تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25670
ڈاؤنلوڈ: 2489


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25670 / ڈاؤنلوڈ: 2489
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۱۲۰،۱۲۱

۱۲۰ ۔( مَا کَانَ لِاٴَهْلِ الْمَدِینَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْاٴَعْرَابِ اٴَنْ یَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللهِ وَلاَیَرْغَبُوا بِاٴَنفُسِهِمْ عَنْ نَفْسِهِ ذَلِکَ بِاٴَنَّهُمْ لاَیُصِیبُهُمْ ظَمَاٴٌ وَلاَنَصَبٌ وَلاَمَخْمَصَةٌ فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَیَطَئُونَ مَوْطِئًا یَغِیظُ الْکُفَّارَ وَلاَیَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَیْلًا إِلاَّ کُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللهَ لاَیُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ) ۔

۱۲ ۱۔( وَلاَیُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِیرَةً وَلاَکَبِیرَةً وَلاَیَقْطَعُونَ وَادِیًا إِلاَّ کُتِبَ لَهُمْ لِیَجْزِیَهُمْ اللهُ اٴَحْسَنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

ترجمہ

مناسب نہیں کہ اہل مدینہ اور بادیہ نشین جو اس کے اطراف میں ہیں ، رسول اللہ سے اختلاف کریں اور اپنی جان بچانے کے لئے ان کی جان سے لاپرواہی کریں یہ اس لئے ہے کہ انھیں کوئی پیاس نہیں لگے گی ، نہ خستگی ہو گی ، نہ راہ ِ خدا میں بھوک لگے گی ، نہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھاتے ہیں کہ جو کافروں کے غضب کاموجب ہو او رنہ دشمن سے کوئی ضرب کھاتے ہیں مگر یہ کہ ا سکی وجہ سے ان کے لئے اچھا عمل لکھا جاتا ہے کیونکہ نیک لوگوں کی اجرت ( او رجزا) ضائع نہیں کرتا ۔

۱۲۱ ۔ اور وہ کسی چھوٹے یا بڑے مال کو ( راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے اور کسی زمین کو ( میدان جہاد کی طرف جاتے ہوئے یا اس سے پلٹتے ہوئے ) خرچ نہیں کرتے اور کسی زمین کو ( میدان جہاد کی طرف جاتے ہوئے اس سے پلٹتے ہوئے ) عبور نہیں کرتے مگر یہ کہ ان کے لئے لکھا جاتا ہے تاکہ خدا ان کے بہترین اعمال کے لحاظ سے انہیں جزا دے ۔

مجاہدین کو مشکلات پر جزا ضرور ملے گی

گذشتہ آیات میں جنگ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں سر زنش آئی تھی ۔ زیر بحث دو آیات اس سلسلے میں ایک کلی قانون کے طور پر آخری اور بنیادی بحث کرتی ہیں ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : مدینہ کے لوگ او ربادیہ نشین جو اس مر کز اسلام شہر کے اطراف میں زندگی بسر کرتے ہیں انھیں حق نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ سے اختلاف کریں اور انھیں چھو ڑ کربیٹھ جائیں( مَا کَانَ لِاٴَهْلِ الْمَدِینَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْاٴَعْرَابِ اٴَنْ یَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللهِ ) ۔

اور نہ انھیں یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنی جان کی حفاظت کو رسول کی جان کی حفاظت پر مقدم رکھیں( وَلاَیَرْغَبُوا بِاٴَنفُسِهِمْ عَنْ نَفْسِهِ ) ۔

کیونکہ امت کے رہبر ، اللہ کے رسول اور ملت اسلام کی بقا اور حیات کی علامت ہیں انھیں اکیلا چھوڑ دینا نہ صرف پیغمبر کو خطرے میں ڈالے گا بلکہ دین ِ خدا اور خود مومنین کا وجود اور حیات کا بھی حقیقتاً خطرے میں پڑ جائے گی ۔

در حقیقت قرآن ایک جذباتی بیان کے ذریعے تمام اہل ایمان کو پیغمبر کی حفاظت کرنے پر ابھارتاہے اور مشکلات و مصائب میں ان کی حمایت اور دفاع کی ترغیب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہاری جان اس کی جان سے عزیز تر نہیں ہے اور نہ تمہاری زندگی اس کی حیات سے زیادہ قیمتی ہے ۔ کیا تمہارا ایمان اس کی جازت دیتا ہے کہ وہ ہستی جو بہت ہی زیادہ پر ارزش ہے اور جس کا وجود تمہاری نجات اور رہبری کے لئے ، وہ خطرے میں پڑجائے اور تم سلامت طلب اپنی جان اس کی جان بچانے کے لئے اس کی راہ میں قربانی سے دریغ کرو۔

مسلم ہے کہ مدینہ اور اطراف مدینہ کے لئے تاکید اس بنا پر ہے کہ اس زمانے میں مرکز اسلام مدینہ میں تھا ورنہ یہ حکم نہ مدینہ اور اس کے اطراف کے ساتھ مخصوص ہے اور نہ ہی پیغمبر خدا کے ساتھ مخصوص ہے ۔ تمام مسلمانوں کی ہر دور میں ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رہبروں کو اپنی جان کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ گرامی اور عزیز سمجھیں اور ان کی حفاظت کی کوشش کریں او رمشکلات میں انھیں اکیلا نہ چھوڑیں کیونکہ ان کے لئے خطرہ پوری امت کے لئے خطرہ ہے ۔

اس کے بعد اس اجر و جزا کی طرف اشارہ ہے جو ہر قسم کی مشکلات کا مجاہدانہ مقابلہ کرنے سے مجاہدین کو نصیب ہوتی ہے ان مشکلات میں سے سات اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے :

۱ ۔ ”یہ اس بنا پر ہے کہ انھیں کوئی پیاس نہیں لگتی“( ذَلِکَ بِاٴَنَّهُمْ لاَیُصِیبُهُمْ ظَمَاٴ ) ۔

۲ ۔ ” نہ انھیں کوئی خستگی اور تکان ہوتی ہے “( وَلاَنَصَبٌ ) ۔

۳ ۔ ” نہ راہ خدا میں انھیں کوئی بھوک دامن گیر ہوتی ہے “( وَلاَمَخْمَصَةٌ فِی سَبِیلِ اللهِ ) ۔

۴ ۔ ” نہ کفار کے غیظ و غضب کی وجہ سے کسی خطرے سے دوچار ہوتے ہیں “( وَلاَیَطَئُونَ مَوْطِئًا یَغِیظُ الْکُفَّارَ ) ۔

۵ ۔ ” اور نہ انھیں دشمن کی طرف سے کوئی ضرب لگتی ہے “( وَلاَیَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَیْلًا ) ۔

مگر یہ کہ اس کے ساتھ ان کے لئے عمل صالح لکھاجاتاہے ( ا( ِٕلاَّ کُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ) ۔مسلم ہے کہ خدائے بزرگ و برترکی طرف سے انھیں ایک ایک کرکے جزا اور اجر ملے گا ، کیونکہ خدا نیک لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ہے( إِنَّ اللهَ لاَیُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ) ۔

۶ ۔ اسی طرح ” وہ تھوڑایا زیادہ مال راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے( وَلاَیُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِیرَةً وَلاَکَبِیرَةً ) ۔

۷ ۔ اورمیدان جہاد میں جاتے ہوئے لوٹتے ہوئے وہ کسی سر زمین کو عبور نہیں کرتے مگر یہ کہ یہ تمام قدم اور یہ اخراجات ان کے لئے ثبت ہو ہو جاتے ہیں اور لکھ لئے جاتے ہیں “( وَلاَیَقْطَعُونَ وَادِیًا إِلاَّ کُتِبَ لَهُمْ ) ۔

تاکہ آخر خدا اعمال کے لحاظ سے انھیں بدلہ اور جزا دے( لِیَجْزِیَهُمْ اللهُ اٴَحْسَنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔( لاینا لون من عدو نیلا ) “کا مفہوم :

جیسا کہ سطور بالا میں ذکر ہوا ہے اس جملے اکثر مفسرین نے یہ مراد لیا ہے کہ مجاہد ین راہ ِ خدا میں دشمن سے بی تکلیف اٹھائیں چاہے وہ زخم کی صورت میں ہو یا قید و بد کی صورت میں یا پھر قتل ہونے کی صورت میں ہو خدائی جز ا کے لئے ان کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے اور ہر ایک کی مناسبت سے انھیں اجر ملے گا ۔

اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ آیت مجاہدین کی مشکلات شمار کر رہی ہے یہی معنی مناسب معلوم ہوتا ہے لیکن اگر خود اس جملے کی ب بندی کا سہارا لیں اور اس کے الفاظ کی مناسبت سے اس کی تفسیر کریں تو پھر اس کا معنی یہ ہوگا کہ وہ پیکر دشمن پر ج وبھی ضرب لگاتے ہیں ان کے نامہ عمل میں لکھی جائے گی کیونکہ ”نال من عدوہ “ لغت میں دشمن پر ضب بلگانے کے معنی میں ہے لیکن پوری آیت کے لئے توجہ گذشتہ تفسیر کے لئے قرینہ ہے ۔

۲ ۔( احسن ماکانوا یعلون ) “ سے کیا مراد ہے ؟

اس جملے کی دو تفسیرں ذکر کی گئی ہیں ایک یہ کہ لفظ ” احسن “ ان کے افعال کی صفت ہے اور دوسرا یہ کہ ان کی جزا کی صفت ہے ۔

پہلی صفت ہم نے اوپر انتخاب کی ہے یہی ظاہر آیت سے بھی زیادہ منافق ہے ۔ اس تفسیر کے مطابق ایسے مجاہدین کے اعمال ان کی زندگی کے بہترین اعمال قرار دئیے گئے ہیں اور خدا ان کی جزا ان کے تناسب کے لحاظ سے دے گا ۔

دوسری تفسیر لفظ ” احسن “ کے بعد لفظ ” من “ کی تقدیر کی محتاج ہے اس کے مطابق خدائی جزا ان کے اعمال سے بہتر اور بالاتر قرار دی گئی ہے ۔ اس کے مطابق جملے کی تقدیر اس طرح ہو گی :لیجزیھم اللہ احسن مما کانوا یعملون ۔ یعنی جو کچھ وہ انجام دے چکے ہیں خدا انھیں اس سے بہتر جزا دے گا ۔

۳ ۔ یہ آیت ہر دور کے مسلمانوں کے لئے ہے :

مندرجہ بالا آیات صرف گذشتہ مسلمامنوں کے لئے نہ تھیں بلکہ آج کے بھی اور ہر دور کے مسلمانوں کے لئے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ہر جہاد میں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیاں ہوتی ہیں لیکن جب مجاہدین قلب و روح کو خد اپر ایمان اور ا س کے عظیم وعدوں سے روشن کریں او رجان لیں کہ ہر سانس ، ہر بات اور ہر قدم جو ا س کے راستے میں اٹھائیں گے وہ ضائع نہیں ہوگا بلکہ اس کا حساب بغیر کسی کم و کاست کے انتہائی باریک بینی سے محفوظ ہے اور خدا انھیں ان کے بدلے میں انھیں بہترین اعمال شمار کرتے ہوئے اپنے لطف کے بحر بیکراں سے مناسب ترین جزا دے گا تو ان حالات میں وہ مشکلات بر داشت کرنے سے کبھی نہیں گھبرائیں گے اور مشکلات کی کثرت سے نہیں ڈریں گا اور جہاد کتنا ہی طولانی ، کھٹن اور حادثات سے معمور ہووہ کسی قسم ضعف ہووہ کسی قسم کی ضعف اور سستی کا مظاہرہ نہیں کریں گے ۔

آیت ۱۲۲

۱۲۲ ۔( وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُوا کَافَّةً فَلَوْلاَنَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِیَتَفَقهُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْهِمْ لَعَلَهُمْ یَحْذَرُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۲۲ ۔ مناسب نہیں کہ سب مومنین ( میدان جہاد کی طرف ) کوچ کریں ۔ ہر گروہ میں سے ایک طائفہ کیوں خرچ نہیں کرتا( اور ایک حصہ باقی نہیں رہتا) دین ( اور اسلامکے معارف و احکام ) سے آگاہی حاصل کریں اور اپنی قوم کی طرف باز گشت کے وقت انھیں ڈرائیں تاکہ وہ ( حکم خدا کی مخالفت سے ) ڈریں اور رک جائیں ۔

شان نزول

مرحوم طبری نے مجمع البیان میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جس وقت پیغمبر اکرم میدان جہاد کی طرف روانہ ہوئے تو سب مسلمان آپ کے ساتھ نکل پڑتے ۔ پیچھے معذور افراد اور منافقین رہ جاتے لیکن جب کچھ آیات منا فقین کی نازل ہوئیں اور خصوصاً جنگ تبوک سے منہ موڑنے والوں کو جس طرح سے وعید و ملامت نے آگھیرا اس سے مومنین جہاد کے میدانوں میں شرکت کے لئے اور زیادہ پختہ ہو گئے ۔ یہاں تک کہ وہ جنگیں جن میں پیغمبر ذاتی طور پر شرکت نہیں کرتے تھے ان میں شرکت کے لئے بھی سب نکل پڑتے تھے اور رسول اللہ کو تنہا چھوڑ دیتے تھے ۔

اس صورت حال کے پیش نظر مندر جہ بالا آیت نازل ہوئی اور انھیں بتا یا گیا کہ ضرورت کے علاوہ مناسب نہیں کہ سب مسلمان میدان جنگ کی طرف جائیں بلکہ ایک گروہ مدینہ کی طرف جائے او رمدینہ میں جانے والے رسول اللہ سے اسلامی معارف و احکام کی تعلیم حاصل کریں اور اپنے مجاہددوستوں کو واپس آنے کے بعد تعلیم دیں ۔

اس عظیم مفسر نے اس اضمون کی ایک اور شانِ نزول نقل کی ہے : اصحاب پیغمبر میں سے کچھ افراد تبلیغ دین کے لئے بادیہ نشین قبائل کے پاس گئے ،۔ بادیہ نشینوں نے ان کی آمد کو پسند کیا اور ان سے اچھا سلوک کیا لیکن بعض نے ان پر اعتراض کیا کہ تم لوگ کویں رسول اللہ کو چھوڑ کر ہمارے پاس آ گئے ہو۔ یہ بات سن کر وہ پریشان اور افسردہ ہوئے اور پیغمبر خدا کی خدمت میں پلٹ آئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی او ران کے تبلیغی کام کی تائید کی اور ان کی پریشانی کو دور کیا ۔

تفسیر تبیان میں اس آیت کی ایک اور شانِ نزول بھی نقل ہوئی ہے اور وہ یہ کہ جب بادیہ نشین لوگ مسلمان ہو گئے تو احکام ِ اسلام معلوم کرنے کے لئے سب کے سب مدینہ کی طرف چل پڑے اس سے مدینہ میں اجناس کی قیمتیں چڑھ گئیں اور کئی اور مشکلات پیدا ہوگئیں ۔

اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انھیں حکم دیا گیا کہ ضروری نہیں کہ تم سب سے اپنے شہر اور گھروں کو خالی چھوڑ کر معارف ِ اسلام سمجھنے کے لئے مدینہ آجاو بلکہ اگر کچھ لوگ آجائیں تو کافی ہے ۔

جہالت اور دشمن کے خلاف جہاد

زیر نظر آیت ، جہاد کے سلسلے میں گزشتہ آیات سے تعلق رکھتی ہے یہ ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو مسلمان کے لئے حیات آفرین حیثیت رکھتی ہے اور وہ یہ کہ جہاد بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس سے پیچھے رہ جانا ننگ و عار اور گناہ ہے لیکن بعض مواقع پر جہاں ضرورت تقاضا نہیں کرتی کہ تما م مسلمان میدانِ جہاد میں شرکت کریں خصوصاً ان مواقع پر جب پیغمبر خود مدینہ میں رہ جائیں تو ” مناسب نہیں کہ سب جہا د کے لئے چل پڑیں بلکہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی ہر جماعت کے دوحصے ہوں ۔ ایک حصہ فریضہ جہاد کو انجام دے اور دوسرا حصہ مدینہ میں رہ کر اسلام کے معارف کی تعلیم حاصل کرے “( وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُوا کَافَّةً فَلَوْلاَنَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِیَتَفَقهُوا فِی الدِّینِ ) ۔اور جب ان کے دوست مجاہدین میدن سے پلٹ کر آئیں تو خدا کے احکام و فرامین کی انھیں تعلیم دیں اور انھیں ان کی مخالفت سے ڈرائیں “( وَلِیُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْهِمْ ) ۔ہو سکتا ہے اس طرح سے فرمان خدا کی مخالفت سے پرہیز کریں اور اپنے فرائض انجام دیں “( لَعَلَهُمْ یَحْذَرُونَ ) ۔

چند قابل توجہ امور

۱ ۔ آیت کی تفسیر میں مختلف احتمالات:

آیت کی تفسیر میں جو کچھ کہا ہے وہ مشہور شانِ نزول میں مطابقت رکھنے کے علاوہ آیت کے ظاہری مفہوم سے بھی دیگر ہر تفسیر کی نسبت زیادہ موافق ہے ایک چیز البتہ یہاں قابل غور ہے اور وہ یہ کہ ” کل فرقة طائفة“ کے بعد ”لتبقی طائفة “ ( ایک گروہ باقی رہے ) مقدر سمجھا جائے یعنی ہر جماعت میں سے ایک گروہ چلاجائے اور ایک گروہ رہ جائے آیت میں موجود قرائن کی طرف توجہ کی جائے تو اس سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی ( غور کیجئے گا )

لیکن بعض مفسرین نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ آیت میں کسی قسم کی تقدیر نہیں ہے او رمراد یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ واجب کفائی ہے طور پر میدانِ جہاد میں جائے اور وہاں اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل کرے دشمنوں پر مسلمانوں کی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے دیکھے جو کہ اس دین کی عظمت و حقانیت کا نمونہ ہے اور واپسی پر یہ آگاہی اپنے دوستوں کو منتقل کرے ۔(۱)

تیسرا احتمال بعض بعض دوسرے مفسرین نے ذکر کیا ہے اور وہ یہ کہ مباحث جہاد سے الگ ، آیت ایک مستقل حکم بیان کررہی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں پر فرضہے کہ واجب کفائی کے طو رپر ان کی ہر جمیعت میں سے ایک گروہ اٹھ کھڑا ہو جو اسلامی تعلیمات و معارف حاصل کرنے کے لئے اسلام کے عظیم مراکز کی طرف جائے او رعلوم حاصل کرنے کے بعد اپنے شہروں اور گھروں کو پلٹ آئے اور دوسروں کو ان کی تعلیم دے ۔ (یہ تفسیر تبیان میں شیخ کی بیان کی گئی شان ِ نزول سے مطابقت رکھتی ہے)

البتہ جیسا کہ ہم نے کہا ہے پہلی تفسیر آیت کے مفہوم سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے اور اگر چہ تمام معانی مرادلینا بھی زیادہ بعید نہیں ہے ۔(۲)

۲ ۔ ایک اشکال اور اس کا جواب :

بعض نے خیال کیا ہے کہ اس آیت اور گزشتہ آیات کے درمیان ایک طرح کا اختلاف زیر بحث آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ سب کو میدان ِ جہادمیں شرکت کا حکم دیا گیا ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کی سخت سر نزش کی گئی ہے لیکن زیر بحث آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ سب لوگ میدان ِ جہاد کی طرف نہ چل پڑیں ۔

لیکن واضح ہے کہ یہ دونوں حکم مختلف حالات کے پیش نظر دئیے گئے ہیں مثلاً تبوک کے موقع پ رجبکہ روم کی شاہی حکومت کی طاقتور فوج کا سامنا تھا ، وہاں اس کے عالوہ چارہ ہی نہ تھا کہ تمام مسلمان چل پڑیں خصوصاًایسے مواقع پر جبکہ رسول اللہ خود مدینہ میں رہ جائیں تو مدینہ خالی نہیں چھوڑ نا چاہئیے اور اس صورت میں اھتمالی خطرات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے نیز اسلامی احکام و معارف کے حصول سے غافل نہیں رہنا چاہئیے ۔ لہٰذ امندرجہ بالا آیات میں کوئی نسخ نہیں ہے اور بعض نے جویہ خیال کیا ہے وہ اشتباہ ہے ۔

۳ ۔”تفقه فی الدین “کا وسیع مفہوم :

اس میں شک نہیں کہ ”تفقه فی الدین “ سے مراد تمام اسلامی معارف و احکام کا حصول ہے چاہے ان کا تعلق اصول دین سے ہو یا فروع دین سے کیونکہ تفقہ کے مفہوم میں یہ تمام امور جمع ہیں لہٰذ ا مندرجہ بالا آیت اس بات پر واضح دلیل ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ ہمیشہ واجب کفائی انجام دینے کے لئے تمام اسلامی مسائل میں تحصیل علم کرے اور فارالتحصیل ہونے کے بعد اسلامی احکام کی تبلیغ کےلئے مختلف علاقوں کی طرف جائے ، خصوصاً اپنی قوم اور جمیعت کی طرف آئے اور اسے اسلامی مسائل سے آشنا کرے ۔

لہٰذا مندرجہ بالا آیت کے اسلامی مسائل کے تعلیم و تعلم کے وجوب پر ایک واضح دلیل ہے دوسرے لفظوں میں تعلیم حاصل کرنا بھی واجب ہے اور تعلیم دینا بھی ۔ آج کی دنیا اگر جبری تعلیم پر فخر کرتی ہے تو قرآن نے چودہ سو سال پہلے اس سے بھی بڑھ کر معلمین پر بھی یہ کام فرض کیا ہے ۔

۴ ۔ اجتہاد اور تقلید کے جواز پر استدلال :

بعض علماء اسلام نے زیر نظر آیت سے مسئلہ جواز تقلید پر استدلال کیا ہے ۔ کیونکہ تعلیمات ِ دین حاصل کرنا اورمسائل فروع کو دوسروں تک پہنچا نا اور سننے والوں کے لئے ان کی لازمی طور پر پیروی کرنا یہی تقلید ہے ۔

البتہ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ زیر بحث آیت صرف فروع دین سے بحث نہیں کرتی اور اس کے مفہوم میں مسائل ِ اصول بھی شامل ہیں لیکن بہر حال فروع دین اس کے مفہوم میں داخل ہیں ۔

واحد اعتراض جو یہاں نظر آتا ہے یہ ہے کہ اس وقت اجتہاد اور تقلید کی بات نہیں تھی اس زمانے میں جو لوگ مسائل دین سیکھتے اور اسے دوسروں تک پہنچاتے ان کی کیفیت ہمارے زمانے کے مسائل بیان کرنے والے حضرات کی سی نہ تھی نہ وہ مجتہدین کی سی حیثیت رکھتے تھے یعنی پیغمبر اکرم سے مسائل معلوم کرکے بعینہ بغیر کسی قسم کے اظہار ِ نظر کے دوسروں کے سامنے نقل کردیتے تھے ۔

اگر ہم اس طرف توجہ دیں کہ اجتہاد اور تقلید کا ایک وسیع مفہوم ہے تو مندر بالا اعتراض کا جواب مل سکتا ہے ۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ اس میں شک نہیں کہ علم فقہ کو جو موجود ہ وسعت حاصل ہے یہ اس زمانے میں نہ تھی اور مسلمان آسانی سے پیغمبر اکرم سے مسائل معلوم کرلیتے تھے لیکن اس کے باوجود ایسا نہ تھا کہ تما م بزرگان ِ اسلام ہمارے زمانے کے مسائل بیان کرنے والے حضرات کی طرح ہوں ۔ ان میں سے بہت سے افراد قضاوت یا امارت کی ذمہ دایوں کی ادائیگی کے لئے دوسری جگہوں کی طرف جایا کرتے تھے ۔ فطرتا ً انھیں کچھ ایسے مسائل پیش آتے تھے جو بعینہ انھوں نے پیغمبر اکرم سے نہ سنے تھے ۔ لیکن وہ آیا ت قرآن کے عمومات اور اطلاق سے استفادہ کرتے تھے ۔ مسلماً وہ کلیات کی تطبیق پر کرتے تھے ۔عملی اصطلاح میں ” ردّ فروع بر اصول “اور ”ردّ اصول بر فروع “ سے ان مسائل کے احکام سمجھتے تھے اور یہ ایک قسم کا سادہ اور آسان اجتہاد تھا ( غور کیجئے گا ) ۔

مسلم ہے کہ یہ کام اور ایسے معاملات رسول اللہ کے زمانے میں تھے ۔ اس طرح سے اجتہاد کی بنیاد صحابہ میں موجود تھی اگر چہ تمام اصحاب اس مد میں آتے تھے ۔

زیرنظر آیت چونکہ عمومی مفہوم رکھتی ہے لہٰذا مسائل بیان کرنے والے افراد کی بات قبول کرنے اور مجتہدین کا قول قبول کرنے کے دونوں مفہوم اپنے دامن میں لئے ہوئے ۔ اس طرح آیت کی عمومیت سے جوازِ تقلید پر استدلال کیا جاسکتا ہے ۔

۵ ۔ تعلیم اور تعلّم کی اہمیت : ایک اور اہم مسئلہ جو آیت سے معلوم کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں تعلیم اور تعلّم کا ایک خاص احترام اور اہمیت ہے یہاں تک کہ اسلام مسلمانوں پر لازم قرار دیتا ہے کہ سب کے سب میدانِ جنگ میں شرکت نہ کریں بلکہ ایک گروہ ٹھہر جائے اور معارف اسلام حاصل کرے یعنی جہالت کے خلاف جہاد کرنا دشمن کے خلاف جہاد کرنے کی طرح فرض ہے اور ایک کی دوسرے سے کم اہمیت نہیں ہے بلکہ جب تک جہا لت کے خلاف جہاد کرنے میں کامیاب نہ ہوں دشمن سے جہاد میں کامیاب نہیں ہو سکتے کوینکہ جاہل قوم ہمیشہ شکست خوردہ ہوتی ہے ۔ ایک معاصر مفسرے نے اس آیت کے ذیل میں ایک جالب ِ نظر بات بیان کی ہے ۔

وہ کہتا ہے : ” میں طرابلس میں تحصیل علم میں مشغول تھا ایک دن وہاں کا ڈپٹی کمشنر جو معارفِ اسلامی کے بارے میں خود بھی اچھی آگاہی رکتھا تھا ، مجھ سے کہنے لگا :۔

”حکومت کس بناء پر علماء اور علوم دینی کے طلباء کو فوجی خد مات سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے جب کہ یہ مقدس خدمت شرعی طور پر سب پر واجب ہے او رعلوم دین کے طلبہ اس دینی فریضہ کی انجام دہی کے لئے دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں ، کیا یہ کام غلط نہیں ہے ؟ “

فوراً زیرنظر آیت مجھے یاد آئی اور میں نے بغیر کسی تمہید کے کہا:

” اس معاملے کی بنیاد قرآن میں موجود ہے اور اس سلسلے میں وہ کہتا ہے کہ اگر ایک گر وہ جہاد کرے اور ایک گروہ علم حاصل کرے “۔

اسے اس جواب سے بہت لطف آیا ، خصوصاً جب کہ اس نے مجھ جیسے ابتدائی طالب علم سے یہ جواب سنا جب کہ میں نے ابھی تازہ تازہ ہی تحصیلِ علم کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔( المنار ج ۱۱ ص ۷۸) ۔

____________________

۱۔ قر طبی کے مطابق یہ تفسیر طبری نے اپنی تفسیر میں انتخاب کی ہے ۔ بعض مفسرین نے بھی احتمال کے طور پر آیت کے ذیل میں اسے ذکر کیا ہے ۔

۲ ۔ توجہ رہے کہ ہمارے نزدیک کسی لفظ کا ایک سے زیادہ معانی میں استعمال صحیح ہے ۔

آیت ۱۲۳

۱۲۳ ۔( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُمْ مِنْ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوا فِیکُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ ) ۔

ترجمہ

۱۲۳ ۔ اے ایمان والو! ان کفار کے ساتھ جنگ کرو جو تمہارے زیادہ قریب ہیں ( اور دور کا دشمن تمہیں نزدیک کے دشمن سے غافل نہ کردے ) اور وہ تمام میں شدت او رسختی محسوس کریں اور جان لو خدا پر ہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔

قریب کے دشمن کی خبر

جہاد کے بارے میں جاری مباحث کے ضمن میں زیر نظر آیت میں دو مزید احکام بیان کئے گئے ہیں ۔

پہلے روئے سخن مومنین کی طرف کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اے ایمان والو! ان کفار سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس ہیں( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُمْ مِنْ الْکُفَّارِ ) ۔

یہ درست ہے کہ تمام دشمنوں کے خلاف جنگ کرنا چاہتے اور اس سلسلے میں کوئی امتیاز نہیں لیکن جنگی تیکنک کے لحاظ سے بلا شبہ پہلے قریب ترین دشمن کے خلاف جنگ کرنا چاہئیے ۔ کوینکہ قریب کے دشمن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے یہ اسی طرح ہے جیسے اسلام کی طرف دعوت دینے اور دین حق کی طرف ہدایت کرنے کے وقت بھی زیادہ نزدیک ہے ان سے آغاز کیا جانا چاہئیے ۔

رسول اللہ نے حکم خدا سے اپنی دعوت کا آغاز اپنے رشتہ داروں سے کیا تھا اس کے بعد مکہ کے لوگوں کو تبلیغ کی ۔ اس کے بعد سارے جز یرہ عرب کی طرف مبلّغ بھیجے اور پھر ساری دنیا کے باد شاہوں کو خطوط لکھے اور بلا شبہ طریقہ کامیابی کے زیادہ قریب ہے ۔

البتہ ہر قانون میں کچھ استثنائی پہلو ضرور ہوتے ہیں ممکن ہے کچھ ایسے امور خلافِ معمول پیش آجائیں کہ دور کا دشمن بہت زیادہ خطر ناک ہو لہٰذا پہلے اس کی سر کوبی کے لئے جانا پڑے لیکن جیسا کہ ہم نے کہا ہے یہ ایک استثناء ہے نہ کہ ایک کلی قانون ۔

یہ جو ہم نے کہا ہے کہ قریب کے دشمن سے نپٹنا زیادہ ضروری ہے اس کے دلائل واضح ہیں ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ قریب کے دشمن کا خطرہ دور کے دشمنوں سے زیادہ ہوتا ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہماری آگاہی اورا طلاعات قریب کے دشمن کے بارے میں زیادہ ہوتی ہیں اور یہ خود کامیابی کے لئے ممدو معاون ہیں ۔

تیسری بات یہ ہے کہ دور والے دشمن کی طرف جانا اور نزدیک والے دشمن کو آزاد چھوڑ دینا اس خطرے کا باعث بھی ہوسکتا ہے کہ قریب والا دشمن پیچھے سے حملہ کر دے یا مرکز ِ اسلام خالی ہونے کی صورت میں اسے درہم برہم کردے ۔

چوتھی بات یہ ہے کہ نزدیک کے دشمن کے مقابلے میں وسائل اور سازو سامان نسبتاً کم درکار ہوتا ہے اور قریبی محاذ پر قبضہ کرنا مقابلتاً آسان ہے ۔

ان وجوہ کی بنا پر اور ایسی دیگر وجوہ کے پیش نظر ایسے دشمن کو دفع کرنا زیادہ ضروری ہے ۔

اس نکتے کا ذکر بھی بہت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت زیر نظر آیت نازل ہو ئی اس وقت اسلام تقریبا ً سارے جزیرہ عرب کو اپنے زیر نگین کر چکا تھا

اس بناء پر اس وقت نزدیک ترین دشمن مشرقی روم کی حکومت ہی تھی کہ جس کے مقابلے کےلئے مسلمان تبوک کی طرف گئے تھے ۔

اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ زیر نظر آیت اگر چہ مسلح جنگ اور فاصلہ مکانی کے بارے میں گفتگو کررہی ہے لیکن بعید نہیں کہ آیت کی روح منطقی جنگوں اور معنوی فاصلوں کے بارے میں بھی حکم دیتی ہویعنی مسلمان دشمنوں سے منطقی اور تبلیغا تی مقابلے کے لئے پہلے ایسے لوگوں کا مقابلہ کریں جن کا خطرہ اسلامی معاشرے کے لئے بہت نزدیک ہو۔ مثلاً ہمارے زمانے میں الحاد اور مادیت کا خطرہ تمام معاشروں کو دستک دے رہا ہے ۔ لہٰذباطل مذاہب سے مقابلے کی نسبت اس کے مقابلے کومقدم رکھنا چاہئیے یہ نہیں کہ انھیں بھلا دیا جائے ۔ بلکہ تیز حملے کا رخ زیادہ خطر ناک گروہ کی طرف ہونا چاہئیے یا مثلاً فکری یا سیاسی اور اقتصادیاستعمار سے مقابلے کے پہلے درجے میں رکھنا چاہئیے ۔

جہادکے متعلق آیت بالا میں دوسرا حکم شدت عمل کا ہے ، آیت کہتی ہے : دشمنوں کو تم میں ایک طرح کی سختی کا احساس ہونا چاہئیے( وَلْیَجِدُوا فِیکُمْ غِلْظَةً ) ۔یہ اس طرف اشارہ ہے کہ قیام کے لئے اور دشمن کا سختی سے مقابلہ کرنے کے لئے صرف باطنی شجاعت و شہامت اور قلبی آمادگی کافی نہیں ہے بلکہ اپنی اس آمادگی اور شدت کا دشمن کے سامنے اظہار بھی ہونا چاہئیے تاکہ اسے معلوم ہو کہ تم میں ایسا جذبہ موجود ہے اور اور یہی چیز اس کی عقب نشینی اور شکست کا باعث بن جائے اور دوسرے لفظوں میں قوت اور طاقت کا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ دشمن کے مقابلے میں طاقت کا اظہار بھی ہو نا چاہئیے ۔

اسی لئے تاریخ اسلام میں ہے کہ جس وقت مسلمان مکہ میں خانہ کعبہ کی زیارت کےلئے آئے تو پیغمبر اکرم نے انھیں حکم دیا کہ طواف تیزی کے ساتھ کریں بلکہ ڈوڑیں اور ان دشمنوں کے سامنے جو انھیں دیکھ رہے ہیں شدت و سرعت اور اپنی قوت و طاقت کا مظاہرہ کریں ۔

نیز فتح مکہ کے واقعہ میں ہے کہ رسول اللہ نے رات کے وقت حکم دیا کہ سب مسلمان بیابان میں آگ روشن کریں تاکہ مکہ کے لوگ لشکر اسلام کی عظمت اور کثرت سے آشنا ہوں او ر ایسا ہی ہوایہ چیز ان کے دلوں پر اثر انداز ہوئی آپ نے یہ بھی حکم دیا کہ کفار مکہ کے سر براہ ابو سفیان کو ایک جگہ کھڑا کرکے طاقتور لشکر اسلامی کو ایک ایک دستہ کر کے اس کے سامنے سے گزارا جائے ۔

آخر میں قرآن مسلمانوں کو ان الفاظ میں فتح و کامرانی کا نوید دیتا ہے : جان لو خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے( وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ ) ۔ہو سکتا ہے یہ تعبیر مزید بر آں اس طرف بھی اشارہ ہو کہ شدت ِ عمل کو پر ہیز گاری کے ساتھ ہو نا چاہئیے اور حدودِ انسانی سے کسی صورت میں بھی تجا وز نہیں کیا جا نا چاہیئے ۔