تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25515
ڈاؤنلوڈ: 2445


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25515 / ڈاؤنلوڈ: 2445
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۶۲،۶۳،۶۴،۶۵

۶۲ ۔( اٴَلاَإِنَّ اٴَوْلِیَاءَ اللهِ لاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ ) ۔

۶۳ ۔( الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ ) ۔

۶۴ ۔( لَهُمْ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ لاَتَبْدِیلَ لِکَلِمَاتِ اللهِ ذَلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) ۔

۶۵ ۔( وَلاَیَحْزُنْکَ قَوْلهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِیعًا هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ) ۔

ترجمہ

۶۲ ۔ آگاہ رہو کہ خدا کے اولیاء ( اور دوست) نہ ڈرتے ہیں اور نہ غمگین ہوتے ہیں ۔

۶۳ ۔ وہی کہ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ( حکم خدا کی مخالفت سے ) پر ہیز کیا ۔

۶۴ ۔ وہ دنیاوی زندگی اور آخرت میں خوش ( اور مسرور ) ہیں ۔ خدا کے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی اور عظیم کامیابی ہے ۔

۶۵ ۔ ان کی گفتگو تجھے غمگین نہ کرے ۔ تمام عزت و قدرت خدا کے لئے ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

روحانی سکون ایمان کے زیر سائی ہے

گزشتہ آیات میں مشرکین اور بے ایمان افراد کے حالات کا کچھ حصہ پیش کیا گیا تھا ۔ ان آیات میں ان کے مد مقابل مخلص، مجاہد اور پرہیز گار مومنین کی کیفیت بیان ہوئی ہے تاکہ موازنہ ہو سکے ۔ جیسا کہ قرآن کی روش ہے کہ وہ نور کو ظلمت سے اور سعادت کو بد بختی سے میّز کر تا ہے ۔

پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے : آگاہ رہو کہ اولیاء ِ خدا پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ انھیں کوئی حزن و غم ہے( اٴَلاَإِنَّ اٴَوْلِیَاءَ اللهِ لاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ ) ۔

اس بات کو پوری طرح سمجھنے کے لئے اولیاء کا معنی خوب معلوم ہونا چاہئیے ” اولیاء “ ”ولی “ کی جمع ہے یہ اصل میں ”ولی یلی “ کے مادہ سے لیا گیا ہے جو دو چیزوں کے نزدیک واسطہ نہ ہونے اور ان کے ایک دوسرے کے نزدیک پے در پے ہونے کے معنی میں ہیں لہٰذا ہر اس چیز کو جو دوسری سے مکان ، زمان ، نسب یا مقام کے لحاظ سے قرابت رکھتی ہے ” کہا جا تا ہے ۔ اس لفظ کا ” سر پرست “ اور ”دوست“ وغیرہ کے لئے استعمال بھی اسی بناء پر ہے اس لئے اولیاء وہ ہیں جن کے اور خدا کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو ۔ اولیاء ِ خد ا معرفت اور ایمان کے نور سے اور اپنے پاک عمل کی بناء پر خد اکو دل کی آنکھ سے اس طرح دیکھتے ہیں کہ ان کے دل میں کسی قسم کا کوئی شک اور ترد پیدا نہیں ہوتا اور خدا کہ جو بے انتہا ہے جس کی قدرت بے پایاں ہے او رجو کما ل ِ مطلق ہے ، سے اسی آشنائی کے سبب جو کچھ خدا کے علاوہ ہے ، ان کی نگاہ میں حقیر ، بے وقعت ، ناپائیدار اوربے مقدار ہے ۔ جو شخص سمندر سے آشنا ہے قطرہ اس کی نگاہ میں کوئی قیمت نہیں رکھتی اور جوآفتاب کو دیکھتا ہے وہ ایک سمع بے فورح سے بے اعتناء ہے ۔

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انھیں کیوں خوف و اندوہ نہیں ہے کیونکہ خوف عام طور پر میسر نعمتوں کے فقدان کے احتمال پر ہوتا ہے یا ان خطرات سے ہو سکتا ہے جبکہ خدا کے اولیاء اور سچے دوست مادی دنیا کی ہر قسم کی وابستگی اور عقد سے آزاد ہیں اور ” زہد “ اپنے حقیقی مفہوم میں ان کے وجود پر حکومت کرتا ہے وہ نہ مادی وسائل کے چھن جانے پر واویلا کرتے ہیں اور نہ آئندہ کے لئے ایسے مسائل کا احتمال ان کے اذہان کو اپنی طرف مشغول رکھتا ہے : ان کے وجود میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

کسی چھوٹے سے برتن کا پانی انسان کی ایک پھونک ہی سے متلاطم ہو جاتا ہے لیکن ایک وسیع سمندر کے لئے طوفان بھی کم اثر ہوتے ہیں ۔ اسی لئے سمندر کو سکون کہاجاتا ہے ۔( لکی لا تاٴسوا علی مافاتکم ولا تفرحوا بما اٰتاکم ) ۔

تاکہ نہ افسوس کرو تم اس چیز کا جو تم سے چھن جائے اور نہ خوش ہو تم اس چیز سے جو تم کو دی جائے ۔ (حدید۔ ۲۳)

نہ وہ دن کہ جب دنیا ان کے پاس تھی انھوں نے اس سے دل لگا یا اور نہ آج جبکہ اس سے جدا ہورہے ہیں انھیں اس کا غم ہے ۔ ان کی روح بزرگ تر ہے اور ان کی روح سے بالا تر ہے کہ ایسے حوادث ان کے گزشتہ اور آئندہ پر اثر انداز ہوں گے ۔

اس طرح سے حقیقی امن و سکون ان کے وجود رپر حکم فرما ہے ۔ قرآن کے مطابق :( اولٰئک لهم الامن )

انہیں لوگوں کے لئے امن اور سلامتی ہے ۔( انعام ۔ ۸۲) ۔

یا دوسرے لفظوں میں :( الا بذکرالله تطمئن القلوب ) ۔

خدا کی یاد ان کے دلوں کے سکون کاباعث ہے ۔ ( رعد ۔ ۲۸)

خلاصہ یہ کہ عموماً غم اور خوف انسانوں میں دنیا پرستی کی روح کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ جو لوگ اسی روح سے تہی داماں ہیں اگر انھیں کوئی غم اور خوف نہ ہو تو یہ بہت فطری اور طبعی بات ہے یہ اس مسئلہ کا استدلالی بیان ہے ۔ کبھی اس مسئلے کو عرفانی صورت میں یوں بیان کیا جاتا ہے :

اولیاء اللہ اس طرح صفات جلال و جمال میں مستغرق ہیں اور کی ذات پاک کے مشاہدہ میں محو ہوتے ہیں اور اس کے غیر کو بھول جاتے ہیں کہ کسی چیز کے لئے کھو جانے کے غم میں اور کسی خطرناک دشمن کے خوف کی ان کے دل میں کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ جس کے دل میں خدا کے سوا کسی کے لئے کوئی گنجائش نہ ہو اور جو اس کے غیر کی فکر نہ کرے اور اس کی روح اس کے علاوہ کسی کو قبول نہ کرے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی غم و اندوہ یا خوف و وحشت سے دو چار ہو۔

جو کچھ ہم نے کہ اہے اس سے یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ اس سے مراد مادی نج و غم اور دنیاوی خوف و ہراس ہے ۔ ورنہ اللہ کے دوستوں کا وجود اس کے خوف سے مالا مال ہوتا ہے ۔ فرائض اور ذمہ دار یوں کے انجام نہ دینے کا خوف اور ان مواقع کا دکھ کہ جو ان سے جائع ہو گئے ۔ یہ حزن و ملال روحانی پہلو اور وجود انسان کے تکامل اور ترقی کا باعث ہے جبکہ اس کے بر عکس مادی خوف اور غم انحطاط اور تنزل کا سبب ہیں ۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے مشہور خطبہ ہمام میں اولیا ء اللہ کے حالات کی نہایت خوبصورت تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :( قلوبهم مخزونة و شرورهم مامونة ) ۔

ان کے دل مخزونو غمزہ ہیں اور لوگ ان کے شر سے امان میں ہیں ۔

آپعليه‌السلام مزید فرماتے ہیں :( ولو لا الاجل الذی کتب الله علیهم لم تستقرارواحهم فی اجسادهم طرفة عین شوقاً الیٰ الثواب وخوفاً من العقاب ) ۔

اگر وہ اجل جو خدا نے ان کے لءء مقرر کی ہے نہ ہوتی تو ثوابِ الہٰ ی کے شوق میں اور عذاب الہٰی کے خوف سے ان کے جسموں میں ان کی روح چشم زدن کی دیر بھی ٹھہرتی ۔ ( نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۳( صبحی صالح )، ۔

قرآن مجید بھی مو منین کے بارے میں کہتا ہے :( الذین یخشون ربهم بالغیب وهم من الساعة مشفقون ) ۔

وہ لوگ جو پر وردگار سے اس کے غضب کو نہ دیکھنے کے باجود ڈرتے ہیں ۔( انبیاء ۔ ۴۹)

اس بناء پر ان کا خوف و ہراس دوسری قسم کا ہے ۔(۱)

___________________

۱اس وقت جب کہ ہم یہ آیات لکھ رہے ہیں اللہ کے ایک سچے ولی کی شہادت کی خبر پہنچی ہے یعنی فلسفی ، عالم ، مجاہد ِ عظیم آقائے مرتضی مطہری کی خبر شہادت ۔ اس شہادت نے ہمارے لئے یہ حقیقت ایک مرتبہ ثابت کردی ہے کہ عظیم اسلامی انقلاب کی حفاظت کے لئے جسے ہم نے دورِ حاضر میں اس ملک میں شروع کررکھا ہے اور جس میں قوم کے تمام طبقے شریک ہیں ، ابھی ہمیں بہت سا خون اور بہت سی قربانیاں دینی ہوں گی ۔ لیکن اب کے دشمنوں نے ہم سے ایک ایسے جواں مرد کو چھینا ہے جس کی ساری عمر علم و دانش کی خدمت میں صرف ہوئی تھی اور ا سکے گراں بہا آثار علمی اس دعویٰ پر شاہد ناطق ہیں ۔ وہ مخلص مجاہد اور آزاد مومن تھے ۔ وہ بھی انہی افراد میں سے تھے کہ جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ :۔ ” نہ انھیں خوف ہے او رنہ غم و حزن“ کیونکہ اس شہید نے اپنے پیغام اور ذمہ داری کو عمدہ طریقے سے انجام دیا اور اپنے پیغام اور ذمہ داری کی راہ میں شہید ہو گیا ۔( ۱۲ اردی بہشت ۱۳۵۸ ہجری شمسی )

یہ کہ اولیاء خدا سے مراد کون سے افراد ہیں ، اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے لیکن دوسری آیت اس مطلب کو واضح کرتی ہے اور بحث کردیتی ہے ار شاد ہوتا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ہمیشہ تقویٰ اور پر ہیز گاری کو اختیا ر کئے رکھا( الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ ) ۔

یہ امر جاذب توجہ ہے کہ ایمان کا ذکر ما ضی مطلق کی صورت میں ہے اور تقویٰ کا ذکر ماضی استمراری کی شکل میں ہے ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ان کا ایمان حد کامل کو پہنچ گیا ہے لیکن تقویٰ جوکہ روزمرہ کے عمل میں منعکس ہوتا ہے ، ہر گھڑی نئے کام کا مطالبہ کرتا ہے اور تدریجی پہلو رکھتا ہے یہ ان کے لئے ایک دائمی ذمہ دای کی صورت میں ہے ۔

جی ہاں یہ وہ لوگ ہیں جو دین اور شخصیت کے ان دو بنیادی ار کان کے حامل ہیں اور اس کی وجہ سے اپنے اندر ایک ایسا سکو ن محسوس کرتے ہیں کہ جسے زندگی کا کوئی طوفان مضطرب نہیں کرسکتا بلکہ :الموٴمن الحبل الراسخ لاتحرکه العواصف ۔

مومن مضبوط پہاڑ کی طرح ہے جسے تیز آندھیاں ہلا نہیں سکتیں ۔

یعنی وہ پہاڑ کی طرح حوادث کی تند ہوا کے سامنے استقامت اور پا مردی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔

تیسری آیت میں اولیاء ِ حق کے وجود میں خوف و غم اور وحشت و اضطراب کے نہ ہونے کی تاکید یوں کی گئی ہے : ان کے لئے دنیاوی زندگی میں اور آخرت میں بشارت، خوشحالی اور سرور نصیب ہو گا ( توجہ رہے کہ البشریٰ میں الف لام جنس کے حوالے سے مطلق ذکر ہوا ہے اور اس میں طرح طرح کی بشارتوں کا مفہوم موجود ہے ) ۔

دوبارہ تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے : پر وردگار کی باتوں اور خڈائی وعدوں میں تغیر نہیں ہوتا اور خدا اپنے دوستوں کے بار ے میں اپنا وعدہ پورا کرے گا (لا تبدیل کلمات الله )، اور یہ جسے نصیب ہوا اس کے لئے عظیم کامیابی اور سعادت ہے( ذَلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) ۔

آخری آیت میں روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے جو اولیاء اللہ اور دوستان خدا کے سردار ہیں ۔ ان کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : غافل اور جاہل مخالفین اور مشرکین کی غیر موزوں باتیں تجھے غمگین نہ کریں( وَلاَیَحْزُنْکَ قَوْلهُم جمیعاً ) ۔کیونکہ تمام عزت و قدرت خدا کے لئے ہے اورخدا کے ارادہ حق کے سامنے دشمن کچھ نہیں کرسکتے( إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ ) ۔ خدا ان کی سب سازشوں سے باخبر ہے ۔ ان کی باتوں کو سنتا ہے اور ان کے اندر ونی اسرار و رموز سے آگاہ ہے( هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ) ۔

دو اہم نکات

۱ ۔ ”بشارت سے کیا مراد ہے ؟

مندرجہ بالا آیات میں خدانے اپنے دوستوں کے لئے دنیا و آخرت میں جس بشارت کا تذکرہ ہے اس سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں تمام مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔

بعض نے اس آیت کو اس بشارت کے ساتھ مخصوص سمجھا ہے جو فرشتے مومنین کو موت اور اس جہان سے انتقال کے وقت دیتے ہیں او رکہتے ہیں :( و ابشروا بالجنة التی کنتم توعدون ) ۔

خوشخبری ہو تمہیں اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ ( حٰم ٓ سجدہ ۔ ۳۰)

بعض دوسرے اسے ان کے مومن اور صالح ہونے تک کے لئے دشمنوں پر غلبہ اور روئے زمین پر حکومت کرنے کے وعدہ کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔

لیکن جیسا کہ ہم نے کہا ہے یہ لفظ مطلق ہے او ر” البشریٰ “ پر الف لام جنس کے حوالے سے ہے اس طرف توجہ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک وسیع مفہوم پنہاں ہے ، جس میں ہر قسم کی بشارت ، کامیابی اور موفقیت شامل ہے اور جن امور کا اوپر ذکر ہوا ہے وہ سب اس میں شامل ہیں اور درحقیقت ان میں سے ہر ایک خدا کی اس وسیع بشارت کے ایک گوشے کی طرف اشارہ ہے اور شاید یہ جو بعض روایات میں عمدہ خوابوں اور رویائے صالحہ سے اس کی تفسیر کی گئی ہے ، اس طرف اشارہ ہے کہ ہر قسم کی بشارت یہاں تک کہ چھوٹی بشارتیں بھی ” البشریٰ “ کے مفہوم میں موجود ہیں او ریہ نہیں کہ اس کا مفہوم ان میں منحصر ہے ۔

در حقیقت جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ایمان اور تقویٰ کا یہ تکوینی اور طبیعی اثر ہے کہ جو انسان کی روح اور جسم کو ہر قسم کے خوف و دہشت سے دورکردیتا ہے کہ جو شک اور تردد سے اور اسی طرح گناہ اور مختلف آلودگیوں سے پیدا ہوتا ہے کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے اندر ایمان اور معنویت نہ رکھتا ہو پھر بھی سکون محسوس کرے ۔ ایک شخص ایک بے لنگر کشتی کی طرح ہے جو طوفان میں پھنس گئی ہو کہ جسے کوہ پیکر موجیں ہر لمحہ الٹ دینا چاہتی ہوں اور گرداب اسے نگلنے کے لئے منہ کھولے ہوئے ہوں ۔

کسی طرح سے ممکن ہے کہ وہ شخص جس نے لوگوں پر ظلم و ستم کیاہو ، انسانوں کا خون بہا یا ہو اور دوسروں کے اموال و حقوق غصب کئے ہوں ، چین سے بیٹھا ہو۔مومنین کے بر عکس اسے سکون کی نیند نہیں آسکتی ۔ وہ زیادہ تر ڈراو نے خواب دیکھتا رہے گا کہ جن میں وہ اپنے آپ کو دشمنوں میں گھرا ہوا پائے گا او ریہ خود ان کی بے آرامی اور روح میں موجود تلاطم پ رایک دلیل ہے ۔

یہ یک فطری بات ہے کہ ایک مجرم اور ظالم ، خصوصاً جب اس کا تعاقب ہو رہا ہو عالم خواب میں اپنے آپ کو ہو لناکیوں کے سامنے دیکھتا ہے کہ جو اس کا پیچھا کرنے اور اسے پکڑ نے کے در پے ہیں یا یہ کہ مقتول و مظلوم کی روح اس کے نا آگاہ ضمیر کے اندر سے فریاد کرتی ہے اور اسے سخت مضطرب کرتی ہے ۔ اسی لئے جب وہ بیدار ہوتا ہے تو یزید کی طرح کہتا ہے :

مالی وللحسین ؟

میرا حسین سے کیا تعلق ہے ؟

یا حجاج کہتا ہے :مالی و لسعید بن جبیر

مجھے سعید بن جبیر سے کیا واسطہ ؟

۲ ۔ آئمہ ہدای کی چند روایات :

زیر بحث آیات کے ذیل میں آئمہ اہل بیت علیم السلام سے بڑی عمدہ روایات منقول ہیں ان میں سے بعض کی طرف ہم یہاں اشارہ کرتے ہیں ۔

امیر المومنین علی علیہ السلام نے آیت الاان اولیاء اللہ کی تلاوت فرمائی اور پھر اپنے اصحاب سے سوال کیا : جانتے ہو کہ اولیاء خدا کون لوگ ہیں ؟

انھوں نے سوال کیا : یا امیر المومنین ! آ پ ہی فرمائیے کہ وہ کون ہیں ؟

امام عليه‌السلام نے فرما یا :هم نحن و اتباعنا فمن تبعنا من بعدنا طوبی لنا ، طوبی لهم افضل من طوبیٰ لنا ،

قالوا : یا امیر المومین ماشاٴن طوبی لهم افضل من طوبی لنا ؛ السنا نحن وهم علی امر؛

قال : لا ، انهم حملوا مالم تحملوا علیه ، وطاقوا مالم تطیقوا۔

خدا کے دوست ہم اور ہمارے پیر وکار ہیں جو ہمارے بعد آئیں گے ۔ کیا کہنا ہمارا اور اس سے بڑھ کر کیا کہنا ان کا ۔

بعض نے پوچھا: ان کے لئے آپ نے بڑھ کر کیوں کہا: کیا ہم اور و ہ ایک ہی مکتب کے پیرو نہیں ہیں کیا ہمارا معاملہ ایک جیسا نہیں ہے ۔

آپ نے فرمایا:

نہیں کیونکہ ان کی اس قسم کی ذمہ داریاں ہیں جیسی تمہاری نہیں ہے اور وہ ایسی مشکلات سے دوچار ہوں گے کہ تم دوچار نہیں ہو۔(۱)

کتاب کمال الدین میں ابو بصیر کے واسطے سے امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے ۔

آپعليه‌السلام نے فرمایا :۔طو بیٰ لشیعة قائمنا المنتظرین لظهور ه فی غیبته ، و المطعین له فی ظهوره، اولٰئک اولیاء الله الذین لاخوف علیهم ولا هم یحزنون ۔

خوشا حال امام قائمعليه‌السلام کے پیروکاروں کا کہ جو ان کی غیبت میں ( اپنی خود سازی کے ساتھ ) ان کے ظہور کا انتظار کریں گے اور ان کے ظہور کے وقت ان کے فرماں بردار ہوں گے ، وہ اولیاء ِ خدا ہیں کہ جنہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ مخزون و مغموم ہوتے ہیں ۔(۲)

حضرت صادق علیہ السلام کا ایک موالی نقل کرتا ہے کہ امامعليه‌السلام نے فرمایا :

اس مکتب کے پیروکار زندگی کے آخری لمحات میں ایسی چیزیں دیکھتے ہیں کہ جن سے ان کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں ۔

راوی کہتا ہے : میں نے اصرار کیا کہ وہ کیا دیکھتے ہیں ؟ اس سوال کا میں نے دس سے زیادہ مرتبہ تکرار کیا ۔ لیکن امام ہر مرتبہ صرف اتنا کہتے ۔

وہ دیکھیں گے

مجلس کے اختتام پر آپعليه‌السلام نے میری طرف رخ کیا اور مجھے پکارکر فرمایا:

گویا تو اصرار کرتا ہے کہ یہ جانے کہ وہ کیا دیکھتے ہیں ؟

میں نے عرض کیا:

یقین پھر میں رونے لگا ۔

امام کو میری حالت پر رحم آیا اور کہا:

ان دونوں کودیکھیں گے ۔

میں نے اصرار کیا : کن دونوں کو ؟ فرمایا :۔ پیغمبر اکرم اور حضرت علیعليه‌السلام کو کوئی صاحبِ ایمان دنیا سے آنکھ بند نہیں کرے گا مگر یہ کہ ان دو بزرگوں کو دیکھے گا کہ وہ اسے بشارت دے رہے ہیں ۔

اس کے بعد فرمایا :

اسے خدا نے قرآن میں بیان کیا ہے ۔

سوال : کہاں اور کس سورہ میں ؟

فرمایا :

سورہ یونس میں جہاں فرمایا گیا ہے :( الذین اٰمنوا وکانوں یتقون لهم البشریٰ فی الحیاة الدنیا و فی الاٰخرة ) ۔

اسی مضمون کی اور روایات بھی موجود ہیں ۔

واضح ہے کہ یہ روایات اشارہ ہیں کہ حاصب ایمان تقویٰ افراد کے لئے کچھ یوں بشارتوں کی طرف ، نہ کہ ان سب بشارتوں کی طرف نیز واضح ہے کہ یہ مشاہدہ مادی جسم کانہیں ہے بلکہ برزخی نگاہ سے جسم کے مشاہدے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ عالم برزخ جوکہ اس جہاں او رعالم آخرت میں حد فاصل ہے ، میں انسانی روح برزخی جسم میں باقی رہ جائے گی ۔

____________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین جلد ۲ ص ۳۰۹۔

۲۔ تفسیر نور الثقلین جلد ۲ ص ۳۰۹۔

آیات ۶۶،۶۷

۶۶ ۔( اٴَلاَإِنَّ لِلَّهِ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ شُرَکَاءَ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ همْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ ) ۔

۶۷ ۔( هُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ اللَّیْلَ لِتَسْکُنُوا فِیهِ وَالنّهَارَ مُبْصِرًا إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَسْمَعُونَ ) ۔

ترجمہ

۶۶ ۔ آگاہ ہو کہ وہ تمام جو آسمانوں میں ہیں اور زمین ہیں ، خدا کے ہیں اور جو غیر خد اکو اس کا شریک بناتے ہیں وہ دلیل و منطق کی پیروی نہیں کرتے وہ صرف ظن او رگمان کی پیروی کرتے ہیں اور وہ صرف جھوٹ بولتے ہیں ۔

۶۷ ۔ وہ وہ ہے کہ جس نے تمہارے لئے رات کو پیدا کیا تاکہ اس میں سکون حاصل کرو او راس نے دن کو روشنی بخش قرار دیا۔

اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو سننے والے رکھتے ہیں ۔

عظمت الہٰی کی کچھ نشانیاں

زیر نظر آیات دوبارہ مسئلہ توحید و شرک کی طرف لوٹتی ہیں یہ مسئلہ اسلام اور ا س سورہ کے اہم ترین مباحث میں سے ہے ۔ ان آیات میں مشرکین کی خبر لی گئی ہے اور انکی عاجزی و ناتوانی کو ثابت کیا گیا ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : آگاہ ہو کہ وہ تمام لوگ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں خدا کے لئے ہیں ( اور اس کی ملکیت ہیں )( اٴَلاَإِنَّ لِلَّهِ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔

جہاں اشخاص اس کی ملکیت ہوں اور اس کے لئے ہوں وہاں اشیاء اس جہاں میں بدرجہ اولیٰ اس کی ہیں اور اس کے لئے ہیں اس بناء پر وہ تمام عالم ہستی کا مالک ہے اس حالت میں کیونکہ ممکن ہے کہ اس کے مملوک اس کے شریک ہوں ۔

مزید ارشاد ہوتا ہے : جو لوگ غیر خدا کو اس کا شریک قرار دیتے ہیں وہ دلیل و منطق کی پیروی نہیں کرتے اور ان کے پاس اپنے قول کے لئے کوئی سند اور شاہد نہیں ہے( وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ شُرَکَاءَ ) ۔

وہ صرف بے بنیاد تصورات اور گمانوں کی پیروی کرتے ہیں( إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّن ) ۔

بلکہ وہ تو صرف تخمینے سے بات کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں( وَإِنْ همْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ ) ۔

” خرص “ لگت میں ” جھوٹ“ کے معنی میں بھی آیا ہے اور تخمین او روہم و خیال کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ دراصل جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے کہ یہ پھلوں کی جمع آوری کے معنی میں ةے اور بعد ازاں حساب کے لئے جمع کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔

نیز درختوں پر پھلوں کا تخمینہ اور اندازہ لگانے کو کہتے ہیں اور چونکہ کبھی کبھی تخمینہ غلط نکل آتا ہے لہٰذا یہ مادہ ” جھوٹ “ کے معنی میں بھی آیاہے ۔

اصولی طور پر بے بنیاد گمان کی پیروی کی یہ خاصیت ہے کہ آخر کار انسان جھوٹ کی وادی میں جاپہنچتا ہے ۔ جنہوں نے بتوں کو خدا کا شریک قرار دیا تھا ان کی بیاد اوہام سے بڑھ کر نہ تھی ۔ وہ اوہام کہ جن کا تصور کرنا ہمارے لئے مشکل ہے کہ کیونکہ ممکن ہے کہ انسان بے روح شکلیں اور مجسمے بنائے اور پھر اپنی بنائی ہوئی چیز کو اپن ارب اور صاحب ِ اختیار سمجھنے لگے ، اپنی تقدیر اس کے سپرد کردے اور اپنی مشکلات کا حل اس سے طلب کرے ۔ کیا یہ چیز جھوٹ اور جھوٹ قبول کرلینے کے سوا کچھ اور کہلاسکتی ہے ۔

اس آیت میں تھوڑا سے غور کرکے اس سے ایک عمومی قانون اخذ کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ جو شخص بے بنیاد گمان کی پیروی کرتا ہے آخر کار جھوٹ تک جا پہنچتا ہے ۔ صداقت اور سچائی یقین کی بنیاد پر استوار ہے اور جھوٹ کی عمارت بے بنیاد وہم و گمان کے سہارے قائم ہے ۔

اس کے بعد بحث کی تکمیل ، راہ خدا شناسی کی نشاندہی اور شرک و بت پرستی سے دوری کے لئے خدائی نعمات کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، یہ پہلو نظام خلقتاور اللہ کی عظمت ، قدرت اور حکمت کی نشاندہی کرتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے کہ : وہ وہ ہے جس نے رات کو تمہارے لئے باعثِ سکون قرار دیا ہے

( هُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ اللَّیْلَ لِتَسْکُنُوا فِیهِ ) ۔اور دن کو روشنی بخش بنا یا ہے( وَالنّهَارَ مُبْصِرًا ) ۔

نور ظلمت کا یہ نظام جسکا ذکر قرآن میں بار ہا آیا ہے ، حیرت انگیز اور پر بار نظام ہے جس میں کچھ عرصہ میں تابش ِ نور سے انسانوں کے صح حیات کو روشن کیا گیا ہے ۔ یہ عرصہ حرکت آفرین ہے اور انسا ن کو جستجو اور عمل پر آمادہ کرتا ہے ۔ دوسرا عرصہ سیاہ پردوں میں لپٹی ہوئی آرام بخش رات کا ہے ۔ اس رات کے ذریعے تھکی ہو ئی روح اور جسم کا کام اور حرکت کے لئے پھر سے تیار ہوتا ہے ۔

جی ہاں اس حساب شدہ نظام میں پر وردگار کی قدرت کی آیات اور نشانیاں ہیں لیکن ان کے لئے جو سننے والے کان رکھتے ہیں اور حقائق کو سنتے ہیں

( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَسْمَعُونَ ) ۔وہ جو سنتے اور ادراک کرتے ہیں اور جو ادراکِ حقیقت کے بعد اسے استعمال میں لاتے ہیں او رکام کرتے ہیں ۔

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ رات آرام و سکون کے لئے ہے :

رات کے بناے کا مقصد آیت میں آرام و سکون قرار دیا گیا ہے یہ ایک مسلم علمی ہے جسے آج کے علم سے درجہ ثبوت تک پہنچا یا ہے کہ تاریکی کے پر دے نہ صرف دن بھر کے کام کاج کے لئے جبری تعطیل ہیں بلکہ انسان اور دوسرے جانداروں کے اعصاب پر ان کا مستقیم اثر ہے اور انھیں اسراحت، نیند اور سکون بخشتے ہیں کس قدر ناداں ہیں وہ لوگ کہ جو رات کو ہوس رانی میں بسر کردیتے ہیں اور دن کو ِخصوصاً نشاط انگیز صبح کو نیند میں گزار دیتے ہیں ۔

اسی بناء پر ایسے لوگوں کے اعضاء ہمیشہ غیر معتدل اور بے آرام رہتے ہیں ۔

۲ ۔ ”( و النهار مبصراً ) “ کا مفہوم :

مادہ ”ابصار“ بینائی کے معنی میں ہے ۔ اس طرح ” و النھار مبصراً“ کا مفہوم یہ ہوگا کہ خدانے ” دن کو بینا قرار دیا ہے “حالانکہ دن بینا کرنے والا ہے نہ کہ خود بینا ہے یہ ایک خوبصورت تشبیہ او رمجاز ہے جو ” توصیف سبب با اوصاف مسبب “ کے قبیل سے ہے ۔ جیسا کہ رات کے بارے میں بی کہا جاتا ہے کہ ” لیل نائم “ یعنی سوئی ہوئی رات “ حالانکہ رات تو نہیں سوتی بلکہ رات سبب ہے لوگوں کے لئے سونے کا۔

۳ ۔کیا آیت ہر طرح کے ظن کی نفی کرتی ہے :

زیر نظر آیات میں ظن اور گمان کی ایک مرتبہ مذمت کی گئی ہے اور ا سے مردود قر ار دیا گیا ہے لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ گفتگو بت پرستوں کے بے ہودہ اور بے بنیاد خیالات کے بارے میں ہے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں ” ظن“ عقلی اعتبار سے سوچے سمجھے گمان کے معنی میں نہیں ہے کہ جو بعض مواقع پر مثلاً شہادت و شہود ، ظاہر ِ الفاظ ، اقرار اور تحریروں میں حجت ہے لہٰذا یہ آیات ” ظن “ کے حجت نہ ہونے پر دلیل نہیں ہوسکتیں ۔

آیات ۶۸،۶۹،۷۰

۶۸ ۔( قَالُوا اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا سُبْحَانَه ُهُوَ الْغَنِیُّ لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ إِنْ عِنْدَکُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَذَا اٴَتَقُولُونَ عَلَی اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) ۔

۶۹ ۔( قُلْ إِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللهِ الْکَذِبَ لاَیُفْلِحُونَ ) ۔

۷۰ ۔( مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ إِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِیقُهُمْ الْعَذَابَ الشَّدِیدَ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ ) ۔

ترجمہ

۶۸ ۔ انھوں نے کہا کہ خدا نے اپنے لئے بیٹا چنا ہے (وہ ہر عیب ، نقص اور احتیاج سے ) منزہ ہے ، وہ بے نیاز ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اس کے لئے ۔ تمہارے پاس اس دعویٰ کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ کیا خدا کی طرف ایسی نسبت دیتے ہو جسے جانتے نہیں ہو ۔ ۔

۶۹ ۔ کہہ دو کہ جو خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں (وہ کبھی بھی ) فلاح نہیں پائیں گے ۔

۷۰ ۔ ( زیادہ سے زیادہ ) انھیں دنیا کا فائدہ ہو گا پھر ان کی باز گشت ہماری طرف ہے ۔ اس کے بعد ان کے لئے عذاب ِ شدید ہے ، ان کے کفر کے بدلے کہ جو ہم انھیں چکھائے گے ۔

تفسیر

ان آیات میں بی اسی طرح مشرکین کے بارے میں بحث جاری ہے یہاں خدا کی ذات ِ مقدس کے بارے میں انکی ایک تہمت بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : انھوں نے کہا کہ خدا نے اپنے لئے ایک بیٹا چنا ہے ( قَالُوا اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا) ۔

یہ بات سب سے پہلے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں کی ۔ پھر زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں نے فرشتوں کے بارے میں کی ، وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں خیال کرتے ہیں اور اسی طرح یہود یوں نے حضرت عزیر کے بارے میں یہ بات کی۔

قرآن ان لوگوں کا جواب دو طریقوں سے دیتا ہے ۔

پہلا یہ کہ خد اہر قسم کے عیب اور نقص سے منزہ ہے اور تمام چیزوں سے بے نیاز ہے( سُبْحَانَه ُهُوَ الْغَنِیُّ ) ۔

یہ اس طرف اشارہ کہ اولاد کی ضرورت یا تو جسمانی قوت کی احتیاج اور مدد کے طور پر ہوتی ہے اور یا روحانی اور ضذباتی ضرورت کے تحت اور چونکہ خدا ہر عیب و نقص اور ہر وجعی کمی سے منزہ ہے اور اس کی ذات پا ک غنی اور بے نیاز ہے لہٰذا ممکن نہیں کہ وہ اپنے لئے بیٹے کا انتخاب کرے ”وہ آسمانوں او رزمین میں موجود تمام تر موجودات کا مالک ہے “( لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ ) ۔

اس صورت میں اس کے لئے بیٹے کا کیا مفہوم وہ رہ جاتا ہے کہ جو اسے سکون بخشے یا اس کی مدد کرے ۔

امر جاذب نظر ہے کہ یہاں ” اتخذ “ ( انتخاب کیا اور اختیار کیا ) استعمال ہو ا۔ یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ ان کا نظر یہ تھا کہ خدا سے بیٹا پیدا نہیں ہو بلکہ وہ کہتے تھے کہ خدا نے ایک موجود کو اپنے فرزند کے طو ر چن لیا ہے جیسے بعض لوگوں کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تو وہ کسی بچہ کسی پر ورش گاہ وغیرہ سے گود لے لیتے ہیں بہر حال یہ کوتاہ نظر جاہل خالق و مخلوق کے موازنہ میں اشتباہ میں پڑ گئے تھے اور انھوں نے خدا کی بے نیاز ذات کو اپنے ضرورت مند اور نیاز مند وجود کی طرح سمجھ لیا تھا ۔

دوسرا جواب جو قرآن انھیں دیتا ہے یہ کہ جو شخص بھی کوئی دعویٰ کرتا ہے اسے اپنے دعویٰ پرکوئی دلیل پیش کرنا چاہتا ہئیے ۔ ” کیا تمہارے پاس اس بات کی کوئی دلیل ہے “۔ نہیں تمہارے پاس اس دعویٰ کی کوئی دلیل نہیں ہے( إِنْ عِنْدَکُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَذَا اٴَتَقُولُونَ عَلَی اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) ۔

یعنی بالفرض اگر تم پہلی دلیل کو قبول نہیں کرتے تو پھر بھی تم اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے کہ تمہاری با ت ایک تہمت ہے او رایسا قول ہے جس کی بنیاد میں کوئی علم نہیں ہے ۔

اگلی آیت میں خد اپر تہمت باندھنے کے منحوس انجام کا تذکرہ ہے ۔ خدا تعالیٰ روئے سخن اپنے پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے کہتا ہے ان کہہ دو: وہ لوگ جو خدا پر افتراء باند ھتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ہ رگز فلاح کا منہ نہیں دیکھیں گے( قُلْ إِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللهِ الْکَذِبَ لاَیُفْلِحُونَ ) ۔

فرض کریں کہ وہ اپنے جھوٹ اور تہمتوں سے چند دن کے لئے دنیا کے مال و منال تک پہنچ بھی جائیں تو یہ صرف اس جہان کا ایک زود گزر مال و متاع ہی ہے ۔ اس کے بعد یہ ہماری طرف پلٹ کر آئیں گے او رہم ان کے کفر کی وجہ سے انھیں عذابِ شدیدکا مزہ چکھائیں گے( مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ إِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِیقُهُمْ الْعَذَابَ الشَّدِیدَ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ ) ۔

در حقیقت اس آیت میں اور اس سے پہلے کی آیت میں خدا کی طرف بیٹے کے انتخاب کی نسبست دینے والے جھوٹوں کے لئے دو قسم کی سزائیں بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ جھوٹ اور افتراء کبھی ان کی فلاح کا سبب نہیں بنے گا اور کبھی انھیں ان کے مقصد تک نہیں پہنچائے گا بلکہ وہ بے راہ ویوں میں سر گرداں رہیں گے اور بد بختی اور شکست انھیں دامن گیر ہو گی ۔ دوسرا یہ کہ فرض کریں کہ وہ ان باتوں سے چند لوگوں کو غفلت میں رکھ لیں اور بت پرستی کے مذہب سے کوئی مقصد حاصل کرلیں تاہم اس مفاد میں دوام و بقاء نہیں ہے اور خدا کا دائمی عذاب ان کے انتظار میں ہے ۔

چند الفاظ کا مفہوم

۱ ۔ ” سلطان “:

یہ لفظ یہاں ” دلیل “ کے معنی میں ہے یہ لفظ ” دلیل “ سے بھی زیادہ پرمعنی اور رسا تر ہے کیونکہ ” راہنما “ کے معنی میں ہے ۔ لیکن ” سلطان “ کا مطلب ہے وہ چیز جو انسان کو اپنے مد مقابل پر مسلط کردے ۔ یہ لفظ بحث ، مجادلہ اور گفتگو کے مواقع سے منا سبت رکھتا ہے او رسر کوبی کرنے والی دلیل کی طرف اشارہ ہے ۔

۲ ۔ ”متاع “۔

اس کامعنی ہے ” وہ چیز جس سے انسان فائدہ اٹھائے “ اس کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اس میں زندگی کے تمام وسائل او رمادی نعمات شامل ہیں ۔ مفردات میں راغب کہاتا ہے : ” کلما ینتفع بہ علی وجہ ما،فھو متاع و متعة“

ہر وہ چیز جس سے انسان فائدہ اٹھائے اسے ”متاع “ یا ” متعہ “ کہتے ہیں ۔

۳ ۔ ” نذیقھم “

اس کا معنی ہے ” ہم انھیں چکھائیں گے“۔ یہ تعبیر جو عذاب الہٰی کے بارے میں استعمال ہوئی ہے اس طرف اشارہ ہے کہ یہ سزا ان تک اس طرح پہنچتی ہے کہ گویا وہ اسے اپنی زبان سے چکھتے ہیں ۔ یہ تعبیر مشاہدہ سے حتی ٰ کہ عذاب کو مس کرنے سے بھی کہیں زیادہ مطلب دیتی ہے ۔