ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) 0%

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر صلاح مہدی الفرطوسی
زمرہ جات: مشاہدے: 20390
ڈاؤنلوڈ: 3118

تبصرے:

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20390 / ڈاؤنلوڈ: 3118
سائز سائز سائز
ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

روضہ مبارک کی گھڑیال

یہ ناقوسی گھنٹی والی گھڑی ہے اس کے اوپر ایک طلائی مخروطی گنبد ہے یہ ایک مخصوص مینار کے بالکل اوپر ہے یہ مینار باب شرقی کے اوپر ہے اور ایوان طلاء کے رو برو ہے اسے باب السّاعہ بھی کہتے ہیں ۔

ڈاکٹر سعاد اپنی کتاب میں لکھتی ہے کہ ''حدودِ صحن کے سطح پر ایک مقام ہے اس کے اوپر سنگ مرمر کا ہشت پہلو گنبد ہے اور گھڑی دوسری منزل میں ہے۔''

اس کے خوبصورت بلند اور طلاء سے مرقع مینار کے گنبد پر خوبصورت فن کی نشانیاں موجود ہیں اس کے سامنے والے حصہ میں خوبصورت کاشانی کام ہوا ہے اور اس کے مرقد امام کی طرف کو تین حصوں میں تقسیم ہوا ہے ان میں سے ہر قسم کو فریم کی صورت میں مزید تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ان میں اوپر والے حصے میں امام علیـ کی شان میں حدیث اور اسکے درمیان یہ آیت مکتوب ہے( یَدُ اﷲِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ ) جبکہ دوسرے حصوں میں اشعار کے ضمن میں بعض احادیث لکھی ہوئی ہیں۔

شاید یہ گھڑیال تمام روضہ ھائے اہل بیت میں سب سے قدیم اور بہترین ہے اس کی آواز قدیم شہر کے کنارے تک سنی جاتی تھی لیکن خرابی کی وجہ سے یہ گھڑیال بند پڑی تھی اب حال ہی میں کچھ ماہرین اس کو ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

شیخ علی شرقی کے مطابق صحن شریف میں یہ پہلی گھڑی نہیں ہے بلکہ اس سے قبل اسی جگہ گھڑی موجود تھی۔

اس حوالے سے ڈاکٹر حسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ''یہ موجودہ گھڑیال ۱۳۰۴ھ /۱۸۸۷ء میں نصب کیا گیا تھا۔ڈاکٹر حسن کے مطابق یہ ۱۳۰۵ھ /۱۸۸۸ء میں نصب ہوا۔ ''اسے شہزادہ ناصرد الدین قاچاری نے اپنے وزیر خزانہ کے ساتھ بھیج کر حرم کے لئے ہدیّہ کیا تھا۔

تمیمی نے اپنی کتاب ''مشہد امام ''میں لکھا ہے کہ اسے ۱۳۰۵ھ /۱۸۸۸ء میں نصب کی گئی تھی اسی بات کو ڈاکٹر سعاد مانتی ہے۔۱۳۲۳ھ / ۱۹۵۰ ء میں اس گھڑی کے سامنے والی سمت کی تزئین و آرائش ہوئی اس کے بعد گنبد کی طلائی پر شہر تبریز کے ایک تاجر نے تقریباً بیس ہزار دینار خرچ کیا تھا ۔

شیخ کاظم حلفی نے موسوعہ نجف اشرف میں لکھا ہے کہ ''۱۳۹۳ھ / ۱۹۷۳ ء میں مرجع دینی آیت اللہ محمود شاہرودی نے اس گھڑیال کے مینار کی طلائی کے لئے خاص رقوم مختص کرکے مکمل کیا۔''

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخیرحضرات نے ان کے ذریعے گنبد کی تزئین کی ڈاکٹر حسن نے اپنی کتاب میں لکھاہے کہ ملکی اخبار میں یہ خبر آئی تھی کہ عراق کے صدر عبد الکریم قاسم نے ۱۹۶۲ ء میں صحن امام علیـکیلئے ایک بڑی گھڑی خریدنے کا حکم دیا تھا لیکن اس کا حکم نافذ العمل ہونے سے قبل اسے قتل کر دیا گیا۔

صحن شریف

صحن شریف روضہ مطہر تک جانے کے لئے زائرین کے لئے راستہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ بیٹھ کر صرف تھکاوٹ دور کرنے کے لئے آرا م کرنے کی جگہ ہے بلکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بعض حصوں میں نماز مغرب و عشاء کی جماعت کھڑی ہوتی ہے دوسرے حصوں میں نماز میّت اور نماز عیدین ہوتی ہے یہاں عام طور سے نمازی حضرات کسی عالم دین کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ہیں ۔ لیکن نماز فجر و ظہر و عصر اندر روضہ مقدسہ کے پاس ہوتی ہے ان میں بعض جگہوں پر حو زئہ علمیہ کے اساتذہ درس و تدریس دیا کرتے ہیں جبکہ بعض دوسرے اساتذہ دوسرے ایوانوں میں پڑھا تے ہیں۔یہاں تک کہ پچھلے صدی کے ھ کی دہائی یہاں بعض جگہوں میں بعض خاندان بھی ٹھہرتے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحن مرقد مطہر اور اس کی حدود کے سامنے والے کمرے اسی طرح تمام رواقِ مرقد جن کے سر داب ہیں۔یہ تمام سرداب قبروں سے بھرے پڑے ہیں۔

اگر تھوڑا سوچا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرقد مطہر دراصل ہزاروں جسدوں کے اوپر کھڑا ہے جو پچھلے زمانوں میں دفن ہوئے بلکہ قدیم صحن کے کنویں میّتوں کی ہڈیوں سے بھرے ہوئے تھے یہ ا س وقت معلوم ہواجب شہزادہ عبد الحمید نے ۱۳۱۵ھ /۱۸۹۷ ء میں قدیم صحن کے فرش کو نکال کر جدید ٹائلیں لگانے کا حکم دیا تھا۔ لیکن کاظم عبود الفتلاوی نے صحن علوی میں مدفون جن مشہور اشخاص کا ذکر کیا ہے ان میں اکثر پچھلی صدی کے ہیں۔ ان کی تعداد کا اندازہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ صحن کی مساحت ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق آ ٹھ ہزار مربع میٹر ہے اس کے مغربی حصے کے اوپر بلند چھت ڈھلا ہوا تھا جس کے درمیان بڑا ایک گول دائرہ بنا ہوا تھا ۔ اس کے ایک حصہ میں ایک دروازہ رواق کی طر ف کھلتا تھا لیکن ابھی اسے گراکر بند کیا گیا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق صحن کی مساحت چار ہزار دو سو انیس مربع میٹر تھی اور اس کی سطح زمین اس موجودہ صورت سے زیادہ نچلی تھی اورقبور اور محرابوں سے بھری ہوئی تھی یہاں تک کہ ۱۲۰۶ھ بمطابق ۱۷۹۱ ء میں یہاں کھدائی ہوئی اور سرداب بنائے گئے اور پھر بہت ساری میّتوں کو وہاں سے منتقل کیا گیا اور دوبارہ یہ زمین ہموار کی گئی شہزاد عبد الحمید ثانی کے دور ۱۳۱۵ھ /۱۸۹۷ ء میں صحن شریف کی زمین کی دوبارہ اصلاح ہوئی اور ساتھ میں سردابوں کو دوبارہ پہلے کی طرح بنایا گیا اس حوالے سے شیخ محمد حسین نے اپنی کتاب میں اہم معلومات کا اضافہ کیا ہے کہ اس میں ۱۲۰۶ھ /۱۷۹۱ ء کو ٹائلیں لگی۔ ۱۳ ویں صدی ہجری کے اوائل میں عثمانی گورنر نے صحن کے محرابوں' گنبدیں اور چبوتروں کو اکھاڑنے کا حکم دیا اور ان کے اوپر سنگ مرمر چڑھانے کا حکم دیا لیکن سیّد مہدی بحر العلوم اپنے دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد اس حکم کو نہیں مانتے ہیں ان کے درمیان یہ اتفاق ہوا ہے کہ یہ تمام آثار بغیر اکھاڑے واضح انداز میں موجود ہیںبلکہ ان کے درمیان مضبوط ستونیں کھڑی کی گئی تھی پھر اس کے اوپر چھت رکھی گئی تھی تاکہ یہ چھت جدید صحن کے لئے سطح بنے اس فکر پر عمل بھی ہوااور ۱۲۰۶ھ /۱۷۹۱ ء میں اس نئی سطح زمین پر سفیدپتھر کے تختیاں چڑھائی گئی اس تعمیر کی تاریخ باب شرق کبیر کے ایک کونے میں کاشانی ٹائل کے اوپر دو قصیدوں میں لکھی ہوئی ہے ان میں ایک قصیدہ عربی میں جبکہ دوسرا فارسی زبان میں ہے۔

شہزادہ عبد الحمید ہی کے زمانے ۱۴ ویں صدی ہجری میں صحن کے سردابوں اور فرشوں کی دوبارہ ترمیم ہوئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دفعہ علماءے دین کی وہاں مدفون میّتوں کی بے حرمتی بھی ہوئی کیونکہ اس دفعہ پہلے کی طرح ان قبور کی حفاظت نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے شیخ محمد حسین حرز الدین نے اپنے جدّ بزرگوار شیخ محمد حرز الدین کی کتاب سے نقل کیا ہے یہ کام ربیع الثانی ۱۳۱۶ھ بمطابق۱۸۹۸ ء میں شروع ہوا تو مزدوروں نے سردابوں کو توڑنے کے لئے صحن کی کھدائی کی تو وہاں مدفون میّتوں کی بہت زیادہ بے حرمتی ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس دوران شمال مشرق کی طرف بہت ساری قبریںدریافت ہوئیں ان سے متصل ایک سرداب بھی دریافت ہوا جو باب مسجد خضراء کی طرف تھا۔ کفشہ دان کے قریب صحن کے فرش میں دو اور قبریں نکل آئیں اس سے اندازہ ہوتا تھا یہ وادی غریٰ کی زمین ہے یہ دونوں قبریں نیلے رنگ کے کاشانی ٹائل جس پر مختلف جڑی بوٹوں کی تصویریں بنی ہوئی تھی لگا ہوا تھا انکے اردگرد پھر کاشانی طرز کے دیواریں بنی ہوئی تھی اس کے نیچے ایک سرداب تھا جو کافی بڑا تھا اس کا دروازہ سفید قیمتی پتھر سے بنا ہوا تھا اس سرداب میں جانے کی سیڑھیاں بھی اسی سفید پتھر سے بنی ہوئی تھیں۔ ان قبروں میں ایک کے پتھر میں یہ لکھا ہوا تھا کہ ''شاہ اعظم سلطان معزّ الدین عبد الواسع ۳جماد ی الا وّل ۷۹۱ھ بمطابق ۳۰اپریل ۱۳۸۹ ء کو فوت ہوا ''جبکہ دوسری قبر کے ایک پتھر پر یہ لکھا ہوا تھا ''۱۱محرم بروز بدھ ۸۳۱ھ بمطابق یکم نومبر۱۴۲۷ ئ'' لیکن صاحب قبر کا نام نہیں پڑھا جاتا ہے۔

ان قبروں کے برابر ایک قبر اور نکلی اس پر ایک پتھر پر یہ لکھا ہوا تھا ''یہ قبر مرحوم شاہزادہ سلطان با یزید کی ہے جو جمادی الآخر ۸۰۳ھ بمطابق جنوری ۱۴۰۱ ء کو فوت ہوا۔ ''ایک قبر پر یہ لکھا ہوا تھا :یہ بچہ شیخ اویس کی نسل سے ہے ۔ یہ تمام آثار بغداد کے عثمانی وزیراوقاف کے حکم سے ختم ہوا۔حالانکہ اگر ان کو تاریخی آثار کی اہمیت کا احساس ہوتا تو انہیں ترمیم کے دوران محفوظ کیا جاسکتا تھا جس طرح اس سے قبل ترمیمات کے دوران تھا ۔ محمد حسین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ۱۳۷۰ھ/۱۹۵۱ ء میں صحن کے جنوبی طرف اکثر ٹائلیں نئی لگائی گئیں اس کیلئے عراقی حکومت نے ۲۵۵۰۰دینار مختص کیا تھا جس میں جنوبی طرف کے ایوانوں میں سفید سنگ مرمر لگایاگیا ، ایوان طلاء کی صفائی ، اور اس کے سامنے لگی ہوئی بڑی طلائی تختی کی صفائی، دیواروں کی صفائی اور چمکائی وغیرہ شامل ہے اور یہ کام ۱۳۷۱ھ /۱۹۵۲ ء میں مکمل ہوا ہے۔ صحن شریف میں کچھ تالابیں' روشنی کے لئے چراغ اور کنویں تھے جو مرقد مطہر کو غسل دینے میں استعمال ہوتا تھا یہ تمام غیر ضروری سمجھ کر ڈھایا گیا۔ اس توسیع نو کے وقت قدیم فرشی ٹائلوں کو تبدیل کیا گیا ان کی جگہ اعلیٰ قسم کی یونانی ٹائلیں لگی ہیں جو گرمی کی شدّت حرارت کو جذب کرتی ہیں جیسا کہ مدینہ منورہ کے حرم مقدس میں استعمال ہوئی ہیں۔

رواقِ روضہ مطہر

روضہ اقدس کے چاروںاطراف میں رواق بنے ہوئے ہیں اس کی بیرونی دیوار صحن شریف سے بلند ہے سوائے مغربی جانب کے یہاں ساباط ہے اور یہ گزرنے کی جگہ ہے لیکن عنقریب یہ ساباط ان مغربی اطراف کی عمارتوں اور کمروں کے ملحق ہوجائے گا کیونکہ زائرین کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے یہاں ترمیم و تغیر زیادہ ہوتا رہتا ہے ۔ اس حوالے سے شیخ جعفر محبوبہ اپنی کتاب ''ماضی النّجف و حاضر ھا ''میں بیان کرتے ہیں ان رواق کی بلندی بیرونی دیوار کی بلندی کی طرح ہے اور شمال کی جانب سے جنوب تک کی لمبائی ساڑھے اکتیس میٹر ہے لیکن شیخ محمد حسین دونوں جہتیں شمال و جنوب کے طول کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دونوں جہتوں کا طول اکتیس میٹر ہے ۔

ڈاکٹر حسن حکیم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ''چاروں رواقوں میں سے صرف ایک رواق کی لمبائی ساڑھے اکتیس میٹر ہے۔ ''

یہ وہ سائز ہے جس پر اطمینان کرنا مشکل ہے بہر حال شمالی و جنوبی اطراف کے رواق کے سائز ساباط ، مسجد بالائے سر کی وجہ سے کافی تبدیل ہوچکا ہے مگر اس کا عرض چھے میٹر ہے۔

ہم نے رواق اور اس کے کمروں کے بارے میں شیخ محمد حسین سے اہم معلومات کا استفادہ کیا میرے حساب سے یہ روضہ مطہر کے حوالے سے لکھی گئی تمام کتب سے منفرد کتاب ہے وہ لکھتے ہیں کہ بیرونی رواق کی دیوار جو صحن سے بلند ہے پر قدیم کاشانی ٹائلیں لگی ہیں یہ تمام صفوی زمانے کی ہیں اور ان میں بعض نادر شاہ افشاری کے دور کی ہیں جن پر متعدد نقوش ، متنوع خوبصورتی رنگوں کی کثرت ایسی ہے جس کے بارے میں فنی باتیں بیان کرنا مشکل ہے۔

صحن شریف کے شمالی جانب رواق کے بیرونی دیوار پر نیلے کاشانی ٹائلوں پر سفید خط سے سورئہ مدّثر اور سورئہ قدر لکھی ہوئی ہے اور ایوانوں کے اوپری منزل کی دیوار پر ایک کتبے پر خوبصورت خطِ ثلث میں مختلف آیات قرآنی مکتوب ہیں اور روضہ مطہر کے اوپر ایک حصے میں یہ آیات مکتوب ہیں:

( هَلْ اَتَی عَلَ الْاِنْسَانِ حِیْن مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئاً مَّذْکُوْراً* اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ اَمْشَاجٍ نَبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنَا سَمِیْعاً بَصِیْراً* اِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیْلَ ِمَّا شَکِراً وَِّمَّا کَفُوْراً )

لیکن روضہ کے شمال کی جانب اور مغربی حدود کے شمالی حصے میں سورئہ فجر اوّل تا آخر لکھی ہوئی ہے اور نئی بات جو انہوں نے بیان کی کہ رواق کے چاروں طرف کمروں کے دو منزلیں ہیں جو صحن شریف کے پیچھے واقع ہے ان میں سے پہلی منزل کے کمروں کے دروازے رواق کے اندر ہیں ۔ یہ اور صحن کے درمیان ہے، یہ دروازے اسٹیل کے اور بڑے ہیں جن پر پیلے پیتل کے گول گول دائرے بنے ہوئے ہیں ۔ یہاں مختلف شیعہ علماء ، سلاطین، امراء ، اور صاحب عزت لوگ دفن ہیں اور قبروں کے کتبوں پر ان کا نام لکھے ہوئے ہیں۔ اس کے شمال کی جانب ایک مقبرہ، ''شاہات ''کے نام سے مشہور ہے۔

دوسری منزل کے کمرے بند تھے اس کے اندر جانے کا راستہ بھی معلوم نہیں تھا یہاں تک ۱۳۵۹ھ /۱۹۴۰ ء میں رواق و حرم کے اندر اصلاحات شروع ہوئی تو ان کمروں کے دروازے دریافت ہوئے تو اس پر کمیٹی بیٹھی پھر انہوں نے ان کمروں کی چھتوں کی بھی مرمت کی اور جہت شمال و جنوب میں چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں نکالی گئیں ۔ اب کمرے حرم مطہر کے اسٹور کے طور پر استعمال ہوتے ہیں جہاں حرم کی اہم چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔

اس دوران وہاں جنوبی رواق کی بنیاد میں پرانے بوسیدہ کچھ قبریں بھی نکلی تو اسے بند کیا گیا اس سال سے وہاں میّتوں کی تدفین بھی روک دی گئی اور اس کے بعد دوسری منزل کے جنوبی جانب ایک بڑا ہال بنایا جہاں پر کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ اس ہال میں روضہ مبارک کے نوادرات رکھے جائیں گے تاکہ ان معدنی و شیشے کے نوادرات محفوظ رہیں ان میں پرانے اسلحے کی کچھ تلواریں اور بندوقیں اور کچھ ساج کے لکڑی سے بنی ہوئی نوادرات شامل تھیں ۔ اب انشاء اللہ یہاں امیر المومنینـ میوزیم کے نام سے ایک اسلامی میوزیم بنے گا جس کے بارے میں راقم پچھلے کئی سال سے بتا رہا ہے۔

ایوانِ علماء

یہ ایوان باب طوسی کے سامنے والے رواق کے شمال کی طرف واقع ہے ۔ یہ اس نام سے اس لئے مشہور ہے کیونکہ یہاں زیادہ تر علماء دفن ہیں اور پرانے زمانے میں اسے مقامِ علماء کہا جاتا تھا صفوی تعمیر کے ضمن میں اس ایوان کو بھی دوبارہ بنایا گیا پھر شہزادہ نادر شاہ کے زمانے میں اس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے دوبارہ ترمیم و اصلاحات ہوئیں جس کے آثار تا حال باقی ہیں اور اکثر دیواروں پر ٹائلیں چڑھائی گئی یہ روضہ مطہر کے سب سے پرانے ٹائلیں ہیں اور یہ اہم تاریخی و ثیقہ جات میں شمار ہوتا ہے اس کے اندرونی حصے میں ایک جانب تاریخ تعمیر لکھی ہوئی ہے اور ایک شاعر قوام الدین کا قصیدہ کمال الدین گلستان کے خط سے لکھا ہوا ہے اس قصیدے کا ہر بند پیلی پٹی پر لکھا ہے یہی شیخ محبوبہ اور ان کے بعد میں آنے والوں کا بیان ہے اور ان پٹیوں کو درمیان سے لکیریں لگاکر مِلایا ہوا ہے اس طرح یہ خوبصورت سیدھی زنجیر کی شکل بن گئی ہے اور یہی زنجیر دیوار کے اوپر سے نیچے تک کھینچی ہوئی ہے جس پر قرآنی آیات میں سورہ احزاب کی چند آیات سفید رنگ میں لکھی ہوئی ہیں جس کے درمیان نیلے رنگ پر پیلے رنگ کے نقش و نگار بنا ہوا ہے اور اس قصیدے میں آئمہ اطہار کے اسمائے گرامی اور اس قصیدے کی تاریخ ۱۱۶۰ھ /۱۷۴۷ ء بھی شامل ہے اور یہ کاشانی تختی میں دو بریکٹوں کے درمیان ہے اوپر سے ایک پٹی پر سورہ رحمن کی آیات نیلے رنگ پر پیلے رنگ سے لکھی ہوئی ہے اور ہر آیت جس میں ''الآلاء ''آتا ہے آسمانی رنگ سے پیلے رنگ میں لکھی ہوئی ہے اس کے اطراف اوپر سے دائیں بائیں آسمانی رنگ کے کاشانی فریم بنا ہوا ہے اور اس کے دونوں جانب مختلف نقش و نگار بنا ہوا ہے جس کے اوپر پھر آیات قرآنی سفید رنگ سے آسمانی رنگ میں انتہائی جمال و کمال انداز میں لکھی ہوئی ہیں لیکن اس ایوان کے اندرونی حصے میں باقی ایوانوں کی طرح آیات قرآنی سے اسلامی نقش و نگار مختلف الگ الگ رنگوںمیں بنے ہوئے ہیں۔ شیخ جعفر محبوبہ نے اپنی کتاب ''ماضی نجف وحاضر ھا ''میں بہت سارے علماء ، بادشاہان ، امراء جو وہاں دفن ہیں کے ناموں کا ذکر کیا ہے۔

ایوان میزاب الذہب

یہ ایوان جنوبی رواق کے جانب قبلہ کے سامنے صحن واقع ہے اس کی وجہ تسمیہ یوں ہے اس کے اوپر سطح مرقد مطہر پر طلائی میزاب بنا ہوا ہے جہاں بارش کے پانی کی نکاسی کیلئے ایک طلائی پرنالہ بنا ہوا ہے اسی لئے اس کا نام بھی میزاب الذہب ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو یہاں سے گزرتے ہوئے پانی کوزائرین تبرکاً پیتے ہیں۔ یہ بھی باقی ایوانوں کی طرح دیواروں پر اعلیٰ قسم کے کاشانی ٹائل لگے ہوئے ہیں ۔

شیخ محمد حسین کے مطابق کمال الدین حسین گلستان نے ایوان کی بلندی کے درمیان عربی نونی قصیدہ پیلے رنگ کے ٹائل پر کتابت کیا ہے جو دائیں سمت سے دائرہ کی شکل میں شروع ہو کر بائیں طرف مستطیل شکل میں ختم ہوتا ہے اور موصوف نے دوسرے اشعار کے بارے میں یوں لکھا ہوا ہے ''پانچ اشعار بیضوی شکل میں ایوان کی نصف بلندی سے اوپر شروع ہوتی ہے اور یہ کاشانی ٹائل پر کتابت ہوئی ہے ''اس اشعار کی کتابت کی تاریخ ۱۱۶۰ھ / ۱۱۴۷ ء کے قریب ہے جو ایوان علماء پر کمال الدین کی کتابت کاہم عصر ہے مگر اوپری جانب پر فریم بنا ہوا ہے جس کی پٹی پر قرآنی آیت کتابت ہوئی ہے۔ اس کے دائیں اور بائیں اطراف ایوان علماء کی طرح اوپر سے نیچے تک ہندسی نشان کے فریم بنا ہوا ہے۔

اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں ایک رواق کے نیچے ایک سرداب تھا جو مرقد مطہر کے خدام آل الملالی کے زیر استعمال تھا پھر شاہ عباس اوّل کے زمانے میں شیخ محمد بن شیخ علی آل کاشف الغطاء متوفی ۱۰۲۳ھ /۱۶۱۴ ء نے سیّد رضا رفیعی کو حرم کی خدمت کیلئے نائب بنایا تو یہ سرداب ان کے ہاتھ پھر ان کے خاندان کے ہاتھ آگیا یہاں پر شیخ نصار، شیخ راضی بن شیخ نصارسال ۱۲۳۰ھ/۱۸۱۵ ء کے قریب دفن ہوئے۔

ایوانِ طلاء

ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ شرقی رواق کے سامنے ایک بڑا ہال ہے جس کا فرش صحن کے فرش سے ۲۰سینٹی میٹر بلند ہے اور اس کا طول ۴۲ میٹر جبکہ عرض ۷میٹر ۵۰سینٹی میٹر ہے اور یہ ہال باب شرقی کبیر کے سامنے واقع ہے۔اور اسی ہال میں ایوان طلائی موجود ہے کیونکہ اس کی دیواروں پر طلاء چڑھا یا ہوا ہے ۔ اس کے دونوں اطراف گوشہ اذان کے دو مینار کھڑے ہیں۔ ایوان کے دونوں اطراف میں بعض تزئین و آرائش کا کام ہوا ہے جس پر بہت ساری کتابت جن میں بعض فارسی زبان میں ہوئی ہے اور دونوں اطراف کے طلائی دروازے پر فارسی شاعر ''عرفی ''کے قصیدے کی کتابت ہوئی ہے ۔

ڈاکٹر حسن حکیم کے مطابق اس قصیدے کی کتابت کا اختتام کاتب محمد جعفر اصفہانی متوفی ۹۹۹ھ / ۱۵۹۱ ء کے نام سے ہے ۔ یہ قصیدہ مدح امام علی پر مشتمل ہے اس کے حروف سنہرے طلاء سے لکھے ہوئے ہیں اس کے علاوہ دو اشعار عربی میں ایوان کے دائیںجانب اور دو اشعار بائیں جانب لکھے ہوئے ہیں جبکہ بالائی جانب خط ثلث کی کتابت سے خوبصورت انداز میں گنبد اور گوشہ اذان کے میناروں پر طلاء چڑھانا اور سلطان نادر شاہ کے حکم سے ایوان کی تعمیر کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔

اس ایوان کے اندر بے شمار علماء ، صاحب ثروت افراد دفن ہیں جن میں سے بعض نام دیوار پر نقش ہے لیکن طلائی کے دوران یہ مٹ گئے۔ شیخ جعفر محبوبہ ایوان کے بارے میں بہت ساری سابقہ معلومات کا ذکر کیا ہے۔لیکن یہ خوبصورت منظر جو پوری دنیا میں مشہور ہے جنگ خلیج ۱۹۹۱ ء کے دوران نجف اشرف میں جہاں دوسرے بہت سے نقصانات ہوئے یہ بھی نہیں بچ سکا اس وجہ سے بعض آثار ضائع بھی ہوئے اگر چہ متا ثرہ حصوں پر دوبارہ طلاء چڑھایا گیا لیکن یہ اب پرانی طرز کتابت سے خالی رہ گیا۔ ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی کتاب میں اس میں دفن مختلف شخصیتوں کے نام ذکر کئے ہیں جن میں مشہور علامہ حلی متوفی ۷۲۶ھ /۱۳۲۶ ء شمالی مینارِ گوشہ اذان کی جانب واقع حجرہ ہیں یہاں میرزا علی نواب بن سیّد حسین الحسینی المرعشی متوفی ۱۰۸۱ھ / ۱۶۷۰ ء بھی دفن ہیں اور یہ شاہ عباس صفوی کے داماد تھے۔

اس حجرے کے لئے طلائی دروازہ لگا ہوا ہے رواق الحرم کے مشرقی جانب داخل ہوسکتا ہے اور جنوبی مینار گوشہ اذان کے نزدیک واقع حجرے میں علّامہ مقدس شیخ احمد اردبیلی متوفی ۹۹۲ھ / ۱۵۸۴ ء دفن ہیں ۔ یہاں بھی طلائی دروازہ نصب ہے لیکن یہ درواز بند ہے مقبرئہ علامہ موصوف سے متصل ایک بڑی الماری نصب ہے جس کے اندر بعض نفیس نوادرات محفوظ ہیں۔ اس موضع میں بعض اور علماء بھی دفن ہیں۔ ڈاکٹر حسن حکیم سابقہ کتاب میں مزید بیان کرتے ہیں کہ اس ایوان کی بلندی عبدالرزاق حسینی کی کتاب''موجز تاریخ بلدان عراق ''سے نقل کرتے ہوئے ۴۰ میٹر لکھا ہے یہ دراصل ان کا وہم ہے کیونکہ خود روضہ مطہر کے دونوں میناروں کی بلندی ۲۹میٹر ہے تو ایوان کی بلندی ۴۰میٹر کیسے ہوئی؟ لیکن انہوں نے یہاںایک اہم بات کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ بعض مآ خذ کے مطابق شیخ بہائی محمد حسین متوفی ۱۰۳۱ھ / ۱۶۲۲ ء نے ایوان طلائی کے دونوں اطراف میں جوتے اتارنے کیلئے ''کفشہ دان ''بنایاتھا۔ ڈاکٹر موصوف نے حاشیے میں ان مآخذ کا ذکر کیا ہے ۔ اب حالیہ توسیع نو میں ان دونوں موضع کے ٹائلوں کو تبدیل کرکے نئے انتہائی کمال جمال کے ٹائلیں لگی ہیں ۔ اور یہ نقش و نگار آج کل کے نئے دور کے خوبصورتی فن کے مشکل ترین کام ہے۔ ہر مینار کے دو دروازے ہیں۔ پہلا دروازہ کفشہ دان کی طرف جانے کے لئے جبکہ دوسرا اوپر مینار پر چڑھنے کے لئے ہے۔ اس کے علاوہ ہر سطح میں بھی رواق علوی کے حجروں میں جانے کیلئے دروازے ہیں حرم کے سطح زمین کے اندر اور دیواروں میں اسی طرح رواق کے اندر باہر موجودہ جدید توسیع کے دوران کیمیائی مواد ڈالے گئے ہیں تاکہ زلزلے اور دیگر آفات سے محفوظ رہے۔

ابوابِ رواق

حرم شریف کے رواق کے احاطے میں مختلف دروازے ہیں جسے دیکھنے والے کی عقل اس کی کمالِ خوبصورتی اور نفیس خطوط کی سے مسحور ہوجاتی ہے اور یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ زمانے کے اعلیٰ ماہر اہل فن، رسّام ، مصور، خطاطوں کے ہاتھوں وجود میں آئی ہے اس پر مستزاد یہ کہ ان پر بے تحاشہ اموال خرچ ہوئے ہیں ۔ چاہے اس میں قیمتی معدن ہوں یا اسے حدِکمال تک پہنچانے والے ہنر مندوں کی اُجرت ہو ان میں ہر دروازہ طرز جمال و حسن صناعت کا علیحدہ پیکرفن ہے جس کی کوئی نظیر و مثال نہیں ہے اور زائرین کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی طرح ان دروازوں کو تقسیم کیا گیاہے کہ مختلف مشہور مناسبات کے ایام میں آسانی سے حرم مطہر میں داخل ہوسکے کیونکہ ان ایام میں زائرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے ان میں سے ایک دروازہ شمالی جانب باب طوسی کے مقابل میں ہے یہ چاندی سے بنا ہواہے جو راجہ عبدالقادر کمباچی نے دیا تھا اس پر چاندی کا کام عراق ہی میں مکمل ہوا تھا اس کی تاریخ تنصیب ۱۹۳۶ ء ہے اسی طرف زائرین کی تعداد دن بدن بڑھنے کی وجہ سے ایک دروازہ اور نکالاگیا ہے کیونکہ قدیم دروازہ اس بڑھتی ہوئی تعداد کا متحمل نہیں تھا ۔ جنوب کی طرف باب قبلہ کے مقابل میں ایک دروازہ ہے جسے مشہور زعیم عبد الواحد آل سکر کی والدہ حاجیہ طخہ نے بنوایا تھا اس پر کل خرچہ اس زمانے میں دو ہزار دو سو لیرہ ذہبی آیا تھا اس دروازے کے سامنے تبدیلی سے قبل کاشانی ٹائل پر دو قصیدے لکھے ہوئے تھے ان میں ایک فارسی میں جس کے بیس بند سنہرے حروف سے نیلے رنگ سے پیلے رنگ پر لکھا ہوا تھا اور ہر بارہ بریکٹ کے درمیان تھا جبکہ دوسرا قصیدہ عربی میں ۲۸بند پر مشتمل تھا جسے فارسی خط نستعلیق میں چھوٹے چھوٹے سفید حروف سے نیلے رنگ میں لکھا ہوا تھا اور یہ اوپر سے نیچے تک فارسی قصیدہ کے اطراف میں تھا اور یہ قوام الدین محمد الحسینی السیفی کے نظم سے لیا گیا تھا ان دونوں قصیدوں کے نیچے چھوٹے چھوٹے دو فریم میں سفید چھوٹے حروف میں یہ لکھا ہوا تھا ''اس کی تختی کی کتابت کی تجدید نو کا شرف خاک پائے زائرین مشہور کاتب یزدی نے حاصل کیا''اور ان دروازوں میں داخل ہونے سے قبل جوتے اتارنے کیلئے کفشہ دان موجود ہے لیکن شعبان ۱۳۶۹ھ بمطابق ۱۹۵۰ ء میں یہ تمام باب جنوبی سے گراکر نکا لاگیا اور اس کے بدلے میں شاہ محمد رضا پہلوی نے تزین حرم کی طرح مزین کروایا۔ جسے محمد حسین نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے اسے انہوں نے ایک دروازے کی طرف اشارہ کیاہے جو شہزادہ مراد بن شہزادہ سلیم متوفی ۱۰۰۳ھ /۱۵۹۵ ء کے نام سے ہے اور یہ اس وقت کھلاتھا جب موصوف مرقد مطہر امام کی زیارت کے لئے نجف اشرف آئے اور حر م مطہر میں اسی دروازے سے داخل ہوئے تھے اس کے بعد یہ بند ہوگیا پھر شہزادہ ناصر الدین قاچاری کیلئے ۱۲۸۷ھ /۱۸۷۰ ء میں کھولاگیا اس طرح کے معلومات شیخ محمد حسین نے اپنی کتاب معارف الرجال سے کافی جمع کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے خود یہ دروازہ تزئین و آرائش کی حالت میں دیکھا ہے جس کے دستے عاج سے بناہوا تھا اس کا منظر اس پر لگے ہوئے مہندی کی وجہ سے بہت خوبصورت تھا اور یہ مہندی زائرین لگایا کرتے تھے اب یہ سب اتار کر الماریوں میں رکھی ہوئی ہے اور اس دروازے کو لوہے میں تبدیل کیا گیا ہے لیکن یہ زائرین کے لئے نہیں کھولا جاتا۔ اس طرف ایک نیا دروازہ نکالا گیا ہے جو عورتوں کے لئے مخصوص ہے کیونکہ زائرین کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے اندر جانے کے پرانے راستے زیادہ مناسب نہیں تھے ۔ شیخ محمد حسین حرز الدین نے بھی نصف ساباط میں ایک دروازہ ہونے کی طرف اشارہ کیاہے جو رواق کی طرف کھلتا تھا لیکن قدیم زمانے سے بند پڑا ہوا ہے اور اس کی جگہ پیلے پیتل کی کھڑکی بنی ہوئی ہے جس کے ایک کمرے میں حرم کے نفیس اشیاء رکھی ہوئی ہے ۔ اور طلائی ایوان میں تین طلائی دروازے بھی ہیں ان میں ایک بڑا دروازہ بابِ خارجی کے مقابل میں بالکل وسط میں ہے باقی دونوں شمالی اور جنوبی اطراف میں ہیں۔ لیکن جنوبی دروازہ بند رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کے اندر ایک کمرے میں حرم کی نفیس اشیاء و مقدس پتھر وغیرہ رکھے ہوئے ہیں ہم روضہ مطہر کے نوادرات بیان کرتے وقت ان چیزوں کا بھی ذکر کریں گے۔

اس حجرے میں علامہ مقدس شیخ احمد ارد بیلی دفن ہیں لیکن جنوبی دروازہ سے اندر ایک حجرے میں علامہ الحلی دفن ہیں ۔ اور ۱۳۷۳ھ / ۱۹۵۴ ء میں کھولا گیا اور یہ رواقِ حرم میں جانے کے لئے ایک راستہ بنایا گیا ہے اور اس کا دروازہ بھی طلائی سے بنایاگیا ہے لیکن علامہ حلی کی قبر مرقد مطہر کی ایک کھڑکی کے سامنے ہے اور اس طرف حرم کی چھت پر جانے کے لئے ایک زینہ بھی لگا ہوا ہے لیکن ایوان کے وسط میں جو دروازہ ہے جسے حاجی محمد حسین خان اصفہانی صدر اعظم نے نقرہ سے بنوائے تھے جیسا کہ اسی پر لکھا ہوا بھی ہے۔ شیخ جعفر محبوبہ کے مطابق یہ ۱۲۱۹ھ / ۱۸۰۴ ء کے قریب نصب کیا گیا شیخ محمد حسین حرزالدین اس پر مستزاد یہ کہتے ہیں کہ ا س موضع میں متصل دروازے بنائے گئے تھے کیونکہ زائرین کا اژدھام زیادہ تھا اور اسے صدر اعظم مذکورہ نے بنوایا تھا اور انہوں نے ہی شہر نجف کی حدود کی دیوار بھی بنوائی تھی اور محلہ مشراق میں مدرسة الصدر بھی اسی نے بنوایا تھا۔ شیخ موصوف یہ بھی بیان کرتے ہیں یہ دونوں دروازے نقرے میں مشیرسلطنت نے ۱۲۸۷ھ /۱۸۷۰ ء میں تبدیلی کی تھی۔ ان باتوں کا اشارہ اس پر مکتوب شعر میں موجود ہے۔ پھر ۱۳۷۶ھ /۱۹۵۷ ء میں حاجی محمد تقی کریم اتفاق نے اسے طلاء میں تبدیل کرکے نصب کروایا ۔ اس زمانے میں اس کام پر پانچ لاکھ خرچ آیا تھا اس کی تیاری میں ساڑھے دس کلو گرام سونا جبکہ دو سو پچاس کلو گرام نقرہ استعمال ہوا تھااور اس کی بداعت و صناعت میں اصفہان کے ماہر ترین اہل فن ہنر نے تین سال کام کیا جس میں باقی کاموں کے ساتھ گل نباتی، مختلف نقوش کی تقسیم انتہائی جمال و کمال کے ساتھ کی ہے۔

ڈاکٹر سعاد ماہر اس کے فنی اہمیت کے بارے میں بیان کرتی ہے کہ یہ بیسویں صدی کے خوبصورت ترین فنی شاہکاروں میں شامل ہے اسی طرح ڈاکٹر حکیم وغیرہ نے بھی ان منفرد و بے مثال نوادرات کا ذکر کیا ہے۔ ان نوادرات کا نجف اشرف میں پہنچنے پر اس کی مناسبت جشن منایاگیا پھر اسے نصب کیا گیا ۔ اس حوالے سے شیخ جعفر محبوبہ اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ نجف اشرف کھو لا گیا اور بروز جمعرات گیارہ شعبان المعظم ایک محفل منعقد کی گئی جس میں اہل علم اور اہل نجف کے عام لوگوں نے شرکت کی اس موقع پر شاعر عبدالمنعم الفرطوسی کا قصیدہ پڑھا گیا ۔ مذکورہ قصیدہ کو شاعر نے اپنے دیوان کے پہلے حصے میں بیان کیا ہے جو باب طلائی کے عنوان سے ہے اس کا راقم نے اپنی کتاب ''وَمَا اَدْرَاکَ مَا عَلَی ''کے پہلی جلد کے مقدمے میں زیادہ بہتر مناسبت کی وجہ سے بیان کیا ہے میرے خیال میں مذکورہ دروازہ تمام آئمہ معصومین٪کے روضہائے مقدسہ کے سب سے پہلے اور مہنگے ترین دروازہ ہے۔

گوشہ ٔاذان کے دو مینار

یہ دونوں مینار روضہ مبارک کے مشرق کی سمت میں ایوان طلاء کے دونوں اطراف شمال و جنوب میں واقع ہے اور ان میں ہر ایک مختلف زاوئیے والے ایک میٹر بلند مضبوط بنیاد پر کھڑے ہیں ۔

شیخ محمد حسین کا بیان ہے کہ ان میں سے ہر ایک مینار ۲۹میٹر بلند ہے اور ان کی رواق سے متصل بلندی ۱۷میٹر تک ہے۔میناروں کی بنیادوں پر ایک میٹر سے زیادہ بلندی پر سبز سنگ مرمر چڑھا ہوا ہے اور دونوں میناروں کا بُرج جتنا اوپر کی طرف دیکھا جائے بالکل باریک ہوتا جائے گا اور ۲۵میٹر کی بلندی پر دو عدد ایک میٹر چوڑی پٹیاں بنی ہوئی ہے جن پر سورئہ جمعہ کی کتابت کی ہوئی ہے ان دونوں پٹیوں سے اوپر کی جانب دو چھوٹے چھوٹے ستون پر کنگرہ یعنی گوشہِ اذان بنا ہوا ہے جس کی بلندی ۲۲۵سینٹی میٹر ہے۔ اور گوشہ کے اندرونی ستون کی بلندی جہاں سے موذن داخل ہوتا اور نکلتا ہے وہ تنگ ہے جس کا قطر ڈیڑھ میٹر ہے لیکن باہر سے کل گو شہ کی بلندی چھ میٹر ہے اور اس ستون کے بالکل اوپر بوٹے دار فانوس لگے ہوئے ہیں ۔

ڈاکٹر حسن حکیم ، ڈاکٹر سعاد ماہر وغیرہ کے مطابق ہر مینار میں چار ہزار طلائی تختے لگے ہوئے ہیں اس کے علاوہ روشنی داخل ہونے کے لئے سنگ مرمر کی چمکدار تختیاں لگی ہوئی ہے اور فانوس کے تاج کے اوپر لفظ ''اللہ ''بنا ہوا ہے۔

شیخ جعفر محبوبہ کے مطابق دونوں میناروں میں سنگ مرمر نقش شدہ تختیاں ڈھلی ہوئی ہے جس میں طلائی کی تاریخ بھی درج ہے اور جنوبی مینار کے ایک تختی پر''سعداً عظماً'' نقش ہے جو طلائی کے عام تاریخ ہے جبکہ شمالی مینار کے ایک جانب''حمداً علی تما مھا''اور دوسری ایک طرف میں ''قل مورخاً یامقیم'' نقش ہے۔

نادرشاہ کے طلاء چڑھانے کے بعد ان میناروں پر کچھ اصلاحات ہوئی جیسا کہ ۱۲۳۶ھ بمطابق۱۸۲۱ ء میں یہ کمزوراور پرانا ہوکر بعض طلائی تختیاں گرنا شروع ہوئی تو وزیر فتح علی شاہ اس کی اصلاح کا حکم دیا اور ۱۲۸۱ھ /۱۸۶۴ ء میں جنوبی مینار کمزور پڑگیا تو شہزادہ عبد العزیز عثمانی نے اسے بالکل گراکر دوبارہ بنیاد سے پہلے کی طرح بنوایا پھر جما دی الا وّل ۱۳۵۲ھ /۱۹۳۳ ء کو اسے دوبارہ رواق کے برابر گراکر تمام طلائی تختوں کو اکھاڑ کر ۱۳۵۳ھ /۱۹۳۴ ء میں دوبارہ تعمیر مکمل ہوئی۔۱۳۱۵ھ / ۱۸۹۷ ء میں شہزادہ عبد الحمید نے شمالی مینار کی ترمیم کی اسے انہوں نے تقریباً نصف تک گرادیا اور طلائی تختیوں کو اکھاڑ کر دوبارہ تعمیر کروائی اور یہ تعمیر ۱۳۲۶ھ / ۱۹۰۸ ء میں مکمل ہوئی اور اسی مینار کی ایک مرتبہ پھر ۱۳۶۷ھ / ۱۹۴۸ ء کو تعمیر ہوئی اس مرتبہ بھی منحنی حصے گرا کر سطح حرم تک لایا گیا اور طلائی تختیوں کو اکھاڑ کر دوبار ہ پہلے کی طرح مذکورہ سال کے ماہ رجب کے آخر میں یہ تعمیر مکمل ہوئی۔