تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25635
ڈاؤنلوڈ: 2485


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25635 / ڈاؤنلوڈ: 2485
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۱۰۴،۱۰۵،۱۰۶،۱۰۷

۱۰۴ ۔( قُلْ یَااٴَیّهَا النَّاسُ إِنْ کُنْتُمْ فِی شَکٍّ مِنْ دِینِی فَلاَاٴَعْبُدُ الَّذِینَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ وَلَکِنْ اٴَعْبُدُ اللهَ الَّذِی یَتَوَفَّاکُمْ وَاٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ) ۔

۱۰۵ ۔( وَاٴَنْ اٴَقِمْ وَجْهَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا وَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُشْرِکِینَ ) ۔

۱۰۶ ۔( وَلاَتَدْعُ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَنْفَعُکَ وَلاَیَضُرُّکَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِنْ الظَّالِمِینَ ) ۔

۱۰۷ ۔( وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللهُ بِضُرٍّ فَلاَکَاشِفَ لَهُ إِلاّهُوَ وَإِنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَرَادَّ لِفَضْلِهِ یُصِیبُ بِهِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ

) تر جمہ

۱۰۴ ۔ کہہ دو !اے لوگو! اگر میرے دین اور عقیدے کے بارے میں تمہیں شک ہے تو میں ان کی پرستش نہیں کرتا کہ خدا کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو، میں صرف خدا کی عبادت کرتا ہوں کہ جو تمہیں مارے گا اور مجھے حکم دیا گیا اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مومنین میں سے ہوں ۔

۱۰۵ ۔ اور ( مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ) اپنا رخم اس د ین کے طرف کر کہ جو ہر قسم کے شرک سے خالی ہے اور مشرکین میں سے نہ ہو ۔

۱۰۶ ۔ اور سوائے خدا کے کسی چیز کو نہ پیکار کہ جو نہ نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان ۔ اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں سے ہوجاو گے ۔

۱۰۷ ۔ اور اگر خدا( امتحان کے لئے یا گناہ کی سزا کے طور پر ) تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے علاوہ کوئی اسے بر طرف نہیں کرسکتا اور اگر وہ تیرے لئے بھلائی کا رادہ کرے تو کوئی بھی اس کے فضل کو نہیں روک سکتا اپنے بندوں میں سے جسے چاہے نوازتا ہے اور وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والاہے ۔

مشرکین کے بارے میں حتمی فیصلہ

یہ آیات او ربعد کی چند آیات سب کی سب توحید سے مربوط شرک کے خلاف جنگ اور حق کی طرف دعوت دینے کے بارے میں ہیں ۔ یہ آیات اس سورہ کی آخری آیات میں سے ہیں اور در حقیقت یہ اس سورہ کی توحیدی مباحث کی فہرست یا خلاصہ ہیں اور بت پرستی کے خلاف جنگ کے لئے تاکید ہیں ، جس کا ذکراس سورہ میں بار ہا آیا ہے ۔

آیات کا لب ولہجہ نشاندہی کرتا ہے کہ مشرکین بعض اوقات اس وہم میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ ہو سکتا ہے کہ پیغمبر اپنے عقائد میں بتوں کے بارے میں نرمی سے کام لیں ، کسی طرح سے انھیں قبول کرنے کے قائل ہو جائیں اور خدا کے عقیدہ کے ساتھ ساتھ کسی طرح سے انھیں بھی تسلیم کرلیں ۔ قرآن اس قدر حتمی اور قطعی فیصلے کے ساتھ کہ جتنا فرض کیا جا سکتا ہے اس بنیاد توہم کو ختم کرتا ہے اور ان کی فکر کو ہمیشہ کے لئے راحت پہنچا تا ہے کہ بتوں کے بارے میں کسی قسم کی صلح اور نرمی کا کوئی معنی نہیں ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے ۔ صرف اللہ ، نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ ۔

پہلے پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو مخاطب کرکے : ” کہہ دو ! اے لوگو! تم میرے عقیدے کے بارے میں کوئی شک و تردد رکھتے ہو تو آگاہ رہو کہ میں ان کی کبھی عبادت قبول نہیں کروں گا جن کی خدا نے علاوہ تم عبادت کرتے ہو( قُلْ یَااٴَیّهَا النَّاسُ إِنْ کُنْتُمْ فِی شَکٍّ مِنْ دِینِی فَلاَاٴَعْبُدُ الَّذِینَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ ) ۔

صرف ان کے معبودوں کی نفی پر قناعت نہیں کی گئی بلکہ مزید تاکید کے لئے ہر قسم کی عبادت خد اکے لئے ثابت کرتے ہوئے بات جاری ہے : لیکن میں ایسے خدا کی عبادت کرتا ہوں کہ جو تمہیں موت دے گا( وَلَکِنْ اٴَعْبُدُ اللهَ الَّذِی یَتَوَفَّاکُمْ ) ۔

پھر تاکید مزید ہے : یہ صرف میری چاہت نہیں ہے بلکہ ” یہ خدا کا فرمان ہے جو اس نے مجھے دیا ہے کہ میں اللہ پر ایمان لانے والوں میں سے رہوں “( وَاٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ) ۔

یہ جو خدا کی صفات میں سے صرف قبض روح او رمارنے کا ذکر ہوا ہے تو یہ یا تو اس بناء پر ہے کہ انسان جس چیز پر چاہے شک کرے لیکن وہ موت پر شک نہیں کرسکتا او ریا اس وجہ سے ہے کہ انھیں سزا اور ہلاکت خیز عذاب کی طرف متوجہ کیاجائے کہ جس کی طرف گزشتہ آیات میں اشارہ ہوا ہے ۔ اس طرح سے پھر یہ کنایةً خدا کے غضب کی ایک دھمکی ہے ۔

شرک و بت پرستی کی نفی کے بارے میں اپنا عقیدہ قطعی طور پر بیان کرنے کے بعد اب اس کے لئے دو دلیلیں پیش کی گئی ہیں ایک دلیل فطرت کے حوالے سے ہے اور دوسری عقل و خرد کے حوالے سے ۔

”کہہ دو : مجھےے حکم دیا گیاہے کہ اپنا رخ مستقیم اور سیدھے دین کی طرف رکھو کہ جو ہر لحاظ سے خالص اور پاک ہو “( وَاٴَنْ اٴَقِمْ وَجْهَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا ) ۔

یہاں بھی صرف اثباتی پہلو پر قناعت نہیں کی گئی بلکہ تاکید کے لئے نفی کا پہلو بھی بیان کیا گیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : اور ہر گز مشرکین میں سے نہ ہونا( وَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُشْرِکِینَ ) ۔

جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے ” حنیف“ اس شخص کو کہتے ہیں جو انحراف اور ٹیڑھے پن سے راستی ، استقامت اور سیدھے پن کی طرف جھکے یا دوسرے لفظوں میں انحراف اور ٹیڑھے دینوں اور طور طریقوں سے آنکھیں بند کرلے اور خدا کے سیدھے اور مستقیم دین کی طرف متوجہ ہو وہی دین جو فطرت کے مطابق ہے اور فطرت سے اسی مطابقت کی وجہ سے صاف ستھرا او رمستقیم ہے ، اس بناء پر تو حید کے فطری ہونے کی طرف اشارہ اس میں پنہاں ہے کیونکہ انحراف وہ چیز ہے جو فطرت کے خلاف ہو ( غور کیجئے گا ) ۔

فطرت کے راستے شرک کے بطلان کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ایک واضح عقلی دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکم دیا گیا ہے کہ ” خدا کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت نہ کرجو نہ فائدہ پہنچاسکتی ہیں اور نہ نقصان ۔ کیونکہ اگر تونے ایسا کام کیا تو ظالموں میں سے ہو جائے گا “ اپنے اوپر ظلم کرے گا اور ا س معاشرے پر بھی جس سے تیرا تعلق ہے ۔( وَلاَتَدْعُ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَنْفَعُکَ وَلاَیَضُرُّکَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِنْ الظَّالِمِینَ ) ۔

کون سی عقل اجازت دیتی ہے کہ انسان ایسی چیزوں او رموجودات کی عبادت کرے کہ جو کسی قسم کا فائدہ اور نقصان نہیں پہنچا سکتیں اور انسانی تقدیر میں جن کا تھوڑا سا بھی اثر نہیں ہے ۔

یہاں بھی صرف نفی کے پہلو پر بس نہیں کیا گئی بلکہ مثبت پہلو کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے : اگر تمہیں خدا کی طرف سے ناراحتی اور نقصان پہنچے ( چاہے سزا کے طور پر ) ، اس کے علاوہ کوئی بھی اسے بر طرف نہیں کرسکتا( وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللهُ بِضُرٍّ فَلاَکَاشِفَ لَهُ إِلاّهُوَ ) ۔اسی طرح ” اگر خدا چاہے کہ تمجے بھلائی پہنچے تو کوئی بھی اس کے فضل و رحمت کوروک نہیں سکتا “( وَإِنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَرَادَّ لِفَضْلِهِ ) ۔

” وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے ( اور اہل سمجھے) خیر اور نیکی تک پہچاتا ہے( یُصِیبُ بِهِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ) ۔کیونکہ اس کی بخشش اور رحمت سب پر محیط ہے اور وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والاہے( وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ) ۔

آیات ۱۰۸،۱۰۹

۱۰۸ ۔( قُلْ یَااٴَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَائَکُمْ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ اهْتَدَی فَإِنَّمَا یَهْتَدِی لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا وَمَا اٴَنَا عَلَیْکُمْ بِوَکِیلٍ ) ۔

۱۰۹ ۔( وَاتَّبِعْ مَا یُوحَی إِلَیْکَ وَاصْبِرْ حَتَّی یَحْکُمَ اللهُ وَهُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ ) ۔

ترجمہ

۱۰۸ ۔ کہہ دو: اے لوگو! تمہارے پر وردگار کی طرف سے حق تمہاری جانب آیا ہے ( اس کے زیر سایہ) ہدایت یافتہ اپنے لئے ہدایت پا تا ہے اور جو شخص گمراہ ہو جائے تو وہ اپنے نقصان میں گمراہ ہوا ہے او رمیں تم پر ( مجبور کرنے کے لئے ) مامور نہیں ہوں ۔

۱۰۹ ۔ اور جو کچھ تم پروحی ہوتی ہے اس کی پیروی کر اور صبر کر ( اور استقامت دکھا ) تاکہ خدا ( کامیابی کا ) حکم صادر کرے اور وہ بہترین حکم کرنے والا ہے ۔

آخری بات

ان دو آیات میں سے ایک تو تمام لوگوں کے لئے پند و نصیحت ہے اور دوسری پیغمبر اکرم کے لئے مخصوص ہے یہ آیات ان احکام کی تکمیل کرتی ہیں جو اس پوری سورت میں بیان ہوئے اور یہییں پر سورہ یونس اختتام کو پہنچتی ہے ۔

پہلے ایک عمومی حکم کے طور پر فرمایا گیا ہے : تمام لوگوں سے کہہ دو کہ تمہارے پر وردگار کی جانب سے حق تمہاری جانب آیا ہے ۔ یہ تعلیمات ، یہ آسمانی کتاب ، یہ پرگرام اور یہ پیغمبر سب حق ہیں اور ان کے حق ہونے کی نشانیاں واضح ہیں( قُلْ یَااٴَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَائَکُمْ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُم ) ۔اور اس حقیقت کی طرف توجہ کرتے ہوئے ” جو شخص اس حق کے زیر سایہ ہدایت حاصل کرے اس نے اپنے فائدے کی طرف ہدایت پائی ہے اور جو شخص اس کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرتے ہوئے منتخب کرے اس نے اپنے نقصان میں قدم اٹھایا ہے( فَمَنْ اهْتَدَی فَإِنَّمَا یَهْتَدِی لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَاٍ ) ۔اور میں تمہارا مامور ، وکیل اور نگہبان نہیں ہوں( وَمَا اٴَنَا عَلَیْکُمْ بِوَکِیل ) ۔

یعنی یہ میری ذمہ داری نہیں ہے کہ تمہیں حق قبول کرنے پر مجبور کروں کیونکہ حق قبول کرنے کے لئے مجبور کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی اگر تم نے حق قبول نہ کیا تو تمہیں خدائی عذاب سے محفوظ رکھ سکتا ہو ں بلکہ میری ذمہ داری تو دعوت دینا ، تبلیغ کرنا، رشد و ہدایت کرنااور رہبری کرنا ہے او ربا قی امور خود تمہارے ذمہ ہیں کہ تم اپنے اختیار سے اپنی راہ منتخب کرو۔

یہ آیت دوبارہ مسئلہ اختیار اور ارادے کی آزادی کا ذکر کرنے کے علاوہ اس امر پر تاکید کرتی ہے کہ حق کو قبول کرنا پہلے مرحلے میں خود انسان کے لئے فائدے میں ہے جیسا کہ اس کی مخالفت کرنا بھی خود اسی کے کے نقصان میں ہے ۔

در حقیقت خدائی ہبروں کی تعلیمات اور آسمانی کتب انسانوں کی تربیت ، تکامل اور ارتقاء کی کلاسیں ہیں نہ ان کی موافقت کرنا عظمت ِ الہٰی میں اضافے کا باعث ہے او رنہ ہی ان کی مخالفت سے اس کے جلال میں کوئی کمی آتی ہے ۔

اس کے بعد پیغمبرکی ذمہ داری کا تعین دو جملوں میں کیا گیا ہے ۔ پہلا یہ کہ جو کچھ تم پر وحی ہوتی ہے تجھے صرف اس کی پیروی کرنا چاہئیے( وَاتَّبِعْ مَا یُوحَی الیک ) ۔تیرا راستہ خدا نے وحی کے ذریعے معین کیا ہے اور تو نے اس سے معمولی سے انحراف کا بھی مجاز نہیں ۔

دوسرا یہ کہ اس راستے میں تجھے طاقت فرسا مشکلات ، بہت زیادہ ناراحتیں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا انبوہ ِ مشکلات میں تجھے چاہئیے کہ خوف و ہراس کو اپنے قریب نہ آنے دے ۔ صبر ،استقامت اور مر دی اختیار کر۔ یہاں تک کہ خدا دشمنوں پر تیری فتح و کامرانی کا حکم صادر کرے( وَاصْبِرْ حَتَّی یَحْکُمَ اللهُ ) ۔کیونکہ وہ بہترین حکم کرنے والا ہے ۔ اس کا فرمان حق ہے ، اس کا حکم عدل ہے اور اس کے وعدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی( وَهُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ ) ۔

پر وردگار ا! تیرے بندے جو تیری راہ میں جہاد کرتے ہیں ۔

وہ جہاد جس میں خلوص اور ایمان کار فرما ہے ۔

تیرے بندے جو تیری راہ میں صبر، استقامت اور پا مردی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

تونے ان سے کامیابی اور فتح و نصرت کا وعدہ کیا ہے ۔

خدا وندا ! ان لمحات میں اور حکومت اسلامی کی تشکیل کے مرحلے میں بہت زیادہ مشکلات نے ہمیں گھیر رکھا ہے او رہم تیری تو فیق و عنا یت سے جہاد اور استقامت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔

بار الٰہا ! تو بھی اپنے لطف و کرم سے مشکلات کے سیاہ بادل بر طرف کردے اور ہمیں حق و عدالت کی حیات بخش شعاعوں سے نواز ۔

آمین یا رب العالمین ۔

فہرست

مصارف زکوٰة اور اس کی تفصیلات ۴

چند اہم نکات ۶

۱ ۔ ”فقیر “ او ر” مسکین “ میں فرق : ۶

۲ ۔ کیا زکوٰة آٹھ حصوں میں برابر تقسیم کی جائےگی ؟ ۷

۳ ۔زکوٰة کس وقت وجب ہوئی تھی ؟ ۸

۴ ۔ ” ( مولفة قلبهم ) “ سے مراد کون لوگ ہیں ؟ ۸

۵ ۔ اسلام میں زکوٰة کی اہمیت اور اثر :۔ ۹

آیت ۶۱ ۱۲

یہ خوبی ہے عیب نہیں ۱۲

تفسیر ۱۲

آیات ۶۲،۶۳ ۱۶

شانِ نزول ۱۶

منافقین کی ایک نشانی ۱۶

آیات ۶۴،۶۵،۶۶ ۱۹

شان نزول ۱۹

منافقین کا خطر نا ک پرگرام ۲۰

آیات ۶۷،۶۸،۶۹،۷۰ ۲۴

منافقوں کی نشانیاں ۲۵

آیات ۷۱،۷۲ ۳۰

سچے مومنوں کی نشانیاں ۳۰

آیت ۷۳ ۳۵

کافروں اور منافقوں سے جنگ ۳۵

آیت ۷۴ ۳۷

شان ِ نزول ۳۷

خطر ناک سازش ۳۹

آیات ۷۵،۷۶،۷۷،۷۸، ۴۲

شان نزول ۴۲

منافق کم ظرف ہوتے ہیں ۴۳

چند اہم نکات ۴۴

آیات ۷۹،۸۰ ۴۸

شان ِ نزول ۴۸

منافقین کی ایک اور غلط حرکت ۵۰

چند اہم نکات ۵۱

۱ ۔ کام کی اہمیت کیفیت سے ہے کمیت سے نہیں :۔ ۵۱

۲ ۔ منا فقین کی صفات ہر دور میں ایک جیسی ہیں : ۵۲

۳ ۔ ” ( سخر الله منهم ) “ کامفہوم : ۵۲

۴ ۔ ”سبعین “ سے مراد: ۵۲

آیات ۸۱،۸۲،۸۳ ۵۵

منافقین کی ایک اور غلط حرکت ۵۵

چند توجہ طلب نکات ۵۸

۱ ۔ دوسرے جہاد میں شرکت کی حقیقت: ۵۸

۲ ۔لفظ ”خالف“ کا مفہوم : ۵۸

۳ ۔ دور حاضر میں ہماری ذمہ داری او رمنافقین کی روش: ۵۸

آیات ۸۴،۸۵ ۵۹

منافقین کے بارے میں زیادہ اقدام ۵۹

چند قابل توجہ نکات ۶۱

۱ ۔ شان نزول کی اختلافی روایات: ۶۱

۲ ۔ مومنین کی قبروں کے پاس کھڑے ہونا اور دعا کرنا : ۶۲

آیات ۸۶،۸۷،۸۸،۸۹ ۶۳

پست ہمت افراد اور سچے مومنین ۶۳

آیت ۹۰ ۶۶

تفسیر ۶۶

آیات ۹۱،۹۲،۹۳ ۶۸

شان نزول ۶۸

وہ معذور جو عشق جہاد میں آنسو بہاتے تھے ۶۹

چندقابل توجہ نکات ۷۳

۱-مجاہدین کا جذبہ و شہادت: ۷۳

۲ ۔ جہا کے کئی مراحل ہیں : ۷۳

۳ ۔ ایک وسیع قانون کا سر چشمہ : ۷۳

آیات ۹۴،۹۵،۹۶ ۷۵

شانِ نزول ۷۵

تفسیر ۷۶

آیات ۹۷،۹۸،۹۹ ۷۹

سنگ دل اور صاحب ِ ایمان بادیہ نشین ۷۹

چند اہم نکات ۸۳

۱ ۔ آبادی کے بڑ ے مراکز: ۸۳

۲ ۔ بادیہ نشین شہری : ۸۳

۳ ۔ قرب ِ الہٰی کا مفہوم : ۸۴

آیت ۱۰۰ ۸۵

سابقین ِ اسلام ۸۵

چند اہم نکات ۸۷

۱ ۔ سابقین کا مرتبہ اور اہمیت: ۸۷

۲ ۔ تابعین کون لوگ تھے ؟ : ۸۷

۳ ۔ پہلا مسلمان کون تھا ؟ : ۸۸

۴ ۔ کیا تمام صحابہ نیک اور صالح تھے ؟ ۹۱

آیت ۱۰۱ ۹۵

تفسیر ۹۵

آیت ۱۰۲ ۹۸

شان ِ نزول ۹۸

توبہ کرنے والے ۱۰۰

آیات ۱۰۳،۱۰۴،۱۰۵ ۱۰۱

زکوٰة فرد او رمعاشرے کو پا ک کرتی ہے ۱۰۱

چند اہم نکات ۱۰۲

۱ ۔ قبول کی گئی زکوٰة : ۱۰۲

۲ ۔ ”خذ“کا مفہوم : ۱۰۳

۳ ۔ ”صل علیھم “ کے حکم کی عمومیت :” ۱۰۳

ایک اور گروہ فر مان خدا سے نکل گیا ۔ ۱۰۸

آیت ۱۰۶ ۱۱۲

شان ِ نزول ۱۱۲

تفسیر ۱۱۲

ایک سوال اور اس کا جواب ۱۱۳

آیات ۱۰۷،۱۰۸،۱۰۹،۱۱۰ ۱۱۵

شان نزول ۱۱۶

مسجد کے روپ میں بت خانہ ۱۱۹

چند اہم نکات ۱۲۴

۱ ۔ عظیم درس : ۱۲۴

۲ ۔ صرف نفی کافی نہیں : ۱۲۵

۳ ۔ دو بنیادی شرطیں : ۱۲۶

آیات ۱۱۱،۱۱۲ ۱۲۷

ایک بے مثال تجارت ۱۲۷

آیات ۱۱۳،۱۱۴ ۱۳۳

شان نزول ۱۳۳

دشمنوں سے لاتعلقی ضروری ہے ۱۳۳

چند اہم نکات ۱۳۵

۱ ۔ ایک جعلی روایت : ۱۳۵

۲ ۔ حضرت ابراہیم عليه‌السلام نے آزر سے استغفار کاوعدہ کیوں کیا؟ ۱۳۸

۳ ۔ دشمنوں سے ہر قسم کا تعلق توڑ لینا چاہئیے : ۱۳۹

آیات ۱۱۵،۱۱۶ ۱۴۰

شان نزول ۱۴۰

واضح حکم کے بعدسزا ۱۴۱

ایک سوال اور اس کا جواب ۱۴۲

آیات ۱۱۷،۱۱۸ ۱۴۴

شان نزول ۱۴۴

ایک عظیم درس ۱۴۴

گنہ گاروں کے لئے معاشرتی دبا و ۱۴۶

چند اہم نکات ۱۴۸

۱ ۔ ( تاب الله علی النبی ) “ سے کیامراد ہے ؟ : ۱۴۸

۲ ۔ جنگ تبوک کو” ساعة العسرة “ کیوں کہاگیا ؟: ۱۴۹

۳ ۔ تین افراد کے لئے ” خلفوا “ کی تعبیر : ۱۵۰

۴ ۔ ایک دائمی اور عظیم سبق : ۱۵۰

۵ ۔ جنگ تبوک سے مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی: ۱۵۱

آیت ۱۱۹ ۱۵۴

سچوں کا ساتھ دو ۱۵۴

کیا صادقین سے مراد صرف معصومین ہیں ؟ ۱۵۵

آیات ۱۲۰،۱۲۱ ۱۵۹

مجاہدین کو مشکلات پر جزا ضرور ملے گی ۱۵۹

چند قابل توجہ نکات ۱۶۱

۱ ۔ ( لاینا لون من عدو نیلا ) “کا مفہوم : ۱۶۱

۲ ۔ ( احسن ماکانوا یعلون ) “ سے کیا مراد ہے ؟ ۱۶۱

۳ ۔ یہ آیت ہر دور کے مسلمانوں کے لئے ہے : ۱۶۱

آیت ۱۲۲ ۱۶۳

شان نزول ۱۶۳

جہالت اور دشمن کے خلاف جہاد ۱۶۴

چند قابل توجہ امور ۱۶۴

۱ ۔ آیت کی تفسیر میں مختلف احتمالات: ۱۶۴

۲ ۔ ایک اشکال اور اس کا جواب : ۱۶۵

۳ ۔” تفقه فی الدین “کا وسیع مفہوم : ۱۶۵

۴ ۔ اجتہاد اور تقلید کے جواز پر استدلال : ۱۶۶

آیت ۱۲۳ ۱۶۹

قریب کے دشمن کی خبر ۱۶۹

آیات ۱۲۴،۱۲۵ ۱۷۲

آیات قرانی کی تاثیر ۔ پاک اور ناپاک دلوں پر ۱۷۲

چند قابل توجہ نکات ۱۷۳

۱ ۔ قرانی آیا کے مختلف لوگوں پر مختلف اثرات: ۱۷۳

۲ ۔”رجس “ کا مفہوم : ۱۷۳

۳ ۔ ” ( وهم یستبشرون ) “ کا مطلب : ۱۷۴

۴ ۔ دل کی بیماری : ۱۷۴

۵ ۔ ایک درس : ۱۷۴

آیات ۱۲۶،۱۲۷ ۱۷۶

تفسیر ۱۷۶

آیات ۱۲۸،۱۲۹ ۱۷۹

نازل ہو نے والی آخری آیات ۱۷۹

سوره یونس ۱۸۳

اس سورہ کے مضامین اور فضیلت ۱۸۳

آیات ۱،۲ ۱۸۵

تفسیر ۱۸۵

آیات ۳،۴ ۱۸۸

خدا شناسی اور قیامت ۱۸۸

دو قابل توجہ نکات ۱۹۱

۱ ۔ ” الیہ مرجعکم جیمعاً “ کا مفہوم : ۱۹۱

۲ ۔ ” قسط “کا مفہوم : ۱۹۲

آیات ۵،۶ ۱۹۳

عظمت الہی کی نشانیاں ۱۹۳

چند اہم نکات ۱۹۶

۱ ۔ ضیا اور نور میں فرق : ۱۹۶

۲ ۔” ضیاء “ جمع ہے یا مفرد : ۱۹۶

۳ ۔ ”قدرہ منازل “ کی ضمیر: ۱۹۷

۴ ۔ رات دن کا آنا جانا : ۱۹۸

۵ ۔ تقویم اور تاریخ کا مسئلہ : ۱۹۸

آیات ۷،۸،۹،۱۰ ۲۰۱

جنتی اور دوزخی ۲۰۱

چند اہم نکات ۲۰۳

۱ ۔ پروردگار سے ملاقات : ۲۰۳

۲ ۔ ( یهدیهم ربهم بایمانهم ) کے بارے میں کچھ گفتگو : ۲۰۳

۳ ۔ ( تجری من تحتهم الانهار ) کا مفہوم : ۲۰۴

ـآیات ۱۱،۱۲ ۲۰۶

خود غرض انسان ۲۰۶

انسان قرآن کریم کی نظر میں ۲۰۸

آیات ۱۳،۱۴ ۲۱۱

پہلے ظالم اور تم ۲۱۱

چند قابل توجہ نکات ۲۱۱

۱ ۔ ”قرون “ کا مطلب : ۲۱۱

۲ ۔ قوموں کی بربادی کی وجہ ؟ ۲۱۲

۳ ۔” ( وما کانو ا لیوٴمنوا ) “ کا مفہوم : ۲۱۲

۴ ۔ ” ( لننظر کیف تعلمون ) “ کا مطلب: ۲۱۲

آیات ۱۵،۱۶،۱۷ ۲۱۳

شان نزول ۲۱۳

تفسیر ۲۱۳

چند اہم نکات ۲۱۵

۱ ۔ مشرکین کی دو متبادل خواہشوں میں فرق : ۲۱۵

۲ ۔ پیغمبر اکرم کے جواب پر ایک نظر : ۲۱۵

۳ ۔ ایک اشکال اور اس کی وضاحت : ۲۱۶

۴ ۔ سب سے زیادہ ظالم کون ہے ؟ : ۲۱۶

آیت ۱۸ ۲۱۸

بے اثر معبود ۲۱۸

آیت ۱۹ ۲۲۰

تفسیر ۲۲۰

آیت ۲۰ ۲۲۲