تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 10%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29753 / ڈاؤنلوڈ: 3539
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۸

مؤلف:
اردو

آیات ۷۵،۷۶،۷۷،۷۸،

۷۵ ۔( وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُونَنَّ مِنْ الصَّالِحِینَ ) ۔

۷۶ ۔( فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَهُمْ مُعْرِضُونَ )

۷۷ ۔( فَاٴَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِی قُلُوبِهِمْ إِلَی یَوْمِ یَلْقَوْنَهُ بِمَا اٴَخْلَفُوا اللهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ )

۷۷ ۔( اٴَلَمْ یَعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَاٴَنَّ اللهَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ ) ۔

ترجمہ

۷۵ ۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے میں جنھوں نے خدا سے وعدہ کیا ہے کہ اگر خدا ہمیں اپنے فضل و کرم سے رزق دے تو ہم یقینا صدقہ دیں گے اور شکر گذاروں میں سے ہوں گے ۔

۷۶ ۔ لیکن جب اس نے اپنے فضل سے انھیں بخش دیا تو انھوں نے بخل کیا او رنافرمانی کی اور وہ رو گرداں ہو گئے۔

۷۷ ۔ اس عمل نے ان کے دلوں میں نفاق ( کی روح ) کو اس دن تک کے لئے جب وہ خدا کے سامنے ہوں گے ۔

۷۸ ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ خدا ان کے بھیدوں او رسر گوشیوں کو جانتا ہے خدا سب چھپی ہوئی باتو ں سے آگاہ ہے ۔

شان نزول

مفسرین میں مشہور ہے کہ یہ آیتیں ایک انصاری ثعلبہ بن حاطب کے بارے میں نازل ہوئی وہ ایک غریب آدمی تھا ۔ روزانہ مسجد میں آیا کرتا تھا کہ اصرار تھا کہ رسول اکرم دعا فرمائیں کہ خدا اس کو مالامال کردے ۔حضور نے اس سے فرمایا:۔قلیل توٴدی شکره خیر من کثیر لاتطیقه

مال کی تھوڑی مقدار کا تو شکر ادا رکر سکے اس مال کی کثرت سے بہتر ہے جس کا تو شکرنہ ادانہ کرسکے ،کیا یہ بہتر نہیں کہ خدا کے پیغمبر کی پیروری کرے اور سادہ زندگی بسر کرے۔

لیکن ثعلبہ مطالبہ کررہا اور آخر کار اس نے پیغمبر اکرم سے عرض کیا کہ میں آپ کو اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ۔ اگر خدا نے مجھے دولت عطافرمائی تو میں اس کے تمام حقوق ادا کروں گا ، چنانچہ آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی۔

ایک روایت کے مطابق زیا دہ وقت نہیں گذرا تھا کہ ان کا ایک چچا زاد بھائی جو بہت مال دار تھا ، فوت ہو گیا اور اسے بہت سی دولت ملی ۔

ایک اور روایت میں ہے کہ اس نے ایک بھیڑ خریدی جس سے اتنی نسل بھی کہ جس کی دیکھ بھال مدینہ میں نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس لے انھیں مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں میں لے گیا او رمادی زندگی میں اس قدر مصروف او رمگن ہو گیا کہ نما جماعت تو کیا جمعہ کی نماز میں بھی نہیں آتا تھا ایک مدت کے بعد رسول اکرم نے زکوٰة وصول کرنے والے خادم کو اس کے پاس زکوٰة لینے کے لئے بھیجا لیکن اس کم ظرف کنجوس نے نہ صرف خد ائی حق کی ادائیگی میں پس و پیش کیا بلکہ شروع پربھی اعتراض کیا او رکہا کہ یہ حکم جزیہ کی طرح ہے یعنی ہم اس لئے مسلمان ہوئے تھے کہ جزیہ سے بچ جائیں ۔اب زکوٰة دینے کی شکل میں ہم میں اور غیروں مسلموں میں کون سا فرق باقی رہ جاتاہے ۔ حالانکہ اس نے نہ جزیہ کا مطلب سمجھا تھا اور نہ زکوٰة کا اور اگر اس نے سمجھا تھاتو دینا پرستی اسے حقیقت کے بیان اور اظہارحق کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔ غرض جب حضرت رسول ِ اکرم نے اس کی باتیں سنیں تو فرمایا :۔

یا ویح ثعلبه ! یا ویح ثعلبه!

”وائے ہو ثعلبہ پر ہلاکت ہوثعلبہ پر “اس وقت مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں

ان آیتوں کے لئے بھی شانِ نزول منقول ہیں جو کم و بیش ثعلبہ کی داستان سے ملتی جلتی ہیں ۔ مذکورہ شانِ نزول اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص یا اشخاص پہلے منافقوں کی صف میں شامل نہ تھے لیکن اس قسم کی اعمال او رکردار کی وجہ سے ان کی ساتھ مل گئے۔

منافق کم ظرف ہوتے ہیں

در اصل یہ آیتیں منافقوں کی ایک بڑی صفت کی نشاندہی کرتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ وہ بے بس ، ناتواں او رفقیر و پریشانی کے وقت تو اس طرح ایمان کا دم بھرتے ہیں کہ کوئی شخص یہ باورہی نہیں کرسکتا کہ وہ کسی دن منافقوں کی صف میں جاکھڑے ہو ں گے ۔ یہاں تک کہ وہ ان لوگوں کی جو وسیع ذرایع آمدنی اور وسائل رکھتے ہیں اس بات پر مذت کرتے ہیں کہ وہ اپنی وسائل سے محروم لوگوں کو کیوں فائدہ نہیں پہنچا تے۔ لیکن جب وہ خود صاحب ِ ثروت ہو جاتے ہیں تو اپنے ہاتھ سمیٹ لیتے ہیں اور دنیا پرستی میں ایسے ڈوب جاتے ہیں کہ خدا کے ساتھ کئے ہوئے سب وعدوں کو بھول جاتے ہیں یعنی ان کی شخصیت بالکل بدل جاتی ہے اور ان کی سوچ میں یکسر تغیر آجاتا ہے ۔

اور یہی وہ کم ظرفی ہے جس کا نتیجہ دنیا پرستی ، کنجوسی اور خود غرضی ہے ۔یوں روح نفاق ان کو اس طرح سے جکڑ لیتی ہے کہ ان کےلئے واپسی کا کوئی راستہ بھی نہیں چھوڑ تی ۔

پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے : بعض منافقین ایسے ہیں جنھوں نے خدا کے ساتھ عہد و پیمان باندھا کہ اگر وہ اپنے فضل و کرم سے ہمیں کچھ عطا فرمائے گا تو ہم یقینا ضرورت مندوں کی مدد کریں گے ۔ اور نیکوں میں سے ہوجائیں گے ۔( وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُونَنَّ مِنْ الصَّالِحِین )

لیکن یہ باتیں وہ اس زمانے میں کیا کرتے تھے جب ان کا ہاتھ خالی تھامگر وقت خدا نے اپنے فضل کرم سے انھیں مالا مال کردیا تو انھوں نے بخل کیا اور نافرماں اور روگرداں ہو گئے( فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَهُمْ مُعْرِضُونَ ) ۔

اس پیمان اور بخل کا یہ نتیجہ نکلا کہ روح ِ نفاق دائمی طور پر مضبوطی کے ساتھ ان کے دل میں راسخ ہو گئی اور اب وہ تا قیامت اور اس کے وقت تک جب وہ خدا سے ملیں گے باقی رہے گی( فَاٴَعْقَبهُمْ نِفَاقًا فِی قُلُوبهِمْ إِلَی یَوْمِ یَلْقَوْنَهُ ) ۔اور یہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے جو وعدہ خدا وند عالم سے کیا تھا اس کی خلاف ورزی کی اس لئے کہ ہمیشہ جھوٹ بولتے رہے( بِمَا اٴَخْلَفُوا اللهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ ) ۔

آخر میں ان کی مذمت کو سر زنش کے طور پر کہا گیا ہے کہ کیا وہ نہیں جانتے کہ خدا انے بھیدوں کو جانتا ہے اور ان کی سر گوشیوں کو سنتا ہے اور وہ خدا سن سے غائب اور چھپے ہوئے امور کو جانتا ہے( اٴَلَمْ یَعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَاٴَنَّ اللهَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ”( فَاٴَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِی قُلُوبِهِمْ ) “سے بخوبی روشن ہے کہ بہت سے گناہوں اور برائیاں یہاں تک کہ کفر و نفاق ایک دوسرے کی علت اور معلوم ہیں کیونکہ مندرجہ بالا جملہ صراحت کے ساتھ بتاتاہے کہ ان کا بخل اور وعدہ شکنی اس بات کا سبب بنی ہے کہ نفاق ان کے دلوں میں طرح طرح کی سازشوں اور فتنوں کا بیج بوئے ۔ یہی صورت دوسرے گناہوں اور غلط کاموں کی ہے ۔ اس لئے بعض کتب میں ہے کہ کبھی کبھی بڑے گناہوں کی وجہ سے انسان دنیا سے بے ایمان ہو کر اٹھتا ہے ۔

۲ ۔ ” یوم یلقونہ“ جس کی ضمیر ” خد اکی طرف لوٹتی ہے ، سے مراد قیامت کا دن ہے کیونکہ ”لقآء الله “ اور اسی قسم کی دوسری تعبیریں عام طور پر قرآن میں قیامت ہی کے بارے میں آئی ہیں یہ درست ہے کہ موت واقع ہونے کے ساتھ ہی عمل کا دور شروع ختم ہو جاتا ہے اور اچھے برے کاموں کا نامہ عمل بند ہ وجاتا ہے لیکن ان کے آثار اسی طرح قیامت تک باقی رہیں گے ۔

البتہ بعض مفسریں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” یلقونہ“ کی ضمیر بخل کی طرف لوٹ تی ہے یعنی جب تک وہ اپنے بخل کا نتیجہ دیکھیں گے سز ا پائیں گے۔

اسی طرح یہ احتمال بھی ہے کہ پروردگار کی ملاقات سے مراد موت کا لمحہ ہے مگر یہ سب احتمالات آیت کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہیں اور ظاہری مفہوم وہی ہے جو ہم لکھ چکے ہیں ۔

اس چیز کے بارے میں کہ پروردگار عالم کی ملاقات سے کیا مراد ہے ۔ سورہ بقرہ کی آیت ۴۶ کے ضمن میں جلد اوّل ( ص ۱۸۳ اردو ترجمہ ) میں ہم نے بحث کی ہے اسے ملاحظہ کیجئے ۔

۳ ۔ زیر نظر آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتوتا ہے کہوعدہ توڑنا اور جھوٹ بولنا منافقوں کی صفاست ہیں اور یہ منافق ہی ہیں جو خدا کے ساتھ اپنے وعدوں کی بڑی تاکید کے ساتھ باندھتے ہیں پھر انھیں پاوں کے نیچے روند ڈالتے ہیں یہاں تک کہ اپنے پروردگار سے جھوٹ بولتے ہیں ۔

ایک مشہور حدیث جو رسول اکرم سے منقول ہے بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہے ۔ حضور نے فرمایا :

للمنافق ثلاث علامات اذا حدث کذب و اذا وعده خلف و اذا ائتمن خان

منافق کی تین علامتیں ہیں ۔ ۱ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ۔ ۲ جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا نہیں کرتا ۔

۳ ۔ جب اس کے پاس امانترکھیں تو اس میں خیانت کرتا ہے ۔(۱)

یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ بالا داستان ( ثعلبہ کا واواقعہ) میں تینوں نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس نے جھوٹ بولا ، وعدہ توڑا اور اس مال میں سے جو خدا نے اپنی امانت کے طور پر دی اتھا خیانت بھی کی ۔

مندرجہ بالا حدیث زیادہ تاکید کے ساتھ کتاب کافی میں حضرت امام جعفر صادق - ذریعے حضرت رسول اکرم سے مروی ہے ، آپ فرماتے ہیں :۔

ثلاث من کن فیه کان منافقاً و ان صام و صلی وزعم انه مسلم من اذاائتمن خان اذا حدث کذب و اذا وعد اخلف

جس شخص میں یہ تین چیزیں ہوں وہ منافق ہے چاہے وہ روزہ اور نماز کا پابند ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے۔ ۱ ۔ امانت میں خیانت کرے ۔ ۲ ۔ بات کرے تو جھوٹ بولے اور ۳ ۔ وعدہ کرکے پھر جائے ۔(۱)

ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی کبھی ایسے گناہ بعض ایماندار لوگوں سے بھی ہوں مگر پھر وہ توبہ کرلیں ۔ لیکن ان گناہوں کا تسلسل اور ہمیشگی روح، نفاق او رمنافقت کی نشانی ہے ۔

۴ ۔ اس نکتہ کو ذہن نشین کرنا بھی ضروری ہے کہ جو کچھ ہم نے مندرجہ بالا آیتوں میں پڑھا ہے وہ صرف ایک گذرے ہوئے زمانہ سے متعلق تاریخی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی اخلاقی اور اجتماعی حقیقت کا بیان ہے جس کے بے شمار نمونے ہر زمانے اور ہرمعاشرے میں کسی استثناء کے بغیر پائے جاتے ہیں ۔

اگر ہم اپنے آس پاس نگاہ ڈالیں ( یہاں تک کہ ہم اپنے آپ کو دیکھیں ) تو ”ثعلبہ بن ھاطب“ کے اعمال اور اس کی سوچ کے نمونے ہمیں مختلف مذہبی چہروں میں ملیں گے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو عام حالات یا گربت میں پکے او رمخلص مومنین کی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں تمام مذہبی پرگراموں میں شرکت کرتے ہیں ، ہر اصلاحی پرچم کے نیچے ماتم کرتے ہیں اور حق و صداقت کی آواز بلند کرنے والے کا ساتھ دیتے ہیں ، نیک کام کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں ہر فساد اور برائی کا مقابلہ کرنے کے لئے آواز بلند کرتے ہیں ۔ لیکن جب دن بدلتے ہیں اور صاحب ثروت ہوجاتا ہیں ،کوئی عہدہ یامقام انھیں حاصل ہو جاتا ہے تو اچانک ان کا چہرہ بدل جاتا ہے خدا ور دین کے بارے میں ان کا شور اور عشق سوزاں مدھم پڑجاتا ہے اور اب وہ اصلاحی اور تربیتی پرگروموں میں نظر نہیں آتے۔ نہ حق کے لئے گر یبان چاک کرتے ہیں اور نہ اب وہ باطل کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ۔

پہلے جب ان کی حیثیت نہ تھی اور نہ معاشرے میں انھیں کوئی مقام حاصل تھا تو خدا او رمخلوق ِ خدا کے ساتھ طرح طرح کے وعدے کرتے تھے کہ اگر کسی دن ہمیں وسائل مل گئے اور ہم کسی مقام پر پہنچ گئے تو یہ کردیں گے اور وہ کردیں گے ۔ یہاں تک کہ وہ صاحب ِ ثروت و اقتدار پر اپنے فرائض انجام نہ دینے پرہزاروں اعتراض کرتے تھے لیکن جس روز جب خود ان کی حالت بدلی تو سب عہدو پیمان بھول گئے اور سب اعتراضات اور نکتہ چینیاں برف کی طرح پانی ہو گئیں ۔

بے شک یہ کم ظرفی منافقوں کی ایک واضح صفت ہے ۔ نفاق ، دوزخی شخصیت اور دوغلہ پن کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ۔ اس قسم کے لوگوں کی تاریخِ حیات، شخصیت کی دورنگی اور دورخی کا بہترین نمونہ ہے ۔ اصولی طور پر صاحب ِ ظرف انسان میں دوغلہ پن نہیں پایا جاتا۔ نیز اس میں شک نہیں کہ ایمان کی طرح نفاق کے بھی کئی مراحل نہیں ۔ بعض لوگوں کی روح میں یہ بری عادت اس طرح راسخ ہو جاتی ہے کہ ان کے دل میں خدا پر ایمان کی طرح نفاق کے بھی کئی مراحل ہیں ۔ بعض لوگوں کی روح یہ بری عادت اس طرح راسخ ہو جاتی ہے کہ ان کے دل میں خدا پر ایمنا کوئی اثر باقی نہیں رہتا اگر چہ وہ اپنے آپ کو مومنین کی صف میں شامل سمجھتے ہیں ۔

جو شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے جبکہ ظاہراً وہ سچا ہے کیا وہ دو پہلو اور دو چہرے رکھنے والا منافق نہیں ہے ۔ جو شخص ظاہری طور پر امین ہے اور ای وجہ سے لوگ اس کا اعتبار کرتے ہیں اور اپنی امانتیں اس کے سپرد کرتے ہیں لیکن در حقیقت وہ ان میں خیانت کرتا ہے کیا و ہ دوزخی شخصیت کا حامل نہیں ہے اسی طرح وہ لوگ عہد و پیمان باندھتے ہیں لیکن کبھی اس کی پاسداری نہیں کرتے ۔ کیا ان کا یہ عمل منافقوں کا سا نہیں ہے ؟

انسانی معاشروں کےلئے ایک عظیم ترین مصیبت اور پس ماندگی کا ایک عامل ایسے منافقوں کا وجود ہے اگر ہم آنکھیں بند نہ کرلیں اور اپنے آپ سے جھوٹ نہ بولیں تو ایسے بہت سے ثعلبہ صفت منافقین ہمیں اپنے گرد و پیش اور اسلامی معاشروں میں نظر آئیں گے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان سب عیوب، ننگ و عار اور اسلامی تعلیمات کی روح سے دوری کے باوجود ہم اپنی پس ماندگی کاگناہ اسلام کی گردن پر ڈالتے ہیں ۔

____________________

۱ مجمع البیان ۔ زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲۔سفینة البحار ج ۲ ص ۶۰۷۔

آیات ۷۹،۸۰

۷۹ ۔( الَّذِینَ یَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِینَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِینَ لاَیَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللهُ مِنْهُمْ وَلَهمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

۸۰ ۔( اسْتَغْفِرْ لَهُمْ اٴَوْ لاَتَسْتَغْفِرْلَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِر لَهمْ سَبْعِینَ مَرَّةً فَلَنْ یَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ ذَلِکَ بِاٴَنَّهُمْ کَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ) ۔

ترجمہ

۷۹ ۔ جو لوگ عبادت گذر مومین کے صدقات کی عیب جوئی کرتے ہیں اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں جو ( تھوڑٰی سی ) مقدار سے زیادہ کی دسترس نہیں رکھتے خدا کا مذاق اڑاتا ہے ( انھیں مذاق اڑانے والوں کی سزا دیتا ہے ) اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

۸۰ ۔ ان کے لئے استغفارکرویا نہ کرو( یہاں تک کہ ) اگر ان کے لئے ستر مرتبہ استغفار کروہ تو خدا انھیں ہر گز نہیں بخشے گا کیونکہ انھوں نے خدا اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور خدا فاسقوں کے گروہ کو ہدایت نہیں کرے گا ۔

شان ِ نزول

ان آیات کی شان ِ نزول کے ضمن میں حدیث اور تفسری کی کتابوں میں روایات نقل ہوئی ہیں ۔ ان تمام روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے رادہ کررکھا تھا کہ دشمن کے مقابلے کےلئے ( احتمالاً جنگ تبوک کے لئے ) لشکر اسلام کو تیار کریں ۔ اس لئے آپ کو لوگوں کے تعاون کی ضرورت تھی ۔جب آپ نے اپنے نظریے کا اظہار کیا تو جو لوگ توانائی رکھتے تھے انھوں نے زکوٰة یابلا عوض مدد کے طور پر لشکر اسلام کی قابل قدر خدمت کی ۔

جو مسلمان مزدور پیشہ تھے ان کی آمدنی تھوڑی تھی ۔ ان میں سے ابو عقیل انصاری یا سالم بن عمیر انصاری نے رات کے وقت کنوئیں سے پانی نکال کر اضافی طور پر مزدوری کی اور اس طرح دومن۔ ۱

کھجور جمع کیں ۔ ان میں سے ایک من اپنے گھر رکھ دیں اور ایک من خدمتِ پیغمبر میں لے آئے ۔ اس طرح انھوں نے ایک عظیم اسلامی مقصد کے لئے بظاہر معمولی سی خدمت انجام دی ۔ اسی طرح اور مزدور پیشہ مسلمانوں نے لشکر اسلام کی خدمت کی ۔

عیب جو منافقین ان دونوں گرہوں پر اعتراض کرتے تھے جن لوگوں نے زیادہ خد مت کی تھی انھیں ریا ر کہتے تھے اور جنھوں نے ظاہراً تھوڑی مدد کی تھی ان تمسخر اڑاتے تھے کہ کیا اسلام کو اس قسم کی مدد کی ضرورت ہے ؟

اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور انھیں سخت دھمکی دی گئی اور عذابِ الٰہی سے ڈرایا گیا۔

____________________

۱۔ یہ ایران کے مرجہ اوزان کے لحاظ سے ہے ۔ ایرانی من ہمارے ہاں کی نسبت کم مقدار کاہوتا ہے (مترجم )

منافقین کی ایک اور غلط حرکت

ان آیات میں منافقین کی ایک عمومی صفت کی طرف اشارہ ہوا وہ یہ کہ وہ ہٹ دھرم ، بہانہ جو ، اور معترض او رکام بگاڑنے والے ہوتے ہیں ، غیر مناسب جوڑ توڑ سے ہر مثبت کام کی تحقیر کرتے ہیں اور اسے برا کرکے پیش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو نیک کام کی انجام دہی میں سست کریں اور دوسرا ان کے افکار و نظر یات میں بد گمانی کے بیج بوئیں تاکہ اس طرح معاشرے میں اصلاحی او رمفید کاموں کا سلسلہ بند ہو جائے ۔

قرآن مجیدشدت سے ان کی اس غیر انسانی روش کی مذمت کرتا ہے او رمسلمانوں کو اس سے آگاہ کرتا ہے تاکہ لوگ ایسی بد گمانیوں کا شکار نہ ہوں اور منافقین کو بھی معلوم ہو جائے کہ اسلامی معاشرے میں ان کی سازشیں رنگ نہیں لاسکتیں ۔

ارشاد ہوتا ہے : وہ جونیک مومنین کے صدقات اور صدقِ دل سے کی گئی امداد میں سے عیب ڈھونڈھتے ہیں اور خصوصاً جوان نادار اہل ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں جو تھوڑی سی مدد کے علاوہ طاقت نہیں رکھتے خدا ان کا مذاق اڑاتا ہے اور دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے( الَّذِینَ یَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِینَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِینَ لاَیَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللهُ مِنْهُمْ وَلَهمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

”یلزون “ ”لمز“( بر وزن” طنز“)کے مادہ سے عیب جوئی کے معنی میں ہے اور ” مطوعین “ مادہ ”طوع“ ( بروزن” موج “) سے اطاعت کے معنی میں ہے لیکن عام طور پر یہ لفظ نیک لوگوں کےلئے اور ان کے لئے استعمال ہوتا ہے جو واجبات کے علاوہ مستحبات بھی بجا لاتے ہوں ۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافق کچھ لوگوں کی عیب جوئی کرتے تھے اور کچھ کا مذاق اڑاتے تھے ۔ واضح ہے مذاق ان افراد کا اڑاتے تھے کہ جو لشکر اسلام کی صرف تھوڑی سی امداد کی طاقت رکھتے تھے اور یقینا عیب جوئی ان فراد کی کرتے تھے جو ان کے بر عکس بہت زیادہ امداد کرتے تھے ۔ زیادہ امداد کرنے والوں کو ریا کاری کاالزام دیتے تھے او رکم امداد کرسکنے والوں کی تحقیر کرتے تھے ۔

بعد والی آیت میں ان منافقین کی سزا کے بارے میں بہت تاکید آئی ہے اور انھیں آخری وارننگ دی گئی ہے ،۔ روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے :

ان کے لئے استغفار کرو یا نہ کرو یہاں تک کہ ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار اور طلب ِ بخشش کرو تو بھی انھیں ہرگز نہیں بخشے گا (اسْتَغْفِرْ لَهُمْ اٴَوْ لاَتَسْتَغْفِرْلَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِر لَهمْ سَبْعِینَ مَرَّةً فَلَنْ یَغْفِرَ اللهُ لَهُم

کیونکہ انھوں نے خدا اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور کفر کی راہ اختیار کی ہے اور اسی کفر نے انھیں نفاق کی پستی اور برے انجام سے دوچار کیا ہے (ذَلِکَ بِاٴَنَّهُمْ کَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ

اور واضح ہے کہ خدا کی ہدایت ایسے لوگوں کی میسر آئے گی جو حق طلبی کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں اور حقیقت کے متلاشی ہیں ۔ لیکن خدا فاسق ، گنہگار اور منافق افراد کو ہدایت نہیں کرتا( وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ کام کی اہمیت کیفیت سے ہے کمیت سے نہیں :۔

آیات ِ قرآنی کو دیکھتے ہوئے یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اسلام کسی مقام پر بھی ”کثرتِ عمل“ پربھروسہ نہیں کرتابلکہ اس سے ہر جگہ ”کیفیت عمل “کو اہمیت دی ہے ۔ اسلا م کی نظر میں خلوص اور پاک نیت کی بہت زیادہ قیمت ہے ۔ مندرجہ بالا قرآن کی اس منطق کا ایک نمونہ ہیں ۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ایک مسلمان کار کن ایک چھوٹ سے کام کےلئے رات بھر نہیں سویا ۔ اس کا دل عشق خدا ، اخلاص او راحساس مسئولیت سے معمور تھا ۔ اسی لئے وہ اسلامی معاشرے کی مشکلات کے حل کے لئے کام میں لگا رہا اور اس طرح اس نے اسلامی فوج کے لئے ایک من کھجور مہیا کی ۔ اس نے حساس لمحات میں اسلام کی جو خدمت کی قرآن نے اسے بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور جو لوگ ایسے بظاہر چھوٹے اور در حقیقت بڑے اعمال کی تحقیر کرتے ہیں ان کی سخت مذمت کی ہے قرآن کہتا ہے :

” دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے “

اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ایک صحیح معاشرے میں مشکلات کے وقت سب لوگوں کو احساس ذمہ داری کا ثبوت دیان چاہئیے ۔ ان مواقع پر صرف اہل اقتدار ثروت کی طرف نہیں دیکھنا چاہئیے کیونکہ اسلام کا تعلق سب سے ہے اور سب کو چاہئیے کہ اس کی حفاظت کے لئے دل و جان سے کوشش کریں ۔

اہم بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنی طاقت کے حساب سے دریغ نہ کرے مسئلہ زیادہ اورکم نہیں بلکہ احساس ِ ذمہ داری اور اخلاص کا ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر اکرم سے سوال ہوا:ای الصدقة افضل

کونسا صدقہ افضل ہے ۔

آپ نے فرمایا:جهد المقل

کم آمدنی والے اشخاص کی توانائی کی مقدار

۲ ۔ منا فقین کی صفات ہر دور میں ایک جیسی ہیں :

مندرجہ بالا آیات میں زمانہ پیغمبر کے منافقین کے بارے میں ہم نے جو صفت پڑھی ہے۔

صفات کی طرح اسی زمانہ کے منافقین سے مخصوص نہیں ہے ۔یہ صفت ہر دور کے منافقین کی پست صفات میں سے ایک ہے وہ اپنی بد نیتی کے مخصوص مزاج کے ساتھ کوشش کرتے ہیں کہ ہر مثبت کو غلظ انداز میں پیش کر کے بے اثر کردیں ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر نیک شخص کی کسی نہ کسی طرح حو صلہ شکنی کریں ار اسے کارِ خیر کی انجام دہی میں سست کردیں ۔ یہاں تک کہ وہ کم آمدنی والے افراد کی خدمت کی اہمیت کو کم کرکے پیش کرتے ہیں اور ان کی شخصیت کو مجروح کرنے اور ان کی توہین کرنے کےلئے ان کے کام کا تمسخر اڑاتے ہیں وہ یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں تاکہ تمام مثبت کار کردگیاں ختم ہو جائیں اور وہ اپنے برے مقصد میں کامیاب ہوجائیں ۔

آگاہ او ربیدار مغز مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر زمانے میں ان کی قبیح سازش کی طرف متوجہ رہیں ۔ ان کے بالکل بر عکس قدم اٹھائیں معاشرے کی خدمت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور ایسی خدمت جو ظاہراً چھوٹی ہوں لیکن خلوص دل سے انجام پائی ہوں ان کی زیادہ قدر دانی کریں تاکہ چھوٹا بڑا اپنے کام میں شوق ق ذوق او ردلجمعی سے مگن رہے ۔ نیز سب مسلمانوں کو منافقین کی اس تباہ کن سازش سے آگاہ کرنا چاہےئے تاکہ وہ ہمت نہ ہاریں ۔

۳ ۔ ”( سخر الله منهم ) “ کامفہوم :

اس کا لفظی معنی ہے ” خدا ان سے تمسخر کرتا ہے “ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا بھی ان جیسے کام انجام دیتا ہے بلکہ جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ استہزاء کرنے والوں کو سزا دے گایا ان سے ایسا سلوک کرے گا کہ تمسخر اڑانےوالوں کی طرح ان کی تحقیر و تذلیل ہو۔

۴ ۔ ”سبعین “ سے مراد:

اس میں شک نہیں کہ ” سبعین “ ( ستر ) کاعدد زیرنظر آیت میں کثرت کے لئے ہے نہ کہ تعداد کے لئے ۔ دوسرے لفظوں میں آیت کامفہوم یہ ہے کہ ان کے لئے جتنی بھی استغفار کریں خدا انھیں نہیں بخشے گا ۔یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک شخص دوسرے سے کہے کہ اگر تم سو مرتبہ بھی اصرار کرو تو میں قبول نہیں کروں گا اس بات ک ایہ مطلب نہیں کہ اگر ایک سو ایک مرتبہ اصرار کرو تو پھر قبول کرلوں گا بلکہ مراد یہ ہے کہ بالکل قبول نہیں کروں گا ۔

ایسی تعبیر فی الحقیقت تاکید مطلب کے لئے ہوتی ہے اسی لئے سورہ منافقون آیہ ۶ میں یہ بات نفی مطلق کی صورت میں ذکر ہوئی ہے ، جہاں فرمایا گیا ہے :( سوآء علیهم استغفرت لهم ام لم تستغفر لهم لن یغفر الله لهم )

اس میں کوئی فرق نہیں کہ تم ان کے لئے مغفرت طلب کرو یانہ کرو خداانھیں ہر گز نہیں بخشے گا۔

اس بات پر ایک اور شاید وہ علت ہے جو آیت کے ذیل میں ذکر ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ” انھوں ن خدا اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے اور خدا فاسقوں کو ہدایت نہیں کرتا“

واضح ہے کہ ایسے افراد کے لئے جتنی استغفار اور طلب بخشش کی جائے ان کی نجات کا سبب نہیں ہو سکتی۔

تعجب کی بات ہے کہ اہل سنت کی طرق سے منقول متعدد روایات میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ نے فرمایا :لا ید ن فی الاستغفار لهم علی سبعین مرة : رجاء منه ان یغفر الله لهم ، فنزلت: سوآء علیهم استغفرت لهم ام لم تستغفر لهم لن یغفر الله لهم ۔

خدا کی قسم ! میں ان کے لئے ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا اور اس امید پر کہ خدا انھیں بخش دے اور اس وقت ( سورہ منافقوں کی ) یہ آیت نازل ہوئی( جس میں خدا تعا لیٰ فرماتا ہے )

کچھ فرق نہیں چاہے ان کے لئے استغفار کرو چاہے نہ کرو خدا انھیں ہر گز نہیں بخشے گا ۔(۱)

مندرجہ بالا روایت کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ نے مندرجہ بالا آیت میں ستر کے عدد سے تعداد مراد لی لہٰذا فرماتا ہے کہ ” میں ان کے لئے ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کروں گا ۔“

حالانکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں زیر بحث آیت خصوصاً اس علت کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے جو اس کے ذیل میں آئی ہے ہمیں وضاحت سے سمجھاتی ہے کہ ستر عدد کثرت کے مفہوم میں آیا ہے اور یہ نفی مطلق کے لئے کنایہ ہے اور اس میں تاکید مضمر ہے لہٰذا مذکورہ بالا روایات چونکہ قرآن کے مخالفت ہیں لہٰذا ہر گز قابل قبول نہیں ہیں خصوصاً جبکہ ہماری نظر میں ان کی اسناد بھی معتبر نہیں ہیں ۔

مذکرہ بالا روایات کی واحد توجیہ یہ کی جاسکتی ہے ( اگر چہ خلافِ ظاہر ہے ) کہ رسول اللہ مندرجہ بالا آیات کے نزول سے پہلے یہ جملہ فرمایا کرتے تھے اور جب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ نے ان کے لئے استغفار کرنے سے صرفِ نظر کر لیا ۔

اس بارے میں ایک اور روایت نقل ہ وئی ہے اور ممکن ہے کہ مذکورہ بالاروایات بنیاد یہی روایت ہو جو ” نقل المعنی “ کی وجہ سے غلط ملط ہو گئی ہو ۔ روایت یہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

لوعلمت انه لو زدت علی السبعین مرة غفر لهم لفعلت

اگر مجھے معلوم ہو کہ میرے ستر بار سے زیادہ استغفار کرنے سے خدا انھیں بخش دے گا تو میں ایسا کرتا ۔

اس کا مفہوم ( خصوصاً لفظ ”لو“ کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو امتناع کے لئے ہے ) یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ خدا انھیں نہیں بخشے گا لیکن میرا دل بندگان خدا کی ہدایت او ران کی نجات کے شوق سے اس قدرلبریز ہے کہ اگر بالفرض ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے سے ان کی نجات ہو سکتی تو میں ایسا ہی کرتا۔

بہر حال مندرجہ بالا آیت کا مفہوم واضح ہے اور جو حدیث ان کے بر خلاف ہو اس کی یا توجیہ و تاویل کرنا پڑے گی یا اسے پھینک دینا ہوگا ۔

____________________

۱۔اسی مضمون کی متعدد روایات تفسیر طبرسی ج۱۰ ص ۱۳۸ پر جمع کی گئی ہیں ۔

حضرت مریم

ماں نے نذر مانی خیال تھا بیٹا ہو گا مگر حضرت مریم کی ولادت ہوئی۔ اللہ نے بیٹی کو بھی خدمت بیت المقدس کے لئے قبول کر لیا۔( وَإِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیذُهَا بِکَ ) ۔ "میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا۔ میں اسے شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (آل عمران: ۳۶) پھر بڑی ہو گئیں۔ خدا کی طرف سے میوے آتے۔ ذکریا پوچھتے۔ بتاتیں۔ من عنداللہ۔ اللہ کی طرف سے ہیں۔حتیٰ کہ جوان ہو گئیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذَ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِیًّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّلَمْ اَ کُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَلِنَجْعَلَه آیَة لِّلنَّاسِ وَرَحْمَة مِّنَّا وَکَانَ أَمْرًا مَقْضِیًّا فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِه مَکَانًا قَصِیًّا فَأَجَائَهَا الْمَخَاضُ إِلٰی جِذْعِ النَّخْلَة قَالَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا وَهُزِّیْ إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَة تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّی عَیْنًا فَإِمَّا تَرَیِنَ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِی إِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا فَأَتَتْ بِه قَوْمَهَا تَحْمِلُه قَالُوْا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَاأُخْتَ هَارُوْنَ مَا کَانَ أَبُوْکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ الله آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَّجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنْتُ وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاة وَالزَّکَاة مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ ) ( أُبْعَثُ حَیًّا )

"( اے محمد) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔ یوں انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا۔ تب ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مریم نے کہا۔ اگر تو پرہیز گار ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس نے کہا میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں۔ تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔ مریم نے کہا۔ میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا۔ مجھے تو کسی بشر نے چھوا تک نہیں۔ اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا۔ اسی طرح ہو گا۔ آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ تو میرے لئے آسان ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لئے نشانی قرار دیں۔ اور وہ ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ تھا اور مریم اس بچہ سے حاملہ ہو گئیں اور وہ اسے لیکر دور چلی گئیں۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں۔ اے کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔ فرشتے نے مریم کے پیروں کے نیچے سے آواز دی غم نہ کیجئے آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک چشمہ جاری کیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلائیں تو آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ پس آپ کھائیں پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہہ دیں۔ میں نے رحمان کی نذر مانی ہے۔ اس لئے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں۔ لوگوں نے کہا اے مریم۔ تو نے غضب کی حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن۔ نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔ "پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگ کہنے لگے ہم اس کیسے بات کریں۔ جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہے۔ بچے نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا ہے۔۔ اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔" (مریم: ۱۶ تا ۳۳) حضرت مریم خدا کی خاص کنیز۔بیت المقدس میں ہر وقت رہائش۔ اللہ کی طرف سے جنت کے کھانے و میوے۔ برگزیدہ مخلوق۔ بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوئی۔ ۳ گھنٹہ یا ۳ دن کے بچے نے اپنی نبوت اپنی کتاب اور اپنے بابرکت ہونے کی خبر دے کر کے اپنی والدہ ماجدہ کی عصمت کی گواہی دی اور بتایا مجھے والدہ ماجدہ سے بہترین سلوک کا حکم ملا ہے۔ پھر مریم کے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری ہوا۔ خشک درخت سے تر و تازہ کھجوریں۔یہ اللہ کی طرف سے اظہار ہے کہ جو میرا بن جائے خواہ عورت ہو یا مرد۔ میں اس کا بن جاتا ہوں ، عزت کی محافظت میرا کام، اشکالات کے جوابات میری طرف سے اور وہ سب کو ایسے برگزیدہ لوگوں (مرد ہو یا عورت)کے سامنے جھکا دیتا ہے۔تو میرے سامنے جھک جا۔دنیا تیرے سامنے سرنگوں ہو گی۔ حضرت مریم کی تعریف و ثناء ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله اصْطَفَاکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ یَامَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ )

"اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں سے برگزیدہ کیا ہے اے مریم اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔" (آل عمران : ۴۲ ۔ ۴۳)

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَة مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَة وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَتْ رَبِّ أَنّٰیْ یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ الله یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضٰی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَة وَالتَّوْرَاة ) ( وَالْإِنجِیْلَ ) ۔

" جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا وہ دنیا و آخرت میں آبرو مند ہو گا اور مقرب لوگوں میں سے ہو گا اور وہ لوگوں سے گہوارہ میں گفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہو گا۔ مریم نے کہا۔ پروردگار! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرمایا ایسا ہی ہو گا۔ اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے۔ جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے۔ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا۔" (آل عمران : ۴۵ ۔ ۴۸) اللہ حضرت مریم کو طاہرہ، منتخب ہو اور پاکیزہ ہونے کی سند کے ساتھ عالمین کی عورتوں کی سردار قرار دے رہا ہے۔ کلمۃ اللہ۔ روح اللہ کی ماں اعجاز خدا کا مرکز۔ طہارۃ و پاکیزگی کا مرقع ایسے ان لوگوں کی اللہ تعریف کرتا ہے مرد ہو یا عورت۔ "عورت بھی خدا کی معزز مخلوق ہے۔"

ازواج نبی اعظم

ارشاد رب العزت:( النَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں۔" (احزاب : ۶) ازواج میں بدکرداری و زنا وغیرہ کا تصور نہیں۔ حرم رسول ہیں۔ ا ن میں اس طرح کی خرابی نہیں ہو سکتی۔ ارشاد رب العزت :

( إِنَّ الَّذِیْنَ جَائُوْا بِالْإِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَاتَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْهُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَه مِنْهُمْ لَه عَذَابٌ عَظِیْمٌ لَوْلاَإِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَیْرًا وَّقَالُوا هَذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌ لَوْلاَجَائُوْا عَلَیْهِ بِأَرْبَعَة شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوْا بِالشُّهَدَاءِ فَأُوْلٰئِکَ عِنْدَ الله ) ( هُمُ الْکَاذِبُوْنَ ) ۔

"جو لوگ بہتان باندھتے ہیں وہ یقیناً تمہارا ہی ایک گروہ ہے۔ اسے اپنے لئے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کا اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے اس میں سے بڑا بوجھ اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے۔ وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے۔ اب چونکہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔" (نور: ۱۱ تا ۱۳) نبی اعظم کی زوجہ (عورت) پر تہمت لگی تو سختی کے ساتھ دفاع کیا گیا تاکہ عورت کی عظمت پر داغ نہ لگ جائے اور مومن مردوں کے ساتھ مومنہ عورتوں سے بھی کہا گیا آپ لوگوں کی پہلی ذمہ داری تھی کہ دفاع کرتے۔ احکام میں دونوں برابر۔(مرد و عورت) اللہ کے احکام امہات المومنین کے نام۔ لیکن ان میں سب عورتیں شریک ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاة الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا وَإِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الله وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْآخِرَة فَإِنَّ الله أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَة مُّبَیِّنَة یُّضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی الله یَسِیْرًا وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُولِه وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا کَرِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنَ اتَّقَیْتُنَّ فَلَاتَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِه مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّة الْأُوْلٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاة وَآتِیْنَ الزَّکَاة وَأَطِعْنَ الله وَرَسُولَه ) ۔

"اے نبی اپنی ازواج سے کہہ دیجئے۔ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کرشائستہ طریقہ سے رخصت کر دوں۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائیگا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے اور تم میں سے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو (غیروں کے ساتھ) نرم لہجہ میں باتیں نہ کرنا کہ کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔اور اپنے گھر میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کے طریقت سے اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو۔ نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ " (احزاب: ۲۸ تا ۳۳ ) ان آیات میں بعض چیزوں سے روکا گیا اور بعض کا حکم دیا گیا تاکہ غلط روی سے عورت بچ جائے اور فضائل و کمالات سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس میں کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے۔ قرآن مجید نے ازواج نبی میں سے دو کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ اپنی طرف سے تبصرہ کے بجائے آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ارشاد رب العزت۔

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ الله لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاة أَزْوَاجِکَ وَالله غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ قَدْ فَرَضَ الله لَکُمْ تَحِلَّة أَیْمَانِکُمْ وَالله مَوْلَاکُمْ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِه حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِه وَأَظْهَرَهُ الله عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَه وَأَعْرَضَ عَنْم بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِه قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِیْ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ عَسٰی رَبُّه إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَه أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَّأَبْکَارًا ) ۔

"اے نبی ! تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے۔(کیا اس لئے) کہ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو۔ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمہارا مولیٰ اور وہی علیم و حکیم ہے۔ (ترجمہ آیات از تفہیم القرآن مولانا مودودی ) (اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی۔ پھر جب اس بیوی نے (کسی اور ) وہ راز ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی کو اس (افشاء راز) کی اطلاع دیدی۔ تو نبی نے اس پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے در گزر کیا۔ پھر جب نبی نے اسے (افشاء راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی۔ نبی نے کہا۔ مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے۔ اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔ بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے۔ تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے۔ جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان ، باایمان ، اطاعت گزار ، توبہ گزار، عبادت گزار اور روزہ دار۔ خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔ جناب مولانا مودودی کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے (اور باقی تراجم بھی اسی طرح ہی ہیں) کہ حال پتلا ہے کچھ اچھا نہیں۔ خدا خیر کرے۔ ( ۱۴) جناب خدیجۃ الکبریٰ (زوجۂ رسول اعظم ) واقعاً ایک تاریخ ساز خاتون جس نے گھر میں بیٹھ کر تجارت کی۔ مختلف دیار اور امصار میں پھیلی ہوئی تجارت کو سنبھالے رکھا۔ سب سے زیادہ مالدار۔ لیکن عرب شہزادوں ، قبائلی سرداروں اور رؤساء کے پیغام ہائے عقد کو ٹھکرا کر رسول اعظم سے ازدواج کیا اور عورت کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے۔ عورت کھلونا نہیں۔ عورت عظمت ہے۔ عورت شرافت ہے۔ عورت جانتی ہے کہ میرا شوہر کون ہو سکتا ہے۔ سب کو ٹھکرا دیا کسی کی خوبصورتی، مالدار ہونا سامنے نہیں رکھا بلکہ نور الہی کو پسند کر کے اللہ و رسول کی خوشنودی کو ترجیح دی۔ واہ رے تیری عظمت اے خدیجہ! خویلد کے اس معزز ترین خاندان کی فرد۔ جو تین پشتوں کے بعد چوتھی میں رسول اعظم سے مل جاتا ہے۔ تزویج سے قبل طاہرہ و سیدۂ قریش کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔

قال زبیر کانت تدعٰی فی الجاھلیہ طاہرہ استیعاب برحاشیہ اصابہ جلد ۴ ص ۲۷۹ کانت تدعی فی الجاھلیۃ بالطاہرہ و کان قیل لہا السیدہ قریش۔

(سیرت حلبیہ جلد ۱ ، ص ۱۸۷) حضور مدنی زندگی میں اکثر خدیجہ کا ذکر کرتے رہتے اور فرماتے تھے۔: رزقنی ا لله اولادھا و حرمنی اولاد النساء۔ خدا نے خدیجہ سے مجھے اولاد عطا کی جب کہ اور عورتوں سے نہیں ہوئی، کبھی ارشاد فرماتے : آمنت اذا کفرالناس و صدقتنی اذکذبنی الناس۔ (اصابہ جلد ۴ ص ۲۸۳) وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب کہ لوگ منکر تھے اور انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے۔ تربیتی انداز میں قرآن مجید کی آیات( جن میں امہات المومنین ازواج نبی کو بعض چیزوں سے منع اور بعض کا حکم دیا گیا ہے) مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت خدیجہ اس قدر تربیت یافتہ۔ سلیقہ شعار۔ خدا و رسول کے فرامین پر عمل پیرا۔ رسول اعظم کے اشاروں و کنایوں کو سمجھنے والی۔ رسول اعظم کی قلبی راز دار۔ کہ ان کے زمانہ میں ایسے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ خود عاملہ صالحہ مومنہ کاملہ تھیں۔ تاریخ عالم میں برگزیدہ و عظیم خواتین گزری ہیں لیکن رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے معیار (بہترین عادات و خصائل۔ اعلیٰ خدمات اور عظیم قربانیوں کے عنوان سے) چار عورتیں ہی پوری اتریں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیر نساء العالمین اربع۔ مریم بنت عمران و ابنۃ مزاح، امراۃ فرعون و خدیجہ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد۔ (استیعاب بر حاشیہ اصابہ۔ جلد ۴ ، ۳۸۴) نوٹ: مریم بنت عمران، اینہ مزا، زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد یہ پانچ خواتین ہوتی ہیں جبکہ حدیث مین چار بتائی گئی ہیں۔ ( ۱۵) امہات المومنین میں سے زینب بنت جحش جناب زینب کے ساتھ حضور کی تزویج بڑا مشکل اور حساس مسئلہ ہے اللہ کے حکم ہی نے اس مسئلہ کو انتہا تک پہنچایا ، یہ تزویج اللہ کی طرف سے ہوئی۔ جناب زینب فرمایا کرتی تھیں: میرے جیسا کون ہے سب کی شادیاں رسول اعظم کے ساتھ ان کی خواہش یا والدین کی طرف سے ہوئیں اور میری تزویج براہ راست خدا کی طرف سے ہے۔ جناب زینب حضور کی پھوپھی زادہ ، خاندان بنی ہاشم کی چشم و چراغ۔ لیکن حضور نے خود ان کی تزویج اپنے آزاد کردہ غلام اور پھر جس کو متبنیٰ (منہ بولے بیٹے ) زید بن حارث کے ساتھ کی۔ کافی دیر ملا پ رہا لیکن اختلاف بھی رہا۔ بالآخر انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ کا حکم ہوا کہ حضور شادی کر لیں۔ اب مشکل درپیش ہے۔ ۱ ۔ متبنی۔(منہ بولے بیٹے) کی زوجہ سے شادی کا فیصلہ ۲ ۔ آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے شادی وہ بھی حضور کی۔ لیکن اللہ کا ارادہ حکم بن کر آیا اور خدا کی طرف سے شادی ہو گئی۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ أَنْعَمَ الله عَلَیْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ الله وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا الله مُبْدِیْهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَالله أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا لِکَیْ لاَیَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ الله مَفْعُوْلًا مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ الله لَه سُنَّة الله فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَکَانَ أَمْرُ الله قَدَرًا مَّقْدُوْرًا ) ۔

"اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہہ رہے تھے۔ اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔ پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی۔ تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے۔ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔"نبی کے لئے اس (عمل کے انجام دینے میں) کوئی مضائقہ نہیں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے۔ جو (انبیاء) پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے۔ اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔" (سورہ احزاب آیت ۳۷ ۔ ۳۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی عظیم شخصیت اور سب سے برتر اور معزز شخصیت حضور کی ذات ہے۔ بعد از خدا توئی قصہ مختصر حضور کی محبت کا تقاضا۔ ان کے متعلقین سے پیار اور ان کی عزت کرنا ہے۔ لہٰذا ازواج نبی عزت و عظمت کی مالک ہیں۔ اللہ نے ان کودو خصوصیات عطا کی ہیں۔ ۱ ۔ ازواج نبی۔ مومنین کی مائیں ہیں۔( وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔( سورہ احزاب آیت ۶) ۲ ۔ نبی کی ازواج سے اگرچہ طلاق ہو جائے کسی کو شادی کا حق نہیں۔( وَلَاأَنْ تَنْکِحُوْا أَزْوَاجَه مِنْم بَعْدِه أَبَدًا ) ۔ سورہ احزاب آیت ۵۳ اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بے اعتدالی اور حد سے تجاوز ان سے بھی ہوا ہے حکم تھا کہ گھر میں جم کر بیٹھی رہو۔( وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ الله وَالْحِکْمَة إِنَّ الله کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ) ۔ "اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے۔ اللہ یقیناً باریک بین خوب باخبر ہے۔" (احزاب۔ ۳۴) لیکن گھر سے باہر جانا ہوا حوأب کے کتوں نے بھونکتے ہوئے متوجہ کیا، پھر جنگ جمل کی کمان ، نبی اعظم کے خلاف جتھہ بندی۔ سازش، اللہ کی طرف سے دل ٹیڑھے ہونے کا تذکرہ۔( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ ) (سورہ تحریم: ۴) اللہ کی طرف سے دھمکی آمیز فرمان ،تم کو طلاق بھی ہو سکتی ہے اور تم سے بہتر ازواج مل سکتی ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت بڑے گھر میں رہنے کے باوجود عورت ہی رہتی ہے۔ بڑے گھر میں آنے سے حقیقی عظمت پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن باین ہمہ ازواج نبی انتہائی قابل عزت ، قابل تکریم ہیں کوئی ایسا کلمہ نہ کہا جائے جو عظمت کے منافی ہو۔ خداوند عالم نے ایک طرف ازواج کی طرف سے رسول اعظم کے خلاف سازش۔ دل کا ٹیڑھا ہونے کا تذکرہ کیا ہے دوسری طرف نوح و لوط کی بیویوں کی مخالفت اور کفر کا ذکر کیا نیز زوجۂ فرعون کی عظمت اور مادر عیسیٰ کی تکریم و ثناء کر کے واضح کیا ہے کہ صرف کسی نبی کی زوجہ ہو نا کافی نہیں اصل میں دیکھنا یہ ہو گا کہ فرامین خداوندی پر کس قدر عمل ہوا۔ ارتباط بہ خدا کس قدر ہے نبی کی اطاعت کا پیمانہ کیا ہے۔ مثبت پہلو رکھنے والی زوجہ انتہائی عظیم۔ منفی پہلو رکھنے والی زوجہ اپنی سزا کی مستحق۔

حضرت فاطمۃ الزہراء

رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی اکلوتی بیٹی ، پر عظمت بیٹی ، معصومہ بیٹی جس کی رضا خدا کی رضا، جس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی، باپ کا میوہ دل، جس کے متعلق حضور کا فرمان۔ فاطمہ ہی ام ابیہا۔ بغقہ منی میرا ٹکڑا۔مھجۃ قلبی۔ دل کا ٹکڑا۔ جس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کی عظمت و طہارۃ قرآن میں مذکور۔ جناب فاطمہ زہراء کی عظمت کا ذکر قرآن مجید کر رہا ہے، سیدہ زہراء سلام علیہا کو قرآن نے مصطفی (فاطر۔ ۳۲) مرتضیٰ (جن، ۲۷) مجتبیٰ (آل عمر ان : ۱۷۰) اور پھر اذہاب رجس اور یطرکم تطہیرا سے نوازا گیا(احزاب : ۳۳) ۔ فاطمہ زہرا ، ان کے شوہر اور ان کی اولاد کی محبت اجررسالت قرار پائی۔ (شوریٰ ۲۳) نصاریٰ نجران کے مقابل میں مباہلہ میں شرکت۔

( اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَاتَکُنْ مِّنْ الْمُمْتَرِینَ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْهِ مِنْم بَعْدِمَا جَائَکَ مِّنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم ْوَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَة الله عَلَی الْکَاذِبِیْنَ )

(آل عمران ۶۱) زہرا ،حسین و زینب کبری کی ماں جنہوں نے جان و چادر دیکر اسلام کو زندۂ و جاوید بنا دیا۔ فدک کی مالک فاطمہ ، دربار میں خطبہ دینے والی فاطمہ ، پانی جس کا حق مہر فاطمہ ، جس کی تزویج پہلے عرش عُلیٰ پر پھر زمین پر ہوئی۔ فاطمہ ، بس فاطمہ۔ فاطمہ ،فاطمہ ہی ہے، فاطمہ و اولاد فاطمہ اللہ کے محبوب۔ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے۔ جنہوں نے بچے دئیے ، بھتیجے دئیے، بھانجے دئیے، بھائی دئیے، اصحاب و انصار دئیے ، جان کا نذرانہ پیش کیا۔ چادر دی، ہتکڑیاں و طوق پہنے جن کے ہاتھ پس پشت باندھے گئے۔ سیدانیوں کو درباروں ، بازاروں میں پھرایا گیا۔ سب کچھ برداشت ، سب کچھ قبول۔کیوں؟ اسلام بچ جائے۔ انسانیت کی عظمت محفوظ رہے۔ انسانیت کی محافظ ، فاطمہ بنت فاطمہ ، اولاد فاطمہ۔ زینب (عورت) کی عظمت کہ حسین کے کارنامہ کو بازاروں ، درباروں میں خطبہ دے کے واضح و آشکار کیا۔ جب بھی عورت کی عظمت میں تذبذب ، شک ہو تو زینب ، رباب ، ام لیلیٰ ، کلثوم ، سکینہ کے کارنامے دیکھ لیا کرو۔ گردن جھک جائے گی۔ مرد قوام علی النساء۔ لیکن فاطمہ فاطمہ ہے۔ زینب زینب ہے۔ ان کی برابری کیسے ہو؟ عورت بیٹی ، زوجہ ، والدہ بیٹی اللہ کی طرف سے رحمت اور بیٹا نعمت ہے۔نعمت سے رحمت کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے رحمت ہی سے نظام چل رہا ہے۔ باران رحمت انسانی زندگی کے لیے عظیم تحفہ ہے بہرحال قرآن رحمت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )رحمت ، رحمت جباریت و قہاریت سے زیادہ وسیع ہے اور بیٹی بھی رحمت۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :

( إِذْ قَالَتِ امْرَأة عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ وَضَعْتُهَا أُنْثٰی وَالله أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنْثٰی وَإِنِّیْ مَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیْذُهَا بِکَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَهَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ یَامَرْیَمُ أَنّٰی لَکِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ الله إِنَّ الله یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ )

"(اور وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں وہ اور باتوں سے آزاد ہو گا تو میری طرف سے قبول فرما بے شک تو بڑا سننے والا۔ جاننے والا ہے۔ پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی، مالک۔ میں نے تو بیٹی جنی ہے۔ اللہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ جو اس (مادر مریم )نے جنا۔ اور بیٹا اس بیٹی جیسا نہیں ہو سکتا اور میں نے اس (بیٹی)کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اسکے رب نے اسکی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول کیا اوار اس کی بہترین نشوونما کا اہتمام کیا اور زکریا کو اس کا سر پر ست بنا دیا جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں آتے تو اسکے پاس طعام موجود پاتے پوچھا اے مریم یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے۔ وہ کہتی اللہ کے ہاں سے۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔" )سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۵ ۔ ۳۶ ۔ ۳۷ ۔( عام طور پر نذر لڑکوں کی ہوتی ہے ادر مریم بھی پریشان ہوئی لیکن اللہ نے اس کی نذر کو بوجہ احسن قبول فرمایا ارشا د ہو ایس الذکر کالانثی یعنی لڑکا ،لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا معلوم ہوا کہ بیٹی کی اہمیت اس کام میں بھی (جس کی نذر کی تھی)بیٹے سے کم نہیں ہے کہ جسے بوجہ احسن قبول فرمایا گیا۔ پھر جب زکریاجیسے نبی ہی کھانا و طعام ملاحظہ فرماتے ہیں تو اللہ کی طرف سے ان نعمات کی آمد پر شکر بجا لاتے۔ بیٹی کی عظمت کی دلیل بیٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خدا نے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کو بیٹی ہی دی۔ صرف ایک بیٹی۔ لیکن وہ اس عظمت کی مالک کہ جب تشریف لاتیں تورسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) بنفس نفیس تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ جب ارشاد رب العزت ہوا: وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّہ۔ "قریبی رشتہ داروں کو انکا حق دیا کرو۔" (بنی اسرائیل: ۲۶) تب رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وا ٓلہ وسلم )نے جناب فاطمہ الزہرا کو فدک دے دیا۔ الدر المنثور جلد ۴ ص ۳۲۰ روایت حضرت ابن عباس۔ اسی طرح ارشاد رب العزت ہے:( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّة فِی الْقُرْبَی ) "کہہ دیجیے کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔" ( سورۂ شوریٰ: ۲۳ ) اس آیت میں بھی قربت کا محور جناب سیدہ ہیں۔ مزید ارشاد رب العزت ہے:( إِنَّمَا یُرِیْدُ الله لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا ) ۔ "اے اہل بیت اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ "( سورہ احزاب: ۳۳ ) آیت تطہیر کا محور بھی جناب سیدہ دختر رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہیں چنانچہ وقت تعارف کہا گیا ہے ہم فاطمۃ وابوھا وبعلھا وبنوھا یعنی مرکز تعارف بیٹی ہی بن رہی ہے۔ عورت( بیٹی) کا مقام سیدہ زینب بنت علی کیوں نہ ایک اور بیٹی کا ذکر بھی کر دیا جائے جس نے باپ کے زانو پر بیٹھے ہوئے پوچھا تھا بابا آپ کو ہم سے محبت ہے۔ حضرت نے فرمایا تھا جی ہاں عرض کی یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سے محبت بھی ہو اور بیٹی سے محبت بھی ہو پھر خود کہا ہاں۔ اللہ سے محبت۔ بیٹی اور اولاد پر شفقت ہے۔ کیا کہنا عظمتِ ثانی زہرا ء۔ کیا شان ہے دختر مرتضی کی جس نے اپنے خطبات سے اسلام کو زندہ و پائندہ بنا دیا۔ حق کو روز روشن کی طرح پوری دنیا کے سامنے واضح کیا کہ حسین۔باغی نہیں نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہے بہرحال تم بیٹی یعنی عورت کو کم درجہ کی مخلوق نہ سمجھو مرد کے کام کی تکمیل عورت ہی کرتی ہے عورت و مرد کا کوئی فرق نہیں ہے۔ معیار ِتفاضل صرف تقویٰ اور ارتباط بہ خدا ہے۔ عورت زوجہ شادی اور تزویج فطرت کی تکمیل ہے۔ حدیث میں ہے کہ شادی کے بغیر مرد کا دین آدھا ہے تزویج سے اسکے دین کی تکمیل ہو گی۔ بعض روایات میں غیر شادی شدہ مرد کو بد ترین کہا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ شرا ء کم عزابکم تم میں سے بد ترین افراد غیر شادی شدہ ہیں۔(تفسیر مجمع البیان ) شادی ہی سے اجتماعیت کا تصور پید ا ہوتا ہے اس وقت انسان خود سے ہٹ کر سوچنے کاسلسلہ شروع کرتا ہے۔قرآن مجید نے دعا کی تلقین کی ہے اے انسان یہ دعا طلب کیاکر :( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّة أَعْیُنٍ ) "پروردگار ہماری ازواج اور ہماری اولا دسے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما۔" (سورہ فرقان : ۷۴) ارشاد رب العزت ہے:( وَأَنْکِحُوْا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِهِمُ الله مِنْ فَضْلِه وَالله وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) "تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں۔ اور تمہارے غلاموں کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر د ے گا اور اللہ بڑا وسعت والا علم والا ہے۔" (سورہ نور: ۳۲) انسانیت کی بقا کے لیے سلسلہ تناسل کا جاری رہنا ضروری ہے سلسلہ تناسل کے لیے عورت اسکا لازمی جز و ہے۔انسانیت کی بقا ء مرد و عورت دونوں کی مرہون منت ہے مرد کی طرح عورت بھی اہمیت رکھتی ہے۔عورت کا وجود لازمی اور ضروری ہے۔ اس لیے حکم دیاگیاکہ بے نکاح لوگوں کے نکاح کرو یعنی ایسے اسباب مہیا کرو کہ ان کی شادی ہو سکے نکاح کے اسباب وسائل مہیا کرو تا کہ صالح مرد اور صالحہ عورتوں کے ملاپ سے انسانیت کی بقاء ہو۔ بہرحال اسلام نے بہترین توازن پیدا کیا اور ایسا نظام دیا جس میں ان دونوں کی عزت ،عظمت اور اہمیت ظاہر رہے۔ خطبہ طلب زوجہ بھی (شادی کرنے کی خواہش کا اظہار)مرد کی طرف سے ہے برات مرد کی طرف سے ہے لیکن برأت کے آنے سے نکاح کا صیغہ عورت کی طرف سے ہو گا۔گویا عورت برات کا استقبال کر رہی ہے۔ ایجاب عورت کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اب اس عزت و احترام کے ساتھ عورت کا ور ود مرد کے گھر میں ہوتا ہے تاکہ عورت (زوجہ ) کی اہمیت واضح ہو جائے۔ مرد سمجھے کہ کسی نے اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے پاس امانت کے طور پر رکھوایا ہے۔ اسی لیے تو اس لڑکی کا باپ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری امانت آپ کے حوالے ہے۔

٭٭٭

حضرت مریم

ماں نے نذر مانی خیال تھا بیٹا ہو گا مگر حضرت مریم کی ولادت ہوئی۔ اللہ نے بیٹی کو بھی خدمت بیت المقدس کے لئے قبول کر لیا۔( وَإِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیذُهَا بِکَ ) ۔ "میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا۔ میں اسے شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (آل عمران: ۳۶) پھر بڑی ہو گئیں۔ خدا کی طرف سے میوے آتے۔ ذکریا پوچھتے۔ بتاتیں۔ من عنداللہ۔ اللہ کی طرف سے ہیں۔حتیٰ کہ جوان ہو گئیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذَ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِیًّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّلَمْ اَ کُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَلِنَجْعَلَه آیَة لِّلنَّاسِ وَرَحْمَة مِّنَّا وَکَانَ أَمْرًا مَقْضِیًّا فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِه مَکَانًا قَصِیًّا فَأَجَائَهَا الْمَخَاضُ إِلٰی جِذْعِ النَّخْلَة قَالَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا وَهُزِّیْ إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَة تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّی عَیْنًا فَإِمَّا تَرَیِنَ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِی إِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا فَأَتَتْ بِه قَوْمَهَا تَحْمِلُه قَالُوْا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَاأُخْتَ هَارُوْنَ مَا کَانَ أَبُوْکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ الله آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَّجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنْتُ وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاة وَالزَّکَاة مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ ) ( أُبْعَثُ حَیًّا )

"( اے محمد) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔ یوں انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا۔ تب ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مریم نے کہا۔ اگر تو پرہیز گار ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس نے کہا میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں۔ تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔ مریم نے کہا۔ میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا۔ مجھے تو کسی بشر نے چھوا تک نہیں۔ اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا۔ اسی طرح ہو گا۔ آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ تو میرے لئے آسان ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لئے نشانی قرار دیں۔ اور وہ ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ تھا اور مریم اس بچہ سے حاملہ ہو گئیں اور وہ اسے لیکر دور چلی گئیں۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں۔ اے کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔ فرشتے نے مریم کے پیروں کے نیچے سے آواز دی غم نہ کیجئے آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک چشمہ جاری کیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلائیں تو آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ پس آپ کھائیں پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہہ دیں۔ میں نے رحمان کی نذر مانی ہے۔ اس لئے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں۔ لوگوں نے کہا اے مریم۔ تو نے غضب کی حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن۔ نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔ "پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگ کہنے لگے ہم اس کیسے بات کریں۔ جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہے۔ بچے نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا ہے۔۔ اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔" (مریم: ۱۶ تا ۳۳) حضرت مریم خدا کی خاص کنیز۔بیت المقدس میں ہر وقت رہائش۔ اللہ کی طرف سے جنت کے کھانے و میوے۔ برگزیدہ مخلوق۔ بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوئی۔ ۳ گھنٹہ یا ۳ دن کے بچے نے اپنی نبوت اپنی کتاب اور اپنے بابرکت ہونے کی خبر دے کر کے اپنی والدہ ماجدہ کی عصمت کی گواہی دی اور بتایا مجھے والدہ ماجدہ سے بہترین سلوک کا حکم ملا ہے۔ پھر مریم کے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری ہوا۔ خشک درخت سے تر و تازہ کھجوریں۔یہ اللہ کی طرف سے اظہار ہے کہ جو میرا بن جائے خواہ عورت ہو یا مرد۔ میں اس کا بن جاتا ہوں ، عزت کی محافظت میرا کام، اشکالات کے جوابات میری طرف سے اور وہ سب کو ایسے برگزیدہ لوگوں (مرد ہو یا عورت)کے سامنے جھکا دیتا ہے۔تو میرے سامنے جھک جا۔دنیا تیرے سامنے سرنگوں ہو گی۔ حضرت مریم کی تعریف و ثناء ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله اصْطَفَاکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ یَامَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ )

"اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں سے برگزیدہ کیا ہے اے مریم اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔" (آل عمران : ۴۲ ۔ ۴۳)

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَة مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَة وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَتْ رَبِّ أَنّٰیْ یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ الله یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضٰی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَة وَالتَّوْرَاة ) ( وَالْإِنجِیْلَ ) ۔

" جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا وہ دنیا و آخرت میں آبرو مند ہو گا اور مقرب لوگوں میں سے ہو گا اور وہ لوگوں سے گہوارہ میں گفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہو گا۔ مریم نے کہا۔ پروردگار! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرمایا ایسا ہی ہو گا۔ اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے۔ جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے۔ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا۔" (آل عمران : ۴۵ ۔ ۴۸) اللہ حضرت مریم کو طاہرہ، منتخب ہو اور پاکیزہ ہونے کی سند کے ساتھ عالمین کی عورتوں کی سردار قرار دے رہا ہے۔ کلمۃ اللہ۔ روح اللہ کی ماں اعجاز خدا کا مرکز۔ طہارۃ و پاکیزگی کا مرقع ایسے ان لوگوں کی اللہ تعریف کرتا ہے مرد ہو یا عورت۔ "عورت بھی خدا کی معزز مخلوق ہے۔"

ازواج نبی اعظم

ارشاد رب العزت:( النَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں۔" (احزاب : ۶) ازواج میں بدکرداری و زنا وغیرہ کا تصور نہیں۔ حرم رسول ہیں۔ ا ن میں اس طرح کی خرابی نہیں ہو سکتی۔ ارشاد رب العزت :

( إِنَّ الَّذِیْنَ جَائُوْا بِالْإِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَاتَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْهُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَه مِنْهُمْ لَه عَذَابٌ عَظِیْمٌ لَوْلاَإِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَیْرًا وَّقَالُوا هَذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌ لَوْلاَجَائُوْا عَلَیْهِ بِأَرْبَعَة شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوْا بِالشُّهَدَاءِ فَأُوْلٰئِکَ عِنْدَ الله ) ( هُمُ الْکَاذِبُوْنَ ) ۔

"جو لوگ بہتان باندھتے ہیں وہ یقیناً تمہارا ہی ایک گروہ ہے۔ اسے اپنے لئے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کا اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے اس میں سے بڑا بوجھ اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے۔ وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے۔ اب چونکہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔" (نور: ۱۱ تا ۱۳) نبی اعظم کی زوجہ (عورت) پر تہمت لگی تو سختی کے ساتھ دفاع کیا گیا تاکہ عورت کی عظمت پر داغ نہ لگ جائے اور مومن مردوں کے ساتھ مومنہ عورتوں سے بھی کہا گیا آپ لوگوں کی پہلی ذمہ داری تھی کہ دفاع کرتے۔ احکام میں دونوں برابر۔(مرد و عورت) اللہ کے احکام امہات المومنین کے نام۔ لیکن ان میں سب عورتیں شریک ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاة الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا وَإِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الله وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْآخِرَة فَإِنَّ الله أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَة مُّبَیِّنَة یُّضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی الله یَسِیْرًا وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُولِه وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا کَرِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنَ اتَّقَیْتُنَّ فَلَاتَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِه مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّة الْأُوْلٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاة وَآتِیْنَ الزَّکَاة وَأَطِعْنَ الله وَرَسُولَه ) ۔

"اے نبی اپنی ازواج سے کہہ دیجئے۔ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کرشائستہ طریقہ سے رخصت کر دوں۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائیگا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے اور تم میں سے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو (غیروں کے ساتھ) نرم لہجہ میں باتیں نہ کرنا کہ کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔اور اپنے گھر میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کے طریقت سے اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو۔ نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ " (احزاب: ۲۸ تا ۳۳ ) ان آیات میں بعض چیزوں سے روکا گیا اور بعض کا حکم دیا گیا تاکہ غلط روی سے عورت بچ جائے اور فضائل و کمالات سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس میں کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے۔ قرآن مجید نے ازواج نبی میں سے دو کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ اپنی طرف سے تبصرہ کے بجائے آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ارشاد رب العزت۔

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ الله لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاة أَزْوَاجِکَ وَالله غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ قَدْ فَرَضَ الله لَکُمْ تَحِلَّة أَیْمَانِکُمْ وَالله مَوْلَاکُمْ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِه حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِه وَأَظْهَرَهُ الله عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَه وَأَعْرَضَ عَنْم بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِه قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِیْ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ عَسٰی رَبُّه إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَه أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَّأَبْکَارًا ) ۔

"اے نبی ! تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے۔(کیا اس لئے) کہ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو۔ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمہارا مولیٰ اور وہی علیم و حکیم ہے۔ (ترجمہ آیات از تفہیم القرآن مولانا مودودی ) (اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی۔ پھر جب اس بیوی نے (کسی اور ) وہ راز ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی کو اس (افشاء راز) کی اطلاع دیدی۔ تو نبی نے اس پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے در گزر کیا۔ پھر جب نبی نے اسے (افشاء راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی۔ نبی نے کہا۔ مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے۔ اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔ بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے۔ تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے۔ جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان ، باایمان ، اطاعت گزار ، توبہ گزار، عبادت گزار اور روزہ دار۔ خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔ جناب مولانا مودودی کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے (اور باقی تراجم بھی اسی طرح ہی ہیں) کہ حال پتلا ہے کچھ اچھا نہیں۔ خدا خیر کرے۔ ( ۱۴) جناب خدیجۃ الکبریٰ (زوجۂ رسول اعظم ) واقعاً ایک تاریخ ساز خاتون جس نے گھر میں بیٹھ کر تجارت کی۔ مختلف دیار اور امصار میں پھیلی ہوئی تجارت کو سنبھالے رکھا۔ سب سے زیادہ مالدار۔ لیکن عرب شہزادوں ، قبائلی سرداروں اور رؤساء کے پیغام ہائے عقد کو ٹھکرا کر رسول اعظم سے ازدواج کیا اور عورت کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے۔ عورت کھلونا نہیں۔ عورت عظمت ہے۔ عورت شرافت ہے۔ عورت جانتی ہے کہ میرا شوہر کون ہو سکتا ہے۔ سب کو ٹھکرا دیا کسی کی خوبصورتی، مالدار ہونا سامنے نہیں رکھا بلکہ نور الہی کو پسند کر کے اللہ و رسول کی خوشنودی کو ترجیح دی۔ واہ رے تیری عظمت اے خدیجہ! خویلد کے اس معزز ترین خاندان کی فرد۔ جو تین پشتوں کے بعد چوتھی میں رسول اعظم سے مل جاتا ہے۔ تزویج سے قبل طاہرہ و سیدۂ قریش کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔

قال زبیر کانت تدعٰی فی الجاھلیہ طاہرہ استیعاب برحاشیہ اصابہ جلد ۴ ص ۲۷۹ کانت تدعی فی الجاھلیۃ بالطاہرہ و کان قیل لہا السیدہ قریش۔

(سیرت حلبیہ جلد ۱ ، ص ۱۸۷) حضور مدنی زندگی میں اکثر خدیجہ کا ذکر کرتے رہتے اور فرماتے تھے۔: رزقنی ا لله اولادھا و حرمنی اولاد النساء۔ خدا نے خدیجہ سے مجھے اولاد عطا کی جب کہ اور عورتوں سے نہیں ہوئی، کبھی ارشاد فرماتے : آمنت اذا کفرالناس و صدقتنی اذکذبنی الناس۔ (اصابہ جلد ۴ ص ۲۸۳) وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب کہ لوگ منکر تھے اور انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے۔ تربیتی انداز میں قرآن مجید کی آیات( جن میں امہات المومنین ازواج نبی کو بعض چیزوں سے منع اور بعض کا حکم دیا گیا ہے) مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت خدیجہ اس قدر تربیت یافتہ۔ سلیقہ شعار۔ خدا و رسول کے فرامین پر عمل پیرا۔ رسول اعظم کے اشاروں و کنایوں کو سمجھنے والی۔ رسول اعظم کی قلبی راز دار۔ کہ ان کے زمانہ میں ایسے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ خود عاملہ صالحہ مومنہ کاملہ تھیں۔ تاریخ عالم میں برگزیدہ و عظیم خواتین گزری ہیں لیکن رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے معیار (بہترین عادات و خصائل۔ اعلیٰ خدمات اور عظیم قربانیوں کے عنوان سے) چار عورتیں ہی پوری اتریں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیر نساء العالمین اربع۔ مریم بنت عمران و ابنۃ مزاح، امراۃ فرعون و خدیجہ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد۔ (استیعاب بر حاشیہ اصابہ۔ جلد ۴ ، ۳۸۴) نوٹ: مریم بنت عمران، اینہ مزا، زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد یہ پانچ خواتین ہوتی ہیں جبکہ حدیث مین چار بتائی گئی ہیں۔ ( ۱۵) امہات المومنین میں سے زینب بنت جحش جناب زینب کے ساتھ حضور کی تزویج بڑا مشکل اور حساس مسئلہ ہے اللہ کے حکم ہی نے اس مسئلہ کو انتہا تک پہنچایا ، یہ تزویج اللہ کی طرف سے ہوئی۔ جناب زینب فرمایا کرتی تھیں: میرے جیسا کون ہے سب کی شادیاں رسول اعظم کے ساتھ ان کی خواہش یا والدین کی طرف سے ہوئیں اور میری تزویج براہ راست خدا کی طرف سے ہے۔ جناب زینب حضور کی پھوپھی زادہ ، خاندان بنی ہاشم کی چشم و چراغ۔ لیکن حضور نے خود ان کی تزویج اپنے آزاد کردہ غلام اور پھر جس کو متبنیٰ (منہ بولے بیٹے ) زید بن حارث کے ساتھ کی۔ کافی دیر ملا پ رہا لیکن اختلاف بھی رہا۔ بالآخر انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ کا حکم ہوا کہ حضور شادی کر لیں۔ اب مشکل درپیش ہے۔ ۱ ۔ متبنی۔(منہ بولے بیٹے) کی زوجہ سے شادی کا فیصلہ ۲ ۔ آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے شادی وہ بھی حضور کی۔ لیکن اللہ کا ارادہ حکم بن کر آیا اور خدا کی طرف سے شادی ہو گئی۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ أَنْعَمَ الله عَلَیْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ الله وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا الله مُبْدِیْهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَالله أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا لِکَیْ لاَیَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ الله مَفْعُوْلًا مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ الله لَه سُنَّة الله فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَکَانَ أَمْرُ الله قَدَرًا مَّقْدُوْرًا ) ۔

"اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہہ رہے تھے۔ اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔ پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی۔ تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے۔ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔"نبی کے لئے اس (عمل کے انجام دینے میں) کوئی مضائقہ نہیں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے۔ جو (انبیاء) پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے۔ اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔" (سورہ احزاب آیت ۳۷ ۔ ۳۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی عظیم شخصیت اور سب سے برتر اور معزز شخصیت حضور کی ذات ہے۔ بعد از خدا توئی قصہ مختصر حضور کی محبت کا تقاضا۔ ان کے متعلقین سے پیار اور ان کی عزت کرنا ہے۔ لہٰذا ازواج نبی عزت و عظمت کی مالک ہیں۔ اللہ نے ان کودو خصوصیات عطا کی ہیں۔ ۱ ۔ ازواج نبی۔ مومنین کی مائیں ہیں۔( وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔( سورہ احزاب آیت ۶) ۲ ۔ نبی کی ازواج سے اگرچہ طلاق ہو جائے کسی کو شادی کا حق نہیں۔( وَلَاأَنْ تَنْکِحُوْا أَزْوَاجَه مِنْم بَعْدِه أَبَدًا ) ۔ سورہ احزاب آیت ۵۳ اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بے اعتدالی اور حد سے تجاوز ان سے بھی ہوا ہے حکم تھا کہ گھر میں جم کر بیٹھی رہو۔( وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ الله وَالْحِکْمَة إِنَّ الله کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ) ۔ "اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے۔ اللہ یقیناً باریک بین خوب باخبر ہے۔" (احزاب۔ ۳۴) لیکن گھر سے باہر جانا ہوا حوأب کے کتوں نے بھونکتے ہوئے متوجہ کیا، پھر جنگ جمل کی کمان ، نبی اعظم کے خلاف جتھہ بندی۔ سازش، اللہ کی طرف سے دل ٹیڑھے ہونے کا تذکرہ۔( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ ) (سورہ تحریم: ۴) اللہ کی طرف سے دھمکی آمیز فرمان ،تم کو طلاق بھی ہو سکتی ہے اور تم سے بہتر ازواج مل سکتی ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت بڑے گھر میں رہنے کے باوجود عورت ہی رہتی ہے۔ بڑے گھر میں آنے سے حقیقی عظمت پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن باین ہمہ ازواج نبی انتہائی قابل عزت ، قابل تکریم ہیں کوئی ایسا کلمہ نہ کہا جائے جو عظمت کے منافی ہو۔ خداوند عالم نے ایک طرف ازواج کی طرف سے رسول اعظم کے خلاف سازش۔ دل کا ٹیڑھا ہونے کا تذکرہ کیا ہے دوسری طرف نوح و لوط کی بیویوں کی مخالفت اور کفر کا ذکر کیا نیز زوجۂ فرعون کی عظمت اور مادر عیسیٰ کی تکریم و ثناء کر کے واضح کیا ہے کہ صرف کسی نبی کی زوجہ ہو نا کافی نہیں اصل میں دیکھنا یہ ہو گا کہ فرامین خداوندی پر کس قدر عمل ہوا۔ ارتباط بہ خدا کس قدر ہے نبی کی اطاعت کا پیمانہ کیا ہے۔ مثبت پہلو رکھنے والی زوجہ انتہائی عظیم۔ منفی پہلو رکھنے والی زوجہ اپنی سزا کی مستحق۔

حضرت فاطمۃ الزہراء

رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی اکلوتی بیٹی ، پر عظمت بیٹی ، معصومہ بیٹی جس کی رضا خدا کی رضا، جس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی، باپ کا میوہ دل، جس کے متعلق حضور کا فرمان۔ فاطمہ ہی ام ابیہا۔ بغقہ منی میرا ٹکڑا۔مھجۃ قلبی۔ دل کا ٹکڑا۔ جس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کی عظمت و طہارۃ قرآن میں مذکور۔ جناب فاطمہ زہراء کی عظمت کا ذکر قرآن مجید کر رہا ہے، سیدہ زہراء سلام علیہا کو قرآن نے مصطفی (فاطر۔ ۳۲) مرتضیٰ (جن، ۲۷) مجتبیٰ (آل عمر ان : ۱۷۰) اور پھر اذہاب رجس اور یطرکم تطہیرا سے نوازا گیا(احزاب : ۳۳) ۔ فاطمہ زہرا ، ان کے شوہر اور ان کی اولاد کی محبت اجررسالت قرار پائی۔ (شوریٰ ۲۳) نصاریٰ نجران کے مقابل میں مباہلہ میں شرکت۔

( اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَاتَکُنْ مِّنْ الْمُمْتَرِینَ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْهِ مِنْم بَعْدِمَا جَائَکَ مِّنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم ْوَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَة الله عَلَی الْکَاذِبِیْنَ )

(آل عمران ۶۱) زہرا ،حسین و زینب کبری کی ماں جنہوں نے جان و چادر دیکر اسلام کو زندۂ و جاوید بنا دیا۔ فدک کی مالک فاطمہ ، دربار میں خطبہ دینے والی فاطمہ ، پانی جس کا حق مہر فاطمہ ، جس کی تزویج پہلے عرش عُلیٰ پر پھر زمین پر ہوئی۔ فاطمہ ، بس فاطمہ۔ فاطمہ ،فاطمہ ہی ہے، فاطمہ و اولاد فاطمہ اللہ کے محبوب۔ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے۔ جنہوں نے بچے دئیے ، بھتیجے دئیے، بھانجے دئیے، بھائی دئیے، اصحاب و انصار دئیے ، جان کا نذرانہ پیش کیا۔ چادر دی، ہتکڑیاں و طوق پہنے جن کے ہاتھ پس پشت باندھے گئے۔ سیدانیوں کو درباروں ، بازاروں میں پھرایا گیا۔ سب کچھ برداشت ، سب کچھ قبول۔کیوں؟ اسلام بچ جائے۔ انسانیت کی عظمت محفوظ رہے۔ انسانیت کی محافظ ، فاطمہ بنت فاطمہ ، اولاد فاطمہ۔ زینب (عورت) کی عظمت کہ حسین کے کارنامہ کو بازاروں ، درباروں میں خطبہ دے کے واضح و آشکار کیا۔ جب بھی عورت کی عظمت میں تذبذب ، شک ہو تو زینب ، رباب ، ام لیلیٰ ، کلثوم ، سکینہ کے کارنامے دیکھ لیا کرو۔ گردن جھک جائے گی۔ مرد قوام علی النساء۔ لیکن فاطمہ فاطمہ ہے۔ زینب زینب ہے۔ ان کی برابری کیسے ہو؟ عورت بیٹی ، زوجہ ، والدہ بیٹی اللہ کی طرف سے رحمت اور بیٹا نعمت ہے۔نعمت سے رحمت کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے رحمت ہی سے نظام چل رہا ہے۔ باران رحمت انسانی زندگی کے لیے عظیم تحفہ ہے بہرحال قرآن رحمت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )رحمت ، رحمت جباریت و قہاریت سے زیادہ وسیع ہے اور بیٹی بھی رحمت۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :

( إِذْ قَالَتِ امْرَأة عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ وَضَعْتُهَا أُنْثٰی وَالله أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنْثٰی وَإِنِّیْ مَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیْذُهَا بِکَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَهَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ یَامَرْیَمُ أَنّٰی لَکِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ الله إِنَّ الله یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ )

"(اور وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں وہ اور باتوں سے آزاد ہو گا تو میری طرف سے قبول فرما بے شک تو بڑا سننے والا۔ جاننے والا ہے۔ پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی، مالک۔ میں نے تو بیٹی جنی ہے۔ اللہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ جو اس (مادر مریم )نے جنا۔ اور بیٹا اس بیٹی جیسا نہیں ہو سکتا اور میں نے اس (بیٹی)کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اسکے رب نے اسکی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول کیا اوار اس کی بہترین نشوونما کا اہتمام کیا اور زکریا کو اس کا سر پر ست بنا دیا جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں آتے تو اسکے پاس طعام موجود پاتے پوچھا اے مریم یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے۔ وہ کہتی اللہ کے ہاں سے۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔" )سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۵ ۔ ۳۶ ۔ ۳۷ ۔( عام طور پر نذر لڑکوں کی ہوتی ہے ادر مریم بھی پریشان ہوئی لیکن اللہ نے اس کی نذر کو بوجہ احسن قبول فرمایا ارشا د ہو ایس الذکر کالانثی یعنی لڑکا ،لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا معلوم ہوا کہ بیٹی کی اہمیت اس کام میں بھی (جس کی نذر کی تھی)بیٹے سے کم نہیں ہے کہ جسے بوجہ احسن قبول فرمایا گیا۔ پھر جب زکریاجیسے نبی ہی کھانا و طعام ملاحظہ فرماتے ہیں تو اللہ کی طرف سے ان نعمات کی آمد پر شکر بجا لاتے۔ بیٹی کی عظمت کی دلیل بیٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خدا نے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کو بیٹی ہی دی۔ صرف ایک بیٹی۔ لیکن وہ اس عظمت کی مالک کہ جب تشریف لاتیں تورسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) بنفس نفیس تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ جب ارشاد رب العزت ہوا: وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّہ۔ "قریبی رشتہ داروں کو انکا حق دیا کرو۔" (بنی اسرائیل: ۲۶) تب رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وا ٓلہ وسلم )نے جناب فاطمہ الزہرا کو فدک دے دیا۔ الدر المنثور جلد ۴ ص ۳۲۰ روایت حضرت ابن عباس۔ اسی طرح ارشاد رب العزت ہے:( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّة فِی الْقُرْبَی ) "کہہ دیجیے کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔" ( سورۂ شوریٰ: ۲۳ ) اس آیت میں بھی قربت کا محور جناب سیدہ ہیں۔ مزید ارشاد رب العزت ہے:( إِنَّمَا یُرِیْدُ الله لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا ) ۔ "اے اہل بیت اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ "( سورہ احزاب: ۳۳ ) آیت تطہیر کا محور بھی جناب سیدہ دختر رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہیں چنانچہ وقت تعارف کہا گیا ہے ہم فاطمۃ وابوھا وبعلھا وبنوھا یعنی مرکز تعارف بیٹی ہی بن رہی ہے۔ عورت( بیٹی) کا مقام سیدہ زینب بنت علی کیوں نہ ایک اور بیٹی کا ذکر بھی کر دیا جائے جس نے باپ کے زانو پر بیٹھے ہوئے پوچھا تھا بابا آپ کو ہم سے محبت ہے۔ حضرت نے فرمایا تھا جی ہاں عرض کی یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سے محبت بھی ہو اور بیٹی سے محبت بھی ہو پھر خود کہا ہاں۔ اللہ سے محبت۔ بیٹی اور اولاد پر شفقت ہے۔ کیا کہنا عظمتِ ثانی زہرا ء۔ کیا شان ہے دختر مرتضی کی جس نے اپنے خطبات سے اسلام کو زندہ و پائندہ بنا دیا۔ حق کو روز روشن کی طرح پوری دنیا کے سامنے واضح کیا کہ حسین۔باغی نہیں نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہے بہرحال تم بیٹی یعنی عورت کو کم درجہ کی مخلوق نہ سمجھو مرد کے کام کی تکمیل عورت ہی کرتی ہے عورت و مرد کا کوئی فرق نہیں ہے۔ معیار ِتفاضل صرف تقویٰ اور ارتباط بہ خدا ہے۔ عورت زوجہ شادی اور تزویج فطرت کی تکمیل ہے۔ حدیث میں ہے کہ شادی کے بغیر مرد کا دین آدھا ہے تزویج سے اسکے دین کی تکمیل ہو گی۔ بعض روایات میں غیر شادی شدہ مرد کو بد ترین کہا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ شرا ء کم عزابکم تم میں سے بد ترین افراد غیر شادی شدہ ہیں۔(تفسیر مجمع البیان ) شادی ہی سے اجتماعیت کا تصور پید ا ہوتا ہے اس وقت انسان خود سے ہٹ کر سوچنے کاسلسلہ شروع کرتا ہے۔قرآن مجید نے دعا کی تلقین کی ہے اے انسان یہ دعا طلب کیاکر :( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّة أَعْیُنٍ ) "پروردگار ہماری ازواج اور ہماری اولا دسے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما۔" (سورہ فرقان : ۷۴) ارشاد رب العزت ہے:( وَأَنْکِحُوْا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِهِمُ الله مِنْ فَضْلِه وَالله وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) "تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں۔ اور تمہارے غلاموں کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر د ے گا اور اللہ بڑا وسعت والا علم والا ہے۔" (سورہ نور: ۳۲) انسانیت کی بقا کے لیے سلسلہ تناسل کا جاری رہنا ضروری ہے سلسلہ تناسل کے لیے عورت اسکا لازمی جز و ہے۔انسانیت کی بقا ء مرد و عورت دونوں کی مرہون منت ہے مرد کی طرح عورت بھی اہمیت رکھتی ہے۔عورت کا وجود لازمی اور ضروری ہے۔ اس لیے حکم دیاگیاکہ بے نکاح لوگوں کے نکاح کرو یعنی ایسے اسباب مہیا کرو کہ ان کی شادی ہو سکے نکاح کے اسباب وسائل مہیا کرو تا کہ صالح مرد اور صالحہ عورتوں کے ملاپ سے انسانیت کی بقاء ہو۔ بہرحال اسلام نے بہترین توازن پیدا کیا اور ایسا نظام دیا جس میں ان دونوں کی عزت ،عظمت اور اہمیت ظاہر رہے۔ خطبہ طلب زوجہ بھی (شادی کرنے کی خواہش کا اظہار)مرد کی طرف سے ہے برات مرد کی طرف سے ہے لیکن برأت کے آنے سے نکاح کا صیغہ عورت کی طرف سے ہو گا۔گویا عورت برات کا استقبال کر رہی ہے۔ ایجاب عورت کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اب اس عزت و احترام کے ساتھ عورت کا ور ود مرد کے گھر میں ہوتا ہے تاکہ عورت (زوجہ ) کی اہمیت واضح ہو جائے۔ مرد سمجھے کہ کسی نے اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے پاس امانت کے طور پر رکھوایا ہے۔ اسی لیے تو اس لڑکی کا باپ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری امانت آپ کے حوالے ہے۔

٭٭٭


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28