تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25542
ڈاؤنلوڈ: 2456


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25542 / ڈاؤنلوڈ: 2456
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۳۷،۳۸،۳۹،۴۰

۳۷ ۔( وَمَا کَانَ هَذَا الْقُرْآنُ اٴَنْ یُفْتَرَی مِنْ دُونِ اللهِ وَلَکِنْ تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ وَتَفْصِیلَ الْکِتَابِ لاَرَیْبَ فِیهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ) ۔

۳۸ ۔( اٴَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَاٴْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنْ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ ) ۔

۳۹ ۔( بَلْ کَذَّبُوا بِمَا لَمْ یُحِیطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا یَاٴْتِهِمْ تَاٴْوِیلُهُ کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِینَ ) ۔

۴۰ ۔( وَمِنْهُمْ مَنْ یُؤْمِنُ بِهِ وَمِنهُمْ مَنْ لاَیُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّکَ اٴَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِینَ ) ۔

ترجمہ

۳۷ ۔مناسب نہیں ( اور ممکن نہ تھا ) کہ بغیر وحی الہٰی کے اس قرآن کی نسبت خدا کی طرف دی جائے لیکن ( آسمانی کتب میں سے ) جو کچھ موجود ہے یہ اس کی تصدیق ہے اور اس کی تفصیل ہے اور اس میں شک نہیں کہ عالمین کے پروردگار کی طرف سے ہے ۔

۳۸ ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس نے قرآن کی خدا کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے ۔ کہہ دو کہ اگر سچ کہتے ہو تو اس جیسی ایک سورت لے آواور خدا کے علاوہ جسے چاہتے ہو ( اپنی مدد کے لئے ) بلا لو۔

۳۹ ۔ ( وہ علم و دانش کی بناء پر قرآن ک انکار کرتے ) بلکہ وہ ایسی چیز کی تکذیب کرتے ہیں جس سے آگاہی نہیں رکھتے اور ابھی تک اس کی حقیقت ان کے لئے واضح نہیں ہوئی اسی طرح سے ان سے پہلے لوگوں نے بھی تکذیب کی تھی ۔ پس دیکھو کہ ظالموں کا انجام کیا ہوا۔

۴۰ ۔ اور ان میں سے بعض اس پر ایمان لے آتے ہیں اور بعض ایمان نہیں لاتے اور تیرا پر ور دگار فساد کرنے والوں سے زیادہ باخبر اور آگاہ ( اور انھیں اچھی طرح سے جانتا ہے ) ۔

دعوت ِقرآن کی عظمت اور حقانیت

یہ آیات مشرکین کی کچھ نارا باتوں کا جواب دے رہی ہیں ۔ کیونکہ وہ صرف مبداء کی پہچان کے بارے میں انحراف اور کجروی کا شکار نہ تھے بلکہ پیغمبر اسلام پر بھی افتراء باندھتے تھے کہ انھوں نے قرآن خود اپنی فکر و نظر سے بنا کر خدا کی طرف منسوب کردیا ہے ۔ اسی لئے ہم نے گذشتہ آیات میں پڑھا ہے کہ وہ رسول اللہ سے تقاضا کرتے تھے کہ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آئیہں یا پھر کم از کم اس میں رد و بدل کردیں ۔ ان کا یہ تقاضا خو د اس امر کی دلیل ہے کہ وہ قرآن کو فکر پیغمبر کی تخلیق خیال کرتے تھے ۔

زیر بحث پہلی آیت میں فر ما یا گیا ہے : مناسب نہیں کہ وحی الہٰی کے بغیر اس قرآن کی خدا کی طرف نسبتدی جائے

( وَمَا کَانَ هَذَا الْقُرْآنُ اٴَنْ یُفْتَرَی مِنْ دُونِ اللهِ ) ۔

یہ بات کاذب نظر ہے کہ سادہ نفی کی بجائے مناسبت کی نفی کی گئی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ سادہ نفی کی بجائے ایسی تعبیر زیادہ رسا اور عمدہ ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنا دفاع کرتے ہوئے کہے کہ یہ میری شان کے خلاف ہے کہ میں جھوٹ بولوں ۔

ظاہر ہے کہ اس طرح سے کہنا یہ کہنے سے زیادہ پر معنی اور گہرائی کا حامل ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔

اس کے بعد قرآن کی اصالت اور اس کے وحی آسمانی ہونے کی دلیل کے طور پر کہتا ہے : لیکن یہ قرآن اپنے سے پہلے کی کتبِ آسمانی کی تصدیق کرتا ہے( وَلَکِنْ تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ ) ۔یعنی وہ تمام بشارتیں اور حقانیت کی نشانیاں جو گزشتہ آسمانی کتب میں آئی ہیں وہ مکمل طور پر قرآن اور قرآن لانے والے پر منطبق ہوتی ہیں اور یہ امر خود اس بات ک اثبوت ہے کہ یہ خدا پر تہمت نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ اصولی طور پر قرآن خود ”آفتاب آمد دلیل آفتاب “ کے مصداق اپنے مشمولات کی سچائی پر شاہد ہے ۔

یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ کہ وہ لوگ جو اس قسم کی آیات ِ قرآن کے زمانے میں تھیں ، تصدیق نہیں کرتابلکہ صرف پیغمبر اکرم اور قرآن کے بارے میں ان کتب میں جو نشانیاں تھیں ان کی تائید کرتا ہے ( غور کیجئے گا ) ۔

اس سلسلے میں مزید توضیحات تفسیر نمونہ جلد اول سورہ بقرہ کی آیت ۔ ۴۱ ۔ کے ذیل میں پیش کی جاچکی ہیں ۔

اس کے بعد اس آسمانی وحٰ کی صداقت کے بارے میں ایک اور دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اس قرآن میں گزشتہ انبیاء کی اصل کتب کی تشریح، بنیادی احکام اور اصولی عقائد بیان کیئے ہیں اور اسی وجہ سے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ پر وردگار عالمین کی طرف سے ہے( وَتَفْصِیلَ الْکِتَابِ لاَرَیْبَ فِیهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ) ۔

دوسرے لفظو ں میں گزشتہ انبیاء کے پیش کردہ پر گرام سے اس کا کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ اس میں ان تعلیمات اور پر وگراموں کی تکمیل کی گئی ہے اور اگر یہ قرآن جعلی ہوتا تو یقینا ان کے مخالف اور متضاد ہوتا۔

یہیں سے معلوم ہوتا ہے ، کہ اصولی مسائل میں چاہے وہ دینی عقائد ہوں ، یا اجتماعی پروگرام ، چاہے حفظ حقوق کے معاملات ہو ں یا چاہے جہالت کے خلاف جہاد ، حق و عدالت ہو یا اخلاقی اقدار کا احیاء او ریا اس قسم کے دیگر مسائل ، ان کے بارے میں کتب آسمانی میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ سوائے اس کے کہ بعد میں نازل ہونے والی کتاب پہلی کتاب سے بالا تر اور کامل تر سطح کی تھی ۔ جیسا کہ تعلیم کی مختلف کلاسیں ہوتی ہیں ۔ پرائمری ، میٹرک ، کالج او ریونیورسٹی میں ایک ہی علم کی کتاب مختلف سطح کی ہوتی ہے ۔ اسی طرح آخری آسمانی کتاب امتوں کی دینی تعلیم کے آخری دور کے لئے مخصوص تھی جو کہ قرآن ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ احکام کی جزئیات اور فروع میں آسمانی مذاہب میں فرق ہے لیکن یہاں ہم ان کے بنیادی اصولی کی بارت کررہے ہیں جو کہ ہر جگہ ہم آہنگ ہیں ۔

اگلی آیت میں قرآن کی اصالت کے لئے تیسری دلیل پیش کی گئی ہے ۔ ارشاد ہو تا ہے : وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس قرآن کی خدا کی طرف غلط نسبت دی ہے ، ان سے کہہ دو کہ اگر سچ کہتے ہوتو تم بھی اس جیسی ایک سورت لے آواور خدا کے علاوہ جس سے چاہو مدد طلب کرلو( لیکن تم یہ کام ہر گز نہیں کرسکو گے اور اس سے ثابت ہو جائے گا کہ یہ وحی آسمانی ہے )( اٴَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَاٴْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنْ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ ) ۔

یہ آیت ان آیات میں سے ہے کہ جو صراحت سے اعجاز قرآن کا ذکر کرتی ہیں اس آیت میں نہ صرف سارے قرآن کے اعجاز کا ذکر ہے بلکہ یہاں تک کہ ایک سورت کے اعجاز کو بیان کیا گیا ہے اور بلا استثناء تمام عالمین کو دعوت دی گئی ہے ۔ کہ اگر تم یہ نظریہ رکھتے ہو کہ یہ آیات خدا کی طرف سے نہیں ہیں تو اس قرآن کی مانند یا کم از کم اس کی ایک سورہ کی مثل تم بھی آیات لے آو۔

جیساکہ ہم پہلی جلد میں سورہ بقرہ کی آیہ ۲۳ کے ذیل میں بیان کرآئے ہیں ۔ آیاتِ قرآن میں کبھی سارے قرآن کے مقابلے کے لئے چیلنج کیا گیا ہے کبھی دس سورتوں کی دعوت دی گئی اور کبھی ایسی ایک سورت بنا کر لانے کی دعوت دی گئی ہے ۔ یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ قرآن کا جز و اور کل سب معجزہ ہے ۔ نیز چونکہ کسی معین سورہ کا ذکر نہیں ہوالہٰذا قرآن کی ہر سورت کے مقابلے کی دعوت اس میں شامل ہے ۔

البتہ اس میں شک نہیں کہ قرآن کا اعجاز فصاحت و بلاغت ، شیرینی بیان اور عمدورسا تعبیرات میں منحصر نہیں ہے ۔ جیسا کہ بعض پہلے مفسرین کا نظریہ ہے کہ بلکہ اس کے علاوہ اس کے دینی معارف، اس وقت تک کشف نہ ہونے والے علوم کا اس میں ذکر ، اس کے احکام و قوانین ، ہر غلطی اور خرافات سے پاک گزشتہ لوگوں کی تاریخ اور اس میں تضادف و اختلاف کا نہ ہو نا بھی معجزاتی پہلو رکھتے ہیں ۔ ( برائے شرح بیشتر) ۔

اعجاز قرآن کا ایک نیا جلوہ

یہ امر جاذب ِ توجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اعجاز قرآن کے نئے جلوے آشکار ہوتے ہیں جن کی طرف گزشتہ زمانے میں توجہ نہیں ہو سکی ان میں سے ایک یہ ہے کہ کمپیوٹرکے ذریعہ الفاظ ِ قرآن، قرآنی جملوں کی بدنش اور ہر سورت کے زمانہ نزول سے ان کے ربط کی نئی نئی خصوصیات سامنے آئی ہیں ، اس کا ایک نمونہ ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں ۔

آج کے محققین اور دانشوروں نے تحقیق و جستجو اور چھان بین سے آیاتِ قرآن اور سورتوں کے نہایت پیچیدہ باہمی روابط معلوم کیئے ہیں اور اس سلسلے میں حیرت انگیز حتمی فامولے معلوم کئے ہیں ۔ اس امر کے یقین کے ساتھ ایسا عملی نظم و نسق قرآن کی عمارت میں موجود ہے کہ اعداد شمار کی تحقیق و مطالعہ سے اور ریاضی کے دقیق قواعد کے ذریعہ آیاتِ قرآن میں ریاضی کے فامولوں کے مطابق حسابات اور کامل منحنی خطوط( complete cur ves )اور پیچیدہ اصول معلوم ہوئے اور یہ دریافت اتنی اہم ہے کہ زمین کی کشش کے بارے میں نیوٹن کے قانون کی دریافت کی یاد تازہ ہو گئی ہے ۔

ا یک عظیم قرآن شناس نے اپنے کام کا آغاز اس معمولی مسئلہ سے کیا ہے کہ مکہ میں نازل ہونے والی آیات چھوٹی چھوٹی ہیں جبکہ مدینہ میں نازل ہونے والی آیات طویل ہیں ۔ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ ہر لکھنے اور بولنے والااپنے جملوں کی طوالت او رالفاظ کا آہنگ موضوع سخن کے اعتبار سے بدلتا ہے ۔

توصیفی اور تعریفی مسائل چھوٹے چھوٹے جملوں میں بیان ہوتے ہیں اور تحلیلی و استدلالی مسائل طویل جملوں میں بیان کئے جاتے ہیں ۔ جہاں گفتگو تحریک کے لئے ہو یا انتقادی اور تنقیدی حوالے سے عمومی اصول سے متعلق ہو یا اعتقاد کے حوالے سے کلی اصول بیان کرنا مقصودہوتو لب و لہجہ شعار اور نعرے کا اختیار کیا جاتا ہے اور عبارتیں چھوٹی چھوٹی ہو تی ہیں لیکن جہاں کوئی داستان بیان کرنا ہو ، کوئی واقعہ ذکر کرنا ہو ، یا اخلاقی حولاے سے کوئی نتیجہ نکالتان ہو تو لب و لہجہ میں ٹھہراو ہوتا ہے اور عبارتیں لمبی ہوتی ہیں اور آہنگ میں نرمی ہوتی ہے ۔

مکہ میں جو مسائل در پیش تھے وہ پہلی قسم کے تھے اور مدینہ میں پیش آنے والے معاملات دوسری قسم کے تھے ۔کیونکہ مکہ میں ایک تحریک اور انقلاب کی ابتداء تھی ۔ وہاں بات اعتقادی اور انتقادی حوالے سے کلی اصول کے مطابق کرنا تھی ۔ لیکن مدینہ میں ایک معاشرہ کی بنیاد پڑ گئی تھی ۔ یہا ں حقوق و اخلاق سے متعلق بات کرنا تھی ، تاریخی واقعاتبیان کرنا تھے اور ان سے فکری و علمی نتائج اخذ کرنا تھے ۔

قرآن ایک فطری کلام ہے لہٰذا یہ امرنا گزیرہے کہ یہ آسان ، خوبصورت اور بلیغ طریقے کے مطابق ہو اور ا سکے نتیجے میں آیات کے اختصار اور طوالت میں بھی مفاہیم کی مناسبت کو ملحوظ رکھے ۔ اگر ہم قبول کرلیں کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو فطرت کے بھی مطابق ہے تو پھر اس کا یہ اختصار اور طوالت بغیر کسی حساب کتاب کے نہیں ہوسکتا ایک دقیق علمی قاعدہ کے مطابق اس کی ابتداء مختصر آیات سے ہوئی ہے اور آہستہ آہستہ آیات طویل ہو تی گئی ہیں لہٰذا ہر آیت اگلے برس نازل ہونے والی آیت سے چھوٹی ہے او ر کسی ایک برس میں نازل ہو نے والی آیت گزشتہ برس نازل ہونے والی آیت سے طویل تر ہے اس طرح سے ۲۳/ سال کی مدت میں جو وحی نازل ہوئی ہے آیات کی اوسط طوالت کے لحاظ سے اسے تیئس حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔

اس قاعدہ کی بناء پر تیئس کا لم ہونے چاہئیں کہ جن میں ان آیات کو ان کی طوالت کے لحاظ سے تقسیم کیاجا سکے ۔ اب ہمیں کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ تقسیم بندی صحیح ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ بعض آیاتِ قرآن کی شان ِ نزول معلوم ہے ۔ بعض کے سال ِ نزول کو تاریخی روایات نے معین کیا ہے اور صراحت کے ساتھ بتایا ہے کہ وہ کس سال میں نازل ہوئی ہیں اور بعض کو ان کے مفاہیم کے ذریعے معین کیا جا سکتا ہے مثلاً قبلہ کی تبدیلی ، حرمت ِ شراب حجاب اور احکام خمس و زکوٰة کے بارے میں جو آیا ت ہیں جن میں ہجرت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔

ہم انتہائی تعجب سے دیکھتے ہیں کہ یہ آیات کہ جن کا سال ِ نزول معلو م ہے ٹھیک انہی کالموں میں آتی ہیں جو آیات کی اوسط طوالت کے جدول میں ہر سال کے لحاظ سے خاص طور پر معین کئے گئے ہیں ( غور کیجئے گا ) ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس سلسلے میں دو تین استثنائی مواقع پیدا ہو ئے ہیں مثلاً:

سورہ مائدہ نازل ہونے والی آخری بڑی سورت ہے جب کہ اس کی چند آیات کو فار مولے کے مطابق پہلے سالوں میں نازل ہونا چاہئیے تھا۔ تفاسیرتاور اسلامی روایات کی تحقیق کے بعد ہمیں معتبر مفسرین کے اقوال ملتے ہیں کہ جنہوں نے کہا ہے کہ یہ چند آیات ابتداء میں نازل ہوئی تھیں لیکن تدوین کے لحاظ سے پیغمبر کے حکم سے سورہ مائدہ میں موجود ہیں ۔ لہٰذا اس طریقے سے ہر آیت کے سال نزول کو ریاضی کے قاعدے سے معین کیا جا سکتا ہے اور قرآن کی تدوین سال ِ نزول کے حساب سے بھی کی جاسکتی ہے ۔

دنیا میں کون ایسا خطیب ہے جس کی عبارت کی طوالت سے اس کے ہر جملے کی دائیگی کے سال کو معین کیا جا سکے خصوصاً جب کہ وہ کسی مولف کے علمی یا ادبی کتاب کا متن نہ ہو کہ جسے اس نے ایک معین مدت میں تسلسل کے ساتھ تحریر کیا ہو اور پھر اس کی زبان پر جاری ہو ئی ہو ۔ خصوصاً جب کہ وہ ایسی کتاب نہ ہو جسے لکھنے والے نے کسی ایک موضوع یا حتی کہ معین شدہ مضامین میں تالیف کیا ہو۔ بلکہ اس میں گو نا گوں مسائل ہوں کہ جو تدریجاً معاشرے کی ضرورت کے مطابق اور پیش آنے والے سوالات کے جواب میں بیان کیے گئے ہوں ، ایسے مسائل جو ایک طویل جد و جہد اور مقابلے کے دوران پیدا ہوئے ہوں اور ایک رہبر کے ذریعے بیان ہوئے ہوں اور پھر انھیں جمع کرکے منظم کیا گیا ہو او رکتابی شکل دی گئی ہو ۔(۱)

بلکہ بعض مفسرین کے بقول قرآن کے مخصوص لغات و الفاظ کی طرز بھی اپنی نوع میں ایک معجزہ ہے ۔ انھوں نے اس کے لئے مختلف اور جاذب نظر شواہد پیش کئے ہیں ۔ ان میں سے ایک وہ واقعہ ہے جو مشہور مفسر سید قطب کو پیش آیا ۔ زیربحث آیت کے ذیل میں وہ کہتے ہیں ، میں ان حوادث و واقعات ک ےبارے میں بات نہیں کرتا جو دوسروں کو پیش آئے صرف وہ واقعہ بیان کرتا ہوں جو خود مجھے پیش آیا اور میرے علاوہ اسے دیکھنے والے پانچ افراد تھے ۔ہم چھ مسلمان ایک مصری بحری جہاز میں سوار تھے ۔ بحری جہاز نیو یارک جانے کے لئے اوقیانوس اطلس کو عبور کررہا تھا جہاں میں کل ۱۲۰ مسافر تھے جن میں عورتیں بھی تھیں اور مرد بھی تھے اور ہمارے سوا مسافروں میں سے کوئی مسلمان نہ تھا ۔ جمعہ کے روز ہم نے سوچا کہ نما جمعہ وسط سمندر میں جہاز کے اوپر کی جائے ہم چاہتے تھے کہ مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے علاوہ ایک عیسائی مبلغ کے سامنے اسلامی جرات کا مظاہرہ کیا جائے جس نے کشتی میں اپنا تبلیغی پر گرام ترک نہیں کیا تھا اور پھر خصوصاً جب کہ وہ ہمیں بھی مسیحیت کی تبلیغ کرنا چاہتاتھا ۔ جہاز کا کپتان ایک انگریز تھا اس نے جہاز کے اوپر نماز باجماعت کی ہمیں اجازت دے دی ۔ نیز جہاز پ رکام کرنے والوں کو بھی ہمارے ساتھ نماز نماز پڑھنے کی اجازت دے دی جو کہ سب افریقی مسلمان تھے ۔ وہ بھی اس واقعہ سے بڑے خوش ہوئے کیونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ نماز جمعہ انجام پا رہی تھی ۔

میں نماز جمعہ کا خطبہ پڑھنے لگا اور امامت کے لئے تیار ہوا ۔ یہ بات جاذبِ توجہ ہے کہ تمام غیر مسلم مسافر ہمارے گرد حلقہ باندھ کر کھڑے ہوئے گئی اور بڑے غور سے اس اسلامی فریضے کی انجام دہی دیکھتے رہے ۔

نماز کے اختتام پر ان میں سے بہت سے لوگ ہمارے پاس آئے اور ہمارے ا س کام کی تعریف کی ۔ ان میں سے ایک خاتون تھی کہ جس کے بارے میں مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ یو گوسلاویہ کی ایک عیسائی عورت تھی جو ٹیٹو اور اس کے کمیونزم کے جہنم سے فرار کیے ہوئے تھی ۔ وہ ہماری نماز سے بے حد متاثر ہوئی اس ھد تک کہ اس کی آنکھوں سے آنسوبہہ رہے تھے او روہ اپنے او پر کنٹرول نہیں کر پارہی تھی ۔

وہ اپنی عام انگریزی زبان میں جو شدید تاثیر او رایک خاص خضوع و خشوع میں ملی ہو ئی تھی ، گفتگو کر رہی تھی ، اس کی گفتگو کے کچھ الفاظ یہ تھے :

بتاو کہ میں دیکھوں تمہارا کشیش کس زبان میں باتیں کرتا تھا ( اس کا خیال تھا کہ یقینا ایسی نماز فقط کشیش یا کوئی عالم ہی قائم کرسکتا ہے جیسا کہ عیسائیوں کے ہاں نماز ہو تی ہے لیکن ہم نے اسے جلد ہی سمجھا دیا کہ اس اسلامی پروگرام کو ہر صاحب ایمان مسلمان انجام دے سکتا ہے )

آخر میں ہم نے اس سے کہ ا: ہم تو عربی زبان میں بو ل رہے تھے ۔

وہ کہنے لگی : میں اگر چہ تمہارے مطالب میں سے ایک لفظ بھی نہ سمجھ پائی تھی تا ہم میں سے ایک صراحت سے دیکھا کہ تمہارے الفاظ عجیب و غریب طرز کے تھے ۔

اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا : اور اس کی وہ بات وجو زیادہ اہم ہے اور جس نے مجھے بہت زیادہ متوجہ کیا یہ تھی ، کہ تمہارے پیش نماز کے خطبے کے دوران کچھ جملے ایسے تھے جو باقی جملوں سے ممتاز تھے وہ بہت زیادہ موثر تھے اور گہرے معلوم ہوتے تھے یہاں تک کہ انھوں نے مجھے لرزہ بر اندام کردیا ۔ یقینا ان جملوں میں کچھ اور مطالب تھے ۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ تمہارا پیش نماز جب ان جملوں کو ادا کرتا ہے تو وہ روح القدس سے ملا ہوتا ہے ۔

ہم نے تھوڑا سا غور و فکر کیا تو متوجہ ہوئے کہ یہ جملے آیاتِ قرآن ہی تھیں جو میں نے خطبے کے دوران او رنماز میں پڑھی تھی ۔

اس بات نے ہمیں ہلا کے رکھ دیا اور اس نکتے کی طرف متوجہ کیا کہ قرآن کی مخصوص طرز اس قدر موثر ہے کہ حتیٰ کہ ایک ایسی خاتون جو اس کے ایک لفظ کا مفہوم نہیں سمجھتی وہ بھی اس سے شدید متا ثر ہو جاتی ہے ۔ ( تفسیر فی ظلال جلد ۴ صفحہ ۴۴۲)

بعد والی آیت میں مشرکین کی مخالفتوں کی ایک بنیادی علت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وہ قرآن کا انکار اشکالات اور اعتراضات کی بناء پر نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی تکذیب اس وجہ سے تھی کہ وہ اس کے مضامین سے آگاہ نہیں تھے( بَلْ کَذَّبُوا بِمَا لَمْ یُحِیطُوا بِعِلْمِهِ ) ۔در حقیقت ازن کے انکار کا عامل اور سبب ان کی عدم آگہی اور جہا لت تھی ۔

رہا یہ سوال کہ اس سے مراد کن امور کے بارےان کی جہا لت تھی اس سلسلے میں مفسرین نے کئی احتمالات ذکر کیے ہیں کہ جو سب کے سب آیت میں مراد ہوسکتے ہیں ، منجملہ ان کے :

معارفدینی او رمبداء و معاد سے جہا لت جیسا کہ قرآن معبودِ حقیقی اللہ کے بارے میں مشرکین کا قول نقل کرتا ہے کہ وہ کہتے تھے :اجعل الالٰهة الها واحداً ان هٰذا الشی عجاب ۔

کیا اس نے ہمارے خدا وں کو ایک معبود میں بدل دیا ہے، عجیب و غریب چیز ہے (ص ۵) یا پھر وہ معاد کے بارے میں کہتے تھے:( هل ندلُّکم علیٰ رجل ینبئکم اذا مزّ قتم کل ّ ممزّ ق انکم لفی خلق جدید افتری علیٰ الله کذباً امر به جنة ٌ ) ( سبا ، ۷ ۔ ۸)

کیا تمہیں اسے شخص کے بارے میں بتائیں جو تم سے بیان کرے گا کہ جب تم ( مرکر گل سڑ جاو گے اور ) بالک ریزہ ریزہ ہو جاو گے تو تم ایک نیا جنم لو گے کیا اس شخص ( محمد) نے خد اپر جھوٹ باندھا ہے یا اسے جنون ( ہو گیا ) ہے ۔

در حقیقت ان لوگوں کے پاس مبداء و معاد کی نفی کے لئے کوئی دلیل نہیں تھی صرف جہا لت اور بے خبری خرا فات اور بڑے بوڑھوں کے مذہب کے عادی ہوجانے سے ، ان کے لئے سدّ راہ تھی ۔

پھر وہ احکام کے اسرار سے جاہل تھے اسی طرح آیات متشابہ کے مفہوم سے جاہل تھے یا حروف ، مقطعات کے مفہوم سے نابلد تھے ۔

یہی سب جہالتیں انھیں تکذیب اور انکار پر ابھارتی تھیں جب کہ ابھی تک مسائل ِ مجہولہ کی تاویل ، تفسیر اور حقیقت ان پر واضح نہیں ہوئی تھی ۔( وَلَمَّا یَاٴْتِهِمْ تَاٴْوِیلُهُ ) ۔

”تاویل “ اصل لغت میں کسی چیز کو لوٹا نے کے معنی میں ہے لہٰذا کوئی کام او ربات اپنے اصلی مقصد تک پہنچ جائے تو ہم کہتے ہیں کہ اس کی تاویل آگئی ہے ۔ اس بناء پر کسی اقدام کے اصلی ہدف کا بیان ، کسی بات کی حقیقی تشریح یا کسی خواب کی تعبیر اور نتیجہ یا کسی بات کا عملی صورت اختیار کرجانا ، سب کو تاویل کہاجاتا ہے ( اس سلسلے میں تفسیر نمونہ جلد دوم ص ۲۵۴ ۔ ار دو ترجمہ پر ہم تفصیل سے گفتگو کر آئے ہیں ) ۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ یہ غلط روش صرف زمانہ جاہلیت کے مشرکین میں ہی منحصر نہیں ہے بلکہ گزشتہ گرماہ قومیں بھی اسی ابتلاء میں مبتلاتھیں ، وہ بھی حقائق کی پہچان اور تحقیق کے بغیر اور ان کے تحقق کی انتظار کے بغیر ان کا انکار اور تکذیب کرتے تھے( کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ ) ۔

سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۳ ۔ اور ۱۱۸ ۔ میں گذشتہ امتوں کی کیفیر کی طرف اس حوالے سے اشارہ کیا گیا ہے ۔ در حقیقت ان سب کا عذر ان کی جہالت ہی تھی اور حقائق کے بارے میں تحقیق نہ کرنا ان کی بد بختی کا باعث تھا جبکہ عقل و منطق کا تقاضا ہے کہ انسان جس چیز کو نہیں جانتا اس کا ہر گز انکار نہ کرے بلکہ اس کی جستجو اور تحقیق کرے ۔

آخر میں روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : دیکھو کہ ان ستم گروں کا انجام کار کیا ہوا( فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِینَ ) ۔یعنی وہ بھی اسی انجام سے دو چار ہوں گے ۔

زیر بحث آخری آیت میں مشرکین کے دو بڑے گروہوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما یا گیا ہے : یہ سب کے سب اسی حالت میں باقی نہہیں رہیں گے بلکہ ” ان میں سے ایک گروہ جس میں حق طلبی کی روح مردہ نہیں ہوئی ، آخر کار اس قرآن پر ایمان لے آئے گا جب کہ دوسرا گروہ اس ی طرح اپنی جہا لت اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے گا اور ایمان نہیں لائے گا “( وَمِنْهُمْ مَنْ یُؤْمِنُ بِهِ وَمِنهُمْ مَنْ لاَیُؤْمِنُ بِهِ ) ۔

واضح ہے کہ یہ دوسرا گروہ فاسد اور مفسد ہے اسی وجہ سے آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : تیرا پر وردگار مفسدین کو بہتر جانتا ہے( وَرَبُّکَ اٴَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِینَ ) ۔

یہاس طرف اشارہ ہے کہ جو افراد حق قبول نہیں کرتے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے معاشرے کا شیرازہ بکھیر دیا ہے اور معاشرے کے نظام کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔

____________________

۱۔ نشریہ فلق ( یونیورسٹی طلبہ کا نشریہ )

جہالت اور انکار

جیسا کہ مندر جہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اصولی طور پر زیادہ تر حق کی مخالفتوں ، دشمنیوں اور حق کے خلاف جنگ کا سر چشمہ جہا لت اور نادانی ہے ۔ اس لئے کہتے ہیں کہ جہالت کا انجام کفر ہے ۔

پہلا فریضہ جو ہر حق طلب انسان کے ذمہ ہے یہ ہے کہ جسے وہ جانتا اس کے بارے میں سکوت اور خاموشی اختیار کرے ، انتظار کرے اور تحقیق و سجتجو کے لئے اٹھ کھڑا ہو، جس مطلب کو نہیں جانتا اس کے تمام پہلوو کا مطالعہ کرے تحقیق کرے ۔ جب تک اس کی نفی پر کوئی قطعی دلیل نہ مل جائے اس کی نفی نہ کرے جیسا کہ بغیر قطعی دلیل کے اثبات بھی نہ کرے ۔

مر حوم طبری نے مجمع البیان میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس سلسلے میں ایک نہایت عمدہ حدیث نقل کی ہے ۔ آپ نے فرمایا :

اللہ نے قرآں کی دو آیات میں اس امت کو دو اہم درس دئیے ہیں ۔ پہلا یہ کہ جسے جانتے ہو اس کے سوا کوئی بات نہ کہو اور دوسرا یہ کہ جسے جانتے نہیں ہو اس کا انکار نہ کرو۔

اس کے بعد آپعليه‌السلام نے یہ دو آیات تلاوت کیں :( الم لیوٴخذ علیهم میثاق الکتاب ان لا یقولوا علی الله الا الحق ) ۔

کیا خدا نے ان سے آسمانی کتاب کا عہد وپیمان نہیں لیا کہ خدا کے بارے میں حق کے سواکچھ نہ کہیں ۔

( بل کذبوا بما لم یحیطوا بعلمه ) ۔

مشرکین نے ایسی چیزوں کا انکار کیا کہ جن آگاہی نہیں رکھتے تھے جب کہ جہالت کسی چیز کے انکار کے لئے دلیل نہیں ہے ۔

آیات ۴۱،۴۲،۴۳،۴۴

۴۱ ۔( وَإِنْ کَذَّبُوکَ فَقُلْ لِی عَمَلِی وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اٴَنْتُمْ بَرِیئُونَ مِمَّا اٴَعْمَلُ وَاٴَنَا بَرِیءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ ) ۔

۴۲ ۔( وَمِنْهُمْ مَنْ یَسْتَمِعُونَ إِلَیْکَ اٴَفَاٴَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ کَانُوا لاَیَعْقِلُونَ ) ۔

۴۳ ۔( وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْظُرُ إِلَیْکَ اٴَفَاٴَنْتَ تَهْدِی الْعُمْیَ وَلَوْ کَانُوا لاَیُبْصِرُونَ ) ۔

۴۴ ۔( إِنَّ اللهَ لاَیَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَلَکِنَّ النَّاسَ اٴَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ) ۔

ترجمہ

۴۱ ۔ انھوں نے تیری تکذیب کی ہے تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے لئے اور تمہارا عمل تمارے لئے ۔ جو کچھ میں انجام دیتا ہوں تم اس سے بیزار ہو اور میں اس سے بیزار ہو ں جو تم کرتے ہو۔

۴۲ ۔ اور ان میں سے ایک گروہ تیری طرف کان دھرتا ہے ( لیکن گویا وہ بالکل نہیں سنتا اور بہرہ ہے ) کیا تو اپنی بات بہروں کے کانوں تک پہنچا سکتا ہے ،اگر وہ نہ سمجھیں ۔

۴۳ ۔اور ان میں ایک گروہ تیری طرف دیکھتا ہے ( لیکن گویا وہ بالکل نہیں دیکھتا ) کیا تو نابینوں کو ہدایت کرسکتا ہے ۔

۴۴ ۔خدا انسانوں پربالکل ظلم نہیں کرتا لیکن انسان ہیں کہ جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ۔

اندھے اوربہرے

گزشتہ آیات میں ہٹ دھرمی پر مبنی مشرکین کے انکار کے بارے میں بحث آئی ہے ۔ یہاں بھی اسی بحث کو آگے بڑھایا گیا ہے ۔

پہلی آیت میں ایک نئے طریقے سے پیغمبر کو مقابلے کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اگر وہ تیری تکذیب کریں تو ان سے کہہ دو کہ مریا عمل میرے لئے اور تمہارا عمل تمہارے لئے( وَإِنْ کَذَّبُوکَ فَقُلْ لِی عَمَلِی وَلَکُمْ عَمَلُکُم ) ۔

جو میں انجام دیتا ہوں اس سے تم بیزار ہو اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو میں اس سے بیزار ہوں( اٴَنْتُمْ بَرِیئُونَ مِمَّا اٴَعْمَلُ وَاٴَنَا بَرِیءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ ) ۔

بیزاری اور بے اعتنائی کا یہ اعلان جس سے اپنے مکتب پر قطعی اعتماد اور ایمان جھلکتا ہے خاص طور پر ہٹ دھرمی منکرین پر ایک مخصوص نفسیاتی اثر رکتھا ہے یہ اعلان ان پر واضح کرتا ہے کہ اس مکتب کو قبول کرنے میں کوئی اصرار اور جبر نہیں ہے وہ حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو محرومیت کی طرف لے گئے ہیں اور اس طرح صرف اپنے ہی کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔

ایسی تعبیریں قرآن کی دیگر آیات میں بھی ہیں ۔ جیسا کہ سورہ کافرون میں ہے :۔( لکم دینکم ولی دین ) ۔

تمہارا دین تمہارے لئے او رمیرا دین میرے لئے ۔

اس بیان سے واضح ہو جا تا ہے کہ ایسی آیات کا مفہوم مشرکین کے مقابلے میں تبلیغ او رجہاد کے حکم کے منافی نہیں کہ ہم انھیں منسوخ سمجھنے لگیں بلکہ جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ یہ بے اعتنائی او ربے نیازی کے انداز میں ہت دھر م او رکینہ پر ور افراد سے ایک منطقی مقابلہ ہے ۔

بعد والی آیات میں حق سے ان کے احراف او رعدم تعلیم کی دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: ایک انسان کی ہدایت کے لئے صرف صحیح ، ہلادینے والی اور پر اعجاز آیات اور واضح دلائل کافی نہیں ہیں بلکہ قبول کرنے کے لئے آمادہ گی اور قبولیت حق کی لیاقت بھی ضروری ہے جیسا کہ سبزہ پھول اگانے کے لئے صرف تیارشدہ بیج کافی نہیں ہے ۔ آمادہ زمین بھی ضروری ہے ۔

اسی لئے پہلے فرمایا گیا: ان میں سے ایک گروہ تیری طرف کان تو دھر تاہے لیکن گویا یہ لوگ بہرے ہیں( ومنهم یستمعون الیک ) (۱)

باوجودیکہ وہ سننے والا کان نہیں رکھتے ، کیا تم ان بہروں کے کانوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہو، چاہے وہ عقل و ادراک نہ رکھتے ہوں( افانت تسمع الصم ولوکانوا لایعقلون ) ۔

” اور ایک گروہ تیرے طرف آنکھ لگائے ہوئے ہے اور تیرے اعمال دیکھتا رہتا ہے کہ جن میں سے ہر ایک تیری حقانیت او رراست گوئی کی نشانیوں کو دیکھ سکتاہے لیکن گویا یہ لوگ اندھے ہیں “( وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْظُرُ إِلَیْک ) ۔ کیا اس کے باوجود تو ان نابینوں کو ہدایت کرسکتا ہے اگر چہ ان کے پاس کوئی بصیرت نہ ہو

( اٴَفَاٴَنْتَ تَهْدِی الْعُمْیَ وَلَوْ کَانُوا لاَیُبْصِرُونَ ) ۔(۲)

لیکن جان لو اور وہ بھی جالیں کہ یہ فکری نارسائی، عدم بصیرت ، حق کا چہرہ دیکھنے کے بارے میں اندھا پن او رکلام الہٰی کے لئے ناشنوائی کو ئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جسے وہ شکم مادر سے اپنے ساتھ لائے ہیں اورخدا نے ان پر کوئی ظلم کیا ہو خود انہیں نے اپنے غلط اعمال ، حق دشمنی اور گناہوں سے اپنی روح کو تاریک کرکے اپنی دیکھنے والی آنکھے اور اہنے سننے والے کان کو بیکار کردیا ہے ، کیونکہ ” خد اکسی شخص پر ظلم کرتا لیکن یہ لوگ ہیں جو خود اپنے اوپر ظلم روا رکھتے ہیں “( إِنَّ اللهَ لاَیَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَلَکِنَّ النَّاسَ اٴَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ) ۔

____________________

۱ ۔ اس آیت میں درحقیقت ”کانهم صم لایسمعون “ کا جملہ مقدر ہے ۔

۲یہاں ”کانهم عمی لا یبصرون “ جا جملہ مقدر ہے ۔

دو قابل توجہ نکات

۱ ۔”( من یستمعون ) “ اور ”( من ینتظر ) “ سے کیا مراد ہے :

یہ جو دوسری آیت میں ہے کہ ” ان میں سے کچھ لوگ تیری بات سنتے ہیں “ او رتیسری آیت میں ہے کہ ” ان میں سے کچھ نہیں جو تیری طرف دیکھتے ہیں “اور یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ تیری اعجاز نما باتوں کو سنتے ہیں او رکچھ سنتے ہیں اور کچھ دوسرے ہیں جو تیرے معجز نشان اعمال دیکھتے ہیں کہ جو سب کے سب تیری صدق ِ گفتار او رتیری دعوت کی حقانیت کی دلیل ہیں لیکن کان دھرنے او ردیکھنے والے ان دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھا تا ، کیونکہ ان کی نگاہ فہم و ادراک کی نگاہ نہیں ہے ، بلکہ تنقید ، عیب جوئی ، اور مخالفت کی نظر ہے ۔ وہ کان دھر کے سننے سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے کوینکہ ان کا مقصد مفہوم سخن نہیں ہوتا بلکہ وہ تو تکذیب او رانکار کے لئے بہانے تلاش کرتے پھر تے ہیں او رہم جانتے ہیں کہ انسان کے اعمال کی بنیاد اس کا رادہ اور نیت ہی ہے ۔ نیت اور ارادہ ہی انسانی اعمالک ے اثرات کو دگر گون کردیتا ہے ۔

۲ ۔ ”( ولوکانوا لایعقلون ) “ اور ”( ولوکانوا لایبصرون ) “ کا مفہوم :

زیر نظرا لفاظ سننا کافی نہیں بلکہ دوسری آیت کے آخر میں ” ولو کانوا لایعقلون “ آیا ہے ۔ اور تیسری آیت کے اختتام پر ”ولو کا نوا لا یبصرون “ آیا ہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ فقط کانوں سے تفکرو تدبر بھی ضروی ہے تاکہ انسان الفاظ کے مفاہیم سے فائدہ اٹھائے اسی طرح کسی چیز کو آنکھوں سے صرف دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ بصیرت او رجن چیزوں کو انسان دیکھتا ہے انھیں سمجھنا بھی ضروری ہے تاکہ ان کی گہرائی تک پہنچے اور ہدایت حاصل کرے ۔