تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25551
ڈاؤنلوڈ: 2459


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25551 / ڈاؤنلوڈ: 2459
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۳،۴

۳ ۔( إِنَّ رَبَّکُمُ اللَّهُ الَّذی خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضَ فی سِتَّةِ اٴَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاٴَمْرَ ما مِنْ شَفیعٍ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ ذلِکُمُ اللَّهُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ اٴَ فَلا تَذَکَّرُونَ ) ۔

۴ ۔( إِلَیْهِ مَرْجِعُکُمْ جَمیعاً وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا إِنَّهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعیدُهُ لِیَجْزِیَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ وَ الَّذینَ کَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمیمٍ وَ عَذابٌ اٴَلیمٌ بِما کانُوا یَکْفُرُون ) ۔

ترجمہ

۳ ۔ تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اس کے بعد عرش ( قدرت ) پر بقرار ہوا اور ( عالم کے ) کام کی تدبیر کی ۔ اس کے اذن کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ۔ یہ ہے خدا تمہارا پروردگار ، پس اس کی پرستش کرو ، کیا تم غور نہیں کرتے ۔

۴ ۔ تم سب کی باز گشت اس کی طرف ہے ۔ خدا نے حق وعدہ فرمایا ہے اس نے مخلوق کا آغاز کیا اس کے بعد انہیں پلٹائے گا تا کہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو یاد عادلانہ جزا دے اور جو کافر ہوگئے ہیں ان کے پینے کے لئے جلانے والی مائع اور درد ناک عذاب ہے کیونکہ انھوں نے کفر اختیار کیا ہے ۔

خدا شناسی اور قیامت

وحی اور نبوت کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ، اس سورہ کی ابتدائی آیات میں قرآن تمام انبیاء کی تعلیمات کے دو بنیادی اصولوں یعنی مبداء اور معاد کا رخ کرتا ہے زیر نظر دو آیت میں ان دو اہم اصولوں کو مختصر اور واضح عبارت میں بیان کیا گیا ہے پہلے فرمایا گیا ہے : تمہارا پروردگار وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا( إِنَّ رَبَّکُمُ اللَّهُ الَّذی خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضَ فی سِتَّةِ اٴَیَّام ) جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں لفظ ” یوم “ عربی زبان میں اور ” روز “ فارسی زبان میں اور اسی طرح دوسری زبانوں میں ان کے متبادل الفاظ بہت سے موقع پر دور کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ ایک دن تھا جب استبداد کا دور تھا اور اس دور کے خاتمے پر لوگوں کی نجات اور آزادی کا دور آن پہنچا ہے ۔(۱)

اس بناء پر مندرجہ بالا جملے کا مفہوم یہ ہوگا کہ پروردگار نے آسمان اور زمین کو چھ ادوار میں پیدا کیا اور چونکہ ان چھ ادوار کے بارے میں ہم پہلے گفتگو کر چکے ہیں لہذا یہاں تکرار نہیں کرتے ۔(۲)

لفظ ” عرش “ بعض اوقات چھت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس چیزکے معنی میں بولا جاتا ہے جو چھت کے رکھتی ہو اور بعض اوقات یہ اونچے پاوں والے تخت کے معنی میں آتاہے اس کا اصلی معنی ہے ” قدرت “ مثلاً ہم کہتے ہیں فلاں شخص بیٹھا یا اس کے تخت کے پائے گر گئے یا اس ے تخت سے اتار دیا گیا ۔ یہ سب اقتدار حاصل کرنے یا اقتدار کھو دینے کے لئے کنایہ ہیں حالانکہ ہوسکتا ہے ، تخت اصلاً ہو ہی نہیں ۔ لہٰذا ” استوی علی العرش “ کے معنی ہیں خدا نے امور عالم کی باگ دوڑ اپنے دست قدرت میں لی ۔(۳)

”تدبر “ تدبیر “ کے مادہ سے مشتق ہے اور در اصل ” دبر “ ( بر وزن ) ”ابر“) کسی چیز کے پیچھے اور انجام کے معنی میں ہے اس بناء پر” تدبیر “کاموں کے انجام کی تحقیق کرنے او رمصالح کو منظم کرکے ان کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہے ۔

جب یہ واضح ہو گیا کہ خالق اللہ ہے او ر عالم ہستی کو وہی چلاتا ہے او رتما م امو رکی تدبیر اس کے فرمان سے ہو تی ہے واضح ہے کہ بے جان ، عاجز اور ناتواں بتوں انسانوں کی سر نوشت میں کوئی اثر نہیں ہے اس لئے بعد والے جملہ میں فرمایاگیا ہے : اس کے اذن کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے( ما مِنْ شَفیعٍ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ إِذْنِه ) ۔(۴)

جی ہاں .حقیقت یہی ہے کہ اللہ تمہارا پر وردگار ہے لہٰذا اس کی پرستش کرو نہ کہ اس کے غیر کی( ذلِکُمُ اللَّهُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ ) ۔

کیا اس واضح دلیل سے تم متذکر اور متوجہ نہیں ہوتے( اٴَ فَلا تَذَکَّرُونَ ) ۔

جیسا کہ ہم اشار ہ کرچکے ہیں ” بعد والی آیت میں معاد اور قیامت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں یہ معاملہ ، اس کی دلیل اور اس کا مقصد بیان کیا گیا ہے ۔

پہلے قرآن کہتا ہے : تم سب کی باز گشت خدا کی طرف ہے( إِلَیْهِ مَرْجِعُکُمْ جَمیعاً ) ۔

اس کے بعد تاکیداً فرمایاگیا ہے : خدا کا یہ قطعی وعدہ ہے( وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ) ۔

بعد از آں اس کی دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے : خد انے خلقت کی ابتداء کی اور پھر اس کی تجدیدکرے گا( إِنَّهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعیدُهُ ) ۔

یعنی جو لوگ معاد اور قیامت کے بارے میں شک کرتے ہیں انھیں آغازخلقت کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہئیے ۔

خدا جس نے دنیا کو ابتداء میں ایجادکیا وہ اسے دوبار پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے یہ استدلال ایک دوسری شکل میں سورہ اعراف آیت ۲۹ میں ایک مختصر سے جملہ میں بیان ہوا ہے اس کی تفصیل سورہ اعراف کی تفسیر میں گذر چکی ہے ۔

قیامت او رمعاد سے مربوط آیات نشان دہی کرتی ہیں کہ مشرکین اور مخالفین کے شک کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ انھیں ایسی چیز کے امکان میں شک تھا اور تعجب سے سوال کرتے تھے کہ کیا یہ بوسیدہ اور خا ک بنی ہوئیں ہڈیاں دوبارہ لباس حیات پہنیں گی اور اپنی پہلی شکل میں پلٹ آئیں گی ۔

اس لئے قرآن نے بھی اس مسئلہ کے امکان پر انگلی رکھی ہے اور کہتا ہے : اس ذات کو فراموش نہ کرو جو اس جہاں کو از سر نو ساز و سامان بخشے گا او رمردوں کو زندہ کرے گا کیونکہ وہی آفریدگار ہے جس نے آغاز میں یہی کا م کیا تھا ۔

اس کے بعدمعادکے مقصد کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔

ارشاد ہوتا ہے : یہ اس بناء پر ہے کہ خدا ایسے افراد کو جو ایمان لائے ہیں اور انھوں نے نیک اعمال انجام دئیے ہیں انھیں عادلانی جزا او ربدلہ دے گا ۔

بغیر اس کے کہ ان کا کوئی چھوٹا سا عمل بھی بغیر لطف و رحمت کی نظر سے مخفی رہے اور اجر و ثواب کے بغیر رہ جائے( لِیَجْزِیَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ ) ۔

” اور وہ لوگ کہ جنہوں کفر اور انکا ر کا راستہ طے کیا ہے اور پھر فطری طور پر ان کاکوئی نیک عمل بھی نہ تھا ( کیونکہ اچھے عمل کی جڑ اچھا عقیدہ ہے ) ان کے درد ناک سزا ہے ۔ ان کے پینے کے لئے گرم اور جلانے والا پانی ہے اور ان کے کفر کی وجہ سے عذاب الیم ان کے انتظار میں ہے( وَ الَّذینَ کَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمیمٍ وَ عَذابٌ اٴَلیمٌ بِما کانُوا یَکْفُرُون ) ۔

____________________

۱- مزید توضیح اور اس سلسلے میں عربی فارسی مثالوں کے لئے تفسیر نمونہ جلد ششم سورہ اعراف کی آیت ۵۴ کے ذیل میں رجوع کریں ۔

۲-اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : خدا نے عالم کو پیدا کرنے کے بعد اس کے امور کی باگ ڈور اپنے دست قدرت میں لی (ثم استوی علیٰ العرش ) ۔ تمام کام اس کے فرمان سے ہوتے ہیں اور تمام چیزیں اس کے قبضہ تدبیر میں ہیں (ید بر الامر )

۳۔زیادہ وضاحت اور ”عرش“ کے مختلف معانی سے باخبر ہونے کےلئے تفسیر نمونہ جلد ۶ ص۱۸۰( اردو ترجمہ ) اور ج۲ ص ۱۵۸ ( اردو ترجمہ )

۴-شفاعت جیسے اہم مسئلہ پر ہم بحث پہلے ہی کرچکے ہیں اس کے لئے جلد اول ص۱۸۷ ( اردو ترجمہ ) اور جلد دوم ص ۱۵۵( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔

دو قابل توجہ نکات

۱ ۔ ” الیہ مرجعکم جیمعاً “ کا مفہوم :

اگر چہ خد اکے لئے مکان و محل نہیں ہے ۔ اس کے باوجود اس جہاں میں وہ ہرجگہ ہے اور ہم سے ہمارے نسبت زیادہ قریب ہے ۔ اس کے امر کے سبب مفسرین نے زیر نظر آیت میں ” الیہ مرجعکم جمیعاً“ اور قرآن کی ایسی دیگر آیات کی مختلف تفسیریں کی ہیں ،

کبھی کہا جاتا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ثواب اور جزا کی طرف پلٹ جائیں گے۔

نیز شاید بعض جاہل افراد اسے قیامت میں خدا کے مجسم ہو نے کی دلیل سمجھیں کہ جس عقیدہ کا بطلان اس قدر واضح ہے کہ محتاج بیان نہیں ۔

لیکن جو کچھ آیات قرآن میں غورو فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ عالم حیات ایسے کاروں کی طرح جو جہان عدم سے چلا ہے اور اپنے لامتناہی سفر اور گردش میں لامتناہی کی طرف ہی آگے بڑھ رہا ہے جو کہ خدا کی ذات پاک ہے اگر چہ مخلوق محدود ہے اور محدود کبھی لامتناہی ( Infinite )نہیں ہوتا پھر بھی اس کا سفر تکامل رکتا ۔ یہاں تک کہ قیام قیامت کے بعد بھی یہ سیر ت کامل جاری و ساری رہے گی ( جیسا کہ ہم نے معادکی بحث میں اس کی تشریح کی ہے )(۱)

قرآن کہتا ہے : ۔( یا ایها الانسان انک کادح الی ربک کدحاً ) ۔

اے انسان !تو سعی وکو شش کے ساتھ اپنے پر وردگارکی طرف جارہا ہے ۔

نیز کہتا ہے :۔( یا اایتها النفس المطمئنه الی ربک ) ۔

اے وہ روح کہ جوایمان اور عمل صا لح کے ذریعے سکو ن واطمینان کی سرحد تک پہنچ گئی ہے، اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آ ۔

اس تحر یک کی ابتدا خدا کی طرف سے ہوئی ہے اور زند گی کا پہلا شعلہ اس کی طرف سے ظا ہر ہو ا ہے نیزیہ ارتقائی سفر اور حرکت اسی کی طرف ہے جسے ---” رجوع “ اوربازگشت سے تعبیرکیا جا تا ہے.

المختصر ایسی تعبیر یں علاوہ اس کے کہ موجو دات کی خدا کی طرف عمومی حرکت کی طرف اشارہ ہیں اس حرکت کے مقصد کو بھی مشخص کرتی ہیں اور وہ اس کی پاک ذات ہے ۔

اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ لفظ ” الیہِِ“ مقدم ہے اور اس کا مقد م ہونا انحصار کی دلیل ہے واضح ہو جا تا ہے کہ انسان کی ارتقائی اور تکا ملی حرکت کا مقصد اس کی پاک ذات کے علاوہ کوئی وجود نہں ہو سکتا نہ بت اور نہ ہی کوئی اور مخلوق ۔کیونکہ یہ سب چیزیں محدود ہیں اور انسان کی راہ غیر محدود ہے ۔

۲ ۔ ” قسط “کا مفہوم :

”قسط “ لغت میں دوسرے کاحصہ اداکرنے کے معنی میں ہے لہذا اس میں انصاف کا مفہوم چھپا ہوا ہے ۔یہ بات جاذب نظر ہے مندرجہ بالا آیت میں یہ لفظ صرف ا ن افراد کے لیے بولاگیا ہے جو عمل صا لح بجالاتے ہیں اور اچھی جزا چا ہتے ہیں لیکن بدکارو ں کی سزا کے ذکر میں یہ لفظ نہیں آیا کیونکہ عذاب اور سزامیں کوی حصہ نہیں ہو تا ۔با لفا ظ دیگر” قسط “ صرف نیک جزا کیلئے مناسب ہے ،سزا کے لیے مناسب نہیں ہے۔

____________________

۱ ۔زیادہ وضاحت کے لئے کتا ب ” معاد و جہان پس از مرگ “ کی طرف رجوع کرے ۔

آیات ۵،۶

۵ ۔( هُوَ الَّذی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیاء ً وَ الْقَمَرَ نُوراً وَ قَدَّرَهُ مَنازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنینَ وَ الْحِسابَ ما خَلَقَ اللَّهُ ذلِکَ إِلاَّ بِالْحَقِّ یُفَصِّلُ الْآیاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ) ۔

۶ ۔( إِنَّ فی اخْتِلافِ اللَّیْلِ وَ النَّهارِ وَ ما خَلَقَ اللَّهُ فِی السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ لَآیاتٍ لِقَوْمٍ یَتَّقُونَ ) ۔

ترجمہ

۵ ۔ وہ وہ ہے کہ جس نے سورج کو روشنی اور چاند کو نور قرار دیا ہے اور اس کے لئے منزلیں مقرر کی ہیں تا کہ تم برسوں کی تعداد اور ( کاموں کا ) حساب جان لو۔ خدا نے اسے سوائے حق کے پیدا نہیں کیا ۔ وہ (اپنی ) آیات صاحبان علم کے لئے تفصیل و تشریح کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔

۶ ۔ مسلم ہے کہ رات اور دن کے آنے جانے میں اور ان چیزوں میں کہ جنھیں خدا نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ، ان لوگوں کے لئے آیات ( اورنشانیاں ) ہیں جو پرہیزگار ہیں ( اور گناہ نے ان کے دل کی آنکھ کو اندھا نہیں کر دیا ) ۔

عظمت الہی کی نشانیاں

گزشتہ آیت میں مبداء اور معاد کے مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا لیکن ان آیات کے بعد ان دو اصولی مسائل کو شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ یہ مسائل دعوت انبیاء کے اہم ترین ارکان ہیں ۔ با الفاظ دیگر آنے والی آیات گزشتہ آیات کی نسبت تفصیلی ہیں ۔

زیر نظر پہلی آیت میں جہان آفرینش میں عظمت خدا کی نشانیوں کے ایک حصہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : وہ وہ ہے کہ جس نے سورج کو ضیاء اور چاند کو نور قرار دیا( هُوَ الَّذی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیاء ً وَ الْقَمَرَ نُوراً )

سورج اپنے عالمگیر نور سے نہ صرف موجودات کے وجود کو گرم کرتا اور روشنی بخشتا ہے بلکہ سبزہ زاروں کی نشو و نما اور جانوروں کی پر ورش میں عمدہ اوربنیادی کرداراداکرتاہے اصولی طور پر ہر حرکت وجنبش جو کرہ زمین موجود ہے۔ یہاں تک کہ ہواوں کے چلنے میں دریاوں کی موجوں میں نہروں کی لہروں میں اورآبشاروں کی روانی میں ، اگر صیح طور پرغور و فکر کیا جا ئے تو یہ نور آفتاب کی برکت ہے اور اگر کسی دن یہ حیات بخش شعا عیں ہما رے کرہ خاکی سے منقطع ہو جائیں تو قلیل عرصے میں تاریکی ہسکوت اور موت تمام جگہوں پر چھاجائے ۔

چاند اپنے خوبصورت نور کے ساتھ ہماری تاریک راتوں کا چراغ ہے ۔ماہ تاباں نہ صرف بیابانوں میں رات کے مسافروں کی رہبری کرتاہے بلکہ اس کی مناسب اور ملائم روشنی سارے کرہ ارضی کے رہنے والوں کے لیے سکون وآرام اور نشاط و مسرت کا باعث ہے ۔اس کے بعد چاند کے وجودکے ایک اور مفیداثر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : خدا نے اْس کے لئے کئی منزلیں مقرر کی ہیں تا کہ وہ اپنے برسوں کی تعداد اور زندگی کے حسابات جان سکیں ۔( وَ قَدَّرَهُ مَنازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنینَ وَ الْحِسابَ ) ۔یعنی اگر تم دیکھتے ہو کہ پہلی رات میں چاند ایک باریک سا ہلال ہو تا ہے اور پھر ہر روز بڑھتا رہتا ہے ، تقریباً آدھے مہینے تک یوں ہی بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ مہینے کے آخری دودن میں محاق(۱)

کی تاریکی میں ڈوب جاتا ہے اور پھر دوبارہ ہلال کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور انھیں پہلی منزلوں کو طے کرتا ہے تو یہ تبدلی عبث اور فضول نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہت ہی وقیق اور زندہ طبیعی تقوییم- ہے(۲)

جسے عالم وجاہل پڑھ سکتے ہیں اور اس سے اپنے امور حیات کا حساب رکھ سکتے ہیں اور روشنی کے علاوہ ہمارے لئے چاند کا یہ ایک اور فائدہ ہے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے کہ مہرومہ کی یہ آفرینش و گردش بغیر سوچے سمجھے اور کھیل کود کے لئے نہیں ہیں ” خدا نے انھیں صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے “( ما خَلَقَ اللَّهُ ذلِکَ إِلاَّ بِالْحَقِّ ) ۔

آیت کے آخر میں تاکیدا ً فرمایا گیا ہے : خدا سمجھنے والوں کے لئے اپنی نشانیاں شرح و بسط کے ساتھ بیان کرتا ہے( یُفَصِّلُ الْآیاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ) ۔

باقی رہے بے خبر و بے بسر تو وہ بارہا خدا کی ان نشانیوں کے پاس سے گزر جاتے ہیں لیکن ان سے کچھ نہیں سمجھتے ۔

۔دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ آسمان و زمیں میں اپنے وجود کی کجھ مزید نشانیاں اور دلائل بیان کرتا ہے ، فرماتا ہے : رات دن کے آنے جانے میں اور جو کچھ خدا نے آسمانوں اور زمینوں میں پیدا کیا اس میں پرہیزگاروں کے لئے نشانیاں ہیں( إِنَّ فی اخْتِلافِ اللَّیْلِ وَ النَّهارِ وَ ما خَلَقَ اللَّهُ فِی السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ لَآیاتٍ لِقَوْمٍ یَتَّقُونَ ) ۔

نہ صرف آسمان اور زمین خدا کی نشانیاں ہیں بلکہ موجودات کے تمام ذرات جو ان میں موجود ہیں ہر کوئی ایک نشانی ہے لیکن انھیں صرف وہی لوگ سمجھ جاتے ہیں جنہوں نے تقویٰ اور گناہ سے پرہیز کے سائے میں روح کی پاکیزگی اور روشن بینی حاصل کی ہے جو حقیقت اور جمال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔

____________________

۱ ۔ چاند کا گھٹنا ، چاند کی وہ آخری تین تاریخیں جن میں وہ نظر نہیں آتا ۔ ہندی میں اسے” اوماس“ کہتے ہیں ۔ (مترجم )

۲ اس بارے میں کہ چاند ایک فطری تقویم ہے، اس کے مختلف حالات سے مہینہ کے دنوں کو غور و خوض سے معین کیا جا سکتاہے۔اس سلسلے میں تفسیر نمونہ جلد دوم ، ص ۲۲ ( اردو ترجمہ ) پر بحث کر چکے ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ضیا اور نور میں فرق :

اس سلسلے میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے ۔

بعض دونوں کو مترادف اور ہم معنی سمجھتے ہیں ۔

بعض کہتے ہیں کہ ضیاء جو مندرجہ بالا آیت میں سورج کی روشنی کے لئے استعمال ہوا ہے وہ قوی اور طاقتور نور ہے لیکن لفظ” نو ر “ جو چاند کے بارے میں آیا ہے ، کمزور نور کے بارے میں ہے ۔

تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ” ضیاء “ ذاتی طور پر یہ نور کے معنی میں ہے لیکن نور ایک عام مفہوم رکھتا ہے جو ذاتی اور دوسرے سے حاصل کردہ دونوں کے لئے ہے ۔ اس صورت میں مندرجہ بالا آیت میں تعبیر کا فرق اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے سورج کو نور پھوٹنے کا منبع قرار دیا ہے جبکہ چاند کا نور دوسرے سے حاصل کردہ ہے اور اس کا سر چشمہ سورج ہے ۔

قرآن کی کچھ آیات کی طرف توجہ کرنے سے یہ فرق زیادہ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے ۔

سورہ نوح کی آیہ ۱۶ میں ہے :( و جعل القمر فیهن نوراً وجعل الشمس سراجاً )

ان میں سے چاند کو نور اور سورج کو چراغ قرار دیا ہے ۔

سورہ فرقان آیہ ۶۱ میں ہے -:( و جعل فیها سراجا و قمرامنیرا ) ۔

ان میں سے چراغ اور روشنی دینے والا چاند قرار دیا ہے۔

اور اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” سراج “ ( یعنی چراغ) اپنی طرف سے نور برساتا ہے اور وہ نور کا منبع اور سر چشمہ ہے اور سورج کو مندرجہ بالا دو آیات میں چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے واضح ہو جاتا ہے کہ زیر بحث آیات میں بھی یہ فرق بہت ہی مناسب معلوم ہوتا ہے ۔

۲ ۔” ضیاء “ جمع ہے یا مفرد :

اس سلسلے میں اہل ادب اور اہل لغت میں اختلاف ہے ۔ مولف قاموس کی طرح بعض نے اسے مفرد سمجھا ہے لیکن زجاج کی طرح بعض دوسرے افراد نے ” ضیاء “ کو ”ضو“ کی جمع قرار دیا ہے ۔ تفسیر المنار اور تفسیر قرطبی کے مولفین نے بھی دوسرا معنی قبول کیا ہے ۔

خصوصاً المنار کے مولف نے اسی بنیاد پرآیت سے بہت استفادہ کیا ہے ۔ وہ کہتا ہے :

سورج کے نور کے بارے میں قرآن میں ” ضیاء “ کا جمع کی صورت میں ذکر اس چیز کی طرف اشارہ ہے جسے اس زمانے کی سائنس نے کئی صدیوں کے بعد ثابت کیا ہے اور وہ یہ کہ سورج کا نور سات انوار سے مرکب ہے یا دوسرے لفظوں میں سات رنگوں میں ہے وہی رنگ جو قوس قزح میں اور بلوریں سوراخوں سے گذرتے ہوتے ہوئے روشنی میں نظر آتے ہیں ۔

لیکن یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ چاند کا نور اگر چہ ضعیف ہے پھر بھی کیا وہ مختلف رنگوں سےمرکب نہیں ہے ؟

۳ ۔ ”قدرہ منازل “ کی ضمیر:

”قدرہ منازل “( اسکے لئے کئی منزلیں مقرر کیں )کی ضمیر کا مرجع صرف چاند ہے یا یہ چاند اور سورج دونوں کی طرف اشارہ ہے ۔ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے بعض کا نظریہ ہے کہ یہ ضمیر اگر چہ مفرد ہے پھر بھی دونوں کی طرف لوٹتی ہے ۔ ایسی نظیریں عربی ادب میں بہت ہے ۔ اس نظریہ کا انتخاب اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ صرف چاند ہی کی نہیں بلکہ سورج کی بھی منزلیں ہیں اور وہ ہر وقت کسی مخصوص برج میں ہوتا ہے ۔برجوں کایہی اختلاف تاریخ اورشمسی مہینوں کے بننے کی بنیادہے۔

لیکن انصاف یہ ہے کہ آیت کاظہورنشاندہی کرتا ہے کہ یہ ضمیرمفرد صرف ”قمر “ کی طرف لوٹتی ہے جواس کے قریب ہے اوراس میں بھی ایک نکتہ ہے۔۔۔۔۔کیونکہ:

وہ مہینے کہ جنہیں اسلام میں قانونی طور پر قبول کیا گیا ہے ، قمری مہینے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ چاند ایک متحرک کرّہ ہے اور اس کی کئی منزلیں ہیں لیکن سورج نظام شمسی کے وسط میں ہے اور اس نظام میں اس کی کوئی حرکت نہیں ۔

باقی رہا برجوں کا اختلاف اور بارہ فلکی برجوں میں سورج کی سیر کہ جو حمل سے شروع ہوکر حوت پر جا کر ختم ہوتی ہے تو وہ سورج کی حرکت کی وجہ نہیں ہے بلکہ زمین کی چاند کے گرد حرکت کی وجہ سے ہے اور زمین کی یہ گردش سبب بنتی ہے کہ ہم سورج کو ہر مہینے میں بارہ آسمانی برجوں میں سے ایک میں دیکھتے ہیں ۔ لہذا سورج کی مختلف منزلیں نہیں ہیں بلکہ صرف چاند ہی کی منزلیں ہیں ۔(غور کیجئے گا )

مندرجہ بالا آیات در حقیقت ایک علمی مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو آسمانی کرات سے مربوط ہے اس زمانے میں یہ بات نوع بشر کے علم کی نگاہ سے پوشیدہ تھی اور وہ یہ کہ چاند حرکت کرتا ہے لیکن سورج حرکت نہیں رکھتا ۔

۴ ۔ رات دن کا آنا جانا :

زیر نظر آیت میں رات دن کے آنے جانے کو خدا کی ایک نشانی شمار کیا گیا ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ اگر سورج کی روشنی ایک ہی طرح مسلسل زمین پر پڑتی رہتی تو یقینا زمین کا درجہ حرارت اتنا بٹرھ جاتا کہ وہ زندگی گزارنے کے قابل نہ رہتی ( جیسے چاند پر جلانے والی حرارت ہے جو کہ اس کے دنوں میں زمین کے ۱۵ شب و روز کے برابر ہے ) اور اگر اسی طرح رات مسلسل جاری رہتی تو تمام چیزیں سردی کی شدت سے خشک ہوجاتیں

( جیسا کہ چاند کی طویل راتیں ہیں ) لیکن خدا نے ان دونوں کو یکے بعد دیگرے قرار دیا ہے تا کہ زندگی کو کرہ ارض پر باقی رکھے ۔(۱)

عدد ، حساب ، تاریخ ، سال اور مہینہ کا انسانی نظام حیات ، اس کے معاشرتی رابطوں اور کام کاج پر اثر سب پر واضح ہے ۔

۵ ۔ تقویم اور تاریخ کا مسئلہ :

مندرجہ بالا آیت میں تقویم اور تاریخ کے حساب کے جس مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ انسانی زندگی کے اہم ترین مسائل میں سے ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ کسی نعمت کی اہمیت اس وقت واضح ہوتی ہے جب زندگی کو اس کے بغیر دیکھیں اگر ہم اس حوالے سے غور کریں کہ اگر تاریخ ( DATE )

( جو کہ دنوں ، مہینوں اور سالوں کا امتیاز کرتی ہے ) انسانی زندگی سے ہٹا دی جائے مثلا ہفتے کے دن واضح نہ ہوں ، نہ مہینے کا حساب ہو اور نہ سال کا حساب ہو تو تمام تجارتی و اقتصادی معاملات ، تمام معاہدہ اور مدت کے تعین کا نظام درہم برہم ہو جائے اور کسی کام میں نظم و ضبط نہ رہے یہاں تک کہ کھیتی باڑی ، سرمایہ کاری اور کارخانوں کی حالت بھی حرج مرج کا شکار ہو جائے لیکن خدا نے چونکہ انسان کو ایک سعادت بخش زندگی کے لئے پیدا کیا ہے جس کا ایک نظم و ضبط ہے اسلئے اس نظام کے وسائل بھی اسے مہیا کئے ہیں ۔

یہ ٹھیک ہے کہ انسان کسی ایک نظام تاریخ کے مطابق کسی حد تک اپنے کاموں کو منظم کر سکتا ہے لیکن اگر یہ حساب کسی فطری میزان کے مطابق نہ ہو تو نہ اس میں عمومیت ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ قابل اعتماد ہو سکتا ہے ۔

گردش مہر و ماہ ( یا زیادہ صحیح لفظوں میں زمین کی سورج کے گرد گردش ) اور اس کی منزلیں ایک فطری تقویم کی بنیاد قائم کرتی ہیں ، جو ہر جگہ اور تمام لوگوں کے لئے واضح اور قابل اعتماد ہے ۔

جیسا کہ رات دن کی مقدر جو کہ ایک چھوٹا سا ارصہ ہے ایک طبیعی عامل کے ما تحت یعنی زمین کے اپنے محور کے گرد حرکت کرنے سے وجود میں آتی ہے اسی طرح مہینہ اور سال کا حساب بھی کسی طبیعی گردش کی بنیاد پر ہونا چاہیے ۔ اس کے لئے کرہ ارض کے گرد چاند کی حرکت ایک بڑی اکائی ہے ( اسی کی بنیاد پر بنتا ہے جو تقریبا تیس دن کے مساوی ہے ) اور زمین کی سورج کے گرد حرکت عظیم تر اکائی ہے جس سے سال معرض وجود میں آتا ہے ۔

ہم نے کہا ہے کہ اسلامی تقویم چاند کی گردش کی بنیاد پر ہے ۔ یہ درست ہے کہ بارہ برجوں میں سورج کی گردش بھی تقویم کے حساب کے لئے ایک اچھا ذریعہ ہے اور اس سے شمسی مہینوں کا تعین ہوتا ہے ۔ تا ہم یہ سب کے لئے فائدہ مند نہیں ہے اور اس کی تشخیص صرف علم فلکیات کے ماہرین رصد گاہوں کے ذریعے کر سکتے ہیں لہذا دوسرے لوگ مجبور ہیں کہ ان تقویموں کی طرف رجوع کریں جو علم فلکیات کے ماہرین نے مرتب کی ہیں ۔لیکن زمین کے گرد چاند کی منظم گردش ایسی واضح تقویم پیش کرتی ہے کہ ان پڑھ اور بیابانوں میں رہنے والے بھی اس کے نقوش اور خطوط پڑھ سکتے ہیں اسکی وضاحت یہ ہے کہ آسمان پر ہر رات چاند کی ایک خاص کیفیت ہوتی ہے جو پہلے اور بعد کی رات سے مختلف ہو تی ہے اس طرح سے کہ پورے مہینوں کی دو راتوں میں آسمان پر چاند کی کیفیت اور شکل و صورت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔ ہر رات کے چاند کی کیفیت پر اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو آہستہ آہستہ ہمیں عادت ہو جائے گی اور ہم پورے طور پر معین کر سکیں گے کہ یہ مہینے کی کون سی رات ہے ۔

ہو سکتا ہے بعض لوگ یہ تصویر کرےں کہ مہینے کے دوسرے نصف میں بعینہ پہلے نصف کے منظر کا طریقہ ہوتا ہے مثلا اکیسویں شب چاند کا چہرہ ٹھیک ساتویں رات کے چہرے کی طرح ہوتا ہے لیکن یہ ایک بڑا اشتباہ ہے کیونکہ چاند کا ناقص حصہ پہلے نصف مہینے میں اوپر کی طرف ہوتا ہے جبکہ دوسرے نصف حصہ میں ناقص حصہ نیچے کی طرف ہوتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آغاز ماہ میں ھلال کے کونے مشرق کی سمت ہوتے ہیں جبکہ مہینے کے دوسرے حصے میں چاند کی نوکیں مغرب کی طرف ہوتی ہیں ۔ علاوہ ازیں مہینے کے اوائل میں چاند مغرب کی طرف نظر آتا ہے لیکن نصف ماہ کے بعد زیادہ تر مشرق کی طرف ہوتا ہے اور بہت دیر کے بعد طلوع کرتا ہے ۔

اس طرح چاند کی بدلتی صورت سے ایک دن کا حساب کیا جا سکتا ہے اور شکل ہی پر غورو خوض کرنے سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مہینے کی کون سی تاریخ ہے بحر حال یہ نظام تقویم ایک بڑی نعمت ہے جس پر ہم آفرینش خدا وندی کے ممنون احسان ہیں اور اگر چاند ، سورج اور زمین کی حرکات نہ ہوتیں تو ہماری زندگی میں ایسا حرج مرج ہوتا اور ہم ایسی پریشانی سے دوچار ہوتے کہ جس کا اس وقت ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔

وہ قیدی جو کسی تاریک کوٹھڑی میں قید تنہائی میں ہوتے ہیں اور انھیں وقت کا پتہ نہیں چلتا وہ اس مصیبت کا پورے طور پر احساس کرتے ہیں ۔

ہمارے زمانے میں ایک قیدی تقریبا ایک ماہ کے لئے استبداد کے ایجنٹوں کے ہاٹھوں گرفتار رہا ، اسے ایک تاریک کوٹھڑی میں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا وہ بیان کرتا ہے : ” میرے پاس وقت نماز کی تشخیص کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہ تھا کہ جب وہ دوپہر کا کھانا لاتے تو میں ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھ لیتا اور جس وقت وہ رات کا کھانا لاتے تو میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کر لیتا اور نماز صبح بھی عموما جب وہ ناشتہ لاتے پڑھ لیتا ۔اگر دنوں کو شمار کرنا چہتا تو کھانوں کی تعداد اور حساب کو نظر میں رکھتا ۔ کھانے کے تین اوقات کو ایک دن شمار کرتا تھا ۔ لیکن نہ معلوم کیا ہوا کہ جب میں زندان سے باہر نکلا تو میرا حساب باہر کے لوگوں کے حساب سے مختلف ہو چکا تھا ۔ “

____________________

۱ جلد اول تفسیر نمونہ ص ۳۹۷ ( اردو ترجمہ ) اور جلد سوم ص ۱۶۰ (اردو ترجمہ ) پر بھی اس کے بارے میں وضاحت کی جا چکی ہے ۔