تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25549
ڈاؤنلوڈ: 2459


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25549 / ڈاؤنلوڈ: 2459
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۱۱۷،۱۱۸

۱۱۷ ۔( لَقَدْ تَابَ اللهُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُهاجِرِینَ وَالْاٴَنصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوهُ فِی سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیغُ قُلُوبُ فَرِیقٍ مِنْهم ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَئُوفٌ رَحِیمٌ ) ۔

۱۱۸ ۔( وَعَلَی الثَّلَاثَةِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حَتَّی إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ الْاٴَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیهِمْ اٴَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا اٴَنْ لاَمَلْجَاٴَ مِنْ اللهِ إِلاَّ إِلَیْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوبُوا إِنَّ اللهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ) ۔

ترجمہ

۱۱۷ ۔خدا اپنی اپنی رحمت پیغمبر اور ( اسی طرح ان ) مہاجرین و انصار کے شامل حال کی کہ جنھوں نے عسرت و شدت کے وقت کے وقت (جنگ تبوک میں )ان کی پیروی کی کہ جب کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل حق سے منحرف ہو جائیں ( اور وہ میدان ِ جنگ سے پلٹ آئیں اس کے بعد خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی وہ ان پر مہر با ن اور رحیم ہے ۔

۱۱۸ ۔ ( اسی طرح) ان تین افراد کہ جو مدینہ میں ) وہ گئے تھے ( اور انھوں نے تبوک میں شر کت نہیں کی تھی اور مسلمانوں نے ان سے قطع روابط کرلیا گیا) یہاں تک کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر جنت ہو گئی تھی اور (عالم یہ یہ تھا کہ)انھیں اپنے وجود میں بھی کوئی جگہ نہیں ملتی تھی اور انھوں نے سمجھ لیا کہ خدا کی طرف سوائے اس کے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے ۔ اس وقت خدا نے اپنی رحمت ان کے شامل حال کی اور خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی کیونکہ خدا تو بہ قبول کرنے والا مہر بان ہے ۔

شان نزول

ایک عظیم درس

مفسرین نے کہا ہے کہ پہلی آیت جنگ تبوک کے بارے میں اور اس میں مسلمانوں کو پیش آمدہ مشکلات کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ مشکلات اس قدر تھیں کہ کچھ لوگوں نے پلٹ آنے کا رادہ کرلیا ۔ لیکن خدا کا لطف و کرم اور ا س کی تو فیق ان کے شامل حال ہوئی اور وہ اسی طرح سے جمے رہے ۔

جن افراد کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ، کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک ابو حیثمہ ہے جو اصحاب ِ پیغمبر میں سے تھا ، منافقین میں سے نہ تھا لیکن سستی کی وجہ سے پیغمبر اکرم کے ساتھ میدان ِ تبوک میں نہ گیا ۔

اس واقعہ کو دس دن گزرگئے ۔ ہو اگرم اور جلادینے والی تھی ، ایک دن اپنی بیویوں کے پاس آیا انھوں نے ایک سائبان تان رکھا تھا ، ٹھنڈا پانی مہا کررکھا تھا اور بہترین کھا نا تیار کررکھا تھا ۔ وہ اچانک غور و فکر میں ڈوب گیا او راپنے پیشوا رسول اللہ کی یاد سے ستانے لگی ۔ اس نے کہا :۔

رسول اللہ کہ جنھوں نے کبھی گناہ نہیں کیا اور خدا ان کے گذشتہ اور آئندہ کاذمہ دار ہے : بیا بان کی جلا ڈالنے والی ہواوں میں کندھے پر ہتھیار اٹھائے اس دشوار گذار سفر کی مشکلات اٹھا رہے ہیں اور ابو حیثمہ کو دیکھو کہ ٹھنڈے سائے میں تیار کھانے اور خوبصورت بیویوں کے پاس بیٹھا ہے ، کیا یہ انصاف ہے ؟

اس کے بعد اس نے اپنی بیویوں کی طرف رخ کیا اور کہا :

خدا کی قسم تم میں سے کسی کے ساتھ میں بات نہ کروں گا اور سائبان کے نیچے نہیں بیٹھوں گا جب تک پیغمبر سے نہ جاملوں ۔

یہ بات کہہ کر اس نے زاد راہ لیا ،اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور چل کھڑا ہوا۔ اس کی بیویوں نے بہت چاہا کہ اس سے بات کریں لیکن اس نے ایک لفظ نہ کہا اور اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ تبوک کے قریب جاپہنچا ۔

مسلمان ایک دوسرے سے کہنے لگے : یہ کوئی سوار ہے جو سڑک سے گذررہاہے ْ لیکن پیغمبر اکرم نے فرمایا : اے سوار تم ابوحیثمہ ہو تو بہتر ہے ۔

جب وہ قریب پہنچا اور لوگوں نے اسے پہچان لیا تو کہنے لگے جی ہاں ! ابو حیثمہ ہے ۔

اس نے اپنا اونٹ زمین پربٹھا یا اور پیغمبر اکرم کی خدمت میں سلام عرض کیااور اپنا مجرا بیان کیا ۔

رسول اللہ نے اسے خوش آمدید کہا اور اس کے حق میں دعا فرمائی۔

اس طرح وہ ایک ایسا شخص تھا جس کا دل باطل کی طرف مائل ہوگیا تھا لیکن اس کی روحانی آمادگی کی بناء پر خد انے اسے حق کی طرف متوجہ کیا اور اسے ثباتِ قدم بھی عطا کیا ۔

دوسری آیت کے بارے میں ایک شان نزول منقول ہے ا س کاخلاصہ یہ ہے :

مسلمانوں میں سے تین افراد کعب بن مالک ، مراہ بن ربیع اور بلال بن امیہ نے جنگ تبوک میں شر کت نہ کی اور انھوں نے پیغمبر خدا کے ہمراہ سفر نہ کیا لیکن وہ منافقین میں شامل نہیں ہو نا چاہئیے تھے بلکہ ایسا انھوں نے سستی اور کاہلی کی بناء پرکیا تھا ۔

تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ وہ اپنے لئے نادم اور پشیمان ہو گئے ۔

جب رسول اللہ میدان تبوک سے مدینہ لوٹے تو وہ آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معذرت لیکن رسول اللہ نے ان سے ایک لفظ تک نہ کہا اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا کہ کوئی شخص اس سے بات چیت نہ کرے وہ ایک معاشرتی دباو کاشکار ہوگئے ۔ یہاں تک کہ ان کے چھوٹے بچے اور عورتیں رسول اللہ کے پاس آئیں اور اجازت چاہی کہ ان سے الگ ہو جائیں ، آپ نے انھیں علیحدگی کی اجازت تو نہ دی لیکن حکم دیا کہ ان کے قریب نہ جائیں ۔ مدینہ کی فضا وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی ۔ وہ مجبور ہو گئے کہ اس اتنی بڑی ذلت اور رسوائی سے نجات حاصل کرنے کے لئے شہر چھوڑ دیں اور اطراف مدینہ کے پہاڑوں کی چوٹی پر جاکر پناہ لیں ۔

جن باتوں نے جن باتوں نے ان کے جذبات پر شدید ضرب لگائی ان میں سے ایک یہ تھی کہ کعب بن مالک کہتا ہے :

میں ایک دن بازار مدینہ میں پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ ایک شامی عیسائی مجھے تلاش کرتا ہوا آیا۔ جب اس نے مجھے پہچان لیا تو باد شاہ غسان کی طرفسے ایک خط میرے ہاتھ میں دیا ۔ اس میں لکھا تھا کہ اگر تیرے ساتھی نے تجھے دھتکار دیا ہے تو ہماری طرف چلے آو۔ میری حالت منقلب اور غیر ہوگئی اور میں نے کہا وائے ہو مجھ پرمیر امعاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ دشمن میرے بارے میں لالچ کرنے لگے ہیں ۔

خلاصہ یہ کہ ان کے اعزو اقارب ان کے پاس کھانا لے آتے مگر ان سے ایک لفظ بھی نہ کہتے ۔ کچھ مدت اسی صورت میں گزر گئی اور وہ مسلسل انتظار میں تھے کہ ان کی توبہ قبول ہو اور کوئی آیت نازل ہو جو ان کی توبہ کی دلیل بنے ۔ مگر کوئی خبر نہ تھی ۔

اس دوران ان میں سے ایک کے ذہن میں یہ بات آئی اور اس نے دوسروں سے کہا کہ اب جبکہ لوگوں نے ہم سے قطع تعلق کرلیا ہے کیا ہی بہتر ہو کہ ہم بھی ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیں ( یہ ٹھیک ہے کہ ہم گنہ گار ہیں لیکن مناسب ہے کہ دوسرے گنہ گار سے خوش اور راضی نہ ہوں )

انھوں نے ایسا کیا یہاں تک کہ ایک لفظ بھی ایک دوسرے سے نہیں کہتے تھے اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہتا تھا۔اس طرح پچاس دن انھوں نے توبہ و زاری کی اور آخر کار ان کی توبہ قبول ہو گئی۔ اس پر مندرجہ بالا آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

گنہ گاروں کے لئے معاشرتی دبا و

یہ آیات بھی جنگ تبوک سے متعلق اور اس عظیم اسلامی واقعے کے بارے میں مختلف مطالب پر مشتمل ہیں ۔

پہلی آیت میں پرور دگار کی اس لامتناہی رحمت کی طرف اشارہ ہے جو ایسے حساس لمحات میں پیغمبر اور مہاجرین و انصار کے شامل حال ہوئی ۔ ارشاد ہوتا ہے : خدا کی رحمت پیغمبر اور ان کے مہاجرین و انصار کے شامل حال ہوئی جو شدت اور بحران کے موقع پر آنحضرت کی پیروی کرتے ہیں( لَقَدْ تَابَ اللهُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُهاجِرِینَ وَالْاٴَنصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوهُ فِی سَاعَةِ الْعُسْرَةِ ) ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : یہ رحمت الہٰی اس وقت شامل حال ہوئی جب شدت حوادث اور پریشانیوں کے دباو کی وجہ سے قریب تھا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ راہ حق سے پھر جائے ( اور تبوک سے واپسی کاارادہ کرلے )( مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیغُ قُلُوبُ فَرِیقٍ مِنْهم ) ۔

دوبارہ تاکید کی گئی ہے : اس صورت ِ حالکے بعد اللہ نے اپنی رحمت ان کے شامل حال کر دی اور ان کی توبہ قبول کرلی کیونکہ وہ مومنین پر مہر بان اور رحیم ہے( ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَئُوفٌ رَحِیمٌ ) ۔اس کے بعدنہ صرف اس عظیم گروہ پراپنی رحمت نازل کی کہ جو جہاد میں شریک ہوا بلکہ ان تین افراد پر بھی اپنا لطف و کرم کیا جو جنگ میں شریک نہ ہوئے تھے اس لئے مجاہدین انھیں پیچھے چھوڑ گئے تھے( وَعَلَی الثَّلَاثَةِ الَّذِینَ خُلِّفُوا ) ۔لیکن یہ لطف الہٰی انھیں آسانی سے میسر نہیں آیا بلکہ ایسا اس وقت ہوا جب یہ تین افراد ( کعب بن مالک ، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ جن کے بارے میں شانِ نزول میں بتا یا جاچکا ہے ) شدید معاشرتی دباو میں رہ چکے تھے اور تمام لوگوں نے ان کا بائیکات کردیا تھا ” یہاں تک کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی تھی “( حَتَّی إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ الْاٴَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ) ۔اور ان کے سینے اس طرح سے غم اندوہ سے معمور تھے کہ گویا ” انھیں اپنے وجود میں بھی جگہ نہ ملتی تھی “ اور عالم یہ تھا کہ انھوں نے ایک دوسرے سے بھی رابطہ منقطع کرلیا تھا( وَضَاقَتْ عَلَیهِمْ اٴَنفُسُهُم ) اس طرح ان پر تمام راستے بند ہو گئے تھے ”اور انھوں نے یقین کرلیا تھا کہ اس کی طرف باز گشت کے علاوہ غضبِ خدا سے بچنے کے لئے کوئی اور پناہ گاہ نہیں ہے “( وَظَنُّوا اٴَنْ لاَمَلْجَاٴَ مِنْ اللهِ إِلاَّ إِلَیْهِ ) ۔

دوبارہ رحمت ِ خدا انک ے شامل حال ہوئی “۔ اور اس رحمت نے ان کے لئے حقیقی اور مخلصانہ توبہ اور باز گشت ان کے لئے آسان کردی( ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوبُوا ) ۔ کیونکہ خدا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے ۔( ا( ِٕنَّ اللهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔( تاب الله علی النبی ) “ سے کیامراد ہے ؟ :

محل بحث پہلی آیت میں ہم نے پڑھا ہے کہ خدا نے پیغمبر ، مہاجرین اور انصارپر توجہ کی اور ان کی توبہ قبول کی

اس میں شک نہیں کہ معصوم پیغمبر کا تو گناہ ہی نہ تھا کہ خدا اس پر توجہ کرتا اور اس کی تبہ قبول کرتا، اگر چہ اہل سنت کے بعض مفسرین ِ حدیث نے مندرجہ بالا تعبیر کو جنگ تبوک کے واقعہ میں پیغمبر سے کوئی لغزش ہونے کی دلیل قرار دیا ہے لیکن خود اس آیت میں اورقرآن کی دوسری آیات میں غو ر خوض کیا جائے تو یہ تفسیر غلط معلوم ہوتی ہے کیونکہ :

پہلی بات تو یہ ہے کہ پر وردگار کی توبہ کا معنی ٰ ہے ” اس اپنی رحمت کے ساتھ لوٹ آنا “ اور بندوں کی طرف توجہ کرنا اور اس کے مفہوم میں گناہ یالغزش نہیں ہے جیسا کہ سورہ نساء میں بعض احکام ِ اسلام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے :

( یرید الله لیبین لکم و یهدیکم سنن الذین من قبلکم و یتوب علیکم و الله علیم حکیم )

خد اچاہتا ہے کہ تم سے اپنے احکام بیان کرے اور جو لوگ تم سے پہلے تھے ان کی اچھی سنت اور روش کی تمہیں ہدایت کرے اور تم پر ”توبہ “ کرے اور خدا عالم و حکیم ہے ۔

اس آیت میں اور ا س سے پہلے گناہ اور لغزش کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ بلکہ اس آیت کی تصریح کے مطابق گفتگو احکام بیان کرنے کے حوالے سے اور گذشتہ لوگوں کی اچھی طرح سنتوں کی ہدایت کے بارے میں ہورہی ہے یہ چیز خود نشان دہی کرتی ہے کہ یہاں توبہ کا معنی ہے بندوں کے لئے رحمت ِالٰہی شمول ۔

دوسری بات یہ ہے کہ کتب ِ لغت میں بھی توبہ کا ایک یہی معنی مذکور ہے ۔ مشہور کتاب قاموس میں تو بہ کا ایک معنی اس طرح ذکر ہوا ہے :رجع علیه بفضله و قبوله

یعنی اس کی طرف لوٹا اپنے فضل و قبول کرنے سے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ زیر بحث آیت میں مومنین کے صرف ایک گروہ کے انحراف ِ حق کا ذکر ہے حالانکہ خدائی توبہ سب کے لئے قرار دی گئی ہے یہ امر نشان دہی کرتا ہے کہ یہاں خدائی توبہ گناہ پر بندوں کی معذرت قبول کرنے کے معنی میں نہیں ةے بلکہ یہاں اس سے مراد خدا کی خاص رحمت ہے جو ان سخت لمحات میں پیغمبر اور تمام مومنین کی مدد کے لئے آئی ۔ اس میں مہاجرین و انصار میں سے کسی کے لئے استثناء نہیں ہے اور اس رحمت نے انھیں جہادمیں ثابت رکھا۔

۲ ۔ جنگ تبوک کو”ساعة العسرة “ کیوں کہاگیا ؟:

لفظ ”ساعت“ لغت کے اعتبار سے وقت کے ایک حصہ کو کہتے ہیں ، چاہے وہ چھوٹا ہویا بڑا۔ البتہ زیادہ لمبے زمانے کو ساعت نہیں کہا جاسکتا ہے اور ” عسرت “ مشقت اور سختی کے معنی میں ہے ۔

تاریخ اسلام نشاندہی کرتی ہے کہ مسلمان کبھی بھی جنگ تبوک کے موقع کی طرح مشکل صورت ِ حال ، دباو اور زحمت میں مبتلا نہیں ہوئے تھے ۔ کیونکہ ایک تو سفر تبوک سخت گرمی کے عالم میں تھا ۔ دوسرا خشک سالی سے لوگو ں کو تنگ اور ملول کررکھا تھا اور تیسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے نے دن تھے اور اسی پر لوگوں کی سال بھر کی آمدنی کا انحصار تھا ۔

ان تمام چیزوں کے علاوہ مدینہ اور تبوک کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا اور مشرقی روم کی سلطنت کا انھیں سامنا تھا جو اس وقت کی سپر پاور تھی ۔

مزید بر آن سواریاں اور رسد مسلمانوں کے پاس اتناکم تھا کہ بعض اوقات دو افراد مجبور ہوتے تھے کہ ایک ہی سواری پرباری باری سفر کریں بعض پیدل چلنے والوں کے پاس جو تا تک نہیں تھا اور وہ مجبور تھے کہ وہ بیا بان کی جلانے والی ریت پر پا بر ہپنہ چلیں ۔ آب و غذا کی کمی کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات خرمہ کا ایک دانہ چند آدمی یکے بعد دیگرے منہ میں رکھ کر چوستے تھے یہاں تک کہ اس کی صرف گھٹلی رہ جاتی پانی کا ایک گھنونٹ چند آدمیوں کو مل کر پینا پڑتا۔

ان تمام باتوں کے باوجود اکثر مسلمان قوی اور مستحکم جذبہ رکھتے تھے اور تمام مشکلات کے باوجود رسول ِ خدا کے ہمراہ دشمن کی طرف چل پڑے اور اس عجیب استقامت اور پا مردی کا مظاہرہ کرکے ہر دور کے تمام مسلمانوں کے لئے انھوں نے ایک عظیم درس یا دگار کے طور پر چھوڑا۔

ایسا درس جو تمام نسلوں کے لئے کافی ہے یہ درس عظیم اور خطرناک دشمنوں پر کامیابی کا وسیلہ ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں میں ایسے افراد تھے جن کے دل کمزور تھے اور یہی کمزور دل واپس لوٹ جانے کی فکرمیں تھے ان کے بارے میں قرآن کہتا ہے ۔من بعد ما کاد یزیغ قلوب فریق منهم

”یزیغ“ ’زیغ“ کے مادہ سے ہے اس کامطلب ہے حق سے باطل کی طرف انحراف۔

لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ اکثریت کے عالم جذبات نے اور لطفِ پر وردگار نے انھیں بھی اس فکر سے پلٹا دیا اور وہ بھی راہِ حق کے مجاہدین میں شامل ہو گئے ۔

۳ ۔ تین افراد کے لئے ”خلفوا “ کی تعبیر :

مندرجہ بالا آیات میں سست او رسہل انگار تین افراد کے بارے میں ”خلفوا“ کی تعبیر آئی ہے یعنی ” انھیں پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا “۔

یہ تعبیر یا تو اس بناء پرہے کہ جب ایسے افراد سستی کرتے تو مسلمان انھیں پیچھے چھوڑ جاتے اور ان کی پر واہ کے لئے بغیر میدانِ جہا د کی طرف پیش قدمی کرجاتے تھے اور یا اس بناء پرہے کہ جس وقت وہ عذر خواہی کے لئے پیغمبر اکرم کے پاس آئے تو آپ نے ان کا عذر قبول نہ کیا اور ان کی توبہ قبول کرنے کو پس پشت ڈال دیا ۔

۴ ۔ ایک دائمی اور عظیم سبق :

زیر بحث آیات سے جو اہم مسائل معلوم ہوتے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ مجرموں اور فاسدوں کو معاشرتی دباو اور بائیکات کے ذریعے سزا دینے سے متعلق ہے ۔

ہم اچھی طرح سے دیکھ رہے ہیں کہ جنگ ِ تبوک سے پیچھے رہ والے افراد سے بائیکاٹ سے وہ کیسی سختی ، تنگی اور دباو میں مبتلا ہوئے یہ بائیکاٹ ان کے لئے ہر قسم قسم کے قید خانے سے سخت تر تھایہاں کہ اس اجتماعی بائیکاٹ کی وجہ سے ان کی جان لبوں تک آپہنچی او روہ ہر طرف سے ناامید ہو گئے اس طریقے سے اس وقت کے مسلمانوں کے معاشرے پر اس کا ایسا وسیع اثر ہوا کہ اس کے بعد بہت کم افراد ایسی جرات کرتے تھے کہ وہ ایسے گناہ کے مرتکب ہوں ۔

ایسی سزا سے نہ تو قید خانوں کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے نہ ایسی سزاوں پر کوئی خرچ اٹھتا ہے نہ ایسی سزا سستی و کاہلی کا جنم دیتی ہے اور نہ ہی برے اخلاق کو پنپنے دیتی ہے لیکن کی تاثیر ہر قید خانہ سے زیادہ اور بہت ہی دردناک ہے ۔

د رحقیقت یہ ایک بائیکاٹ اور معاشرے کی طرف سے ایسے برے اور فاسد افراد کے خلاف منفی جنگ ہے جو حساس ذمہ داریوں کی ادائیگی سے منہ موڑ لیتے ہیں اگر مسلمان ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے لوگوں کے خلاف اس طرح کا اقدام کریں تو انھیں کامیابی حاصل ہو نا یقینی ہو جائے ۔ اس طرح سے مسلمان اپنے معاشرے کو پا ک کرسکتے ہیں لیکن بد قسمتی سے آج کے اسلامی معاشروں میں ایسے جرائم سے چشم پوش اور سازش کاری تقریبا ً ایک ہمہ گیر بیماری کی شکل اختیار کی چکی ہے یہ صورت حال نہ صرف یہ کہ ایسے افراد کو روک نہیں سکتی بلکہ انھیں ان کے برے اعمال میں مزید دلیر اور لاپر وہ کردیتی ہے ۔

۵ ۔ جنگ تبوک سے مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی:

” تبوک “ کا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جہاں پیغمبر اکرم نے اپنی جنگوں میں پیش قدمی کی ۔ ”تبوک“ میں ایک محکم اور بلند قلعہ کا نام تھا ۔ جو حجاز اور شام کی سر حد پر واقع تھا ۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو سر زمین تبوک کہتے تھے ۔

جزیرہ نما عرب میں اسلام کے تیز رفتار نفوذ کی وجہ سے رسول اللہ کی شہرت اطراف کے تمام ممالک میں گونجنے لگی ۔ باوجودیکہ وہ اس وقت حجاز کی اہمیت کی قائل تھے لیکن طلوع ِ اسلام اور لشکر اسلام کی طاقت کہ جس نے حجاز کو ایک پر چم تلے جمع کرلیا ، نے انھیں اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں ڈال دیا۔

مشرقی روم کی سر حد حجاز سے ملتی تھی ۔ اس حکومت کو خیال ہوا کہ کہیں اسلام کی تیز رفتار ترقی کی وہ پہلی قربانی نہ بن جائے لہٰذا اس نے چالیس ہزار کی زبر دست مسلح فوج جو اس وقت کی روم جیسی طاقتوں کے شایان شان تھی۔ اکھٹی کی اور اسے حجاز کی سر حد پر لاکھڑا کیا یہ خبر مسافرو ں کے ذریعے پیغمبر اکرم کے کانوں تک پہنچی ۔ رسول اللہ نے روم اور دیگر ہمسایوں کو درس عبرت دینے کے لئے توقف کیے بغیر تیاری کا حکم صادر فرمایا۔

آپ کے منادیوں نے مدینہ اور دوسرے علاقوں تک آپ کا پیغام پہنچا یا ۔ تھوڑے ہی عرصے میں تیس ہزار افراد رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے ۔ ان میں دس ہزار سوار اور بیس ہزار پیادہ تھے ۔

موسم بہت گرم تھا ، غلے کے گودام خالی تھے ، اس سال کی فصل ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی ۔ان حالات میں سفر کرنا مسلمانوں کے لئے بہت ہی مشکل تھا۔ لیکن چونکہ خدا اور رسول کا فرمان تھا لہٰذا ہر حالت میں سفر کرنا تھا اور مدینہ اور تبوک کے درمیان پر خطر ، طول صحرا کو عبور کرنا تھا ۔ اس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے دالی زہریلی ہوائیں چلتی تھیں سنگریزہ اڑتے تھے جھکڑ چلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تھیں ، اس لئے یہ ” جیش العسرة “ ( یعنی سختیوں والا لشکر )کے نام سے مشہور ہوا۔ ا س نے تمام سختیوں کو جھیلا اورماہ شعبان کی ابتداء میں ہجرت کے نویں سال سر زمین تبوک میں پہنچا جبکہ رسول اللہ حضرت علی کو اپنی جگہ پر مدینہ میں چھوڑ آئے تھے ۔ یہ واحد غزوہ ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام شریک نہیں ہوئے ۔

رسول اللہ کا اقدام بہت ہی مناسب اور ضروری تھا کیونکہ بہت احتمال تھا کہ بعض پیچھے رہنے والے مشرکین یا منافقین جو حیلوں بہانوں سے میدان ِ تبوک میں شریک نہ ہوئے تھے رسول اللہ اور ان کی فوج کی طویل غیبت سے فائدہ اٹھائیں او رمدینہ پر حملہ کردیں ۔ عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں اور مدینہ کو تاخت و تاراج کردیں لیکن حضرت علیعليه‌السلام کا مدینہ میں رہ جانا ان کی سازشوں کے مقابلے میں ایک طاقتور بند تھا ۔

بہت حال جب رسول اللہ تبوک میں پہنچے تو وہاں آپ کو رومی فوج کا کوئی نام و نشان نظر نہ آیا ۔ عظیم سپاہ اسلام چونکہ کئی جنگوں میں اپنی عجیب و غریب جرات وشجاعت کا مظاہرہ کر چکی تھی جب ان کے آنے کی خبر رومیوں کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے اسی کو بہتر سمجھا کے اپنے ملک کے اندر چلے جائیں اور اس طرح سے ظاہر کریں کہ مدینہ پر حمل ہ کرنے کے لئے لشکر ِ روم کی سر حدوں پر جمع ہو نے کی خبر ایک بے بنیاد افواہ سے زیادہ کچھ نہ تھی کیونکہ وہ ایک ایسی خطرناک جنگ شروع کرنے سے ڈرتے تھے کہ جس کا جواز بھی ان کے پاس کوئی تھا لیکن لشکر اسلام اس طرح سے تیز رفتاری سے میدان تبوک میں پہنچنے سے دشمنان اسلام کو کئی درس سکھائے ، مثلاً:

۱ ۔ یہ بات ثابت ہو گئی کہ مجاہدین اسلام کا جذبہ جہاد اس قدر وقی ہے کہ وہ اس زمانے کی نہایت طاقت در فوج سے نہیں ڈرتے ۔

۲ ۔ بہت سے قبائل اور اطراف، تبوک کے امراء پیغمبر اسلام کی خدمت میں آئے اور آپ سے تعرض او رجنگ نہ کرنے کے عہد و پیمان پر دستخظ کیے اس طرح مسلمان ان کی طرف سے آسودہ خاطر ہو گئے ۔

۳ ۔ اسلام کی لہریں سلطنت ِ روم کی سر حدوں کے اندر تک چلی گئیں اور اس وقت کے ایک اہم واقعے کے طور پر اس کی آواز ہر جگہ گونجی اور رومیوں کے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کے لئے زمین ہموار ہوگئی۔

۴ ۔ یہ راستہ طے کرنے اور زحمتوں کو بر داشت کرنے سے آیندہ شام کا علاقہ فتح کرنے کے لئے راہ ہموار ہ وگئی اور معلوم ہو گیا کہ آخر کار یہ راستہ طے کرنا ہی ہے ۔

یہ عظیم فوائد ایسے تھے کہ جن کے لئے لشکر کی زحمت بر داشت کی جا سکتی تھی ۔

بہر حال پیغمبر اکرم نے اپنی سنت کے مطابق اپنی فوج سے مشورہ کیا کہ پیش قدمی جاری رکھی جائے یا واپس پلٹ جایا جائے ۔ اکثریت کی رائے یہ تھی کہ پلٹ جانا بہتر ہے اور یہ اسلامی اصولوں کی روح سے زیادہ منا سبت رکھتا تھا خصوصاً جبکہ اس وقت طاقت فرمسا سفر اور راستے کی مشقت و زحمت کے باعث اسلامی فوج کے سپاہی تھکے ہوئے تھے اور ان کی جسمانی قوت مزاحمت کمزور پڑچکی تھی ۔

رسول اللہ نے اس رائے کو صحیح قرار دیا اور لشکر اسلام مدینہ کی طرف لوٹ آیا ۔

آیت ۱۱۹

۱۱۹ ۔( یَااٴَیهَُا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ) ۔

ترجمہ

۱۱۹ ۔ اے ایمان والو! خدا ( کے ہر حکم کی مخالفت ) سے ڈرو اور سچوں کا ساتھ دو ۔

سچوں کا ساتھ دو

گذشتہ آیات میں متخلفین اور جنگ سے منہ موڑ نے والوں کے بارے میں گفتگو تھی ۔ متخلفین وہ لوگ تھے جنھوں نے خدا اور رسول سے کئے ہوئے عہد کو توڑ ڈالا وہ لوگ جو عملی طو رپر خدا اور قیامت پر اپنے اظہار ایمان کی تکذیب کرچکے تھے اور ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں نے قطع روابط کرکے انھیں کس طرح سے تنبیہ کی ۔

زیر بحث آیت میں ان کے مد مقابل دوسرے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنا رابطہ سچے لوگوں کے ساتھ اور ان کے ساتھ جو اپنے عہد پر قائم ہیں ، مستحکم رکھو۔

پہلے فرمایا گیا ہے : اے ایمان والو! حکم خدا کی مخالفت سے بچوں( یَااٴَیّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ ) ۔اور اس بناء پر کہ اہل ایمان تقویٰ کی پر پیچ وخم راہ کو غلطی اور انحراف کے بغیر طے کر سکیں ، مزید فرمایا گیا ہے سچوں کا ساتھ دو( وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ) ۔

اس بارے میں ” صادقین “کون ہیں ، مفسرین نے مختلف احتمالات ذکر کئے ہیں لیکن اگر ہم راستے کو مختصر کرنا چاہیں تو ہمیں خود قرآن کو طرف رجوع کرنا چاہیئے جس نے متعدد آیات میں ”صادقین “ کی تفسیر کی ہے ۔

سورہ بقرہ میں ہے :۔

( لیس البر ان تولّوا وجوهکم قبل المشرق و المغرب ولٰکن البر من اٰمن بالله و الیوم الاٰخر و الملآئکة و الکتاب النبیین و اٰتیال مال علیٰ حبه ذوی القربیٰ و الیتٰمیٰ و المسٰاکین و ابن السبیل و السآئلین و فی الرقاب و اقام الصلٰواة و اٰتی الزکوٰة و الموفون بعهدهم اذا عٰهدوا و الصا برین فی الباٴسآء و الضرٓاء حین الباٴس اولٰٓئک الذین صدقوا و اولٰٓئک هم المتقون ) ۔(بقرہ۔ ۱۷۷)

اس آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ قبلہ کی تبدیلی کے مسئلے میں مسلمانوں کو زیادہ باتیں کرنے سے منع کیا گیا ہے اور پھر اس کے بعد نیکی کی حقیقت کی اس طرح وضاحت کی گئی ہے ۔

خدا روز قیامت ، ملائکہ ، آسمانی کتب اور انبیاء پر ایمان لانا۔

اس کے بعد فرمایا :

راہ خدا میں حاجت مندوں اور محروم لو گوں پر خرچ کرنا ، نماز قائم کرنا ، زکوٰة ادا کرنا ، عہد و پیمان پو را کرنا او رجہاد کے وقت مشکلات کے سامنے صبر و استقامت دکھانا ۔ ان سب چیزوں کے ذکر کے بعد فرمایا گیا ہے :

جو لوگ ان صفات کے حامل ہوں وہ صاد ق اور پرہیزگار ہیں ۔

اسی طرح صادق وہ ہے جو تمام مقدسات پر ایمان رکھتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ہر میدان میں عمل بھی کرتا ہو۔

سورہ حجرات آیہ ۱۵ میں ہے :

( انما المومنون الذین اٰمنوا بالله و رسوله ثم لم یرتابوا وجاهدوا باموالهم و انفسهم فی سبیل الله اولٰئک هم الصادقون ) ۔

یعنی .( اس مال میں ) ان مفلس مہاجروں کا ( حصہ ) ہے جو اپنے گھروں سے او رمالوں سے دور کردئیے گئے ( اور جو ) خدا کے فضل اور خوشنودی کے طلب گار ہیں اور خدا کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ۔ یہی لوگ سچے ہیں ۔

اس آیت میں وہ محروم مومنین کہ جنھوں نے تمام مشکلات کے باوجود پا مردی ار استقامت دکھائی اور اپنے گھر بار اور مال و منال سے زبر دستی الگ کردئے گئے اور جن کا ہدف رضائے الہٰٰی اور نصرت ، پیغمبر کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ۔ انھیں ” صا دقین “ قرار دیا گیا ہے ۔

ان تمام آیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نتیجہ نکالتے ہیں کہ صادقین وہ ہیں جو پر وردگار پر ایمان لانے کے نتیجے میں اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ دار یوں کو اچھی طرح سے انجام دیتے ہیں نہ شک و تردد کا شکار ہوتے ہیں ، نہ پاوں پیچھے ہٹاتے ہیں ، نہ ہی ہجوم ِ مشکلات سے گھبراتے ہیں بلکہ مختلف طرح سے فداکاری کے کے اپنے ایمان کی سچائی کا ثبوت دیتے ہیں ۔

اس میں شک نہیں کہ ان صفات کے کئی مداج اور مراتب ہیں ۔ ممکن ہے بعض لوگ سب سے بالا درجے پر فائز ہوں جنھیں ہم ” معصوم “ کہتے ہیں اور بعض نچلے مراحل میں ہوں ۔

کیا صادقین سے مراد صرف معصومین ہیں ؟

جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں ذکر کیاہے ” صادقین “ کا مفہوم اگر چہ وسیع ہے مگر بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے یہاں مراد صرف معصومین ہیں ۔

سلیم بن قیس ہلالی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن امیر المومنین علیہ السلام کچھ مسلمانوں سے محوِ گفتگو تھے ۔ آپ نے ان سے دیگر باتوں کے علاوہ فرمایا :

میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں ، کیا تمہیں معلو م ہے کہ جد خدا نے( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ) کا حکم نازل ہو اتو سلمان نے عر ض کیا: اے خدا کے رسول ! کیا اس سے مراد عام ہے یا خاص؟ تو رسول اللہ نے فرمایا: اس حکم کے مامور اور ذمہ دار تمام مومنین ہیں لیکن ” صادقین “ کا مفہوم مخصوص ہے میرے بھائی علی کے لئے اور روز قیامت تک اس کے بعد اوصیاء کے لئے ۔

جب علیعليه‌السلام نے یہ سوال کیا تو حاضرین نے کہا : جی ہاں ! یہ بات ہم نے رسول اللہ سے سنی تھی ۔( تفسیر برہان جلد ۲ ص ۱۷۰) ۔

نافع نے عبد اللہ بن عمر سے اس آیت کی تفسیر میں یوں نقل کیا ہے :

خدا نے پہلے مسلمانوں کا حکم دیا ہے کہ وہ خدا سے ڈریں ، اس کے بعد فرمایا ہے : ”( کُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ) “یعنی مع محمد و اھل بیہ (محمد اور ان کے اہل بیت کا ساتھ دو )( تفسیر برہان جلد ۲ ص ۱۷۰) ۔

اہل سنت کے بعض مفسرین مثلاً صاحب المنار مندرجہ بالا روایت کے ذیل میں اس طرح نقل کیا ہے کہ ” مع محمد و اصحابہ “ ( محمد اور ان کے اصحاب کے ساتھ )لیکن مفہوم آیت کی طرف توجہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عام ہے اور ہر زمانے کے لئے ہے اور ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ کے صحابہ ایک محدود زمانھے میں تھے لہٰذا عبد اللہ بن عمر سے جو روایت شیعہ کتب میں آئی ہے ۔ صحیح تر دکھائی دیتی ہے ۔

تفسیر بر ہان کے مصنف نے اسی طرح کا مضمون اہل تسنن کے طرق سے نقل کیا ہے اور کہا ہے : موفق ابن احمد نے اپنی اسناد ابن ِ عباس سے مندر جہ بالا آیت کے ذیل میں اس طرح سے نقل کیا ہے :وھو علی بن ابی طالب

یعنی وہ علی بن ابی طالب ہیں ۔

اس کے بعد کہتا ہے :

یہی مطلب عبد الرزاق نے کتاب رموز الکنوز میں درج کیا ہے ۔ ( تفسیر بر ہان جلد ۲ ص ۱۰۰)

زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں پہلا حکم یہ دیا گیا ہے کہ ” تقویٰ اختیار کرو “ اور اس کے بعد سچوں کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا ہے اگر ” صادقین “ کا مفہوم آیت میں عام ہوتا او رتمام سچے اور با استقامت مومنین اس میں شامل ہوتے تو کہا جاتا” وکونوا مع الصادقین “ یعنی سچوں میں سے رہنا نہ کہ ” سچوں کے ساتھ دو“ ( غور کیجئے گا ) ۔

یہ امر خود اس بات کا قرینہ ہے کہ ” صادقین “ آیت میں ایک خاص گروہ کے لئے آیا ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ ساتھ دینے سے مراد ساتھ رہنا نہیں بلکہ بلا شبہ اس سے مراد ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہے ۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا کسی غیر معصوم کی پیروی اور نقش قدم پر چلنے کا حکم بغیر کسی قید اور شرط کے دیا جا سکتا ہے کیا یہ خود اس امر پر دلیل نہیں کہ صادقین سے مراد صرف ” معصومین “ ہیں ۔

لہٰذ اجوکچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے اگر غور و خوض کریں تو وہی مفہوم خود آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے

یہ بات جانب ِ توجہ ہے کہ معروف مفسری فخر رازی نے جو تعصب اور شک پیدا کرنے میں مشہور یہ حقیقت قبول کی ہے ( اگر چہ زیادہ تر اہل سنت مفسرین اس مسئلہ سے خاموشی سے گذرگئے ہیں ) وہ کہتا ہے :

خدا مومنین کو سچوں کا ساتھ دینے کا حکم دیا ہے لہٰذا آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو لوگ جائز الخطاء ہیں وہ کسی معصوم کی پیروی کریں تاکہ اس پیروی کے ذریعے خطاء سے محفوظ رہیں اور یہ مفہوم ہر دور کے لئے ہونا چاہئیے اور زمانہ پیغمبر میں اسے مخصوص کرنے کے لئے کوئی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے ۔

لیکن بعد میں مزید کہتا ہے :

ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آیت کا مفہوم یہی ہے اور ہر زمانے میں معصوم ہونا چاہئیے ، لیکن ہم اس معصوم کو مجموع ِ امت سمجھتے ہیں نہ کہ کوئی ایک فرد۔ بالفاظ دیگر یہ آیت اجماع ِ مومنین کی حجیّت او رمجموع امت کے خطا نہ کرنے کی دلیل ہے ۔ ۱

یوں فخر رازی آدھا راستہ تو ٹھیک طرح سے طے کرلیا لیکن باقی نصف راہ میں اشتباہ کا شکا رہو گیا اگر وہ ایک نکتے کی طرف توجہ کرتاجو متن آیت میں موجود ہے تو باقی نصف راستہ بھی صحیح طرح سے طے کرلیتا اور وہ نکتہ یہ ہے کہ اگر صادقین سے مراد ساری امت ہے تو خود یہ پیرو بھی اس مجموع کا جز ہے اور یوں در اصل پیرو کا رپیشوا کا حصہ ہو جائے گا او رتابع و متبوع کا اتحاد اور ایک ہونا لازم آئےگا حالانکہ ظاہر آیت یہ ہے کہ پیرو کار اور ہیں اور پیشوا اور ہیں یعنی تابعین او رمتبوعین جد اجدا اور علیحدہ علیحدہ ہیں ( غور کیجئے گا ) ۔

خلاصہ یہ کہ مندرجہ بالا آیت ان آیات میں سے ایک ہے جو ہر زمانے میں موجود معصوم پر دلالت کرتی ہیں ۔

ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ” صادقین “ جمع ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہر زمانے میں متعدد معصوم ہوں ۔

اس سوال کا جواب بھی واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ مخاطب صرف ایک زمانے کے لوگوں نہیں ہیں بلکہ آیت تمام زمانوں کے لئے ہے لہٰذا گفتگو متعدد معصومین کے بارے میں ہو گی نہ کہ ایک فرد کے بارے میں ۔

اس امر کا بولتا ہوا گواہ یہ ہے کہ زمانہ رسول میں سوائے آنحضرت کے کوئی اور واجب الاطاعت نہ تھا۔ جبکہ آیت مسلمہ طور پر اس زما نے مومنین کے لئے بھی تھی ۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ جمع سے مراد ایک زمانے کے افراد نہیں بلکہ جمع زمانوں کے مجموعہ کے لئے ہے ۔

____________________

۱۔ تفسیر فخر رازی ج۱۶ ص ۲۲۰، ص ۲۲۱۔