تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25658
ڈاؤنلوڈ: 2487


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25658 / ڈاؤنلوڈ: 2487
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۲۱،۲۲،۲۳

۲۱ ۔( وَ إِذا اٴَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِنْ بَعْدِ ضَرَّاء َ مَسَّتهمْ إِذا لَهُمْ مَکْرٌ فی آیاتِنا قُلِ اللَّهُ اٴَسْرَعُ مَکْراً إِنَّ رُسُلَنا یَکْتُبُونَ ما تَمْکُرُون ) ۔

۲۲۔( هُوَ الَّذی یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ حَتَّی إِذا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَ جَرَیْنَ بِهِمْ بِریحٍ طَیِّبَةٍ وَ فَرِحُوا بِها جاء َتْها ریحٌ عاصِفٌ وَ جاء َههمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکانٍ وَ ظَنُّوا اٴَنّهُمْ اٴُحیطَ بِهمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصینَ لَهُ الدِّینَ لَئِنْ اٴَنْجَیْتَنا مِنْ هذِهِ لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرینَ ) ۔

۲۳ ۔( فَلَمَّا اٴَنْجاهُمْ إِذا هُمْ یَبْغُونَ فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ یا اٴَیّها النَّاسُ إِنَّما بَغْیُکُمْ عَلی اٴَنْفُسِکُمْ مَتاعَ الْحَیاةِ الدُّنْیا ثُمَّ إِلَیْنا مَرْجِعُکُمْ فَنُنَبِّئُکُمْ بِما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔

ترجمہ

۲۱ ۔جب لوگو کق پہنچنے والے نقصان کے بعد ہم انھیں رحمت کا مزہ چکھائےں تو وہ ہماری آیات کے بارے میں مکر کرتے ہیں کرتے ہیں ( اور اس نعمت و رحمت کے لئے غلط سلط توجہات کرتے ہیں ) کہہ دو کہ خدا تم سے زیادہ جلدی چارہ جوئی کرتا ہے اور جو کچھ مکر ( اور سازش ) تم کرتے ہو ہمارے رسول اسے لکھتے ہیں ۔

۲۲ ۔ وہ وہ ہے جو تمہیں خشکی اور دریا میں سیر کراتا ہے یہاں تک کہ تم کشتی میں ہوتے ہو اور موافق ہوائیں انھیں ( منزل مراد کی طرف ) لے جاتی ہیں ۔ اچانک سخت آندھیاں چلنے لگتی ہیں اور ہر طرف سے موجیں انھیں گھیر لیتی ہیں اور وہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ ہلاک ہو جائیں گے تو اس وقت خدا کو خلوص سے پکارتے ہیں کہ اگر تو ہمیں نجات دے دے تو ہم یقینا شکر ادا کریں گے ۔

۲۳ ۔ لیکن جب اس نے انھیں نجات بخشی تو وہ ( دوبارہ ) زمین میں ناحق ظلم کرتے ہیں ۔ اے لوگو! تمہارے ظلم و ستم تمہارے لئے ہی نقصان دہ ہیں ۔ دنیاوی زندگی سے فائدہ ( اٹھاتے ہو ) پھر جلد ہی تمہاری بازگشت ہماری طرف ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو ( خدا ) تمھیں اس کی خبر دے گا ۔

تفسیر

ان آیات میں دوبارہ گفتگو عقائد کے بارے میں اور مشرکین کے کرتو توں کے بارے میں ہے ۔ نیز انھیں توحید کی طرف اور شرک کی نفی کی جانب دعوت دی گئی ہے ۔

زیر نظر پہلی آیت میں مشرکین کی ایک جاہلانہ سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے :

جب لوگوں کو بیداری اور آگاہی کے لئے ہم مشکلات اور نقصانات میں گرفتار کرتے ہیں پھر انھیں دور کرکے ہم انھیں سکون اور اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ ہماری طرف متوجہ ہوں ، ان آیات اور نشانیوں کا مزاق اڑاتے ہیں یا غلط توجیہات کرکے ان کا انکار کرنے لگتے ہیں ۔ مثلاً مصائب و مشکلات کو بتوں کے غیض ع غضب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور راحت و نعمت کو ان کی شفقت و محبت کی دلیل کہتے ہیں یا پھر سب کو اتفاقات شمار کرتے ہیں ۔( إوَ إِذا اٴَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِنْ بَعْدِ ضَرَّاء َ مَسَّتهمْ إِذا لَهُمْ مَکْرٌ فی آیاتِنا )

لفظ” مکر “ جو مندرجہ بالا آیت میں آیا ہے ، ہر قسم کی چارہ جوئی کے معنی میں ہے یہ ان غلط توجیہات اور فرار کی راہوں کی طرف اشارہ ہے جو مشرکین آیات الہی کے نزول ، بالاو کی آمد اور نعمتوں کے ظہور کے وقت سوچتے تھے ۔

لیکن اللہ انھیں اپنے پیغمبر کے ذریعہ خبر دار کرتا ہے کہ ” ان سے کہہ دو : کہ خدا ہر کسی سے بڑھ کر سرکوبی کرنے والی چارہ جوئی اور منصوبہ بندی پر قادر ہیں اور زیادہ تیز ہے( قُلِ اللَّهُ اٴَسْرَعُ مَکْراً )

جیسا کہ ہم نے بارہا اشارہ کیا ہے ” مکر “ ہم قسم کی ایسی چارہ جوئی کو کہتے ہیں جیسے خفیہ طور پر بجا لایا جائے اور اس کا وہ معنی نہیں جو آج کل فارسی میں مروّج ہے ۔ فارسی میں آج کل ” مکر “ میں شیطانی کاموں کا مفہوم بھی شامل ہے لہذا اس لفظ کے حقیقی معنی کو سامنے رکھا جائے تو یہ خدا کے بارے میں بھی صادق آتا ہے اور بندوں کے بارے میں بھی ۔(۱)

باقی رہا یہ کہ زیر بحث آیت میں اس ” مکر “ کا مصداق کیا ہے تو ظاہراً پروردگار کی انھیں سزاوں کی طرف اشارہ ہے کہ جن میں سے بعض انتہائی مخفی طور پر اور بغیر کسی تمہید کے بڑی تیز رفتاری سے آ پہنچتی ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات تو مجرمین کو خود انھیں کے ہاتھ سے سزا دی جاتی ہے ۔

واضح ہے کہ وہ ذات جو سب سے زیادہ قادر ہے ، موانع دور کرنے اور اسباب نہاں کرنے کی سب سے زیادہ طاقت رکھتی ہے ۔ اس کے منصوبے اور تدبیریں بھی سب سے زیادہ تیز ہو گئیں دوسرے لفظوں میں وہ جس وقت کسی کوسزا دینے اور تنبیہ کرنے کا ارادہ کر ے تو وہ فوراً عملی صورت اختیار کر لیتی ہے جبکہ دوسرے اس طرح سے نہیں ہیں ۔

اس کے بعد انھیں تحدید کی گئی ہے کہ یہ گمان نہ کرو کہ یہ سازشیں اور منصوبے فراموش ہوجائیں گے بلکہ ہمارے بھیجے ہوئے یعنی اعمال ثبت کرنے والے فرشتے ان تمام منصوبوں اور سازشوں کو لکھ لیتے ہیں جنہیں تم نور حق کو خاموش کرنے کے لئے تیار کرتے ہو( إِنَّ رُسُلَنا یَکْتُبُونَ ما تَمْکُرُون ) لہذا تم اپنے آپ کو جو ابدہی اور دوسرے جہان میں سزا پانے کے لئے تیار کر لو ۔

ثبت اعمال اور اس کام پر معمور فرشتوں کے بارے میں ہم متعلقہ آیات کے ذیل میں بحث کریں گے ۔

اگلی آیت میں انسانی فطرت کی گہرایوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے سامنے توحید فطری کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ عظیم مشکلات اور خطرے کے وقت کسی طرح انسان خدا کے علاوہ تمام چیزوں کو بھول جاتا ہے لیکن جو نہی مصیبت ٹلتی ہے اور مشکلات کی آگ ٹھنڈی پڑتی ہے تووہ دو بارہ ظلم و ستم کی راہ اختیار کر لیتا ہے اور خدا سے بیگانہ ہو جاتا ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : وہ خدا وہ ہے جو تمہیں سہرا اور دریا میں سیر کراتا ہے( هُوَ الَّذی یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْر ) ۔”یہاں تک کہ جب تم کشتی میں سوار ہوتے ہو اور کشتی میں سوار لوگوں کو موافق ہوا ئیں آہستہ آہستہ مقصد کی طرف لے جا رہی ہوتی ہیں اور سب کے سب شادمان اور خوش ہوتے ہیں “( حَتَّی إِذا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَ جَرَیْنَ بِهِمْ بِریحٍ طَیِّبَةٍ وَ فَرِحُوا بِها ) ۔ ” اچانک شدید طوفان اور تباہ کن آندھیاں چلنے لگتی ہیں اور ہر طرف سے موجیں اٹھتی ہیں اس طرح سے کہ انھیں اپنی موت نظر آنے لگتی ہے اور وہ زندگی سے گویا ہاتھ دوھو بیٹھتے ہیں( جاء َتْها ریحٌ عاصِفٌ وَ جاء َههمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکانٍ وَ ظَنُّوا اٴَنّهُمْ اٴُحیطَ بِهمْ ) ۔ ٹھیک اس وقت وہ خدا کو یاد کرنے لگتے ہیں اور اسے خلوص کے ساتھ پکارتے ہیں اور اپنے دین کو ہر قسم کے شرک اور بت پرستی سے اپک کر لیتے ہیں( دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصینَ لَهُ الدِّینَ ) ۔

اس وقت وہ دست دعابلند کرتے ہیں : ۔ خدا یا اگر تو نے اس ہلاکت انگیزی سے نجات بخش دی تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے ، ظلم کریں گے نہ تیرے غیر کی طرف رخ موڑیں گے( لَئِنْ اٴَنْجَیْتَنا مِنْ هذِهِ لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرینَ ) ۔

لیکن جب خدا انھیں نجات دے دیتا ہے اور وہ ساحل مراد تک جا پہنچتے ہیں تو زمین میں ظلم و ستم شروع کر دیتے ہیں( فَلَمَّا اٴَنْجاهُمْ إِذا هُمْ یَبْغُونَ فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ )

مگراے لوگوں جان لوکہ جیسے ظلم کے مرتکب ہوگے اور حق سے جس قدرا نحراف کروگے اس کانقصان خودتمہیں ہی ہوگا ”( یا اٴَیّها النَّاسُ إِنَّما بَغْیُکُمْ عَلی اٴَنْفُسِکُمْ ) ۔ آخری کام جو تم انجام دے سکتے ہو یہ ہے کہ” چند روز حیات دنیا کی متاع سے فائدہ اٹھالو“( مَتاعَ الْحَیاةِ الدُّنْیا ) (۲)

اس کے بعد تمہاری بازگشت ہماری طرف ہے( ثُمَّ إِلَیْنا مَرْجِعُکُمْ ) ” اس وقت ہم تمہیں اس سے آگاہ کریں گے جو تم انجام دیتے تھے( فَنُنَبِّئُکُمْ بِما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ لوگ عموماً ایسا کرتے ہیں :

مندرجہ بالا آیت میں جو کچھ ہم نے پڑھا ہے وہ بت پرستوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ عموماً ایسا ہوتا ہے تمام آلودہ ، دنیا پرست ، کم ظرف اور فراموش کار افراد ایسا کرتے ہیں جب انھیں بلا وصیت کی موجیں گھیر لیتی ہیں وہ ہاتھ پاوں مارتے ہیں لیکن کچھ نہیں بنتا گویا تلوار ان کی شہ رگ تک آ پہنچتی ہے اور انہیں کوئی یار و مددگار نظر نہیں آتا تو بارگاہ خدا میں ہاتھ اٹھاتے ہیں اس سے ہزاروں عہد و پیمان باندھتے ہیں اور نذر و نیاز مانتے ہیں کہ اگر بلاوں اور مصائب سے نجات ملی توبہ کریں گے اور وہ یہ کریں گے لیکن یہ بیداری اور آگاہی جو توحید فطری کا انعکاس ہے ایسے افراد میں زیادہ دیر نہیں رہتی ...جونہی طوفان بلاختم ہوجاتا ہے اور مشکل حل ہو جاتی ہے ۔ غفلت کے پردے ان کے دل پر پڑ جاتے ہیں ایسے بھاری پردے کہ جنہیں طوفان بلا کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہٹا سکتی ۔

یہ وقتی بیداری اگر چہ زیادہ آلودہ افراد پر کوئی اثر نہیں کرتی تا ہم ان پر حجت تمام کر دیتی ہے اور یہی ان کے مذموم ومحکوم ہونے کی دلیل بن جائے گی ۔

دوسری طرف کم آلودہ افراد یسے حوادث میں عموماً بیدار ہو جاتے ہیں اور اپنے طریقہ کار کی اصلاح کر لیتے ہیں ۔

باقی رہے بندگان خدا تو ان کا حساب و کتاب واضح ہے ۔ وہ عالم سکون میں بھی خدا کی طرف اتنا ہی متوجہ رہتے ہیں ، جتنا سختی اور تنگی کے عالم میں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہر خیر و برکت جو ظاہراً طبیعی اور فطری عوامل کے ذریعہ انہیں پہنچتی ہے در حقیقت خدا کی طرف سے ہے ۔

بحر حال یہ یاد آوری اور تذکر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ہے ۔

۲ ۔ ” ضراء “ کے مقابلے میں ” رحمت “:

مندرجہ بال اآیات میں ” ضراء “ ( یعنی پریشانی اور نقصان ) کے مقابلے میں ” رحمت “ کا ذکر ہے نہ کہ ” سراء “ ( خوشی اور مسرت ) کا ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جیسی بھی اچھائی اور بھلائی انسان کو پہنچے وہ خدا کی طرف سے ہے اور اس کی رحمت بے پایاں ہے جبکہ مشکلات اگردرس عبرت کے طور پر نہ ہو ں تو خود انسان کے اپنے اعمال کانتیجہ ہوتی ہیں ۔

۳ ۔ ضمیروں کا فرق کیوں ہے ؟

زیر بحث دوسری آیت کی ابتداء میں مخاطب ضمیریں ہیں لیکن بعد میں غایب کی ضمیریں ہیں ۔

یقینا اس میں کوئی نکتہ ہے ۔

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آیت کے لب و لہجہ میں یہ تبدیلی اس بناء پر ہے کہ مشرکین کی حالت جبکہ وہ گرفتار بلا ہوں تو دوسروں کے لئے درس عبرت کے طور پر ان کا ذکر کیا جائے اس لئے انہیں غایب ذکر کیا گیا ہے اور باقی کو حاضر ۔

بعض دیگر مفسرین نے کہا ہے کہ اس میں یہ نکتہ ہے ان سے بے اعتنائی اور ان کی تحقیر کا اظہار ہو گویا پہلے خدا تعالی انھیں حاضر کے طور پر قبول کرکے مخاطب قرار دیتا ہے اس کے بعد انہیں اپنے سے دور کرکے چھوڑ دیتا ہے ۔

یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ آیت لوگوں کی ایک فطری تصویر کررہی ہے جب تک وہ کشتی میں بیٹھے ہیں اور ساحل سے دور نہیں ہوئے تو دیگر لوگوں کے درمیان ہیں لہٰذا مخاطب قرار پاسکتے ہیں لیکن جب کشتی انھیں ساحل سے دور کردیتی ہے ۔

اور وہ آہستہ آہستہ آنکھوں سے اوجھل ہ وجاتے ہیں تو غائب شمار ہوتے ہیں اور یہ دو مختلف حالتوں میں ان کی فطری تصویر کشی ہے ۔

۴ ۔”احیط بھم “کا مفہوم : اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہر طرف سے امواج بلا میں گھرے ہوئے ہیں لیکن یہ یہاں ہلاکت او رنابودی کے لئے کنایہ ہے جو اس حالت کا لازمی نتیجہ ہے ۔

____________________

۱-مزید وضاحت کے لئے جلد ۲ ص ۳۳۹ ، جلد ۶ ص ۲۳۶ اور جلد ۷ ص ۱۲۶ ( اودو ترجمہ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۲- لفظ ”متاع“ ایک فعل مقدر سے منصوب ہے اصل میں یوں تھا”تتمتعون متاع الحیاة الدنیا “ ۔

آیات ۲۴،۲۵

۲۴ ۔( إِنَّمَا مَثَلُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا کَمَاءٍ اٴَنْزَلْنَاهُ مِنْ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْاٴَرْضِ مِمَّا یَاٴْکُلُ النَّاسُ وَالْاٴَنْعَامُ حَتَّی إِذَا اٴَخَذَتْ الْاٴَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ اٴَهْلُهَا اٴَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَیْهَا اٴَتَاهَا اٴَمْرُنَا لَیْلًا اٴَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِیدًا کَاٴَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْاٴَمْسِ کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔

۲۵ ۔( وَاللهُ یَدْعُو إِلَی دَارِ السَّلَامِ وَیَهْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) ۔

ترجمہ

۲۴ ۔دنیاوی زندگی اس پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان کی طرف سے نازل کیا ہے کہ جس کے اثرسے طرح طرح کے نباتات اُگتے ہیں جنھیں انسان اورچوپائے کھاتے ہیں ،یہاں تک کہ زمین (ان سے)اپنی زیبائی حاصل کرتی ہیں اور مزین ہوجاتی ہے اور اور اس کے رہنے والے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے کہ (چانک انکی نابودی کے لئے )ہمارا حکم آپہنچتا ہے (اور ہم سردی یا بجلی کو ان پر مسلط کردیتے ہیں )اور اس طرح سے کاٹ ڈالتے ہیں کہ گویا بالکل کچھ تھا ہی نہیں ۔ یوں ہم اپنی آیات اس گروہ کے لئے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں ۔

۲۵ ۔اور خداصلح و سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے اور جسے چاہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔

دنیاوی زندگی کی دور نمائی

گزشتہ آیات میں دنیاوی زندگی کی ناپائیداری کی طرف اشارہ ہواہے زیر نظر آیت میں اس حقیقت کو ایک عمدہ مثال کے ذریعے بیان کیا گیا ہے تاکہ غرور اور غفلت کے پردے غافل اور طغیان گروں کی نظروں کے سامنے سے ہٹا دئیے جائیں ۔

ارشاد ہوتا ہے : دنیاوی زندگی کی مثال اس پانی کی طرح ہے

جسے ہم نے آسمانوں سے نازل کیا ہے( إِنَّمَا مَثَلُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا کَمَاءٍ اٴَنْزَلْنَاهُ مِنْ السَّمَاءِ ) ۔ بارش کےیہ حیات بخش قطرہ آمادہ زمینوں پر گرتے ہیں اور ان کے ذریعے طرح طرح کے نباتات اگتے ہیں ان میں سے بعض انسانوں کے لئے مفید ہیں اور بعض جانوروں کے لئے( فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْاٴَرْضِ مِمَّا یَاٴْکُلُ النَّاسُ وَالْاٴَنْعَامُ ) ۔

یہ نباتات زندہ موجودات کے لئے غذا بھی فراہم کرتے ہیں اور علاوہ ازین سطح زمین کو بھی ڈھانپ دیتے ہیں اور اسے زینت بخشتے ہیں یہاں تک کہ زمین بہترین زیبائی حاصل کرتی ہے اور مزین ہو جاتی ہے( حَتَّی إِذَا اٴَخَذَتْ الْاٴَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّیَّنَت ) ۔

اس طرح شکوفہ شاخساروں کو زینت بخشتے ہیں ، پھول کھلتے ہیں ، سبزہ زار نور آفتاب سے چمکنے لگتے ہیں ، تنے اور شاخیں ہواوں کے چلنے سے رقص کرنے لگتے ہیں ۔اناج کے دانے اور پھل آہستہ آہستہ نکلنے لگتے ہیں اور صحنِ دنیا میں بھر پور زندگی مجسم ہو کر سامنے آجاتی ہے، دل امید سے اور آنکھیں سرور سے معمور ہو جاتی ہے ،پھولوں سے بھی استفادہ کریں گے اور حیات بخش دانوں سے بھی( وَظَنَّ اٴَهْلُهَا اٴَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَیْهَا ) ۔

لیکن اچانک ہمارا حکم آپہنچتا ہے ( سخت سردی، شدید ژالہ باری یا تباہ کن طوفان ان پر مسلط ہو جاتا ہے ) اور ہمیں انہیں اس طرح سے کاٹ دیتے ہیں گویا وہ اصلاً تھے ہیں نہیں( اٴَتَاهَا اٴَمْرُنَا لَیْلًا اٴَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِیدًا کَاٴَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْاٴَمْسِ ) ۔

”تغن“ مادہ ”غنا“ سے ، کسی جگہ قیام کرنے کے معنی میں ہے ، اسی بناء پر ”لم تغن بالامس “ کا معنی ہے ” کل وہ اس مکان میں نہ تھا “ اور یہ کنایہ کے طور پر اس چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے جو اس طرح سے بالکل ختم ہو جائے کہ گویا اس کا ہر گز وجود ہی نہ تھا ۔

آیت کے آخر میں زیادہ تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: یوہم تفکر کرنے والوں کے لئے تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں (کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔

جوکچھ کہا جاچکا ہے وہ نائیدار ، پر فریب اور زرق و برق مادی دنیا کی واضح اور بدلتی تصویر ہے ۔اس زندگی کا مقام پائدار ہے ، نہ ثروت اور نہ ہی یہ امن و سلامتی کی جگہ ہے لہٰذا بعد والی آیت میں ایک مختصر سے جملے کے ذریعے اس کے مد مقابل دوسری زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : خدا دار السلام ، صلح و سلامتی اور امن و آشتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے (وَ اللهُ یَدْعُو إِلَی دَارِ السَّلَامِ ) ۔وہ جگہ کہ جہاں مادی زندگی کے ان غارت گروں کی کشمش کی کوئی خبر ہے اور نہ ہی خدا سے بے خبر ذخیرہ اندوزوں کی احمقانہ مزاحمت کا کوئی پتہ اور نہ ہی وہاں جنگ ، خونریزی ، استعمار اور استمشار ہے اور یہ تمام مفاہیم لفظ” دار السلام“ ( یعنی امن و سلامتی کا گھر ) جمع ہیں ۔

اگر دنیا کی زندگی بھی توحیدی اور آخرت والی شکل اختیار کرلے تو یہ بھی دار السلام میں تبدیل ہو جائے اور اس کی صورت ” مزرعہ بلا دیدہ و طوفان زدہ “ والی نہیں رہے گی ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیاہے : خدا جسے چاہے ( اور اہل پائے ) راہ ِ مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے کہ جو راہ ِ دار السلام ہے اور جو امن و آشتی کے مرکز تک جا پہنچتی ہے( وَیَهْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیم ) ۔

دو قابل تووجہ نکات

۱ ۔دنیا کی ناپائیداری کے لئے مثال :

قرآن ایک انسان ساز اور تربیت کرنے والی کتاب ہے لہٰذا بہت سے مواقع پر حقائق ِ عقلی کو واضح کرنے کے لئے اس میں پیش کیا گئی ہے ۔بعض اوقات ایسے امور جو کوئی سال طویل ہوتے ہیں انھیں بھی ایک زود گزر اور قابل ِ غور منظر کے طور پر مجسم کرکے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے ۔

ایک انسان یا ایک نسل کی بھر پور زندگی کی تاریخ کہ جو کبھی ایک سو سال پر مشتمل ہوتی ہے کا مطالعہ عام افراد کے لئے کوئی آسان کام نہیں لیکن جب بہت سے نباتات کی زندگی کہ جو چند ماہ میں ختم ہو جاتی ہے ( پیدائش ، نشوونما ، خوبصورتی اور پھر نابودی )کا منظر اس کے سامنے پیش کردیا جائے تو وہ بہت بڑی سہولت سے اپنی زندگی کی کیفیت اس صاف و شفاف آئینہ میں دیکھ سکتا ہے ۔

اس منظر کو ٹھیک طرح سے اپنی آنکھوں کے سامنے لائیے کہ ایک باغ ہے جو درختوں ، سبزہ زاروں سے بھر اپڑا ہے ۔ سب کے سب درخت پھل دار ہیں ۔

باغ میں ہر طرف زندگی مچل رہی ہے مگر کسی تاریک رات میں یا روز روشن میں اچانک سیاہ بادل آسمان پر امنڈ آتے ہیں ۔باد ل گرجتے ہیں اور بجلی چمکتی ہے طوفان موسلادھار بارش اور زبر دست ژالہ باری شروع ہو جاتی ہے ۔باغ تباہ و بر باد ہو جاتا ہے ۔

دوسرے روز جب باغ میں آتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ درخت ٹوٹے پڑے ہیں ۔سبزہ زار ویران اور پژمردہ ہو چکے ہیں اور ہر چیز برباد ہو کر زمین پر پڑی ہے ،ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ وہی سر سبز اور آباد باغ ہے جو کل ہر ابھرا او ر کھلا ہواتھا۔

جی ہاں انسان کی زندگی کا بھی یہی ماجرا ہے خصوصاً ہمارے زمانے میں کہ کبھی ایک زلزلہ یا چند گھنٹوں کی ایک جنگ یا ایک آباد اور خوش و خرم شہر کو اس طرح سے بر باد اور ویران کردیتی ہے کہ اس میں ایک ویرانے کے اور کچھ ٹکڑے جسموں کے کچھ باقی نہیں رہتا۔

وہ لوگ کس قدر غافل ہیں جنہوں نے ایسی ناپائیدار زندگی سے دل لگایا ہے ۔

۲ ۔”اختلط بہ نبات الارض“ کامفہوم :

اس جملے میں توجہ کرنی چاہئیے کہ اختلاط اصل میں ،جیسا کہ راغب نے کہا ہے دو یا دو سے زیادہ چیزوں کو جمع کرنا ،چاہے وہ مانع ہوں یا ٹھوس ۔ ” امتزاج“ کی نسبت ” اختلاط“ عام ہے ( کیونکہ امتزاج عموماً مایعات میں ہوتا ہے ) لہٰذا جملہ کا معنی یہ ہوگا کہ بارش کے ذریعے ہر طرح کے نباتات ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں وہ نباتات جو انسان کے کام آتے ہیں ۔(۱)

یہ جملہ ضمنی طور پر اس حقیقت پر کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ خدا بارش کے پانی سے جو ایک ہی طرح کا ہوتا ہے ،انواع و قسام کے نباتا اگاتا ہے کہ جو انسانوں اور جانوروں کی مختلف ضروریات کے لئے مختلف قسم کے غذائی مواد مہیا کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔کچھ سطور بالامیں کہا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ”بہ“ میں ”باء“ سببیت کے معنی میں ہے لیکن بعض نے یہ احتمال ذکرکیا ہے کہ یہ ”مع“ کے معنی میں ہے یعنی پانی آسمان سے نازل ہوتا ہے اور نباتات سے مل جاتا ہے اور انھیں رشدو نمو دیتا ہے لیکن یہ احتمال آیت کے اس حصے سے مناسبت نہیں رکھتا جس میں کہا گیا ہے ” مما یاکل الناس و الانعام “ کیونکہ اس جملے کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اختلاط مختلف قسم کے نباتات کے درمیان مراد ہے نہ کہ پانی اور نباتات کا اختلاط۔ ( غور کیجئے گا )

آیات ۲۶،۲۷

۲۶ ۔( لِلَّذِینَ اٴَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِیَادَةٌ وَلاَیَرْهَقُ وُجُوههُمْ قَتَرٌ وَلاَذِلَّةٌ اٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ الْجَنَِّ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ) ۔

۲۷ ۔( وَالَّذِینَ کَسَبُوا السَّیِّئَاتِ جَزَاءُ سَیِّئَةٍ بِمِثْلِها وَتَرْهَقُهمْ ذِلَّةٌ مَا لَهمْ مِنْ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ کَاٴَنَّمَا اٴُغْشِیَتْ وُجُو ههم قِطَعًا مِنْ اللَّیْلِ مُظْلِمًا اٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ) ۔

ترجمہ

۲۶ ۔جولوگ نیکی کرتے ہیں وہ اس کے لئے اچھی اور زیادہ جزا رکھتے ہیں اور تاریکی و ذلت ان کے چہروں کو نہیں ڈھانپتی ۔وہ بہشت کے ساتھی ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔

۲۷ ۔ باقی رہے وہ لوگ جو گناہوں کاارتکاب کرتے ہیں وہ اس کے برابر جزا رکھتے ہیں اور ذلت و خواری ان کے چہروں کو ڈھانپ لیتی ہے اور کوئی چیز انھیں خدا ( کی سزا) سے نہیں بچا سکتی( ان کے چہرے اس قدر سیاہ ہیں کہ ) گویا تاریک رات کے ٹکڑوں نے ان کے چہروں کاڈھانپ رکھا ہے ۔ وہ آگ کے ساتھی ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔

سفیداور سیاہ چہروں والے

گزشتہ آیات میں دارِ آخرت اور روز قیامت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اسی مناسبت سے زیر بحث آیات دار آخرت میں نیکوکاروں اور گناہ گاروں کا انجام بیان کررہی ہےں ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : جولوگ اچھے کام کرتے ہیں ان کے لئے اچھی اور زیادہ جزا ہے( لِلَّذِینَ اٴَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِیَادَةٌ ) (۱)

یہ کہ اس جملے میں ”زیادة“ سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ آیات قرآنی ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کئی گناجزا اور ثواب کی طرف اشارہ ہے یہ جزا کبھی دس گناہ ہوتی ہے اور کبھی ہزار گنا( خلوص، پاکیزگی، تقویٰ اور عمل کی قدر و منزلت کے اعتبار سے ) ۔

سورہ انعام آیہ ۱۶۰ میں ہے :( من جاء بالحسنة فله عشر امثالها ) ۔

جو شخص کوئی اچھا کام انجام دے گا اسے اس کے دس گناہ جزا ملے گی ۔

ایک اور مقام پر ہے :( فاما الذین اٰمنوا وعملو ا الصالحات فیوافیهم اجورهم ویزیدهم من فضله ) ،

رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو خد ا انھیں پوری جزا دے گا اور اپنے فضل و کرم سے بھی اس پر زیادہ کرے گا ۔( نساء ۱۷۳)

سوہ بقرہ میں انفاق سے مربوط آیات میں بھی نیکوکار لوگوں کی جزا سات صد یا کئی گنابیان کی گئی ہے ۔( بقرہ ۲۶۱)

ایک اورنکتہ کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہئیے یہ کہ یہ بات عین ممکن ہے یہ زیادہ دوسرے جہان میں متواتر اور ہمیشہ بڑھتی رہے یعنی ہرروزخداکی طرف سے انھیں نئی نعمت اور لطف و کرم عطا ہوتارہے ۔ درحقیقت یہ امرنشاندہی کرتاہے کہ دوسرے جہان کی زندگی ایک ہی طرز کی نہیں ہے اور غیر محدود طور پر تکامل و ارتقا کی طرف بڑھتی رہے کی ۔

اس آیت کی تفسیر میں پیغمبر اکرم سے جو روایات نقل ہوئی ہیں ان کے مطابق ” زیادة“ سے مراد پر وردگار کی ذات ِ پاک کے جلوہ کی طرف توجہ اور اس عظیم معنوی نعمت سے استفادہ کرنا ہے ، ممکن ہے یہ اسی مذکورہ نکتے کی طرف اشارہ ہو۔

چند ایک روایات جو ائمہ اہلبیتعليه‌السلام سے منقول ہیں میں لفظ ”زیادة“ تمام نعمات کی طرف اشارہ ہو۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے کہ روز نیک لوگوں کے چہرے درخشاں اور چمکتے ہوئے ہوں گے اور تاریکی و ذلت ان کے چہروں کو نہیں چھپائے گی( وَلاَیَرْهَقُ وُجُوههُمْ قَتَرٌ وَلاَذِلَّة ) ۔

” یرھق“ مادہ ”رھق“ ” سے جبری طور پر چھپانے کے معنی میں ہے اور ” قتر“ کا معنی ہے غبار یا دھواں ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :یہ لوگ اہل بہشت ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔( اٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ الْجَنَِّ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ) ۔

” اصحاب “ کی تعبیر اس مناسبت کی طرف اشارہ ہے جو اس گروہ کی روحانیت اور جنت کے ماحول کے درمیان ہے ۔

دوسری آیت میں دوزخیوں کے بارے میں گفتگو ہے جو پہلے گروہ کے مد مقابل ہیں فرمایا گیا ہے: جولوگ گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں انھیں ان کے عمل کے مطابق بر ی جزا ملے گی( وَالَّذِینَ کَسَبُوا السَّیِّئَاتِ جَزَاءُ سَیِّئَةٍ بِمِثْلِها ) ۔

یہاں ” زیادة“ کا ذکر نہیں ہے کیونکہ جزا میں زیادتی فضل و رحمت ہے لیکن سزا میں عدالت میں کا تقاضا ہے کہ وہ ذرہ برابر بھی گناہ سے زیادہ نہ ہو ۔ لیکن یہ لوگ پہلے لوگوں کے برعکس سیاہ چہرے والے ہوں گے اور ان کے چہروں کو ذلت و رسوائی نے ڈھانپ رکھا ہو گا( وَتَرْهَقُهمْ ذِلَّةٌ ) ۔(۲)

ممکن ہے سوال کیا جائے کہ عدالت کا تقاضا ہے کہ انھیں گناسے زیادہ سزا دی جائے جب کہ ان کے چہرہ کی سیاہی ، ذلت کی گردان کے لئے ایک زیادتی ہے لیکن توجہ رہے کہ یہ عمل کی خاصیت اور اثر ہے جو انسان کی روح کے اندر سے باہر منعکس ہوتا ہے یہ بالکل اسی طرح ہے کہ ہم کہیں کہ شرابیوں کو کوڑے لگانے چاہئیں جب کہ شراب معدہ ، دل جگر اور اعصاب میں طرح طرح کی بیماریاں بھی پیدا کردیتی ہے ۔

بہر حال ممکن ہے بد کاریہ گمان کریں کہ انھیں کوئی راہ ِ فرار مل جائے گی یابت وغیرہ ان کی شفاعت کرسکیں گے لیکن اگلا جملہ صراحت سے کہتا ہے : کوئی شخص اور کوئی چیز انھیں خدائی سزا سے نہ بچا سکے گی( م( ا لَهمْ مِنْ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ ) ۔

ان کے چہروں کی تاریکی اور سیاہی اتنی زیادہ ہوگی” گویا تاریک رات کے ٹکڑے یکے بعد دیگرے ان چہرے پر پڑے ہوئے ہیں “( کَاٴَنَّمَا اٴُغْشِیَتْ وُجُو ههم قِطَعًا مِنْ اللَّیْلِ مُظْلِمًا ) ۔

”وہ اہل نار ہیں اور ہمیشہ اس ( جہنم )میں رہیں گے “( اٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ) ۔

____________________

۱۔ توجہ رہے کہ اس جملے میں ” حسنی“ مبتدائے موخر ہے اور آیت کا معنی اس طرح ہے :الحسنیٰ للذین احسنوا لهٰذا لفظ ”زیادہ“جس کا اس طر عطف ہے ، مرفوع آیا ہے نیز”الحسنی “ ”المثوبة “ کی صفت ہے کہ جو مقدر ہے اور یہ موصوف کی جگہ ہے ۔

۲۔ہوسکتا ہے گزشتہ آیت کے قرینہ سے ”ترهقهم ذلة “ تقدیراً ”’ترهقهم قترو ذلة “ ہو اور مقابلہ کے قرینہ سے اختصار کے لئے ” قتر‘ ‘ کے وہاں سے حذف ہواہو۔