تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25558
ڈاؤنلوڈ: 2462


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25558 / ڈاؤنلوڈ: 2462
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۸۳،۸۴،۸۵،۸۶

۸۳ ۔( فَمَا آمَنَ لِمُوسَی إِلاَّ ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ عَلَی خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ اٴَنْ یَفْتِنَهُمْ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاٴَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنْ الْمُسْرِفِینَ ) ۔

۴ ۸ ۔( وَقَالَ مُوسَی یَاقَوْمِ إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللهِ فَعَلَیْهِ تَوَکَّلُوا إِنْ کُنْتُمْ مُسْلِمِینَ ) ۔

۸۵ ۔( فَقَالُوا عَلَی اللهِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لاَتَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ) ۔

۸۶ ۔( وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنْ الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ ) ۔

ترجمہ

۸۳ ۔ ( شروع میں ) کوئی شخص موسیٰ پر ایمان نہ لا یا اور مگر صرف اس کی قوم کی اولاد میں سے ایک گروہ ۔ ( وہ بھی ) فرعون اور اس کے حواریوں کے خوف سے کہیں وہ ( انھیں دباو ی اگمراہ کن پرپیگنڈہ سے ) ان کے دین سے منحرف نہ کردیں ۔ فرعون زمین میں بالا دستی اور طغیان کے لئے کوشاں تھا اور وہ زیادتی کر نے والوں میں سے تھا ۔

۸۴ ۔ موسیٰ نے کہا : اے میری قوم ! اگر تم ایمان لائے ہو تو اس پر توکل کرواگر اس کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہو۔

۸۵ ۔ انھوں نے کہا ہم صرف خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ پر ور دگار ! ہمیں ظالم گروہ کے زیر اثر قرار نہ دے ۔

۸۶ ۔ اور ہمیں اپنی رحمت سے کافر گروہ (کے ہاتھ )سے نجات دے ۔

طاغوت ِ مصر سے حضرت موسیٰعليه‌السلام کے جہاد کا تیسرا مرحلہ

ان آیات میں فرعون سے حضرت موسیٰعليه‌السلام کے انقلابی مقابلوں میں سے ایک اور واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔

ابتداء میں حضرت موسیٰعليه‌السلام پر ایمان لانے والے کی کیفیت بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : اس واقعہ کے بعد موسیٰ پر ایمان لانے والے صرف ان کی قوم کے فرزند تھے( فَمَا آمَنَ لِمُوسَی إِلاَّ ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ ) ۔

یہ چھوٹا اور مختصر سا گروہ تھا ۔ لفظ ”ذریة “ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی زیادہ تر جوان اورنوجوان تھے ۔ وہ فرعون اور اس کے حواریوں کی طرف ست سخت دباو کا شکار تھے ۔ انھیں ہر وقت یہی خوف رہتا تھا کہ فرعونی حکومت کہیں شدید دباو کے ذریعے کہ جو اہل ایمان پر روارکتھی ہے ، انھیں موسیٰ کا دین ترک کرنے پر مجبور نہ کرے( عَلَی خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ اٴَنْ یَفْتِنَهُمْ ) ۔کیونکہ فرعون ایک ایسا شخص تھا جو زمین پر بالادستی چاہتا تھا( وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔وہ اسراف کرنے والا تجاوز کرنے والا تھا اور کسی حد کو قانونی نہیں سمجھتا تھا( وَإِنَّهُ لَمِنْ الْمُسْرِفِینَ ) ۔

اس بارے میں مفسرین میں اختلاف ہے کہ موسیٰ پر ایمان لانے والی ”ذریہ“ کون سی تھی اور یہ کہ ”مِنْ قومہٖ“ کی ضمیر موسیٰ کی لوٹتی ہے یا فرعون کی طرف ۔

بعض کا خیال ہے کہ یہ فرعون کی قوم اور قبطیوں میں سے چند افراد تھے جیسے مومن آل فرعون، فرعون کی بیوی ، اس کی مشاطہ ۱

اور اس کی کنیز ظاہرا اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے اکثر افراد ایمان لاچکے تھے لہٰذا یہ صورت ” ذریة من قومہ “ سے مناسبت نہیں رکھتی۔ کیونکہ یہ تو ایک چھوٹے سے گروہ کا ذکر ہے ۔

بعض دوسرے مفسرین کا نظر یہ ہے کہ یہ گروہ بنی اسرائیل میں سے تھا اور ” بہ “ کی ضمیر موسیٰ کی طرف لوٹتی ہے کیونکہ اس سے پہلے موسیٰ کا نام آیا ہے لہٰذا ادبی قواعد کے مطابق اس ضمیر کا تعلق موسیٰ ہی سے ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ دوسرا معنی ظاہر آیت سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے نیز والی آیت میں اس کے لئے ایک شاہد ہے جس میں فرمایا گیا ہے ۔( وَقَالَ مُوسَی یَاقَوْمِ )

موسیٰ نے مومنین سے کہا : اے میری قوم یعنی مومنین کو اپنی قوم قرار دیا ہے ۔

ایک ہی اعتراض ہے جو اس تفسیر پر باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل تو تمام حضرت موسیٰ پر ایمان لائے تھے نہ کہ ان کا ایک چھوٹا سا گروہ ایمان لایا تھا ۔ البتہ ایک نکتے کی طرف توجہ کرنے سے یہ اعتراض دور ہو سکتا ہے او روہ یہ کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر انقلاب کی طرف جذب ہونے والا پہلا گروہ نوجوان کا ہوتا ہے ۔ نوجوان زیادہ پاکیزہ دل اور صاف و شفاف افکارکر کھتے ہیں ۔

مزید بر آں ان میں انقلابہ جوش و خروش زیادہ ہوتا ہے ۔ مادی وابستگیاں جو بڑے بوڑھوں کا احتیاط اور مصلحت کوشی کی طرف دعوت دیتی ہیں ان میں نہیں ہوتیں نہ ان کے پاس مال و دولت ہوتا ہے کہ جس کے ضائع ہونے کا انھیں ڈر ہو اور نہ ہی مقام و منصب کہ جس کے خطرے میں پڑجانے پر وہ مضطرب ہوں لہٰذا یہ بات فطری ہے کہ گروہ حضرت موسیٰ کی طرف بہت جلد جذب ہو گیا ، اور ”ذریة“کی تعبیر اس معنی سے بہت زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔

اس کے علاوہ بڑے بوڑھے بھی بعد میں اس گروہ سے ملحق ہو گئے تھے کیونکہ وہ اس وقت کے معاشرے میں کوئی مقام نہیں رکھتے تھے اور ضعیف و ناتواں تھے ۔جیسا کہ ابن عباس سے منقول ہے یہ تعبیر ان کے لئے کوئی بعید نہیں ہے ۔یہ بالکل اس طرح ہے جیسے اپنے تمام دوستوں کو دعوت دیتے ہوئے ہم کہتے ہیں ” آگے چلو جوانو! دعوت ہے “ اگر چہ بڑے بوڑھے ہوں اور اگر اس تعبیر کو ہم بعید سمجھیں تو پہلا احتمال پوری طرح سے باقی ہے ۔

مزید بر آں ’ذریة “ اگر چہ عام طور پر اولاد کے لئے بولا جاتا ہے لیکن اصل لغت کے اعتبار سے جیسا کہ مفردات راغب میں راغب نے کہا ہے ، چھوٹے اور بڑے دونوں کا مفہوم لئے ہوئے ہے ۔

ایک اور نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہئیے یہ ہے کہ لفظ”فتنة “ کہ جو ” ان یتنھم “ میں ہے سے مراد ڈرانے ، دھمکانے اور تکلیف پہنچانے کے ذریعہ منحرف کرنا یا ہر طرح سے پریشانی اور دردِ سر پید اکرنا چاہے وہ دینی حوالے سے ہو یا غیر دینی حدالے سے ۔

بہر حال حضرت موسیٰ نے ان کی فکر اور روح کیی تسکین کے لئے محبت آمیز لہجے میں ان سے کہا: اے میری قوم ! اگت تم لوگ خدا پر ایمان لائے ہو اور اور اپنی گفتار میں اور ایمان و اسلام کے اظہار میں سچے ہو تو تمہیں اس پرتوکل اور بھروسہ کرنا چاہیئے ۔ امواج و طوفانِ بلا سے نہ ڈرو۔ کیونکہ ایمان توکل سے جدانہیں ہے

( وَقَالَ مُوسیٰ یَا قَوْم إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللهِ فَعَلَیْهِ تَوَکَّلُوا إِنْ کُنْتُمْ مُسْلِمِین ) ۔

”توکل “ کا مفہوم ہے کام کسی کے سپرد کرنا اور اسے وکالت کے لئے منتخب کرن۔ ” توکل “ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کو شش کرنا چھوڑ دے ، گوشہ تنہائی میں جابیٹھے او رکہے کہ میرا سہارا خدا ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب انسان کام کے لئے اپنی پوری کوشش کرچکے اور مشکل حل نہ ہو اور راہ سسے رکا وٹیں نہ ہٹیں تو پھر اضطراب اور وحشت کو اپنی طرف نہ آنے دے بلکہ لطف الہٰی پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی ذات پاک اور قدرت ِ بے پایاں سے مدد چاہتے ہوئے مامردی کا مظاہرہ کرے ۔ مسلسل جہاد جاری رکھے یہاں تک کہ اگر اس میں طاقت بھی ہو تو اپنے آپ کو لطفِ خدا سے بے نیاز نہ سمجھے کیونکہ جو طاقت بھی ہے اسکی کی طرف سے ہے ۔

یہ ہے توکل کا مفہوم کہ جو ایمان و اسلام سے جدا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ایک مومن کہ جس کا سر فرمانِ پر وردگار کے سامنے خم ہے وہ اسے ہر چیز پر قادر توانا سمجھتا ہے ۔ ہر مشکل کو اس کے ارادے کے سامنے سہل اورآسان سمجھتا ہے اور اس کے کامیابی کے وعدوں پر اعتقاد رکھتا ہے ۔

ان سچے مومنین نے موسیٰ کی دعوت کو توکل کے ساتھ قبول کیا اور کہا کہ ہم صرف خدا پر توکل کرتے ہیں( فَقَالُوا عَلَی اللهِ تَوَکَّلْنَا ) ۔

اس کے بعد انھوں نے بار گاہ ِقدس سے تقاضا کیا کہ وہ انھیں دشمنوں کے شر، وسوسوں اور دباو سے امان میں رکھے اور عرض کیا: اے پر وردگار ہمیں فتنہ کا ذریعہ اور ظالموں کے زیر اثر قرار نہ دے( رَبَّنَا لاَتَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ) ۔پر وردگار ہمیں اپنی رحمت سے بے ایمان قوم سے نجات دے( وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنْ الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ ) ۔

یہ امر جاذب توجہ ہے کہ پہلی آیت میں فرعون کو مسرفین میں سے قرار دیا گیا ہے ۔ تیسری آیت میں فرعون اور ا س کے حواریوں کو ظالم کہا گیا ہے اور آخری آیت میں انھیں کافر قرار دے دیا گیا ہے ۔ تعبیروں کا یہ فرق شاید اس بناء پر ہو کہ انسان گناہ کے راستے میں پہلے اسراف کرتا ہے ۔ یعنی حدود سے تجاوز کرتا ہے ، پھر ظلم و ستم کی بنیاد رکھتا ہے اور آخر کار معاملہ کفر و انکار پر جا کر ختم ہو جاتا ہے ۔

____________________

۱۔ مشاطہ پرانے زمانے میں اس عورت کو کہتے تھے جو امیر کبیر گھرانوں کی عورتوں کی آرائش و زیبائش کرتی تھی (مترجم ) ۔

آیات ۸۷،۸۸،۸۹

۸۷ ۔( وَاٴَوْحَیْنَا إِلَی مُوسَی وَاٴَخِیهِ اٴَنْ تَبَوَّاٴَا لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوتًا وَاجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ قِبْلَةً وَاٴَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَبَشِّرْ الْمُؤْمِنِین ) ۔

۸۸ ۔( وَقَالَ مُوسَی رَبَّنَا إِنَّکَ آتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاٴَهُ زِینَةً وَاٴَمْوَالًا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوا عَنْ سَبِیلِکَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَی اٴَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَی قُلُوبِهِمْ فَلاَیُؤْمِنُوا حَتَّی یَرَوْا الْعَذَابَ الْاٴَلِیمَ ) ۔

۸۹ ۔( قَالَ قَدْ اٴُجِیبَتْ دَعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیمَا وَلاَتَتَّبِعَانِ سَبِیلَ الَّذِینَ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔

ترجمہ

۸۷ ۔ اور موسیٰ اور اس کے بھائی کو ہم نے وحی کی کہ اپنی قوم کے لئے سر زمین ِمصر میں گھروں کا انتخاب کرو اور اپنے گھروں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے

( اور قریب) رکھو اور نماز قائم کرو او رمومنین کو بشارت دو( کہ آخر کار وہ کامیاب ہو جائیں گے ) ۔

۸۸ ۔ موسیٰ نے کہا : پر وردگار! تونے فرعون اور اس کے اطرافیوں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور ( بھر پور ) اموال دیئیے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ ( تیرے بندوں کو ) تیری راہ سے گمراہ کرتے ہیں ۔ پر وردگار ! ان کے اموال نابود کردے اور ان کے دلوں کو سخت کردے کیونکہ جن تک دردناک عذاب نہ دیکھیں گے ایمان نہ لائیں گے ۔

۸۹ ۔ فرمایا: تم دونوں کی دعا قبول ہو گئی ہے ۔تم استقامت دکھاو اور ان لوگوں کے طور طریقے کی پیروی نہ کروجو نہیں جانتے ۔

چوتھا مرحلہانقلاب کی تیاری

ان آیات میں فرعون کے خلاف بنی اسرائیل کے قیام اور انقلاب کا ایک اور مرحلہ بیان کیا گیا ہے ۔

پہلی بات یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے : ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ سر زمین مصر میں اپنی قوم کے لئے گھروں کا انتخاب کرو( وَاٴَوْحَیْنَا إِلَی مُوسَی وَاٴَخِیهِ اٴَنْ تَبَوَّاٴَا لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوتًا ) ۔ اور خصوصیت کے ساتھ ” ان گھروں کو ایک دوسرے کے قریب اور آمنے سامنے بناو ۔( وَاجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ قِبْلَةً ) ۔ پھر روحانی طور پر اپنی خود سازی اور اصلاح کرو” اور نماز قائم کرو“ ۔ اس طرح سے اپنے نفس کو پاک اور قوی کرو( وَاٴَقِیمُوا الصَّلَاةَ ) ۔

اس لئے کہ خوف اور وحشت کے آثار ان کے دل سے نکل جائیں اور وہ روحانی و انقلابی قوت پالیں ” مومنین کو بشارت دو“ کامیابی اور خدا کے لطف و رحمت کی بشارت( وَبَشِّرْ الْمُؤْمِنِین ) ۔

ان آیات کے مجموعی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانے میں بنی اسرائیل منتشر ، شکست خوردہ ، وابستہ ، طفیلی ، آلودہ اور خوف زدہ گروہ کی شکل میں تھے ، نہ انکے پاس گھر تھے نہ کوئی مرکز تھا ۔ نہ ان کے پاس معنوی اصلاح کا کوئی پر گرام تھا اور نہ ہی ان میں اس قدر شجاعت ، عزم اور حوصلہ تھا جو شکست دینے والے انقلاب کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔ لہٰذا حضر ت موسیٰ علیہ السلام او ران کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو حکم ملا کہ وہ بنی اسرائیل کی مرکزیت کے لئے خصوصاً روحانی حوالے سے ، چند امور پر مشتمل پر وگرام شروع کریں ۔

۱ ۔ مکان کی تعمیر کریں اور اپنے مکانات فرعونیوں سے الگ بنائیں ۔ اس میں متعدد فائدے تھے ۔

ایک یہ کہ سر زمین مصر میں ان کے مکانات ہوں گے تووہ اس کا دفاع زیادہ لگاو سے کریں گے ۔

دوسرا یہ کہ قبطیوں کے گھروں میں طفیلی زندگی گزارنے کی بجاے وہ اپنی ایک مستقل زندگی شروع کرسکیں گے ۔

تیسرا یہ کہ ان کے معاملات اور تدابیر کے راز دشمنوں کے ہاتھ نہیں لگے گے ۔

۲ ۔ اپنے گھر دوسرے کے آمنے سامنے اور قریب قریب بنائیں کیونکہ در اصل ” قبلہ“ حالت ِ تقابل“کے تقابل میں ہے ۔ آج کل لفظ ” قبلہ “ کا جو معنی مشہور ہے وہ اس کا ثانوی معنی ہے ۔ ۱

بنی اسرائیل کی مرکزیت کے لئے یہ ایک موثر کام تھا اس طرح وہ اجتماعی مسائل پر مل کر غور و فکر کرسکتے تھے اور مراسم مذہبی کے حوالے سے جمع ہوکر اپنی آزادی کے لئے ضروری پروگرام بنا سکتے تھے ۔

۳ ۔ عبادت کی طرف متوجہ ہو ں ، خصوصاً نماز کی طرف کہ جو انسان کو بندوں کی بندگی سے جدا کرتی ہے اور اس کا تعلق تمام قدرتوں کے خالق سے قائم کردیتی ہے ۔ اس کے دل اور روح کو گناہ کی آلودگی سے پاک کرتی ہے اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کا احساس زند ہ کرتی ہے اور قدرت ِ پروردگار کا سہارا لے کر انسانی جس میں ایک تازہ روح پھونک دیتی ہے ۔

۴ ۔ ایک رہبر کے طور حضرت موسیٰعليه‌السلام کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی روحوں میں موجود طویل غلامی اور ذلت کے دور کا خوف و حشت نکلا باہر پھینکیں اورحتمی فتح و نصرت و کامیابی اور پر وردگار کے لطف و کرم کی بشارت دے کر مومنین کے ارادے کو مضبوط کریں اور ان میں شہامت و شجاعت کی پر ورش کریں ۔

یہ امر جاذب ِ توجہ ہے کہ بنی اسرائیل حضرت یعقوبعليه‌السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔ فطرتاً ان میں سے ایک گروہ حضرت یو سفعليه‌السلام کی اولاد میں سے ہے اور وہ اور وہ ان کے بھائی سالہا سال تک مصر پرحکومت کرتے رہے ہیں ۔ اس طرح اس سر زمین کی آبادی ا ور تعمیر میں کوشا ں ر ہے ہیں لیکن خدا کی نا فر مانی ،غفلت اور داخلی اختلاف کی وجہ سے انکی ز ند گی اس وقت بار کیفیت تک پہنچ گئی تھی ضروری تھا کہ اس مصیبت زدہ فر سود ہ معاشرے کی تعمیرنو ہو ۔اس کے منفی پہلوؤں کی اصلاح ہو اور ان کی بجائے ان میں تعمیری اور اصلاحی،رو حانی خصائل پیدا ہوں تا کہ ان کی عظمت -رفتہ پلٹ آئے ۔

اس کے بعد فر عون اور فر عو نیوں کی سر کشی کے ایک سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت موسیٰ کی زبانی فرمایا گیا ہے: پر وردگارا ! تونے فرعون اوراس کے حواریوں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور مال بخشا ہے( وَقَالَ مُوسَی رَبَّنَا إِنَّکَ آتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاٴَهُ زِینَةً وَاٴَمْوَالًا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ) ۔ لیکن اس ثروت و زینت کا انجام یہ ہوا کہ وہ تیرے بندوں کو تیری راہ سے منحرف اور گمراہ کرتے ہیں( رَبَّنَا لِیُضِلُّوا عَنْ سَبِیلِکَ ) ۔

”لیضلوا“ میں لام اصطلاح کے مطابق لامِ عاقبت ہے یعنی اشراف کی دولت مند تحمل پرست قوم لوگوں کو راہِ خدا سے گمراہ کرنے کی خواہ مخواہ کوشش کرے گی ۔ راس سے آخر کار اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا ۔ کیونکہ انبیاء کی دعوت اور خدائی پروگرام لوگوں کی بیدار ، ہوشیار ، متحد اور مجتمع کردیں گے ان حالات میں غارتگروں اور لٹیروں کے لئے حلقہ تنگ ہو جائے گا اور ان کے لئے زندگی سیاہ ہو جائے گی ، وہ ردّ عمل کا مظاہرہ کریں گے اور انبیاء کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں گے ۔

اس کے بعد حضرت موسیٰ در گاہ الہٰی میں تقاضا کرتے ہوئے کہتے ہیں : پروردگار! ان کے اموال کو محو اور بے اثر کردے تاکہ وہ اس سے بہرہ ور نہ ہو سکیں( رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَی اٴَمْوَالِهِمْ ) ۔

لغت میں ”طمس“ کسی چیز کو محو اور بے اثر کرنے کے معنی میں ہے ۔

یہ بات جاذب نظرہے کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ اس نفرین اور بد د عا کے بعد فرعونیوں کا مال پتھر اور راکھ میں تبدیل ہو گیا ۔ شاید یہ اس امر اشارہ ہو کہ وہ اس طرح سے اقتصادی بحران کا شکار ہ وئے کہ ان کی ثروت بے وقعت ہو گئی اور راکھ کی طرح بے قیمت ہو گئی ۔

حضرت موسیٰ مزید عرض کرتے ہیں : پر وردگار! اس کے علاوہ ان سے غور و فکرکی ، سوچنے کی قدرت بھی لے لے( وَاشْدُدْ عَلَی قُلُوبِهِمْ ) ۔کیونکہ یہ دو سرمائے گنواکر وہ زوال اور تباہی کے قریب پہنچ جائیں گے ۔ اس طرح انقلاب کی طرف اور ان پر آخری ضرب لگانے کے لئے راستہ کھل جائے گا ۔ خدا وندا ! یہ جو میں فرعونیوں کے بارے میں ایسی خواہش رکھتا ہوں تو یہ جذبہ انتقال اور کینے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس بناء پر ہے کہ اب ان میں ایمان کے لئے کسی قسم کی کوئی آمادگی نہیں ہے ۔ جب تک تیرا دردناک عذاب نہ پہنچ جائے وہ ایمان نہیں لائیں گے( فَلاَیُؤْمِنُوا حَتَّی یَرَوْا الْعَذَابَ الْاٴَلِیمَ ) ۔

البتہ واضح ہے کہ عذاب کو دیکھ کر ایمان لانا ان کے لئے فائدہ مند نہیں ہوگا جیسا کہ عنقریب آئے گا ۔

خدا نے حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی سے کہا کہ اب جبکہ تم بنی اسرائیل کی تربیت اور اصلاح کے لئے تیار ہو گئے ہو ” تمہارے دشمنوں کے بارے میں تمہاری دعا قبول کوئی( قَالَ قَدْ اٴُجِیبَتْ دَعْوَتُکُمَا ) ۔ پس مضبوطی سے اپنی راہ پر کھڑے ہوجاو اور استقامت و پا مردی دکھاو ، کثرت ِ مشکلات سے نہ ڈرو اور اپنے کام کے بارے میں حتمی فیصلہ کرو( فَاسْتَقِیمَا ) ۔اور نادان اور بے خبر افراد کی تجا ویز کے سامنے ہر گز سر تسلیم خم نہ کرو اور جالہوں کے راستے پر نی چلو بلکہ مکمل آگاہی کے ساتھ اپنے انقلابی پر گرام کو جاری رکھو( وَلاَتَتَّبِعَانِ سَبِیلَ الَّذِینَ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔

____________________

۱۔ البتہ بعض مفسرین نے مندرجہ بالا آیت میں ” قبلہ “ کو آمنے سامنے کے معنی میں نہیں لیا بلکہ اسی قبلہ نماز کے معنی میں لیا ہے اور ”و اقیموا الصلوٰة “ کے جملہ کو اس کا قرینہ سمجھا ہے لیکن پہلا اس لفظ کے اصلی لغوی معنی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ علاوہ ازیں دونوں معانی مراد لینے میں بھی کوئی اشکال نہیں اس کی بہت سی نظیریں موجود ہیں ۔

آیات ۹۰،۹۱،۹۲،۹۳

۹۰ ۔( وَجَاوَزْنَا بِبَنِی إِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فَاٴَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْیًا وَعَدْوًا حَتَّی إِذَا اٴَدْرَکَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ اٴَنَّهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ الَّذِی آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِیلَ وَاٴَنَا مِنْ الْمُسْلِمِینَ ) ۔

۹۱ ۔( اٴَالْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنْ الْمُفْسِدِینَ ) ۔

۹۲ ۔( فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً وَإِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ عَنْ آیَاتِنَا لَغَافِلُونَ ) ۔

۹۳ ۔( وَلَقَدْ بَوَّاٴْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ مُبَوَّاٴَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنْ الطَّیِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّی جَاءَ هُم الْعِلْمُ إِنَّ رَبَّکَ یَقْضِی بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا کَانُوا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ) ۔

ترجمہ

۹۰ ۔ ہم نے بنی اسرائیل کو ( نیل کے عظیم ) دریا سے گز را اور فرعون اور اس کا لشکر ظلم و تجاوز کرتے ہوئے ان کے پیچھے گیا۔ جب وہ غرقاب ہونے لگا تو اس نے کہا کہ میں ایمان لایا کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمنا لائے ہیں اور میں مسلمین میں سے ہوں ۔

۹۱ ۔ ( لیکن اسے کہا گیا )اب ؟ حالانکہ پہلے تونے نافرمانی کی اور تومفسدین میں سے تھا۔

۹۲ ۔ لیکن آج ہم تیرے بدن کو ( پانی سے ) بچالیں گے تاکہ تو آنے والوں کے لئے عبرت بن جائے اور بہت سے لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں ۔

۹۳ ۔ ہم نے بنی اسرائیل کو صدق ( اور سچائی ) کی منزل میں جگہ دی اور انھیں پاکیزہ رزق میں سے عطا کیا ( لیکن وہ نزاع و اختلاف میں پڑ گئے) اور انھوں نے اختلاف نہ کیا مگر اس کے بعد کہ علم و آگہی حاصل کرچکے تھے ۔ تیرا پر وردگار قیامت کے روز اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس کے بارے میں وہ اختلاف کرتے تھے ۔

ظالموں سے مقابلے کا آخری مرحلہ

ان آیات میں فر عونیوں سے بنی اسرائیل کے مقابلے کے آخری مرحلے کی منظر کشی کی گئی ہے ۔ فرعونیوں کے انجام کی مختصر لیکن دقیق او رواضح عبارتوں کے ذریعے تصویر پیش کی گئی ہے اور ان میں قرآن نے اپنی روش کے مطابق اضافی مطالب ترک کردئےے ہیں جنہیں پہلے اور بعد کے جملوں سے سمجھا جا سکتا ہے ۔

پہلے ارشادہوتا ہے : جب کہ بنی اسرائیل دباو میں تھے اور فرعونی ان کا تعاقب کررہے تھے ہم نے انھیں دریا پا ر کروادیا( وَجَاوَزْنَا بِبَنِی إِسْرَائِیلَ الْبَحْر ) ۔دریائے نیل اتنا بڑا تھا کہ اس کے لئے لفظ” بحر“ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس کا معنی ”سمندر“ ہے ۔

فرعون اور اس کا لشکر بنی اسرائیل کی سر کوبی کے لئے اور ان پر ظلم و تجاوز کرتے ہوئے ان کے تعاقب میں آیا لیکن جلد ہی وہ سب کے سب نیل کی موجوں میں غرق ہو گئے( فَاٴَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْیًا وَعَدْوًا ) ۔

”بغی “ کامعنی ہے ”ظلم و ستم “اور ”عدو“ کا مطلب ہے ”تجاوز“ یعنی انھوں نے ظلم اور تجاوز کرتے ہوئے بنی اسرائیل کاتعاقب کیا۔

”لفظ “فاتبعھم “نشاندہی کرتا ہے کہ فرعون اور اس کے لشکر نے اپنے اختیار اور ارادے سے بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔ بعض روایات بھی اس معنی کی تاکید کرتی ہیں ۔ بعض دوسری روایات اس سے زیادہ مناسبت رکھتیں بہر حال جوکچھ ظاہر آیت سے معلوم ہوتا ہے وہی ہمارے لئے مدرک ہے ۔ باقی رہا یہ کہ بنی اسرائیل دریا سے کیسے گزرے اور اس موقع پ رکون سا معجزہ وقوع پذیر ہوا اس کی تفصیل انشاء اللہ سورہ شعراء کی آیہ ۶۳ کے ذیل میں آئے گی۔

بہرکیف یہ معاملہ چل رہا تھا ” یہاں تک کہ فرعون غرقاب ہو نے لگا اور وہ عظیم دریائے نیل کی موجوں میں تنکے کی طرح غوطے کھانے لگا تو اس وقت غرور و تکبر اور جہالت و بے خبری کے پردے اس کی آنکھوں سے ہٹ گئے اور فطری نور ِ توحید چمکنے لگا ۔ وہ پکاراٹھا :” میں ایمان لئے آیا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں “( حَتَّی إِذَا اٴَدْرَکَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ اٴَنَّهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ الَّذِی آمَنَتْ بِهِ بَنُواسْرَائِیْل ) ۔ کہنے لگا کہ نہ صرف میں اپنے دل سے ایمان لایا ہوں بلکہ عملی طور پر بھی ایسے توانا پر وردگار کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں( وَاٴَنَا مِنْ الْمُسْلِمِینَ ) ۔

در حقیقت جبحضرت موسیٰعليه‌السلام کی پیشین گوئیاں یکے بعددیگرے وقوع پذیر ہوئیں اور فرعون اس عظیم پیغمبر کی گفتگو کی صداقت سے آگاہ ہوا اور اس کی قدرت نمائی کا مشاہدہ کیا تو اس نے مجبوراً اظہار ایمان کیا، اسے امید تھی کہ جیسے ” بنی اسرائیل کے خدا “ نے انھیں کوہ پیکر موجوں سے نجات بخشی ہے اسے بھی نجات دے گا ۔ لہٰذا وہ کہنے لگا میں اسی بنی اسرائیل کے خدا پر ایمان لایاہوں ۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسا ایمان جو نزول بلا اور موت کے چنگل میں گرفتار ہونے کے وقت ظاہر کیا جائے در حقیقت ایک قسم کا اضطراری ایمان ہے جس کا اظہار سب مجرم اور گنہ گار کرتے ہیں ۔ ایسے ایمان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی او رنہ یہ حسنِ نیت اور صدق گفتار کی دلیل ہوسکتا ہے ۔

اسی بناء پر خدا تعالیٰ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے : اب ایمان لایا ہے ؟ حالانکہ اس سے پہلے تونا فرمانی او رطغیان کرنے والوں ، مفسدین فی الارض اور تباہ کاروں کی صف میں موجود تھا( اٴَالْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنْ الْمُفْسِدِینَ ) ۔

پہلے بھی ہم نے سورہ نساء کی آیہ ۱۸ میں پڑھا ہے ۔

( و لیست التوبة للذین یعملون السیئات حتیٰ اذا حضر احدهم الموت قال انی تبت الاٰن ) ۔

ان کی کوئی توبہ نہیں جو برے کام کرتے ہیں اور جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچے تو کہنے لگے کہ اب میری توبہ ہے ۔

اسی بناء پر بہت مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ اگر مصیبت کا وقت ٹل جائے اور وہ موت کے چنگل سے نجات پالیں تو دوبارہ پہلے سے کاموں کی طرف پلٹ جاتے ہیں ۔

اس تعبیر کی نظیر کہ جو ہم نے سطور بالا میں پڑھی ہے عرب و عجم کے ادباء کے کلام اور گفتگو میں بھی آئی ہے ، مثلا:

اتت وحیاض الموت بینی و بینها

وجادت بوصل حین لاینفع الوصل

وہ مری طرف آئی جب کہ میرے اور اس کے درمیان موت موجزن تھی وہ آمادہ وصال تھی جب کہ وصال کا کوئی فائدہ نہ تھا ۔

لیکن آج ہم تیرے بدن کی موجوں سے بچا لیں گے تاککہ تونے آنے والوں کے لئے درس عبرت ہو، بر سر اقتدار مستکبرین کے لئے ، تمام ظالموں اور مفسدوں کے لئے اور مستضعف گروہوں کےلئے بھی( فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً ) ۔

یہ کہ ” بدن“ سے مراد یہاں کیا ہے اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے ۔ ان میں سے اکثر کا نظریہ ہے کہ اس سے مراد فرعون کا بے جان جسم ہے کیونکہ اس ماحول کے لوگوں کے ذہن میں فرعون کی اس قدر عظمت تھی کہ اگر اس کے بدن کوپانی سے باہر نہ اچھالا جاتا تو بہت سے لوگ یقین ہی نہ کرتے کہ اس کا غرق ہونا بھی ممکن ہے اور ہو سکتا تھا کہ اس ماجرے کے بعد فرعون کی زندگی کے بارے میں افسانے تراش لیے جاتے ۔

یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ بعض نے ” ننجیک “ سے اس طرح استفادہ کیا ہے کہ خدا نے حکم دیا کہ موجیں اس کے بدن کو ساحل کی ایک اونچی جگہ پھینک دیں کیونکہ ”نجوہ“ کا مادہ مرتفع اور بلند جگہ کے معنی میں ہے ۔

دوسرا نکتہ جو آیت میں نظر آتا ہے یہ ہے کہ ” فالیوم ننجیک “ کا آغاز فاء تفریع کے ساتھ ہوا ہے ممکن ہے یہ اس طرف اشارہ ہو کہ نامیدی کے عالم میں اور موت کے چنگل میں گرفتاری کے وقت فرعون کے بے روح ایمان نے جو جسم بے جان کی طرح تھا یہ اثر کیا کہ خدا نے فرعون کے بے جان جس کو پانی سے نجات دی تاکہ وہ در کی مچھلیوں کی غذا نہ بنے اور آنے والے لوگوں کے لئے عبرت کا باعث بھی ہو۔

اب بھی مصر اور بر طانیہ کے عجائب گھروں میں فرعون کے مومیا ئے ہوئے بدن موجود ہیں ۔ کیا ان میں حضرت موسیٰعليه‌السلام کے ہم عصر فرعون کا بدن بھی موجود ہے کہ جسے بعد میں حفاظت کے لئے مومیا لیا گیا ہو یا نہیں ۔ اس سلسلے میں کوئی صحیح دلیل ہمارے پاس نہیں ہے لیکن ”لمن خلفک “ کی تعبیر ہو سکتا ہے اس احتمال کو تقویت دے کہ اس فرعون کا بدن بھی ان میں ہوتا کہ آنے والوں کےلئے باعث عبرت ہو کیونکہ آیت کی تعبیر مطلب ہے اور اس میں تمام آیات ، نشانیوں اور عبرت انگیزدرسو ں کے ہوتے ہوئے کہ جن سے تاریخ انسانی بھری پڑی ہے بہت سے لوگ ہماری آیات او رنشانیوں سے غافل ہیں( وَإِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ عَنْ آیَاتِنَا لَغَافِلُونَ ) ۔

زیر بحث آخری آیت میں بنی اسرائیل کی آخری کامیابی اور فرعونیوں کے چنگل سے نجات پانے کے بعد ان کی مقدس سر زمینوں کی طرف واپسی کو بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ہم نے بنی اسرائیل کو صدق اور سچائی کے مقام پر جگہ دی( وَلَقَدْ بَوَّاٴْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ مُبَوَّاٴَ صِدْق ) ۔

”مبوء صدق“ ( سچی منزل ) ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ خدا نے بنی اسرائیل سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کردیا اور انھیں اس سر زمین میں پہنچادیا جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ ” صدق“ اس سر زمین کی پاکی اور نیکی کی طرف اشارہ ہو۔ اس طرح پھر یہ بات شام و فلسطین کی سر زمین سے مناسبت رکھتی ہے جو انبیاء خدا کی جائے سکونت ہے ۔

ایک گروہ نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد سر زمین ِ مر ہے کیونکہ قرآن جیسے سورہ دخان میں کہتا ہے :

کم ترکوا من جنّات وعیون وزروع ومقام کریم و نعمة کانوا فیها فاکهین کذٰلک و اورثنا ها قوماً اٰخرین ۔

فرعونیوں کی نابودی کے بعد باغ ،چشمے، زمینیں ، محلات او ران کی جو نعمتیں رہ گئی تھیں ہم نے دوسرے گروہ ( یعنی بنی اسرائیل کو دے دیں ( دخان ۲۵ ۔ ۲۸)

یہی مضمون سورہ شعراء کی آیہ ۵۷ سے ۵۹ تک آیا ہے اور اس کے آخر میں ہے :( و اورثنا ها بنی اسرائیل ) ۔

ہم نے یہ باغ ،۔ چشمے، خزانے اور محل بنی اسرائیل کو ذمے دئیے ۔

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل سر زمین کی طرف ہجرت سے پہلے کچھ مدت مصرمیں بھی رہے اور اس زر خیز سر زمین کی بر کات سے بھی بہر مند ہوئے ہیں ۔ البتہ کو ئی مانع نہیں کہ سر زمین مصر، شام اور فلسطین سب مراد ہوں ۔

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : ہم نے انھیں پاکیزہ رزق سے بہرہ مندکیا( وَرَزَقْنَاهُمْ مِنْ الطَّیِّبَاتِ ) ۔ لیکن انھوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور ایک دوسرے سے اختلاف اور نزاع میں پڑ گئے ۔ وہ بھی لاعلمی کی وجہ سے نہیں بلکہ جانتے بوجھتے ہوئے اور حضرت موسیٰ کے ان معجزات اور ان کی صداقت کے دلائل کا مشاہدہ کرنے باوجود( فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّی جَاءَ هُم الْعِلْمُ ) ۔لیکن ” تیرا پر وردگار آخر کار روز قیامت ان میں اس چیز کے بارے میں فیصلہ کرے گا “ اور اگر آج وہ اختلاف کی سزا نہ پائیں توکل اس کا مزہ چکھیں گے ۔( اِنَّ رَبَّکَ یَقْضِی بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا کَانُوا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ) ۔

مندر جہ بالاآیت کے بارے میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اختلاف سے مراد پیغمبر اسلام کے ہم عصر یہودیوں کا اختلاف ہے کہ جو آنحضرت کی دعوت قبول کرنے کے بارے میں ان میں موجود تھا یعنی اگر چہ انھوں نے اپنی آسمانی کتب کی نشانیوں کے مطابق آپ کی صداقت جان لی تھی پھر بھی اختلاف کیا تھوڑے سے لوگ ایمان لائے اور زیادہ تر نے آپ کی دعوت قبول کرنے سے رو گر دانی کی اور خدا قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا ۔

یہ تھا بنی اسرائیل کی عبرت انگیز سر گزشت کا ایک حصہ جو اس سورہ کی کئی آیات میں بیان ہوا ہے ان کی حالت آج مسلمانوں سے کس قدر مشابہت رکھتی ہے ۔ خد اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کا کامیابیاں عطا کرتا ہے او ران کے طاقتور دشمن کو معجزانہ طور پر شکست دیتا ہے اور اس مستضعف اور پس ماندہ قوم کو اپنے فضل و رحمت سے فتح دیتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کامیابی کو دین اسلام کی عالمگیر فتح کے حصول کا ذریعہ بنالیتے ہیں اس طرح ان کی ساری کامیابیاں خطرے میں پڑجاتی ہیں ۔ خدا تعالیٰ ہمیں اس کفرانِ نعمت سے نجات بخشے ۔