تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25622
ڈاؤنلوڈ: 2482


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25622 / ڈاؤنلوڈ: 2482
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیت ۱۰۲

۱۰۲ ۔( وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَی اللهُ اٴَنْ یَتُوبَ عَلَیْهِمْ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۱۰۲ ۔ اور دوسرے گروہ نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا ہے اور صالح اور غیر صالح اعمال کو آپس میں ملادیا ہے امید ہے خدا ان کی توبہ کرلے۔ اللہ غفور و رحیم ہے ۔

شان ِ نزول

زیر نظر آیت کی شان ِ نزول کے بارے میں کئی روایات نقل ہوئی ہیں ان میں سے اکثر میں ابو لبابہ انصاری کانام ملتا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق اس نے دو یاکچھ اصحاب پیغمبر کے ساتھ مل کر جنگ تبوک میں شر کت نہ کی لیکن جب ان افراد نے وہ آیات سنیں جو متخلفین کی مذمت میں نازل ہوئی تھیں تو بہت پریشان او رپشیمان ہوئے اور اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں کے ساتھ باندھ دیا۔ رسول اللہ نے ان کے بارے میں استفسار کیا۔ آپ کو بتایا گیا کہ انھوں نے قسم کھائی ہے کہ اپانے آپ کو ستونوں سے نہیں چھڑائیں گے جب تک کہ خود رسول اللہ آکر انھیں نہ چھوڑ دیں ۔رسول اللہ نے فرمایا کہ میں بھی قسم کھاتا ہوں کہ یہ کام نہیں کروں گا مگر یہ کہ خدا مجھے اس کی اجازت دے ۔

اس پر مندرجہ بالا آیت نا زل ہوئی اور خدا نے ان کی توبہ قبول کی ۔ اس پر رسول اللہ نے آکرانھیں مسجد کے ستونوں سے کھول دیا ۔

اس کے شکرانے کے طور پر انھوں نے اپنا سار امال رسول اللہ کی خدمت میں پیش کردیا اور عرض کیا یہ وہی مال و اسباب ہے جس سے دل بستگی کی خاطر ہم نے شریک جہاد ہونے سے گریز کیا تھا ۔ یہ سب کچھ ہم سے قبول کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے۔

پیغمبر اکرم نے فرمایا :ابھی تک اس کے بارے میں مجھ پرکوئی حکم نازل نہیں ہوا ۔

تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ بعد والی آیت نازل ہوئی او رآپ کو حکم دیا گیا کہ ان کے اموال میں سے کچھ حصہ لے لیں او ربعض روایات کے مطابق تیسرا حصہ قبول کرنے کاحکم ہوا۔

کچھ اور روایات میں ہے کہ مندرجہ بالاآیت ابولبابہ کے بارے میں بنی قریظہ کے واقعہ کے سلسلہ میں ہے قریظہ یہودی تھے انھوں نے ابو لبابہ سے مشورہ کیا کہ کیا ہم پیغمبر کا فیصلہ مان لیں یانہ ۔ اس نے کہا کہ اگر تم نے ان کا فیصلہ مان لیا تو آنحضرتعليه‌السلام تم سب کے سر اڑادیں گے ۔ اس کے بعد ابولبابہ اپنی اس بات پر پشیمان ہو ا اور توبہ کی اور اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا۔ اس کے بعد مندرجہ بالا آیت نازل ہو ئی اور خدا تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کرلی۔(۱)

____________________

۱۔ مجمع البیان اور دیگر تفاسیر ۔

توبہ کرنے والے

گزشتہ آیت میں مدینہ داخلی اور خارجی منافقین کی کیفیت بتائی گئی تھی ان یہاں ایک گناہگار مسلمان گروہ کی طرف اشارہ کیا گیاہے انھوں نے توبہ کی اور اپنے برے اعمال کی تلافی کے لئے اقدام کیا ۔ ارشاد ہوتا ہے : ان میں سے ایک گروہ نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا ہے( وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ ) اور انھوں نے اچھے اور برے اعمال کو آپس میں ملا دیا ہے( خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا ) ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : امید ہے خدا ان کی توبہ قبول کرلے اور اپنی رحمت ان کی طرف پلٹا دے( عَسَی اللهُ اٴَنْ یَتُوبَ عَلَیْهِمْ ) ۔” کیونکہ خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے “ اور وسیع و عریض رحمت کا مالک ہے (ا( ِٕنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

مندرجہ بالا آیت میں ”عسیٰ“کی تعبیر آئی ہے یہ عموماً کامیابی اور ناکامی کے اکٹھے احتمال کے مواقع پر آتی ہے یہ شاید اس بناء پر ہے کہ انھیں امید و بیم اور خوف ورجاء کے درمیان رکھا جائے کیونکہ یہ دونوں کیفیتیں تکامل اور ارتقاء او ر تربیت کا ذریعہ ہیں ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ ”عسیٰ “ کی تعبیر اس طرف اشارہ ہو کہ توبہ ، ندامت اور پشیمانی کے علاوہ انھیں دیگر شرائط کو بھی پورا کرنا چاہئیے اور اپنے نیک اعمال کے ذریعے گذشتہ کی تلافی کرنا چاہئیے ۔ لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ کہ آیت اللہ کو غیران و رحمت کے ذکر سے مکمل کیا گیا ہے ، اس میں امید کا پہلو غالب ہے ۔

یہ با ت بھی واضح ہے کہ آیت اگر چہ ابو لبابہ کے بارے میں یا جنگ ِ تبوک کے دیگر متخلفین کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس سے آیت کا وسیع معنی محدود نہیں ہو جاتا بلکہ آیت ان تمام افراد کا احاطہ کئے ہوئے ہے جو نیک وبد اعمال کو خلط ملط کر دیتے ہیں اور پھر اپنے برے اعمال پر پشیمان ہوتے ہیں ض اسی لئے بعض علماء سے منقول ہے انھوں نے کہا ہے کہ مندرجہ بالا آیت نہایت امید بخش آیات ِ قرآن میں سے ہے کہ جس نے گنہ گاروں کے لئے کئی دروازے کھول دئیے ہیں اورتوبہ کرنے والوں کو اپنی طرف دعوت دی ہے ۔

آیات ۱۰۳،۱۰۴،۱۰۵

۱۰۳ ۔( خُذْ مِنْ اٴَمْوَالِهمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکیهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیهِمْ إِنَّ صَلَاتَکَ سَکَنٌ لَهُمْ وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ) ۔

۱۰۴ ۔( اٴَلَمْ یَعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَیَاٴْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَاٴَنَّ اللهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ) ۔

۱۰۵ ۔( وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۰۳ ۔ انکے اموال سے صدقہ ( زکوٰة ) لے لوتاکہ انھیں اس کے ذریعے پا کرو اور ان کی تربیت کرو اور ( زکوٰة لیتے وقت ) انھیں دعا دو کیونکہ تمہاری دعا ان کے سکون کا باعث ہے اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

۱۰۴ ۔ کیاوپہ جانتے نہیں کہ صرف خدا ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے اور خدا ہی توبہ قبول کرنے والا مہر بان ہے ۔

۱۰۵ ۔ کہہ دو ! عمل کر و خدا، اس کا رسول او رمومنین تمہارے عمل کو دیکھتے ہیں اور عنقریب اس کی طرف لوٹ کر جاو گے کہ جو پنہاں اور آشکار کو جانتا ہے اور تمہیں اس چیز کی خبر دے گا جو کچھ تم کرتے ہو۔

زکوٰة فرد او رمعاشرے کو پا ک کرتی ہے

پہلی زیر نظر آیت میں ایک اہم اسلامی حکم یعنی زکوٰة کی طرف اشارہ ہوا ہے اور رسول اللہ کو ایک عمومی قانون کے طور پر حکم دیا گیا ہے کہ ان کے اموال سے صد قہ یعنی زکوٰة وصول کرو( مِنْ اٴَمْوَالِهمْ صَدَقَةً ) ۔

لفظ ”من “ جو تبعیض کے لئے ہے نشاندہی کرتا ہے کہ زکوٰة مال کا ایک حصہ ہوتا ہے پورا مال نہیں اور نہ ہی اس کا پورا حصہ زکوٰة قرار پاتا ہے ۔

اس کے بعد زکوٰة کے اخلاقی ، نفسیاتی اور اجتماعی فلسفہ کے دو پہلو وں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اس طرح سے تو انھیں پا ک کرتا ہے اور نشو و نما دیتا ہے( تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکیهِمْ بِهَا ) ۔ انھی اخلاقی رذائل، دنیا پرستی او ربخل سے پاک کرتا ہے اور انسان دوسری ، سخاوت اور دوسروں کے حقوق کی پاسداری کے لئے نشو و نما دیتا ہے ۔

اس سے قطع نظر معاشرے کے ایک طبقے کی محرومیت سے جو خرابیاں ، افلاس ، گناہ اور طبقاتی تفاوت جنم لیتی ہے ۔ اسے الہٰی فریضہ انجام دے کر ختم کرو اورمعاشرے کو ان آلودگیوں سے پا ک کردو ۔ علاوہ بر این اجتماعی وابستگی ، نمو ، اقتصادی پیش رفت ایسے ہی کاموں سے ہوتی ہے اس بناء پر زکوٰة کا حکم ایک طرف سے معاشرے اور فرد کو پاک کرتا ہے اور دوسری طرف انسانوں میں فضیلت کے بیج کی نشو و نما کرتا ہے ۔ نیز معاشرے کی پیش رفت کا سبب بھی ہے اور زکوٰة کے بارے میں پیش کی جا سکنے والی یہ بہترین تعبیر ہے یعنی ایک طرف سے یہ آلودگیوں کو دھو ڈالتی ہے دوسری طرف ارتقاء و تکامل کا ذریعہ ہے ۔ آیت کے معنی میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیاہے کہ ” تطھرھم“کافاعل زکوٰة ہو اور ” تزکیھم“ کا فاعل پیغمبر اکرم ہوں ۔ اس بناء پر آیت کا معنی یہ ہوگا کہ زکوٰة انھیں پاک کرتی ہے اور اس کے ذریعے تو ان کی نشو ونما کرتاہے لیکن زیادہ ظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ دونوں کا فاعل ذات ِ پیغمبر ہے ۔ جیسا کہ ہم نے ابتداء میں معنی کیاہے اگر چہ نتیجہ کے لحاظ سے ان دونوں تعبیروں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے جس وقت وہ زکوٰة ادا کریں تو ان کے لئے دعا کرو اور ان پر درود بھج دو( وَصَلِّ عَلَیهِمْ ) ۔

یہ بات نشاندہی کرتی ہے کہ واجب ذمہ داریاں ادا کرنے پر بھی لوگوں کی قدر دانی کی جانا چاہئیے اور خصوصیت سے معنوی اور نفسیاتی طریقے سے انھیں تشویق دلانی چاہئیے لہٰذ اروایات میں ہے کہ جب رسول اللہ کی خدمت میں زکوٰة لے کر آتے تھے تو آپ ”اللھم صل علیھم “ کہہ کر ان کے لئے دعا کرتے تھے ۔

بعد میں مزید فرمایا گیا ہے : تمہارا یہ دعا کرنا اور درود بھیجنا ان کے قلبی سکو کا سر مایہ ہے( إِنَّ صَلَاتَکَ سَکَنٌ لَهُمْ ) ۔

کیونکہ اس دعا سے ان کے قلب و روح پر رحمت ِ الہٰی کا نزول ہوتا ہے اور وہ اسے محسوس کرتے ہیں علاوہ ازیں رسول اللہ یا ان کے جانشین لوگوں کی جو قدر دانی کرتے ہیں اور ان کے مال کی زکوٰة لیتے ہیں تو انھیں ایک قسم کا روحانی اور فکری سکون پہنچاتے ہیں یعنی اگر ظاہراً وہ ایک چیز دے بیٹھے ہیں تو اس سے بہتر چیز انھوں نے حاصل کی ہے ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہم نے آج تک نہیں سنا کہ مالیات پر مامور افراد کی ذمہ داری ہو کہ وہ لوگوں کا شکریہ ادا کریں لیکن یہ ایک مستحب حکم اسلامی لائحہ عمل میں موجود انسانی اقدار کے گہرے احترام کو واضح کرتا ہے ۔

آیت کے آخر میں گذشتہ بحث کی مناسبت سے ارشاد ہو تاہے : خدا سننے والا اور جاننے والا ہے ( وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ)۔وہ پیغمبر کی دعا بھی سنتا ہے اور زکوٰة دینے والوں کی نیت کو بھی جانتا ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ قبول کی گئی زکوٰة :

گزشتہ آیات کے بارے میں جو شان ِ نزول ہم نے ذکر کی ہے اس سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت ان آیا ت سے قریبی تعلق رکھتی ہے جن کا ربط ابو لبابہ اور اس کے ساتھیوں کی توبہ کے واقعہ سے ہے کیونکہ وہ اپنی تو بہ قبول ہونے کے شکرانے پر اپنا سب مال رسول اللہ کی خدمت میں لے آئے اور آپ نے ان کے مال میں سے کچھ حصہ لے لیا لیکن یہ شان ِ نزول ا س کے منافی نہیں کہ آیت زکوٰة کے بارے میں ایک عمومی حکم رکھتی ہو او ریہ جو بعض مفسرین نے ان دونوں کے درمیان تضاد و خیال کیا ہے درست نہیں ہے جیسا کہ ہم نھے باقی آیات اور ان کی شان ، نزول کے بارے میں کئی مرتبہ کہا ہے ۔

ایک ہی سوال باقی رہ جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس روایت کے مطابق رسول اللہ نے ابو لبابہ اور اس کے ساتھیوں کے مال میں سے ایک تہائی حصہ قبول کیا تھا جب کہ زکوٰة کی مقدار کسی مقام پر بھی ۳/۱ نہیں ہے ۔ گندم، جو ، خرما اور کشمش میں دسواں حصہ ہوتا ہے اور کبھی بیسواں ۔ سونا اور چاندی میں ڈھائی ( ۲/۱ ۔ ۲) فیصد زکوٰة ہوتی ہے اور گائے ، گوسفند اور اونٹ میں بھی زکوٰة کی مقدار ایک تہائی نہیں بنتی۔

لیکن اس سوال کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ نے ان کے اموال میں سے ایک حصہ زکوٰة کے طور پر اور باقی ان کے گناہوں کے کفارے پر وصول کیا اس بناء پر آپ نے ان سے واجب زکوٰة لی اور کچھ مقدارانھیں گناہوں سے پاک کرنے کے لئے قبول کی جس کی کل مقداران کے اموال کا ۳/۱ حصہ بنتی ہے ۔

۲ ۔ ”خذ“کا مفہوم :

اس کا معنی ہے ”لے لو“ یہ حکم اس امر کی واضح دلیل ہے کہ اسلامی حکومت کا سر براہ لوگوں سے زکوٰةلے سکتا ہے نہ یہ کہ وہ منتظر رہے کہ اگر لوگ چاہیں تو ادا کریں اور اگر نہ چاہیں تونہ کریں ۔

۳ ۔ ”صل علیھم “ کے حکم کی عمومیت :”

صل علیھم “ اگر چہ رسول اللہ سے خطاب ہے مگر واضح ہے کہ یہ ایک کلی اور عمومی حکم ہے ( کیونکہ کلی قانون یہ ہے کہ پیغمبر کی خصوصیات کو دلیل خاص کا ذریعہ ہو نا چاہئیے )۔

لہٰذا بیت المال کے ذمہ دار اور نگران ہر زمانے میں زکوٰة دینے والوں کو ”اللهم صلی علیهم “ کہہ کر دعا دے سکتے ہیں ۔

اس کے باوجود اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ اہل سنت میں سے کچھ متعصب افراد آلِ نبی پر درود و صلٰوة کو بالکل جائز نہیں سمجھتے یعنی اگر کوئی کہے ”اللهم صلی علی ٓعلی امیر المومنین “ یا ”صلی علی فاطمة الزهرآء “ تو اسے ممنوع شمار کرتے ہیں ۔(۱)

حالانکہ ایسی دعا ممنوع ہونے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے نہ کہ جواز کے لئے دلیل کی احتیاج ہے ۔

علاوہ ازیں جیسا کہ سطور بالا میں ہے قرآن صراحت سے اجازت دیتا ہے کہ عام افراد کے بارے میں ایسی دعا کی جائے ،چہ جائیکہ اہل بیت رسول ، ،جانشینان ، پیغمبر اور اولیاء ِ الٰہی کے لئے ۔ لیکن کیا کیا جاسلتا ہے کہ بعض اوقات تعصبات قرآنی آیات بھی سمجھنے نہیں دیتے ۔

بعض گنہ گار مثلاً جنگ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے رسول اللہ سے اصرار کرتے تھے کہ آپ ان کی تو بہ قبول کرلیں ۔ اس سلسلے میں زیر بحث دوسری آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ تو قبول کرنا رسول کا کام نہیں ہے ” کیا وہ جانتے نہیں کہ خدا ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے( اٴَلَمْ یَعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ ) ۔وہ نہ فقط توبہ قبو ل کرنے والا ہے بلکہ زکوٰة یادوسرے صدقات جوگناہ کے کفارہ کے طورپر یا پروردگار کے تقرب کے لئے دئیے جاتے ہیں وہ بھی خدا ہی لیتا ہے( وَیَاٴْخُذُ الصَّدَقَاتِ ) ۔

اس میں شک نہیں کہ زکوٰة و صدقات پیغمبر ، امام او رمسلمانوں کے پیشوا وصول کرتے ہیں یا مستحق افراد لیتے ہیں ۔ بہر صورت بظاہر ان سے یہ چیزیں خد ا نہیں لیتا ۔ لیکن چونکہ پیغمبر اور ہادیان ِ بر حق کا ہاتھ خد اکا ہاتھ ہے ( اس لئے کہ وہ خدا کے نمائدے ہیں ) تو گویا خدا ہی ان صدقات کو وصول کرتا ہے اس طرح ضرورت مند بندے جو خدا کی اجازت او رفرمان سے ایسی مدد قبول کرتے ہیں در حقیقت اسی کے نمائندے ہیں اس طرح ان کا ہاتھ بھی خدا ہی کا ہاتھ ہے یہ ایک انتہائی لطیف چیز ہے جو زکوٰة کے اس اسلامی حکم کی عظمت و شکوہ کی تصویر کشی کرتی ہے ۔

اس عظیم خدائی فریضہ کی ادائیگی کے لئے مسلمانوں کو شوق دلانے کے علاوہ اس طرح سے انھیں خبر دار کیا گیا ہے کہ وہ زکوٰةو صدقات ادا کرنے میں انتہائی ادب و احترام ملحوظ نظر رکھیں کیونکہ لینے والا خدا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کوتاہ فکری سے یہ تصور کرلیا جائے کہ ضرورت مند شخص کی تحقیر و تذلیل میں کوئی حرج نہیں یا اسے اس طرح زکوٰة دی جائے کہ اس کی شخصیت مجروح ہو بلکہ اس کے بر عکس چاہئیے کہ یہ انکساری کے ساتھ اپنے ولی نعمت کے سامنے ادب کے اظہار کے ساتھ زکوٰة اس کے مستحق تک پہنچائی جائے ۔

رسول اکرم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :ان الصدقة تقع فی ید الله قبل ان تصل الیٰ ید السآئل

صدقہ حاجت مند کے ہاتھ میں جانے سے پہلے خدا کے ہاتھ میں پہنچتا ہے ۔

دوسری حدیث میں امام سجادعليه‌السلام سے منقول ہے :ان الصدقة لاتقع فی ید العبد حتیٰ تقع فی ید الرب

صدقہ بندے کے ہاتھ میں اس وقت تک نہیں پہنچتا جب تک کہ پہلے پروردگار کے ہاتھ میں نہ جائے

( پہلے خدا کے ہاتھ میں جاتا ہے پھر بندے کے ہاتھ میں جاتا ہے )(۳)

یہاں تک کہ ایک روایت میں ہے:

اس بندے کے تمام اعمال فرشتے اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں سوائے صدقہ کے کہ جو براہ ِراست خدا کے ہاتھ میں جاتا ہے ۔(۴)

یہی مضمون جو مختلف تعبیروں کے ساتھ ہم نے روایات اہل بیتعليه‌السلام میں پڑھا ہے اہل سنت کے طرق سے بھی ایک اور تعبیر کے ساتھ نقل ہوا ہے ۔ صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

ما تصدق احد کم بصدقة من کسب حلال طیب ولاتقبل الله الا الطیب الا اخذها الرحمن بیمینه و ان کانت تمرة فتربوا فی کف الرحمن حتیٰ تکون اعظم من الجبل ۔

تم میں سے کوئی شخص حلال کمائی میں سے صدقہ نہیں دے گا - اور البتہ خدا حلال کے علاوہ قبول نہیں کرت- مگر یہ کہ خدا اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لے گا ۔ اگر خرمے کا ایک دانہ ہو ۔ پھر وہ خدا کے دست قدرت میں بڑھنا شروع ہو گایہاں تک کہ وہ پہاڑ سے بھی بڑا ہو جائے گا ۔(۵)

یہ حدیث معنی خیز تشبیہات او رکنایہ جات سے معمور ہے ۔ اس سے اسلامی تعلیمات میں انسانی خد مت اور حاجت مندوں کی مدد کی بہت زیادہ اہمیت واضح ہو تی ہے ۔

احادیث میں اس ضمن میں کئی ایک اور تعبیرات بھی آئی جو بڑی جاذب ِ نظر اور اہم ہیں ۔ ان میں مکتب اسلام کے پرورش یافتہ افراد کو حاجت مندوں کو مدد دیتے ہوئے ایسا منکر بنا کر پیش کیا گیا ہے گویا ھاجت مندوں نے مدد قبول کرکے ان پر احسان کیا ہے اور انھیں اعزاز و افتخار سے نوازا ہے ۔ مثلاً بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ معصومین بعض اوقات حاجت مند کو صدقہ دینے سے پہلے احترام اور تعظیم کی علامت کے طور پر اپنے ہاتھ کا بوسہ لیتے یا یہ کہ پہلے وہ مال حاجت مند کو دے دیتے پھر اسے لے کر بوسہ لیتے اور سونگھتے پھر اسے واپس کردیتے چونکہ وہ دستِ خدا کے رو برو ہوتے تھے لیکن وہ لوگ ان تعلیمات سے کس قدر دور ہیں کہ جو اپنے ضرورت مند بھائیوں یا بہنوں کی تھوڑی سی مدد کرتے ہوئے ان کی تذلیل کرتے ہیں یا ان سے سختی یا بے اعتنائی سے پیش آتے ہیں ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات بے ادبی سے ان کی طرف پھینکتے ہیں ۔

البتہ جیسا کہ اپنے مقام پر ہم نے کہا ہے کہ اسلام اپنی پور ے اسلامی معاشرے میں کوئی فقیر اورحاجت مند نہ رہے لیکن اس میں شک نہیں کہ ہر معاشرے میں کچھ آبرو مند و ناتواں ، ننھے یتیم اور بیمار وغیرہ ہوتے ہیں جو کمانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ ضروری ہے کہ بیت المال او رمتمکن افراد کے ذریعے انتہائی ادب و احترام سے ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے ۔

آیت کے آخر میں زیادہ تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے : خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے( وَاٴَنَّ اللهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ) ۔

توبہ اور اس کی تلافی جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ گناہ پر صرف ندامت اور پشیمانی کانام نہیں بلکہ ضروری ہے کہ ندامت کے ساتھ ساتھ اصلاح اور تلافی بھی شامل ہو۔ ممکن ہے یہ تلافی بھی شامل ہو ۔ ممکن ہے یہ تلافی ضرورت مندوں کی بلا عوض امداد کی صورت میں ہو جیساکہ مندرجہ بالا آیات میں اور ابو لبابہ کے واقعہ میں ہم نے پڑھا ہے ۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ گناہ مالی امور سے متعلق ہو یا کسی اور سے متعلق ، جیسا کہ ہم جنگ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کے مسئلہ میں پڑھ چکے ہیں ۔ در حقیقت مقصد یہ ہے کہ گناہ سے آلودہ روح کو نیک ، صالح او رشائستہ عمل سے دھو یا جائے اور اسے پاک کیا جائے اور پہلی اور فطری پاکیز گی کو لوٹا یا جائے۔

بعد والی آیت میں گذشتہ مباحث کے بارے میں نئی شکل میں تاکید کی گئی ہے ۔ پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو اس امر کی تبلیغ کریں اور کہیں کہ اپنے اعمال او رذمہ دار یاں انجام دو او رجان لو کہ خدا ، اس کا رسول اور مومنین تمہارے اعمال کو دیکھیں گے( وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ کوئی تصور نہ کرے کہ اگر وہ کسی خلوت کے مقام پر یا کسی جماعت کے اندر کوئی عمل انجام دیتا ہے تو وہ علم خدا کی نگاہ سے اوجھل رہ جاتا ہے بلکہ خدا کے علاوہ وہ پیغمبر او رمومنین بھی اس سے آگاہ ہیں ۔ اس حقیقت کی طرف توجہ اور اس پر ایمان اعمال اور نیتوں کے پا ک رہنے کے لئے بہت موثر ہے عام طور پر اگر انسان یہ احساس کرکہ اسے ایک آدمی دیکھ رہا ہے تو وہ اپنی کیفیت ایسی بنالے گا کہ جو قابل اعتراض نہ ہو چہ جائیکہ اسے یہ احساس ہو کہ خدا و رسول او رمومنین اس کے اعمال سے باخبر ہیں ۔ عنقریب تم ایسی ہستی کی طرف لوٹ جاو گے جو مخفی اور آشکار سے آگاہ ہے اور وہ تمہیں تمہارے عمل کی خبر دے گا اور اس کے مطابق جزا دے گا( وَسَتُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان ، زیربحث آیے کے ذیل میں ۔

۲۔ان لوگوں کی ایل بیت رسالت سے دشمنی اس حد تک ہے کہ آنحضرت کے لئے بھی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہتے ہیں اور ” صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم “ نہیں کہتے ۔ جب کہ رسول اللہ نے خود آل کے ذکر کے بغیر صلوٰت کو ” دم کٹی صلوات“ قرار دیا ہے ۔ کدا وند عالم مسلمانوں کو عظلمت اہل ِ بیتعليه‌السلام کا اقرار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ( مترجم )

۳ ۔ تفسیر صافی زیر بحث آیت کے ذیل میں بحوالہ تفسیر عیاشی ۔

۴۔ تفسیر بر ہان زی بحث آیت کے ذیل میں بحوالہ تفسیر عیاشی ۔

۵۔ تفسیر المنار ج ۱۱ ص ۳۳ ( یہ حدیث طرق اہلِ بیت سے امام صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے ۔ بحار الانوار ج۹۶ ص ۱۴۳ طبع جدید کی طرف رجوع فرمائیں )

ایک اور گروہ فر مان خدا سے نکل گیا ۔

۱ ۔ اعمال پیش ہونے کا مسئلہ : بہت سی روایات او رخبریں جو آئمہ سے پہنچی ہیں ان کے پیش نظر مکتب اہل بیت کے پیروں کایہ مشہور و معروف عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرم اور آئمہ ہدایٰ تمام امت کے اعمال سے آگاہ ہوجاتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ مخصوص طریقوں سے امت کے اعمال ان کے سامنے پیش کردیتاہے ۔

اس سلسلے میں منقول روایات بہت زیادہ ہیں اور شاید حد تواتر تک ہوں ۔ ہم نمونے کے طور پر ان میں سے مختلف قسم کی چند روایات ذیل میں درج کرتے ہیں ۔

۱ ۔ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے ،آپعليه‌السلام نے فرمایا :

تعرض الاعمال علیٰ رسول الله اعمال العباد کل صباح ، ابرارها و فجار ها ، فاحذروها ، وهو قول الله عز وجل و قل اعملو ا فسیری الله عملکم و رسوله ، وسکت ۔

لوگوں کے تمام اعمال ہر روز صبح کے وقت رسول خدا کے سامنے پیش ہوتے ہیں ، چاہے وہ نیک لوگوں کے اعمال ہو ں یا برے لوگوں کے ،لہٰذا متوجہ رہو ( اور اسے ڈرو) اور خدا تعالیٰ کے ارشاد ” قل اعملو ا فسیری اللہ عملکم و رسولہ“ کا یہی مفہوم ہے یہ کہہ کر آپ خاموش ہو گئے۔(۱)

۲ ۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے جس میں آپعليه‌السلام فرماتے ہیں :

ان الاعمال تعرض علی نبیکم کل عشیة الخمیس فلیستح احدکم ان تعرض علی نبیه العمل القبح ۔

تمہارے تمام اعمال ہر جمعرات کو عصر کے وقت رسول خدا کے پاس پیش ہوتے ہیں لہٰذا اس بات پر شرم کرو کہ تمہاری طرف سے کوئی بر اعمل خدمت پیغمبر میں پیش ہو ۔(۲)

۳ ۔ نیز ایک اور روایت امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک شخص نے آپعليه‌السلام کی خدمت میں عرض کیا میرے لئے اور میرے گھر والوں کے لئے دعا کیجئے۔

تو آپعليه‌السلام نے فرمایا :تو کیا میں دعا نہیں کرتا،و الله ان اعمالکم لتعرض علیٰ فی کل یوم و لیلة

( خدا کی قسم تمہارے اعمال ہر روز شب میرے سامنے پیش ہوتے ہیں )

راوی کہتا ہے کہ یہ بات مجھ پر گراں گذری ، امام متوجہ ہوئے اور مجھ سے فرمایا:

اما تقرء لتاب الله عزو جل ” و قل اعملوا فسیری الله عملکم و رسوله والموٴ منون هو و الله علی بن ابی طالب “۔

کیا تونے اللہ کی کتاب نہیں پڑھی جو کہتی ہے ۔ ” عمل کر و، خدا ، اس کا رسول اور مومنین تمہارے عمل کو دیکھتے ہیں ۔ خد اکی قسم مومنین سے مراد علی بن ابی طالب ( اور ان کی اولاد میں سے دوسرے امام ) ہیں ۔ ۳

البتہ بعض روایات میں صرف رسول اللہ کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔ کچھ حضرت علیعليه‌السلام کے بارے میں اور بعض میں پیغمبر اکرم اور تمام آئمہ کا ذکر ہے اسی طرح کچھ روایات صرف جمعرات کو عصر کے وقت اعمال پیش ہونے کے بارے میں ہیں ، بعض میں ہر روز اعمال پیش ہونے کا تذکرہ ہے ، کچھ میں ہفتہ میں دو مرتبہ ، بعض میں ہر ماہ کے شروع میں اوربعض میں موت کے وقت او ر قبر میں رکھے جانے کے وقت کا ذکر ہے ۔

واضح ہے کہ یہ روایات آپس میں ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں او رہوسکتا ہے کہ سب صحیح ہوں ۔ ٹھیک اسی طرح جیسے بہت سے اداکاروں میں ہر روز کی کار گزاری روزانہ ، ہفتہ کی کار گزاری ہفتے کے آخر میں او رمہینے یا سال کی کار گزاری مہینے یا سال کے آخر میں اعلیٰ افسروں کو پیش کی جاتی ہے ۔

یہاں یہ سوال پیش آتاہے کہ کیا خود زیرنظر آیت اور اس کی تفسیر میں وارد روایات سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے یا جیسا کہ اہل سنت کے مفسرین نے کہا ہے کہ آیت ایک عام مسئلے کی طرف اشارہ کررہی ہے وہ یہ کہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے چاہے نہ چاہے ظاہر ہو ہی جات اہے اور خدا کے علاوہ پیغمبر اور تمام مومنین عام طریقوں ہی سے اس سے آگاہ ہو جاتے ہیں ۔

اس سوال کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ انصاف یہ ہے کہ خود آیت میں اس بارے میں کچھ شواہد موجود ہیں ۔

پہلا یہ کہ آیت مطلق ہے اور اس میں تمام اعمال شامل ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ تمام اعمال معمول کے طریقوں سے رسول اللہ او رمومنین پر آشکار نہیں ہوتے تھے کیونکہ بہت سے غلط اعمال مذخفی طور پر انجام پاتے تھے او راکثر اوقات پوشیدہ رہ جاتے تھے یہاں تک کہ بہت سے اچھے اعمال بھی اسی طرح چھپے رہتے تھے ۔

اگر ہم یہ دعوی کریں کہ تمام نیک اعمال میں سے اکثر سب پر واضح ہو جاتے تھے تو یہ ایک بے ہودہ بات ہو گی۔ لہٰذالوگوں کے اعمال سے رسول اللہ کی اور لوگوں کی آگاہی غیر معمولی طریقوں اور خدائی تعلیم ہی سے ہو سکتی ہے ۔

دوسرا یہ کہ آیت کے آخر میں ”فینبئکم بما کنتم تعملون“خد اتمہیں قیامت میں اس سے آگاہ کرے گا جو تم عمل کرتے تھے ) اس میں شک نہیں کہ اس جملے کے مفہوم میں انسان کے تمام اعمال شامل ہیں چاہے وہ مخفی ہوں یا آشکار اور آیت کا ظاہر یہ ہے کہ آیت کی ابتداء اور آخر میں ”عمل“ کا ایک ہی مفہوم ہے لہٰذا آیت کی ابتداء میں آشکار و مخفی تمام اعمال کے بارے میں ہے اور اس میں شک نہیں کہ ان تمام سے آگاہی معمول کے طریق سے ممکن نہیں ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آیت کے کا آخری حصہ تمام اعمال کی جزا کے بارے میں ہے ۔ اس لئے آغاز بھی خدا ، رسول او رمومنین کی تمام اعمال سے آگاہی سے متعلق ہے ۔ ایک آگاہی کا مرحلہ ہے اور دوسرا جزاء کا اور بات دونوں میں ایک ہی موضوع سے متعلق ہے ۔

تیسرا یہ کہ ” مومنین “ کا ذکر اسی صورت میں صحیح ہے کہ مراد سب اعمال ہوں اور غیر معمولی طریقوں سے معلوم ہوں ۔ ورنہ جو اعمال آشکار اور واضح ہیں وہ تومومنین اور غیرمومنین سب دیکھتے ہیں ۔

یہاں سے ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں مومنین سے مراد سب صاحب ایمان افراد نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کچھ مخصوص افراد ہیں جو حکم خدا سے اسرار غیبی سے آگاہ ہیں یعنی رسول اللہ کے حقیقی جا نشین ۔

ایک اہم نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہئیے یہ ہے کہ جس طرح پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ اعمال کے پیش ہونے کا مسئلہ اس کے معتقدین کے لئے بہت زیادہ تربیتی اثر رکھتا ہے کیونکہ جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ خدا جوکہ ہر جگہ میرے ساتھ ہے اس کے علاوہ پیغمبر اکرم اور ہمارے محبوب پیشوا ہر روز یا ہر ہفتے میرے ہر عمل سے چاہے وہ اچھا ہو یا برا آگاہ ہو جاتے ہیں تو بلا شبہ ہم زیادہ احتیاط کریں گے اور اپنے اعمال کی طرف متوجہ رہیں گے بالکل اسی طرح جیسے کسی ادارے میں کام کرنے والوں کو معلوم ہو کہ ہر روز ہر ہفتے ان کے تمام پوری تفصیل سے اعلیٰ افسروں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور وہ ان سب سے باخبر ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے کاموں کو بڑی توجہ سے انجام دیں گے ۔

۲ ۔ کیا روئیت یہاں دیکھنے کے معنی میں ہے ؟ بعض مفسرین میں مشہور ہے کہ ” فسیری اللہ عملکم “ میں روئیت معرفت کے معنی میں ہے نہ کہ علم کے معنی میں کیونکہ اس کا ایک سے زیادہ مفعول نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ اگر روئیت علم کے معنی میں ہوتو اس کے دو مفعول چاہئیے ہو ں گے ۔

لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کہ روئیت کو اس کے اصل معنی میں لیا جائے یعنی محسوسات کا مشاہدہ نہ کہ علم یا معرفت ۔ یہ بات خدا کے بارے میں تو جو ہر جگہ حاضر و ناضر ہے اور تمام محسوسات پر احاطہ رکھتا ہے قابل، بحث نہیں لیکن پیغمبر اور آئمہعليه‌السلام کے متعلق بھی کوئی مانع نہیں کہ وہ خود اعمال کو دیکھیں کہ جب ان کے سامنے پیش ہو ں کوینکہ ہم جانتے ہیں کہ انسانی امعلا فانی نہیں ہیں بلکہ قیامت تک باقی رہیں گے ۔

۳ ۔ عنقریب خدا اعمال دیکھے گا “ سے کیا مراد ہے : اس میں شک نہیں کہ خدا اعمال سے پہلے ہیں ان سے آگاہ ہے اور یہ جو آیت میں ”فسیری اللہ “ یعنی عنقریب تمہارے اعمال دیکھے گا “ آیا ہے ، یہ اعمال کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے جو ان کے وجو د اور تحقیق کے بعد ہو گی ۔

____________________

۱ اصول کافی جلد ۱ ص ۱۷۱ ( باب عرض الاعمال )

۲۔ تفسیر برہان جلد ۲ ص ۱۵۸۔

۳۔ اصول کافی جلد ۱ ص ۱۷۱ ( باب عرض الاعمال )۔