہے اور جھوٹا، فراڈی قرار دیا ہے جیسے شیخ حسن المظفر نے کتاب افصاح میں بیان کیا ہے لیکن احمد بن حنبل، ابن معین، ابی حاتم، شعبہ، ابن حبان وغیرہ نے اور جرح و تعدیل کی کتابوں میں کتاب افصاح کے محققوں نے قابل اعتبار مانا ہے۔

۳_ خطیب نے ابی الحسن الزیاری سے روایت کی ہے کہ حضرت علی کو کوفہ میں رات کی تاریکی میں جامع مسجد کے پاس قصر امارہ کے میں دفن کیا گیا۔

اور ابن کثیر نے اس روایت کو اپنی کتاب البدایہ والنہایة میں اس شکل میں بیان کیا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ واقدی نے کہا کہ حضرت علیـکو کوفہ کی جامع مسجد کے قبلہ میں دفن کیا اور مشہور تو دارالامارہ ہے اور کہا جاتا ہے جامع الکوفہ کی دیوار میں دفن ہوئے۔

یہ روایات ہو بہو ابن سعد کی روایت جیسی ہے جیسا کہ بیان ہوا۔

ان روایات میں سے کوئی بھی اگر درست ہوتی تو مذکورہ جگہ اہل بیت اور ان کے ماننے والے زیارت کیلئے ضرور جاتے اور ہم نے دیکھا کہ بہت سارے ایسے مقامات جہاں امامـ صرف ٹھہرے یا وہاں سے گزرے وہ مسلمانوں کے لئے قابل قدر و احترام ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ایسے مقامات عراق اور عراق سے باہر خاص کر مشرق کی جانب بلخ وغیرہ تک بہت زیادہ ہیں اور وہاں پر مساجد اور مزارات بھی بنے ہوئے ہیں۔

یاقوت نے معجم البلدان میں سونایا گائوں کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ گائوں بغداد میں ایک قدیم گائوں ہے اور پھر یہ مقام العمارہ میں شامل ہوا اور العتیقة کے نام سے مشہور ہواوہاں پر علی بن ابیطالب کا مزار تھا لیکن اب یہ ختم ہو چکا ہے یہ جامع براثا بغداد میں ایک سے زیادہ مرتبہ بنایا گیا اب بھی کچھ زائرین وہاں جاتے ہیں اور وہاں موجود کنواں سے پانی بطور تبرک پیتے ہیں کیونکہ یہ کنواں دست امام سے کھدا ہے اور بہت سارے زائرین اپنے بچوں کولا کر وہاں سے پانی پلاتے ہیں تاکہ بچے جلدی بولنا شروع کردیں اسی لئے اسے المنطقہ یعنی نطق سکھانے والی جگہ کہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ امامـ خوارج کے ساتھ جنگ کے لئے نہروان گئے تھے تو اپسی پر یہاں ٹھہرے تھے۔

یاقوت کے معجم البلدان کے مطابق ناصر خسرو نے اپنے سفر نامہ میں تیرہ مزار امیرالمومنینـ کے نام سے بیان کئے ہیں اور سید جعفر بحر العلوم کے مطابق اور بھی بہت سارے مزارات بنائے گئے ہیں ان جگہوں پر جہاں کہیں کسی بے امامـکو اپنے خواب میں دیکھا وہاں مزار بنا دیا۔ اس حوالے سے مناسب ہے کہ اس ضمن میں حلب کی ایک منہدم عبادت گاہ کے حوالے سے بیان کریں جسے یاقوت نے اپنی معجم میں لکھا ہے کہ وہ عبادت گاہ ختم ہو گئی ہے لیکن بعد میں حلب کے لوگوں نے وہاں ایک مزار بنوایا ہے اس خیال سے کہ انہوں نے حضرت امام حسین اور حضرت علی کو وہاں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا تو ان کے ماننے والوں نے آپس میں مال جمع کر کے وہاں ایک خوبصورت عمارت تعمیر کی۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے جو آپ کی قبر کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہو وہ ایسی جگہوں میں دفن نہیں کرسکتا جو ہر خاص و عام کی زیر نظر ہو کیونکہ بنی امیہ کے پٹھو اور جاسوس اس زمانے میں بہت زیادہ تھے بلکہ بہت سارے ایسے لوگ بھی تھے اس حوالے سے خبر لانے والوں کو پیسہ دینے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔

۴_ خطیب نے اپنی تاریخ بغدادی میں لکھا ہے کہ روایت کیا جاتا ہے کہ موضع قصر میں دفن ہوئے اور کہا جاتا ہے کہ مقام الرحبہ میں دفن ہوئے۔ یہ بھی وہی ہے دیکھیں کہ ان دونوں روایتوں کی سند بیان نہیں کی ہے اور دونوں ابن سعد کی روایت لگتی ہیں۔

۵_ خطیب نے بیان کیا کہ روایت مقام کناستہ میں کناسة سے مراد کوفہ کے کھجور خشک کرنے کی جگہ ہے البراقی کے مطابق یہ وہی جگہ ہے جہاں زید ابن علی کو سولی پر چڑھایا گیا اور یہ موضع قبر امام علیـکے مخالف ہے اور یہاں اس وجہ سے زید کو پھانسی ہوئی کیونکہ یہاں زیادہ لوگوں کی بھیڑ تھی اور کناستہ کوفہ سے شام کی جانب نکلنے والی جگہ بھی ہے اور امام علیـیہیں سے شام کی جانب جنگ صفین میں گئے تھے اس سے ظاہر ہوتا ہے راوی کے لئے قبر امام کے حوالے سے امام کے نام اور ان کے پوتے کے نام ایک ہونے کی وجہ سے اشتباہ ہوا ہے کیونکہ زید کے والد علی بن حسین ہیں اور وہاں زید کا ہی مزار ہے اور دوسری وجوہ کی بنا پر اس روایت کی کوئی قیمت نہیں ہے۔

روایات کے تیسرے گروہ جس میں امام کی نعش مبارک مدینہ منور کی طرف لے جایا گیا اس ضمن میں بغدادی نے تین روایات بیان کی ہے:

۱_ انہوں نے اپنی کتاب تاریخ بغدادی میں لکھا ہے کہ محمد بن حبیب نے کہا کہ سب سے پہلے جن کو ایک قبر سے دوسری قبر میں منتقل کیا گیا وہ امیر المومنین علی بن ابی طالب ہیں انہیں ان کے بیٹے امام حسن نے منتقل کیا تھا۔

اس روایت کو ذہبی نے بھی بیان کیا ہے اس ضمن میں انجینئر حاتم عمر طہٰ اور ڈاکٹر محمد نور بکری نے کتاب بقیع الغرقد میں جنع البقیع میں اہل بیت کی قبور کے حوالے سے لکھا ہے کہ سید نا علی جو چوتھے خلیفہ، رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا کے بیٹے کو حسن نے لا کر مدینہ منورہ میں بقیع میں دفن کیا۔ جسے السمہودی نے زبیر بن بکار سے نقل کیا ہے۔

ان دونوں کی تائید و تصدیق کے لئے بہت سارے لوگ موجود ہیں جو بقیع کی قبور کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن ہم عنقریب ان روایات کی رد میں دلیل پیش کریں گے۔ جو سمہودی کی ولادت سے صدیوں قبل کی ہے اور اس نے اپنے گمان پر روایت کیا ہے۔

۲_ خطیب نے لکھا ہے الحسن بن محمد النخعی نے کہا کہ ایک دن ایک آدمی شریک کے پاس آیا اور کہا علی بن ابیطالب کی قبر کہا ں ہے؟ تو اس نے منہ موڑ لیا یہاں تک کہ تین بار پوچھا تو چوتھی مرتبہ جواب دیا قسم خدا کی انہیں حسن ابن علی نے مدینہ منتقل کیا ہے یہ حدیث البخوی کا لفظ ہے وہ کہتا ہے کہ عبدالملک نے کہا:ایک دفعہ میں ابی نعیم کے پاس تھا ایک گروہ مقام حمیر سے گزرے۔ میں نے پوچھا:یہ لوگ کہاں جارہے ہیں؟ اس نے کہا:علی ابن ابی طالب کی قبر کی طرف جا رہے ہیں۔ اتنے میں ابو نعیم نے میری طرف متوجہ ہوکر کہا: یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں انہیں حضرت علی کے بیٹے حسن نے مدینہ منتقل کیا ہے اور کہا جاتا ہے بقیع میں فاطمہ بنت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ دفن کئے گئے ہیں۔

اس حدیث میں شریک سے مراد عبداللہ الخفی ہے جمہور محدثین اور رجال جرح و تعدیل کے نزدیک یہ قابل اعتماد نہیں ہے یہ غلطی کرتا ہے یہاں تک کہ چار سو احادیث میں انہوں نے غلطی کی ہے اور یہ حدیث نہ صرف قوی نہیں بلکہ مضطرب ہے اور اسے یہ معلوم نہیں کہ حدیث کیسے بیان کی جاتی ہے اس کے علاوہ اور بہت سی صفات جو ان کی روایت کی تذلیل کرتی ہیں مزید تفصیلات کے لئے شیخ حسن المظفر کی کتاب الا فصاح ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

احمد بن صالح کی روایت کتاب التہذیب میں یوں آئی ہے کہ میں نے ابو نعیم سے زیادہ سچی حدیث کہنے والا نہیں دیکھا وہ غلط احادیث میں اوپر والے راوی چھپا کر اپنا نام لگاتا تھا۔

اب یہ میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک ہی وقت میں سچا حدیث کہنے والا، سند روایت میں گڑ بڑ کرنے والا ہے اور بغدادی نے یوں حکایت کی ہے کہ ابو نعیم الفضل بن دکین سے یوں روایت کی ہے کہ حسن و حسین نے ان کی نعش اٹھائی ا ور مدینہ منتقل کی بقیع میں فاطمہ کی قبر کے پاس دفن کیا۔

اس حوالے سے شریک نے بغیر تفصیل سے یوں کہا ہے کہ ان(حضرت علی)کو حسن بن علی نے مدینہ میں منتقل کیا۔ یہ روایت ابن قتیبہ کی روایت کے نزدیک ہے جو انہوں نے اپنی الامامہ والسیاسیہ میں نقل کی ہے کہ کہا جاتا ہے حضرت علی کو صلح امام حسن کے بعد مدینہ میں منتقل کیا یا المسعودی کی ایک روایت بھی اس سے ملتی جلتی ہے کہ انہیں مدینہ لے جایا گیا اور فاطمہ زہراکی قبر کے پاس دفن کیا گیا۔

۳_ خطیب بغدادی نے اپنی کتاب تاریخ بغدادی میں لکھا ہے کہ حسن نے مجھ سے کہا کہ انہیں ایک صندوق میں رکھا اور کافور لگایا گیا پھر ایک اونٹ پر رکھا گیا تاکہ مدینہ لے جایا جا سکے جب وہ طی پہنچے تو رات کے وقت ان کے اونٹ گم ہوگئے بعد ازاں اہل طی نے اونٹ کو پکڑ لیا اور سوچا کہ اس صندوق میں بہت سارے اموال ہونگے لیکن جب انہوں نے صندوق میں دیکھا تو ڈر گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ پھنس جائیں تو انہوں نے صندوق کو دفن کر دیا اور اونٹ کو ذبح کرکے کھا لیا۔

یہ روایت مسعودی کی سابقہ روایت سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے جو کہ یوں ہے کہ انہیں ایک تابوت میں ڈال کر اونٹ پر رکھا گیا اور راستے میں اونٹ گم ہو گیا اور جا کر وادی طی میں پہنچا۔

بغدادی کی روایت کو ابن کثیر اور ذہبی نے نقل کیا ہے خطیب کی روایت میں جو کہ راوی بنام حسن ہے وہ ذہبی کے نزدیک حسن بن شعیب الفروی ہے۔

نعش کی منتقلی کے بارے میں جو روایات ہیں ان کی نفی کے لئے ابن کثیر کی اپنی روایت کافی ہے جو انہوں نے امام کی قبر کے بارے میں بیان کی ہے۔

جس نے کہا کہ انہیں ایک سواری پر رکھ کر لے جایا گیا اور وہ سواری چلی گئی اور کسی کو یہ نہیں معلوم کہ کہاں گئی پس اس نے غلطی کی اور یہ بات تکلّفاً کہی۔ ایسی بات کو نہ عقل مانتی ہے اور نہ ہی شرح۔

پس جو چیز عقل و شرح پر دلالت کرتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ یہ مدینہ کی طرف منتقلی والی روایات پر کرے گی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر منتقلی ہوئی ہوتی تو ہمیں معلوم ہوتا کیونکہ اس حوالے سے بہت ساری روایات ہیں بلکہ ہم نے مدینہ میں موجود بچوں تک کے بارے میں تاریخ بھی دیکھی جو مزارات اہل بیت وغیرہ کی قبور پر بنے ہوئے ہیں۔ بلکہ ہم نے دسیوں روایات ان قبور کی زیارات اور ثواب کے متعلق دیکھی ہیں لیکن آئمہ اہل بیت میں کسی نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا ہے نہ ہی کوئی ایک بھی ایسی روایت ان سے ہے جس میں ہمیں اس بارے میں کوئی اشارہ ملے بلکہ تمام اہل بیت کا اس بات پر اجماع ہیں کہ قبر امام یہیں معروف و مشہور یعنی نجف اشرف میں ہی ہے جیسا کہ بعض اہل بیت کی قبور جنت البقیع میں معروف ہیں اور قیامت تک ان کی زیارت ہوتی رہے گی جہاں پر فاطمہ بنت اسد والدہ گرامی امام علی، حسن بن علی، علی بن حسین، محمد بن علی ، جعفر بن محمد اور جناب عابس بن عبدالمطلب کی قبریں ہیں اور یہ بھی مشہور ہے کہ قبر زہرا بتول بھی یہاں پر ہے۔

ان کی روایات اور ان کے قبل مسعودی کی روایت کی نفی کے لئے مزید یہ کافی ہے کیونکہ مسعودی نے خود غیر شعوری طور پر اپنی کتاب میں اس روایت کو رد کیا ہے۔ جب اس نے تاریخ وفات امام صادق بیان کی تولکھا ہے:

بقیع میں ان کی قبور پر ایک کتبہ لگا ہوا ہے جس پہ لکھا ہوا ہے :

''بسم اللّٰه الرحمن الرحیم الحمد ﷲ مبید الامم ومحی الرّمم''

''یہ فاطمہ بنت محمد رسول اللہ عالمین کی عورتوں کی سردار کی اور حسن بن علی ابن ابی طالب اور علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالب اور محمد بن علی اور جعفر بن محمد٪کی قبریں ہیں۔''

یہ کوئی روایت نہیں ہے بلکہ یہ بات تو ہر کسی نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے اگر امام مدینہ میں منتقل ہوئے ہوتے یا بعض کے مطابق بقیع میں فاطمہکی قبر کے پاس دفن ہوئے ہوتے جیسا کہ بعض کا گماں ہے تو اس تختی پر ان کا نام بھی لکھا ہوا ہوتا۔

اب وہ روایات کہ جس کے مطابق اس قبر میں امامـدفن نہیںہوئے بلکہ مغیرہ بن شعبہ مدفون ہیں۔اس حوالے سے دو روایات ہیں:

بغدادی نے ایک روایت ابو نعیم احمد بن عبداللہ الحافظ سے بیان کی ہے اس نے کہا:میں ابو بکر الطلحی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ابا جعفر الحضرمی مطین علی بن ابی طالب کی قبر جو کہ کوفہ کے کنارے میں مزار بنے ہوئے ہیں ان میں ہونے سے انکار کرتے ہیں اور وہ کہتا ہے کہ اگر رافضیوں کو ان صاحب کی قبر کے بارے میں معلوم ہے تو وہ پتھر مارتے کیونکہ یہ مغیرہ بن شعبہ کی قبر ہے۔

مطین کہتا ہے کہ اگر یہ علی بن ابی طالب کی قبر ہوتی تو میں ہمیشہ کے لئے وہاں رہتا اور اپنا مسکن قرار دیتا۔

پہلی روایت کو ابن کثیر نے البدایة والنہایة میں جبکہ مطین کی روایت کو ذہبی نے بھی ذکر کیا ہے۔

ضروری ہے کہ مغیرہ کے وہاں دفن سے متعلق کوئی سبب ہو کیونکہ یہ مقابر ثیف جو ان کی خاندانی قبرستان ہے وہاں سے زیادہ فاصلہ پر ہے اس لئے اس کے اوپر بھی اعتراض ہونا چاہیے کیونکہ جب امام کی قبر کوفہ میں ہونے پر اعتراض ہوا ہے کہ وہ اپنے اہل و اقارب سے دور مقام کیسے دفن ہوسکتا ہے اور اس پر کیا دلیل ہوسکتی ہے۔

ابن ابی الحدید نے بغدادی کی اس روایت کو جھٹلایا ہے اور اس کی رد میں یوں کہا ہے میں الخطیب ابو بکر کے اس بیان کے بارے میں نے اہل کوفہ کچھ بزرگ و عاقل لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس میں وہ مغالطہ کررہے ہیں مغیرہ اور زیاد کی قبریں تو کوفہ کی زمین مقام الثویة میں ہے اور ہم ان کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں اور ہم یہی اپنے آبائو اجداد سے سنتے آئے ہیں اس کے بارے میں ابو تمام حماسة نے بھی اپنے اشعار میں ذکر کیا ہے۔

ابی الحدید نے مزید کہا کہ میں نے قطب الدین نقیب الطالبین ابا عبداللہ الحسین بن الاقسامی سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا:جس نے تمہیں کہا ہے اس نے سچ کہا ہے ہم اور اہل کوفہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مقابر ثقیف مقام الثویة میں ہے اور یہ آج تک معروف و مشہور ہے اور اسی میں مغیرہ کی قبر ہے لیکن اتنی معروف نہیں ہے اور وہاں زمین زیر آب آکر دلدل ہو گئی تھی تو وہ جگہ مٹ گئی اور قبریں ایک دوسرے کے مخلوط ہوگئیں۔

پھر اس نے کہا:اگر تم مزید تحقیق کرنا چاہتے ہو کہ مغیرہ کی قبر مقابر ثقیف میں ہے تو ابی الفرض علی بن الحسین کی کتاب الاغمانی ضرور دیکھو کہ جس میں مغیرہ کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں کہ وہ مقابر ثقیف میں ہی مدفون ہے اور تمہارے لئے ابی الفرج کی بات کافی ہے کیونکہ وہ بصیر ناقد اور طبیب و خبیر ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے مذکورہ کتاب میں مغیرہ کے بارے میں جب تفصیل سے پڑھا تو مجھے وہی باتیں ملیں جو نقیب نے کہا تھا کہ ابو الفرج نے کہا مصقلہ بن ہبیرہ الشیبانی اور مغیرہ کے درمیان جھگڑا ہوا تھا تو مغیرہ اس کے سامنے جھک گیا اور اپنی بات میں نرمی پیدا کی۔ اتنے میں مصقلہ کو اس کی کمزوری کا اندازہ ہوا تو وہ مغیرہ کو گالیاں دینے لگا تو جواباً مغیرہ بھی اسے گالیاں دینے لگا اور کہا تم تومجھے تمہارے نا فرمان بیٹے کی طرح لگتا ہے اور بعد میں مغیرہ نے اپنی اس بات پر اس زمانے کے قاضی شریح کے سامنے گواہی بھی پیش کردی۔ تو شریح نے اس پر حدّ جاری کی اور مصقلہ کو اس وطن می رہنے سے منع کیا جہاں مغیرہ رہتا ہو پھر مصقلہ کوفہ میں کبھی بھی نہیں آیا۔ یہاں تک کہ مغیرہ مرگیا۔ اس کے بعد جب مصقلہ کو فہ آیا تو وہ اپنے قبیلے سے ملاقات کی اور فوراً اس نے ان سے ثقیف کے قبرستان کے بارے میں پوچھا ،اور جب اسے دکھایا گیا تو کچھ لوگ جو اس کے ماننے والے تھے وہاں سے پتھر اور کنکریاں اٹھارہے تھے اس نے اُن سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا ہمارا خیال ہے کہ آپ مغیرہ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو اس نے کہا جو تمہارے ہاتھ میں ہے اسے پھینک دو کہہ کر خود جاکر مغیرہ کے قبر پر کھڑا ہو۔

یہ روایت ابی الفرج کی کتاب الاَغانی میں ہے۔

اس حوالے سے ایک اچھی روایت جو کہ ڈاکٹر محمد جواد الطریحی کے ذریعے سے معلوم ہوئی جسے انہوں نے شیخ محمد حرز الدّین سے سنا تھا اور ہم ان سے اتفاق بھی کرتے ہیںاور یہ حدیث شیخ مہدی الحجار متوفی ۱۳۵۸ھ/۱۹۳۹ ء کی حالات زندگی میں درج ہے۔

'' ان کے والد داود پرانے پتھروں کا کاروبار کرتے تھے اور کوفہ کے آثار مسجد سہیل اور مسجد الکوفہ کے قرب و جوار سے پتھر اٹھاتے تھے ۔ ایک دن داود نے ہم سے کہا کہ ایک دفعہ میں پتھر نکالنے کیلئے زمین کھود رہا تھا اور وہ جگہ بھی اتفاقاً الثّو یہ کی جانب کوفہ جانے کا پرانا راستہ تھا اور یہ جگہ حضرت عالم جلیل کمیل بن زیاد کی قبر سے تقریباً سو (۱۰۰)قدم کے فاصلے پر واقع تھا۔ وہاں سے مجھے ایک بڑا پتھر ملا جس پر خطّ کوفی میں کچھ لکھا ہوا تھا تو میں نے انتہائی احتیاط سے اسے نکالا اور نجف لے جاکر وہاں کے ایک عالم ربّانی الشیخ المُلّا علی الخلیلی کو دکھایا اور تمام واقعہ ان سے بیان کی اور انہوں نے اسے پڑھنے کے بعد مجھ سے کہا کہ مجھے تم اس جگہ لے کر چلو۔ میں نے انہیں اپنی سواری پر بٹھایا اور پتھر ان کے سامنے رکھ دیا اور جب ہم وہاں پہنچ گئے تو انہوں نے اس پتھر کو دوبارہ اسی جگہ پر رکھ دیا اور اسکے اوپر مٹی ڈال دی اور مجھ سے کہا کہ اسے دوبارہ مت کھولو یہ اہل کوفہ کی قبروں کی علامت ہے اور یہ مغیرہ بن شعبہ کی قبر کی نشانی ہے اور یہی اس پتھر پر لکھا ہوا ہے پھر اس کے بعد کہا اس پتھر کو یہاں دوبارہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے فائدے بعد میں تاریخ اور آثار بتائے گی۔''

اور نجف کے لوگوں کو ڈرنے کی بات نہیں ہے کہ ان کے اکثر گھر کوفہ کے پرانے پتھروں ہی سے بنائے گئے ہیں ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی کتاب ''مشہد الامام علی ''میں خطیب بغدادی کے (۱۳۲)اقوال کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح خطیب کے اقوال میں قبر علی کے تحریر میںتناقض اور تذبذب نظر آتا ہے کبھی تو وہ مشہور ومعروف قبر کو مغیرہ کی طرف نسبت دیتا ہے حالانکہ وہ خود یہ بھی کہتا ہے کہ مغیرہ تو کوفہ کے مقام الثّویّہ میںمدفون ہے اور کبھی کہتا ہے کہ وہ تو مدائن میں مرا تھا ۔ اس طرح ان متذبذب باتوں پر ہم بھروسہ اور اطمینان نہیں کرسکتے اور کہیں نقل بھی نہیں کرسکتے ۔ حالانکہ امام کے قبر پر ہمیشہ سے ان کی اولاد ، پوتے اور شیعیان کھڑے رہے ہیں بلکہ ظالم حکومتوں کے باوجود وہ وہاں رہتے تھے، اور ان کی زیارات کتابوں میں موجود اور مشہور ہیں۔

اور اندلسیوں کی روایات نے حضرت علی کے جائے مدفن کو مقام الغری بیان کیا ہے۔ بکری ، ابن عبد البرّ، قصر امارہ کے بعد میں رحبہ والی روایت کہتی ہے کہ نجف الحیرة یعنی ایک ایسی جو مقام الحیرة کا راستہ پڑتا ہے میں دفن ہوئے اور یہ روایت ابن عبد ربّہ کی کتاب العقدالفرید میں بھی آئی ہے جس نے محققین کو تشویش میں ڈال دیا ہے ۔اس لئے کہ وہ اس عبارت کو لحف الحیرة پڑھتے ہیں جبکہ یہ دراصل نجف الحیرة ہے۔ مگر ابن خلکان نے اپنی الوفیات میں عضد الدّولہ کے وفات کے ضمن میں کہا ہے کہ وہ آٹھ شوال بروز پیر ۳۲۲ھ بمطابق ۹۸۲ ء کو وفات پاگئے اور وہاں مَلِک کے گھر میں دفن ہوئے بعد ازاں انہیں وہاں سے نکال کر امیر المومنین علی بن ابی طالب کے روضہ میں دفن کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی بن ابی طالب کی قبر کوفہ میں ہے ۔ اور وہاں پر پھر روضہ بنایا گیا اور کافی پیسہ اس پر خرچ کیا گیا اور یہ وہی جگہ جہاں اپنے آپ کو دفن کرنے کی وصیت کی تھی ۔دیگر لوگوں کے درمیان اس قبر کے حوالے سے اختلاف زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ ثقفی کی قبر ہے اور علی کی قبر کا کسی کو ابھی معلوم نہیں ہے اور اس حوالے سے صحیح یہ ہے کہ وہ کوفہ کے قصر امارة میں مدفون ہیں۔ واللہ اعلم۔

ابن خلکان کو یہاں وہم لاحق ہوا ہے یا قبر مبارک کو عضدولدولہ کے لئے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔کیونکہ امام کی قبر تو پہلے سے ہی ظاہر اور مشہور تھی اور عضدالدولہ کی تعمیر کافی مدت بعد بنی ہوئی ہے لہٰذا اس کی کوشش یہاں بے کار ہے۔ اس لئے کہ ہم کیسے عضد الدولة کو پہلے قرار دے سکتے ہیں؟ کہ ایک مرتبہ امام کے روضہ کی تعمیر نومیں کافی مقدار میں مال خرچ ہونے کے بعد پھر عضد الدولہ یہ وصیت کرے اسے وہاں دفنایا جائے اور پھر کسی تصدیق و بھروسہ کے اس کی نسبت امام کی طرف کر دے۔ اوراہلسنّت کی روایات میں بھی یہ باتیں نہیں آئی ہیں ورنہ اس طرح کے معاملات میں وہ پہل کرتے۔ اور اس کے خاندان میں یہ فرد واحد نہیں ہے جو یہاں دفن ہو بلکہ اس کی اولاد یں بھی امام کے جوار میں مدفون ہیں۔ اوریہ بات بھی امکان سے خالی نہیں ہے کہ اس نے امامین کاظمین٪کے جوار میں دفن کرنے کی وصیت کی ہو جو کہ بغداد کے قریب ہے یا امام حسینـ،یا امامین عسکرین٪کے جوار کا ذکر کیا ہو جب یہ بات واضح ہوئی کہ اس نے جس جگہ کا انتخاب کیا ہے وہ امیر المومنین کی قبر نہیں ہے اور عضدالدّولة کی شخصیت کوئی اتنی بڑی تجربہ کار سیاست مدار اور عالم و ادیب بھی نہیں ہے جس کے اردگرد علمی شخصیات ان جان بن کر امیر المومنین کی قبر سے غفلت برتنے والے ہوں۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ روضہ سے متعلق روایات ان حقائق سے بے خبر بھی نہیں تھیں۔

اور صفوی نے ابن خلکان کی اس بات کی تائید کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب الوافیہ میں کہی ہے کہ عضدالدّولة نے ہی امیر المومنینـکی قبر کا انکشاف کیا ہے لیکن انہوں نے ا س حوالے سے لوگوں کے اختلافات کے بارے میں نہیں بتایا تھا اور نہ ہی اس جگہ کے بارے میں کسی کو شک و شبہ تھا۔

اور جب ہم نے اس نص کو دلیل بنایا ہے کہ روضہ مقدس ۲۹۵ھ بمطابق ۹۰۸ ء میں بنا ہوا تھا اور مشہور تھا۔ اوراس کی تائید اس بات سے بھی ہوگی جسے ابن اثیر نے اپنی کتاب ''الکامل فی التاریخ'' میں ضریح کی شہرت کا ذکر اس سے پہلے کیا ہے۔ ان کے مطابق روضہ ۲۳۶ھ بمطابق ۸۵۹ ء میں بنا ہوا تھا۔ اور یہ کوئی قلیل مدت نہیںہے اور ابن خلکان کے مطابق عضدالدّولةکی تعمیر سے قبل یہ روضہ یہاں پر مشہور و معروف تھا۔ ابن اثیر کہتا ہے کہ ۲۳۸ھ بمطابق۸۶۲ ء میں منتصر باللہ بن متوکل مر چکا تھا وہ ایک سخی اور انصاف پسند انسان تھا ۔ لوگوں کو علی و حسین کی قبور کی زیارت کا حکم دیتا تھا اور علویوں کو اُس نے امان دی تھی جو اُس کے باپ کے زمانے میں خوف میں مبتلا تھے اور اس نے ان سے پابندی اٹھادی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے باغ فدک کو اولاد حسنین کو واپس دینے کا حکم بھی دیا تھا۔

اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ جو قبرخلافت متوکل کے دور میں زیارت گاہ بنی ہوئی تھی وہ ابن سعد کی کتاب الطّبقات سے پہلے تھی۔

مشہور ہے کہ متوکل علی اور ان کی اولاد سے بغض و دشمنی زیادہ رکھتے تھے۔ اس لئے اس نے ان پر سخت پابندی لگائی ہوئی تھی اور تاریخ ابن اثیر کی مطابق انہوں نے سال ۲۳۶ھ بمطابق۸۵۹ ء میں امام حسین کی قبر کو مٹانے کا حکم دیا تھا اورروضہ کو گرانے کے بعد اس پر پانی کھلوایا تھا اور لوگوں کو اس کے قریب رہنے اور زیارت کرنے سے روک دیا تھا ۔ واضح ہے کہ زیارت کی ممانعت سے قبر امیر المومنین بھی مستثنیٰ نہیںتھی۔ شاید اُس نے اہل بیت کو ڈرانے کیلئے یہ طریقہ اپنایا تھا۔ یہ صورتحال محمد بن صالح کے انقلاب تک جاری رہی جنہوں نے مقام سویقہ میں قیام کیا تھا۔ یہ مقام مدینہ منورہ میں ہے جہاں امام حسین کی اولاد رہتی تھی ۔ یاقوت کی مطابق متوکّل نے ان کی طرف ابی ساج کی قیادت میں ایک فوجی دستہ بھیجا ۔جو محمد کو گرفتار کرکے متوکّل کے پاس سامراء لے کر آئے پھر انہیںشہید کیا گیا بعد ازاں جتنے بھی علویین مقام سویقہ میں رہتے تھے ان سب کو قتل کیا اور اس جگہ کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔

ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی مشہور کتاب ''مشہد امام علی ''میں لکھا ہے کہ'' وہ مورخین جو امام کے نجف میں مدفون ہونے سے انکار کرتے ہیں اس حوالے سے ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ مشہور سیاح بن جبیر کہتا ہے کہ امام دراصل مسجد اموی دمشق میں دفن ہوئے۔ اسی طرح یا قوت کا کہنا ہے کہ علی عکاّ کے قریب مقامِ عین البقر میں دفن ہوئے، لیکن غرناطی اپنی کتاب ''تحفة الالباب و نخبة العجائب'' میں دعویٰ کرتا ہے کہ علی کی قبر مشرقی عرب میں نہیں بلکہ اس شہر سے چودہ میل کے فاصلے پر پرانے شہر کے مشرق میں واقع ہے۔''

مگر جو بات تک انہوں نے ابن جبر(المتوفی ۵۸۰ھ بمطابق ۱۱۸۴ ئ) کے حوالے سے کہی وہ بے معنی ہے کیونکہ اس کے بتائے ہوئے مقام پر اس کاواقع ہونا ممکن نہیں۔ اس لئے جعفر الخلیلی نے موسوعہ عتبات مقدسہ میں اس موضوع پر کہ نجف سفر اور نشاندہی ،میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس میں ابن جبیر کی باتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ اسی بات کی طرف ڈاکٹر سعاد نے اشارہ کیا تھا ۔ ابن جبیر یوں کہتا ہے کہ ''کوفہ کی مغرب کی جانب ایک فرسخ پر مشہور و معروف مزار جو علی ابن ابی طالبـ سے منسوب ہے ۔کہا جاتا ہے کہ وہ اونٹنی آکر یہاں بیٹھ گئی تھی جس پر حضرت کی میت رکھی ہوئی تھی ۔ ان کی قبر یہی پر ہے اور ہمیں بتایا گیا کہ اس مزار میں ایک بڑی عمارت بھی ہے لیکن ہم تو نہیں دیکھ سکے کیونکہ کوفہ میں ہمار ا قیام مختصر تھا اور ہمیں وہاں صرف ایک ہی رات رکنا تھا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود خلیلی نے بھی اصل عبارت میں سے کچھ چیزیں حذف کی ہیں اسی اسکی عبارت میں یوں نقطے (.......)کی علامات ہے اس کامطلب ہے کہ عبارت جاری ہے اور دوسری جانب ڈاکٹر سعاد کو بھی اشتباہ ہوا ہے جس کی وجہ شاید ہم نہیں جان سکے کیونکہ انہوں نے ایک ایسی بات ابن جبیر سے منسوب کی جو اُس نے نہیں کہی ۔

لیکن جہاں تک انہوں نے یاقوت کے حوالے سے کہا ہے توانہوں نے بھی اس طرح نہیں کہاہے جیسا موصوف نے بیان کی ہے۔ بلکہ جو بات یاقوت نے اپنی معجم میں کہی ہے وہ یوں ہے کہ اس چشمہ پر ایک مزار ہے جو علی ابن ابی طالبـکی طرف منسوب ہے اس کے بارے میں عجیب و غریب کہانی ہے۔

اور مزار سے مراد قبر نہیں ہے اس حوالے سے ہم بغداد میں جامع براثا میں ان کے مزارات کے بارے میں بیان کیا ۔ اسی طرح کی ایک مثال غرناطی نے بھی بیان کی ہے جو امام کی مزار کے حوالے سے ہے بلکہ ناصر خسرو نے بصرہ میں جب سال ۴۴۳ھ بمطابق۱۰۵۱ ء میں آئے تو انہوں نے امیر المومنین کے نام سے تیرہ مزارات دیکھے۔ اور وہ اپنی کتاب سفر نامہ میں بیان کرتا ہے کہ انہوں نے ان تمام مزارات کی زیارت کی تھی ۔ اس حوالے سے مزید ہم بحث نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان باتوں کے پیچھے اسباب کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔

ہم یہاں پر یہ ذکر کرتے چلے کہ دوروسطیٰ کے (۱۲۳)مورّخوں میں سے ایک جماعت مثلاً ابی الفداء ، ابن شحنہ اور سبط ابن جوزی وغیرہ نے قبر شریف کے موضوع کے تحدید کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن آخر میں یہ تمام اس بات میں جمع و متفق ہوئے کہ قبر شریف نجف میں ہی ہے۔

اب ہم اصحاب حدیث کے ان راویوں کا ذکر کرتے ہیں جو اہل بیت اوران کے ماننے والوں کے ساتھ موافق نظر آتے ہیں جن میں سے بعض کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں اور دوبارہ بیان کریں گے جسے یاقوت نے اپنی معجم میں لفظ نجف کے ذیل میں لکھا ہے۔ کہ اس موضع کے قریب یعنی نجف امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی قبر ہے اور آگے جاکر اسی انسائیکلو پیڈیا میں لفظ الغریین کے ذیل میں لکھاہے کہ کوفہ کے کنارے علی ابن ابی طالب کی قبر کے قریب جھونپڑی کی طرح دو عمارتیں ہیں لیکن اب یہی موجود نہیں ہیں اور بنی اُمیّہ کے او اخر اور بنی عباس کے اوائلی دور میں یہ گر کر ختم ہوگئی ہیں۔

یاقوت نے اپنی انسائیکلو پیڈیا میں ثعلب سے نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ معن بن زائدہ عزیین سے گزرا تو دیکھاکہ وہاں مذکورہ دو عمارتوں میں سے ایک گری ہوئی تھی ۔ اور اس کی بات میں یہ جو فرق امام سے منسوب مزار اور مقام عین بقرہ میں واقع مزار کے درمیان اور اسی طرح نجف میں واقع امام کی قبر اور مقام غریین میں واقع قبر کے درمیان واقع ہے۔ اور یہاں پر یا قوت کی یہ روایت زیادہ اہمیت کے حامل ہے کیونکہ اس کا راوی شیعہ نہیں تاکہ باعث شک و شبہ ہو۔

بلکہ یہ ایک ایسے آدمی سے روایت ہوئی جس کے بارے میں ابن خلکان نے اپنی کتاب وفیات میں کہاہے کہ یہ آدمی علی ابن ابی طالب سے زیادہ تعصب کرنے والا تھا اور اس نے خوارج کی کتابوںمیں سے تھوڑا پڑھا تھا جس کی وجہ اس کے ذہن میںایک نئی بات بیٹھ گئی۔ مگر ابن اثیر اس حوالے سے اسی جگہ کی صحت کی تصدیق کی ہے جہاں امام کی زیارت کی جاتی ہے انہوں نے اپنی کتاب ''الکامل فی التّاریخ ''میں یوں لکھا ہے۔

جب انہیں قتل کیا گیا تو جامع کے پاس دفن کئے گئے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قصر میں مدفون ہے ،اس کے علاوہ اور بھی جگہیں بتائی جاتی ہے۔ لیکن ان میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ان کی قبر اسی مقام پرہے جہاں اس کی زیارت اور تبرّک کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر حسن حکیم اپنی سابقہ کتاب میں اس کے مصادر کے حوالے سے بیان کیاہے کہ ''بعض مورخین نے قبر شریف کی سرزمین نجف میں ہونے کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے۔ تلقشندی کے مطابق مشہور اور صحیح ہے کہ امام علی نجف میں ہی مدفون ہیں۔ اور مشہور مورّخ ابن وردی نے ابن اثیر کی رائے کو قبول کیا ہے ۔ اور اسی کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ زیادہ صحیح یہ ہے جسے ابن اثیر وغیرہ مانتے ہیں کہ امام نجف میں مدفون ہیں اور ابن طباطبا، ابن طقطقی وغیرہ کہتے ہیں کہ جہاں تک امیرالمومنین کے مدفن کی بات ہے تو وہ رات کی تاریکی میں مقام عزی میں دفن کئے گئے اور ان کی قبر کو چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ بعد میں مزار کی حیثیت سے ظاہر ہوا جوکہ آج تک مشہور ہے۔ اس حوالے سے جتنے بھی مصادر انہوں نے بیان کئے ہے اس کی توثیق صبح الاعشی، تاریخ ابن الوردی، ابن طقطقی کی الآداب وغیرہ کرتی ہیں اور متاخرین میں سے زبیدی نے کتاب التاج میں نجف کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے اس موضع کے قریب امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی قبر واقع ہے۔''

ابن ابی الحدید کی یہ بات گزر چکی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا تھا کہ انہوںنے ان روایات کا ذکر کیا تھا اس حوالے سے ان کی اولاد کی بات پر اعتماد کر نا چاہیے۔ کیونکہ وہ بہتر جانتی ہے'' ہر لوگوں کی اولاد اپنے باپ دادا کی قبروں کے بارے میں دوسروں سے زیادہ جانتی ہے اور یہ قبر وہ ہے جس کی زیارت ان کے بیٹوں نے کی تھی جب وہ عراق پہنچے تھے ان میں جعفر بن محمد(امام جعفر صادقـ) وغیرہ جو اس خاندان کے بزرگ اور بڑے تھے اور ابن ابی الحدید نے اس روایت کو بھی کیان کیا ہے جسے ابو الفرج نے اپنی کتاب ''مقاتل الطالبین ''میں سند کے ساتھ امام حسین سے روایت کیا ہے۔

'' جب امام حسین سے پوچھا گیا آپ لوگوں نے امیر المومنین کو کہاں دفن کیا؟ تو آپ نے جواب دیا ہم انہیں رات کی تاریکی میں ان کے کوفہ میں واقع سے اٹھاکر لے گئے اور مسجد اشعث سے ہوتے ہوئے کوفہ کے کنارے غرّی کے جانب پہنچے۔''

دوبارہ ابی الفرج سے منسوب دوسری روایت جس کی سند حسن بن علی الخلّال کے ذریعے اس کے دادا سے ملتی ہے ۔ انہوں نے کہا ''میں نے حسین بن علی سے کہا آپ لوگوں نے امیر المومنین کو کہاں دفن کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا ہم انہیں رات کی تاریکی میں ان کے گھر سے لے گئے اور اشعث بن قیس کے گھر سے گزرتے ہوئے کوفہ کے کنارے غرّی کی جانب نکلے۔'' پھر انہوں نے کہا کہ یہ روایت سچی ہے اور اسی کوماننا چاہیے اور ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ لوگوں کے بیٹے اپنے آباء واجداد کی قبروں کے بارے میں دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔

اور یہ جو قبر مقام غرّی میں واقع ہے جس کی زمانہ قدیم و جدید سے اولادِ علی زیارت کرتے آرہے ہیں اور کہتے آئے ہیں کہ یہ ہمارے باپ کی قبر ہے اس بات پر شیعہ اور غیر شیعہ میں کوئی بھی شک و شبہ نہیں کرتے ہیں یہاں اولادِ علی سے مراد صرف حسن حسینکی نسل سے مراد نہیں ہے بلکہ دوسری اولاد بھی مراد ہے جنہوں نے صرف اسی قبر کی زیارت کی ہے۔

لیکن یہ کہتا چلوں کہ یہ عجیب بات ہے بعض مورّخین کچھ ایسی روایات پر بھروسہ کرتے ہیں جو قبر شریف کی صحیح موضع کو مشکوک بناتی ہیں جس کی نہ اولاد علی تائید و تصدیق کرتی ہے اور نہ اس پر اجماع شیعہ ہے اور علماءے سالفین اسی مزار کی ہی زیارت کرتے آئے ہیں ۔ شاید مشکوک روایات کو ردّ کرنے میں ابن جوزی کی روایت بھی ہے جسے انہوں نے اپنی کتاب ''اعتظم فی تاریخ الملوک والاھم'' میں ابی القائم محمد بن علی بن میمون الزّ سی کی تاریخ وفات کے ذیل میں بیان کیا ہے اور موصوف اُبّی کے نام سے مشہور تھا کیونکہ ان قرات اچھی تھی۔ اور اس زمانہ میں کوفہ میں اہلسنّت کا واحد محدث تھا جسے ابن ابی الحدید نے بھی شرح النّصج میں بیان کیا ہے اور ابن جوزی کے ساتھ اتفاق بھی کیا ہے لہٰذا جوزی کہتا ہے''محمد بن علی میمون بن محمد ابو القائم الزّسی کوفہ میں اُبّی کے نام سے مشہور تھا اس لیے کہ اس کی قرات اچھی تھی۔ اور موصوف شوال ۴۲۴ھ بمطابق ۱۰۳۳ ء کو پیدا ہوئے ہمیں ہمارے شیخ ابو بکر عبد الباقی نے بتایا کہ میں نے ابا القائم بن الزّسی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ کوفہ میں اس وقت کوئی اہلسنّت محدّث موجود نہیں سوائے اُبّی کے جو کہ یہ کہتا تھا کوفہ میں (۱۱۳)صحابہ وفات پاچکے ہیں ۔ ان میں سے صرف علی کی قبر کا پتہ ہے:اور کہا کہ جعفر بن محمد ، محمد بن علی بن حسین ایک دن کوفہ آئے اور انہوں نے امیر المومنین کی قبر کی زیارت کی کیونکہ اس قبر کے علاوہ اور کسی کی قبر نہیں تھی۔ اور یہ بھی صرف زمین ہی تھی پھر محمد بن زید آیا اور اس قبر کا انکشاف کیا۔''

ابن جوزی نے ابی القائم الزّسی کی اس روایت کی توثیق کی ہے اور ان کے شیخ ابن ناصر ان کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں کہ میں نے ابی القائم جیسا ثقہ اور حفظ روایت میں کسی کو نہیں دیکھا اور ان کی حدیث اس حوالے سے مشہور تھی ۔ کوئی بھی اس میں مداخلت نہیں کرسکتا تھا اور وہ شب گزاروں سے تھا۔یہاں پر میں ایک پڑھتا ہوں جسے ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں خاص طور سے اس آیت کی تفسیریں بیان کی ہے۔

( وَجَعَلْنَاابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّهُاایَةً وَّ آوَیْنَا هُمَا ِ لٰی رَبْوَةِ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنِ )

یہ روایت بھی ان روایات کی مدد کرتی ہے جو مرقد شریف کے نجف میںہونے کی تائید کرتی ہے۔ اس کی سند محمدابن مسلم سے ملتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ''میں امام جعفر صادق سے اللہ تعالیٰ کے اس قول سے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا، یہاں الرّبوة سے مراد نجف ہے اوراَلْقَرَار سے مراد مسجد ہے جبکہاَلْمَعِیْن سے فرات مراد ہے۔

اور بہت ساری روایات ہے جو یہ کہتی ہے کہ روضہ مقدس کی تحدید امام نے فرمائی تھی جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ۔ کیونکہ امام کو یہ معلوم تھا کہ بعد کیا ہونے والا ہے اور یہ بھی آپ کو معلوم تھا کہ آپ کے دشمن کے نفوس میں آپ کی کتنی دشمنیاں ہیں اور جسد طاہر کے ساتھ جو سلوک کرنے والے تھے اس لئے انہوں نے بالکل راز میں قبر کی تحدید کی۔ اس موضع کے بارے میں اہل بیت کے سواء کو ئی آگاہ نہیں تھا اور شاید انہوںنے اپنے خاص اصحاب کو بھی آگاہ کیا ہو۔ شاید اس روایت کی تائید ابن ابی الحدید کی وہ روایت کرے جسے انہوں نے ''شرح النّصج ''میں اپنے شیخ ابی القاسم البلخی سے قبر علی کی شان میں بیان کیا ہے۔ جب وہ قتل ہوا تو ان کے بیٹوں نے ان کی قبر کو چھپانے کا ارادہ کیا اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بنی اُمیّہ ان کی قبر کے ساتھ کوئی ناروا سلوک کریں اور اسی رات سے ہی لوگوں کو مختلف شک و شبہات میں ڈال دیا اور ایک اونٹ کے اوپر ایک تابوت رکھا گیا جس سے کافور کی خوشبو آرہی تھی اور رات کی تاریکی میں انہیں نکالا گیا اپنے ثقہ اصحاب کی ہمراہی میں تو لوگوں نے سوچا کہ شاید یہ لوگ انہیں مدینہ منوّرہ لے جاکر جناب فاطمہ کے پہلو میں دفن کرتے ہونگے۔ اور ایک خچر کے اوپر ایک جنازہ باندھ کر رکھ دیا گیا یہ بتانے کے لیے کہ اسے مقام حیرہ میں دفن کریں گے اور مختلف مقامات پر مختلف قبریں کھوی گئیں جیساکہ ایک قبر مسجد ، مقام رحبہ، قصرا مارة ، آل بعدہ بن ہبیرہ المضزوص کے گھروںمیں، عبد اللہ ابن یزید القسری میں مسجد کے بابِ ورّاقین کی جانب ، مقام کنّاتہ اور مقام ثویة میں مختلف قبور بنوائی۔ ا س طرح لوگوں کے سامنے اصل قبر پوشیدہ ہوگئی اور حقیقت دفن کے بارے میں صرف ان کی اولاد اور مخلص اصحاب کے سواء کسی کو معلوم ہی نہیں تھا۔ اور انہوں نے رات کی تاریکی میں اکیس رمضان المبارک کی رات کو لے جاکر نجف میں دفن کیا جو غرّی میں مشہور مقام ہے اور ان کی وصیت کے مطابق کیا گیا اور قبر کو لوگوں سے پوشیدہ رکھا گیا ۔ اور اسی صبح میں مختلف آراء پیدا ہونے لگیں اور قبر شریف کے بارے میں مختلف باتیں نکلنے اور پھیلنے لگیں۔ اس روایت سے میں جو بات بتانا چاہ رہا تھا کہ آپ کو اپنے وصیت کے مطابق غرّی کے مقام نجف میں دفن کیا گیا۔ اور یہ یقین اور واقع کے زیادہ ہے کہ امام کے آخری رسوم میں صرف حسین اور ان کے اہل بیت ہی نہیں تھے بلکہ آپ کے منتخب اصحاب کی پوری ایک جماعت تھی۔

اس بات کی تائید ہمیں علامہ مجلسی کی اس رائے سے بھی ملتی ہے کہ انہوں نے ایک ایسی روایت قدیم اور جدید کتابوںمیں دیکھی جو آپ کی شہادت کی کیفیت کے حوالے سے ہے وہ لکھتے ہیں!جب امیر المومنین کو لحد میں اتارا جارہا تھا تو صحصہ بن صوحان العبدی کھڑے ہوئے جو امام کے خاص اصحاب میں سے تھے اور حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات میں اسلام قبول کیا تھالیکن انہوں نے حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا نہیں تھا اور معاویہ کی خلافت میں وفات پائے ۔ کہا جاتا ہے اور چند کلمات پر مشتمل ایک مرتبہ پڑھا جو ہم بیان کر دیتے ہیں اے ابا الحسن تجھے مبارک ہو آپ کی جائے ولادت پاکیزہ تھی اور آپ کا صبر مضبوط و قوی تھا۔ اور آپ نے عظیم جہاد انجام دیا اور آپ اپنے رائے میں کامیاب ہوئے ۔ آپ کی تجارت نفع آور ہوئی ، آپ اپنے خالق کی جانب چل بسے اور اس نے بھی آپ کو ملاقات کی بشارت اور اسکے ملائکہ آپ کے اردگرد اترے ہوئے ہیں۔ آپ نے جوار مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ثابت قدمی دکھائی۔ اللہ آپ کو آخرت میں ان کی قربت سے نوازے ۔ آپ نے اپنے بھائی مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درجہ کو پالیا اور ان کے دست واسعہ سے سیراب ہوجائے ۔ بس اللہ تعالیٰ سے میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اوپر یہ احسان کرے کہ ہم آپ کی اتباع کرتے رہیں اور آپ کی سیرت پر چلتے رہیں اور آپ کے دوستوں سے محبت اور دشمنوں سے دشمنی کرتے رہیں اور آپ کے ماننے والوںکے ساتھ محشور فرمادے پس آپ نے وہ کامیابی حاصل کی جو آج تک کسی کو حاصل نہیں ہوئی پھر وہ زارو قطار رونے لگا اور جو ان کے ساتھ تھے سب کو رُلایا پھر تمام لوگ حسن ،حسین ، محمد ، جعفر ، عباس، یحیٰ، عون اور عبد اللہ٪ کی طرف گئے اور انہیں ان کے بابا کے وصال پر تعزیت پیش کی۔ اس کے بعد تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور اولاد امیر المومنین اور ان کے ماننے والے کوفہ کی جانب واپس آئے۔اور لوگوں کو اس چیز کا احساس بھی نہیں ہوالیکن جب صبح ہوئی سورج طلوع ہوا امیر المومنین کیسے ایک تابوت نکالا گیا اور کوفہ کے کنارے مصلّی پر لایا گیا پھر امام حسن آگے بڑھے اور نماز جنازہ پڑھائی اور ایک اونٹ پر رکھ کر لے جایا گیا۔

اب اگر یہ روایت صحیح ہو تو میرے خیال میں حقیقت واقع سے یہ زیادہ قریب ہے کیونکہ امام کی تشیح جنازہ میںشرکت کرنے والے اتنی قلیل تعداد میں بھی نہیں تھے۔

مجلسی کی یہ روایت تمام ان روایات سے میری نظر میں زیادہ قرین و قیاس اور صحیح لگتی ہے جو روضہ مقدس کو پوشیدہ رکھنے میں بیان ہوئی ہے ، جب یہ مختلف گڑھے مختلف جگہوں میںکھد وائے گئے۔ مثلاً ثویّة، کنّاسة، مسجد، رحبہ، بعدمیں ہبیرہ کا مکان وغیرہ اور اس کے تابوت تیار کیا جانا اور اسے اونٹ پر رکھنا اوراس سے کافور کی خوشبو پھیلنا اور امام علی کے خاص اصحاب کے ہمراہ مدینہ منوّرہ کی جانب روانہ ہونا تاکہ قبر فاطمہ کے جوار میں دفن کیا جائے اور اسی طرح کی دوسری خبر کہ خچر پر رکھ کر رحبہ میں دفن کرنے کے لئے لے جایا گیا۔ یہ تمام باتیں قابل غور ہیں اور یہ بناوٹی اور جھوٹی خبریں پھیلانے کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ ایسی باتیں کبھی کبھار باعث خلط ملط اور اعتراض ہے۔اور متوفی بھی کی معمولی شخصیت نہیں ہے کہ لوگ اس حوالے سے شور شرابہ نہ کریںاور یہ ایسی بات ہے جس سے امامکاخاندان ڈرتا بھی نہیں تھا۔

پس ضروری ہے کوئی ایسی راہ ہو جو شبہ اور بناوٹ پر مبنی نہ ہو وہ یہ ہے کہ اہل بیت اور ان کے ماننے والے مرقد شریف کی جگہ کی جانب رات تاریکی میں جب تمام لوگ سوگئے چل پڑے اور امام علی کو دفن کیا پھر اپنے گھر واپس آئے۔پھر انہوں نے ایک تابوت برآمد کیا جس پر امام حسن اور اہل بیت اور کوفہ والوں نے نماز پڑھائی اور اسے وداع کرنے کے بعد تابوت کو ایک اونٹ پر رکھا گیا اور ان کے کچھ خاص لوگ اسے لے کر مدینہ کی جانب چل پڑے۔ اس طرح کی پہلو تو باعث شک و اشکال ہے اور نہ ہی خلط ملط ہے اور دوسری بات تابوت امام دولت سرا سے برآمد ہوا اور مسجد رکھا گیا اور ان کے بیٹے اور اصحاب نے نماز پڑھی اور تشبیع اور آخری رسومات میں اہل کوفہ نے بھی شرکت کی اس کے بعد لوگ پھر اپنے دوسرے کاموں میں مشغول ہوئے۔ تیسری بات ان کے قاتل سے قصاص لینا ہے۔ چوتھی بات امام حسن کی بیعت اور اس سے متعلق اہل کوفہ کی باتیں۔ پانچویں بات امیر معاویہ سے جنگ کی تیاری اس کے پے درپے واقعات رونما ہوئے ہیں اسی طرح مرقدِ امام علی کے بارے میں بھی قیل قال ابتداء سے شروع ہوا تھا۔

جتنی بھی باتیں گزرچکی یہ حقیقت کو آشکار کرنے میں زیادہ معاون ہوسکتی ہیں۔ اور مرقد شریف کے موضع کو مشکوک بنائے جانے کی جتنی چاہے روایات مل سکتی ہیںاس لیے امام کے دشمن نے دشمنی میں اور آپ کے دوست نے پوشیدہ رکھنے کی غرض سے بہت ساری روایتوں کو رواج دیا تھا اور انہیں پھیلانے کی کوشش کی، لیکن امام کی قدر اور مرقد شریف کی روشنی ان کی تمام کوششوں پر غالب آگئے۔ اور ان کی بری نیت کو خاک میں ملادیا۔ شروع سے لے کر آج تک جو بھی کوششیں اسے ختم کرنے کی غرض ہوئی ۔ ان تمام کے باوجود آپ کا روضہ بلند و نمایاں دنیا کے چوتھے مقدسات میں شامل ہے جس کی دنیا کے کونے کونے سے مسلمان زیارت کے لئے جوق در جوق آتے رہتے ہیں۔

اب ہم دوسری چیزوں کو آنے والے مباحث میں بیان کریں گے جو ان باقی رکاوٹوں کو اٹھائے گی جو بعض روایات کی وجہ سے مرقد شریف کی موضع کے بارے میں ہیں اور ان ادہام کو بھی ختم کرنے کی کوشش کریں گے جو بعض ذہنوں میں موجزن ہیں اور شک کرنے والوں کی دلیل کا بھی بھر پور جواب دیں گے۔