تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25613
ڈاؤنلوڈ: 2481


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25613 / ڈاؤنلوڈ: 2481
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۹۱،۹۲،۹۳

۹۱ ۔( لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَاءِ وَلاَعَلَی الْمَرْضَی وَلاَعَلَی الَّذِینَ لاَیَجِدُونَ مَا یُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ مَا عَلَی الْمُحْسِنِینَ مِنْ سَبِیلٍ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

۹۲ ۔( وَلاَعَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا اٴَتَوْکَ لِتَحْمِلهُمْ قُلْتَ لاَاٴَجِدُ مَا اٴَحْمِلُکُمْ عَلَیْهِ تَوَلَّوا وَاٴَعْیُنُهُمْ تَفِیضُ مِنْ الدَّمْعِ حَزَنًا اٴَلاَّ یَجِدُوا مَا یُنفِقُونَ ) ۔

۹۳ ۔( إِنَّمَا السَّبِیلُ عَلَی الَّذِینَ یَسْتَاٴْذِنُونَکَ وَهُمْ اٴَغْنِیَاءُ رَضُوا بِاٴَنْ یَکُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطَبَعَ اللهُ عَلَی قُلُوبِهِمْ َهُمْ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔

ترجمہ

۹۱ ۔ ضعفاء ، بیمار اور وہ جو ( جہاد کی راہ میں ) خرچ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتے ان پر کوئی اعتراض نہیں ( کہ انھوں نے میدانِ جہاد میں شرکت نہیں ہے جب وہ خڈا اور اس کے رسول سے خیرخواہی کریں ( اور جو کچھ طاقت رکھتے ہیں اس سے دریغ نہ کریں کیونکہ ) کیونکہ نیکو کار لوگوں سے مواخذہ نہیں ہو سکتااور خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے ۔

۹۲ ۔ نیز ان پر بھی اعتراض نہیں ہو جو جب تیرے پاس آئے کہ تو انھیں ( میدان جہاد کے لئے ) مرکب پر سوار کرے تو تونے کہا کہ میرے پاس سواری نہیں ہے کہ جس پر تمہیں سوار کرو ں تو وہ ( تیرے پاس سے)اس حالت میں لوٹے کہ ان کی آنکھیں اشک بار تھیں کیونکہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جسے وہ راہ خدا میں خرچ کرتے۔

۹۳ ۔ موخذہ کی راہ ان کے لئے کھلی ہے جو تجھ سے اجازت چاہتے ہیں جب کہ وہ بے نیاز ہیں (اور کافی وسائل رکھتے ہیں ) وہ پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ رہ جانے پر راضی ہو گئے ہیں اور خدا نے ان کے دلوں پرمہر لگادی ہے ۔ لہٰذا وہ کچھ نہیں جانتے۔

شان نزول

پہلی آیت کے بارے میں منقول ہے کہ پیغمبر اکرم کے مخلص اصحاب میں سے ایک نے آپ سے عرض کیا :

میں ایک بوڑھا ، نابینا اور عاجز شخص ہوں یہاں تک کہ میرے پاس کوئی ایسا شخص بھی نہیں جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے میدان جہاد میں لے جائے تو کیا میں جہاد میں شرکت نہ کروں تو معذورہوں ؟

پیغمبر اکرم خاموش رہے تو پھر پہلی آیت نازل ہوئی جس میں ایسے افراد کو اجازت دی گئی ہے

اس شانِ نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ نابینا افراد تک پیغمبر اکرم کو اطلاع دئے بغیرجہاد میں شرکت سے پہلو تہی نہیں کرتے تھے اور اس احتمال کی بنا پر کہ شاید ان کا وجود اس حالت میں بھی مجاہدین کی تشویق یا کثرت ِ لشکر کے لئے مفید ہو وہ رسول اللہ سے اپنی ذمہ داری کے بارے میں پوچھتے تھے ۔

دوسری آ یت کے بارے میں بھی روایات میں ہے کہ غریب انصار سے سات افراد رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوئے اور تقاضا کیا کہ انھیں جہاد میں شرکت کے لئے وسائل مہیا کئے جائیں لیکن چونکہ پیغمبر اکرم کے پاس انھیں مہیا کرنے کے لئے وسائل نہ تھے تو آپ نے انھیں نفی میں جواب دیا۔ وہ اشک آلودہ نگاہوں سے آپ کی بار گاہ سے گئے او ربعد میں ” بکاون“ ( رونے والے ) کے نام سے مشہور ہوئے ۔

وہ معذور جو عشق جہاد میں آنسو بہاتے تھے

تمام گروہوں کی کیفیت واضح کرنے کے لئے ان آیات میں جہاد میں شرکت کے لحاظ سے ان کے معذور ہونے ی انہ ہونے کے بارے میں ایک واضح تقسیم بند کی گئی ہے ۔ ان میں پانچ گروہوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ان میں سے چار تو واقعاً معذور ہیں اورایک گروہ منافق اور غیر معذور ہے ۔

پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے : وہ لوگ جو ضعیف و ناتوان ہیں (بڑھاپے کے سبب بینائی نہ ہونے کے باعث یا ایسی کسی اور وجہ سے )اسی طرح بیمار اور وہ لوگ جن کے پاس میدان جہاد میں شرکت کے لئے وسائل نہیں ہے ان پرکوئی اعتراض نہیں کہ وہ اس واجب اسلامی پروگرام میں شرکت نہ کریں

( لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَاءِ وَلاَعَلَی الْمَرْضَی وَلاَعَلَی الَّذِینَ لاَیَجِدُونَ مَا یُنفِقُونَ حَرَجٌ ) ۔

ان تین گروہوں کے لئے ہر قانون میں معافی ہے اور عقل و منطق بھی اس کی تائید کرتی ہے اور مسلم ہے کہ اسلامی قوانین کسی مقام پربھی عقل و منطق سے جدانہیں ہیں ۔

لفظ ”حرج “اصل میں کسی چیز کے مرکز اجتماع کے معنی میں ہے اور چونکہ اجتماع اور جمیعت کا تنگی ضیق ِ مکان اور جگہ کی تنگی سے تعلق ہے لہٰذا یہ لفظتنگی ، ناراضی اور مسئولیت کے معنی میں آیا ہے ۔ زیربحث آیت میں یہ لفظ آخری معنی یعنی مسئولیت، جوابدہی اور ذمہ داری کے معنی میں آیا ہے ۔

اس کے بعد ان کی معافی کے حکم کے لئے ایک اہم شرط بیان کی گئی ہے ، ارشاد ہوتا ہے : یہ اس صورت میں ہے کہ وہ خدااور اس کے رسول کے لئے کسی مخلصانہ خیر خواہی سے دریغ نہ کریں( إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ) ۔یعنی اگرچہ وہ ہتھیار ہاتھ میں لیکرمیدان جنگ میں نہیں جاسکتے ۔ لیکن وہ یہ تو کرسکتے ہیں کہ اپنی گفتار وہ عمل سے مجاہدین کے شوق کو ابھاریں اور جہاد کے ثمرات و نتائج شمار کرکے ان کے جذبات کو تقویت پہنچائیں اور اس کے برعکس جتنا ہو سکے دشمن کے دلوں کو کمزور کریں اور ان کی شکست کے مقدمات کی فراہمی میں کوتا ہی نہ کریں ۔ یہ مفہوم اس لئے ہے کہ کیونکہ لفظ ” نصح “ جو اصل میں اخلاص کے معنی میں ہے ایک جامع لفظ ہے ۔ اس میں ہر قسم کی خیر خواہی اور مخلصانہ اقدام کا مفہوم پنہاں ہے اور چونکہ یہاں جہاد کا معاملہ در پیش ہے لہٰذا اس سے مراد ایسی کو ششیں ہیں جو اس سلسلے میں درکار ہیں ۔

بعد میں اس امر کی دلیل بیان کرتے ہوئے کہاگیا ہے :ایسے افراد نیک لوگ ہیں اور نیکوکاروں کے لئے ملامت، سر زنش ، سزا اور مواخذہ کا کوئی راستہ نہیں ہے( مَا عَلَی الْمُحْسِنِینَ مِنْ سَبِیلٍ ) ۔

آیت کے آخرمیں خدا تعالیٰ کی دوعظیم صفات بیان کی گئی ہیں یہ بھی دراصل ان تین گروہوں خی معافی کی ایک دلیل کے طور پر بیان ہو ئی ہیں ارشاد ہوتا ہے : خدا غفور اور رحیم ہے( وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

”غفور “ ”غفران“ کے مادہ سے مستور او رپوشیدہ کرنے کے معنی میں ہے یعنی خدا اس صفت کے تقاضا کی بنا پر معذور او رناتواں افراد کے کام پر پردہ ڈال دیتاہے اور ان کے عذر قبول کرلیتا ہے ۔

اور خدا کا ”رحیم“ ہونا مقتضی ہے کہ وہ شاق او رمشکل ذمہ داری کسی پر نہ ڈالے او راسے معاف رکے یہ لوگ اگر میدانِ جہاد میں حاضر ہونے پر مجبور ہوتے تھے یہ امر خدا کی غفوریت اور رحمیت سے مناسبت نہ رکھتا۔ یعنی غٖور و رحیم خدا انھیں یقینا معاف رکھے گا ۔

چند ایک روایات جو مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں نقل کی ہیں ، ان سے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ معذور لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اس ذمہ داری سے رخصت دی گئی ہے اور ان سے سزا بر طرف کردی گئی ہے بلکہ میدان جہاد میں شرکت کے لئے انھیں جو قدر اشتیاق ہے اس کے حساب سے وہ جز اثواب اور اعزازات میں بھی مجاہدین کے ساتھ شریک ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرم سے منقول ایک حدیث میں بھی ہے کہ جس وقت آپ جنگِ تبوک سے واپس آئے اورمدینے کے قریب پہنچے تو فرمایا :

اس شہر میں تم کچھ ایسے افراد کو چھوڑ گئے تھے جو تمام راستے میں تمہارے ساتھ ساتھ جو قدم تم نے اٹھا او رجو مال تم نے اس راہ میں خرچ کیا اور جس زمین سے تم گذرے وہ تمہارے ہمراہ تھے ۔

صحابہ نے عرض کیا :

یا رسول اللہ ! وہ جس طرحہمارے ساتھ تھے جب کہ وہ مدینہ میں تھے ۔

رسول اللہ نے فرمایا :

اس بنا پر کہ وہ کسی عذر کی وجہ سے جہاد میں شرکت نہیں کرسکے ( لیکن ان کے دل ہمارے ساتھ تھے )۔(۱)

اس کے بعد چوتھے گروہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جسے جہاد میں شرکت سے معافی دی گئی ہے ، فرمایا گیا ہے : اسی طرح اس گروہ پر بھی کوئی اعتراض نہیں جو تیرے پاس آیا تو انھیں میدانِ جہاد میں شرکت کے لئے سواری فراہم کردے اور تونے کہا کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں کہ جس پر تمہیں سوار کرتوں تو مجبوراً وہ تیرے پاس سے اس حالت میں گئے کہ ان کی آنکھیں اشکبار تھیں اور یہ آنسو اس غم میں تھے کہ ان کے پاس راہ خدا میں خرچ کرنے کےلئے کچھ نہ تھا( وَلاَعَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا اٴَتَوْکَ لِتَحْمِلهُمْ قُلْتَ لاَاٴَجِدُ مَا اٴَحْمِلُکُمْ عَلَیْهِ تَوَلَّوا وَاٴَعْیُنُهُمْ تَفِیضُ مِنْ الدَّمْعِ حَزَنًا اٴَلاَّ یَجِدُوا مَا یُنفِقُونَ ) ۔

”تفیض “ ”فیضان “ کے مادہ سے ہے اس کا معنی ہے پر ہونے کے نتیجہ میں گرنا ۔ جب انسان کو تکلیف ہوتی ہے اگر اس کی تکلیف او دکھ زیادہ شدید نہ ہو تو آنکھیں آنسووں سے پر ہو جاتی ہیں لیکن آنسوجاری نہیں ہوتے لیکن اگر دکھ اور تکلیف شدید ہو جائے تو اشک رواں ہوجاتے ہیں ۔

یہ صورت نشاندہی کرتی ہے کہ یہ اصحاب ِ پیغمبر جہاد کے اس قدر مشتاق اور عاشق تھے کہ نہ صرف معافی مل جانے پر خوش نہ تھے بلکہ اس طرح آنسو بہارے تھے جیسے ان کا کوئی بہترین عزیز اور دوست کھو گیا ہو۔

البتہ اس میں شک نہیں کہ یہ چوتھا گروہ تیسرے سے علٰیحدہ نہیں جس کا ذکر گذشتہ آیت میں ہوا ہے لیکن اس کا ایک خاص امتیاز ہے اور اس گروہ کی قدر دانی کے لئے مستقل ایک آیت میں ان کی کیفیت کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔

ان کا امتیاز یہ تھا کہ !

۱ ۔ انھوں اس پر قناعت نہیں کی کہ ان کے پاس جہاد میں شرکت کے وسائل نہیں تو بیٹھ رہیں بلکہ وہ رسول کے پاس آئے اور سواری کے لئے ان سے اصرار کیا۔

۲ ۔ جب رسول اللہ نے انھیں نفی میں جواب دیا تو نہ صرف یہ کہ معافی ملنے پر وہ خوش نہیں ہوئے بلکہ بہت دکھی او رپریشان ہوئے ۔

ان دو وجوہ کی بناء پر خدا تعالیٰ نے ان کا خاص طور پر الگ سے ذکر کیا ہے ۔

آخری آیت میں پانچویں گروہ کی حالت بیان کی گئی ہے یعنی وہ کہ جن کے پاس بار گاہ الہٰی کے لئے کوئی عذر نہیں تھا ، فرما یا گیا ہے : مواخذہ اور سزا کی راہ صرف ان لوگوں کے سامنے کھلی ہے جو تجھ سے اجازت چاہتے ہیں کہ جہاد میں شرکت نہ کریں جب کہ اس کا م کے لئے ان کے پاس کافی اور ضروری وسائل موجود ہیں اور وہ بالکل بے نیاد ہیں( إِنَّمَا السَّبِیلُ عَلَی الَّذِینَ یَسْتَاٴْذِنُونَکَ وَهُمْ اٴَغْنِیَاءُ ) ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : ان کے لئے یہ ننگ و عار کافی ہے کہ وہ اس بات پر راضی ہیں کہ ناتواں ، بیمار او رمعذور افراد کے ساتھ مدینہ میں رہ جائیں اور جہاد میں شرکت کے اعزاز سے محروم رہیں( رَضُوا بِاٴَنْ یَکُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ ) ۔

اور یہ سز ابھی ان کے لئے کافی ہے کہ خدا نے ان کے برے اعمال کی وجہ سے فکر و ادراک کی قدرت ان سے چھین لی او ران کے دلوں پر مہر لگادی اور اس بناء پر وہ کچھ نہیں جانتے( وَطَبَعَ اللهُ عَلَی قُلُوبِهِمْ َهُمْ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔

____________________

۱۔المیزان جلد ۹ صفحة ۳۸۶ بحوالہ در المنثور۔

چندقابل توجہ نکات

۱-مجاہدین کا جذبہ و شہادت:

ان آیات سے مجاہدین اسلام کے قوی اور عالی جذبے کا اظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ان کے دلوں میں جہاد و شہادت کا عشق موجزن تھا وہ اس اعزاز کو ہر اعزاز پرمقدم سمجھتے تھے ۔ اسی سے اس وقت اسلام کی تیز رفتار پیش رفت اور اس وقت ہماری پسماندگی کی اہم عوامل سامنے آتے ہیں ۔

ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ جہاد میں شرکت سے معافی پرجن کی آنکھوں میں بر سات کی جھڑیا لگ جاتی ہیں ان کے ان لوگوں کے برابر ہو جائیں جو جہاد میں شر کت نہ کرنے کے لئے بہانے تراشتے ہیں ۔

اگر ایمان کی وہی روح آج بھی زندہ ہو جائے ، عشق اور جذبہ شہادت دلوں میں پھر سے موجزن ہو جائے تو آج بھی کامیابی اور پیش رفت اسی طرح سے ہو جیسے آغاز اسلام میں تھی بدبختی یہی ہے کہ ہم نے فقط اسلام کا ظاہری لباس پہن رکھا ہے ، اور اسلام ہمارے وجود کی گہرائیوں میں نہیں اترا۔ پھر بھی ہم اپنے آپ کو آغاز اسلام کے مسلمانوں کی طرح کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ۔

۲ ۔ جہا کے کئی مراحل ہیں :

زیر بحث آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو مجاہدین کی ہمکاری سے مکمل طور پر معافی نہیں مل سکتی۔ یہاں تک کہ ج وافراد بیمار ہیں یا نابینا ہیں یا فطری طور پر ہتھیار اٹھانے اور میدان ِ جہاد میں شرکت کی طاقت نہیں رکھتےانھیں بھی چاہئیے کہ وہ زبان سے یا کسی اور طرح سے تبلیغ کے ذریعے مجاہدین کو شوق دلائیں اور ان کی معاونت کریں ایسے لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داری کو فراموش نہیں کرنا چاہئیے او ربالکل ایسے امور سے کنارہ کش نہیں ہو نا چاہیئے۔

در حقیقت جہاد کے کئی مرحلے ہیں اور اس کے ایک مرحلے سے معذور ہونا دوسرے مراحل سے معذور ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔

۳ ۔ ایک وسیع قانون کا سر چشمہ :

” ما علی المحسنین من سبیل “ ( نیکو کاروں سے مواخذہ کی کوئی راہ نہیں )یہ جملہ فقہی مباحث میں ایک وسیع قانون کا سر چشمہ ہے اس قانون سے علماء نے بہت سے احکام اخذکئے ہیں ۔

مثلاً اگر کسی امین شخص کے ہاتھ سے کوئی امانت بغیر کسی افراط و تفریط کے تلف ہو جائے تو ایسا شخص نقصان کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں دیگر دلائل کے علاوہ اس آیت کو بھی پیش کیا جاتا ہے ۔

البتہ اس میں شک نہیں کہ یہ آیت مجاہدین کے بارے میں ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ آیت کا کسی ایک واقعہ کے بارے میں ہونا اس کی عمومیت کو ختم نہیں کرتا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی ایک مسئلہ کے بارے میں ہونا اسے ہر گز اسی میں محدود نہیں کرتا ۔

آیات ۹۴،۹۵،۹۶

۹۴ ۔( یَعْتَذِرُونَ إِلَیْکُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَیْهِمْ قُلْ لاَتَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَکُمْ قَدْ نَبَّاٴَنَا اللهُ مِنْ اٴَخْبَارِکُمْ وَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔

۹۵ ۔( سَیَحْلِفُونَ بِاللهِ لَکُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَیهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ فَاٴَعْرِضُوا عَنْهُمْ إِنّهُمْ رِجْسٌ وَمَاٴْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ) ۔

۹۶ ۔( یَحْلِفُونَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنهُمْ فَإِنَّ اللهَ لاَیَرْضَی عَنْ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ) ۔

ترجمہ

۹۴ ۔ جس وقت تم ان کی طرف ( جنھوں نے جہاد سے تخلف کیا ہے ) لوٹ کر آئے تو تم سے عذر خواہی کریں گے کہہ دو کہ معذرت نہ کرو ہم ہر گز تم پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ اللہ نے ہمیں تمہاری خبروں سے آگاہ کیا ہے اور خدا اور اس کا رسول تمہارے اعمال دیکھتا ہے پھر تم اس کی طرف پلٹ جاو گے جو پنہاں اور آشکار سے آگا ہ ہے اور تمہیں اس سے آگاہ کرے گا (اور اس کی جزا دیگا ) جو کچھ تم انجام دیتے تھے ۔

۹۵ ۔ جب تم ان کی طر ف لوٹ کر گئے تو وہ تمہارے لئے قسم کھائیں گے ان سے اعراض( اور صرف ِ نظر) کرو ۔ تم ان سے اعراض کرو ( اور منہ پھیر لو)کیونکہ وہ پلید ہیں اور ان کے رہنے کی جگہ جہنم ہے ، ان کے اعمال کی سزا میں جو وہ انجام دیتے تھے ۔

۹۶ ۔ قسم کھا کے تم سے چاہتے ہیں کہ ان سے راضی ہو جاو اگر تم ان سے راضی ہو جاو تو خدا فاسقین کے گروہ سے راضی نہیں ہوگا ۔

شانِ نزول

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیات ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئیں جن کی تعداد اسی سے زیادہ تھی کیونکہ جب آپ جنگ تبوک سے واپس ہو ئے تو آپ نے حکم دیا کہ کوئی شخص ان کے ساتھ نہ بیٹھے او رنہ ان سے گفتگو کرے اور جب انھوں نے اپنے آپ کو معاشرے کے شدید دباو میں دیکھا تو معذرتین کرنے لگے۔ اس پر مندر جہ بالا آیات نازل ہوئیں جن میں ان کی حقیقت واضح ہو گئی ہے ۔

تفسیر

جھوٹی معذرتوں اور قسموں پر اعتبار نہ کرویہ آیات بھی منافقین کے شیطانی اعمال کے بارے میں ہیں یکے بعد دیگرے ان مختلف کاموں سے پر دہ اٹھا یاجارہا ہے اور مسلمانوں کو خبر دار کیا جا رہا ہے کہ وہ ان کے ریاکارانہ اعمال اور ظاہری دل پذیر باتوں سے وھوکا نہ کھائیں ۔

زیر نظر پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے : جب تم ( جنگ ِ تبوک سے ) مدینہ کی طرف لوٹ کر جاو گے تو منافقین تمہارے پیچھے آئیں گے اور معذرت کریں گے( یَعْتَذِرُونَ إِلَیْکُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَیْهِمْ ) ۔

” یعتذرون“ فعل مضارع ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے پیغمبر اکرم او رمسلمانوں کو پہلے ہی سے اس بات سے آگاہ کررکھا تھا کہ بہت جلد منافقین جھوٹ موٹ عذرخواہی کرتے ہوئے ان کے پاس آئیں گے لہٰذا جواب دینے کا طریقہ بھی مسلمانوں کو بتا دیا گیا ۔

پھر پیغمبر اکرم کی طرف مسلمانوں کے رہبر کی حیثیت سے روئے سخن کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :منافقین سے کہہ دو کہ معذرت نہ کرو ہم ہر گز تمہاری باتوں پر ایمان نہیں لائیں گے( قُلْ لاَتَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَکُمْ ) ۔” کیونکہ خدا نے ہمیں تمہاری خبروں سے آگاہ کردیا ہے “۔ لہٰذا ہم تمہاری شیطانی سازشوں سے اچھی طرح باخبر ہیں( قَدْ نَبَّاٴَنَا اللهُ مِنْ اٴَخْبَارِکُمْ ) ۔لیکن اس کے باوجود تمہارے لئے بازگشت اور توبہ کی راہ کھلی ہے ۔ عنقریب خدا اس کا رسول تمہارے اعمال دیکھے گا( وَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُهُ ) ۔

آیت کی تفسیر کے ضمن میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس جملے سے توبہ مراد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ آئندہ بھی خدا اور اس کا رسول

( وحی کے مطابق ) تمہارے اعلام اور سازشوں سے آگاہ ہو ں گے او رانہیں نقش بر آب کردیں گے لہٰذا نہ تم آج کچھ کرسکتے ہو اور نہ کل۔

لیکن پہلی تفسیر ظاہر اایت کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔

ضمنی طور پر آپ متوجہ رہیں کہ اس جملے کے ابرے میں اور امت کے تمام اعمال اس کے پیغمبر کے سامنے پیش ہونے کے مسئلے کے متعلق ہم اسی سورہ کی آیہ ۱۰۵ کے ذیل میں تفصیل سے بحث کریں گے ۔

بعد میں فرمایا گیا ہے کہ تمہارے تمام اعمال اور تمہاری نیتیں ثبت اور محفوظ ہو جائیں گی ” پھر تم اس کی طرف پلٹ جاو گے جو تمہارے پنہاں اور آشکار امور کو جانتا ہے او روہ تمہیں تمہارے اعمال سے آگاہ کرے گا “۔ او رتمہیں ان کی جزا دے گا( ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔

بعد والی آیت میں دوبارہ منافقین کی جھوٹی قسموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے -: و ہ تمہیں فریب دینے کے لئے عنقریب قسم کا سہارالیں گے اور جب ان کی طرف لوٹو گے تو خدا کی قسم کھائیں گے کہ ان سے صرف نظر کرلو اور اگر ان سے کوئی خطا ہو ئی ہے تو انھیں معاد کردو( سَیَحْلِفُونَ بِاللهِ لَکُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَیهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ ) ۔

درحقیقت وہ ہر دروازے سے داخل ہونے کی کو شش کریں گے ۔ کبھی بہانوں سے اپنے آپ کے بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے ۔ کبھی اعتراف گناہ کریں گے اور عفوو در گزر کا تقاضا کریں گے ۔ وہ سوچتے ہیں کہ شاید کسی طریقے سے تمہارے دلوں میں جگہ پیدا کرلیں ۔

لیکن تم کسی طرح سے بھی ان سے اثر نہ لینا اور ” ان سے منہ پھیر لو“ البتہ ناراضی کے اظہار کے طور پر نہ کہ عفو و بخشش کے طور پر( فَاٴَعْرِضُوا عَنْهُمْ )

وہ اعراض کا تقا ضا کرتے ہیں لیکن در گذر کے معنی میں ۔ تم بھی اعراض کرو مگر انکار کے معنی میں ۔ یہ دونوں تعبیریں مشابہ ہیں اور بالکل متضاد معانی پیش کرتی ہیں ۔ اس انداز کی لطافت اور خوبصورتی اہل ذوق سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

اس کے بعد تاکید ، توضیح او ردلیل کے طور پر فرمایا گیا ہے : کیونکہ وہ لوگ پلید ہیں اور ایسی نجس موجودات سے منہ پھیر نا ہی چاہئیے( إِنّهُمْ رِجْسٌ ) ۔ ۔ اور چونکہ ایسے ہیں لہٰذا ان کے لئے جہنم کے علاوہ کوئی ٹھکانہ نہیں ہو سکتا( وَمَاٴْوَاهُمْ جَهَنَّم ) ۔ کیونکہ جنت میں نیک پا ک لوگوں کی جگہ ہے نہ کہ پلید اور گندے لوگوں کی ۔

لیکن ” یہ سب کچھ اعمال کا نتیجہ ہے جوانھوں نے خود انجام دئیے ہیں( جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ) ۔

زیر بحث آخری آیت میں ان کی ایک اور قسم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے او روہ یہ ہے کہ ” وہ اصرار کرکے اور قسم کھا کے چاہتے ہیں کہ تم ان سے راضی اور خوش ہو جاو( یَحْلِفُونَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ ) ۔

پہلی اایت میں جس قسم کا ذکر ہے وہ اس بنا پ رتھی کہ مومنین عملاً انھیں ملامت نہ کریں ۔ لیکن اس آیت میں جس قسم کا تذکرہ ہے وہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ عملی پہلو کے علاوہ مومنین سے دلی طور پر بھی ان سے خوش ہو جائیں ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس مقام پر یہ نہیں فرماتا ہے کہ ” تم ان سے راضی نہ ہونا “ بلکہ یہاں موجود تعبیر سے تہدید کی بو آتی ہے ، فرما یا گیا ہے : اگر تم ان سے راضی ہو جاو تو خدا فاسقین کی قوم سے کبھی راضی نہیں ہو گا( فَإِنْ تَرْضَوْا عَنهُمْ فَإِنَّ اللهَ لاَیَرْضَی عَنْ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ) ۔

اس میں شک کہ دینی اور اخلاقی طور پر وہ مسلمانوں کو خوش نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ وہ اس طرح مسلمانوں کے دل کی ناراضی دور کرنا چاہتے تھے تاکہ آئندہ ان کے عمل سے محفوظ رہیں ۔

لیکن ”( لا یرضیٰ عن القوم الفاسقین ) “کہہ کر خدا تعالیٰ مسلمانوں کو خبر دار کرتا ہے کہ یہ فاسق ہیں لہٰذا مسلمانوں کو ان سے ہر گز راضی نہیں ہو نا چاہئیے۔ یہ فقط ان کی پر فریب چالیں ہیں ۔ لہٰذا بیدار ہوتا کہ ان کے جال میں نہ پھنس جاو۔

کیا ہی اچھا ہوکہ ہر زمانے میں مسلمان منافقین کی شیطانی او رجانی پہچانی سازشوں پر نظر رکھیں تاکہ وہ ان کے سامنے اپنے پرانے پر فریب طریقے استعمال نہ کرسکیں اور اس طرح کہیں وہ اپنے برے مقاصد میں کامیاب نہ ہونے پائیں ۔

آیات ۹۷،۹۸،۹۹

۹۷ ۔( الْاٴَعْرَابُ اٴَشَدُّ کُفْرًا وَنِفَاقًا وَاٴَجْدَرُ اٴَلاَّ یَعْلَمُوا حُدُودَ مَا اٴَنزَلَ اللهُ عَلَی رَسُولِهِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ) ۔

۹۸ ۔( وَمِنْ الْاٴَعْرَابِ مَنْ یَتَّخِذُ مَا یُنفِقُ مَغْرَمًا وَیَتَرَبَّصُ بِکُمْ الدَّوَائِرَ عَلَیْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ) ۔

۹۹ ۔( وَمِنْ الْاٴَعْرَابِ مَنْ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ اٴَلاَإِنّهَا قُرْبَةٌ لَهُمْ سَیُدْخِلُهُمْ اللهُ فِی رَحْمَتِهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۷۹ ۔ بادیہ نشین عربوں کا کفر اور نفاق شدید تر ہے او رجو کچھ خدا نے اپنے پیغمبر پر نازل کیا ہے اس کی حدود ( اور سر حدوں ) کی جہالت کے وہ زیادہ حق دار ہیں اورخدا دانا اور حکیم ہے ۔

۹۸ ۔ (ان)بادیہ نشین عربوں میں سے ( کچھ لوگ ) جو کچھ ( راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں اسے توان شمار کرتے ہیں اور تمہارے بارے میں دردناک حوادث کی توقع رکھتے ہیں ( حالانکہ) دردناک حوادث ان کے لئے ہیں اور خدا سننے والا او ر دانا ہے ۔

۹۹ ۔ بادیہ نشنین عربوں میں سے ( کچھ اور لوگ ) خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں او رجو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں اسے خدا کے ہاں قرب اور پیغمبر کی دعاوں کا باعث سمجھتے ہیں ۔ آگاہ رہو کہ یہ ان کے تقرب کا باعث ہیں ۔ خدا بہت جلد انھیں اپنی رحمت میں داخل کردے گا کیونکہ خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے ۔

سنگ دل اور صاحب ِ ایمان بادیہ نشین

گذشتہ آیات میں منافقین مدینہ کے بارے میں گفتگو تھی ۔ ان آیات میں اسی مناسبت سے بادیہ نشین منافقین کی نشانیوں اور افکار کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مخلص اور سچے بایہ نشین مومنین کے بارے میں بھی باتی کی گئی ہے ۔

شاید اس وجہ سے کہ مسلمانوں کو خبر دار کیا جائے کہ وہ کہیں یہ خیال نہ کریں کہ منافقین صرف اس شہر میں رہتے ہیں ، بتایا گیا ہے کہ بادیہ نشین منافقین ان سے بھی سخت تر ہیں ۔ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مسلمانوں پر ان منافقین کی طرف سے بار ہا حملے ہوئے ہیں ۔

لشکر اسلام کی پے در پے فتوحات کے سبب کہیں ایسا نہ ہو کہ اس خطرے کو نظرانداز کردے۔ بہرحال پہلی آیت میں قرآن کہتا ہے : بادیہ نشین اعراب

( تعلیم و تربیت سے دوری اور آیاتِ الہٰی او رپیغمبر کے ارشادات نہ سننے کی وجہ سے ) کفر او رنفاق میں زیادہ سخت ہیں( الْاٴَعْرَابُ اٴَشَدُّ کُفْرًا وَنِفَاقًا ) ۔”اسی وجہ سے وہ ان فرامین و احکام کی حدود کی جہالت کے زیادہ حق دار ہیں جو خدا نے اپنے رسول پر نازل کئے ہیں

( وَاٴَجْدَرُ اٴَلاَّ یَعْلَمُوا حُدُودَ مَا اٴَنزَلَ اللهُ عَلَی رَسُولِهِ ) ۔

”اعراب“ جمع کا معنی رکھنے والے لفظوں میں سے ہے لیکن لغت عرب کے لحاظ سے اس کا مفرد نہیں ہے جیساکہ علماء لغت مثلاًقاموس ، صحاح او رتاج العروس کے مولف اور دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ یہ لفظ صرف بادیہ نشین عربوں پر بولا جاتا ہے اور ا س کے مفرد کے لئے یاء نسبت کے ساتھ ” اعرابی“ کی صورت میں بولتے ہیں ۔ اس بناء بہت سے لوگوں کے تصور کے برخلاف ”اعراب“ ” عرب “ کی جمع نہیں ہے ۔

”اجدر“ ” جدار “کے مادہ سے دیوار کے معنی میں ہے بعد ازاں یہ لفظہ رمرتفع او رمناسب چیز کے لئے بولا جانے لگا اس وجہ سے عام طور پر ” اجدر“ زیادہ شائستہ او رمناسب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

آیت کے آخر میں فرمایاگیا ہے :خدا دانا اور حکیم ہے یعنی اگر بادیہ نشین عربوں کے بارے میں اس قسم کا فیصلہ کرتا ہے تو خاص مناسبت کے سبب ہے کیونکہ ان کا ماحصول ایسی صفات رکھتا ہے( وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ) ۔لیکناس بناء پر کہ کہیں یہ وہم پیدا نہ ہو کہ تمام باد یہ نشین عرب یا دنیا کے سب بادیہ نشین ان صفات کے حامل ہوتے ہیں ، بعد والی آیت میں ان میں سے دو مختلف گروہوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔

ار شاد ہوتا ہے : ” ان بادیہ نشین عربوں میں سے ایک گروہ ان لوگوں کاہے جو جب کوئی چیز راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو نفاق یا کمزور ایمان کی وجہ سے اسے نقصان اور خسارہ شمار کرتے ہیں “ نہ کہ ایک کامیابی اور سودمند تجارت( وَمِنْ الْاٴَعْرَابِ مَنْ یَتَّخِذُ مَا یُنفِقُ مَغْرَمًا ) ۔(۱)

”غرامت“بھی اسی مناسبت سے استعمال ہوتاہے کہ جوانسان کے لئے لازمی ہوتا اورجب تک ادانہ کرلے وہ اس سے جد انہیں ہوتی۔ عشق شدید کو بھی ”غرام “ کہتے ہیں کیونکہ وہ انسان کی روح میں اس طرح اترتا ہے کہ جدا نہیں ہوتا او ر”مغرم “ اور ” غرامت “ کا ایک ہی معنی ہے ۔

ان کی ایک صفت یہ ہے کہ ” ہمیشہ اس انتظارمیں رہتے ہیں کہ تمہیں مشکلات گیر لیں اور بد بختی او رناکامی تمہیں آلے( وَیَتَرَبَّصُ بِکُمْ الدَّوَائِرَ ) ۔

”دوائر “ ” دآئرہ “ کی جمع ہے اور اس ک امعنی مشہور ہے لیکن وہ سخت اور دردناک حوادث انسان کا احاطہ کرلیتے ہیں عرب انہیں ” دآئرہ“ کہتے ہیں اورجمع کی حالت میں ” دوآئر“ کہتے ہیں ۔

در حقیقت وہ لوگ تنگ نظر ، بخیل اور بہت حاسد ہیں اپنے بخل ہی کی وجہ سے وہ راہ ِ خدا میں ہر طرح کی مالی خدمت کی نقصان شمار کرتے ہیں اور اپنے حسد کی وجہ سے وہ دوسروں کے لئے مشکلات او رمصائب کے انتظار میں رہتے ہیں ۔

مزید فرمایا گیا ہے کہ وہ تمہارے لئے ظہور مشکلات اور نزول ، بلا کا انتظار نہ کریں او رتمہارے ان کی توقع نہ رکھیں ۔ کیونکہ یہ مشکلات، ناکامیاں بد بختیاں صرف اس منا فق ، بے ایمان ، جاہل ، نادان، تنگ نظر اور حاسد گروہ کی تلاش میں ہیں( عَلَیْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ) ۔(۲)

آخر میں آیت کواس جملے پر ختم کیاگیا ہے کہ ”خدا سننے والا او رجاننے والا ہے( وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ) ۔ان کی باتوں کو بھی سنتا ہے او ران کی نیتوں او رمافی الضمیر سے بھی آگاہ ہے ۔

آخری آیت میں دوسرے گروہ یعنی بادیہ نشینوں میں سے مخلص مومنین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ان بادیہ نشین عربوں میں سے ایک گروہ ان کا ہے جو قیامت پر ایمان رکھتے ہیں( وَمِنْ الْاٴَعْرَابِ مَنْ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ) ۔

اسی بنا پر وہ راہِ خدا میں خرچ کرنے کو بھی نقصان او رزیاں نہیں سمجھتے بلکہ اس جہان میں دوسرے جہان میں خدا کی وسیع جزا اور ثواب کی طرف توجہ کرتے ہوئے اس کا کو قریب ِ الہٰی کا ذریعہ ، پیغمبر کی توجہ اور دعا کا باعث سمجھتے ہیں جوکہ افتخار اور عظیم برکت ہے( وَیَتَّخِذُ مَا یُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ) ۔

یہاں خدا تعالیٰ ان کی طرز ِ فکر کی بڑی تاکید سے تصدیق کرتا ہے اور کہتا ہے : آگاہ رہو کہ یقینا ان کا یہ انفاق اور خرچ بار گاہ ِ خدا میں قرب کا باعث ہیں( اٴَلاَإِنّهَا قُرْبَةٌ لَهُمْ ) ۔اور اسی بناء پر ” خدا انھیں بہت جلد اپنی رحمت میں داخل کردے گا( سَیُدْخِلُهُمْ اللهُ فِی رَحْمَتِهِ ) ۔ اگر ان سے کچھ لغزشیں ہو تو ان کے ایمان اور اعمال کی وجہ سے انھیں بخش دے گا ” خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے ،( إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

اس آیت میں جو پے در پے تاکید یں نظر آتی ہیں بہت جالب توجہ ہیں ۔ لفظ ”الا“ اور ”ان “ دونوں تاکید کے لئے ہیں اس کے بعد ” سید خلھم اللہ فی رحمتہ“کاجملہ اور خاص طور پر اس میں لفظ”فی “ رحمت ِ خدا میں غوطہ زن ہونے کا ظاہر کرتا ہے ۔ بعد میں آخری جملہ بھی ” ان “ سے شروع ہوتا ہے اور خدا کی شفقت و مہربانی کی صفات ” غفورا ً رحیم “ کا ذکر کرتاہے یہ یہ سب اس گروہ کے لئے خدا تعالیٰ کے انتہائی لطف و رحمت کا بیان ہے انھوں نے تعلیم و تربیت سے محروم ہونے اور آیات الہٰی اور ارشادات پیغمبر تک کافی رسائی نہ ہونے کے باوجود جان و دل سے اسلام قبول کیا ہے ا ور مالی وسائل نہ رکھنے کے باوجود ( کہ جو ان کی بادیہ نشینی کا لازمہ ہے )وہ راہ خدا میں خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے ۔ شاید اس بناء پر یہ لوگ شہروں میں رہنے والے اور ہر طرح کے وسائل رکھنے والے افراد کی نسبت قدر دانی کے زیادہ حق دار ہیں ۔

اس نکتہ کی جانب خصوصیت سے توجہ در کار ہے کہ منافق اعراب کے بارے میں ”( علیهم دآئرة السوء ) “ استعمال ہوا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بد بختیاں ان پر محیط ہیں ۔ لیکن باایمن اور فداکار اعراب کے لئے ” فی رحمتہ’“ استعمال ہوا ہے جو ان پر رحمت ِ الہٰی کے محیط ہونے کوبیان کرتا ہے ایک گروہ کو بد بختی نے گھیر رکھا ہے اور دوسرے پر رحمت ِ الہٰی احاطہ کئے ہوئے ہے ۔

____________________

۱۔”مغرم “ جیس اکہ مجمع البیان میں آیا ہے ”غرم “ ( بروزن ”جرم “) کے مادہ سے ہے ۔ در اصل یہ کسی چیز کے لازم ہونے کے معنی میں ة ے بعد ازاں قرض خواہ اور مقروض کو ”غریم “ کہا جاتا ہے ج وایک دوسرے کو نہیں چھوڑتے اور لازمی طور پر ایک دوسرے کو پکڑے ہوئے ہیں ۔

۲۔ یہ جملہ حصر ک امعنی دیتا ہے یعنی برے حوادث پس انھی دامن گیر ہوتے ہیں اور یہ انحصار اس بناء پر ہے کہ ”علیھم “ جو خبر ہے مبتداء سے مقدم ہے ۔