تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25628
ڈاؤنلوڈ: 2485


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25628 / ڈاؤنلوڈ: 2485
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۱۵،۱۶،۱۷

۱۵ ۔( وَ إِذا تُتْلی عَلَیْهِمْ آیاتُنا بَیِّناتٍ قالَ الَّذینَ لا یَرْجُونَ لِقاء َنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِهذا اٴَوْ بَدِّلْهُ قُلْ ما یَکُونُ لی اٴَنْ اٴُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقاء ِ نَفْسی إِنْ اٴَتَّبِعُ إِلاَّ ما یُوحی إِلَیَّ إِنِّی اٴَخافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذابَ یَوْمٍ عَظیمٍ ) ۔

۱۶ ۔( قُلْ لَوْ شاء َ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَیْکُمْ وَ لا اٴَدْراکُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فیکُمْ عُمُراً مِنْ قَبْلِهِ اٴَ فَلا تَعْقِلُونَ ) ۔

۱۷ ۔( فَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَری عَلَی اللَّهِ کَذِباً اٴَوْ کَذَّبَ بِآیاتِهِ إِنَّهُ لا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۵ ۔اور جس وقت ہماری واضح آیات انھیں سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہماری ملاقات ( اور قیامت ) کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں : کوئی قرآن لے آواس کے علاوہ یا اسے تبدیل کرودو ( اور اس میں سے بتوں کی مذمت والی آیتیں نکال دو ) کہہ دو : مجھے حق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے تبدیل کر دوں میں تو صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی ہوتی ہے اگر میں اپنے پروردگار کی نا فرمانی کروں تو ( قیامت کے ) عظیم دن کی سزا سے ڈرتا ہوں ۔

۱۶ ۔ کہہ دو : اگر خدا چاہتا تو میں تم پر آیات تلاوت نہ کرتا اور تمہیں ان سے آگاہ نہ کرتا کیونکہ میں نے مدتوں اس سے پہلے تم میں زندگی گزاری ہے ، کیا سمجھتے نہیں ہو ۔

۱۷ ۔ اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا پر جھوٹ باندھتا ہے اور اس کی آیات کو جھٹلاتا ہے ۔ مسلم ہے کہ مجرم فلاح نہیں پائیں گے ۔

شان نزول

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیات چند بت پرستوں کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں ۔ وہ خدمت پیغمبر میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے جو کچھ قرآن میں ہمارے بڑے بتوں لات ، عزٰی ، منات اورھبل کی عبادت کرنے اور ان کی مذمت میں نازل ہوا ہے ، ہمارے لئے قابل برداشت نہیں ہے اگر تم چاہتے ہو کہ ہم تمہاری پیروی کریں تو دوسرا قرآن لے آوجس میں ایسی کوئی بات نہ ہو یا پھر کم از کم موجودہ قرآن میں سے ایسی باتیں نکال دو ۔ اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں ہیں اور انھیں جواب دیا گیا ہے ۔

تفسیر

گذشتہ آیات کی طرح ان آیات میں بھی مبداء اور معاد سے مربوط مسائل سے متعلق بحث جاری ہے ۔

پہلے بت پرستوں کے ایک بہت بڑے اشتباہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے : جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں جو لوگ قیامت اور ہماری ملاقات پر ایمان نہیں رکھتے ، کہتے ہیں : اس کی بجائے کوئی دوسرا قرآن لے آویا پھر کم از کم اس قرآن میں تبدیل کر دو( وَ إِذا تُتْلی عَلَیْهِمْ آیاتُنا بَیِّناتٍ قالَ الَّذینَ لا یَرْجُونَ لِقاء َنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِهذا اٴَوْ بَدِّلْه )

یہ بے خبر بے نوا پیغمبر کی رہبری کو قبول نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے خرافات اور باطل افکار کی پیروی کی دعت دیتے تھے۔ آنحضرت سے ایسے قرآن کی خواہش کرتے تھے جو ان کے انحراف کے تابع ہو نہ کہ ان کے معاشرے کا اصلاح کنندہ ہو ۔ وہ نہ صرف یہ کہ قیامت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور اپنے کاموں میں احساس مسولیت نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کی یہ گفتگو نشاندہی کرتی تھی کہ انھوں نے نبوت کے مفہوم کو بالکل سمجھا ہی نہ تھا یا وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے ۔

قرآن صراحت کے ساتھ انھیں اس عظیم اشتباہ سے باہر نکالتا ہے اور پیغمبر اکرم کو حکم دیتا ہے کہ ان سے کہہ دو : میرے لئے ممکن نہیں ہے کہ میں خود اس میں تبدیلی کر دوں( قُلْ ما یَکُونُ لی اٴَنْ اٴُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقاء ِ نَفْسی ) (۱)

اس کے بعد تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے : میں فقط اس کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی ہوتی ہے( إِنْ اٴَتَّبِعُ إِلاَّ ما یُوحی إِلَیَّ ) نہ صرف یہ کہ میں اس آسمانی وحی میں تبدیلی نہیں کر سکتا بلکہ میں اگر اپنے پروردگار کے حکم سے تھوڑا سا بھی تخلف کروں تو ( قیامت کے ) اس عظیم دن کی سزا سے ڈرتا ہوں( إِنِّی اٴَخافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذابَ یَوْمٍ عَظیمٍ )

اگلی آیت میں اس بات کی دلیل پیش کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے ، ان سے کہہ دو : ” اس کتاب میں میرے ارادے کا ذرہ بھر بھی دخل نہیں ہے اور اگر خدا چاہتا تو ان کی آیات کی میں تمہارے سامنے تلاوت نہ کرتا اور تمھیں اس سے آگاہ نہ کرتا “ ۔( قُلْ لَوْ شاء َ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَیْکُمْ وَ لا اٴَدْراکُمْ ) اس لئے کہ میں نے قبل ازیں بہت عرصہ تم میں زندگی گزاری ہے اور تم نے کبھی بھی مجھ سے ایسی باتیں نہیں سنیں اگر یہ آیات میری طرف سے ہوتیں تو لازماً اس چالیس سال کی مدت میں میری فکر سے میری زبان پر جاری ہوتیں ۔ کم از کم ان کا کچھ حصہ تو بعض لوگ ہم سے سنتے ( بِہِ فَقَدْ لَبِثْتُ فیکُمْ عُمُراً مِنْ قَبْلِہ) کیا یہ واضح بات نہیں سمجھ سکتے( اٴَ فَلا تَعْقِلُونَ )

پھر مزید تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے : میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ ظلم کی بد ترین قسم یہ ہے کہ کوئی شخص خدا پر افتراء باندھے ۔

”اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے کہ جو خدا کی طرف جھوٹی نسبت دے “( فَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَری عَلَی اللَّهِ کَذِباً ) ۔

لہذا کیونکر ممکن ہے کہ میں ایسے بڑے گناہ کا مرتکب ہوں اسی طرح جو شخص آیات الہی کی تکذیب کرے تو یہ بھی بہت بڑا ظلم ہے( اٴَوْ کَذَّبَ بِآیاتِه )

اگر تم آیات حق کی تکذیب اور انکار کے گناہ کی عظمت سے بے خبر ہو تو میں بے خبر نہیں ہوسکتا ۔ بحر حال تمہارا یہ کام بہت بڑا ظلم ہے ” اور مجرم کبھی فلاح اور کامیابی حاصل نہیں کرستے “( إِنَّهُ لا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ )

چند اہم نکات

۱ ۔ مشرکین کی دو متبادل خواہشوں میں فرق :

مشرکین پیغمبر خدا سے یہ خواہش کرتے تھے کہ یا تو قرآن کو کسی اور کتاب سے بدل دیں یا قرآن میں تبدیلی کردیں ان دونوں کے درمیان فرق واضح ہے ۔ ان کے پہلے تقاضے میں ان کا مقصد یہ تھا کہ یہ کتاب بالکل ختم ہو جائے اور اس کی جگہ پیغمبر کی طرف سے دوسری کتاب آجائے لیکن دوسرے تقاضے میں وہ چاہتے تھے کہ کم از کم وہ آیات جو بتوں کے خلاف ہیں وہ تبدیل ہو جائیں تا کہ انھیں اس طرف سے کسی قسم کی پریشانی لا حق نہ ہو ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کیسے قطعی لہجہ میں انھیں جواب دیتا ہے کہ نہ کتاب کا تبادلہ پیغمبر کے اختیار میں ہے نہ رد و بدل اور نہ وحی تاخیر یا جلدی ۔

واقعاً ان کے افکار و نظریات کسیے پست اور ناقص تھے وہ ایسے پیغمبر کی اطاعت کرنا چاہتے تھے کہ جو ان کے خرافات اور ہوا و ہوس کا پیرو ہو نا کہ جو خود پیشوا، رہبر ، مربی اور رہنماء ہو ۔

۲ ۔ پیغمبر اکرم کے جواب پر ایک نظر :

یہ بات قابل توجہ ہے کہ پیغمبر خدا ان کے دو تقاضوں کے جواب میں صرف ان کی دوسری خواہش کے انجام دینے کی توانائی نہ رکھنے کا ذکر کرتے ہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں کویہ ردّ و بدل نہیں کر سکتا ۔ اس بیان سے در اصل ان کی پہلی خواہش کی بطریق اولیٰ نفی ہوجاتی ہے کیونکہ جب بعض آیات میں تغیر و تبدل پیغمبر کے اختیار میں نہیں تو کیا اس ساری آسمانی کتاب کو بدل دینا اس کے لئے ممکن ہے اس تعبیر میں ایک خاص وضاحت پائی جاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک بھی اضافی جملہ یا لفظ کہے بغیر انتہائی جچے تلے اور مختصر الفاظ میں تمام مسائل بیان کرتا ہے ۔

۳ ۔ ایک اشکال اور اس کی وضاحت :

ہو سکتا ہے کہا جائے ۔ جو دلیل قرآن کے پیغمبر کی طرف سے ہونے کی نفی کے لئے اور اس کے حتماً خدا کی طرف سے ہونے کے بارے میں زیر نظر آیات میں پیش کی گئی ہے وہ مطمئن کرنے والی نہیں ہے ۔ یہ ضروری ہے کہ اگر یہ کتاب پیغمبر کی طرف سے ہو تو حتماً اس جیسا کلام انہوں نے اس سے قبل آپ سے سنا ہو ۔

لیکن تھوڑا سا غور کرنے سے اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کیونکہ جو کچھ ماہرین نفسیات کہتے ہیں اس کے مطابق نبوغ ، ایجاد اور تخلیق کی صلاحیتوں کااظہار عموماً انسان میں بیس سال کی عمر میں شروع ہو جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ پینتیس سے چالیس سال تک رہتا ہے یعنی اگر انسان اس عمر تک اپنی ان صلاحیتوں سے کام نہ لے تو اس کے بعد عام طور پر ممکن نہیں رہتا ۔

یہ امر جو آج کل علم نفسیات کے حوالے سے معلوم ہوا ہے مثلاً اس سے پہلے اس حد تک واضح نہیں تھا مگر اکثر لوگ فطرت کی ہدایت سے اس امر کی طرح توجہ رکھتے ہیں کہ معمول کے مطابق ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان ایک روش ، مکتب اور نظریہ رکھتا ہو اور چالیس سال ایک قوم میں زندگی گزار لے اور بالکل اسے ظاہر نہ کرے قرآن بھی اسی نبیاد کا سہارا لیتا ہے کہ اس سن و سال میں کس طرح ممکن تھا کہ اپیغمبر ایسے افکار و نظریات رکھتا ہو اور انہیں بالکل چھپا ئے رکھے ۔

۴ ۔ سب سے زیادہ ظالم کون ہے ؟ :

جیسا کہ ہم سورہ انعام کی آیہ ۲۱ ۔ کے ذیل میں اشارہ کرچکے ہیں کہ قرآن میں بہت سے موقع پر کسی ایک گروہ کو سب سے بڑھ کر اظالم ( اظلم ) قرار دیا گیا ہے ۔ ابتداء میں شاید یہ نظر آئے کہ ان میں ایک دوسرے سے تضادپایا جاتا ہے کیونکہ جب ایک گروة کو سب سے زیادہ ظاکم قرار دیا جائے تو ہھر دوسرے کو کیسے یہی کچھ کہا جا سکتا ہے ۔

اس سوال کے جواب میں ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ تمام عناوین در اصل ایک یہی عنوان کی طرف لوٹتے ہیں اور وہ ہے شرک ، کفر ، عناد آیات خدا وندی کی تکذیب اور خدا پر افتراء۔ زیر بحث آیت میں بھی یہی صورت ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے جلد پنجم ص ۱۶۰ ( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع کریں ۔

____________________

۱۔ لفظ ” تلقاء “ مصدر ہے یا اسم مصدر ہے یہ مقابلے اور آمنے سامنے کے معنیٰ میں آیا ہے اس آیت میں اور ایسے مقامات پر یہ نزدیک اور ماحیہ کے معنی میں ہے یعنی میں اپنی طرف سے اور خود سے تبدیلی نہیں کر سکتا ۔

آیت ۱۸

۱۸ ۔( وَ یَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا یَضُرُّهُمْ وَ لا یَنْفَعُهُمْ وَ یَقُولُونَ هؤُلاء ِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ اٴَ تُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِما لا یَعْلَمُ فِی السَّماواتِ وَ لا فِی الْاٴَرْضِ سُبْحانَهُ وَ تَعالی عَمَّا یُشْرِکُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۸ ۔ اور خدا کی بجائے کچھ چیزوں کی پرستش کرتے ہیں کہ جونہ انہیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ فائدہ دیتی ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کے پاس یہ ہمارے شفیع ہیں ، کہہ دو : کیا تم خدا کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ آسمانوں اور زمین میں نہیں جانتا ۔ وہ ان شریکوں سے منزہ اور بلند و بر تر ہے جو تم قرار دیتے ہو ۔

بے اثر معبود

اس آیت میں بھی بحث توحید جاری ہے یہاں بتوں کی الوہیت کی نفی کی گئی ہے اور ایک واضح دلیل کے ذریعہ بتوں کا بے وقعت اور بے قیمت ہونا ثابت کیا گیا ہے ۔ فرمایا گیا ہے : وہ خدا کی بجائے کچھ معبودوں کی پرستش کرتے ہیں کہ جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں کہ ان کی طرف سے نقصان کے خوف سے ان کی پرستش کریں اور نہ ہی انہیں کوئی نفع پہنچاسکتے ہیں کہ ان کی جانب سے فائدے کی وجہ سے ان کی عبادت کریں (وَ یَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ ما لا یَضُرُّھُمْ وَ لا یَنْفَعُھُم)۔

واضح ہے کہ اگر فرض کریں بت سود و زیاں پہنچا سکتے ہیں پھر بھی عبادت کے لائق نہ تھے لیکن قرآن اس تعبیر کے ذریعہ یہ نکتہ سمجھاتا ہے کہ بت پرستوں کے پاس اس بات کا چھوٹے سے چھوٹا بہانا بھی نہیں ہے اور وہ ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں کہ جن میں بالکل کوئی خاصیت نہیں ہے اور یہ بد ترین اور قبیح ترین پرستش ہے ۔

اس کے بعد قرآن بت پرستوں کا ایک بے ہودہ دعوی پیش کرتے ہوئے کہتا ہے : وہ کہتے ہیں کہ بت بارگاہ الہی میں ہمارے شفیع اور سفارشی ہیں ۔ یعنی خود ان سے کچھ نہیں ہو سکتا تو شفاعت کے ذریعہ سود و زیاں کر سکتے ہیں( وَ یَقُولُونَ هؤُلاء ِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ )

بت پرستی کا یاک سبب بتوں کی شفاعت کا اعتقاد تھا اور جیسا کہ تاریخ میں آیا ہے جس وقت عربوں کا ایک بزرگ عمر وبن لحی شام کے معدنی پانیوں سے استفادہ کرنے اور اپنا علاج کرنے اس علاقہ میں گیا تواسے بت پرستوں کا طریقہ بہت اچھا لگا جب اس نے ان سے اس پرستش کی دلیل پوچھی تو انہوں نے اس سے کہا کہ یہ بت بارش برسنے ، مشکلات حل ہونے اور بارگاہ خدا میں شفاعت کا ذریعہ ہیں وہ چونکہ ایک فضول سا آدمی تھا اس سے متاثر ہو گیا اور خواہش کی کہ کچھ بت ایسے دئے جائےں تا کہ وہ انہیں حجاز میں لے جائے ۔ اس طریقہ سے بت پرستی اہل حجاز میں رائج ہوگئی ۔ تو اس خیال کے جواب میں قرآن کہتا ہے : کیا تم خدا کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جسے آسمانوں اور زمین مکیں وہ نہیں جانتا( قُلْ اٴَ تُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِما لا یَعْلَمُ فِی السَّماواتِ وَ لا فِی الْاٴَرْضِ )

یہ امر اس کے لئے کنایہ ہے کہ اگر خدا کے پاس ایسے شفیع ہوتے تو وہ زمین و آسمان کے جس نقطے میں ہوتے ان کے وجود سے آگاہ ہوتا کیونکہ علم خدا کی وصیت اس طرح سے ہے کہ آسمان اور زمین میں چھوٹے سے چھوٹا ذرا بھی ایسا نہیں جس سے آگاہ نہ ہو ۔ دوسرے لفظوں میں یہ بالکل اس طرح ہے کہ کسی سے کہا جائے کہ کیا تمہارا کوئی اس طرح کا نمائندہ ہے ؟ اور وہ جواب دے کہ میں ایسے نمائندے کے وجود کی خبر نہں رکھتا ، تو یہ اس کے وجود کی نفی کے لئے بہترین ہے کیونکہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اپنے نمائندے کے وجود سے بے خبر ہو ۔

آیت کے آخر میں تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے : خدا ان کے شریکوں سے منزہ اور بر تر ہے جو وہ بتا تے ہیں( سُبْحانَهُ وَ تَعالی عَمَّا یُشْرِکُونَ )

شفاعت کے بارے میں جلد اول ص ۱۸۷ ( اردو ترجمہ ) اور جلد دوم ( اردو ترجمہ ) پر تفصیلی بحث ہو چکی ہے ۔

آیت ۱۹

۱۹ ۔( وَ ما کانَ النَّاسُ إِلاَّ اٴُمَّةً واحِدَةً فَاخْتَلَفُوا وَ لَوْ لا کَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَهمْ فیما فیهِ یَخْتَلِفُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۹ ۔ اور ( ابتدا میں )سبلوگ ایک ہی امت تھے پھر وہ اختلاف کرنے لگے اور اگر تیرے پروردگار کی طرف سے ( انھیں فوری سزا نہ دےنے کے بارے میں )حکم نہ ہوتا تو جس چیز کے بارے میں وہ اختلاف کرتے ہیں اس کا فیصلہ ہوجاتا ہے ۔

تفسیر

یہ آیت اس بحث کی مناسبت سے جو گزشتہ آیت میں شرک اور بت پرستی کی نفی کے سلسلے میں گزرچکی ہے تمام انسانوں کی توحیدی فطرت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور کہتی ہے : ابتداء میں تمام انسان امت و احد تھے اور توحید کے علاوہ کسی کا کوئی دین نہ تھا( وَ ما کانَ النَّاسُ إِلاَّ اٴُمَّةً واحِدَةً )

ابتداء میں تو اس طرح توحیدی فطرت کو کسی کا ہاتھ نہیں لگاتھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پست افکار اور شیطانی رجحانات کے زیر اثر یہ دگر گوں ہونگی کچھ لوگ جادہ توحید سے منحرف ہوں گے اور انھوں نے شرک کا رخ کر لیا یوں فطرتاً انسانی معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ایک گروہ موحد اور دوسرا مشرک( فَاخْتَلَفُوا )

اس بنا ء پر شرک در حقیقت ایک قسم کی بدعت اور فطرت سے انحراف ہے جس کا سر چشمہ کچھ اوہام اور بے بنیاد خیالات ہیں ۔

ممکن تھا اس موقع پر یہ سوال کیا جاتا کہ خدا تعالیٰ مشرکین کو فوری طور پر سزا دے کر یہ اختلاف کیوں نہیں ختم کر دیتا تا کہ تمام انسانی معاشرہ سے پھر موحد بن جائے اس سوال کے جواب کے لئے قرآن بلا فاصلہ کہتا ہے : اگر پہلے سے ہدایت کے بارے میں انسانی آزادی کے متعلق خدا کا فرمان نہ ہوتا جو کہ انسانی تکامل اور ترقی کی بنیاد ہے تو خدا بہت جلدی ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کر دیتا جس میں وہ اختلاف رکھتے تھے اور مشرکین و منحرفین کو کیفر کردار تک پہنچا دیتا ۔

( وَ لَوْ لا کَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَهمْ فیما فیهِ یَخْتَلِفُونَ )

اس بناء پر مندرجہ بالا آیت میں لفظ ” کلمہ “ انسانوں کی آزادی کے بارے میں سنت اور حکم فطرت کی طرف اشارہ ہے جو ابتداء سے اسی طرح ہے اگر منحرفین اور مشرکین کو فورا ً سزا دے دی جائے تو موحدین کا ایمان تقریباً اضطراری اور جبری ہو جائے گا اور حتما ًخوف اور وحشت کی بناء پر ہوگا ایسا ایمان نہ سرمایہ ایمان ہے نہ تکامل اور ارتقاء کی دلیل ہے یہ فیصلہ اور یہ سزا خدا نے زیادہ تر دوسرے جہان کے لئے چھوڑ دی ہے تاکہ نیک اور پاک لوگ آزادی سے اپنی راہ منتخب کریں ۔

آیت ۲۰

۲۰ ۔( وَ یَقُولُونَ لَوْ لا اٴُنْزِلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَیْبُ لِلَّهِ فَانْتَظِرُوا إِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرینَ ) ۔

ترجمہ

۲۰ ۔ اور کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے کیوں کوئی معجزا نازل نہیں ہوا کہہ دو : غیب ( اور معجزات ) خدا کے لئے ( اور اس کے حکم سے ) ہیں ۔ تم انتظار کرو اور میں بھی تمہارے انتظار میں ہوں ( تم مند پسند اور بہانہ جویانہ معجزات کے انتظار میں رہو اور میں بھی تمہاری سزا کے انتظار میں ہوں ) ۔

من پسند معجزات

ایمان اور اسلام سے رو گردانی کرتے ہوئے مشرکین جو بہانے بناتے تھے قرآن دوبارہ ان کا ذکر کرہا ہے کہتا ہے : مشرکین کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے پیغمبر پر کوئی معجزا کیوں نازل نہیں ہوتا( وَ یَقُولُونَ لَوْ لا اٴُنْزِلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِنْ رَبِّهِ )

البتہ قرآن سے جن کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مراد ہر قسم کا معجزا نہیں تھا ۔ کیونکہ مسلم ہے کہ پیغمبر اسلام کے قرآن کے علاوہ اور بھی معجزات تھے ۔ تو اریخ اسلام اور بعض آیات قرآن اس حقیقت پر گواہ ہے بلکہ ان کی مراد یہ تھی کہ جب بھی وہ کسی من پسند معجزے کی خواہش کریں فوراً اسے پورا کیا جائے ۔ وہ خیال کرتے تھے کہ اعجاز ایک ایسی چیز ہے جو پیغمبر کے اختیار میں ہے اور آپ خود جس وقت جس قسم کے معجزے کا ارادہ کریں انجام دے سکتے ہیں ۔ علاوہ ازیں شاید وہ سمجھتے تھے کہ اپنی اس قوت سے ہر ہٹ دھرمی اور بہانہ جو مدعی کے سامنے کام لیں اور اس کی خواہش کے مطابق عمل کرے ۔

لہذا بال فاصلہ پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے : ان سے کہہ دو کہ معجزہ خدا کے ساتھ مخصوص ہے اور عالم غیب اور ما وراء الطبیعت سے مربوط ہے( فَقُلْ إِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّه ) اس بناء پر معجزا کوئی ایسی چیز نہیں جو میرے اختیار میں ہو اور میں تمہاری خواہش کے مطابق ہر روز ایک نیا معجزا دکھاوں اور پھر بھی تم حیلے بہانے کرکے ایمان نہ لاو ۔

آیت کے آخر میں انہیں دھمکی کے انداز میں کہا گیا ہے : اب جبکہ تم ہٹ دھرمی سے دست بردار نہیں ہوتے تو انتظار میں رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں( فَانْتَظِرُوا إِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرینَ ) ۔ تم خدائی سزا کے انتظار میں رہو اور میں بھی کامیابی کا منتظر ہوں یا یہ کہ تم اس قسم کے معجزہ کے انتظار میں رہو اورمیں بھی تم ہٹ دھرم لوگوں کی سزا کے انتظار میں ہوں ۔

دو اہم نکات

۱ ۔ آیت میں معجزے سے مراد کیاہے :

جیسا کہ ہم سطور بالا میں اشارہ کر چکے ہیں لفظ ” آیہ “ ( معجزہ ) اگر چہ مطلق ہے اور اس کے مفہوم میں ہر قسم کا معجزا شامل ہے لیکن ہامرے پاس ایسے قرائن موجود ہیں جو نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ معرفت پیغمبر کے لئے معجزہ طلب نہین کرتے تھے بلکہ دل پسند معجزات کے خواہاں تھے یعنی وہ ہر روز ایک نئے معجزے کے طلب گار ہوتے تھے اوراس کے لئے روزانہ رسول اللہ سے ایک نیا مطالبہ کرتے تھے اور توقع رکھتے تھے کہ آپ ان کا مطالبہ قبول کر لیں گویا ان کی نظر میں پیغمبر ایک بیکار انسان تھے کہ جنہوں نے تمام معجزات کی کلید اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی اور منتظر رہتے تھے کہ کوئی کسی طرف سے آجائے اوران سے معجزے کی فرمائش کرے وہ اس بات سے غافل تھے کہ اول تو معجزہ فعل خدا ہے اور اسی کے فرمان سے انجام پاتا ہے اور دوم یہ کہ معجزہ پیغمبر کی شناخت کے لئے لوگوں کی ہدایت کے لئے ہے اور اس کا ایک ہی موقع اس مقصد کے لئے کافی ہے ۔ علاوہ ازیں پیغمبر اسلام نے کافی معجزات ان کے سامنے پیش بھی کئے تھے ۔ مزید برآں ان لوگوں کا مقصد اپنی ذاتی کاہش کی تسکین کے اور کچھ نہ تھا ۔

مندرجہ بالا جملے میں ” آیة “ سے مراد من پسن کے معجزات ہیں ۔ اس بات کے لئے مندرجہ ذیل امور کو بطور شاہد پیش کیا جا سکتا ہے ۔

۱ ۔ آیت کے ذیل میں انھیں دھمکی دی گئی ہے اور اگر واقعاً وہ حقیقت شناسی کے لئے معجزا طلب کرتے توانھیں ہر گز تحدید نہ کی جاتی ۔

۲ ۔ پہلے کی چند آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ وہ اس قدر ہٹ دھرم تھے کہ رسول اللہ سے کہتے تھے کہ اپنی آسمانی کتاب کو تبدیل کرکے کوئی دوسری کتاب لے آئیں یا کم ازکم وہ آیات جو بت پرستی کی نفی کرتی ہیں ۔ ان میں رد و بدل کر دیں ۔

۳ ۔ قرآن حکیم میں آیات کی تفسیر کے لئے ایک تسلیم شدہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ القرآن یفسرہ بعضہ بعضاً۔

یعنی ......قرآنی آیات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں ۔

اس حوالے سے اگر قرآن کی آیات مثلا ً سورہ بنی اسرائیل ۹۰ اور ۹۴ کو دکھایا جائے تو اچھی طرح سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ہٹ دھرم بت پرست ہدایت کے لئے معجزہ طلب نہیں کرتے تھے اسی لئے کبھی کہتے تھے کہ ہم اس وقت تک آپ ایمان نہیں لائیں گے جب تک اس خشک زمین سے چشمے نہ نکال کر دکھاو ۔ کوئی کہتا یہ بھی کافی نہیں ہے بلکہ تمہارے پاس سونے کا محل ہونا چاہیے ۔ کوئی اور کہتا کہ اس سے بھی ہماری تسلی نہیں ہوگی بلکہ ہماری آنکھوں کے سامنے آسمان کی طرف پرواز کرو کوئی کہتا کہ آسمان کی طرف پرواز کرنا بھی کافی نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے ہمارے نام خط لے کر آو۔ اسی طرح کی یادہ گوئیاں اور فضول باتیں کرتے تھے ۔

جو کچھ ہم نے اس ضمن میں کہا ہے اس سے واضح ہو گیا ہے کہ جو لوگ چاہتے ہیں کہ زیر بحث آیت کو ہر قسم کے معجزے یا قرآن کے علاوہ معجزات کی نفی کی دلیل قرار دیں وہ اشتباہ میں ہیں ۔

اس مسئلے کے بارے میں مزید وضاحت انشاء اللہ سورہ بنی اسرائیل کی آیہ ۵۹ کے ذیل میں آئے گی ۔

۲ ۔( انما الغیب لله ) ” میں غیب “ کا مفہوم :

ہو سکتا ہے یہ اس طرف اشارہ ہو کہ معجزہ ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق عالم غیب سے ہے اور وہ میرے اختیار میں نہیں ہے اور خدا کے ساتھ مخصوص ہے یا اس طرف اشارہ ہو کہ مصالح امور اور یہ کہ کسی موقع پر حکمت مصلحت کا تقاضا ہے کہ معجزا پیش کیا جائے ۔ دوسرا یہ غیب میں سے ہے اور خدا کے ساتھ مخصوص ہے ۔ وہ جس موقع پر مصلحت دیکھتا ہے اور معجزہ طلب کرنے والے کو حقیقت کا متلاشی سمجھتا ہے ۔ معجزہ نازل کرتا ہے ۔ کیونکہ غیب اور اسرار نہاں اس کی ذات پاک سے مخصوص ہیں ۔

ان میں سے پہلی تفسیر زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے ۔