تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25224
ڈاؤنلوڈ: 2364


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25224 / ڈاؤنلوڈ: 2364
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۷۱،۷۲

۷۱ ۔( وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ عَنْ الْمُنکَرِ وَیُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَیُطِیعُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ اٴُوْلَئِکَ سَیَرْحَمُهُمْ اللهُ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ) ۔

۷۲ ۔( وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِنْ اللهِ اٴَکْبَرُ ذَلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) ۔

ترجمہ

۷۱ ۔ ایماندار مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ولی (دوست اور مدد گار) ہیں وہ اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں ۔نماز قائم کرتے ہیں اور زکویٰةدیتے ہیں اور خدا و رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۔ خدا عنقریب ان پر رحمت کرے گا بے شک خدا تواناوحکیم ہے۔

۷۲ ۔ خدا مومن مردوں اور عورتوں سے ایسے جنت کے باغوں کا وعدہ کیا ہوا ہے جن کے ( درختوں کے )نیچے نہریں جاری ہیں وہ ہمیشہ ان ہی میں رہیں گے اور عدن کی جنتوں میں ( ان کے لئے ) پاکیزہ مساکن ہیں اور خدا کی رضا ( اور خشنودی ان سب سے ) برتر و بہتر ہے اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔

سچے مومنوں کی نشانیاں

گذشتہ آیتوں میں منافق مردوں اور عورتوں کی مشترکہ علامتیں بیان کی گئیں تھیں ۔ جن کا خلاصہ پانچ حصوں میں ہوتا ہے ۔

۱ ۔ بری چیزوں کا حکم دینا ،

۲ ۔ اچھی چیزوں سے روکنا ،

۳ ۔ کنجوسی اور بخیلی ،

۴ ۔ خدا کو بھول جانا اور

۵ ۔ حکم خدا کی نافرمانی ۔

ان آیات میں مومن مردوں اور عورتوں کی نشانیاں بتائی گئی ہیں اور وہ بھی پانچ حصوں ہی میں ہیں او ربالکل منافقوں کی صفات کے مقابلے میں ہیں آیت یہاں سے شروع ہوتی ہے :۔

” ایماندار مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے دوست ولی اور مدد گارہیں( وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ ) “۔

قابل توجہ یہ بات ہے کہ منافقین کے لئے لفظ ” اولیاء“ نہیں آیا بلکہ ”( بعضهم من بعض ) “ ہے جو بظاہ رہر غرض و غایت کی وحدت اور صفات و کردار کی یکسانیت کی دلیل دکھائی دیتا ہے یہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اگر چہ منافق ایک ہی صفت میں ہیں اور ان کے مختلف گروہ ایک ہی قسم کے منصوبوں اور پروگراموں میں مصروف ہیں پھر بھی ان میں محبت، مودت او رولایت کی روح موجود نہیں ۔ جب ان کی شخصی اغراض خطرے میں پڑجاتی ہیں تو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی بے ایمانی کرتے ہیں ۔ اسی بنا پر سورہ حشر کی آیت ۱۴ میں پڑھتے ہیں :۔”( تحسبهم جمیعاً و قلوبهم شتیٰ )

تم انھیں متفق اور متحد سمجھتے ہو ، حالانکہ ان کے دل پراکندہ اور مختلف ہیں

خدا وند عالم اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد مومنین کی صفات کی جز ئیات کی تشریح کرتا ہے ۔

۱ ۔ پہلے فرماتا ہے : وہ لوگوں کی نیکی کی طرف بلاتے ہیں( یَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ ) ۔

۲ ۔لوگوں کو بد ی ، برائی اور گناہ سے روکتے ہیں( وَیَنْهَوْنَ عَنْ الْمُنکَرِ ) ۔

۳ ۔ وہ منافقوں کے بر خلاف جنھوں نے خدا کو بھلا رکھاتھا” نماز قائم کرتے ہیں “ اور خدا کو یاد کرتے ہیں اور ا س کی عبادت اور ذکر سے دل کو روشن اور عقل کو بیدار اور خبر دار کئے ہوئے ہیں( وَیُقِیمُونَ الصَّلَاةَ ) ۔

۴ ۔ وہ منافقوں کے بر خلاف جو کنجوس اور بخیل لو گ تھے ، اپنے مال کا ایک حصہ راہ ِ خدا میں اور خلق خدا کی فلاح و بہبودی او رمعاشرے کی تشکیل نوکے لئے خرچ کرتے ہیں( وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ ) ۔

۵ ۔ منافق، فاسق اور سر کش ہیں اور خداوند علام کے حکم کی پیروی نہیں کرتے لیکن مومن خدا اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں

( وَیُطِیعُونَ اللهَ وَرَسُولَههه ) ۔

اس آیت کے آخر میں خدا وند عالم نتیجے اور بدلے کے طور پرمومنوں کے پہلے امتیاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : خدا عنقریب ان پر اپنی رحمت نازل کرے گا( اٴُوْلَئِکَ سَیَرْحَمُهُمْ الله ) ۔

لفظ ”رحمت “ جس کا ایک مقام پر ذکر ہو اہے ایک بہت وسیع مفہوم کھتا ہے جو دین و دنیا کی ہر قسم کی خیر و برکت اور نیکی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ یہ لفظ اصل میں منافقین کی حالت کی ضد ہے یعنی خدا نے ان پر لنعت کی ہے اور انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے ۔

بے شک مومنین سے خدا کا وعدہ ِ رحمت یقینی اور اطمینان بخش ہے کیونکہ وہ قدرت رکھتا ہے اور دانا وحکیم بھی ہے نہ وہ کسی سبب کے بغیروعدہ کرتا ہے اورنہ ہی جب وعدہ کرتا ہے تو ا س کے پورا کرنے سے عاجز ہے( إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ) ۔

بعد والی آیت خدا کی اس وسیع رحمت کے ایک حصہ کی جو ایماندار لوگوں کے لئے ہے ۔ تشریح کرتی ہے ۔ اس میں اس رحمت کے مادی اور روحانی دونوں پہلو وں کاتذکرہہے ۔ شروع میں فرماتا ہے : خد اایمان دار مردوں اور عورتوں سے ایسے بہشت کے باغوں کا وعدہ کرتا ہے جن درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں( وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهَارُ ) ۔

اس عظیم نعمت کی خصوصیاتمیں سے ایک یہ ہے کہ زوال ، فنا اور جدائی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے( خَالِدِینَ فِیهَا ) ۔

ان پر اللہ کا دوسرا احسان یہ ہو گا کہ خدا انھیں بہشت ِ عدن کے مرکز میں پاکیزہ مسکن اور شاندارمکان عطافرمائے گا( وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ ) ۔

لغت میں ”عدن“ کے معنی مکان او رجگہ میں ٹھہرنے اور زندگی گذارنے کے ہیں ۔ اس لئے ” معدن “ کسی خاص مواد کی بقاء کی جگہ کے معنی میں بولا جاتا ہے اس بنا پر”عدن “ کامفہوم و مطلب خلود (ہمیشگی) کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے لیکن کیونکہ گذشتہ جملہ میں خلود کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے تو اس لیئے معلوم ہوتا ہے کہ ” جنات ِ عدن “ پروردگار کی بہشت کا ایک خا ص مقام ہے ۔جو دیگر سب بہشتوں سے ممتاز ہے ۔

اسلامی حدیثوں اور مفسرین کی تفسیر میں یہ امتیاز مختلف شکلوں میں بیان ہو اہے چنانچہ پیغمبر اسلام کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا :عدن دار الله التی لم ترها عین ولم یخطر عی قلب بشر، لا یسکنها غیر ثلاثة النبیین و الصدیقین و الشهدآء

”عدن خدا کاوہ گھرجسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ اس خیال کسی دل و دماغ میں آیا ہے اور اس میں صرف تین گروہ سکونت پذیر ہو ں گے ۔ انبیاء صدیقین ( وہ جنھوں نے انبیاء کی تصدیق کی ہے اور ان کی حمایت کی ہے ) اور شہداء “۔(۱)

کتاب خصال ئل میں حضرت رسول اکرم سے اس طرح مروی ہے :۔

من سره ان یحیا حیاتی و یموت مماتی ویسکن جنتی التی و اعدنی الله ربی ، جنات عدن فلیوال عبی بن ابی طالب علیه السلام و ذریته علیهم السلام من بعد ه ۔

”جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس زندگی مجھ جیسیاور موت بھی مجھ جیسی ہو تو اسے چاہئیے کہ و ہ علی بن ابی طالب اور ان کی اولاد سے محبت کرے“۔(۳)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جنات عدن بہشت بریں کے ایسے باغات ہیں جن میں رسالت مآب اور ان کے خاص پیروکاروں کی ایک جماعت مقیم ہوگی ۔

یہ مضمون ایک اورحدیث میں حضرت علی علیہ السلام سے بھی منقول ہے کہ جنات عدن پیغمبر اسلام کی قیام کا مقام ہے ۔

اس کے بعد خداوند عالم ان کی روحانی نعمتوں اور جزا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : خدا کی رضا اور خوشنودی جو ان سچے مومنوں کی نصیب ہوگی سب سے بر تر اور عظیم ہے( وَرِضْوَانٌ مِنْ اللهِ اٴَکْبَرُ ) ۔

کوئی اس روحانی لذت اور خوشی کے احساس کی جسے ایک انسان خدا کی طرف متوجہ ہونے سے پاتا ہے ، تعریف و توصیف نہیں کرسکتا ۔ بعض مفسرین کے قول کے مطابق اس روحانی لذت کا ایک گوشہ سب بہشتوں اور ان کی گونا گون نعمتوں اور بے پایاں آسائشوں سے برتراور بالا تر ہے ۔ البتہ ہم اس دنیا کے قفس میں اور اس کی محدود زندگی میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتے۔ چہ جائیکہ اس عظیم روحانی اور معنوی نعمت کوسمجھ سکیں ۔

البتہ اس دنیا کے روحانی او رماد ی فرق کی ایک د ھندلی سی تصویر کھینچ سکتے ہیں مثلاً جو لذت مسلسل فراق و جدائی کے بعد ایک مخلص او رمہر بان دوست کی ملاقت سے ملتی ہے یا ایک خاص روحانی خوشی جو لگاتار کئی ماہ و سال صرف کرنے کے بعد کسی پیچیدہ مسئلہ کے حل ہونے سے حاصل ہو۔ وہ کسی مادی غذا او رمادی لذتوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔

یہاں ایک بات یہ بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ لوگ جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن مومنین او رنیک لوگوں کی جزا او رثواب بیان کرتے وقت صرف مادی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے او رمعنوی جذبات کا اس میں کوئی ذکر اور خبر نہیں ہے وہ اشتباہ اورغلط بیانی سے کام لیتے ہیں ۔ کیونکہ مندرجہ بالا جملے میں خدا کی رضا جو خصوصیت کےساتھ لفظ ” نکرہ “ کے ساتھ بیان کی گئی ہے ، خدا وندعالم کی خوشنودی کے ایک خاص گوشے کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ بہشت کی تمام مادی نعمتوں سے افضل و اعلیٰ ہے اور یہ چیز اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ معنوی جزا کس قدر قیمتی اور اہم ہے ۔

البتہ اس کی برتری کاسبب واضح اور روشن ہے کیونکہ حقیقت میں روح ایک گوہر کی مانند ہے او رجسم صدف کی طرح ہے ، روج حاکم ہے او رجسم محکوم ، روح کا ارتقاء اصلی اور بنیادی مقصد ہے جب کہ جسم کی تکمیل وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔ اسی بنا پر روح کی تمام شعائیں جسم سے زیادہ وسیع ہیں اور روحانی لذتوں کا قیاس جسمانی لذتوں پر نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح روحانی مصیبتیں اور تکالیفیں جسمانی آلام ومصائب کے مقابلے میں بدر جہاددردناک ہیں ۔

آیت کے آخر میں تمام مادی اور روحانی نعمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :یہ بہت ہی بڑی کامیابی ہے( ذَلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲ ۔ نور الثقلین ج ص ۲۴۱ بحوالہ کتاب خصال ۔

آیت ۷۳

۷۳ ۔( یَااٴَیّهَا النَّبِیُّ جَا هد الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْهِمْ وَمَاٴْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ) ۔

ترجمہ

۷۳ ۔ اے پیغمبر! کافروں اور منافقوں کے ساتھ جہاد کرو، ان پر سختی کرو، ان کا ٹھکانا جہنم ہے او ران کا انجام کیسا برا ہے ۔

کافروں اور منافقوں سے جنگ

آخر کا اس آیت میں کافروں او رمنافقوں کے مقابلے میں شدت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اے پیغمبر ! کفار ومنافقین کے ساتھ جہاد کرو( یَااٴَیّهَا النَّبِیُّ جَا هد الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ ) ۔” اور ان کے مقابلے میں سخت اور شدید طریقہ اختیار کرو “( وَاغْلُظْ عَلَیْهِمْ ) ۔

یہ تو ان کی بنیادی سزا ہے اور آخرت میں ان کے رہنے کی جگہ دوزخ ہے ۔ جو بد ترین انجام اور برا ٹھکانا ہے( وَمَاٴْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ) ۔

البتہ کافروں کے مقابلے میں جہاد کا طور طریقہ تو بالکل واضح ہے اور وہ ہر پہلو سے جہاد ہے ۔ خصوصاً مسلح جہاد ۔ لیکن منافقوں سے جہاد کے طریقوں میں اختلاف ہے ۔ کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ رسول اکرم منافقوں سے مسلح جہاد نہیں کرتے تھے ۔ کیونکہ منافق وہ شخص ہے جو ظاہری طور پر مسلمانوں میں صف میں ہو اور بظاہر تمام آثار اسلام ک اپابند ہو۔ اگر چہ باطنی طور پر اسلامی احکام کی خلاف ورزی کرتا ہو۔ چنانچہ ہم بہت سے لوگوں کو جانتے ہیں کہ وہ ایمان ِ حقیقی نہیں رکھتے لیکن کیونکہ وہ اپنے کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اس لئے ہم ان سے غیر مسلموں کا سا بر تو نہیں کرسکتے۔ بنا بریں جس طرح اسلامی روایات اورمفسرین کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے منافقوں سے جہاد کرنے سے مراد اور طرح کی جنگ ہے جو مسلح جنگ کے علا و ہ ہے ۔ مثلاً مذمت ، سر زنش ،تہدید اور انھیں رسوا کرنا ۔ شاید ”( و اغلظ علیهم ) “ اسی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

ہاں آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ جب تک منافقوں کی حقیقت اور ان کے خفیہ منصوبے منظر عام پر نہ آجائیں ان کے بارے میں مسلمانوں سے متعلق احکام پر عمل کیا جائے گا ۔ لیکن جب ان کی حالت اچھی طرح معلوم ہو جائے تو پھر ان پر کفار حربی کا حکم لاگو ہوجائے گا اور اس صورت میں ان سے مسلح جنگ بھی کی جا سکتی ہے ۔ لیکن جو بات اس احتمال کو کمزور کرتی ہے وہ ہے کہ اس حالت میں ” منافق“ کے لفظ کا اطلاق اس پر درست نہیں ہے ۔ بلکہ اب وہ کافر حربی کی صف میں ہے جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ منافق وہ ہے جس کا ظاہر اسلام ہو اور باطن کفر ۔

آیت ۷۴

۷۴ ۔( یَحْلِفُونَ بِاللهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا کَلِمَةَ الْکُفْرِ وَکَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ یَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلاَّ اٴَنْ اٴَغْنَاهُمْ اللهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ یَتُوبُوا یَکُنْ خَیْرًا لهُمْ وَإِنْ یَتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمْ اللهُ عَذَابًا اٴَلِیمًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِی الْاٴَرْضِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیر ) ۔

ترجمہ

۷۴ ۔منافق خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ( پیغمبر کے پس پشت) انھوں نے ( تکلیف وہ )باتیں نہیں کیں ۔ حالانکہ یقینا انھوں نے کفر آمیز باتیں کی ہیں او راسلام لانے کے بعد وہ کافر ہو گئے اور انھوں نے ( ایک خطر ناک کام کا) ارادہ کیا تھا جسے وہ نہ کرسکے وہ صرف اس بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول نے صرف اپنے فضل ( اور کرم ) سے بے نیاز کردیا ہے ( اس کے باوجود ) اگر وہ تو بہ کرلیں تو ان کے لئے بہتر ہے ، اور اگر وہ منہ موڑتے ہیں تو خدا انھیں دنیا و آخرت میں دردناک سزا دے گا اور وہ روئے زمین پر نہ کوئی ولی و حامی رکھتے ہیں اور نہ ہی یار و مدد گار ۔

شان ِ نزول

اس آیت کی شان ، نزول کے بارے میں مختلف روایتیں نقل ہوئی ہیں جو سب کی سب یہ ظاہر کرتی ہیں کہ بعض منافقوں سے اسلام اور پیغمبر کے بارے میں تکلیف دہ باتیں کی تھیں اور اپنے راز فاش ہونے کے بعد انھوں نے جھوٹی قسم کھائی تھی کہ ہم نے کچھ نہیں کہا۔ غرض انھوں نے اسلام کے خلاف جو سکیم بنائی تھی وہ ناکام ہوگئی ۔ ان کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ منافقوں میں سے جلاس نامی ایک شخص نے جنگ ِ تبوک کے موقع پر نبی اکرم کے بعض خطبے سن کر ان کا سختی سے انکار کردیا تھا اور آپ کو جھٹلا یا تھا ۔

مدینہ میں آنے کے بعد ایک شخص عامربن قیس جس نے یہ باتیں سنی تھیں ، پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا او راجلاس کی باتیں بیان کیں ، لیکن جب وہ خود مدینہ میں آیاتو اس نے اس کے بارے میں صاف انکار کردیا۔ اس پر حضرت رسالتمآب نے دونوں کو حکم دیا کہ وہ مسجد میں منبر کے پاس کھڑے ہوکر قسم کھائیں کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہے ۔ دونوں نے قسم کھائی ۔ مگر عامر نے عرض کیا کہ اے خدا ! اپنے پیغمبر پر آیت نازل فرما!اور جو شخص سچا ہے اس کی سچائی کو ظاہر کردے اور اس پر پیغمبر او رمومنین نے آمین کہی جبرئیل نازل ہوئے اور مندرجہ بالاآیت پیغمبر کی خدمت میں لائے جس وقت ” فان یتوبوا یک خیرا ً لھم “( اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے لئے بہتر ہے ) کا جملہ آیاتو ” جلاس “ نے کہا: اے خداکے رسول ! پروردگار نے مجھ سے چاہی ہے اور میں گناہ پر پچھتا رہا ہوں اور توبہ کرتا ہوں ۔ حضور نے اس کی توبہ قبول کرلی۔

نیز جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں مفسرین نے نقل کیا ہے کہ منافقوں کے ایک گروہ کو پکاارادہ کیا ہو اتھا کہ جنگ تبوک سے واپسی پر راستے میں ایک درّے سے گذرتے ہوئے پیغمبر کی اونٹنی کو بد کائیں گے تاکی پیغمبر اکرم پہاڑ کے اوپر سے درّے میں گر جائیں ، لیکن آنحضرت وحی کے ذریعے اس واقعہ سے آگاہ ہو گئے اور ان کی سازش کو نقش بر آب کرکے رکھ دیا ۔ ناقہ کی مہار عمار کے ہاتھ میں دی اور ” حذیفہ “ پیچھے سے ناقہ کو ہانک رہے تھے تاکہ سواری پورے طور قابو میں رہے ۔ یہاں تک کہ آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ دوسرے راستے سے آئیں تا کہ منافق نہ لوگوں کے ہجوم میں چھپ سکیں او رنہ اپنی سازش پر عمل کر سکیں ۔ جس وقت آپ نے اس رات کی تاریکی میں کچھ لوگوں کی اپنے پیچھے درّے سے آنے کی آواز سنی تو آپ اپنے بعض ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ فوراً ان منافقوں کو پلٹا دیں و ہ تقریبا ً بارہ یا پندرہ افراد تھے اور ان میں سے بعض نے اپنے منہ چھپا رکھے تھے ۔ جن انھوں نے کہ ہم اپنے منصوبہ کو عملی جامعہ نہیں پہنا سکے تو وہ چھپ گئے لیکن پیغمبر نے انھیں پہچان لیا اور ایک ایک کرکے سب کے نام اپنے صحابہ کرام کو گنوائے ۔ ۱

لیکن جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ یہ آیت منافقوں کے کار ناموں کی طرف اشارہ کررہی ہے ایک ان کی نامناسب گفتگو اور دوسرا ان کی ناکام سازش اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں شانِ نزل ایک ساتھ صحیح ہیں ۔

____________________

۱۔ اقتباس از تفسیر مجمع البیان ، تفسیر المنار، تفسیر روح المعانی اور دیگر تفاسیر ۔

خطر ناک سازش

اس آیت کا گذشتہ آیا تک ساتھ تعلق بخوبی واضح ہے کیونکہ یہ سب آیتیں منافقوں کے بارے میں ہیں البتہ اس آیت میں ان کے ایک اور عمل سے پردہ اٹھا لیا گیا ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے راز فاش ہورہے ہیں تو واقعات کا انکار کردیتے ہیں یہاں تک کہ اپنی بات سچ ثابت کرنے کے لئے جھوٹی قسمیں کھالیتے ہیں ۔

پہلے خدا فرماتا ہے : منافقین قسم کھاتے ہیں کہ انھوں نے اس قسم کی باتیں پیغمبر کے بارے میں نہیں کہیں( یَحْلِفُونَ بِاللهِ مَا قَالُوا ) ۔

حالانکہ انھوں نے یقینی طور پرکفر آمیز باتیں کی ہیں( وَلَقَدْ قَالُوا کَلِمَةَ الْکُفْرِ ) ۔اس طرح انھوں نے اسلام قبول کرنے اور اس کا اظہا رکرنے کے بعد کفر کا راستہ اختیار کیا( وَکَفَر بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ ) ۔البتہ وہ پہلے بھی مسلمان نہیں تھے کہ اب کافر ہو گئے ہیں بلکہ صرف ظاہری طور پر ہی مسلمان تھے ۔ جسے انھوں نے کفر کا اظہار کرکے توڑ ڈالا ۔ اس ظاہری اور دکھلاوے کے اسلام کو بھی انھو ں ے کفر کا اظہار کرکے درہم بر ہم کردیا ہے اس سے بھی بڑھ کر وہ خطرناک ارادہ لئے ہوئے تھے جن تک نہیں پہنچ سکے( وَهَمُّوا بِمَا لَمْ یَنَالُوا ) ۔

ہوسکتاہے کہ ان کا یہ ارادہ ” لیلة العقبة “ پیغمبر کو شہید کرنے کاہو جس کی تشریح شان نزول میں ہوچکی ہے یا ان کے تمام کاموں کی طرف اشارہ ہو جنہیں وہ اسلامی معاشرے کے تباہ و برباد کرنے اور فساد و نفاق پید اکرنے اور پھوٹ ڈالنے کے لئے انجام دیتے تھے لیکن انھیں کبھی بھی کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا ۔

یہ امر قابل ِ توجہ ہے کہ مختلف حوادث میں مسلمانوں کی تیاری اور بیداری کے سبب منافق او ران کے منصوبے پہچانے جاتے تھے ۔ مسلمان ہمیشہ ان کی تاک میں لگے رہتے تھے تاکہ ان سے کوئی بات سنیں او را س کی پیش بندی اور ضروری کار وائی کےلئے حضور کی خدمت میں عرض کردیں ۔ یہ بیداری او ربر محل اقدامات اور ان کے ساتھ ساتھ نزول آیات او رخدا کی تصدیق منافقوں کی رسوائی او ران کی سازشوں کی ناکامی کا سبب بنتی تھی ۔

بعد والے جملہ میں اس لئے کہ منافقوں کے کرتوت او رنمک حرامی کا گھٹیا اور برائی پوری طرح واضح ہو جائے ، مزید فرمایا گیاہے :۔ اصل میں انھوں نے پیغمبر سے کوئی غلب کام نہیں دیکھا تھا نہ اسلام انھیں کوئی نقصان پہنچایا تھا بلکہ اس کے برعکس وہ حکومت اسلامی کے سایہ میں طرح طرح کی مادی اور روحانی نعمتوں سے بہرور ہو ئے تھے ۔ اس بنا پر وہ اصل میں ان نعمتوں کاانتقام لے رہے تھے جو خدا اور اس کے پیغمبر نے اپنے فضل و کرم سے انھیں استغنا ء کی حد تک دی تھیں( وَمَا نَقَمُوا إِلاَّ اٴَنْ اٴَغْنَاهُمْ اللهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِه ) ۔(۱)

اس میں شک نہیں کہ خدا کے فضل اور رسول ِاکرم کی انتہائی مہر بانی سے انھیں بے نیاز کردیان ، پھر ان کی ضرورتوں اور حاجتوں کا پورا کرنا کوئی ایسی چیز نہ تھی جو منافقوں کو اس پر ابھارے کہ وہ اس اچھے برتاو ک اانتقام لیں بلکہ چاہیئے تو یہ تھا کہ وہ حق شناسی اور شکر گذاری سے کام لیتے لیکن ان بے وفا اور کمینے لوگوں نے خدمت و نعمت کا جواب جرم اور زیادتی سے دیا ۔ یہ بڑی خوب صورت او ربہترین تعبیر ہے جو بہت سی باتوں اور تحریروں میں استعمال ہوتی ہے جیسے ایک شخص کی ہم نے سالہاسال تک کی خدمت کی ہواور اس کے بعد وہ خیانت کرے اس موقع پر کہتے ہیں کہ ہمارا گناہ صرف یہ ہے کہ ہم نے تجھے پناہ دی ، تیری حفاظت کی او ربہت زیادہ محبت کی ۔

اس کے بعد جیسا کہ قرآن کی سیرت ہے ، لوٹ آنے ج اراستہ ان کے لئے کھلا رکھتے ہوئے کہتا ہے : اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے لئے بہتر ہے( فان یتوبوا یک خیرا ً لهم ) ۔

یہ اسلام کی حقیقت بینی ، تربیت کے اہتمام او رہرقسم کی سختی او رنا مناسب سلوک کے خلاف جنگ کی نشانی ہے ۔ یہاں تک کہ ان منافقوں کے لئے جنھوں نے رسول اللہ کو ختم کرنے کی کوشش کی اور کفر آمیز باتیں کیں اور تکلیف وہ توہیں کی نہ صرف صلح اور توبہ کی راہ کھلی رکھی ہے بلکہ انھیں توبہ کی دعوت دے رہاہے ۔ یہ اصل میں اسلام کا حقیقی چہرہ ہے لیکن وہ لوگ کتنے ہیں جو اسلام کے اس خوبصورت اور حقیقی چہرے کا تعارف دباو اور سختی کے دین کے ساتھ کراتے ہیں ۔

کیا آج کی دنیا میں کوئی مہربان اور نرم خو حکومت مل سکتی ہے جو اپنے خلاف سازش کرنے والوں کے ساتھ ایسی مہر بانی اور محبت کرنے کو تیار ہے جیسا کہ ہم شان ِ نزول میں پڑھ چکے ہیں کہ نفاق انگیز منصوبہ بنانے والوں میں ایک نے یہ بات سن کر توبہ کرلی اور پیغمبر نے اس کی توبہ قبول کرلی ۔

اس کے با وجود اس بنا پر کہ کہیں وہ لوگ اس نرمی کو کمزوری پر محمول نہ کریں انھیں تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر ”وہ اپنی روش باز نہ آئے اور توبہ سے منہ نہ پھیر لیا تو خداانھیں دنیا و آخرت میں دردناک سزادے گا( وَإِنْ یَتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمْ اللهُ عَذَابًا اٴَلِیمًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ) ۔

اگر وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہو سکتا ہے خدا کی سزا کے مقابلے میں کوئی ان کی مدد کرے گا تو وہ انتہائی غلطی پر ہیں کیونکہ وہ روئے زمین پر کسی اپنا ولی ، سر پرست او ریار و مدد گار نہ بنائیں گے( وَمَا لَهُمْ فِی الْاٴَرْضِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیر ) ۔

البتہ ان کی ااخرت کی سزا اور عذاب تو واضح ہے باقی رہا انکے لئے دنیاوی عذاب تو وہ رسوائی ، خواری او ربد بختی وغیرہ ہے ۔

____________________

۱۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالا جملے میں اگر چہ خدا اور پیغمبردونوں کے فضل کے متعلق ذکر ہے :” من فضلہ “ لیکن اس میں ضمیر واحد استعمال ہوئی ہے نہ کہ تثنیہ کی شکل میں ۔ اس تعبیر کا سبب وہی ہے جس کی طرف ہم گذشتہ چند آیتوں میں اشارہ کرچکے ہیں ۔ اس قسم کی تعبیر یں حقیقت ِ توحید کو ثابت کرنے کےلئے ہیں اور یہ کہ تمام کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور اگر حضرت رسول اکرم کام کرتے ہیں تو وہ کوئی کام کرتے ہیں تووہ بھی اس کے حکم سے ہے اور ان کاکام اس کے ارادے او رمشیت سے الگ نہیں ہے ۔