تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25553
ڈاؤنلوڈ: 2459


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25553 / ڈاؤنلوڈ: 2459
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۷۵،۷۶،۷۷،۷۸،

۷۵ ۔( وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُونَنَّ مِنْ الصَّالِحِینَ ) ۔

۷۶ ۔( فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَهُمْ مُعْرِضُونَ )

۷۷ ۔( فَاٴَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِی قُلُوبِهِمْ إِلَی یَوْمِ یَلْقَوْنَهُ بِمَا اٴَخْلَفُوا اللهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ )

۷۷ ۔( اٴَلَمْ یَعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَاٴَنَّ اللهَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ ) ۔

ترجمہ

۷۵ ۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے میں جنھوں نے خدا سے وعدہ کیا ہے کہ اگر خدا ہمیں اپنے فضل و کرم سے رزق دے تو ہم یقینا صدقہ دیں گے اور شکر گذاروں میں سے ہوں گے ۔

۷۶ ۔ لیکن جب اس نے اپنے فضل سے انھیں بخش دیا تو انھوں نے بخل کیا او رنافرمانی کی اور وہ رو گرداں ہو گئے۔

۷۷ ۔ اس عمل نے ان کے دلوں میں نفاق ( کی روح ) کو اس دن تک کے لئے جب وہ خدا کے سامنے ہوں گے ۔

۷۸ ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ خدا ان کے بھیدوں او رسر گوشیوں کو جانتا ہے خدا سب چھپی ہوئی باتو ں سے آگاہ ہے ۔

شان نزول

مفسرین میں مشہور ہے کہ یہ آیتیں ایک انصاری ثعلبہ بن حاطب کے بارے میں نازل ہوئی وہ ایک غریب آدمی تھا ۔ روزانہ مسجد میں آیا کرتا تھا کہ اصرار تھا کہ رسول اکرم دعا فرمائیں کہ خدا اس کو مالامال کردے ۔حضور نے اس سے فرمایا:۔قلیل توٴدی شکره خیر من کثیر لاتطیقه

مال کی تھوڑی مقدار کا تو شکر ادا رکر سکے اس مال کی کثرت سے بہتر ہے جس کا تو شکرنہ ادانہ کرسکے ،کیا یہ بہتر نہیں کہ خدا کے پیغمبر کی پیروری کرے اور سادہ زندگی بسر کرے۔

لیکن ثعلبہ مطالبہ کررہا اور آخر کار اس نے پیغمبر اکرم سے عرض کیا کہ میں آپ کو اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ۔ اگر خدا نے مجھے دولت عطافرمائی تو میں اس کے تمام حقوق ادا کروں گا ، چنانچہ آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی۔

ایک روایت کے مطابق زیا دہ وقت نہیں گذرا تھا کہ ان کا ایک چچا زاد بھائی جو بہت مال دار تھا ، فوت ہو گیا اور اسے بہت سی دولت ملی ۔

ایک اور روایت میں ہے کہ اس نے ایک بھیڑ خریدی جس سے اتنی نسل بھی کہ جس کی دیکھ بھال مدینہ میں نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس لے انھیں مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں میں لے گیا او رمادی زندگی میں اس قدر مصروف او رمگن ہو گیا کہ نما جماعت تو کیا جمعہ کی نماز میں بھی نہیں آتا تھا ایک مدت کے بعد رسول اکرم نے زکوٰة وصول کرنے والے خادم کو اس کے پاس زکوٰة لینے کے لئے بھیجا لیکن اس کم ظرف کنجوس نے نہ صرف خد ائی حق کی ادائیگی میں پس و پیش کیا بلکہ شروع پربھی اعتراض کیا او رکہا کہ یہ حکم جزیہ کی طرح ہے یعنی ہم اس لئے مسلمان ہوئے تھے کہ جزیہ سے بچ جائیں ۔اب زکوٰة دینے کی شکل میں ہم میں اور غیروں مسلموں میں کون سا فرق باقی رہ جاتاہے ۔ حالانکہ اس نے نہ جزیہ کا مطلب سمجھا تھا اور نہ زکوٰة کا اور اگر اس نے سمجھا تھاتو دینا پرستی اسے حقیقت کے بیان اور اظہارحق کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔ غرض جب حضرت رسول ِ اکرم نے اس کی باتیں سنیں تو فرمایا :۔

یا ویح ثعلبه ! یا ویح ثعلبه!

”وائے ہو ثعلبہ پر ہلاکت ہوثعلبہ پر “اس وقت مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں

ان آیتوں کے لئے بھی شانِ نزول منقول ہیں جو کم و بیش ثعلبہ کی داستان سے ملتی جلتی ہیں ۔ مذکورہ شانِ نزول اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص یا اشخاص پہلے منافقوں کی صف میں شامل نہ تھے لیکن اس قسم کی اعمال او رکردار کی وجہ سے ان کی ساتھ مل گئے۔

منافق کم ظرف ہوتے ہیں

در اصل یہ آیتیں منافقوں کی ایک بڑی صفت کی نشاندہی کرتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ وہ بے بس ، ناتواں او رفقیر و پریشانی کے وقت تو اس طرح ایمان کا دم بھرتے ہیں کہ کوئی شخص یہ باورہی نہیں کرسکتا کہ وہ کسی دن منافقوں کی صف میں جاکھڑے ہو ں گے ۔ یہاں تک کہ وہ ان لوگوں کی جو وسیع ذرایع آمدنی اور وسائل رکھتے ہیں اس بات پر مذت کرتے ہیں کہ وہ اپنی وسائل سے محروم لوگوں کو کیوں فائدہ نہیں پہنچا تے۔ لیکن جب وہ خود صاحب ِ ثروت ہو جاتے ہیں تو اپنے ہاتھ سمیٹ لیتے ہیں اور دنیا پرستی میں ایسے ڈوب جاتے ہیں کہ خدا کے ساتھ کئے ہوئے سب وعدوں کو بھول جاتے ہیں یعنی ان کی شخصیت بالکل بدل جاتی ہے اور ان کی سوچ میں یکسر تغیر آجاتا ہے ۔

اور یہی وہ کم ظرفی ہے جس کا نتیجہ دنیا پرستی ، کنجوسی اور خود غرضی ہے ۔یوں روح نفاق ان کو اس طرح سے جکڑ لیتی ہے کہ ان کےلئے واپسی کا کوئی راستہ بھی نہیں چھوڑ تی ۔

پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے : بعض منافقین ایسے ہیں جنھوں نے خدا کے ساتھ عہد و پیمان باندھا کہ اگر وہ اپنے فضل و کرم سے ہمیں کچھ عطا فرمائے گا تو ہم یقینا ضرورت مندوں کی مدد کریں گے ۔ اور نیکوں میں سے ہوجائیں گے ۔( وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُونَنَّ مِنْ الصَّالِحِین )

لیکن یہ باتیں وہ اس زمانے میں کیا کرتے تھے جب ان کا ہاتھ خالی تھامگر وقت خدا نے اپنے فضل کرم سے انھیں مالا مال کردیا تو انھوں نے بخل کیا اور نافرماں اور روگرداں ہو گئے( فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَهُمْ مُعْرِضُونَ ) ۔

اس پیمان اور بخل کا یہ نتیجہ نکلا کہ روح ِ نفاق دائمی طور پر مضبوطی کے ساتھ ان کے دل میں راسخ ہو گئی اور اب وہ تا قیامت اور اس کے وقت تک جب وہ خدا سے ملیں گے باقی رہے گی( فَاٴَعْقَبهُمْ نِفَاقًا فِی قُلُوبهِمْ إِلَی یَوْمِ یَلْقَوْنَهُ ) ۔اور یہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے جو وعدہ خدا وند عالم سے کیا تھا اس کی خلاف ورزی کی اس لئے کہ ہمیشہ جھوٹ بولتے رہے( بِمَا اٴَخْلَفُوا اللهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ ) ۔

آخر میں ان کی مذمت کو سر زنش کے طور پر کہا گیا ہے کہ کیا وہ نہیں جانتے کہ خدا انے بھیدوں کو جانتا ہے اور ان کی سر گوشیوں کو سنتا ہے اور وہ خدا سن سے غائب اور چھپے ہوئے امور کو جانتا ہے( اٴَلَمْ یَعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَاٴَنَّ اللهَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ”( فَاٴَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِی قُلُوبِهِمْ ) “سے بخوبی روشن ہے کہ بہت سے گناہوں اور برائیاں یہاں تک کہ کفر و نفاق ایک دوسرے کی علت اور معلوم ہیں کیونکہ مندرجہ بالا جملہ صراحت کے ساتھ بتاتاہے کہ ان کا بخل اور وعدہ شکنی اس بات کا سبب بنی ہے کہ نفاق ان کے دلوں میں طرح طرح کی سازشوں اور فتنوں کا بیج بوئے ۔ یہی صورت دوسرے گناہوں اور غلط کاموں کی ہے ۔ اس لئے بعض کتب میں ہے کہ کبھی کبھی بڑے گناہوں کی وجہ سے انسان دنیا سے بے ایمان ہو کر اٹھتا ہے ۔

۲ ۔ ” یوم یلقونہ“ جس کی ضمیر ” خد اکی طرف لوٹتی ہے ، سے مراد قیامت کا دن ہے کیونکہ ”لقآء الله “ اور اسی قسم کی دوسری تعبیریں عام طور پر قرآن میں قیامت ہی کے بارے میں آئی ہیں یہ درست ہے کہ موت واقع ہونے کے ساتھ ہی عمل کا دور شروع ختم ہو جاتا ہے اور اچھے برے کاموں کا نامہ عمل بند ہ وجاتا ہے لیکن ان کے آثار اسی طرح قیامت تک باقی رہیں گے ۔

البتہ بعض مفسریں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” یلقونہ“ کی ضمیر بخل کی طرف لوٹ تی ہے یعنی جب تک وہ اپنے بخل کا نتیجہ دیکھیں گے سز ا پائیں گے۔

اسی طرح یہ احتمال بھی ہے کہ پروردگار کی ملاقات سے مراد موت کا لمحہ ہے مگر یہ سب احتمالات آیت کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہیں اور ظاہری مفہوم وہی ہے جو ہم لکھ چکے ہیں ۔

اس چیز کے بارے میں کہ پروردگار عالم کی ملاقات سے کیا مراد ہے ۔ سورہ بقرہ کی آیت ۴۶ کے ضمن میں جلد اوّل ( ص ۱۸۳ اردو ترجمہ ) میں ہم نے بحث کی ہے اسے ملاحظہ کیجئے ۔

۳ ۔ زیر نظر آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتوتا ہے کہوعدہ توڑنا اور جھوٹ بولنا منافقوں کی صفاست ہیں اور یہ منافق ہی ہیں جو خدا کے ساتھ اپنے وعدوں کی بڑی تاکید کے ساتھ باندھتے ہیں پھر انھیں پاوں کے نیچے روند ڈالتے ہیں یہاں تک کہ اپنے پروردگار سے جھوٹ بولتے ہیں ۔

ایک مشہور حدیث جو رسول اکرم سے منقول ہے بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہے ۔ حضور نے فرمایا :

للمنافق ثلاث علامات اذا حدث کذب و اذا وعده خلف و اذا ائتمن خان

منافق کی تین علامتیں ہیں ۔ ۱ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ۔ ۲ جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا نہیں کرتا ۔

۳ ۔ جب اس کے پاس امانترکھیں تو اس میں خیانت کرتا ہے ۔(۱)

یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ بالا داستان ( ثعلبہ کا واواقعہ) میں تینوں نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس نے جھوٹ بولا ، وعدہ توڑا اور اس مال میں سے جو خدا نے اپنی امانت کے طور پر دی اتھا خیانت بھی کی ۔

مندرجہ بالا حدیث زیادہ تاکید کے ساتھ کتاب کافی میں حضرت امام جعفر صادق - ذریعے حضرت رسول اکرم سے مروی ہے ، آپ فرماتے ہیں :۔

ثلاث من کن فیه کان منافقاً و ان صام و صلی وزعم انه مسلم من اذاائتمن خان اذا حدث کذب و اذا وعد اخلف

جس شخص میں یہ تین چیزیں ہوں وہ منافق ہے چاہے وہ روزہ اور نماز کا پابند ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے۔ ۱ ۔ امانت میں خیانت کرے ۔ ۲ ۔ بات کرے تو جھوٹ بولے اور ۳ ۔ وعدہ کرکے پھر جائے ۔(۱)

ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی کبھی ایسے گناہ بعض ایماندار لوگوں سے بھی ہوں مگر پھر وہ توبہ کرلیں ۔ لیکن ان گناہوں کا تسلسل اور ہمیشگی روح، نفاق او رمنافقت کی نشانی ہے ۔

۴ ۔ اس نکتہ کو ذہن نشین کرنا بھی ضروری ہے کہ جو کچھ ہم نے مندرجہ بالا آیتوں میں پڑھا ہے وہ صرف ایک گذرے ہوئے زمانہ سے متعلق تاریخی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی اخلاقی اور اجتماعی حقیقت کا بیان ہے جس کے بے شمار نمونے ہر زمانے اور ہرمعاشرے میں کسی استثناء کے بغیر پائے جاتے ہیں ۔

اگر ہم اپنے آس پاس نگاہ ڈالیں ( یہاں تک کہ ہم اپنے آپ کو دیکھیں ) تو ”ثعلبہ بن ھاطب“ کے اعمال اور اس کی سوچ کے نمونے ہمیں مختلف مذہبی چہروں میں ملیں گے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو عام حالات یا گربت میں پکے او رمخلص مومنین کی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں تمام مذہبی پرگراموں میں شرکت کرتے ہیں ، ہر اصلاحی پرچم کے نیچے ماتم کرتے ہیں اور حق و صداقت کی آواز بلند کرنے والے کا ساتھ دیتے ہیں ، نیک کام کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں ہر فساد اور برائی کا مقابلہ کرنے کے لئے آواز بلند کرتے ہیں ۔ لیکن جب دن بدلتے ہیں اور صاحب ثروت ہوجاتا ہیں ،کوئی عہدہ یامقام انھیں حاصل ہو جاتا ہے تو اچانک ان کا چہرہ بدل جاتا ہے خدا ور دین کے بارے میں ان کا شور اور عشق سوزاں مدھم پڑجاتا ہے اور اب وہ اصلاحی اور تربیتی پرگروموں میں نظر نہیں آتے۔ نہ حق کے لئے گر یبان چاک کرتے ہیں اور نہ اب وہ باطل کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ۔

پہلے جب ان کی حیثیت نہ تھی اور نہ معاشرے میں انھیں کوئی مقام حاصل تھا تو خدا او رمخلوق ِ خدا کے ساتھ طرح طرح کے وعدے کرتے تھے کہ اگر کسی دن ہمیں وسائل مل گئے اور ہم کسی مقام پر پہنچ گئے تو یہ کردیں گے اور وہ کردیں گے ۔ یہاں تک کہ وہ صاحب ِ ثروت و اقتدار پر اپنے فرائض انجام نہ دینے پرہزاروں اعتراض کرتے تھے لیکن جس روز جب خود ان کی حالت بدلی تو سب عہدو پیمان بھول گئے اور سب اعتراضات اور نکتہ چینیاں برف کی طرح پانی ہو گئیں ۔

بے شک یہ کم ظرفی منافقوں کی ایک واضح صفت ہے ۔ نفاق ، دوزخی شخصیت اور دوغلہ پن کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ۔ اس قسم کے لوگوں کی تاریخِ حیات، شخصیت کی دورنگی اور دورخی کا بہترین نمونہ ہے ۔ اصولی طور پر صاحب ِ ظرف انسان میں دوغلہ پن نہیں پایا جاتا۔ نیز اس میں شک نہیں کہ ایمان کی طرح نفاق کے بھی کئی مراحل نہیں ۔ بعض لوگوں کی روح میں یہ بری عادت اس طرح راسخ ہو جاتی ہے کہ ان کے دل میں خدا پر ایمان کی طرح نفاق کے بھی کئی مراحل ہیں ۔ بعض لوگوں کی روح یہ بری عادت اس طرح راسخ ہو جاتی ہے کہ ان کے دل میں خدا پر ایمنا کوئی اثر باقی نہیں رہتا اگر چہ وہ اپنے آپ کو مومنین کی صف میں شامل سمجھتے ہیں ۔

جو شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے جبکہ ظاہراً وہ سچا ہے کیا وہ دو پہلو اور دو چہرے رکھنے والا منافق نہیں ہے ۔ جو شخص ظاہری طور پر امین ہے اور ای وجہ سے لوگ اس کا اعتبار کرتے ہیں اور اپنی امانتیں اس کے سپرد کرتے ہیں لیکن در حقیقت وہ ان میں خیانت کرتا ہے کیا و ہ دوزخی شخصیت کا حامل نہیں ہے اسی طرح وہ لوگ عہد و پیمان باندھتے ہیں لیکن کبھی اس کی پاسداری نہیں کرتے ۔ کیا ان کا یہ عمل منافقوں کا سا نہیں ہے ؟

انسانی معاشروں کےلئے ایک عظیم ترین مصیبت اور پس ماندگی کا ایک عامل ایسے منافقوں کا وجود ہے اگر ہم آنکھیں بند نہ کرلیں اور اپنے آپ سے جھوٹ نہ بولیں تو ایسے بہت سے ثعلبہ صفت منافقین ہمیں اپنے گرد و پیش اور اسلامی معاشروں میں نظر آئیں گے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان سب عیوب، ننگ و عار اور اسلامی تعلیمات کی روح سے دوری کے باوجود ہم اپنی پس ماندگی کاگناہ اسلام کی گردن پر ڈالتے ہیں ۔

____________________

۱ مجمع البیان ۔ زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲۔سفینة البحار ج ۲ ص ۶۰۷۔

آیات ۷۹،۸۰

۷۹ ۔( الَّذِینَ یَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِینَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِینَ لاَیَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللهُ مِنْهُمْ وَلَهمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

۸۰ ۔( اسْتَغْفِرْ لَهُمْ اٴَوْ لاَتَسْتَغْفِرْلَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِر لَهمْ سَبْعِینَ مَرَّةً فَلَنْ یَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ ذَلِکَ بِاٴَنَّهُمْ کَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ) ۔

ترجمہ

۷۹ ۔ جو لوگ عبادت گذر مومین کے صدقات کی عیب جوئی کرتے ہیں اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں جو ( تھوڑٰی سی ) مقدار سے زیادہ کی دسترس نہیں رکھتے خدا کا مذاق اڑاتا ہے ( انھیں مذاق اڑانے والوں کی سزا دیتا ہے ) اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

۸۰ ۔ ان کے لئے استغفارکرویا نہ کرو( یہاں تک کہ ) اگر ان کے لئے ستر مرتبہ استغفار کروہ تو خدا انھیں ہر گز نہیں بخشے گا کیونکہ انھوں نے خدا اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور خدا فاسقوں کے گروہ کو ہدایت نہیں کرے گا ۔

شان ِ نزول

ان آیات کی شان ِ نزول کے ضمن میں حدیث اور تفسری کی کتابوں میں روایات نقل ہوئی ہیں ۔ ان تمام روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے رادہ کررکھا تھا کہ دشمن کے مقابلے کےلئے ( احتمالاً جنگ تبوک کے لئے ) لشکر اسلام کو تیار کریں ۔ اس لئے آپ کو لوگوں کے تعاون کی ضرورت تھی ۔جب آپ نے اپنے نظریے کا اظہار کیا تو جو لوگ توانائی رکھتے تھے انھوں نے زکوٰة یابلا عوض مدد کے طور پر لشکر اسلام کی قابل قدر خدمت کی ۔

جو مسلمان مزدور پیشہ تھے ان کی آمدنی تھوڑی تھی ۔ ان میں سے ابو عقیل انصاری یا سالم بن عمیر انصاری نے رات کے وقت کنوئیں سے پانی نکال کر اضافی طور پر مزدوری کی اور اس طرح دومن۔ ۱

کھجور جمع کیں ۔ ان میں سے ایک من اپنے گھر رکھ دیں اور ایک من خدمتِ پیغمبر میں لے آئے ۔ اس طرح انھوں نے ایک عظیم اسلامی مقصد کے لئے بظاہر معمولی سی خدمت انجام دی ۔ اسی طرح اور مزدور پیشہ مسلمانوں نے لشکر اسلام کی خدمت کی ۔

عیب جو منافقین ان دونوں گرہوں پر اعتراض کرتے تھے جن لوگوں نے زیادہ خد مت کی تھی انھیں ریا ر کہتے تھے اور جنھوں نے ظاہراً تھوڑی مدد کی تھی ان تمسخر اڑاتے تھے کہ کیا اسلام کو اس قسم کی مدد کی ضرورت ہے ؟

اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور انھیں سخت دھمکی دی گئی اور عذابِ الٰہی سے ڈرایا گیا۔

____________________

۱۔ یہ ایران کے مرجہ اوزان کے لحاظ سے ہے ۔ ایرانی من ہمارے ہاں کی نسبت کم مقدار کاہوتا ہے (مترجم )

منافقین کی ایک اور غلط حرکت

ان آیات میں منافقین کی ایک عمومی صفت کی طرف اشارہ ہوا وہ یہ کہ وہ ہٹ دھرم ، بہانہ جو ، اور معترض او رکام بگاڑنے والے ہوتے ہیں ، غیر مناسب جوڑ توڑ سے ہر مثبت کام کی تحقیر کرتے ہیں اور اسے برا کرکے پیش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو نیک کام کی انجام دہی میں سست کریں اور دوسرا ان کے افکار و نظر یات میں بد گمانی کے بیج بوئیں تاکہ اس طرح معاشرے میں اصلاحی او رمفید کاموں کا سلسلہ بند ہو جائے ۔

قرآن مجیدشدت سے ان کی اس غیر انسانی روش کی مذمت کرتا ہے او رمسلمانوں کو اس سے آگاہ کرتا ہے تاکہ لوگ ایسی بد گمانیوں کا شکار نہ ہوں اور منافقین کو بھی معلوم ہو جائے کہ اسلامی معاشرے میں ان کی سازشیں رنگ نہیں لاسکتیں ۔

ارشاد ہوتا ہے : وہ جونیک مومنین کے صدقات اور صدقِ دل سے کی گئی امداد میں سے عیب ڈھونڈھتے ہیں اور خصوصاً جوان نادار اہل ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں جو تھوڑی سی مدد کے علاوہ طاقت نہیں رکھتے خدا ان کا مذاق اڑاتا ہے اور دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے( الَّذِینَ یَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِینَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِینَ لاَیَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللهُ مِنْهُمْ وَلَهمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

”یلزون “ ”لمز“( بر وزن” طنز“)کے مادہ سے عیب جوئی کے معنی میں ہے اور ” مطوعین “ مادہ ”طوع“ ( بروزن” موج “) سے اطاعت کے معنی میں ہے لیکن عام طور پر یہ لفظ نیک لوگوں کےلئے اور ان کے لئے استعمال ہوتا ہے جو واجبات کے علاوہ مستحبات بھی بجا لاتے ہوں ۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافق کچھ لوگوں کی عیب جوئی کرتے تھے اور کچھ کا مذاق اڑاتے تھے ۔ واضح ہے مذاق ان افراد کا اڑاتے تھے کہ جو لشکر اسلام کی صرف تھوڑی سی امداد کی طاقت رکھتے تھے اور یقینا عیب جوئی ان فراد کی کرتے تھے جو ان کے بر عکس بہت زیادہ امداد کرتے تھے ۔ زیادہ امداد کرنے والوں کو ریا کاری کاالزام دیتے تھے او رکم امداد کرسکنے والوں کی تحقیر کرتے تھے ۔

بعد والی آیت میں ان منافقین کی سزا کے بارے میں بہت تاکید آئی ہے اور انھیں آخری وارننگ دی گئی ہے ،۔ روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے :

ان کے لئے استغفار کرو یا نہ کرو یہاں تک کہ ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار اور طلب ِ بخشش کرو تو بھی انھیں ہرگز نہیں بخشے گا (اسْتَغْفِرْ لَهُمْ اٴَوْ لاَتَسْتَغْفِرْلَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِر لَهمْ سَبْعِینَ مَرَّةً فَلَنْ یَغْفِرَ اللهُ لَهُم

کیونکہ انھوں نے خدا اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور کفر کی راہ اختیار کی ہے اور اسی کفر نے انھیں نفاق کی پستی اور برے انجام سے دوچار کیا ہے (ذَلِکَ بِاٴَنَّهُمْ کَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ

اور واضح ہے کہ خدا کی ہدایت ایسے لوگوں کی میسر آئے گی جو حق طلبی کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں اور حقیقت کے متلاشی ہیں ۔ لیکن خدا فاسق ، گنہگار اور منافق افراد کو ہدایت نہیں کرتا( وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ کام کی اہمیت کیفیت سے ہے کمیت سے نہیں :۔

آیات ِ قرآنی کو دیکھتے ہوئے یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اسلام کسی مقام پر بھی ”کثرتِ عمل“ پربھروسہ نہیں کرتابلکہ اس سے ہر جگہ ”کیفیت عمل “کو اہمیت دی ہے ۔ اسلا م کی نظر میں خلوص اور پاک نیت کی بہت زیادہ قیمت ہے ۔ مندرجہ بالا قرآن کی اس منطق کا ایک نمونہ ہیں ۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ایک مسلمان کار کن ایک چھوٹ سے کام کےلئے رات بھر نہیں سویا ۔ اس کا دل عشق خدا ، اخلاص او راحساس مسئولیت سے معمور تھا ۔ اسی لئے وہ اسلامی معاشرے کی مشکلات کے حل کے لئے کام میں لگا رہا اور اس طرح اس نے اسلامی فوج کے لئے ایک من کھجور مہیا کی ۔ اس نے حساس لمحات میں اسلام کی جو خدمت کی قرآن نے اسے بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور جو لوگ ایسے بظاہر چھوٹے اور در حقیقت بڑے اعمال کی تحقیر کرتے ہیں ان کی سخت مذمت کی ہے قرآن کہتا ہے :

” دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے “

اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ایک صحیح معاشرے میں مشکلات کے وقت سب لوگوں کو احساس ذمہ داری کا ثبوت دیان چاہئیے ۔ ان مواقع پر صرف اہل اقتدار ثروت کی طرف نہیں دیکھنا چاہئیے کیونکہ اسلام کا تعلق سب سے ہے اور سب کو چاہئیے کہ اس کی حفاظت کے لئے دل و جان سے کوشش کریں ۔

اہم بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنی طاقت کے حساب سے دریغ نہ کرے مسئلہ زیادہ اورکم نہیں بلکہ احساس ِ ذمہ داری اور اخلاص کا ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر اکرم سے سوال ہوا:ای الصدقة افضل

کونسا صدقہ افضل ہے ۔

آپ نے فرمایا:جهد المقل

کم آمدنی والے اشخاص کی توانائی کی مقدار

۲ ۔ منا فقین کی صفات ہر دور میں ایک جیسی ہیں :

مندرجہ بالا آیات میں زمانہ پیغمبر کے منافقین کے بارے میں ہم نے جو صفت پڑھی ہے۔

صفات کی طرح اسی زمانہ کے منافقین سے مخصوص نہیں ہے ۔یہ صفت ہر دور کے منافقین کی پست صفات میں سے ایک ہے وہ اپنی بد نیتی کے مخصوص مزاج کے ساتھ کوشش کرتے ہیں کہ ہر مثبت کو غلظ انداز میں پیش کر کے بے اثر کردیں ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر نیک شخص کی کسی نہ کسی طرح حو صلہ شکنی کریں ار اسے کارِ خیر کی انجام دہی میں سست کردیں ۔ یہاں تک کہ وہ کم آمدنی والے افراد کی خدمت کی اہمیت کو کم کرکے پیش کرتے ہیں اور ان کی شخصیت کو مجروح کرنے اور ان کی توہین کرنے کےلئے ان کے کام کا تمسخر اڑاتے ہیں وہ یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں تاکہ تمام مثبت کار کردگیاں ختم ہو جائیں اور وہ اپنے برے مقصد میں کامیاب ہوجائیں ۔

آگاہ او ربیدار مغز مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر زمانے میں ان کی قبیح سازش کی طرف متوجہ رہیں ۔ ان کے بالکل بر عکس قدم اٹھائیں معاشرے کی خدمت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور ایسی خدمت جو ظاہراً چھوٹی ہوں لیکن خلوص دل سے انجام پائی ہوں ان کی زیادہ قدر دانی کریں تاکہ چھوٹا بڑا اپنے کام میں شوق ق ذوق او ردلجمعی سے مگن رہے ۔ نیز سب مسلمانوں کو منافقین کی اس تباہ کن سازش سے آگاہ کرنا چاہےئے تاکہ وہ ہمت نہ ہاریں ۔

۳ ۔ ”( سخر الله منهم ) “ کامفہوم :

اس کا لفظی معنی ہے ” خدا ان سے تمسخر کرتا ہے “ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا بھی ان جیسے کام انجام دیتا ہے بلکہ جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ استہزاء کرنے والوں کو سزا دے گایا ان سے ایسا سلوک کرے گا کہ تمسخر اڑانےوالوں کی طرح ان کی تحقیر و تذلیل ہو۔

۴ ۔ ”سبعین “ سے مراد:

اس میں شک نہیں کہ ” سبعین “ ( ستر ) کاعدد زیرنظر آیت میں کثرت کے لئے ہے نہ کہ تعداد کے لئے ۔ دوسرے لفظوں میں آیت کامفہوم یہ ہے کہ ان کے لئے جتنی بھی استغفار کریں خدا انھیں نہیں بخشے گا ۔یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک شخص دوسرے سے کہے کہ اگر تم سو مرتبہ بھی اصرار کرو تو میں قبول نہیں کروں گا اس بات ک ایہ مطلب نہیں کہ اگر ایک سو ایک مرتبہ اصرار کرو تو پھر قبول کرلوں گا بلکہ مراد یہ ہے کہ بالکل قبول نہیں کروں گا ۔

ایسی تعبیر فی الحقیقت تاکید مطلب کے لئے ہوتی ہے اسی لئے سورہ منافقون آیہ ۶ میں یہ بات نفی مطلق کی صورت میں ذکر ہوئی ہے ، جہاں فرمایا گیا ہے :( سوآء علیهم استغفرت لهم ام لم تستغفر لهم لن یغفر الله لهم )

اس میں کوئی فرق نہیں کہ تم ان کے لئے مغفرت طلب کرو یانہ کرو خداانھیں ہر گز نہیں بخشے گا۔

اس بات پر ایک اور شاید وہ علت ہے جو آیت کے ذیل میں ذکر ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ” انھوں ن خدا اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے اور خدا فاسقوں کو ہدایت نہیں کرتا“

واضح ہے کہ ایسے افراد کے لئے جتنی استغفار اور طلب بخشش کی جائے ان کی نجات کا سبب نہیں ہو سکتی۔

تعجب کی بات ہے کہ اہل سنت کی طرق سے منقول متعدد روایات میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ نے فرمایا :لا ید ن فی الاستغفار لهم علی سبعین مرة : رجاء منه ان یغفر الله لهم ، فنزلت: سوآء علیهم استغفرت لهم ام لم تستغفر لهم لن یغفر الله لهم ۔

خدا کی قسم ! میں ان کے لئے ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا اور اس امید پر کہ خدا انھیں بخش دے اور اس وقت ( سورہ منافقوں کی ) یہ آیت نازل ہوئی( جس میں خدا تعا لیٰ فرماتا ہے )

کچھ فرق نہیں چاہے ان کے لئے استغفار کرو چاہے نہ کرو خدا انھیں ہر گز نہیں بخشے گا ۔(۱)

مندرجہ بالا روایت کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ نے مندرجہ بالا آیت میں ستر کے عدد سے تعداد مراد لی لہٰذا فرماتا ہے کہ ” میں ان کے لئے ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کروں گا ۔“

حالانکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں زیر بحث آیت خصوصاً اس علت کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے جو اس کے ذیل میں آئی ہے ہمیں وضاحت سے سمجھاتی ہے کہ ستر عدد کثرت کے مفہوم میں آیا ہے اور یہ نفی مطلق کے لئے کنایہ ہے اور اس میں تاکید مضمر ہے لہٰذا مذکورہ بالا روایات چونکہ قرآن کے مخالفت ہیں لہٰذا ہر گز قابل قبول نہیں ہیں خصوصاً جبکہ ہماری نظر میں ان کی اسناد بھی معتبر نہیں ہیں ۔

مذکرہ بالا روایات کی واحد توجیہ یہ کی جاسکتی ہے ( اگر چہ خلافِ ظاہر ہے ) کہ رسول اللہ مندرجہ بالا آیات کے نزول سے پہلے یہ جملہ فرمایا کرتے تھے اور جب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ نے ان کے لئے استغفار کرنے سے صرفِ نظر کر لیا ۔

اس بارے میں ایک اور روایت نقل ہ وئی ہے اور ممکن ہے کہ مذکورہ بالاروایات بنیاد یہی روایت ہو جو ” نقل المعنی “ کی وجہ سے غلط ملط ہو گئی ہو ۔ روایت یہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

لوعلمت انه لو زدت علی السبعین مرة غفر لهم لفعلت

اگر مجھے معلوم ہو کہ میرے ستر بار سے زیادہ استغفار کرنے سے خدا انھیں بخش دے گا تو میں ایسا کرتا ۔

اس کا مفہوم ( خصوصاً لفظ ”لو“ کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو امتناع کے لئے ہے ) یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ خدا انھیں نہیں بخشے گا لیکن میرا دل بندگان خدا کی ہدایت او ران کی نجات کے شوق سے اس قدرلبریز ہے کہ اگر بالفرض ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے سے ان کی نجات ہو سکتی تو میں ایسا ہی کرتا۔

بہر حال مندرجہ بالا آیت کا مفہوم واضح ہے اور جو حدیث ان کے بر خلاف ہو اس کی یا توجیہ و تاویل کرنا پڑے گی یا اسے پھینک دینا ہوگا ۔

____________________

۱۔اسی مضمون کی متعدد روایات تفسیر طبرسی ج۱۰ ص ۱۳۸ پر جمع کی گئی ہیں ۔