ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) 0%

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر صلاح مہدی الفرطوسی
زمرہ جات: مشاہدے: 20381
ڈاؤنلوڈ: 3115

تبصرے:

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20381 / ڈاؤنلوڈ: 3115
سائز سائز سائز
ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حدودِ صحن سے قریب عمارتیں

صحن شریف کے حدود کے قریب چند عمارتیں واقع تھیں ۔ان میں سے بعض ۲۰ویں صدی میں صحن کے احاطے کی سڑک کی توسیع کی وجہ ڈھائے گئے اور بعض کے کچھ حصے ڈھائے گئے جبکہ دوسرے ویسے ہی موجود ہیں۔ لیکن بعض کی نشانیاں روضہ مقدس کی مسلسل اصلاحات کی وجہ سے تبدیل ہوئی ہیں اور جو عمارتیں تھیں وہ یہ ہیں:

مسجد عمران

اس کی تاریخ کی بات گزر چکی یہ صحن شریف کی سب سے پرانی مسجد ہے بلکہ یہ نجف اشرف کی سب سے پرانی مسجدہے۔ اور اس کے ایوان علماء میں ۱۳۳۴ھ /۱۹۱۶ ء میں سیّد محمد کاظم یزدی دفن ہوئے یہ ۲۰ ویں صدی کے ایک بزرگ شیعہ عالم تھے۔ اس مسجد میں بعض علماءے کرام نماز جماعت بھی پڑھاتے تھے۔ سیّد عبد المطلب الخرسانی نے اپنی متاب میں بیان کیا ہے:'' ہمیں معلوم ہے کہ مرجع دینی آیة اللہ العظمیٰ سیّد محسن طباطبائی یہاںموسم سرما میں نماز مغربین کی جماعت پڑھا کرتے تھے اور جب مسجد راس کی تعمیر ہورہی تھی تو یہاں اپنا درس بھی دیا کرتے تھے۔ ''

اس مسجد کے شمال مغرب کا ایک بڑا حصہ صحن شریف کے ساتھ ملا ہوا ہے اس کا ایک دروازہ رواق باب طوسی کے مغرب کی جانب کھلتا ہے جبکہ دوسرا دروازہ ایوان شمال کی طرف ہے اور جب سے عتبہ علویہ کے مرافق کو ڈھا کر وہاں اب نئی تعمیر نظر آتی ہے اور یہ پچھلے دس دہائیوں تک پانی کی ٹنکی کے لئے استعمال کیا گیا ۔ اس حوالے سے علاء حیدر المرعبی نے اپنے مقالے میں جو مجلہ الولایہ میں چھپا ہے لکھا ہے مسجد کی بنیاد میں پانی جانے کی وجہ سے نقصان ہو رہا تھا اس لئے اس کے پرانے ستون کی بنیادوں پر سیمنٹ کے مضبوط کنکریٹ لگائی گئی تاکہ مسجد کی بنیاد مضبوط ہو اور اس کے علاوہ مسجد کی بنیاد کے دوسرے اطراف میں کنکریٹ کی ڈی پی سی لگاکر مضبوط کیا گیا۔

اور یہ اصلاحات تا حال جاری ہے علاء حیدر المرعبی کے مطابق کہ انہوں نے عتبہ علویّہ کے شعبہ تعمیرات کے ڈائر یکٹر انجینئر مظفر محبوبہ سے نقل کرتے ہیں اس مسجد کو اپنی اصلی حالت میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ جسے راقم نے خود ۲۵-۱۲-۲۰۰۸کو جاکر دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ اس کی وجہ سے بڑی اصلاحات ہوئی ہیں اور میں نے وہاں سے سمجھا کہ مسجد کے اندر سے سیمنٹ کے پلاسٹر کرکے پرانے شکل اسی طرح رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور صحن شریف کے اور بیرونی حجروں کے درمیان جو دیواریں تھی انہیں گرایا گیا ہے اس طرح اندرونی وسعت بھی ہوئی اور ایوانوں کی بیرونی شکل بھی پرانی حالت میں باقی رہے لیکن جس طرف لکڑی کاکام ہورہا تھا وہ اپنی حالت میں باقی رہے گا یا اس کے اوپر ساگوان کی لکڑی کا ہلکا سا غلاف چڑھایا جائے گا اس طرح قدیم نقوش بھی باقی رہے گا۔

مسجد الخضرة

یہ روضہ کی ان قدیم مساجد میں شامل ہیں جس کی تاریخ تعمیر بھی معلوم نہیں ہے یہ صحن شریف کی شمال مشرق کی ابتداء میں باب مسلم ابن عقیل کے قریب واقع ہے اور یہیں سے اس طرف ایک دروازہ بھی کھلتا ہے جبکہ دوسرا دروازہ صحن شریف کے ایوان ثانی کے مشرق کی جانب ہے ۔ ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق یہ ''مسجد مستطیل شکل میں ہے اور اس کا طول عرض سے دُگنا ہے اس کے درمیان میں ایک بڑا صحن ہے جس کے تین اطراف رواق پر مشتمل ہے لیکن قبلہ کی جانب والا رواق دو ایوان پر مشتمل ہے اس مسجد کی مشرق کی سمت کی دیوار کی لمبائی ساڑھے دو میٹر ہیں۔ رواق قبلہ اور صحن مسجد کے درمیان تین خوبصورت کاشانی طرز کی تین گنبد ہیں اور ایک کاشانی ٹائل پر مسجد کی تاریخ تجدید لکھی ہوئی ہے۔''

محمد الکوفی نے اپنی کتاب ''نز ہة الغری ''میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ترکھان علی بن مظفر نے اسے ایک نذر کی استجابت کی وجہ سے بنائی تھی کیونکہ اس کا کوئی مال گُم ہوا تھا لہٰذا اس نے یہ نذر کی تھی کہ ''اگر میرا یہ مال مجھے مل جائے تو میں اپنے مال میں سے یہ مجلس بناوں گا ''اب یہاں روایت میں لفظ مجلس آیا ہے اور اس سے مسجد مراد نہیں ہے لیکن ہوسکتا ہے یہاں لفظ مجلس مسجد ہی سے تحریف شدہ ہے کیونکہ روایت میں لفظ مجلس سے سیاق سباق سے کوئی معنی نہیں بنتا ہے لیکن پھر بھی ہم مراد تک نہیںپہنچتے کیونکہ اس سے تعین مکان نہیں ہوتا یعنی مسجد الخضرة کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے اسی طرح روایت کا دوسرا حصہ بھی مبہم ہے کہ ''اس نے امیر المومنینـکو خواب میں دیکھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر باب وراع البرانی تک لے گئے اور اس مجلس کی طرف اشارہ کیا اتنے میں امام نے فرمایا:'' یُوفُونَ بِالنّذر'' تو میں نے فوراً کہا:'' حُبّا و کَرامةً یا امیرالمومنین'' ۔پھر وہ داخل ہوا اور کام کرنا شروع کیا۔

لیکن سیّد عبد المطلب الخرسان نے حسین شاکری کی کتاب ''کشکول ''سے نقل کی ہے کہ یہ مسجد عمران بن شاہین کی بہن ''خضراء ''نے بنوائی تھی ۔مگر سیّد عبد المطلب اس بات کو بعید گردانتے ہیں کیونکہ شاکری نے اس معلومات کا ماخذ بیان نہیں کیا ہے کیونکہ اس مسجد کا نام خضرہ ہے اور لفظ خضراء اس صدی کے لوگوں کیلئے جدید ہے۔بہر حال شاکری کی یہ رائے خوبصورت ہے اگر ہمیں خواہر عمران کی حالات زندگی معلوم ہوجائے یا کوئی ماخذ اس بات کی تائید کرے کیونکہ میرے خیال میں دراصل خضراء ہی نام تھا پھر الف ممددہ ہا ء میں تبدیل ہوا ہے ایسا عام طور پر عامةالناس تسہیل کی خاطر کرتے ہیں جعفر محبوبہ کے مطابق یہ اسم خضرہ ہے اسی وجہ سے مسجد کا نام خضرہ ہوا ہے یہ ان کا اجتہاد ہے لیکن اس کی تائید ہمیں کہیں سے نہیں ملتی ہے۔

شیخ محمد حرزالدین نے اپنی کتاب میں شیخ جعفر الشوشتری متوفی ۱۳۰۳ھ/۱۸۸۵ ء کی حالات زندگی میں مسجد کی وجہ تسمیہ کو بیان کیا ہے کہ ''ملالی کے زمانے میں ایک ہندی درویش نے اس مسجد سے متصل صحن میں سبزہ لگایا تھا بعد میں اسی مناسبت سے یہ مسجد الخضرہ سے مشہور ہوا۔ ''اس کی تائید سیّد عبد المطلب الخرسان کی بات سے ہوتی ہے جسے انہوںنے اپنی کتاب میں بیان کی ہے ''یہ مسجد دسویں صدی میں موجود تھی کیونکہ اس زمانے میں خاندان ملّالی کے جدّ اعلیٰ ملّا عبد اللہ صاحب ''حاشیة المنطق''شاہ عباس صفوی الاوّل متوفی ۱۰۳۷ھ / ۱۶۲۸ ء کی جانب سے حرم علوی کے خازن تھے۔''

لیکن خضرہ کے معنی یہاں واضح نہیں ہوا شاید یہ وجہ بھی ہوکہ مذکورہ درویش نے خاص طور سے اس مسجد کیلئے سبز رنگ کا کاشانی غلاف بنایا تھا اور اس مسجد کی ۱۳۵۲ھ / ۱۹۳۴ ء میں وزارت اوقاف نے تعمیر نو کی پھر یونین کونسل نے صحن سے ملحق سڑک کی تعمیر کی خاطر اس کا تیسرا حصہ ڈھایا اور ترمیم کے بعد سڑک کی جانب ایک دروازہ نکالا ۱۳۸۴ھ / ۱۹۶۴ ء میں مرجع دینی آیة اللہ العظمیٰ سیّد ابوالقاسم الخوئی کے حکم سے مسجد الخضرہ اور اس کے اطراف کی دوبارہ وسعت کے ساتھ شاندار انداز میں تعمیر نو ہوئی۔ یہ عمارت نجف کی مساجد میں سب سے بڑی عمارت شمار ہوتی تھی جس پر اس زمانے میں پچّیس ہزار دینار عراقی خرچ ہوا تھا اور حدودِ صحن کے مشرقی جانب ایک دروازہ نکالاگیا اور سیّد الخوئی خود یہاں درس دیتے تھے ۔ سیّد عبد المطلب الخراسان کے مطابق سیّد الخوئی اپنی ناسازی طبیعت کی وجہ سے اپنے داماد سیّد نصر اللہ المستنبط کو یہاں درس و تدریس اور اقامت جماعت کیلئے نائب قرار دیا تھا لیکن ان کے انتقال کے بعد یہ نیابت سیّد علی حسینی السیستانی کو تفویض کی جو چند سال جاری رہی پھر وزارت اوقاف نے ترمیم و تعمیر نو کے بہانے بند کروادی لیکن بروز پیر ۲۵-۰۵-۲۰۰۶کو سیّد السیستانی کے حکم سے دوبارہ کھولا گیا۔ سیّد الخوئی کا مقبرہ بھی اسی مسجد میں صحن شریف کی طرف ایک ایوان میں موجود ہے۔

مدرسة الغروریة ''حسینیة آل زینی''

یہ حدود سے ملحق عمارت ہے اور مشہور ہے کہ اسے نجف کے ایک سرمایہ دار سیّد ہاشم زینی نے بنوایا تھا۔ اور اس کے دائیں جانب شمالی حدود میں باب طوسی واقع ہے اسی میں یا اس کے قریب باب طوسی میں مجدّد شیرازی کے مقبرہ اور درس کی جگہ بھی ہے۔ اس حسینیہ کے اندر جانے کے لئے شمالِ مشرق کے زاویئے ایوان سوم میں ایک ہی دروازہ واقع ہے۔ سیّد عبد المطلب الخرسان کے مطابق اس عمارت کی پہلی منزل میں دو بڑے مستطیل شکل متوازی کمرے ہیں جن کے درمیان مربع شکل کھلا دالان موجود ہے اور اس تالان کے مغربی جانب وضو خانہ ہے ۔ جبکہ اس کی دوسری منزل میں پہلی منزل کے دو حجروں کے اوپر دو کمرے ہیں ۔ اور ان دونوں کمروں کے سطح میں دونوں منزلوں کے درمیان مستطیل الشّکل میں ایک ایوان ہے ''کتا ب الصّحیفہ ''میں یہ بھی موجود ہے کہ یہاں آب باراں اور وضو کیلئے پانی کے واسطے ایک بڑا کنواں موجود تھا۔اکتوبر ۲۰۰۵ ء کو اس حسینیہ کی عمارت کو تعمیر نو کی خاطر ڈھایا گیا اور صحن کے شمالی حدود میں مشرق کی جانب ایک نیا دروازہ نکالاگیا، اس کی تعمیر نئے طرز میں بڑے آب و تاب سے جاری ہے اس میں ان دیواروں کو بھی ڈھایا گیا جو صحن کے حجروں اور اس عمارت کے درمیان تھیں اس کے ساتھ اسماعیلی بادشاہوں کی قبروں کو بھی گرایا گیا لیکن ان قبور کے نشانات اور بیرونی شکلوں کو محفوظ رکھا گیا۔

کتب خانہ ِروضہ حیدریہ

یہ حدود صحن کے شمال مغرب میں واقع ہے یعنی مسجد عمران کے مغرب کی جانب اس کا ایک دروازہ بیرونی حدود سے ہے جبکہ دوسرا دروازہ صحن سے نکالاگیا ہے اس لائبریری کے اندر لاکھوں کی تعداد میں مطبوعہ اور مخطوطہ کتب موجود ہیں اس کے اندر خاص گوشہ ہے جہاں پر ہر زمانہ میں سیرت امیر المومنینـاور نہج البلاغہ اور اس کی شروح کی کتابیں ہیں اور اسی میں شعبہ تحقیق و نشرو اشاعت بھی ہے یہاں پر اہل مطالعہ اور محققین کیلئے بہت سارے کمپیوٹر اور ہزاروں سی ڈیز اور کھلے ریڈنگ رومز ہیں۔ بے شمار لوگوں نے اپنی پوری پوری لائبریریاں اٹھاکر اس عظیم کتب خانہ کیلئے وقف کی ہیں یہاں یہ کتابیں ان کے نام کے ساتھ محفوظ ہے وہ تمام کتب مخطوطہ بھی یہاں منتقل کی گئی ہیں جو اس سے قبل صحن سے ملحق ایک بڑے کمرے میں رکھی ہوئی تھیں۔ یہ کتب خانہ آج کل عراق کے بڑے کتب خانوں میں شمار ہوتا ہے۔

دارا لشفاء

شیخ محمدحسین حرز الدین کے مطابق یہ عمارت شاہ صفی کے حکم سے اس وقت بنایا گیا جب انہوں نے ۱۰۴۲ھ / ۱۶۳۲ ء میں نجف کی زیارت کی تھی اور یہ صحن شریف کے حدود کے جنوب مشرق میں واقع ہے بعد ازاں اسے گرایا گیا اور اس جگہ ایک مدرسہ بنایاگیا پھر حرم شریف سے ملحق سڑک کی توسیع کی وجہ سے اسے گرایا گیا۔

مسجد راس

سیّد عبد المطلب نے اپنی کتاب ''مساجد و معالم ''میں بیان کیا ہے کہ یہ مسجد عمارت صحن حیدری کے مغربی زاویئے سے ملی ہوئی ہے اور قدیم مساجد میں شمار ہوتی ہے۔ اس حوالے سے شیخ جعفر محبوبہ لکھتے ہیں کہ اس کے دیواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حرم علوی کے ساتھ بنی تھی اور بُراقی نے اس کی نسبت شاہ عباس اوّل ۱۰۳۸ھ /۱۶۲۹ ء کی طرف دی ہے۔

اسی مسجد میں مشہور مرجع آیت اللہ نائینی نماز جماعت پڑھا تے تھے ان کے بعد سیّد جمال الدین ہاشمی امام جماعت مقرر ہوئے۔ آیت اللہ محسن الحکیم طبا طبائی یہاں اپنے طلباء کو درس دیتے تھے۔ اس مسجد کا مذکورہ نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ کیونکہ امام کے بالائے سر کی طرف واقع ہے یا یہ کہ سرِ مبارک امام حسینـیہیں پر دفن ہے جیسا کہ اس بارے میں امام صادقـسے روایت بھی ہے۔

ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق اس مسجد کی تعمیر ایلخانیوں کے زمانے میں ہوئی تھی جیسا کہ اس کے قدیم محراب سے ظاہر ہے پھر شاہ عباس اوّل کے زمانے میں اس کی تعمیر نو ہوئی بعد ازاں سلطان نادرشاہ کے زمانے میں اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی جب انہوںنے روضہ کے گنبد اور دونوں میناروں پر سونا چڑھانے کا حکم دیا تھا۔ جس کی تعمیراتی اخراجات کل بیس ہزار نادری ہوا تھا جسے نادرشاہ کی زوجہ رضیہ سلطان بیگم نے ادا کی تھی پھر دوبارہ سلطان عبد الحمید کے زمانے میں اس میں ترمیم ہوئی سنگ مرمر کا منبر بنایا گیا اور تاریخ ترمیم لکھا گیا جو کہ یہ ہے ۱۳۰۶ھ بمطابق۱۸۸۸ء ۔ لیکن شیخ محمد حسین حرز الدین کے مطابق یہ مسجد غازان بن ہلاکو متوفی ۷۳۰ھ بمطابق ۱۳۳۰ ء نے بنوائی تھی اس بات کی تائید ابن بطوطہ کے بیان سے بھی ہوتی ہے جب وہ ۷۲۶ھ/۱۳۲۷ ء میں نجف آیاتھا وہ لکھتے ہیں:

''روضہ کیلئے ایک دروازہ اور ہے جس کا چوکھٹ چاندی کا ہے جو ایک مسجدکی طرف کھلتا ہے جس کے چار دروازے ہیں جن کے چوکھٹ بھی چاندی کے بنے ہوئے ہیں۔''

بعض یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ مذکورہ مسجد عمران سے منسوب ہے لیکن یہ قبول کرنا مشکل ہے کیونکہ روایت میں اس نسبت میں لفظ رواق آیا ہے اور اس سے مراد احاطہ ہے نہ مسجد۔

شیخ محمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سیّد داود الرّفیعی نے مرزا ہادی کیلئے اپنے آباء سے ایک روایت بیان کی تھی کہ مذکورہ مسجد دراصل ایک چھوٹا مربع شکل کا ایوان ہے جو قبلے کی جانب دیوار میں محراب اور ساباط کے درمیان ہے یہاں ایک قبر بھی ہے اس کے لئے ایک فولاد کی قیمتی کھڑکی ہے اور اس کیلئے ایک چھوٹا دروازہ بھی ہے جس پر تالا لگا ہوا ہے ''روایات کے مطابق یہ قبر سر مبارک حسین ابن علی ابن ابی طالب کی جگہ ہے اس ایوان میں سبز رنگ کے پردے لگے ہوئے ہیں اس کے ایک جانب ایک چوکور پتھر جس پر خط کوفی میں کچھ لکھا ہوا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے یہ جو ''مسجد رأس ''کے نام سے مشہور ہے اسے غازان بن ہلاکو خان نے پورے ایک سال میں تعمیر کروایا تھا اس دوران وہ نجف اور ثویّہ میں واقع مسجد الحنانہ کے درمیان خیمہ لگاکر بیٹھا رہا۔

شیخ محمد یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس قبر کی زیارت کے لئے ہند سے اسماعیلی آتے تھے بعد میں زائرین کی کثرت کی وجہ سے وزارت اوقاف عثمانیہ نے مقام تکیہ البکتا شیہ کی طرف سے ایک دروازہ نکالا اور پہلا والا دروازہ بند کردیاپھر بعد میں آنے والوں نے اس دروازے کو بھی بند کروادیا اس طرح یہ مسجد عراق میں عربی حکومت کی تشکیل تک کافی سالوں تک بند رہی۔

موصوف فرماتے ہیں ''اس دور میں یہ قبور دوبارہ دریافت ہوئی اور ۹۳۲ھ / ۱۳۵۱ ء میں ان کی دوبارہ تعمیر ہوئی اس مسجد میں پہلی بار اس سال۲۳ذی الحجہ کو داخلہ ہوا ہم نے جب اس قبر کی علامت کو دیکھا تو یہاں قبلے کی جانب دیوار پر ایک پتھر کے سوا کچھ نہیں تھا جس کی لمبائی ایک ہاتھ سے لمبا جبکہ اس کا عرض ایک ہاتھ تھا اور اس پر گولائی میں قرآن کریم کی یہ آیت لکھی ہوئی تھی:( اٰمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَبِّه ) اور اس کے درمیان تقریباً ایک سطر خط کوفی میں لکھا ہوا تھا۔ مسجد کا رقبہ ساباط سے دو ہاتھ بلند ہے اور یہ اصلی سطح زمین ہے آج کل صحن شریف کے ٹائلیں اس سے چار ہاتھ بلند ہے ۔ سیّد عبد المطلب الخرسان کے مطابق ''پتھر جس پر کوفی میں لکھا ہوا ہے اور ایک دوسرا پتھر جو محرابی شکل میں مسجد کے محراب میں نصب ہے شیخ حرز الدین کہتے ہیں ان دونوں پتھروں کے آثار بہت اہم ہیں ۱۹۶۵ ء میں آثار قدیمہ کاایک وفد جدید کیمرے کے ساتھ بعض تاریخی آثار کی تصویر لینے کیلئے آئے تھے تو انہوں نے مجھ سے ان دونوں پتھروں کے بارے میں پوچھا تو میں نے انہیں دکھایا، میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ آثار قدیمہ کے ادارے نے ۱۹۳۷ ء میں ان دونوں پتھروں کی تصویر لی تھی کیونکہ یہ مشہور پتھر چینی لوہے کے ہیں اور یہ منفرد قسم کے ہیں جو کہ رنگدار ہیں چینی لوہا عام طور سے سیّاہ ہوتا ہے اور جب مسجد کو گرایا گیا تو یہ پتھر الماری میں رکھ دیاگیا تاکہ زنگ لگنے سے محفوظ رہے۔''

شیخ جعفر محبوبہ سے منقول ہے کہ مسجد راس علّامہ سیّد بحر العلوم کے زمانے میں دوبارہ تعمیر کی گئی اور وہ اپنے بعض خاص افراد سے فرماتے تھے کیونکہ یہ سر مبارک امام حسین کی جگہ ہے اس لئے یہاں مسجد بنائی گئی ہے۔ اور اس مسجد کے لئے حدود صحن کے باہر مغرب کی جانب سے ایک دروازہ نکالا گیا جب راقم نے اپنی زیارت کے دوران اس کی نئی عمارت کو دیکھا جو ابھی تک مکمل نہیں ہوئی ہے میں نے دیکھا کہ وہاں آثار قدیمہ کی انتہائی نگہداشت کے ساتھ تعمیر و ترمیم جاری ہے ۔ مذکورہ مسجد سے ملحق ساباط جو مغربی رواق کے جانب واقع ہے اس کی بھی تعمیر جاری ہے۔

تکیہ بکتا شیہ

یہاں تکیہ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں عام طور پر لوگ عبادت کیلئے اپنے آپ کو جدا کرتے ہیں اور یہ نام عہد عثمانی سے شروع ہوا ہے ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق بکتاشیہ دراصل ایک ترک صوفی فرقہ ہے جو سیّد محمد بن ابراہیم آتا ہے جو حاجی بکتاش کے نام سے مشہور تھا یہ شیخ حمد ایسوی کا ماننے والاایک ترک ولی تھا ان کا سال وفات ۷۳۸ھ / ۱۳۳۸ ء ہے ۔ یہ تکیہ حدود صحن کے شمال مغرب میں واقع ہے ۔ سیّد عبد المطلب نے اپنی کتاب ''مساجد و معالم ''میں لکھا ہے ''یہ پرانی عمارت مسجد بالائے سر کے شمال صحن شریف کے مغربی زاویئے سے ملی ہوئی ہے اس کے تین دروازے ہیں ان میں سے ایک ساباط کے نیچے ایوان میں واقع ہے دوسرا دروازہ شمالی ساباط کے دوسرے ایوان میں ہے جبکہ تیسرا دروازہ صحن حیدری سے ملحق سڑک مغرب میں واقع ہے۔''

لیکن سیّد محسن الامین نے اپنی کتاب ''اعیان الشیعہ ''میں لکھا ہے کہ یہ دراصل عضد الدولہ کا مقبرہ تھا جیسا کہ اس سے پہلے بیان ہوچکا کہ ''عضد الدّولہ نے اپنے لئے نجف میں مشہد علی کے جوار میں مغرب کی جانب سے ایک بڑا گنبد بنوایا تھا اور پھر یہ وصیت کی تھی اسے یہیں پر دفنا یا جائے اور بعد ان کے وصیت کے مطابق انہیں یہیں پر دفن کیا گیا۔ بعد میں شہزادہ سلیمان عثمانی ۹۳۰ھ /۱۵۳۳ ء کو جب عراق میں داخل ہوا تو اسے گرا دیا گیا اور اسے بکتاشی فرقہ کے تکیہ یعنی عبادت خانہ قرار دیا گیاجو آج تک باقی ہے اس کا دروازہ صحن شریف کے مغرب میں واقع ہے بعض کا خیال ہے یہ کام شہزادہ سلیم نے انجام دیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے بیٹے سلیمان نے یہ دروازہ نکالاتھا بعد میں سلیم سے ان کی شہرت کی وجہ سے منسوب ہوا۔''

یہ بات تھوڑی بہت غورو فکر کرنے سے غلط ثابت ہو جاتی ہے کیونکہ رواق میں عضد الدّولہ دفن ہے جسے ہم بعد میں بیان کریں گے جس کی طرف ڈاکٹر سعاد نے اشارہ نہیں کیا ہے۔

انہوںنے ا س بات کو ترجیح دی ہے کہ یہ تکیہ آٹھویں صدی ہجری میں حاجی بکتاش کی زندگی میں بنا تھا جہاں نجف اشرف میں وہ ایک مدت تک اعتکاف کرتے تھے اس جگہ کو عثمانیوں نے خاص عنایت بخشی ہے اس لئے کہ وہ نجف میں جب بھی آتے تھے یہیں پر ٹھہرتے تھے۔ یہ مقام دو حصوں پر مشتمل تھا ایک حصہ نماز و دروس کیلئے مختص تھی جو چار چوکور ایوانوں پر مشتمل تھی اور درمیان میں ایک چھوٹا صحن تھا جبکہ دوسرا حصہ رہائش کے لئے تھا یہ چوکور تھی اور دو منزلوں پر مشتمل تھی جہاں کمرے اور اس کے لوازمات مرافق وغیرہ تھے۔

اس حوالے سے شاید سیّد عبد المنعم الخرسان کا بیان زیادہ دقیق ہے وہ کہتے ہیں ''اس کے شمال میں ایک بڑا مستطیل کمرہ ہے جو ایک ہال جیسا ہے اس کے بالکل روبرو جنوب میں ایک مستطیل شکل کا کمرہ اور ہے ان دو کمروں کے درمیان ایک کھلا دالان ہے اس کے سطح کے برابر مغرب میں ملے ہوئے دو کمرے ہیں ان تمام کمروں کے چھت بلند ہے ''وہ مزید آگے لکھتے ہیں ''یہ کمرے روضہ حیدریہ مقدسہ کے اسٹور کے طور پر استعمال ہوتے تھے جہاں پر قالین ، فانوس اور پرانے چاندی کے دروازے رکھے ہوئے تھے۔ ۱۹۸۵ ء بمطابق ۱۴۰۵ھ میں ادارئہ اوقاف نے اسے گراکر اس جگہ مہمان خانہ بنوایا ''۔موصوف اپنی کتاب الصحیفہ میں بیان کرتے ہیں کہ مقام تکیہ کے جنوب کے ایک حصے میں دو کنویں بھی تھے جس کا قُطر شیخ محمد حرز الدین کے مطابق دو میٹر سے زیادہ تھا اس کے برابر میں آب باراں کے لئے ایک ٹینکی ہے جو صحن کے سطح پر واقع ہے اور کنویں سے اس میں پانی بھرا جاتا تھا تاکہ حرم کا فرش دھویا جائے لیکن اب اسے ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے گرا دیا گیا ہے۔

شیخ محبوبہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بعض کا گمان ہے کہ یہ مقام تکیہ روضہ مقدسہ کی کتابوں کا اسٹور ہے۔ اب مزید کثرت زوّار کی وجہ سے توسیع نو ہوئی ہے تو تکیہ کا ایک حصہ بھی اس میں داخل ہوا ہے لیکن باقی حصے مہمان خانہ بنیں ہیں۔

دارِضیافت

سیّد عبد المطلب الخرسان کے مطابق دارِ ضیافت دراصل تکیہ بکتاشیہ ہی تھا ۱۹۸۵ ء میں ادارہ اوقاف نے اس کو گراکر اس کی جگہ دارِ ضیافت بنایا۔ اور اس کی جدید توسیع میں تکیہ کا ایک بڑا حصہ شامل کیا گیا یہ ایک مربع شکل ہال کے ساتھ متصل باورچی خانہ اور اس کے لوازمات پر مشتمل ہے جبکہ اس کی دوسری منزل میں عتبہ علویّہ کے مہمانوں کے لئے ایک بڑا کمرہ ہے اور ایسا ہی دوسرا کمرہ امانتیں رکھنے کیلئے مختص ہے اس میں داخل ہونے کے دو راستے ہیں۔ ایک شمالی ساباط کی جانب متصل ایوان سے ہے جبکہ دوسرا مغربی صحن کے حدود سے ہے اور اس کے ہال میں بعض مناسبات میں پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ راقم نے بھی یہاں امیر المومنین کی زیارت کے دوران بروز بدھ کی شام ۱۷نومبر ۲۰۰۸ ء کو روضہ و مرقد امام علی بن ابی طالب کے حوالے سے ایک لیکچر دیا تھا۔ صحن کے مغربی جانب حدود سے باہر زائرین کے لئے ایک اور مہمان خانہ بھی بنایا گیا ہے جیسا کہ اشارہ کیا گیا۔

سَاباط

سیّد عبد المطلب الخرسان کے مطابق ساباط یا طاق ''صحن حیدری'' کا وہ مغربی حصہ ہے جس کے مشرقی جانب رواق ہے جبکہ اس کے مغربی سمت میں تکیہ بکتاشی اور مسجد بالائے سر ہے جو ایک ہی جیسا آٹھ قوسوں پر مشتمل ہے جس کے درمیان فاصلہ بھی برابر ہے اور ان قوسوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے گنبد اسلامی طرز تعمیر سے بنے ہوئے ہیں۔ اس کے درمیان چار کونہ ایک کھلا دالان موجود ہے اور یہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے جن کے طول اور حجم بالکل برابر ہیں ایک حصہ شمال کی جانب ہے جبکہ دوسرا جنوب کی طرف ہے اور اس کے داخل ہونے کے دو راستے شمال و جنوب میں ہیں۔

اس کا مشرقی زاویہ مغربی رواق سے متصل ہے اور اسی طرف رواق کے تمام حجروں کی پانچ کھڑکیاں ساباط میں کھلتی ہیں۔ اور اس میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے اور ہیں ان میں سے ایک راستہ شمالی طرف جبکہ دوسرا مدخل جنوبی جانب میں ہے۔مغربی زاویہ میں چھ کمرے ہیں ان میں سے اس کی شمال کی جانب تین کمرے جویہ اور تکیہ بکتاشی کے درمیان واقع ہیں۔ جبکہ تین جنوب کی طرف ہے ان میں دو یہ اور مسجد بالائے سر کے درمیان ہے ان میں ہر ایک کے مشرق و مغرب کی طرف دو بڑی کھڑکیاں ہیں اور مغربی زاویہ کے درمیان ایک ایوان ہے اس ایوان کے شمالی زاویہ میں دو متصل دروازے ہیں۔ ان میں ایک صحن شریف کے زینے کے لئے ہے دوسرا تکیہ بکتاشی کے لئے۔ جنوبی ایوان کے زاوئیے میں دو دروازے ہیں ان میں ایک مسجد بالائے سر کے لئے دوسرا ایک چھوٹا کمرہ کی طرف کھلتا ہے جہاں ایک مشہور لبنانی عالم سیّد سعید فضل اللہ دفن ہیں اور ساباط کے دونوں اطراف اوپری حصہ میں ایک منزل اور ہے جس میں تین کمرے ہیں جن کے درمیان گزرنے کا راستہ بھی ہے ۱۴۲۶ھ/۲۰۰۵ ء میں رواق کی توسیع میںیہ ساباط گرادیا گیالیکن اس صورت میں بھی اس کے نشانات اور قدیم مسجد کے نشانات محفوظ رہیں گے۔

حدودِ صحن کے سامنے باقی ایوانوں کی طرح دو ایوانیں ہیں جن کے اندر فن اسلامی کی عظیم شاہکار انتہائی خوبصورت انداز میں نمائندگی کر رہا ہے۔ جو سنہرے خطوط سے مزین ہے اور ماہر خطا طوں سے قرآنی آیات اس کے اطراف میں لکھی ہوئی ہیں ، ایسا اسلامی فنی شاہکار پوری دنیا میں موجود اسلامی عمارتوں میں آج کل نظر نہیں آتا اور یہ دو ایوان مندرجہ ذیل ہیں ۔ ایوان جنوبی، ایوان شمالی۔

ایوان جنوبی

اس کو ایوان بزرگ بھی کہا جاتا ہے اور یہاں مختلف علماء کے دفن ہونے کی وجہ سے یہ مشہور ہے لیکن اس کی بلندی اور عرض اس کے مقابل میں ایوان میزاب الذہب کی طرح ہے اور یہ علماء کے مقبرہ بن چکا ہے یہاں عالم شہید سیّد محمد سعید الحبوبی ۱۳۳۳ھ/۱۹۱۴ ء کو دفن ہوئے اور ایوان انہی کے نام سے مشہور ہے اس کے محراب کے اوپر کاشانی ٹائل پر یہ لکھا ہے۔

'' اسے بندئہ حضرت ملک اقدس امجد احمد نے ۱۱۹۸ھ /۱۷۸۳ ء کو تمام کیا ''اور ''یہ شخص احمد کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ایک نواب ہے جس نے نجف اشرف آکر صحن میں کاشانی حجرہ بنوانے کے لئے بڑی تعداد میں اموال عطا کئے ''اس کی ٹائلوں پر اشعار لکھے ہوئے ہیں اور دیگر ایوان کی طرح اس کے اوپر فریم بنے ہوئے ہیں اور اس کے مشرقی و مغربی اطراف میں نیلے رنگ پر سفید رنگ میں آیات قرآنی مکتوب ہیں لیکن اس کے اگلی طرف عام لکڑی سے بنا ہوا ہے۔ سیّد عبد المطلب الخراسان کے مطابق اس کے قریب ایک کنواں تھا اور جیسا کہ گزر چکا کہ اس کے ایک طرف فاطمہ بنت شبلی نے ۱۲۹۱ھ / ۱۸۷۴ ء میں ایک تالاب بنوایا تھا۔

ایوان شمالی

یہ صحن شریف کے شمال میں واقع ہے بعض کا بیان ہے کہ یہ ایوان رواق عمران کا حصہ تھا ۔ ان میں شیخ علی الشرقی اپنی کتاب ''الاحلام ''میں لکھتے ہیں۔ ''یہ رواق عمران بن شاہین کا ایک حصہ ہے اس پر خط کاشانی میں یہ آیت مکتوب ہے( اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اﷲِ ) اور بعض علماء یہاں بیٹھنے اور گزرنے سے گریز کرتے تھے۔''اس گمان سے کہ یہ مسجد عمران کا حصہ ہے اس کیلئے یہی آیت پیش کرتے تھے۔

لیکن شیخ الشرقی کے مطابق اس کی دوسری تفسیر ممکن ہے کیونکہ قرآنی آیات ۱۲۵۱ھ میں لکھا گیا ہے اور خطاط نے سورہ توبہ سے پانچ آیات کا انتخاب کیا ہے شاید مسجد کی طرف جو اشارہ ہے وہ ایوان کے پیچھے جو مسجد ہے اس کی طرف ہے۔

محمد الکوفی نے اپنی کتاب ''نزہة الغری ''بیان کیا ہے کہ ''اہل نجف کے ہاں اس مسجد کے بارے میں مشہور ہے کہ باب طوسی میں جو مسجد ہے وہ مسجد عمران ہے اور ان کا گمان ہے کہ یہ رواقِ عمران بن شاہین ہے بعض دوسرے کا خیال ہے اس مسجد کا کچھ حصہ صحن شریف میں شامل ہوا ہے ۔''

یہ دوسرے ایوانوں کی طرح ایک منزلہ ہے ۔ اس کے اندرونی چھت پر تھر ما پول کا فریم بناہوا ہے اور دائیں بائیں اطراف میں نیلے رنگ کے اوپر سفید خط میں آیات قرآنی مکتوب ہیں اس کتابت کی تاریخ ۱۲۵۱ھ ہے اور خطاط کا نام محمد صالح ظبیبِ قزوینی قرآنی آیات کے نیچے ایک مستطیل خانے میں نیلے رنگ پر پیلے رنگ سے لکھا ہوا ہے اور اس کے اندرونی فریم میں لائنوں میں کاشانی پتھر لگے ہوئے ہیں ان دونوں لائنوں کے درمیان بدبع صناعت میں رسوم نباتیہ لگا ہوا ہے اب یہ اندر سے مسجد عمران سے ملحق ہوگا کیونکہ توسیع نو کے دوران ان کے درمیان والی دیوار گرادی گئی ہے۔

صحن شریف کے گنبد فنی بداعت میں قرون ماضی کی اسلامی تعمیرات کی نمائندگی کر رہے ہیں اور شاید ہی اس طرح مشہور اسلامی عمارتوں میں ہو کیونکہ یہ اپنے رسوم نباتیہ رنگین، بدیع خطوط، دقیق صناعت، کمالِ فن اور معیاری مواد کے استعمال کی وجہ سے تمام مسلم و غیرمسلم زائرین کی آنکھوں کو خیرہ کئے ہوئے ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی زیادہ مناسب ہے کہ اس روضہ مقدسہ کے تمام رموز و اسرار کی معرفت محققین کے لئے بہت زیادہ مشکل ہے۔ اس لئے کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ایوان شمالی کی ترمیم کے دوران ایسی قبریں بھی دریافت ہوئی ہیں جو بعض بادشاہان ہند اور شیعوں کے بزرگ اشخاص کی ہیں اور قبروں کے اطراف باریک انداز میں دراز کرکے کاشانی سے مزین کیا گیا ہے۔