تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25661
ڈاؤنلوڈ: 2488


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25661 / ڈاؤنلوڈ: 2488
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۶۲،۶۳

۶۲ ۔( یَحْلِفُونَ بِاللهِ لَکُمْ لِیُرْضُوکُمْ وَاللهُ وَرَسُولُهُ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُرْضُوهُ إِنْ کَانُوا مُؤْمِنِینَ ) ۔

۶۳ ۔( اٴَلَمْ یَعْلَمُوا اٴَنَّهُ مَنْ یُحَادِدْ اللهَ وَرَسُولَهُ فَاٴَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیهَا ذَلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیمُ ) ۔

ترجمہ

۶۲ ۔ وہ تمہارے سامنے خدا کی قسم کھاتے ہیں تاکہ تمہیں کو رکھیں حالانکہ زیادہ مناسب با ت یہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کو راضی کریں اگر (وہ سچ کہتے ہیں اور ) ایمان رکھتے ہیں ۔

۶۳ ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ جو شخص خدا اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کرے ، اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا یہ ایک بڑی رسوائی کی بات ہے ۔

شانِ نزول

بعض مفسرین کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ زیر نظر دونوں آیتیں گذشتہ آیت کی تکمیل کرتی ہیں او ریہ طبعا ً اور فطرتاً اسی سلسلے میں نازل ہوئی ہیں ۔لیکن مفسرین کی ایک او رجماعت نے ان دونوں آیات کے بارے میں ایک اور شانِ نزول نقل کی ہے او روہ یہ ہے کہ جب جنگِ تبوک کی مخالفت کرنے والوں اور پیچھے رہ جانے والوں کی مذمت میں آیات نازل ہوئیں تو منافقوں میں سے ایک نے کہا: خد اکی قسم ! یہ لوگ ہمارے بزرگ اور اشراف ہیں او رجو کچھ محمد ان کے بارے میں کہتا ہے سچ ہے تو پھر یہ چوپایوں سے بھی گئے گذرے ہیں ۔

ایک مسلمان نے یہ بات سن کر کہا : خدا کی قسم ! جو کچھ آنحضرت کہتے ہیں وہ حق ہے او رتو چوپائے سے بھی بد تر ہے ۔ جب یہ بات رسول اکرم کے پاس پہنچی تو آپ نے کسی کو اس منافق کو بلانے کے لئے بھیجا اور اس سے پوچھا کہ تونے یہ بات کیوں کہی ہے ؟ تو اس نے قسم کھا کر کہا : میں نے یہ بات نہیں کہی۔

وہ مرد مومن جو اس کے خلاف تھا اسی نے یہ بات جا کر حضور سے کہی تھی اس نے دعا کی :۔ تو خود سچے کی تصدیق او رجھوٹے کی تکذیب فرما۔

اس وقت یہ آیات ِ مندرجہ بالانازل ہوئیں اور دددھ کا دودھ او رپانی کا پانی کردیا۔

منافقین کی ایک نشانی

منافقین کی ایک اور کھلی نشانی اور عمل بد یہ ہے جس کی طرف قرآن اشارہ کررہا ہے کہ وہ اپنی بد کرداری کو چھپانے کے لئے اپنی بہت سی کرتوتوں کا انکار کر دیتے ہیں او رچاہتے ہیں اور چاہتے تھے کہ جھوٹ موٹ قسموں کے ذریعے لوگوں کو دھوکا دیتے رہیں اور انھیں اپنے آپ سے راضی رکھیں ۔

مندرجہ بالا آیتوں میں ایک طرف قرآن اس بر عمل سے پر دہ اٹھا کر ان کو ذلیل کرتا ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو بت ادیتا ہے کہ وہ ان کی جھوٹی قسموں میں نہ آئیں ۔ پہلے کہتا ہے : وہ تمہارے سامنے خدا کی قسم کھاتے ہیں تاکہ تمہیں خو ش رکھیں( یَحْلِفُونَ بِاللهِ لَکُمْ لِیُرْضُوکُمْ ) ۔

ظاہر ہے کہ ان قسموں سے ان کا مقصد حقیقت بیان کرنا نہیں ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ مکرو فریب سے حقیقت کا چہرہ تماہری نظروں میں مسخ کردیں او راپنا مقصد حاصل کرلیں ۔ اگر ان کا نصب العین او رمقصد یہ ہوتا کہ واقعاً سچے مومنین کو اپنے سے راضی کریں تو اس سے زیادہ ضروری یہ تھا کہ وہ خدا اور اس کے پیغمبر کو راضی کرلیں ۔حالانکہ انھوں اپنے کردار او رعمل سے خدا و رسول کو سخت ناراض کیا ہے ۔ لہٰذا قرآن کہتا ہے : اگر وہ سچ کہتے ہیں اور ایماندار ہیں تو مناسب یہ ہے کہ وہ خدا اور پیغمبر کو راضی کریں( وَاللهُ وَرَسُولُهُ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُرْضُوهُ إِنْ کَانُوا مُؤْمِنِینَ ) ۔

قابل غور امر یہ ہے کہ اس جملے میں چونکہ خدا اور اس کے رسول کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے تو قاعدے کے لحاظ سے میر کو تثنیہ ہو نا چاہئیے لیکن اس کے باوجود ضمیر ” واحد “ استعمال ہو ئی ہے ( مراد یر ضوہ کی ضمیر ہے ) حقیقت میں اس تعبیر کا اشارہ اس طرف ہے کہ پیغمبر کی رضا اور خدا کی رضا جدا جدا نہیں ہے اور رسول اسی چیز کو پسند کرتے ہیں جسے خدا وند عالم پسند کرتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ ” توحید افعالی “ کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ رسول اللہ خدا کے مقابلے میں اپنی طرف سے استقلال نہیں رکھتے ۔ ان کی خو شی او رنا راضی سب خدا کے لئے ہے ۔ ان کا سب کچھ اس کے لئے اور اس کی راہ میں ہے ۔

چند ایک روایات میں ہے کہ پیغمبر اکرم کے زمانے میں ایک شخص نے اثنائے گفتگو میں یوں کہا :

من اطاع الله ورسوله فقد فازو من عصا هما فقد غوی

جس نے خدا اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کی وہ کامیاب ہوا اور جس نے ان دونوں کی مخالفت کی وہ گمراہ ہوا

جب پیغمبر نے یہ بات سنی کہ اس نے خدا اور پیغمبر کو ایک درجے میں رکھا ہے اور تثنیہ کی ضمیر استعمال کی ہے تو آپ پریشان ہوگئے اور فرمایا :بئس الخطیب انت هلا قلت من عصی الله و رسوله

تم برے خطیب ہو تم نے اس طرح کیوں نہیں کہا کہ جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر کی نافرمانی کرے ( بلکہ تم نے تثنیہ کی ضمیر استعمال کی ہے اور کہا ہے کہ جو ان دونوں کو حکم نہ مانے )۔(۱)

اس کے بعد کی آیت میں قرآن ایسے منافقوں کو سخت دھمکی دیتا ہے او رکہتا ہے :” کیا وہ نہیں جانتے کہ جو خدا اور اس کے رسول کی مخالفت اور دشمنی کرے اس کے لئے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا( اٴَلَمْ یَعْلَمُوا اٴَنَّهُ مَنْ یُحَادِدْ اللهَ وَرَسُولَهُ فَاٴَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیهَا ) ۔اس کے بعد تاکید کے طور پر فرماتا ہے : یہ بڑی ذلت ورسوائی ہے( ذَلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیمُ ) ۔

” یحادو“ محادة “ کے مادہ سے ہے اور ” حد“ کی اصل سے ہے جو کنارہ ، طرف اور کسی چیز کی انتہا کے معنی میں آتا ہے ۔ چونکہ مخالفت اور دشمن افراد ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے ہیں اس لئے یہ ” محادہ “ کا مادہ عداوت اور دشمنی کا مفہوم رکھتا ہے جیسا کہ ہم روز مرہ کی گفتگو میں لفظ ” ظرفیت “ مخالفت اور دشمنی کے معنی میں بولتے ہیں ۔

____________________

۱۔تفسیر ابو الفتح رازی ، آیہ مذکورہ کے ذیل میں ۔

آیات ۶۴،۶۵،۶۶

۶۴ ۔( یَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ اٴَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِی قُوبِهمْ قُلْ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ ) ۔

۶۵ ۔( وَلَئِنْ سَاٴَلْتَهُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ اٴَبِاللهِ وَآیَاتِهِ وَرَسُولِهِ کُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ) ۔

۶۶ ۔( لاَتَعْتَذِرُوا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْکُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِاٴَنَّهُمْ کَانُوا مُجْرِمِینَ ) ۔

ترجمہ

۶۴ ۔ منافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی آیت کے خلاف نازل نہ ہوجائے جو ان کے دلوں کے بھید وں کی انھیں خبر دے دے ۔ کہہ دیجئے کہ ٓا ستہزاء اورمذاق کرلو ۔ جس کا تمہیں ڈر ہے خدا اسے ظاہر کرے گا ۔

۶۵ ۔ اگر تم ان سے پوچھو ( کہ تم یہ برے کام کیوں کرتے ہو) تو وہ کہتے ہیں کہ ہم مذاق کرتے ہیں تو کہہ دو کہ کیاتم خدا ، اس کی آیات اور اس کے پیغمبر کامذاق اڑاتے ہو ؟

۶۶ ۔ ( کہہ دو) معذرت نہ کرو( کیونکہ وہ فضول ہے اس لئے کہ ) تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے ہو ۔ اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو ( توبہ کرنے کی وجہ سے معاف کر دیں تو دوسرے گروہ کو عذاب میں مبتلا کریں گے کیونکہ وہ مجرم تھے ۔

شان نزول

مذکورہ بالا آیتوں کی مختلف شان ِ نزول نقل ہو ئی ہےں ان سب کا تعلق جنگ تبوک کے بعد منافقوں کی حرکتوں اور شرارتوں سے ہے ۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ منافقوں کی ایک جماعت نے خفیہ میٹنگ میں حضرت رسول اکرم کے قتل کی سازش کی ۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ جنگ ِ تبوک سے واپسی پرراستے کی ایک گھاٹی میں چپکے سے صورت بدل ک گھات میں رہیں گے اور جب رسول اللہ اپنی اونٹنی پرگذریں گے تو اونٹنی کو بد کائیں گے اور رسول اللہ کو قتل کردیں گے۔ خدا نے اپنے پیغمبر کو اس سازش کو اطلاع کردی ۔

آپ نے حکم دیا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ نگرانی کرے اور ان لوگوں کو تتر بتر کردے جب حضرت رسول اکرم اس گھاٹی پر پہنچے تو آپ کی اونٹنی کی مہار حضرت عمار کے ہاتھ میں تھی اور حذیفہ اسے پیچھے سے ہانک رہے تھے ۔ رسول اللہ نے حذیفہ سے فرمایا کہ ان کی سواریوں کے منہ پر ( چابک)مارو اور انھیں بھگا دو ۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا ۔ جب آپ گھاٹی سے صحیح سلامت نکل آئے تو حضر نے حذیفہ سے فرمایا تونے انھیں پہنچا نا نہیں ؟ تو اس نے عرض کیا ” نہیں میں نے تو ان میں سے کسی کو نہیں پہچانا ۔ اس کے بعد حضرت پیغمبر ان سب کے نام گنوائے ۔ حذیفہ نے عرض کیا جب صور ت حال یہ ہے تو آپ ایک گروہ کو کیوں یہ حکم نہیں دیتے کہ وہ جاکر انھیں قتل کردے ۔ آپ نے فرمایا : میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ عرب یہ کہیں کہ محمد اپنے ساتھیوں پر کامیاب ہو گیا تو انھیں قتل کرنا شروع کردیا ۔

یہ شان ِ نزول حضرت امام محمد باقر - سے نقل ہوئی ہے اور حدیث و تفسیر کی بہت سی کتابوں میں آئی ہے ۔

ایک دوسری شان ِ نزول یہ لکھی ہےکہ جب منافقوں نے جنگ تبوک میں دشمن کے مقابلے میں حضرت کی جگہ دکھی تو مذاق کے طور پر کہنے لگے کہ یہ شخص گمان کرتا ہے کہ شام کے محل اور شامیوں کے مضبوط قلعے فتح کرے گا ، یہ تو قطعی طور پر محال ہے ۔

خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ نے حکم دیا کہ اس گروہ کا راستہ بند کردیا جائے اس کے بعد آپ نے ا نھیں بلا یا اور لعنت ملا مت کی اور فرمایا کہ تم نے لوگوں سے یہ باتیں کی ہیں انھوں نے معافی مانگی کہ اس سے ہمارا کوئی خاص مقصد نہ تھا ہم تو مذاق کررہے تھے اور اس با ت پر قسم کھائی ۔

منافقین کا خطر نا ک پرگرام

گذشتہ آیات سے اس بات کا اندازہ ہوتاہے کہ منافق کس طرح قوت کے اسباب کو کمزوری کے ذرائع سمجھتے تھے اور مسلمانوں میں تفرقہ اور اختلاف ڈالنے کےلئے پروپیکنڈے کرتے تھے ۔ جن آیات پربحث کی جارہی ہے ان میں ان کے منصوبوں اور طریق کار کے ایک اور حصے کی طرف اشارہ ہے پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا پیغمبر اکرم کو منافقوں کی سازشوں سے بچا نے کے لئے بعض اوقات ان کے اسرار سے پردہ اٹھادیتا ہے اور ان سے مسلمانوں کی جماعت کو آگاہ کردیتا تھا تاکہ وہ چوکنے ہو جائیں اور ان کے دھوکے میں نہ آئیں اور وہ بھی اپنی حیثیت کی طرف متوجہ رہیں اور اپنے دست و پا سمیٹ کر رکھیں ۔ اس وجہ سے منافق اکثر اوقات خوف زدہ او رحیران و پریشان رہتے تھے ۔ چنانچہ قرآن ان کی اس حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

منا فق ڈرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی ایسی سورت نازل نہ ہوجائے جو اس سے انھیں ( مسلمانوں کو) اگاہ کردے

( یَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ اٴَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم ْ بِمَا فِی قُوبِهمْ ) ۔

لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ پھ ربھی انتہائی دشمنی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے پیغمبر کے کاموں کا مذاق ۱ ڑانے سے باز نہیں آتے تمسخر اڑانے کا سلسلہ ترک نہیں کرتے لہٰذا خدا اس آیت کے آخرمیں اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے : ان سے کہہ دو تم سے جتنا ہو سکے مذاق اڑاو، لیکن جان لو کہ جس چیز کاتمہیں خوف ہے خدا اسے ظاہر کردے گا اور تمہیں ذلیل و رسوا کرکے رہے گا( قُلْ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ ) ۔

البتہ استہزؤا “ ( ہنسی مذاق اڑاو) تہدید کی قبیل سے فعل امر ہے جیسے انسان اپنے دشمن سے کہتاہے ۔ جس قدر دکھ تکلیف تو پہنچا سکتا ہے پہنچا لے ہم ا س کاایک ہی مرتبہ جواب دیں گے ۔ اس قسم کی باتیں دھمکی کے موقع پر کی جاتی ہیں ۔ضمنی طور پر توجہ دیجئے تو اوپر والی آیت سے معلوم ہو تا ہے کہ منافق دل میں پیغمبر کی دعوت کی سچائی کو اچھی طرح جانتے تھے اور خدا سے آنحضرت کے ارتباط سے وہ خوب واقف تھے ۔ لیکن اس کے باوجود ہٹ دھرمین اور دشمنی کی وجہ سے ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے مخالفت کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے قرآن کہتا ہے : منافقوں کواس بات کا ڈر تھا کہ کہیں ان کے خلاف قرآنی آیا ت نازل ہوں اور ان کے دلوں میں چھپے ہو ئے رازوں کو طشت ازبام کردیں ۔

اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ”( تنزل علیهم ) “ کامطلب یہ نہیں ہے کہ اس قسم کی آیتیں منافقین پرنازل ہوتی تھیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ وہ ان کے بارے اور ان کے خلاف تھیں اگر چہ حضرت رسول اکرم پر نازل ہوتی تھیں ۔

خدا اس کے بعد میں آنے والی آیت میں منا فقین کے ایک اور منصوبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :۔

” اگر ان سے پوچھو کہ تم نے اس قسم کی غلط بات کیوں کی ہے اور اس قسم کی غلط حرکت کیوں کی ہے ؟ تو کہتے ہیں کہ ہم دل لگی او رہنسی مذاق کرتے تھے او راس سے ہماری کوئی غرض نہ تھی( وَلَئِنْ سَاٴَلْتَهُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ) ۔(۱)

اصل میں یہ ایک انوکھی راہ فرار تھی ۔ سوچ سمجھ کر سازشیں کرتے تھے اور زہریلی باتیں اس ارادے سے کرتے کہ ان کارازظاہر نہ ہو اور ان کا منحوس مقصد پورا ہوگیا تو اپنی دلی مراد پالیں گے اور اگر بھانڈا پھوٹ گیا تو اپنے آپ کو ہنسی مذاق کے پر دے میں چھپا لیں گے اور جھوٹ موٹ بہانہ بازیا ں کرکے رسول اکرم اور لوگوں کی طرف سے سزا اور رد عمل سے بچ جائیں گے ۔

اس زنے کے منافق بلکہ ہر زمانے کے منافقوں کے منصوبے ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں اس طریقے سے وہ بہت سے فائدے اٹھا تے ہیں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن مقاصد کے وہ سختی سے پابند ہو تے ہیں انھیں عام مذاق اور دل لگی کے لباس میں پیش کرتے ہیں اگر اپنا مقصد پالیا تو کیا کہنے ورنہ مذاق اور خوش طبعی کے بہانے سزا کے چنگل سے بچ جاتے ہیں ۔

لیکن قرآن ابھی یقینی سزا دینے کا اعلان کرتا ہے اور رسالتِ مآب کو حکم دیتا ہے کہ ان سے کہہ دو کیا تم خدا ، اس کی آیتوں اور ا س کے رسول کا مذاق اڑاتے ہو اور اس سے استہزا اور دل لگی کرتے ہو( قُلْ اٴَبِاللهِ وَآیَاتِهِ وَرَسُولِهِ کُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ) ۔یعنی کیا ہر ایک سے مذاق کیا جاسکتا ہے ، یہاں تک کہ خدا ، پیغمبر اور آیات قرآن کے ساتھ بھی ؟ کیا پختہ ترین اسلامی اصول بھی ہنسی مذاق کے لائق ہیں ؟ کیا حضرت رسول کرام کی اونٹنی ک وبد کانا اور بھگا نا اور اس خطر نا ک گھاٹی میں پیغمبر کا گرنا ۔ ایسی چیزیں ہیں جن کو مذاق کے پردے میں چھپا یا جا سکے ؟

یا آیات خداوند ی کا مذاق اڑانا اور پیغمبر کی آئندہ کامیابیوں کی پیش گوئیوں پر پھبتیاں کسنا بھی مزاح سمجھا جا سکتا ہے یہ سب باتیں گواہی دیتی ہیں کہ وہ خطر ناک ارادے رکھتے تھے جنھیں ان پردوں میں چھپا نا چاہئیے تھے۔

اس کے بعد خدا وند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم یدا ہے ہ منافقوں سے صراحت کے ساتھ کہہ دو کہ ” ان فضول اور جھوٹے حیلے بہانوں سے باز آجاو “( لاَتَعْتَذِرُوا ) ۔

” کیونکہ تم نے ایما ن کے بعد کفر کی راہ اختیار کرلی ہے( قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ ) ۔

اس بات سے پتہ چلتاہے کہ مذکورہ بالا گروہ سے منافقوں کی صف میں نہ تھا بلکہ یہ لوگ کمزور ایمان رکھنے والوں کی صف میں تھے لیکن مندرجہ بالا واقعہ کے بعد انھوں نے کفر کا راستہ اختیار کرلیا ۔

مندرجہ بالا جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ یہ جماعت اس سے پہلے بھی منافقوں کے صف میں داخل تھی لیکن کیونکہ ان سے ظاہر بظاہر کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی اس لئے پیغمبر اور مسلمانوں کافرض تھا کہ وہ ان سے مومنوں کا سا سلوک کریں لیکن جب جنگِ تبوک کے واقعہ کے بعد ہٹا اور انکا کفر و نفاق ظاہر ہوگیا تو انھیں اس امر سے خبر دار کیا گیا کہ تم آئندہ مومنین کی صف میں شمار نہ ہوگے۔ آخر کار آیت کو اس جملے پر ختم کیا گیا ہے : اگر ہم تم سے ایک جماعت کو بخش دیں تو دوسرے گروہ کو اس بنا پر کہ وہ مجرم ہے سزا دیں گے( إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْکُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِاٴَنَّهُمْ کَانُوا مُجْرِمِینَ ) ۔یہ جو کہا گیا ہے کہ ہم ایک گروہ کو ان کے جرم و خطا کی پاداش میں سزا دیں گے یہ اس بات کی دلیل ہے ایسے لو گ قابل معافی ہیں جنھوں نے گناہ او رجرم کی نشانیوں کوتوبہ کے پانی سے دھو ڈالا ہے ۔ آئندہ آیات مثلاً آیات مثلاً آیہ ۷۴ میں بھی اس بات کا قرینہ پایا جاتا ہے ۔ اس آیت کے ضمن میں بہت سی روایتیں ہیں جو اس امر کی حخایت کرتی ہیں کہ ان منافقوں میں سے جن کا ذکر اوپر کی آیات میں ہو چکا ہے بعض اپنے کئے پر پشمان ہو ئے اور انھوں نے توبہ کی ۔ لیکن کچھ دوسرے منافقو اپنے طریقے پر ڈٹے رہے۔ مزید وضاحت کے لئے تفسیر نور الثقلین جلد ۲ صفحہ ۲۳۹ ملاحظہ فرمائیے ۔

____________________

۱۔ ”خوض “( بر وزن” حوض “ ) جیسا کہ کتب لغت میں ہے ، آہستہ آہستہ پانی میں داخل ہونے کے معنی میں ہے بعد ازں بطور کنایہ مختلف کاموں میں داخل ہونے کے معنی میں بولا جانے لگا لیکن قرآن میں زیادہ تر بر کام شروع کرنے یا قبیح او ربری باتوں کا سلسلہ شروع کرنے کے مفہوم میں آیا ہے ۔

آیات ۶۷،۶۸،۶۹،۷۰

۶۷ ۔( الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضهُمْ مِنْ بَعْضٍ یَاٴْمُرُونَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْهَوْنَ عَنْ الْمَعْرُوفِ وَیَقْبِضُونَ اٴَیْدِیَهُمْ نَسُوا اللهَ فَنَسِیهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِینَ هُمْ الْفَاسِقُونَ ) ۔

۶۸ ۔( وَعَدَ اللهُ الْمُنَافِقِینَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْکُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا هِیَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمْ اللهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِیمٌ ) ۔

۶۹ ۔( کالّذین مِنْ قَبْلِکُمْ کانوا ٓ اشدّ منکم قوة و اکثر اموالا و اولاداً فاستمعوا بخلاقهم فاستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الذین من قبلکم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ کَالَّذِی خَاضُوا اٴُوْلَئِکَ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْخَاسِرُونَ ) ۔

۷۰ ۔( اٴَلَمْ یَاٴْتِهِمْ نَبَاٴُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِیمَ وَاٴَصْحَابِ مَدْیَنَ وَالْمُؤْتَفِکَاتِ اٴَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالبَیِّنَاتِ فَمَا کَانَ اللهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَلَکِنْ کَانُوا اٴَنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ) ۔

ترجمہ

۶۷ ۔ منا فق مرد اور عورتیں سب ایک ہی گروہ سے ہیں وہ برے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور اچھے کوموں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو ( سخاوت اور بخشش سے ) باندھ لیتے ہیں انھوں نے خدا کو فراموش کردیا ہے اور خدا نے ان کو بھلا دیا ہے ( اس نے اپنے رحمت ان سے منقطع کرلی ہے ) یقینا منافق فاسق ہیں ۔

۶۸ ۔ خدا نے منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لئے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ وہی ان کے لئے کافی ہے اور خدا نے انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اور ان کے لئے ہمیشہ کا عذاب ہے ۔

۶۹ ۔ ( تم منافق لوگ ) ان افراد کی طرح ہو جو تم سے پہلے تھے ( اور انھوں نے نفاق کا راستہ اختیار کیا تھا ) وہ تم سے زیادہ طاقت ور تھے اور مال اور اولاد کے لحاظ سے تم سسے بڑ چڑھ کر تھے ۔ انھوں نے ( دنیا میں ہواو ہوس او رگناہ کے ذریعے ) اپنے حصے سے استفادہ کیا ۔ تم نے بھی ( اسی طرح ) اپنے حصے سے استفادہ کیا ہے جیسا کہ انھوں نے استفادہ کیا تھا تم ( کفر ، نفاق او رمومنین کا مذاق اڑانے میں ) مگن ہو جسیے وہ مگن تھے ( لیکن آخر کار ) ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں ملیامیٹ ہ وگئے اور وہ خسارہ میں ہیں ۔

۷۰ ۔ کیا انھیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو ان سے پہلے تھے ۔ قومِ نوح ۔، عاد ثمود اور براہیم کی قوم اور اصحاب مدیَن ( قوم ِ شعیب ) اور وہ شہر جو تہ و بالا ہوئے تھے ( قوم ِ لوط) کہ جن کے پیغمبر ان کی طرف روشن اور واضح دلیلوں کے ساتھ آئے تھے ( لیکن انھو ں نے پیغمبروں کی کوئی بات نہ مانی )خدا نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔

منافقوں کی نشانیاں

ان آیتوں میں بھی اسی طرح منافقین کے چال چلن او رنشانیوں کے بارے میں بحث ہے ۔

پہلی زیر بحث آیت میں خدا وند عالم ایک امر کلی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے کہ نفاق کی روح مختلف شکلوں میں ظاہر ہو او رمختلف چہروں میں دکھائی ددے ہوسکتا ہے شروع شروع میں متوجہ نہ کرے ۔ خاص طور پرہو سکتا ہے کہ روحِ نفاق کا اظہار ایک مرد کی نسبت ایک عورت میں مختلف طرح سے ہو ۔ لیکن نفاق کے چہروں کے تغیر و تبدل سے دھو کا نہیں کھا نا چاہئیے بلکہ غور وفکر کرنے سے بخوبی یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ وہ سارے صفات کے ایک ہی سلسلے میں جو ان کے قدر مشترک سمجھی جاتی ہے ، شریک ہیں ۔ اس لئے قرآن کہتا ہے : منافق مرد او رمنافق عورتیں ایک ہی قماش کے ہیں( الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضهُمْ مِنْ بَعْضٍ ) ۔

اس کے بعد ان کی پانچ صفات کا ذکر فرمایا گیا ہے :

پہلی اور دوسری صفت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو برائیوں پر ابھار تے ہیں اور نیکیوں سے روکتے ہیں( یَاٴْمُرُونَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْهَوْنَ عَنْ الْمَعْرُوفِ ) ۔

یعنی بالکل سچے مومنین کے الٹ جو ہمیشہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے طریقے سے معاشرے کی اصلاح اور اسے نجاست اور گناہ سے پاک کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ منافق ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ہر جگہ پرفساد پھیل جائے اور معروف اور نیکی معاشرے سے خم ہو جائے تاکہ وہ اس قسم کے ماحول میں اپنے برے مقصد بہتر طریقے سے حاصل کرسکیں ۔

تیسیری صفت یہ ہے کہ وہ دینے والا ہاتھ نہیں رکھتے بلکہ اپنے ہاتھوں کو باندھے ہوئے ہیں نہ وہ راہ خد امیں خرچ کرتے ہیں اور نہ محروم اور بے کس لوگوں کی مدد کے لئے آگے بڑھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کے رشتہ داراور دوست آشنا بھی ان کی مالی مد د سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے( وَیَقْبِضُونَ اٴَیْدِیَهُمْ ) ۔

واضح ہے کہ چونکہ وہ آخرت پر اور نفاق کے نتیجے اور جز اپر یمان نہیں رکھتے۔ اس لئے مال خرچ کرنے میں بہت ہی بخیل ہیں ۔ اگر چہ وہ اپنے برے اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے زیادہ مال خرچ کرتے ہیں یا ریا کاری اور دکھاوے کے طور پر سخاوت اور بخشش کرتے ہیں لیکن وہ خدا کے نام خلوص ِ دل سے کبھی کوئی نیک کام نہیں کرتے ۔

چوتھی صفت یہ ہے کہ ان کے تمام کام ، گفتار اور کردار بتاتے ہیں کہ وہ خدا کو بھول چکے ہیں ، نیز ان کے طرز زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ ” خد انے بھی ان کو اپنی بر کات ، توفیقات، اور نعمات سے فراموش کردیا ہے “ اور ان دونوں فراموشیوں کے آثار ان کی زندگی سے آشکار ہیں( نَسُوا اللهَ فَنَسِیهُم ) ۔

واضح ہے کہ” نسیان “کی نسبت خدا کی طرف واقعی اور حقیقی بھلادینے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ بھال دینے والے شخص کا سا سکوک کرتاہے ۔ یعنی انھیں اپنی رحمت اور توفیق سے دور رکھتا ہے ۔

یہ معاملہ روز مرہ کی زندگیوں میں بھی پایا جاتا ہے مثلا ً ہم کہتے ہیں کہ چونکہ تو اپنی ذمہہ داری کو بھول چکا ہے لہٰذا ہم بی مزدوری او ربدلے کے وقت تجھے بھول جائیں گے یعنی مزدوری اور بدلہ نہیں دیں گے یہی مفہوم روایاتِ اہل بیت - میں بار ہا بیان ہوا ہے ۔(۱)

پانچویں صفت یہ ہے کہ یہ منافق فاسق ہوتے ہیں اور طاعت ِخدا وندی کے دائرے سے خارج ہیں( إِنَّ الْمُنَافِقِینَ هُمْ الْفَاسِقُونَ ) ۔

جو چکھ مندرجہ بالا آیت میں منافقین کی مشترکہ صفات کے بارے میں کہا جاچکا ہے وہ ہرزمانے میں دیکھا جاتا ہے ہمارے زمانے کے منافق اپنے خود ساختہ نئے اور جدید چہروں کے باوجود مذکورہ اصولوں کی رو سے گذشتہ صدیوں کے منافقوں کی طرح ہیں وہ برائی اور فساد کی طرف ابھارتے ہیں اور اچھے کاموں سے روکتے ہیں بخیل اور کنجوس بھی ہیں اور اپنی زندگی کے تمام پہلو وں میں خدا کو بھول چکے ہیں وہ قانون شکن اور فاسق بھی ہیں اور نرالی بات یہ ہے کہ ان تمام خوبیوں کے باوجودخدا پر ایمان اور دینی اصولوں اور اسلامی بنیادوں پریقین ِ محکم کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اس کے بعد آیت میں ان کی سخت اور دردناک سزا اس مختصر سے جملے میں بیان کی گئی ہے : خدا منافق مردوں ، منافق عورتوں ، تمام کافروں اور بے ایمان افراد کے لئے جہنم کی آگ کا وعدہ کرتا ہے( وَعَدَ اللهُ الْمُنَافِقِینَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْکُفَّارَ نَارَ جَهَنَّم ) ۔

وہ جلانے والی آگ کہ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے( خَالِدِینَ فِیهَا )

اور یہی ایک سزاجو طرح طرح کے عذاب لئے ہوئے ہے ان کے ئے کافی ہے( هِیَ حَسْبُهُمْ ) ۔

دوسروں لفظوں میں انھیں کسی سزا کی ضرورت نہیں کیونکہ جہنم میں ہر قسم کا جسمانی اور روحانی عذاب موجود ہے ۔

اور آیت کے آخر میں یہ اضافہ کیا گیا ہے کہ ” خد انے انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اور ہمیشہ کا عذاب ان کے نصیب میں ہے “( وَلَعَنَهُمْ اللهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِیمٌ ) ۔

بلکہ یہ خدا سے دوری خود عظیم ترین عذاب اور دردناک ترین سزا شمار ہوتی ہے ۔

تاریخ کا ذکر اور درس عبرت اس آیت میں منافقین کی جماعت کو بیدار کرنے کےلئے ان کے چہرے کے سامنے تاریخ کا آئینہ رکھ دیا گیا ہے اور ان کی زندگی کا گذشتہ باغی منافقوں سے مقابلہ اور موازنہ کرکے موثر درسِ عبرت دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہےکہ ” تم گذشتہ منافقوں کی طرف ہو اور اسی برے راستے او ربدسر نوشت کے پیچھے پڑے ہوئے ہو( کالّذین مِنْ قَبْلِکُمْ ) ۔انہی لوگوں کی طرح جو قوت و طاقت میں تم جیسے زیادہ اور مال و دولت کی رو سے تم سے بہت آگے تھے( کانوا ٓ اشدّ منکم قوة و اکثر اموالاً و اولاداً ) ۔

دنیا میں و ہ اپنے حصہ میں سے شہوت ِ نفسانی ، گندگی، گناہ ، فتنہ فساد اور تباہ کاریوں سے بہرہ ور ہوتے ہوئے۔ تم بھی جو اس امت کے منافق ہو گزرے ہوئے منافقین کی طرح ہی حصہ دار ہو( فاستمعوا بخلاقهم فاستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الذین من قبلکم بِخَلَاقِهِمْ ) ۔

”خلاق“ لغت میں نصیب اور حصہ کے معنی میں ہے جیسا کہ راغب مفردات میں کہتا ہے یہ ”خلق“ سے لیا گیا ہے ( یعنی اس جہت سے انسان اپنا نصیب اپنے خلق و خو کے مطابق اس دنیا میں حاصل کرتا ہے ) اس کے بعد فرما گیاہے : تم کفر و نفاق میں اور مومنین کا مذاق اڑاے میں مگن ہو جیسا کہ ان امور میں وہ لوگ ڈوبے ہوئے تھے( وَخُضْتُمْ کَالَّذِی خَاضُوا ) ۔(۲)

آخر میں عہد پیغمبر کے منافقوں اور دنیا کے سب منافقوں کو بیدار کرنے کے لئےگزرے ہوئے منافقین کا انجام دو جملوں میں بیان کیا گیا ہے ۔

پہلا یہ کہ وہ ایسے لوگ ہیں جن کے دنیا و آخرت میں سب اعمال تباہ و بر باد ہوئے ہیں اور بر باد ہوں گے اور انھیں اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں ملے گا( اٴُوْلَئِکَ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ) ۔

دوسرا یہ کہ وہ اصلی اور حقیقی نقصان اٹھانے والے ہیں( وَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْخَاسِرُونَ ) ۔

ممکن ہے کہ وہ اپنے منافقہ عمل سے وقتی اور عارضی محدود فائدے حاصل کریں لیکن اگر ہم صحیح طور پر توجہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ اس طریقے سے نہ دنیا میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور نہ آخرت میں انھیں کوئی فائدہ ہوگا۔

جیسا کہ اقوام گذشتہ کی تاریخ اس حقیقت کو واضح کررہی ہے کہ کس طرنفاق کی بد بختیان ان سے وابستہ ہو کر رہ گئیں اور انھیں زوال اور نیستی کی طرف لے گئیں اور ان کے برے انجام او ربری عاقبت نے عالم ِ آخرت میں ان کی بد بختی ظاہر اور واضح کردی ۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ باوجود تما م وسائل او رمال اولاد کے ہوتے ہوئے کامیابی تک نہ پہنچ سکے اور ان کے سب اعمال بے بنیاد ہونے کی وجہ سے اور نفاق کے زیر اثر نابود ہو گئےتو پھر تم جو کہ قوت اور طاقت کے لحاظ سے کمتر ہوا اس قسم کی بد قسمتی او ربد انجامی میں اور بھی بر طرح سے پھنسو گے ۔

اس کے بعد خدا وند عالم پیغمبر اسلام کی طرف بات کا رخ موڑتے ہوئے استفہام انکاری کے طور پر یوں فرماتا ہے :

کیا منافقوں کا یہ گروہ گذشتہ امتوں قوم نوح ، عاد، ثمود اور قوم ابراہیم اور اصحاب مدیَن ( قوم شعیب )اور قوم لوط کے ویران و برباد شہروں کے حال سے باخبر نہیں ہے “( اٴَلَمْ یَاٴْتِهِمْ نَبَاٴُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِیمَ وَاٴَصْحَابِ مَدْیَنَ وَالْمُؤْتَفِکَاتِ ) ۔(۳)

یہ قومیں جن کا ایک عرصہ تک دنیا کے اہم حصوں پر اقتدار تھا ۔ ان میں سے ہر ایک تباہ کاری ، نافرمانی ، سر کشی ، بے انصافی، طرح طرح کے ظلم و ستم اور فساد کی وجہ سے کسی نہ کسی عذاب ِ الہٰی میں گرفتار ہوئی ۔

قوم نوح طوفان کی تباہ کن موجوں سے اور قوم ِ عاد ( قوم ہود) نیز اور وحشت ناک آندھیوں کے ذریعے، قوم ثمود ( قوم صالح ) ویران گر زلزلوں سے ، قوم ابراہیم گوناگں نعمتوں کی محرومی سے ، اصحاب مدین ( قوم شعیب) آگ کے بر سانے والے بادل سے اور قوم لوط اپنے شہروں کے زیرو زبر ہونے سے تباہ و برباد ہوئی۔ صرف ان کے بے جان جسم او ربوسیدہ ہڈیاں مٹی کے نیچے یا پانی کی موجوں میں باقی رہ گئیں ۔

یہ وہ دل دہلانے والے واقعات ہیں جن کامطالعہ اور آگاہی ہر اس انسان کو جو ذرا سا بھی احساس رکھتا ہے جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔

اگر چہ خد انے کبھی بھی انھیں اپنے لطف و کرم سے محروم نہیں رکھا اور ان کے نبیوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ ان کی ہدایت کے لئے بھیجا( اٴَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالبَیِّنَاتِ ) ۔لیکن انھوں نے ان خدا رسیدہ بزرگوں کے کسی موعظہ اور نصیحت پر کان نہ دھرے اور مخلوق ِ خدا کی نصیحت و ہدایت کی راہ میں ان کی ناقابل ِ برداشت تکلیفوں کو ذرہ برابر اہمیت نہ دی۔ اس بنا پر خدانے کبھی ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں نے خود اپنے آپ پر ظلم و جور روا رکھا ۔( فَمَا کَانَ اللهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَلَکِنْ کَانُوا اٴَنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ) ۔

____________________

۱تفسیر نور الثقلین جلد ۲ ص ۲۳۹، ۲۴۰ ملاحظہ فرمائیں ۔

۲۔ ”کالذی خاضوا “ در اصل ” کالذی خاضوا فیہ “ ہے یا دوسرے لفظوں میں آج کل کے منافقین کے فعل کی تشبیہ گذرے ہوئے منافقین کے فعل سے ہے جیسے کہ گذشتہ جملے میں ان کے نعمات الہٰی سے راہ شہوت و خواہشات میں فائدہ اٹھانے کو گذرے ہوے منافقوں کے طرز عمل سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ اس بنا پر یہ ایک شخص سے تشبیہ نہیں ہے کہ ہم مجبورہو کر”الذی “ کو ”الذین “ ( یعنی مفرد کی جمع ) کے معنی میں لیں بلکہ عمل کو عمل سے تشبیہ دی گئی ہے ۔

۳۔موٴتفکات “ ”اتفاک “ کے مادہ سے انقلاب ، تبدیلی اور زیر و زبر ہ ونے کے معنی میں ہے ۔ یہ قوم لوط کے شہروں کی طرف اشارہ ہے جو زلزلہ کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئے تھے ۔