تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25199
ڈاؤنلوڈ: 2361


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25199 / ڈاؤنلوڈ: 2361
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

مسجد کے روپ میں بت خانہ

گذشتہ آیات میں مختلف مخالف گروہوں کی کیفیت کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ زیر بحث آیات ایک اور گروہ کا تعارف کرواتی ہیں ۔یہ لوگ بڑے ماہرانہ منصوبہ اور سازشوں کے تحت میدان میں داخل ہوئے اللہ کی رحمت مسلمانوں کے شامل ِ حال ہوئی اور ان کا یہ منصوبہ اور سازش نقش بر آپ ہوگئی۔

پہلی آیت میں قرآن کہتا ہے : ان میں سے ایک گروہ نے مدینہ میں ایک مسجد بنائی ۔ مسجد کے مقدس نام کے پیچھے انھوں نے اپنے منحوس مقاصد چھپارکھے تھے( وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا)۔ ۲

۲ ۔ مفسرین نے اس جملے کی ترکیب کے سلسلے میں اگر چہ ادبی لحاظ سے مختلف نظر یات پیش کئے ہیں لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ جملہ گذشتہ جملوں پر عطف ہے جو منافقین کے بارے میں ہیں اور اس کی تقدیر یہ ہے ” منھم الذین اتخذوا مسجداً“۔

اس کے بعد ان کے چار طرح کے مقاصد کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے :

ا۔ ایک مقصد ان کا یہ تھا کہ اس طرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں (ضِرَارًا )۔ ”ضرار “ کا معنی ہے ” جانن بوجھ کر نقصان پہنچا نا “۔ دعویٰ تو یہ کرتے تھے کہ ان کا مقصد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ ہے اور وہ بیمار اور ناتواں لوگوں کو مدد کرنا چاہتے ہیں ۔ درحقیقت وہ اس کے برعکس اپنے کاموں سے پیغمبر اسلام کا خاتمہ اور مسلمانوں کی سر کوبی چاہتے تھے یہاں تک کہ اگر ان کے بس میں ہوتا تو اسلام ہی کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے ۔

۲ ۔ دوسرا مقصد ان کا کفر کی بنیادوں کو تقویت پہنچانا تھا ۔ وہ ان لوگوں کو اسلام سے پہلے کی سی حالت پر پلٹادینا چاہتے تھے ۔ (وَکُفْرًا

۳ ۔ وہ مسلمانوں میں صف میں تفرقہ ڈالنا چاہتے تھے کیونکہ اس مسجد میں کچھ لوگ جمع ہو نے لگتے تو اس سے مسجد قبا جو اس کے نزدیک تھی یا مسجد نبوی جو اس سے کچھ فاصلے پر تھی ، کی رونق ختم ہو جاتی( وَتَفْرِیقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ ) ۔

جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے ، اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد کے درمیان فاصلہ اتنا کم نہیں ہو نا چاہئیے کہ دوسری مسجد کے اجتماع پر اثر انداز ہو ۔ اس بناء پر وہ لوگ جو قومی تعصب یا ذاتی اغراض کی بنیاد پر مسجد کے پاس ایک مسجد بنالیتے ہیں ، اور یوں مسلمانوں کے اجتماعات کے منتشر کرتے ہیں اور ان کے اس اقدام سے دوسری مساجد کی صفیں خالی ، بے رونق اور بے روح ہوجاتی ہیں وہ اہداف اسلامی کے خلاف عمل کرتے ہیں ۔

۴ ۔ ان کا آخری مقصد یہ تھا کہ ایسے شخص کے لئے ایک مر کز قائم کریں جو پہلے سے خدا اور اس کے رسول کے خلاف بر سر پیکار تھا اور اس کے سابقہ برے کار نامے لوگوں پر واضح تھے اور وہ اس مرکز سے اپنے منصوبوں کی تکمیل چاہتا تھا( وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ ) ۔

لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ان تمام برے اغراض اور منحوس مقاصد کو انھوں نے ایک خوب صورت اور پر فریب لاس میں چھپا رکھا تھا ۔ یہاں تک کہ وہ قسم کھاتے تھے کہ ہمارا نیکی کرنے کے علاوہ اور کوئی مقصد اور ارادہ نہیں( وَلَیَحْلِفُنَّ إِنْ اٴَرَدْنَا إِلاَّ الْحُسْنَی ) ۔

منافقین کا ہر دور اور زمانے میں یہی دستور رہا ہے وہ اپنے مقا صد کو خوشنما پردوں میں چھپا ئے رکھتے ہیں اور عام لوگوں کو منحرف کرنے کےلئے طرح طرح کی قسموں کا سہارا لیتے ہیں ۔ لیکن قرآن مزید کہتا ہے : وہ خدا جو سب کے اندرونی رازوں سے واقف ہے اور جس کے لئے غیب و شہود یکساں ہے ، گواہی دیتا ہے کہ یقینا وہ جھوٹے ہیں( وَاللهُ یَشْهَدُ إِنّهُمْ لَکَاذِبُونَ ) ۔

اس جملے میں ان کے مختلف تاکیدں نظر آتی ہیں :

پہلی یہ کہ یہ جملہ اسمیہ ہے ۔

دوسری یہ کہ لفظ ”انتاکید “ کے لئے ۔

تیسری یہ کہ ”لکٰذبون “ میں لام ابتداء اور تاکید کے لئے ۔

چوتھی یہ کہ فعل ماضی کی جگہ ”کٰذبون “ کا آنا ان کے جھوٹ بولنے کے استمرار اور دوام کی دلیل ہے ۔

اس طرح سے خدا تعالیٰ ان کی بڑی بڑی قسموں کا شدید ترین طریقے سے تکذیب کرتا ہے ۔

بعد والی آیت میں اس حیات بخش حکم کی مزید تاکید کے لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے : اس مسجد میں ہر گز قیام نہ کرواور اس میں نماز نہ پڑھو( لاَتَقُمْ فِیهِ اٴَبَدًا ) ۔

بلکہ اس مسجد کی بجائے زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس مسجد میں عبادت قائم کرو جس کی بنیاد پہلے تقویٰ پر رکھی گئی ہے( لَمَسْجِدٌ اٴُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی مِنْ اٴَوَّلِ یَوْمٍ اٴَحَقُّ اٴَنْ تَقُومَ فِیهِ ) ۔نہ یہ کہ یہ مسجد جس کی بنیاد روز اول ہی سے کفر ، نفاق ، بے دینی اور تفرقہ پر رکھی گئی ہے ۔

لفظ ”احق “( یعنی زیادہ مناسب اور سزا وار ) اگر چہ افضل التفضیل ہے لیکن یہاں لیا قت اور اہلیت کے لئے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کے معنی میں نہیں آیا بلکہ مناسب ، لیاقت اور عدم لیاقت کے موازنہ کے لئے آیا ہے ۔ قرآنی آیات ، احادیث اور روز مرہ میں ایسی گفتگوو ں کے بہت سے نمونے موجود ہیں ۔مثلاً بعض اوقات ناپاک اور برے آدمی سے ہم کہتے ہیں کہ پاکیزگی اور اچھا کام کرنا تیرے لئے بہتر ہے اس بات کا یہ معنی نہیں کہ ناپاک رہنا اور برکام کرنا اچھا ہے لیکن بری چیز )۔

مفسرین نے کہاہے کہ جس مسجد کے بارے میں مندرجہ بالا جملے میں کہا گیا ہے کہ زیادہ مناسب یہ ہے کہ پیغمبر اس میں نماز پڑھیں اس سے مراد مسجد قبا ہے کہ جس کے قریب منافقین نے مسجد ضرّار بنائی تھی ۔

البتہ یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس سے مراد مسجد نبوی یا وہ تمام مساجد ہوں کہ جن کی بنیاد تقویٰ پر ہو لیکن ” اول یوم “ ( روز اول ) کی تعبیر کی طرف توجہ کرتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ مسجد قبا پہلی مسجد تھی جو مدینہ میں بنائی گئی ۔(کامل ابن ایثر جلد ۲ ص ۱۰۷)

پہلا احتمال ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے اگر چہ دوسری مساجد مثلاً مسجد نبوی کے لئے بھی یہ لفظ مناسب ہے ۔

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے کہ علاوہ اس کے کہ اس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ، مردوں کاایک گروہ اس میں مشغول ِ عبادت ہے جو پسند کرتا ہے کہ اپنے آپ کو پاکیزہ رکھے اور خدا پاکزاد لوگوں کو دوست رکھتا ہے( فِیهِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ اٴَنْ یَتَطَهرُوا وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطّهِّرِینَ ) ۔

اس سلسلے میں اس پاکیز گی سے مراد ظاہری اور جسمانی پاکیز گی ہے یا معنوی اور باطنی پاکیزگی ، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ تفسیر تبیان اور مجمع البیان میں اس آیت کے ذیل،میں رسول اللہ سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں ہے کہ آپ نے مسجد قبا والوں سے فرمایا:ما ذا تفعلون فی طهر کم فان الله تعالیٰ قد احسن علیکم الثناء ، قالوا الغسل اثر الغائط

تم اپنے آپ کو پاک کرتے وقت کیا کام انجا م دیتے ہوکہ خدا نے تمہاری اس طرح سے مدح و ثناء کی ہے ۔

انھوں نے کہا : ہم اپنے پائیخانہ کے اثر کو پانی سے دھوتے ہیں ۔

اسی مضمون کی روایات امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں لیکن جیسا کہ ہم نے بار ہا اشارہ کیا ہے ایسے مصداق کے لئے اس قسم کی روایات مفہوم ِ آیت کو منحصر کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ جیسا کہ آیت کا ظہور مطلق ہے اور یہ گواہی دیتا ہے کہ طہارت یہاں ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے اس میں شرک و گناہ کے آثارسے روح کی پاکیز گی اور جسمانی کثافتوں کے آثار سے جسم کی پاکزگی سب شامل ہیں ۔

زیر بحث تیسری آیت میں دو گروہوں کے مابین موازنہ کیا گیا ہے ایک گروہ مومنین کا ہے جو مسجد قبا کی طرح کو مساجد کو تقویٰ کی بنیاد پر بناتے ہیں اور دوسرا گروہ منافقین کا ہے جو مسجد کو کفر و نفاق اور تفرقہ و فسادکی اساس پر تعمیر کرتے ہیں ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : کیا وہ شخص جس نے مسجد کی بنیاد تقویٰ ، حکم الٰہی کی مخالفت سے پرہیز اور اس کی رضا طلب کرتے ہوئے رکھی ہے بہتر یا وہ شخص جس نے اس کی بنیاد کمزور اور گرجانے والی جگہ پر جہنم کے کنارے رکھی ہے جو عنقریب جہنم میں گر جائے گی( اٴَفَمَنْ اٴَسَّسَ بُنْیَانَهُ عَلَی تَقْوَی مِنْ اللهِ وَرِضْوَانٍ خَیْرٌ اٴَمْ مَنْ اٴَسَّسَ بُنْیَانَهُ عَلَی شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِی نَارِ جَهَنَّم ) ۔

”بنیان “مصدر ہے اور اسم مفعول کے معنی میں ہے یعنی بنیاد اور عمارت۔

”شفا“ کسی چیز کے کنارے یا کنگرہ کو کہتے ہیں ۔

”حرف “ نہر یا کنوئیں کا وہ حاشیہ اور کنارہ ہے جس کے نچلے حصے کو پانی نے خالی کردیا ہو۔

”ہار“ اس کمزور شخص یا کمزور عمارت کو کہتے ہیں جو گررہی ہو ۔

مندرجہ بالا تشبیہ منافقین کے کام کی بے ثباتی اور کمزوری کو اور اہل ایمان کے کام اور لائحہ عمل کے استحکام اور بقا کو روشن اور واضح کررہی ہے۔

مومن کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک عمارت بنانے کے لئے بڑی مضبوط زمین منتخب کرے اور اس کی بیاد بھی مضبوط اور قابل اطمنان مصالح سے رکھے ۔

دوسری طرف مناطق کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنی عمارت دریا کے کنارے ایسی جگہ بنائے جس کے نچلے حصہ کی مٹی سیلاب بہا لے گیا ہواور جو ہر وقت گر نے کو تیار ہو ۔ نفاق کی بھی یہی صورت ہے اس کا بھی ظاہر ہے اور باطن کچھ نہیں اسی طرح اس عمارت کا بھی ظاہر ہے لیکن جس کی کوئی اساس نہیں یہ عمارت کسی بھی وقت گر سکتی ہے ۔ اہل نفاق کا مکتب و مذہب بھیاپنے کھلے باطن کے باعث کسی بھی وقت تباہی اور رسوائی کے انجام کو پہنچ سکتا ہے ۔

پرہیز گاریاور رضائے الہٰی کو طلب کرنا یعنی حقیقت سے ہم آہنگ ہونا، جہانِ خلقت اور اسرار حیات سے ہم قدم ہونا بلا شبہ بقاء اور ثبات کاعامل ہے ۔لیکن نفاق یعنی حقائق سے بے گانگی اور قوانینِ فطرت سے بغاوت بلا شبہ زوال اور فنا کاعامل ہے۔

منافقین چونکہ اپنے آپ سے بھی ظلم کرتے ہیں اور معاشرے ست بھی لہٰذا آیت کے آخر میں فرمایا گیاہے ، خدا ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔( وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) ۔

جیسا کہ ہم نے بر ہا کہاہے ، ہدایت ِ خدا وندی یعنی مقصد تک پہنچنے کے لئے مقد مات کی فراہمی صرف ان کے لئے ہے ۔

جو اس کا استحقاق اور اہلیت رکھتے ہیں ۔ لیکن وہ ظالم جن میں یہ اہلیت نہیں ہے یہ لطف و کرم ہرگز ان کے شامل حال نہیں ہوتا کیونکہ خدا حکیم ہے اور اس کی مشیت حساب و کتاب پر مبنی ہے ۔

زیر نظر آخری آیت میں منافقین کی ہٹ دھرمی ڈھٹائی کی طرف اشارہکرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اس طرح اپنے کام میں ہٹ دھرم ہیں اور نفاق و کفر کی تاریکی میں اس طرح سے سر گرداں ہیں کہ جو عمارت وہ خود کھڑی کرتے ہیں وہ شک و تردد کے عامل کے طور پر یاشک و تردد کے نتیجہ کے طور پر ان کے دلوں میں باقی رہ جاتی ہے مگریہ کہ ان کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور وہ موت کی آغوش میں چلے جائیں( لاَیَزَالُ بُنْیَانُهُمْ الَّذِی بَنَوْا رِیبَةً فِی قُلُوبِهِمْ إِلاَّ اٴَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ ) ۔

وہ ہمیشہ حیرت و سرگردانی کے عالم میں زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ مرکز نفاق اور مسجد ضرارجو انھوں نے بناتھی ایک ہٹ دھرمی اور تردد کے عامل کی صورت میں ان کی روح میں اسی طرحباقی تھی ۔ اگر چہ رسول اللہ نے عمار ت کو جلودیا تھا اور مسمار کروادیا تھا ؛لیکن ایسے تھا جیسے اس کا نقش ان کے شک زدہ دل سے کبھی زائل نہ ہوگا ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : اور خدادانا و حکیم ہے( وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ) ۔

خدا تعالیٰ نے اگر رسول اللہ کو ان کے خلاف اقدام کا حکم دیا اور ان کی ایسی عمارت کو مسمار کرنے کے لئے کہا کہ جو ظاہر حق کے لئے تھی تو یہ اس لئے تھا کہ وہ بنانے والوں کی بری نیتوں سے ، بد باطنی اور اس عمارت کی حقیقت سے آگاہ تھا۔۔ یہ حکم عین حکمت و مصلحت کے مطابق تھا اس کا مقصد اسلامی معاشرے کی بھلائی اور درستی تھا۔ یہ نہیں کہ یہ کوئی جلد بازی کا فیصلہ تھااور نہ ہی یہ غیض و غضب کا نتیجہ تھا ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ عظیم درس :

مسجد ضرار کا واقعہ تمام مسلمانوں کے لئے پوری زندگی میں ایک درس ہے ۔ کلام ِ خدا اور عمل رسول واضح طور پر نشان دہی کرتا ہے کہ مسلمانوں کو کبھی بھی ایسا ظاہر بین بھی نہیں ہونا چاہئیے کہوہ صرف ظاہر ی طور پر کاموں کے حق بجانب ہونے پر نظر رکھیں اور ان کے اصلی اغراض و مقاصد سے بے خبر اور لاتعلق رہیں ۔ مسلمان وہ ہے جو نفاق او رمنافق کو ہر وقت ، ہر جگہ ، ہر لباس میں اور چہرے میں پہچان لے ۔ اگر چہ دین و مذہب کے چہرے اور قرآن مسجد کی حمایت کے لباس ہی میں کیوں نہ ہو۔

مذہب سے مذہب کے خلاف فائدہ اٹھا ناکوئی نئی چیز نہیں ۔ استعمار گروں ، جابر حکمرانوں اور منافقوں کے طور طریقے ہمیشہ ہرمعاشرے میں یہی رہے ہیں ۔ اگر لوگ کسی خاص مطلب کی طرف جھاو رکھتے ہیں تو وہ پہلے انھیں تو وہ پہلے انھیں اسی جھاو سے غافل کرتے ہیں اور پھر اپنے استعماری مقاصد بروئے کار لاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مذہب کے خلاف مذہب ہی کی قوت سے مدد لیتے ہیں ۔

اصولی طور پر جعلی پیغمبروں اور باطل مذاہب گھڑنے کا یہی فلسفہ تھا کہ اس راستے سے لوگوں کے مذہبی جھکاو اور میلان کو اپنی پسند کی راہ پر ڈال دیا جائے ۔

واضح رہے کہ مدینہ کے ماحول میں ، وہ بھی رسول اللہ کے زمنے میں جب اسلام اور قرآن لوگوں میں بہت زیادہ نفوذ کر چکا تھا ، اسلام کے خلاف کھلے بندوں جنگ ممکن نہ تھی بلکہ ضروری تھا کہ بے دینی کو دین کے پیکٹ میں پیش کیا جائے اور باطل کو حق لباس پہنا کر لایا جائے تاکہ سادہ دل لوگوں کو کھینچا جاسکے او ریوں برے مقاصد کو عملی جامہ پہنایا جاسکے ۔

لیکن سچا مسلمان وہ نہیں جو ایسا سطحی اور سادہ ہو کہ ایسے ظواہر سے دھوکا کھالے ۔ اسے چاہئیے کہ ایسے کاموں کے عوامل ، ان کے پیچھے کار فرما یاتھوں اور دوسرے قرائن کوسامنے رکھکر ان کی حقیقت معلوم کرے اور ظاہری چہرے ک پیچھے لوگوں کے باطنی چہرے کو بھی دیکھے ۔

مسلمان وہ نہیں جو ہر پکار کو صرف یہ دیکھ کر قبول کرلے کہ یہ حق کی آواز ہے چاہے وہ جس گلے سے بھی نکل رہی ہو اور نہ وہ مسلمان ہے جو اپنی طرف بڑھنے والے ہرہاتھ کو پکڑلے ۔ ہر کام جو ظاہر دینی ہو اسے دیکھتے ہیں اس کے ہم قدم ہو جائے ، اسلام کو ہوشیار ، آگاہ،حقیقت شناس ، مستقبل پر نظر رکھنے والااور تمام معاشرتی مسائل کا تجزیہ و تحلیل کرنے کے قابل ہونا چاہئیے ۔ چاہیئے کہ وہ فرشتوں کے لباس میں جنو کو پہچان لے ۔ چرواہے کے لباس میں بھڑئیے کو پہچان لے اور اپنے آپ کو دوست نماز دشمنوں سے مقابلے کے لئے تیار کرے ۔

اسلام میں ایک بنیادی چیز یہ ہے کہ ہر چیز سے پہلے نیتوں اور ارادوں کو دیکھا جائے ۔ اسلام کی نظر میں ہر عمل کی قدر و قیمت اس کی نیت کے ساتھ وابستہ ہے نہ کہاس کے ظاہر کے ساتھ ۔ نیت اگر چہ ایک باطنی چیز ہے تا ہم ممکن نہیں کہ کوئی شخص اپنی نیت صرف دل میں رکھے رہے اور اس کا اثر اس کے عمل میں ظاہر ہو اگر چہ وہ رازی داری میں بڑا ماہر اور استاد ہی کیوں نہ ہو۔

یہاں سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے کہ اتنا با عظمت مقام یعنی مسجد اور خانہ خدا ہونے کے باوجود اسے جلانے کا حکم کیوں دیا؟ وہ مسجد جس کی ریت کا ایک ذرہ باہر نہیں جا سکتا اسے کیوں تباہ کردیا اور وہ مقام کہ اگر نجس ہ وجائے تو فوراً پاک کرنا چاہئیے اسے شہر کی گندگی پھینکنے کامقام کیوں قرار دیا؟

ان سوالا ت کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ مسجد ضرارمسجد ہی نہ تھی ، در حقیقت وہ بت خانہ تھا ۔ مقدس جگہ نہ تھی افتراق اور نفاق کا مرکز تھا خدا کا گھر نہ تھا بلکہ شیطان کا گھر تھا۔ ظاہر نام اور نقاب کسی چیز کی حقیقت کو نہیں بدل سکتے۔

یہ ہے وہ عظیم درس جو مسجد ضرار کی داستان نے ہر دور کے تمام مسلمانوں دیا ہے ۔

اس بحث سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کی اسلام کی نظر اس قدر اہمیت ہے کہ اگر ایک مسجد کا دوسری مسجد کے قریب بنانا مسلمانوں کی صفوں کے درمیان تفرقہ بازی ، اختلاف اور شگاف پیدا ہونے کا باعث ہوتو وہ تفرقہ انداز مسجد غیرمقدس ہے ۔

۲ ۔ صرف نفی کافی نہیں :

دوسرا درس جو ہمیں مندرجہ بالا آیات سے ملتا ہے یہ ہے کہ خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ مسجد ضرار میں نماز نہ پڑھو بلکہ اس مسجد میں نماز پڑھو جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔

یہ ”نفی “ اور ” اثبات“ اسلام کے اصلی شعار ”لااله الا الله “ سے لے کر اس کے ہر چھوٹے بڑے پرگرام میں جلوہ گر ہے یہ امر اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ ہمیشہہ رنفی کے ساتھ ایک اثبات ہونا چاہئیے تاکہ وہ خود جامہ عملی پہنے ۔ اگر ہم لوگوں کو برائی کے مراکز میں جانے سے منع کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ ان کے مقابلے میں پاک و پاکیزہ مراکز قائم کریں جو معاشرے او رجمیعت کی روح تسکین کا باعث ہوں ۔ اگر غلط تفریح سے لوگوں کو روکتے ہیں تو ہمیں صحیح تفریح کے مواقع فراہم کرنا چاہییں ۔ اگر ہم سامراجی مدارس اور تعلیمی ادراروں میں جانے سے منع کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ صحیح مراکز ِ تعلیم و تربیت مہیا کریں ۔ اگر ہم بے حیائی اور بے عفتی کی مذمت کرتے ہیں تو ہمیں نوجوانوں کے لئے شادی کے آسان وسائل فراہم کرنا چاہییں ۔

وہ لوگ جو اپنی تمام تر قوت ” نفی “ میں استعمال کرتے ہیں اور ان کے لائحہ عمل میں اثبات کا کوئی نام و نشان نہیں ، انھیں یقین کرلینا چاہئیے کہ ان کی نفی کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے کیونکہ سنت خلقت ہے کہ تما غرائز او رجذبات کو صحیح راستے سے سیراب کیا جائے ۔ کیونکہ اسلام کا یہ مسلمہ طریقہ ہے کہ ” لا “ کو ”الاّ“ کےس اتھ باہم ہونا چا ہئیے تاکہ اس سے حیات بخش توحید پیدا ہو سکے ۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ یہ درس ہے کہ جسے بہت سے مسلمان فراموش کرچکے ہیں اور پھر بھی شکایت کرتے ہیں کہ اسلامی پرگراموں میں پیش رفت کیوں نہیں ہوتی حالانکہ ان کے خیالات کے بر عکس اسلام کا پر گرام نفی میں منحصر نہیں ہے اگر وہ نفی اور اثبات کو ساتھ ساتھ رکھتے تو اسلامی پیش رفت حتمی اور یقینی ہوتی ۔

۳ ۔ دو بنیادی شرطیں :

تیسرا قیمتی درس جو ہمیں مسجد ضرار کے واقعہ سے اور زیر بحث آیت سے ملتا ہے یہ ہے کہ ایک فعال او رمثبت دینی اور اجتماعی مرکز وہ ہے جو دو مثبت عناصر سے تشکیل پائے۔

پہلایہ کہ اس کی بنیاد اور مقصد پاک ہو (اسس علی التقویٰ من اول یوم

دوسرا یہ کہ اس کے حامی اور نگہبان پاک ، صالح ، صاحب ایمان ، مضبوط دل او رمخلص ہوں( فیه رجال یحبون ان یتطهروا ) ۔

ان دو منیادی ارکان کے نتیجہ اور مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔

آیات ۱۱۱،۱۱۲

۱۱۱ ۔( إِنَّ اللهَ اشْتَرَی مِنْ الْمُؤْمِنِینَ اٴَنفُسَُمْ وَاٴَمْوَالَهُمْ بِاٴَنَّ لهُمْ الْجَنَّةَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ اٴَوْفَی بِعهْدِهِ مِنْ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمْ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِهِ وَذَلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) ۔

۱۱۲ ۔( التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاکِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنْ الْمُنکَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللهِ وَبَشِّرْ الْمُؤْمِنِینَ ) ۔

ترجمہ

۱۱۱ ۔ خدا مومنین سے ان کی جانیں اور مال خرید تا ہے کہ تاکہ ( ان کے بدلے ) ان کے لئے جنت ہو( اس طرح سے کہ ) وہ راہ ِخدا میں جنگ کرتے ہیں ، قتل کرتے ہیں ۔یہ سچا وعدہ اس کے ذمہ ہے جو اسنے توریت ، انجیل اور قراں میں ذکر فرمایاہے اور خدا سے بڑھ کراپنا وعدہ وفا کرنے والا کون ہے ۔ اب تمہارے لئے خوش خبری ہے اس خرید و فریخت کے بارے میں جو تم نے خدا سے کی ہے اور یہ ( تمہارے لئے ) عظیم کامیابی ہے ۔

۱۱۲ ۔ ( مومن وہ ہیں جو ) توبہ کرنے والے ، عبادت کرنے والے ، حمد و ثنا کرنے والے ، سیا حت کرنے والے ، رکوع کر نے والے ، سجدہ کرنے والے ، برائی سے روکنے والے اور خدائی حود ( اور سر حدوں ) کی حفاظت کرنے والے ہیں اور ( ایسے ) مومنین کو خوشخبری دو۔

ایک بے مثال تجارت

گذشتہ آیات میں چونکہ جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے لہٰذا ان دو آیات میں ایک عمدہ مثال کے ساتھ صاحب ایمان مجاہدین کے بلند مقام کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس مثال میں خدا نے اپنا خرید ار کی حیثیت سے تعارف کروایا ہے ارشاد ہوتا ہے : خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لئے ہیں اور اس مال و متاع کے بدلے انھیں جنت دے گا( إِنَّ اللهَ اشْتَرَی مِنْ الْمُؤْمِنِینَ اٴَنفُسَُمْ وَاٴَمْوَالَهُمْ بِاٴَنَّ لهُمْ الْجَنَّةَ ) ۔

ہر خرید و فروخت کے معاملے میں پانچ بنیادی اراکین ہوتے ہیں جو یہ ہیں :۔

۱ ۔ خرید ار

۲ ۔ بیچنے والا

۳ ۔ مال و متاع

۴ ۔ قیمت اور

۵ ۔ معاملہ کی سند ۔

اس آیت میں خدا تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔اپنے آپ کو خرید ار ، مومنین کو بیچنے والا، مومنین کی جانوں اور مالوں کو مال متاع اور جنت کو اس معالے کی قیتم قرار دیا ہے البتہ اس مال و متاع کو ادا کرنے کی طرز کے لئے ایک لطیف تعبیر استعمال کی گئی ہے یعنی ” وہ راہ خدا میں جنگ کرتے ہیں اور دشمنان ِ حق کو قتل کرتے ہیں یا اس راہ میں قتل ہو جاتے ہیں او رجام ِ شہادت نوش کرتے ہیں “( یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ ) ۔

در حقیقت خدا کا ہاتھ میدان جہاد میں صرف ہونے والے متاع ِ جان ومال کو لینے کےلئے کھلا ہے ۔

اس کے بعد پانچویں رکن کی طرف اشارہ ہے جو کہ معامے کی محکم سند ہے فرمایا گیا ہے : یہ خدا کے ذمہ سچا وعدہ ہے جو تین آسمانی کتابوں تورات، انجیل اور قرآن میں آیا ہے( وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ وَالْقُرْآنِ ) ۔

البتہ ”فی سبیل اللہ “ کی تعبیر کی طرف توجہ کرتے ہوئےاچھی طرح واضح ہوجاتاہے کہ خدا ان جانوں مساعی اور مجاہدات کا خریدار ہے جو اس راہ میں صرف ہوتی ہیں یعنی خدا ہر اس کو شش کو خریدار ہے جو حق و عدالت کے لئے ہو او رجو انسانوں کو کفر ظلم اور فساد کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے ہو۔

اس کے بعد قرآن اس عظیم معاملے کے لئے تاکید کرتے ہوئے مزید کہتا ہے : خدا سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے( وَمَنْ اٴَوْفَی بِعهْدِهِ مِنْ اللهِ ) ۔یعنی اگر چہ ا س معالے کی قیمت فوراً ادا نہیں کی جائے گی تاہم بیع نسیہ(۱)

کے خطرات میں نہیں کیونکہ خد ااپنی قدرت اور بے نیازی کے سبب ہر شخص کی نسبت اپنے عہدوپیمان کو زیادہ پو را کرنے والا ہے ۔ نہ وہ بھولتا ہے اور نہ ادا کرنے سے عاجز ہے اور نہ ہی پورا کرنے کے بارے میں اور وعدہ کے مطابق قیمت ادا کرنے سے متعلق کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔

سب سے زیادہ جالب ِ نظر امر یہ ہے کہ ا س معاملے کے مراسم کی انجام دہی کے بعد کہ تجارت کرنے والوں کا معمول ہے کہ دوسرے کو مبارکبادی دی جاتی ہے ، خدا تعالیٰ معاملے کو سود مند قرار دےتے ہوئے کہتا ہے : تمہیں خوشخبری ہو ا س معاملہ پر ، جو تم نے انجام دیا ہے( فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمْ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِهِ ) ۔(۲)

ایسی نظیر دوسری عبارتوں میں بھی آئی ہے ۔ مثلاً سورہ صف کی آیات ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲ ، میں فرمایا گیا ہے ۔

( یا ایها الذین اٰمنوا هل ادلکم علی تجارة تنجیکم من عذاب الیه توٴمنون بالله و رسول و تجاهدون فی سبیل الله باموالکم و انفسکم ذاٰلکم خیرلکم انکنتم تعلمون یغفرلکم ذنوبکم ویدخلکم جنٰات تجری من تحتها الانهار و مسٰکن طیبة فی جنات عد ذٰلک الفوز العظیم ) ۔

یعنی اے ایمان والو! کیا تمہیں ایسی تجارت کی رہبری کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے ۔ اللہ اور ا س کے رسول پر ایمان لاو اور اپنے مالوں ا ور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اگر تم جانو۔ وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں ایسی بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور جنات عدن میں رہنے کی پاکیز ہ جگہیں ہوں گی ۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔

یہاں انسان پروردگار کے اس لطیف پر حیرت میں ڈوب جاتا ہے وہ خدا جو تمام عالم ہستی کا مالک ہے او رتمام جہاں آفرینش پر حاکم ِ مطلق ہے اور ہرشخص کے پاس جو کچھ ہے اسی کیطرف سے ہے جب وہ اپنی ہی عطا کردہ نعمتیں اپنے بندوں سے خرید نے پر آتا ہی ہے تو انھیں ہزارہا گناقیمت پر خریدتا ہے ۔

زیادہ عجیب تو یہ بات ہے کہ جہاد جو انسان کی اپنی سر بلندی اور ہر قوم و ملت کی کامیابی و افتخار کا ذریعہ ہے او راس کے ثمرات آخر کار خود انسان ہی کو حاصل ہوتے ہیں اسے اس متاع کی ادائیگی کا ذریعہ شمار کیا گیا ہے ۔ نیز اگر چہ ضروری ہے مال و متا ع اور قیمت کے درمیان کچھ توازن ہو نا چاہئیے لیکن اس پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے او رایک نائیدار متاع جو بہر حال فنا ہونے والی سے ( چاہے بیماری کے بستر پرختم ہو جائے یا میدان جنگ میں ) اس کے بدلے سعادت ابدی عطا کرتا ہے ۔

اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اگر چہ خدا تمام سچوں سے زیادہ سچا ہے اور اسے کسی سند اور ضمانت کی احتیاج نہیں ا س کے باوجود وہ اپنے بندوں کے لئے اہم ترین اسناد اور ضمانتیں پیش کرتا ہے ۔ پھر اس عظیم معاملہ کے آخر میں انھیں مبارک دیتاہے اور بشات دیتا ہے کیا اس سے بالاتر کسی لطف و کرم اور محبت و رحمت کا تصور ہو سکتا ہے اور کیا کوئی معاملہ اس سے بڑھ کر سود مندہو سکتا ہے ۔ اسی لئے ایک حدیث میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے مروی ہے کہ جب زیر نظر آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم مسجد میں تھے آپ نے اس آیت کو بلند آواز میں تلاوت کیا، اور لوگوں نے تکبیر کہی۔ انصار میں سے ایک شخص سامنے آیا ۔ اس نے بڑے تعجب سے پیغمبر سے پوچھا: کیا واقعاً یہ آیت تھی جو نازل ہو ئی ہے ۔

پیغمبر نے فرمایا:ہاں

وہ انصاری کہنے لگا :بیع ربیح لانقیل ولا نستقیل

یعنی ہم اس معاملہ کو نہیں لوٹائیں گے اور اگرہم سے چاہا گیا کہ اس سودے کو واپس کردیں تو تو ہم قبول نہیں کریں گے ۔(۳)

جیسا کہ قرآن کی روش ہے کہ ایک آیت میں ایک بات کو اجمال کے ساتھ پیش کرتا ہے اور بعد والی آیت میں اس کی تشریح و توضیح کرتا ہے ۔ دوسری محلِ بحث آیت میں مومنین جو خدا کے پاس اپنی جان و مال بیچنے والے ہیں ، کا واضح صفات کے ساتھ کا تعارف کرواتا ہے :

۱ ۔ وہ توبہ کرنے والے ہیں اپنے قلب و روح کی آلودگی کو توبہ کے پانی سے دھوتے ہیں( التَّائِبُونَ ) ۔

۲ ۔ وہ عبادت کرنے والے ہیں خدا سے راز و نیاز کے ذریعے اور اس کی پاک ذات کی پرستش سے خود سازی کرتے ہیں او راپنی اصلاح کرتے ہیں ۔( الْعَابِدُونَ ) ۔

۳ ۔ وہ پر وردگا رکی مادی او رمعنوی نعمتون پر اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں( الْحَامِدُونَ ) ۔

۴ ۔ وہ ایک مرکز عبادت سے دوسرے مرکز کی طرف آتے جاتے ہیں( السَّائِحُونَ ) ۔اسی طرح ان کا عبادت کے ذریعے خود سازی کا لائحہ عمل محدود ماحول میں منحصر نہیں رہتا اور کسی خاص علاقے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ ان کے لئے ہر جگہ پر وردگار کی عبادت خو دسازی او رتربیت کا مر کز موجود ہے اور جہاں کہیں بھی اس سلسلے میں کوئی درس مل سکتا ہووہ اس کے طالب ہیں ۔

”سائح“ اصل میں ” سیح“ اور ”سیاحت“ کے مادہ سے جاری رہنے اور استمرار کے معنی میں لیا گیا ہے ۔

یہ کہ زیر نظر آیت میں ”مسائح “ سے مراد کس قسم کی سیاحت اور استمرار مراد لی ہے ۔ رسول اللہ کی ایک حدیث میں ہے :۔

سیاحة امتی فی المساجد

میری مات کی سیر و سیاحت مساجد میں ہے ۔( تفسیر المیزان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں )

بعض نے ”صائح “ کو ”صائم “ یعنی روزہ دار ) کے معنی میں لیا ہے کیو نکہ روزہ پورے دن میں ایک مسلسل کام ہے ۔ ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے :۔ان السائحین هم الصائمون

سائحون روزہ دارہی ہیں ۔( تفسیر نور الثقلین اور دیگر تفاسیر )

بعضدوسرے مفسرین نے سیاحت کو روئے زمین میں سیر و گردش، عظمت ِ خدا کے آثار کا مشاہدہ ، انسانی معاشروں کی پہچان اور مختلف اقوام کی عادات ورسول او رعلوم دانش سے آشنائی جو کہ انسانی افکار کو زندہ اور پختہ کرتی ہے ، سمجھا ہے ۔

بعض دوسرے مفسرین سیا حت کو میدان جہاد ار دشمن سے مقابلے کے لئے سیر و حرکت کے معنی میں سمجھتے ہیں اس سلسلے میں وہ اس مشہور حدیث ِ رسول کو شاہد قرار دیتے ہیں ، کہ :ان سیاحة امتی الجهاد فی سبیل الله

میری امت کی سیرو سیاحت اللہ کی راہ میں جہا د کرنا ہے ۔ ( تفسیر المیزان اور تفسیر المنار ، محل ِ بحث آیت کے ذیل میں )۔

کچھ نے اسے جہان ہستی ، عوامل سعادت اور اسبا ب شکست سے مربوط عقل و فکر کی سیر کے معنی میں سمجھا ہے ۔

لیکن قبل اور بعد کے جو اوصاف شمار کئے گئے ہیں ان کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام معانی میں پہلا معنی زیادہ مناسب معلوم نظر آتا ہے ۔ اگر چہ تمام معانی بھی اس لفظ سے مراد لئے جاسکتے ہیں کیونکہ یہ تمام مفاہیم سیر و سیاحت کے مفہوم میں جمع ہیں ۔

۵ ۔ وہ عظمت الٰہی کے سامنے رکوع کرتے ہیں( الرَّاکِعُونَ ) ۔

۶ ۔ وہ اس کے آستانہ پر جبّہ آسائی کرتے ہیں( السَّاجِدُونَ ) ۔

۷ ۔ وہ لوگوں کو نیکیوں کی دعوت دیتے ہیں( الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ ) ۔

۸ ۔ وہ صر ف نیکی کی دعوت دینے کا فریضہ ادا نہیں کرتے بلکہ ہر قسم کی برائی اور منکر سے بھی جنگ کرتے ہیں( وَالنَّاهُونَ عَنْ الْمُنکَرِ ) ۔

۹ ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادائیگی کے بعد اپنی آخری اور زیادہ اہم اجتماعی ذمہ داری یعنی حدود خداندی کی حفاظت ، اس کے قوانین کا اجراء اور حق و عدالت کے قیام کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں( وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللهِ ) ۔

یہ نو صفات بیان کرنے کے بعد خدا تعالیٰ دوبارہ ایسے سچے او رمکتب ایمان و عمل کے تربیت یافتہ مومنین کو تشویق دلاتا ہے اور پیغمبر اکرم سے کہتا ہے : ان مومنین کو بشارت دو:( وَبَشِّرْ الْمُؤْمِنِینَ ) ۔

یہاں یہ نہیں بتا یا گیا کہ کس چیز کی بشارت ہے یا دوسرے لفظوں میں بشارت بطور مطلق آئی ہے لہٰذا وہ ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے جس میں ہر طرح کی خیر وسعادت شامل ہے یعنی انھیں ہر خیر ، ہر سعادت ، ہر افتخار اور ہر اعزاز کی بشارت دو۔

اس نکتے کی طرف توجہ بھی ضروری ہے کہ ان نو قسم کی صفات میں سے بعض( چھ پہلی صفات ) خو د سازی اور افراد کی تربیت کے ساتھ مربوط ہیں اور ان کا دوسرا حصہ ( ساتویں اور آٹھویں صفت ) اجتماعی فرائض سے متعلق ہے اور معاشرے کو پا ک رکھنے کی طرف اشارہ ہے اور آخری صفت سب لوگوں کی ذمہ داری بیان کررہی ہے اور وہ ہے صالح حکومت کا قیام او رمثبت سیاسی امور میں بھر پور شر کت ۔

____________________

۱۔ بیع نسیہ یہ ہے کہ جو چیز بیچی جائے وہ تو خریدنے والے کو دے دی جائے لیکن اس کی قیمت بعد میں ادا کرنا ہو ۔ ( مترجم )

۲”فاستبشروا ” مادہ “بشارت “ در اصل ”بشره “ یعنی چہرہ کے معنی سے لیا گیا ہے اور خوشی کی طرف اشارہ ہے جس کے آثار چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں ۔

اور یہ تم سب کے لئے عظیم کامیابی ہے (وَذَلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ

۳۔ تفسیر المیزان بحوالہ در المنثور۔