گفتگو کا سلیقہ

گفتگو کا سلیقہ 0%

گفتگو کا سلیقہ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

گفتگو کا سلیقہ

مؤلف: ڈاکٹر عصام العماد
زمرہ جات:

مشاہدے: 8003
ڈاؤنلوڈ: 1950

تبصرے:

گفتگو کا سلیقہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8003 / ڈاؤنلوڈ: 1950
سائز سائز سائز
گفتگو کا سلیقہ

گفتگو کا سلیقہ

مؤلف:
اردو

(مذہب امامیہ کی خصوصیات)

گرچہ یہ خصوصیات دوسرے مرحلہ سے مربوط ہیں لیکن ہم نے جان بوجھ کر ان خصوصیات کو آخر میں بیان کیا ہے تاکہ ایک وہابی، انھیں آسانی کے ساتھ درک کرسکے، اور یہ تین خصوصیات یہ ہیں:

١۔ اہلبیت کے بارے میں امامیہ کا میانہ رو ہونا۔

٢۔ امام زمانہ کی غیبت مذہب امامیہ کی نظر میں ۔

مذہب امامیہ کو سمجھنے کے لئے ہم ان تمام مراحل کو طے کرنے پر مجبور ہیں، اوران مراحل میں ترتیب کا ہونا بے حد ضروری ہے. مذہب تشیع کی وضاحت کے لئے جس روش کو ہم نے انتخاب کیا ہے اسے ایک نقشہ کی صورت میں پیش کرتے ہیں تاکہ اس روش کے تمام مراحل قارئین کے لئے واضح ہو جائیں۔(۱)

____________________

(١) میں نے اس تحقیق کی روش کو وہابیوں کے لئے مرتب کیا ہے تاکہ انھیںمذہب تشیع کی کامل شناخت ہو جائے اور جب تک ایک وہابی کے لئے اہل تشیع کا غالی نہ ہونا ثابت نہ ہو جائے اور جب تک وہ الوہیت، نبوت ، دینی احکام، اور شیعی منابع سے باخبر نہ ہوں ؛تب تک اس کے لئے مشکل ہے کہ وہ امامت و غیبت امام زمانہ جیسے مباحث کو سمجھ سکیں. اور میں نے بھی وہابیت کو ترک کرنے کے آخری مراحل میں امامت و غیبت کے مسائل کی معرفت حاصل کی اور ان پر ایمان لایا اِن تمام باتوں کو قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں نے مباحث امامت و غیبت امام زمانہ کو اہمیت نہ دی۔

(١)

مذہب امامیہ کی معرفت

(٢)

مذہب امامیہ کی دقیق معرفت

مذہب امامیہ کی نظر میں الوہیت و نبوت کی حقیقت

مذہب امامیہ کے نزدیک شریعت اور دینی احکام کی حقیقت

مذہب امامیہ کے اہداف کی حقیقت

مذہب امامیہ میں بعض کلمات کے معنی کی حقیقت

(٣)

مذہب امامیہ کی بنیادی معرفت

الف: مذہب تشیع کے منابع

ب: امامت

ج: مذہب امامیہ کی حقیقت

د: اس مذہب کی ابتدا اور اس کے ظہور کی دلیلیں

نتیجہ

مذہب امامیہ کی خصوصیات

اس نقشہ میں یہ بات واضح ہے کہ بعد کے دونوں مراحل کی معرفت سے قبل، پہلے مرحلہ کی معرفت ضروری ہے تاکہ وہابی شیعوں کو غالی کا خطاب نہ دیں، اور اس نقشہ میں پہلے مرحلہ کا سب سے اوپر قرار پانا اس مرحلہ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے لہٰذا اگر اس کو جابجا کردیا جائے تو پھر تحقیق کی روش میں خلل واقع ہوگا اوراسی طرح دوسرے اور تیسرے مرحلے بھی اہمیت کے حامل ہیں، اور انھیں یکے بعد دیگرے قرار دینا ضروری ہے ہر مرحلہ میں کچھ حقائق بیان کئے گئے ہیں، اور چونکہ مذہب امامیہ کے خصائص کوسمجھنا ،ان گذشتہ مراحل کو طے کرنے پر موقوف ہے اسی لئے ہم نے خصائص امامیہ کی بحث کو سب سے آخر میں قرار دیا ہے. ہم نے پہلے مرحلہ کے مطالب کو سب سے پہلے ذکر کیا، تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ مرحلہ آنے والے مراحل کے لئے مؤثر ہے. اور مذہب امامیہ میں حقیقت الوہیت و نبوت جیسی بحث کو دوسرے مرحلہ میں سب سے پہلے قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ دیگر تمام مباحث کا درک کرنا انھیں مباحث پرموقوف ہے۔

یاد رہے جیسا کہ صفحہ ٣٣ کے حاشیہ میں گذر چکا ہے کہ امامت و غیبت امام زمانہ کے مباحث کو ہم نے سب سے آخر میں قرار دیا ہے تاکہ ایک وہابی کے لئے ان مباحث کو سمجھنا آسان ہو جائے۔

اس نقشہ میں عمودی خطوط تحقیق کے تمام مراحل میں محکم ارتباط کی عکاسی کرتے ہیں اور اس حقیقت کی طرف اشارہ بھی، کہ ہر مرحلہ کا وجود گذشتہ مرحلہ پر موقوف ہے اور اس تحقیق میں ترتیب کا لحاظ ضروری ہے۔

ہر مرحلہ میں طبقات کا منسجم ہونا مذہب امامیہ کے حقائق و عقائد کے منسجم ہونے کی دلیل ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ محقق، مذہب امامیہ کے تمام حقائق کوایک مرتب و منسجم شکل میں پیش کرے اور ہر حقیقت و خصوصیت پر علٰیحدہ طور سے تحقیق نہ کی جائے، کیونکہ اس طرح کی تحقیق میں منسجم شکل کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے اور شایدوہابیوں نے شیعیت کی شناخت میں جو خطا کی ہے اس کا ایک سبب یہ ہو کہ انھوں نے مذہب امامیہ کے عقائد و حقائق پر الگ الگ بحث کی ہے. یہ نقشہ مباحث میں ترتیب و تسلسل کو بیان کرتا ہے. ہر مرحلہ، بعد والے مرحلہ کے لئے مقدمہ اور گذشتہ مباحث کا نتیجہ ہے اگر پہلے مرحلہ کو قبول کیا جائے، تو نتیجہ میں دوسرے مرحلہ کو قبول کرنا ضروری ہوگا. اور افقی خطوط کا مفہوم یہ ہے کہ ہر مرحلہ پر محقق کی دقیق نظر ہو، تاکہ ایک مرحلہ دوسرے مرحلہ میں مخلوط نہ ہونے پائے، اور ہر مرحلہ کے لئے ایک دقیق تحقیق کی ضرورت ہے، کیونکہ اگرپہلے مرحلہ میں ہماری تحقیق ناقص ہو تو پھر دوسرے مرحلہ کا صحیح طور پر سمجھنا مشکل ہوگا. اس نقشہ کی نوک اوراس میں کشادگی بتلاتی ہے، کہ اگر تحقیق میں پہلا قدم غلط اٹھے (گرچہ اس کی لغزش کم ہی کیوں نہ ہو) تو آئندہ مراحل میں یہ خطا اور وسیع ہو جائے گی۔

اب ہم ان قارئین کی خدمت میں ان مراحل کو مختصر طور پر بیان کرتے ہیں۔

تصویر (١)

(١)

مذہب امامیہ کی

معرفت

حقیقت

حقیقت

واقعیت

واقعیت

الوہیت و پیامبری از

شریعت اور دینی احکام از

مذہب کے اہداف

بعض الفاظ کے معنی اس

امامیہ

امامیہ

امامیہ

مسلک میں

(٢)

مذہب امامیہ کی دقیق معرفت

مذہب تشیع کے منابع

اس مذہب میں امامت

مذہب امامیہ کی حقیقت

اس مذہب کے وجود میں آنے کی دلیلیں

(٣)

مذہب امامیہ کی بنیادی معرفت

نتیجہ

مذہب امامیہ کی خصوصیات

(پہلا مرحلہ)

مذہب تشیع کا غلو سے کوئی ربط نہیں

سب سے پہلے ایک غیر شیعی محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ شیعیت کے متعلق تحقیق سے پہلے اس مرحلہ پر کہ ''شیعہ غالی نہیں '' اپنی توجہ کو مرکوز کرے ، تاکہ شیعی حقائق اور امتیازات کی برعکس جلوہ نمائی سے محفوظ رکھ سکیں۔

اس اہم فصل میں ہم اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ اہل تشیع اور غالیوں کے درمیان مغایرت ہی نہیں ، بلکہ ایک عمیق شگاف ہے، ایسا شگاف جو مذہب امامیہ کے بلند و بالا اسلامی حقائق اور غالیوں کے پست عناوین الٰہی اور مجوسی فکر کے درمیان پایا جاتا ہے. (و لا تلبسوا الحق بالباطل ...)(۱)

اس مرحلہ میں ان نتائج سے بھی آگاہ ہوں گے جو شیعی افکار کو غالی افکار سے مخلوط کرنے کے سبب وجود میں آئے اور یہی طرز عمل (یعنی غیر مربوط افکار کو شیعیت سے منسوب کرنا) شیعیت کے متعلق ان کی غلط فہمی میں بے حد مؤثر ہے اور اس با اہمیت مرحلہ سے بطور کامل آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ مجوسی ، یہودی، اور مسیحی افکار کو شیعیت سے منسوب کرتے ہیں اوراس مذہب کے حقائق کو برعکس پیش کرتے ہیں۔

____________________

(١) سورۂ بقرہ، آیت ٤٢. حق کو باطل میں مخلوط نہ کرو.

اور میرا عقیدہ ہے کہ اہل تشیع کے حقائق کو سمجھنے سے پہلے ہم اس مرحلہ کو سمجھیں اوردرک کریں کہ شیعہ غالی نہیں ، ہم نے اس مرحلہ کا نام تشیع کی نسبی شناخت رکھا ہے تاکہ امامیہ کی خصوصیات پر گفتگو کرنے سے پہلے، ہم تشیع اور غالیوں کے درمیان فرق کے قائل ہوں۔

اس حصہ میں ان امور کے متعلق تفصیلی گفتگو ہوگی جو غالیوں سے مربوط ہیں، لیکن انھیں شیعیت سے بھی منسوب کیا جاتا ہے اوراس مرحلہ کا نام تشیع کی نسبی شناخت رکھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم مذہب امامیہ کے حقائق جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہیں انھیں مجوسی، یہودی، اور مسیحی کفر آمیز نظریوں سے دور رکھیں اور جب تک وہابی شیعوں کو غالی کا خطاب دینے سے باز نہیں آتے ، شیعہ کے متعلق ان کی تحقیق کی اصلاح ناممکن ہے. ہم نے اس فصل میں سب سے پہلے وہابیوں کی اس مشکل کو بیان کیا ہے اور میں نے اس مشکل کے وجود میں آنے کے اسباب پربھی ایک علمی تحقیق پیش کی ہے۔

قابل ذکر بات ہے کہ دور قدیم اور دورہ حاضر کے سنی علماء نے بحث کو خلط کرنے سے خود کودور رکھا، جس کے نتیجہ میں وہ مذہب امامیہ سے دفاع اور اس مشکل مباحث کو خلط کرنے میں گرفتار افراد سے ، ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔(۱)

____________________

(١) وہابیت جس مشکل میں گرفتار ہے اس کے متعلق علماء اہل سنت کے اقوال ہم بیان کریں گے.

شیعہ شناسی کے مختلف مطالعاتی طریقے

اس مقام پر اپنی گفتگو کو ختم کرنے سے پہلے دوبارہ اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ ہماری اس روش تحقیق کے جو تین مراحل ہیں ان میں ترتیب کا لحاظ ضروری ہے تاکہ شیعیت کے بارے میں وہابی تحقیق کی اصلاح ہوسکے اور اہل سنت و وہابیت کی تحقیق کا اختلاف آشکار ہو جائے۔اگر شیعیت کے بارے میں وہابی اور سنی تحقیق کوایک دوسرے سے مقایسہ کریں تو سنی تحقیق کی کامیابی کا راز ، ان کا شیعہ اور غالی کے درمیان فرق جاننا ہے۔یہ مرحلہ بے انتہا اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس مرحلہ میں ان غلط افکار کی اصلاح ہوگی، جنھیں وہابیوںنے مذہب تشیع سے منسوب کیاہے اور پھر خود وہابیوں کی اصلاح ہوگی، تاکہ وہ صحیح روش کے تحت مذہب تشیع کو پیش کریں، جس کے نتیجہ میں ان کے مطالعہ کا طور طریقہ ،علمی بنیاد پر استوار ہوگا اور چونکہ معاصر سنی علماء نے گذشتہ علماء کی پیروی کی اورانھیں خلط مباحث کے عواقب سے بطور کامل شناخت تھی اس لئے ان کے یہاںامامیہ کے حقائق کی تفسیر وہابی تفسیر سے جدا نظر آتی ہے. اور واضح طور پر انھوں نے شیعیت کے بارے میں وہابی تفسیر کو مستردکیا جانا ہے انھوں نے کچھ علمی معیار و قواعد قرار دیئے ہیں جن کا کسی بھی تفسیر اور تحقیق سے پہلے جانناایک وہابی شخص کے لئے لازم ہے۔

لہٰذا اس مرحلہ کا مطالعہ ضروری ہے تاک عام سنی وہابی نہ ہوجائیں اورخود وہابی اس مرحلہ میں جو شیعی حقائق میں بغیر دقت کے شیعہ مذہب کے خصوصیات سے واقف نہیں ہوسکتے۔ہم قارئین او روہابیوں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اس حصہ کا دقیق او رتفصیلی مطالعہ کریں تاکہ انھیں مطلوب نتیجہ حاصل ہو، کیونکہ مذہب امامیہ کے حقائق کی تفسیر میں تمام غلطیوں کا سرچشمہ، اس مرحلہ کا صحیح طور پر نہ سمجھنا ہے۔اس حصہ کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شیعہ شناسی سے مربوط مطالعات میں تبدیلی پیدا کریں اور اس روش کا انتخاب کریں جسے معاصر اور گذشتہ سنی علماء نے اختیار کیا ہے۔

میں نے زمانہ وہابیت میں شیعیت کی تکفیر میں ایک کتاب بنام ''الصلة بین الاثنی عشریة و فرق الغلاة'' لکھی (جس میں تشیع و غالیوں کو یکساں قرار دیا) جو شیعیت اور غالیوں کے درمیان فرق نہ جاننے، اور شیعہ شناسی میں فقط وہابی کتب سے مدد لینے کا نتیجہ ہے اسی لئے تشیع کی شناخت کے لئے میں نے اس اہم مرحلہ کو سب سے پہلے قرار دیا ہے. میں نے وہابیت کے زمانہ میں تمام جاہل افسانوں، صوفی، مجوسی اور بت پرستوں کے خود ساختہ خرافات اور غالی افکار کو شیعیت سے نسبت دی اور انھیں مذکورہ کتاب میں تفصیلی طور سے درج کیا ہے۔(۱)

____________________

(١)میں وہابیت کے زمانہ میں اس وہم کا شکار تھا کہ غالیوں میں جس قسم کا بھی غلواور شرک پایا جاتا ہے وہی شرک وغلو شیعیت میں بھی موجودہے لیکن بحمد اللہ شیعہ کتب (جس میں غلو شرک سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں) کا مطالعہ کرنے کے بعد ان دو فرقوں میں فرق واضح ہوا اور اس وہم کو میں نے کتاب (دیدگاہ شیعہ دربارۂ غلو و غالیان) میں ذکر کیا ہے۔

میں ہمیشہ یہ سمجھتا تھا کہ شیعوں کی طرف ان امور کا نسبت دینا صحیح ہے، لیکن جس وقت میں نے اس مرحلہ پر توجہ کی تو اپنی غلطی کا احساس ہوا اورا س خطا کی اصلاح کے نتیجہ میں میرے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوئی کہ ان باتوں میں جو شیعوں میں نہیں پائی جاتیں، لیکن ان کی طرف منسوب ہیں اور ان باتوں میں جوان میں پائی جاتی ہیں جبکہ ان کی طرف ان کی نسبت نہیں دی جاتی ، فرق پیدا کرسکو، لہٰذا میں نے مذکورہ کتاب کو طبع ہونے سے کچھ دن پہلے ہی جلا ڈالا۔

اس دوران میں معتقد تھا کہ شیعہ کو مجوسی ، یہودی یاصوفی کہا جاسکتا ہے(۱) لیکن اب میرا نظریہ بدل چکا ہے اوران عناوین کے مصداق شیعہ نہیں ، بلکہ غالی فرقے ہی ہیں، اس مرحلہ کو سمجھنے کے بعد، میں نے تحقیقات میں وہابی روش کوترک کر کے، معاصر اور گذشتہ سنی علماء کی روش کواختیار کیا، جس کے نتیجہ میں میرا یہ قدم شیعیت کے متعلق میرے نظریہ کو بدلنے میں مفید ثابت ہوا اور مجھے شیعیت اور غالیوں میں خلط مباحث سے چھٹکارا ملا۔

بلاشک و شبہہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میں جن فکری مشکلات میں گرفتار تھا اس کی وجہ اس زمانے کے فکری حالات و اسباب تھے. میں نے اپنی پڑھائی یمن کے دارالحکومت شہر صنعاء کے ایک وہابی مدرسہ میں کامل کی، جن کا کام ہی اہل تشیع

____________________

(١) مصنف نے اس مقام پر کلمۂ عنوصیہ سے استفادہ کیاہے. گنوسیسم ایک صوفی فلسفی مکتب ہے جس میں خدا کی شناخت ، باطنی اور روحانی معرفت پر استوار ہے. اور یہ مکتب پہلی و دوسری عیسوی میں مشہور ہوا گویااس کلمہ سے مصنف کی مراد صوفی فرقے ہیں۔

کے بارے میں کتابیں چھاپنااور انھیں نشر کرنا تھا اور ان تمام کتابوں کے مصنفین وہ افراد تھے کہ جو شیعہ اور غالی کوایک جانتے تھے ، جس کے نتیجہ میں شیعہ اور غالی افکار کو ایک دوسرے میں مخلوط کرتے اور شرک آمیز افکار کو شیعیت سے منسوب کرتے تھے۔

ان کتابوں کا مجھ پر کافی اثر ہوا اور اس مدرسہ میں صرف انھیں کتابوں کو چھاپنے کی اجازت تھی کہ جنھیں وہابی روش پر لکھا جاتا اور وہ کتابیں جو شیعیت کی شناخت میں سنی روش پر لکھی جائیں ان کے نشر کرنے کی اجازت نہ تھی۔

کچھ مدت بعد مجھے فرصت ملی اور میں نے شیعیت کے متعلق سنی کتب کا مطالعہ کیاجس پر بے حدتعجب ہوا، کیونکہ میں نے ان کی روش تحقیق میں وہابیوں کی بہ نسبت بنیادی فرق پایا۔

اہل تسنن آگاہ ہیں کہ شیعہ کو غالی کے مساوی قرار دینا ایک بہت بڑی غلطی ہے اسی لئے انھوں نے شیعیت کے بارے میں وہابی تحقیق کو تنقیدکا نشانہ بنایاہے اوروہ معتقد ہیں کہ وہابی کتب کے ذریعہ ذرہ برابر شیعیت کے حقائق کونہیں سمجھا جاسکتا۔

دور حاضر کے سنی مصنف استاد حامد حنفی(۱) اس بارے میں فرماتے ہیں:

ایک طولانی مدت سے أئمہ (ع) کے عقائدکا بطور خاص اور شیعہ عقائد کا بطور عام ،ان کتب کے ذریعہ مطالعہ کر رہا تھا ،کہ جنھیں اس مذہب پر تنقید کرنے والوں نے تحریر کیا ہے، لیکن ان تمام کتابوں کا مطالعہ کرنے کے باوجود کسی بھی قسم کا ثمرہ

____________________

(١)آپ دانشگاہ ''عین شمس'' میں عربی ادبیات گروپ کے رئیس ہیں.

حاصل نہ ہوا اوران کتب میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جو مجھے اس مذہب سے آشنا کرائے١

اہل سنت معتقد ہیں کہ وہابی اپنی غلطی سے آگاہ نہیں ہیں، جس کے نتیجہ میں وہ شیعہ اور غالی کے درمیان فرق نہیں جانتے، اس کے متعلق مصری سنی عالم دین انور جندی لکھتے ہیں:

کیا ہی اچھی اور مناسب ہے یہ بات کہ ایک محقق عاقلانہ طور پر شیعہ اور غالی میں (وہ کہ جن کے مقابل اہل تشیع نے سخت موقف اختیار کیا اور ان کی مکاریوں سے آگاہ کرتے رہے) فرق کا قائل ہو اور اس کی وضاحت کرے ٢

علی عبد الواحد وافی جو مصری دانشور ہیںنے بھی اس مشکل کی طرف یوں اشارہ کیا:

مصنفین کی ایک بڑی تعداد نے جعفری شیعہ کو دوسرے شیعہ فرقوں میں مخلوط کیاہے۔٣

اہل سنت کے معاصر امام محمد غزالی نے بھی وہابیوں کی مطالعاتی روش کی اصلاح میں کافی کوششیں کی ہے اور پوری توانائی کے ساتھ ان سنیوں کا مقابلہ کیا ،جنھوں نے وہابیت کی پیروی کی. اور وہ لوگ جو شیعہ اور غالی میں اختلاط کے شکار ہیں،ان کی اس مشکل کو حل کرنے میں کافی زحمتیں اٹھائیں۔

____________________

(١) فی سبیل الوحدة الاسلامیة، مرتضی الرضوی، ص ٤٥

(٢) الاسلام و حرکة التاریخ، ص٤٢١

(٣)بین الشیعہ واہل السنة، ص ١١

آپ اس موضوع کے متعلق یوں فرماتے ہیں:

بعض جھوٹے افراد جو شیعہ اور غالی کو ایک جانتے ہیں، نے یہ شایع کیا کہ شیعہ حضرت علی ـ اور سنی حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیرو ہیں اور اہل تشیع علی کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہ نسبت نبوت کے لئے لائق اور شائستہ جانتے ہیں. اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نبوت پر فائز ہونا ایک خطا ہے، جبکہ یہ مرتبہ علی کا تھا(۱) یہ سب باتیں شیعیت پر ناروا تہمتیں ہیں، جو صرف غالیوں پر ہی منطبق ہوتی ہیں۔

محمد غزالی نے ان سنی حضرات کی روش پر بھی تنقید کی ہے ،جنھوں نے وہابی روش کا اتباع کیا اور شیعہ اور غالی کے درمیان فرق کودرک نہیں کرسکے، اس کے متعلق فرماتے ہیں:

بعض سنی علماء نے جھوٹ اور حقیقت کو برعکس نمایاں کرنے کے لئے شیعوںکی طرف اس بات کی نسبت دی ہے کہ یہ قرآن کی آیات میں کمی واقع ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں(۲)

اور بعض اہل سنت متفکرین معتقد ہیں کہ وہابیوں نے شیعیت کے بارے میں تحقیق میں کافی تند اور سخت روش اختیار کی ہے، شیعہ اور غالی کو یکساں جانتے ہیں لہٰذا انھوں نے شیعہ شناسی میں خطا کی ہے۔

____________________

(١) رسالة التقریب ، شمارۂ ٣، سال اول شعبان ١٤١٤، ص ٢٥٠

(٢) لیس من الاسلام، ص ٤٨

مصری دانشور محمد فرماتے ہیں:

قدیم الایام سے سنی و شیعہ کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن وہابیوں نے اپنے افکار کے ذریعہ ان میں ایسا شگاف پیدا کیا جو اٹھارہویں صدی عیسوی کے بعد سنی و شیعی اختلافات میں بے حد موثر رہا. اور روز بروز ان کے اختلافات میں اضافہ ہوا. یہ سب وہابیت کے منفی فکر کے اثرات ہیں۔١

دوسرے سنی دانشور عبدالحلیم جندی فرماتے ہیں:

شیعوں کی طرف غالی افعال کی نسبت دی گئی اور اس طرز عمل نے دوسروں پر شیعیت کے متعلق منفی اثر چھوڑا اور ان باتوں کو شیعیت سے منسوب کیا گیا جن سے وہ خود بیزار ہیں مثلاً ان کا یہ کہنا کہ شیعیت کے یہاں امام ہی خدا ہیں جوکہ سراسر غلو اور کفر ہے اور شیعہ ان افکار سے بری ہیں۔٢

(ڈاکٹر طہ حسین فرماتے ہیں:)

شیعوں کے دشمنوں نے ، شیعوں سے ہر چیز کو منسوب کیاہے وہ صرف ان چیزوں پر اکتفا نہیں کرتے جو شیعوں کے بارے میں سنتے یا دیکھتے ہیں بلکہ اپنی طرف سے ان میں من مانا اضافہ کراضافہ کر لیتے ہیں جنھیں شیعہ سے سنا، یا ان میں پایا ہے، یہاں تک کہ ان تمام افعال کی نسبت اصحاب اہلبیت (ع) کی طرف دی جاتی

____________________

(١) الفکر الاسلامی فی تطورہ، ص ١٤٠.

(٢) الامام جعفر الصادق، ص٢٣٥.

ہے. ان افراد کی مثال ان چوروں جیسی ہے جو پہاڑ پر کمین کئے ہوتے ہیں یہ لوگ شیعی گفتار و کردار پر دقیق نظر رکھتے ہیں اورنامربوط مسائل، کہ جو شیعیت میں نہیں پائے جاتے ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔(۱)

ہم نے گذشتہ صفحات میں اشارہ کیا ہے کہ ڈاکٹر علی عبد الواحد وافی جو سنی دانشور ہیںنے اپنی کتاب ''بین الشیعہ و اہل السنہ'' میں وہابیوں کی خود ساختہ مشکلات پر گفتگو کی ہے اس کتاب میں وہابیوں نے جو شیعہ و سنی کے درمیان بے بنیاد پروپیگنڈے کئے ،اس کی رد میں فرماتے ہیں:

گرچہ ہمارے اور شیعوں کے درمیان بے حد اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود یہ اختلاف سند و اجتہاد کے دائرہ سے خارج نہیں ۔(۲)

''سنی محقق فہمی ہویدی'' بھی انھیں لوگوں میں سے ہیں کہ جنھوں نے درک کیا کہ وہابیوں کا شیعہ کی تکفیر میں اصرار، ان کا شیعہ اور غالی میں اختلاط کا نتیجہ ہے. آپ فرماتے ہیں:

شیعہ کو کافر کہنا وہابیت کے اصل ترین منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ہے۔٣

____________________

(١) علی و بنوہ، ص ٣٥

(٢) بین الشیعہ و اہل السنہ، البتہ ہم اس مطلب کی تائید نہیں کرتے اور اس نظریہ پر مفصل طور پر ہماری کتاب بازخوانی اندیشۂ تقریب میں نقد و رد کی گئی ہے. (مترجم فارسی)

(٣) ایران من الداخل، ص ٣٢٢.

تمام علماء معتقد ہیں کہ وہابیوں کی شیعہ شناسی مطالعاتی روش نے انھیں تشیع اور غالی کی مخلوط وادی تک لاکھڑا کیااورانھیں ایک عظیم گمراہی میں مبتلا کیا ہے. حتی بعض متفکرین معتقد ہیں کہ جس طرح وہابی شیعیت کو پیش کرتے ہیں اس میں اور اس کے حقائق کے درمیان بالکل تناقض پایا جاتا ہے اور شیعیت کی یہ تصویر کشی صرف اور صرف وہابیت پر صدق کرتی ہے، یہی مطلب ہم سالم بہنساوی کے نوشتوں میں پاتے ہیں آپ نے کتاب '' السنة المفتریٰ علیہا'' میں پوری طرح شیعہ شناسی میں وہابیوں کی جو مطالعاتی روش ہے اس پر بحث کی اور اس روش کی اصلاح کو لازم جانا ہے اور وہابیوں کے اہل سنت کی مطالعاتی روش سے جدا ہونے کو واضح طور پر بیان کیا ہے. اور وہابیوں میں رائج تمام بیہودہ و بے معنی باتوں کو تنقیدکا نشانہ بنایا ہے. وہ شیعیت پر اس تہمت کو ، کہ شیعہ دوسرے قرآن رکھتے ہیں، سختی سے رد کرتے ہوئے کہتے ہیں:

جو قرآن اہل سنت کے درمیان ہے وہی قرآن تمام شیعہ مساجد اور گھروں میں پایا جاتا ہے،١ اور بے شمار سنی مذہب سے وابستہ متفکرین یہ جانتے ہیں کہ شیعوں کے بارے میں وہابی تصورات تمام یہودی ، مسیحی اور مغربی اسلام شناسوں کی کتب سے ماخوذ ہیں. اور طبیعی ہے کہ ان منابع پر اعتماد کے نتیجہ میں کوئی بھی شیعہ اور غالی میں اختلاط، جیسے مرض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

____________________

(١) السنة المفتریٰ علیہا، ص ٦

جندی مصری دانشور کی بھی یہی فکر ہے جیسا کہ گذشتہ صفحات میں ہم نے ان کے قول پر روشنی ڈالی۔

حسن البناء (جو کہ مصر میں تحریک اسلامی کے رہبر ہیں) نے بھی بڑے ہی زور و شور کے ساتھ شیعہ شناسی میں وہابی روش کو بدلنے کی کوشش کی اور ان لوگوں سے مبارزہ کیا ،کہ جو شیعہ اور غالیوں میں مساوات کے قائل ہیں اوران کی خطا نے انھیں بے حد متحیر کیا، کیونکہ دنیا کے کتب خانے شیعہ دانشوروں کے علمی خزانوں سے لبریز ہیں۔(۱)

سنی مذہب سے وابستہ عباس محمود عقاد بھی وہابیوں کے اس انحراف کی طرف متوجہ ہوئے یہاں تک کہ مصری معروف رائیٹر انیس منصور نے ان سے نقل کیا:

اگر اجل نے مجھے فرصت دی تو مذہب شیعہ کے لئے ایک منطقی تحقیق مرتب کروں گا، کیونکہ بے شمار بیہودہ باتوں کو شیعیت سے منسوب کرنے کی وجہ سے اکثر لوگ شیعیت کے واقعی چہرہ سے آگاہ نہیں ہیں، لیکن اجل نے انھیں مہلت نہ دی۔(۲)

سنی مورخ، محمد کرد علی نے بھی ان فرقوں کا منہ توڑ جواب دیا ،جو شیعہ اور غالی کے درمیان فرق نہیں جانتے، فرماتے ہیں:

____________________

(١) ا س عبارت کو حسن البناء کے شاگرد استاد عمر تلمسانی اپنی کتاب ''ذکریات لا مذکورات'' میں صفحہ ٢٥٠ پر نقل کیا ہے.

(٢) لعلک تضحک، ص٢٠١.

بعض مصنفین کا یہ عقیدہ رکھنا بالکل غلط ہے کہ مذہب تشیع عبد اللہ بن سبا کی بدعتوں میں سے ایک بدعت اور یہ ان کی کم علمی کا نتیجہ ہے. اگر کوئی شیعیت میں عبداللہ بن سبا کی موقعیت کو جانے اوران کا عبداللہ بن سبا اور اس کے گفتار و کردار سے بیزاری اورتمام شیعی دانشوروں نے جس طرح اس کی بدگوئی کی ہے اسے دیکھے تو پھر انھیں معلوم ہوگا کہ ان کا یہ عقیدہ کس قدر بے بنیاد ہے۔(۱)

تحریک اخوان المسلمین کے رہبر عمر تلماسی، شیعہ اور غالی کو ایک جاننے والوں پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

شیعہ فقہ نے اپنے بلند اور قدرت مند تفکر سے دنیائے اسلام کو مالا مال کیا ہے۔(۲)

دوسری طرف اہل سنت کے امام اور زمانہ کے فقیہ محمد ابو زھرہ وہابیوں کی اس روش سے سخت خوفزدہ ہیں اور وہابیوں نے جن شیعہ کلامی تعبیروں کی غلط تفسیر کی ہے انھیں آپ نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور تقیہ کے متعلق (کہ جس کے شیعی معنی کو وہابیوں نے درک نہیں کیا) ثابت کیا ہے کہ تقیہ کے شیعی معنی قرآن سے ماخوذ ہیں، فرماتے ہیں:

تقیہ یعنی انسان جان کے خوف سے یا ایسے بلند و بالا اہداف تک پہنچنے کے لئے جن سے دین خدا کی خدمت مقصود ہو اپنے بعض عقائد کو پوشیدہ رکھے اور یہ معنی

____________________

(١) خطط الشام، ج٦، ص٢٥١.

(٢) مجلہ العالم الاسلامی، شمارہ ٩١.

خود قرآن میں پائے جاتے ہیں۔(۱)

خبردار صاحبان ایمان مومنین کو چھوڑ کر کفار کواپنا ولی اور سرپرست نہ بنائیں، کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیںاپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اس کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔(۲)

اور وہابیوں کے جواب میں ، کہ جوامام کے متعلق شیعہ اور غالی عقائد کو ایک سمجھتے ہیں، آپ اس طرح لکھتے ہیں:

مذہب امامیہ، امام کے مقام کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برابر نہیں جانتے۔(۳)

ازہر یونیورسٹی کے رئیس اور اہل سنت کے بزرگ پیشوا شیخ محمود شلتوت نے شیعہ شناسی میں قدمائے اہل سنت کی روش سے حمایت کا اظہار کیا ہے اور وہابی مطالعاتی روش سے وسیع پیمانہ پر مبارزہ کیا ہے کیونکہ وہابی مذہب امامیہ کی شناخت اور انھیں غالی کے برابر قرار دینے میں سخت خطا میں گرفتار ہیں۔

آپ نے کافی کوششیں کیں تاکہ وہابی، سنی روش کی طرف پلٹ آئیں اور جواختلافات کے بیج وہابیوں نے شیعہ و سنی کے درمیان بوئے تھے انھیں نابود کیا

____________________

(١) الامام الصادق، ص٢٢.

(٢) سورۂ آل عمران، آیت ٢٨.

(٣) الامام الصادق، ص ١٥١.

جاسکے، لہٰذا وہابیوں نے آپ کی سخت مخالفت کی اور آپ پر سنیوں کو غالیوں سے نزدیک کرنے کی تہمت لگائی، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ شیخ محمد شلتوت وہابیوں کو یہ سمجھاناچاہتے تھے کہ جن باتوں کو وہ شیعیت سے منسوب کرتے ہیں وہ سبائیان و خطا بیان و بیانیان کے افکار و عقائد ہیں، کہ جنہیں شیعہ کافر جانتے ہیں اور آپ کا عقیدہ ہے کہ وہابی چونکہ شیعہ کو غالیوں کا ایک فرقہ تصور کرتے ہیں،اسی لئے شیعیت سے انحرافی عقائد کو منسوب کرتے ہیں۔

محمد شلتوت مجبور تھے کہ اپنے ہم عصر بعض سنیوں سے مبارزہ کریں (کہ جن پر وہابی رنگ چڑھ چکا تھا اور وہ قدمائے اہل سنت کی روش پر تنقید کرتے تھے) کیونکہ آپ کے نزدیک یہی لوگ سد راہ تھے کہ جن کی وجہ سے اہل تشیع و تسنن کو قریب کرنا امکان پذیر نہ تھا، وہ فرماتے ہیں کہ:

تقریب کے نام پر تنگ نظر افراد اور وہ لوگ جو نحس اہداف رکھتے ہیں (معمولاً ہرمعاشرہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں) جدال کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے یہ وہی لوگ ہیں جن کی بقا دوسرے لوگوں میں تفرقہ پیدا کرنے پر ہے او ریہ ایسے بیمار دل افراد ہیں، جن میں کسی بھی طرف رجحان نہیں پایا جاتا، بلکہ اپنے ھوا و ھوس کی پیروی کرتے ہیں۔

یہ کچھ ایسے خود فروش مصنفین ہیں جو تفرقہ پسند لوگوں کی خدمت کرتے ہیں او رجب بھی مسلمانوں میں تفرقہ کے خاتمہ اور اتحاد کے لئے تحریک چلائی گئی، تو یہ لوگ مستقیم و غیر مستقیم طور پر سد راہ بن جاتے ہیں۔(۱)

وہابی امامیہ اور غالیوں میں تفکیک نہ کرنے کی وجہ سے شیعوں کو رافضی کہتے ہیں در آنحالیکہ رافضی ایک عام عنوان ہے جو بے شمار فرقہ شناسی کتابوں میں غالی فرقوںپر منطبق ہوتا ہے اور سنیوں سے پہلے شیعہ انھیں کافر جانتے ہیں، لہٰذا انور جندی اس بارے میں کہتے ہیں: ''رافضی نہ سنی ہیں اور نہ ہی شیعہ''۔(۲) تشیع اور غالی کو ایک جاننے میں جو مشکلات وجود میں آتی ہیں ان کی طرف علمائے اہل سنت نے اپنی سینکڑوں کتابوں میں اشارہ کیا ہے اس کتاب میں اتنی گنجائش نہیں کہ ہم ان تمام اقوال کو جمع کرسکیں۔ہم یہاں تک، یہ جان چکے ہیں کہ تشیع اور غالی کوایک تصور کرنا ایک ایسی سخت مشکل ہے، کہ جسے دشمنان اسلام نے مسلمانوں میں اتحاد ختم کرنے کے لئے پیش کیاہے اور محقق کے لئے اس مشکل کا سمجھنا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی چھپی ہوئی مشکل ہے جس پر دشمنان اسلام نے مکاری کے ساتھ پردہ ڈال کر اسے مسلمانوں کے سامنے پیش کیاہے، اس زمانہ میں بعض سادہ لوح سنیوں نے وہابیوں کی مکاریوں کودرک نہیں کیا اور ان کی فریب کاریوں کا شکار ہو کر اس مشکل (خلط

____________________

(١) مجلہ رسالة الاسلام

(٢) الاسلام و حرکة التاریخ، ص ٢٨.