گفتگو کا سلیقہ

گفتگو کا سلیقہ 0%

گفتگو کا سلیقہ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

گفتگو کا سلیقہ

مؤلف: ڈاکٹر عصام العماد
زمرہ جات:

مشاہدے: 8032
ڈاؤنلوڈ: 1990

تبصرے:

گفتگو کا سلیقہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8032 / ڈاؤنلوڈ: 1990
سائز سائز سائز
گفتگو کا سلیقہ

گفتگو کا سلیقہ

مؤلف:
اردو

(وہ اسباب جن کی بنا پر وہابیت میں شیعہ و غالی کے درمیان خلط جیسا مرض وجود میں آیا اور اس کی اشاعت ہوئی )

ہم گذشتہ مباحث میں عرض کرچکے ہیں کہ اس افراطی تفکر کا پہلا سبب شیعوں سے وہابیوں کا آگاہ نہ ہونا ہے اور یہ آگاہی نہ رکھنا تین چیزوں سے مربوط ہے:

١۔ غلو کے معنی سے مطلع نہ ہونا۔

٢۔ تشیع کے معنی سے آگاہ نہ ہونا۔

٣۔ غلو اور غالیوں کے مقابلہ میں امامیہ کے رد عمل سے مطلع نہ ہونا۔

ہم اس کتاب میں صرف پہلے نکتہ کو تفصیلی طور پر بیان کریں گے بقیہ مطالب کودوسر ی کتاب بنام ''دیدگاہ امامیہ در بارۂ غلو و غالیان'' میں تفصیل کے ساتھ پیش کریں گے۔

(غلو کے معنی سے آگاہ نہ ہونا)

غلو ایک ایسی چیز ہے کہ جسے تمام اسلامی مذاہب نے ردکیا ہے اور کسی بھی فرقے کے لئے غلو قابل قبول نہیں اور تمام مذاہب کی غلو کے مقابل اس قہر آمیز نظر کی دلیل قرآن اور سنت پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا انتباہ ہے کیونکہ ہمیشہ ان دو منابع نے ہمیں متوجہ کیا کہ ادیان میں انحراف اسی غلو کی وجہ سے وجود میں آتاہے. غلو اور انحراف کا وجود ایک ساتھ ہے ،لہٰذا ہر انحراف میں ایک طرح کا غلو پایا جاتا ہے اور یہ بات تاریخی مسلمات میں سے ہے کہ وہ فرقے جن میں اسلامی رنگ پایا جاتا ہے لیکن وہ اسلامی حقیقت سے بہت دور ہیں ان کے اس انحراف کی وجہ غلو کی طرف تمایل ہے۔

اس مرحلہ میں نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ قرآن و سنت کی رو سے غلو اور اس کے خطرناک نتائج کو بیان کریںاور نہ ہی ہمارا مقصد غالی فرقے ہیں، بلکہ ہمارا مقصد ان کی جڑیں اور ان پر مجوسی، یہودی، اورمسیحی اثرات کو بیان کرنا ہے اور ہماری تحقیق صرف اس موضوع کے متعلق ہوگی کہ جو ہمارے ہدف سے مرتبط ہے اور جس کے متعلق دوسرے مقامات پر تحقیق نہیں ہوئی. اور وہ موضوع وہابی تحقیق میں غلو کی تعریف ا وراس کا مفہومی مقام ہے۔

وہابیت کے ١٨٠٠ئ میں وجود میں آنے سے آج تک ان کے یہاں مفہوم غلو کی عجیب وغریب تعریف رائج ہے (کہ جس کا سنی اور امامیہ نظریہ سے کوئی تعلق نہیں ) ایک ایسی تعریف جس کا انجام صرف اور صرف تمام مذاہب کو غلو سے متہم کرنا ہے مجھے پوری طرح یاد ہے کہ جب میں سعودی عرب کے ایک وہابی مدرسہ میں علم حاصل کر رہا تھا تو وہاں غلوکو ہماری اس طرح بیان کیا گیا کہ حتی تمام اہلسنت ( جو اشاعرہ اور ماتریدیہ ہیں) اس کلمہ کے غلط معنی کی زد میں آگئے، اور مذہب امامیہ کی تو بات ہی نہیں (وہ تو وہابیوں کی نظر میں غالی کہلاتے ہی ہیں)۔

اس تدریسی اور تبلیغی روش نے مجھ پر اور دیگر طلبہ پر بے حد غلط اثر چھوڑا ان غلط تبلیغات کا پہلا منفی اثر یہ تھا کہ ہم ان فرقوں کومشرک ، غالی، کافر فرقے جاننے لگے، جس کے نتیجہ میں نہ ان کے آراء اور عقائد کا مطالعہ کرتے، اور نہ ہی ان کے بارے میں تحقیق کی جاتی، بلکہ ان فرقوں کے علماء سے متنفر اور ان سے گفتگو کو بے اہمیت سمجھتے تھے۔

معاصر سنی دانشور یوسف قرضاوی اس افسوسناک حالت کی (کہ جو وہابی حسد اور کینوں سے وجود میں آئی) یوں تصویر کشی کرتے ہیں:

اسلامی آداب و رسوم کو برعکس بتلانے اور دینی علامتوں کو ختم کرنے اور مذہبی اقدار غلط انداز میں پیش کرنے سے دشمنان اسلام فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ انھیں کاموں میں بعض مسلمان مشغول ہیں۔

گذشتہ سال جب سعودی عرب گیا تو ایک افسوسناک حالت سے روبرو ہوا. کچھ ایسی کتابیں چھاپی گئی تھیں کہ جن کے ذریعہ علماء اور دانشوروں پر تہمت لگا کر ان پر لعن طعن بھیجی گئی تھی، ان کتابوں کے لکھنے والے افراد، سلفیہ (وہابیت کی بنیاد رکھنے والے) سے وابستہ تھے. ان لوگوں نے معاصر و گذشتہ تمام علماء پر تہمتیں لگا کر، ان پر سب و شتم کی، ہر ایک پر تنقید کی ، چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ ۔(۱)

معاصر سنی امام محمد غزالی نے بھی وہابی فکر کو نامانوس فہم قرار دیا ہے.(۲) وہ اسے اسلام کا سخت ترین دشمن سمجھتے ہیں: اسلامی رجحان کے بڑھاوے کو کئی طرف سے چیلنج کا سامنا ہے، جن میں سے ایک طرح کا چیلنج، مذہبی تفکر کا سخت قسم کی شدت پسندی کے لباس میں پایا جانا، جس سے حتی سچے گذشتہ سلفیین بھی بیزار ہیں۔(۳)

____________________

(١) الشیخ الغزالی کما عرفتہ رحلة نصف قرن، یوسف القرضاوی، ص ٢٦٣.

(٢) ہموم داعبہ ، محمد غزالی، ص١٥٢ (٣) سرّ تأخر العرب، محمد الغزالی، ص٥٢

وہابیوں کے لئے کیا اچھا ہوتا ،کہ وہ ان باتوں پر بھی توجہ دیتے اور اپنے فہم و ادراک کو غلو کے معنی تنقید اور اس کی تفسیر میں استعمال کرتے ، چونکہ جب تک انسان خود پر نقد نہ کرے تب تک کسی بھی مسئلہ میں تجدید نظر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ صحیح و غلط میں تمیز کرسکتا ہے۔

جن اہم نکتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے وہ یہ، کہ کلمۂ غلو دو جگہ استعمال ہوتا ہے ایک فقہ میں ، اور دوسرے علم حدیث میں ، اور غلو کے فقہی معنی انسان کو وادی کفر و ارتداد تک لے جاتے ہیں لیکن تاریخ اور حدیث میں لفظ غلو جن راویوں کے لئے استعمال ہوا اس معنی میں اور فقہی معنی میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔

شہرستانی اشعری لکھتے ہیں: غالی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پیشواؤں کے لئے افراط سے کام لیا اوران کے مقام کو حد سے زیادہ بلند قرار دیا یہاں تک کہ انھیں عبودیت سے خارج کر کے خدا کہنے لگے بعض وقت اپنے رہبروں کو خدا سے اور خدا کو رہبروں سے تشبیہ دیتے ہیں. ایک طرف سے افراط ،تو دوسری طرف سے تفریط کے شکار تھے اس قسم کی باتوں کا سرچشمہ، انسان میں خدا کا حلول جیسی فکر، تناسخ، اور یہود و نصاری کا کلام ہے۔(۱)

اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غلو کہ جس کا نتیجہ کفر و ارتداد ہے اس کے دو اسباب ہیں:

____________________

(١) الملل و النحل

١۔ انسان کی الوہیت، اور انسان کو بڑھا کر مقام الوہیت تک پہنچانا۔

٢۔ خدا کے مقام کو گھٹا کر بشریت کے مقام تک لے آنا۔

ظاہر ہے کہ انسان میں خدا کا حلول یعنی خدا کے مقام کو گھٹا کر اسے بشریت کے مقام تک لے آنا ہے اورانسان کی ازلیت یعنی اسے مقام الوہیت تک بلند کرنا ہے.غالی فرقوں میں مختصر سی تحقیق کے بعد ان کے افکار میں ان دونوں رکنوں کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔

لیکن جو غلو علم حدیث میں بیان ہوا ہے اور بعض راویوں کے لئے اس کا استعمال ہونا فقط اسلامی فرعی مسائل سے مربوط ہے اور اس کا اصلی مسئلہ سے نہ کوئی ربط ہے اور نہ ہی اس کا نتیجہ، ارتداد و کفر ہے. ان دو نکات میں جدائی نہ کرنے کے سبب وہابی ان خطاؤں میں مبتلا ہوئے۔

معاصر وہابی مصنف عبد الرحمن عبد اللہ زرعی اپنی کتاب رجال الشیعہ فی المیزان میں اس غلطی کا شکار ہوئے ہیں اور وہ ان دو نکات میں جدائی نہیں کرسکے. اگر اہل سنت کی ان کتابوں کا مطالعہ کیا جائے جوعلم رجال سے مخصوص ہیں تو معلوم ہوگا کہ کلمۂ غلو کوانھوں نے ان افراد کے لئے استعمال کیا کہ جن میں افضلیت صحابہ پر نظریاتی اختلاف ہے، لہٰذا اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوا کہ معاذ اللہ وہ ان افراد کو خدا کہنا چاہتے ہیں. آہستہ آہستہ غلو کے جو مفہوم اہل سنت کے یہاں رائج ہوئے، وہابی اس مفہوم سے دور ہوتے گئے اور اس کے حدود کو اتنا بڑھایا کہ اہل سنت بھی اس فتنہ میں مبتلاہوئے اور وہابی، شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کو غالی قرار دینے لگے اور انھوں نے تمام غیر وہابی فرقوں کو غلو کی تہمت میں لپیٹ لیا۔

(غلو کے مفہوم کو وسعت دینے کا انجام)

غلو کے مفہوم کو وسعت دینے کا واضح اثر وہابیوں کے اس کردار سے ظاہر ہوتاہے، کہ جسے وہ اپنے مخالفین کے ساتھ بعض اختلافی مسائل میں اپنائے ہوئے ہیں، چونکہ وہابی اپنے مخالفین پر غلو کی تہمت لگاتے ہیں اور بعض مسائل میں خود ساختہ فتنہ (غلو سے مقابلہ کے نام پر ) پیدا کرتے ہیں، لہٰذا ان فتنوں میں سے بعض کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔

١۔ خدا کی صفات خبریہ کے متعلق فتنہ برپا کرنا۔

وہابی ہر اس شخص پر غلو کی تہمت لگاتے ہیں جو خدا کی صفات خبریہ میں ان کا مخالف ہوں، لہٰذا انھوں نے سینکڑوں جلد کتا بیں شیعہ اور سنی دونوں کی رد میں لکھی ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک عظیم فتنہ پیدا ہوگیا۔

الٰہی صفات کے ذریعہ مسلمانوں میں اتحاد کے بجائے وہابیوں کی وجہ سے اختلاف وجود میں آیا. معاصر سنی دانشور محمد عادل عزیزہ نے وہابیوں کو یہ سمجھانے کی پوری کوشش کی ہے کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ غالی نہیں ہیں. اوراگر انھیں غالی فرض کرلیا جائے تو ابن کثیر دمشقی (کہ جو وہابیوں کے نزدیک ایک خاص احترام رکھتے ہیں) کو غالی کہنا ہوگا، کیونکہ انھوں نے بھی الٰہی صفات میں وہابی روش پر عمل نہیں کیا۔

تمام شیعہ اور سنی علمائ، الٰہی صفات سے مربوط آیتوں کی تاویل کرتے ہیں اور اسے غلو نہیں کہتے، اور نہ ہی غلو اور تاویل میں کسی قسم کا ربط پایا جاتا ہے، لہٰذا وہ وہابی روش پر سختی کے ساتھ تنقید کرتے ہیں۔

محمد عادل عزیزہ نے صفات الہی سے مربوط آیات کے بارے میں ابن کثیر دمشقی کے نظریہ کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس میں آپ اپنے ہدف کو یوں بیان کرتے ہیں:

اس کتاب کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف، کشیدگی اور کینہ کم ہوجائے، کیونکہ دور حاضر میں وہابیوں کی جانب سے بے شمار اہل سنت علماء پر (الہی صفات سے مربوط آیات میں ان کے نظریات کی وجہ سے) کفر اور دیگر تہمتیں لگائی جا رہی ہیں۔(۱)

ہر وہ شخص جواس کتاب کا مطالعہ کرے، اس کے لئے واضح ہو جائے گا کہ صفات الٰہی سے مربوط آیات میں آپ کی روش وہابیوں کی روش سے الگ ہے آپ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:

یہ مختصر رسالہ کہ جس میں آیات صفات کے متعلق ابن کثیر سلفی کے متفرق کلمات پائے جاتے ہیں ایک آزاد فکر مسلمان کو کنٹرول کرسکتا ہے جس سے وہ جس شخص کا کلام ابن کثیر سے مشابہ ہو، اسے فوراً مرتد نہ کہنے لگے، کیونکہ خود ابن کثیر تمام لوگوں کے نزدیک علم، دقت اور سلامت جیسے صفات سے جانے جاتے ہیں۔

____________________

(١) عقیدہ الامام الحافظ ابن کثیر فی آیات الصفات، ص ٧

ابن کثیر نے ابن عباس سے آیہ : (یوم یکشف عن ساق) کی تفسیر پوچھی تو آپ نے جواب دیا، یعنی یکشف عن أمر عظیم.(۱) لہٰذا ہمارا سوال یہ ہے کہ کیوں صفات الٰہی کی آیات میں تاویل کرنے سے وہابی ہمیں غالی کہتے ہیں؟ جس کے سبب، اٹھارہویں صدی سے آج تک دونوں فرقوں پر ناروا تہمتیں لگائی جا رہی ہیں. بہت سارے شیعہ اور سنی دونوں کے اقوال سے اس المیہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

دور حاضر سنی دانشور ڈاکٹر محسن عبد المجید اس سانحہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

موجودہ دور میں ہم نے ایک طرز تفکر کا مشاہدہ کیا کہ جس سے ظاہر تو یہ تھا کہ اس گروہ سے متعلق افراد کا کام اسلامی معاشرے میں عقیدہ کی اصلاح اور شرک جیسے ظواہر سے مقابلہ کرنا ہے، لیکن انھوں نے صفات الٰہی سے مربوط آیات میں بے نتیجہ بحث کے ذریعہ علمی مراکز کو پر کر رکھا ہے. یہی باتیں تھیں کہ جس کی وجہ سے میں نے ان آیات پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی۔(۲)

شروع ہی سے اس وہابی فتنہ نے بے شمار دانشوروں کو منحرف کیاہے معاصر سنی متفکر ڈاکٹر محمد عیاش کبیسی فرماتے ہیں:

____________________

(١) گذشتہ حوالہ، ص ٨

(٢) مقدمہ کتاب تفسیر آیات الصفات

اس وہابی فتنہ کی وجہ سے میں نے اپنے ڈاکٹریٹ کی تھیسس ( Thesis ) کا موضوع اسی بحث کو قرار دیا ہے تاکہ قرآن و حدیث میں صفات خبری کے متعلق تمام گذشتہ اور حاضر علماء کے اقوال کی تبیین کے ساتھ ساتھ، استقراء تام کرسکوں. یہ تحقیق ہمارے اس بات کا موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم آیات صفات کی تفسیر میں اختلاف کو قبول کریں اور اس اختلاف کو ایمان و کفر اور توحید و شرک کا معیار قرار نہ دیں۔(۱)

او رخود میرا بھی یہی نظریہ تھا کہ آیات صفات میں اگر کسی کا اعتقاد وہابیوں جیسا نہ ہو تو وہ گمراہ اور غالی ہے اور اپنے اس اعتقاد کو صحیح جانتا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے اس وقت کہ جب ١٩٨٨ئ ابن سعود یونیورسٹی میں مشغول تحصیل علم تھا. تمام اہل سنت پر (کہ جن کی رائے وہابی نظر سے مخالف تھی) تنقید کرتاتھااور عبد الفتاح، ابو غدہ، محمد غزالی مصری، محمد علی صابونی، حسن البناء او رایسے دسیوں افراد جو آیات صفات میں وہابی نظریہ سے الگ نظریہ رکھتے تھے، ان سے بیزاری کا اظہار کرتا تھا. اور اب جب کہ وہابیت سے نجات پا چکا ہوں تو مجھے اس نظریہ کے انجام کا علم ہے. میں نے بارہا وہابیوں سے گفتگو کی اوراس گفتگو میں میرا طریقۂ کار یہ رہا کہ ان افراد کے کلام کو پیش کیا جائے جن سے وہابی مانوس ہیں کیونکہ براہ راست ان کے سامنے نہ شیعہ عالم شیخ طوسی کا نام لیا جاسکتاہے اور نہ ہی ان کا عقیدہ بیان کرنا ممکن ہے کیونکہ وہ شیخ طوسی کا نام سننے کی تاب نہیں رکھتے، لہٰذا سب سے پہلے ابن کثیر جیسے

____________________

(١) العقیدة الاسلامیہ فی القرآن و مناہج المتکلمین، ص ١٢٢

لوگوں کا عقیدہ بیان کیا جائے جس کے بعد شیخ طوسی کا کلام سننے کے لئے راستہ ہموار ہوگا، البتہ یہ روش ان وہابیوں کے لئے کارآمد ہے کہ جو متعصب نہیں ، بلکہ اپنے سادہ پن کی وجہ سے وہابی ہوگئے ہیں اور ہماری یہ گفتگو اسی قسم کے افراد کے لئے ہے .یہی وہ گروہ ہے کہ جس کا معالجہ ضروری ہے اور ہمیں ایک طبیب کے مانند ان کے ساتھ پیش آنا ہے تاکہ پوری سعی و کوشش کے ساتھ انھیں اس بیماری سے نجات دے سکیں۔

یہ وہ وہابی ہیں کہ جو غلط تعلیمات کے نتیجہ میں ہر مخالفآواز کو کفر اور غلو سمجھتے ہیں جب کہ انھیں اس بات کاعلم نہیں کہ یہ ان کے بیمار ذہن کے خود ساختہ خیالات اور اوہام ہیں۔

خود بندۂ حقیر بھی سالہا سال انھیں اوہام میں مبتلا رہا، سوچتا تھا کہ دوسرے تمام لوگ غلو میں گرفتار ہیں اور ہم ہی وہ ہیں کہ جنھوں نے نجات حاصل کی. میں نے خود کوایک طبیب تصور کیا، جو غلو میں گرفتار مریض کا علاج کرنا چاہتا ہے ۔

اس علاج کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے ایک کتاب بنام ''الصلة الاثنی عشریہ و فرق الغلاة'' لکھی لیکن اس کی اشاعت سے کچھ ہی پہلے ایک غیرمتوقع واقعہ پیش آیا جس سے مجھے پتہ چلا کہ میں طبیب نہیں ، بلکہ بیمار ہوں اور خود مجھے علاج کی ضرورت ہے اور میرا علاج صرف امامیہ (کہ جنھیں غالی تصور کرتا تھا) کے ہاتھوں ہوسکتا ہے ،لہٰذا حالات برعکس ہوگئے، جو شخص آج تک خود کو مسیحا سمجھتا تھا آج وہی بیمار ہے۔

میری مثال اس ڈاکٹر جیسی تھی کہ جو سخت دماغی وائرس میں مبتلاہو اور تمام لوگوں کو کینسر میں مبتلا سمجھتا ہو لیکن جب یہی ڈاکٹر کینسر کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر کا مریض قرار پایا تو سمجھ میں آیا کہ خود یہی ڈاکٹر بیمار ہے جو دوسروں کو بیمار سمجھتا رہا ہے لہٰذا اب یہ (پہلا) ڈاکٹر ، ڈاکٹر نہیں رہا بلکہ بیمار کی حیثیت سے زیر علاج قرار پایا۔

اور آج اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہوں کہ امامیہ غلو میں مبتلا نہیں بلکہ یہ وہابی ہیں کہ جو اس خطرناک مرض (تشیع اور غلو کو یکساں تصور کرنے) میں مبتلا ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ خود کو جتنا جلد ہوسکے اس مرض سے نجات دلائیں۔

کیونکہ میں اکثر وہابیوں کو سادہ لوح بیمار (نہ متعصب) فرض کرتا ہوں نہ ہٹ دھرم متعصب، لہٰذا میراان کے ساتھ ایک ڈاکٹر جیسا رویہ ہوتا ہے اور کوشش کرتا ہوں کہ انھیں خلط جیسے مرض سے نجات دلاسکوں اور واضح ہے کہ یہ کام خوش اخلاقی کے بغیر ممکن نہیں ، (ولو کنت فظاً غلیظا القلب لا انفضوا من حولک)(۱)

نفسیاتی بیمار کا بدکلامی سے علاج نہیں کیا جاسکتا اور وحدت مسلمین کے معنی بھی یہی ہیں یعنی ایسی راہ کا انتخاب جس میں صلح و سلامتی کے ساتھ فریقین زندگی گزاریں اور تعصب کو برطرف کرتے ہوئے، آپسی تفاہم کے سایہ میں علمی گفتگو کی جائے، نہ یہ کہ ایک دوسرے کے افکار سے متاثر ہو کر اپنے عقائد سے دستبردار ہو جائیں۔

____________________

(١) سورۂ آل عمران، آیت ١٥٩ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے

٢۔ وہابیوں کا بعض اعتقادی مسائل میں غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں (جنھیں وہ اصول دین شمار کرتے ہیں اور ان کے یہاں کفر وایمان کا معیار ہیں) جب کہ ان کا شمار عقائد کے فرعی مسائل میں ہوتا ہے اور ان میں تحقیق و بحث کی گنجائش ہے۔

وہابیوں کے نزدیک فرعی اعتقادی مسائل اور اصول عقائد میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا لہٰذا اعتقادی مسائل میں جو بھی ان سے مخالف ہو اسے غالی کا نام دیتے ہوئے اسلام کے دائرہ سے خارج کرتے ہیں۔

وہابی تمام اعتقادی مسائل کو اصول دین میں شامل کرتے ہیں جب کہ اصول دین سے مربوط تمام مسائل اعتقادی ہیں لیکن ہر اعتقادی مسئلہ اصول دین میں شامل نہیں ہے. لہٰذا ان دونوں میں خلط صحیح نہیں وہابی اسی مطلب کو مدنظر رکھتے ہوئے شیعوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے سمجھوتے کو محال سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کے یہاں تمام اختلافات گویا اصول دین میں اختلاف کا سبب بنتے ہیں۔

ناصر قفاری اپنی کتاب ''مسأ لة التقریب'' میں اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان دونوں مذاہب کے تفاہم کو غیر ممکن جانتے ہیں جب کہ ان میں سے بے شمار مسائل کا شمار طرفین کے نزدیک ارکان میں نہیں ہوتا ہے۔(۱)

____________________

(١) فرعی اعتقادی مسائل کا جز ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وحدت کی خاطر ہم ان مسائل سے چشم پوشی کرلیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ جب ان کا شمار اصول دین ہی میں نہیں ، تو ان کے متعلق تحقیق یا انکار کرنا کفر ظاہری کا سبب نہیں بنتا۔

بلکہ یہ وہ مسائل ہیں کہ جنھیں سنی اصول دین میں شامل نہیں کرتے یا یہ ایسے فقہی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں کہ جن کا عقیدہ سے کوئی ربط نہیں ہے۔

اس سلسلہ میں محمد عبد الحلیم حامد جو وہابیوں کے نزدیک معتبر شخصیت ہیں، فرماتے ہیں:

اعتقادی مسائل کو اصولی مسائل کا نام دیناایک نئی ایجاد ہے، متکلمین اور بعض فقہاء نے دینی مسائل کودو قسموں یعنی اعتقادی اور عملی مسائل میں تقسیم کیا ہے، کیونکہ فقہی علمی مسائل اعتقادی مسائل کی فرع ہیں لہٰذا ان کا نام فروع (اصول کے مقابل) رکھا گیا اور یہی تعبیر اہل سنت کے یہاں گذر زمان کے ساتھ ساتھ رائج ہوگئی، لیکن اس کی اس وجہ تسمیہ کو بھلا دیا گیا اور جب اعتقادی مسائل پر اصول دین کا اطلاق ہوتا ہے تو عمل کے مقابل عقیدہ کی اہمیت کو گوشزد کرنا مقصود ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اعتقادی مسائل کے درمیان اعتقادی فروعات نہ پائے جائیں۔(۱)

آپ اس بحث کو ابن تیمیہ کے کلمات سے ماخوذ سمجھتے ہیں اوراس سلسلہ میں ان کا ایک طویل کلام نقل کرتے ہیں کہ اصول دین اور اعتقادی فرعی مسائل کو آپس میں مخلوط نہیں کرنا چاہئے۔

خدا کا شکر ہے کہ میں نے شیعہ سنی او روہابیوں میں اختلاف ختم کرنے میں بے شمار کوششیں کی ہیں، جبکہ روز بروز میرے اطمینان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ

____________________

(١) معاً علی طریق الدعوة، ص ١٣٧ ۔ ١٣٤ ۔

اس اختلاف کی آگ میں ایندھن کا کام کرنے والے خود وہابی ہیں. ان کی کوئی ایسی کتاب نہیں کہ جس کا میں نے حوصلہ کے ساتھ مطالعہ نہ کیا ہو ان تمام کتابوں سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس فتنہ کی جڑ خلط جیسی مشکل ہے.ایک وہ خلط کہ جو شیعہ وغلو کے درمیان واقع ہوا اور دوسرا خلط وہابیوں کا اصول دین اور فرعی مسائل میں ہے ، چونکہ خلط میرے نزدیک ایک روحی اور فکری بیماری ہے (جس میں ، میں خود مبتلا تھا) لہٰذا میں نے اس کی پیدائش کے عوامل اوراس کے علاج کے ذرائع پر تحقیق کی ۔

اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے درمیان فتنہ اور قتل وغارت گری، احسان الٰہی ظہیر جیسے وہابی نوشتوں کے اثرات ہیں. اس فرقے کے ماننے والوں نے شیعوں (حتی غیر وہابی دوسرے تمام فرقوں کو) اور غالیوں کوایک دکھلانے کے لئے ہزارھا کتابیں او رمقالے لکھنے کے ساتھ انٹرویو بھی دیئے، حقیقت میں یہی لوگ خلط جیسی بیماری میں مبتلا ہیں اورانھوں نے ہی امامیہ ، سبائیہ، او رغالیوں میں خلط کیا ہے وہ شرک، اسلام، کفر اور ایمان، میں تمیز نہیں کرسکے، گویا پاک و صاف پانی کوخاک اور نجاست سے آلودہ کیا ہے. یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سادہ فکر و ہابیوں کو اس مہلک بیماری سے نجات دیں، لہذا یہ کتاب شیعوں اور وہابیوں کے درمیان صحیح طرز گفتگو کو پیش کرتی ہے۔

مثلاً جب ایک وہابی سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد انھیں وسیلہ قرار دینے کے متعلق گفتگو کرنی ہو تو سب سے پہلے یہ واضح کرنا ہوگا کہ آیا یہ مسئلہ اصول دین سے مربوط ہے یا فروع دین سے؟ اگر وہ اسے اصول دین میں قرار نہ دیں تو اس موضوع کے بارے میں گفتگو کفر و شرک میں مبتلا ہونے اور اسلام سے خارج ہونے کا سبب نہیں ہوگی لیکن اگر انھوں نے اسے اصول دین میں قرار دیا تو انھیں بتلانا ہوگا کہ ان کے بزرگ علماء نے اعتقادی مسائل کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے:

١۔ اصول. ٢۔ فروع. اور ہر اعتقادی مسئلہ اصول دین میں شامل نہیں او راہل سنت کے چار فرقوں میں سے کسی نے بھی اس مسئلہ کو اصول دین میں قرار نہیں دیا۔

لہٰذا ا س مقام پر اپنے مطلوب کو ثابت کرنے کے لئے ان افراد کے اقوال کو پیش کیا جاسکتا ہے جو وہابیوں کے نزدیک موثق و معتبر ہیں۔

شیخ حسن البناء اس بارے میں فرماتے ہیں:دعا اور توسل اگر مخلوقات کے ذریعہ ہو تو یہ ایک فرعی مسئلہ ہے اور قابل بحث و تحقیق بھی، یہ اعتقادی مسائلمیں شامل نہیں ہے.(۱) اور جب ان کے لئے یہ ثابت ہو جائے، کہ توسل ایک فرعی مسئلہ ہے تو اس وقت گویا ہم نے خود کو کفر و شرک جیسی تہمتوں سے نجات دے لی. کیونکہ ایک فرعی مسئلہ میں اختلاف سے کوئی بھی کافر نہیں ہو تا۔

معاصر سنی امام محمد غزالی توسل کے باب میں وہابی تہمتوں کو غیر معقول جانتے ہیں۔(۲)

____________________

(١) بیس اصولوں میں سے پانچویںاصل کہ جسے انھوں نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے لئے مہیا کیا ہے

(٢) دستور الوحدة الثقافیہ بین المسلمین، ص ١٣٠

(٣) وہابی اعتقادی مسائل میں خبر واحد پر تکیہ کرتے ہیں اور جو بھی اس سلسلہ میں اخبار آحاد پر تکیہ نہ کرے اسے غلو سے متہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں میں شدید اختلاف پیدا ہوا ہے جو ایک جنگ سے مشابہ ہے ۔

قدیم الایام سے یہ بحث جنگ و جدال اور کفر و شرک سے متہم کئے بغیر مسلمانوں کے درمیان رائج تھی، لیکن وہابیوں نے بدعت و شرک کہہ کر اس مسئلہ کوایک تاریک فتنہ میں تبدیل کردیا۔

نمونہ کے طور پر قارئین؛ کتاب ''حجیة الآحاد فی العقیدہ و شبہات المخالفین'' (جس کے مصنف محمد بن عبد اللہ وہیبی ہیں) کی طرف رجوع کریں.(۱)

جو بھی وہابی کتب کا مطالعہ کرنے یاان کی مجالس میں شرکت کرنے والے کے لئے واضح ہو جائے گا کہ وہ اپنے تمام مخالفین (شیعہ یا سنی) کو غلو سے متہم کرتے ہیں۔ یہ ان سے اختلاف جزئی مسائل ہی میں کیوں نہ ہو، لہٰذا غلو کے مفہوم کی وسعت نے بے شمار مسلمانوں کو غالیوں کی فہرست میں لاکھڑا کیا ہے. حقیقت میں وہابیوں نے مفہوم غلو کی تخریب اور قرآن و سنت نے جو حدود اس کلمہ کے لئے معین کئے ہیںان کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے اس کلمہ کا ایک عجیب چہرہ پیش کیا ہے، کہ جو بے شمارشیعہ و سنی علماء کو منحرف اور غالی قرار دیتا ہے. دور حاضر میں وہابی قرآن و سنت سے مأخودبے شمار مسائل کو غلو قرار دیتے ہیں، اگر یہی حالت باقی رہی تو پھر اس کائنات

____________________

(١) صفحۂ ، ٤

میں ایک بھی معتدل شخص کہ جس کا اعتدال وہابی معیار کے مطابق ہو، نہیں پایا جاسکتا۔

وہابی یہ جان لیں کہ اعتقادی مسائل میں جو خبر واحد سے استفادہ نہ کرے وہ غالی اور اسلام ، ایمان کے دائرہ سے خارج نہیں ہوتا، کیونکہ کسی ایک اعتقادی مسئلہ میں خبر واحد کو رد کرنا کفر کا سبب نہیں بنتا۔

خود حضرت عائشہ اور عمر کہ جو وہابیوں کی آنکھوں کا نور ہیں نے بھی خبر واحد پر تکیہ نہیں کیا ہے۔

اہل سنت حضرات نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حدیث نقل کی کہ اگر میت کے گھر والے میت پر روئیں تو وہ قبر میں عذاب میں مبتلا ہوگا۔

لیکن عائشہ نے اس حدیث کو رد کردیا. وہ خبر واحد کہ جس کے راوی میں تعدیل، خطا اور بھول جانے کا احتمال ہو کس طرح مسلمانوں کو متہم کرنے کا سبب قرار پاسکتی ہے؟ کس منطق کی بنیاد پرخبر واحد قبول نہ کرنے والوں کو غلو اور شرک جیسی صفات سے متصف کیا جاتا ہے؟ خود ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ : صحابۂ کرام نے بے شمار واحد خبروں کو رد کیا ہے جب کہ وہ اخبار اہل حدیث کے یہاں صحت کی حامل ہیں، وہابی جب اصول دین میں اخبار آحاد پر تکیہ کرنے پر مصر ہوں، تو بے شمار خطاؤں میں مبتلا ہوں گے جن میں سے ایک خطا یہی ہے کہ جن مسائل کا اسلام ہی سے کوئی تعلق نہیں انہیں اصول دین میں قرار دیتے ہیں۔

تکلیف کی بات تو یہ ہے کہ انھیں مسائل کو مبنا قرار دیتے ہوئے دوسروں کو اپنی تہمتوں کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کے ذریعہ شاذ و نادر اور نامعقول عقائد کو مرتب کرتے ہیں. اور جو بھی انھیں رد کردے اسے کافر قرار دیتے ہیں. وہابیوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی یہ روش جمہور مسلمان کے نزدیک قابل قبول نہیں ۔

قاضی عیاض فرماتے ہیں:

ابن قاسم و ابن وہب نے فرمایا: کہ ہمارے نزدیک اہل مدینہ کے قول پر عمل، خبر واحد پر عمل سے اقویٰ ہے۔(۱)

سنی پیشوا مالک نے بھی بے شمار اخبار آحاد کو رد کیا ہے کیونکہ یہ اخبار اہل مدینہ کی سیرت سے معارض تھیں، کیا وہابیوںکے یہاں ان باتوں کا کوئی جواب ہے؟

شیخ یوسف قرضاوی تحریر فرماتے ہیں کہ:

اس امر کے متعلق حنابلہ کی رائے میں اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ خود احمد حنبل سے مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں لیکن میرے لئے یہ واضح ہوچکا ہے کہ اکثر اصولی حنبلی محققین کے نزدیک خبر واحد نہ یقین پیدا کرتی ہے اور نہ ہی اس کے ذریعہ علم حاصل ہوتا ہے. اس مطلب کو ابویعلی ابو الخطاب، ابن قدامہ، حتی ابن تیمیہ نے بھی ذکر کیا ہے۔(۲)

____________________

(١) ترتیب المدارک ، ص ٦٦

(٢) الشیخ الغزالی کما عرفتہ، رحلة نصف قرن ، ص ١٢٥

آیا وہابی اپنے امام ابن تیمیہ کے اس قول سے باخبرہیں؟ : یہ (امر) خبرواحد سے مربوط ہے ، لہٰذا کیونکر ممکن ہوگا کہ ہم خبر واحد پر اصول دین میں سے کسی اصل (جس پر ایمان کا دارومدار ہو) کی بنیاد رکھیں۔(۱)

شاطبی فرماتے ہیں:

اصول دین میں ظن کفایت نہیں کرتا، کیونکہ اس کے نقیض کے صحیح ہونے کا احتمال پایا جاتاہے لیکن فقہی فروع میں ظن پر عمل کیاجاسکتا ہے، کیونکہ اہل شریعت نے بھی اس پر عمل کیاہے، لہٰذا فقہی فروع کے علاوہ تمام جگہوں کے لئے ظن مذموم ہے اور دانشوروں کے نزدیک یہ نظریہ قابل قبول ہے۔(۳)

تمام اہل سنت کے نزدیک اعتقادی مسائل میں خبر واحد کو حجت قرار دینا صحیح نہیں ، کیونکہ ان اخبار کے ثبوت پر انھیں یقین نہیں ہے اور اس جمہور میں ، امام الحرمین، سعد، غزالی، ابن عبدالبر، ابن اثیر، صفی الدین بغدادی، ابن قدامہ، عبد العزیز بخاری، بن سبکی، صنعانی، ابن عبدالشکور شنقیطی او ر دیگر بے شمار افراد شامل ہیں۔

خطیب بغدادی نے فرمایا:

خبر واحد ان مسائل میں ، کہ جن میں قطع و یقین کاہونا ضروری ہے، قابل قبول نہیں ۔

____________________

(١) منہاج السنہ ، ص ١٣٣

(٢) الاعتصام ، ج ١، ص ٢٣٥

ابو اسحاق شیرازی فرماتے ہیں:

خبر واحد علم آور نہیں ہوتی۔(۱)

غزالی فرماتے ہیں:

خبر واحد علم آور نہیں ہوتی اور یہ ایک قطعی اور واضح بات ہے، لہٰذا ہم ہر بات کی تصدیق نہیں کرتے، کیونکہ جب دو اخبار آپس میں معارض ہوںاورہم ان کی تصدیق کرنا چاہیں تو گویا ہم نے ان اخبار کی تصدیق کی جو ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔(۲)

ابن عبد الشکور فرماتے ہیں:

علمائے علم اصول کے نزدیک غیر معصوم سے خبر واحد مطلقاً علم اور یقین آور نہیں ہوتی، چاہے اس خبر میں قرائن موجود ہوں یا نہ ہوں. اور اگر یہ مان لیا جائے کہ خبر واحد علم آور ہے اور دو عادل اشخاص دو متناقض خبریں پیش کریں تو ان کی تصدیق کے نتیجہ میں تناقض پیش آئے گا۔(۳)

عبد القاہر بغدادی تحریر فرماتے ہیں:

خبر واحد کی سند اگر صحیح ہو او ر متن میں کوئی ایسی بات نہ جو عقلی طور پر محال ہو، تو گرچہ خبر واحد علم آور نہیں ، لیکن اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔(۴)

____________________

(١) التبصرہ ، ص ٢٩٨ (٢) المستصفی ، ص ١٤٥

(٣) مسلم الثبوت بشرح فواتح الرحموت ، ج٢، ص ١٢٢۔ ١٢١

(٤) اصول الابن ، ص ١٢

بیہقی نے فرمایا:

اگر خبر واحد کے لئے قرآن و اجماع میں کوئی دلیل نہ پائی جائے، تو صفات الٰہی میں ہمارے علماء خبر واحد کے ذریعہ استدلال نہیں کرتے۔(۱)

فخر رازی لکھتے ہیں:

اصولیوں کے نزدیک خبر واحد سے مراد وہ خبر ہے جوعلم او ریقین آور نہیں ہوتی۔(۲)

اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:

بعض لوگ ذات اور صفات الٰہی میں اخبار آحاد پر تکیہ کرتے ہوئے گفتگو کرتے ہیں جب کہ ان اخبار اور قطع و یقین میں بہت فاصلہ ہے۔(۳)

مصری محمد غزالی بھی ان افراد کی پیروی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

مجھے ازھر یونیورسٹی سے فارغ ہوئے پچاس سال ہو رہے ہیں اور کئی سال سے تدریس میں مشغول ہوں اس مدت میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اخبار آحاد ظن آور ہیں اور جب تک کہ اس سے محکم دلیل نہ پائی جائے، خبر واحد کو حکم شرعی کے لئے دلیل قرار دیا جاسکتا ہے لہٰذا خبر واحد کو یقین آور کہنا بیہودہ کلام ہوگا، جو عقل و نقل کی رو سے مردود ہے۔(۴)

____________________

(١) الاسماء و الصفات ، ص ٣٥٧

(٢) المعالم، ص ١٣٨ (٣) اساس التقدیس ،

(٤) السنة النبویہ بین اہل الفقہ و اہل الحدیث، ص ٧٤

اور دوسرے مقام پر محمد غزالی یوں فرماتے ہیں:

خبر واحد ظن آور ہے اور اس کا استعمال فروع دین میں ہوتا ہے اور میری اس بات پر تاکید ہے کہ خبر واحد کے ذریعہ صرف اور صرف ظن حاصل ہوسکتا ہے...

اس کے باوجود دور حاضر میں بعض لوگ اپنے اعتقادات کو ثابت کرنے کے لئے ان اخبار پر تکیہ کرتے ہیں اوراس کے منکر کو کافر کہتے ہیںاورخود ان کا یہ عمل ایک طرح سے غلو ہے۔(۱)

یوسف قرضاوی اس کے متعلق فرماتے ہیں:

اعتقادی امور کا یقین پر موقوف ہونا ضروری ہے اور اخبار آحاد (جو کہ صحیح السند ہیں) مفید یقین نہیں ہوتے، بلکہ خبر متواتر یقین آور ہے.پہلے امر کی تائید خداوند متعال نے قرآن مجید میں اس مقام پر کی ہے جہاں پر کفار کی مذمت میں فرماتا ہے : (و مالهم به من علم ان یتبعون الا الظن وان الظن لایغنی من الحق شیئًا )(۱) اوردوسرے امر کی تائید علمائے اصول کرتے ہیں، بہر صورت اعتقادات میں اخبار آحاد سے اس طرح کا استفادہ تمام مشہور علمی مراکز میں (مثلاً ازھر، زیتونہ، قرویین، دیوبند) میں رائج ہے۔(۲)

سید قطب نے فرمایا:

____________________

(١) دستور الوحدة الثقافیہ بین المسلمین ، ص ٦٨.

(٢) الشیخ الغزالی کما عرفتہ رحلة نصف قرن ، ١٢٤۔ ١٢٣

اعتقادی امور میں احادیث آحاد پر تکیہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان امور میں ہم قرآن اور متواتر اخبار کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اعتقادی مسائل میں احادیث سے اس وقت استفادہ کیا جائے گا کہ جب وہ خبر متواتر ہو۔(۱)

محمود شلتوت فرماتے ہیں:

تمام علماء او ردانشوروں نے خبر واحد کے یقین آور نہ ہونے پر اتفاق کیاہے اور ان کی نظر میں اعتقادی مسئلہ میں اسے دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، حتی محققین نے ا س مطلب کو حتمی اورغیر قابل اختلاف قرار دیا ہے، یہ ایک اجماعی موضوع ہے جس میں کسی طرح کا کوئی اعترا ض نہیں اس طرح علمائے اہل سنت کے بے شمار اقوال پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے وہابیوں کے لئے پیش کیا، تاکہ وہ قانع ہوجائیں اور اپنے مخالف کو کافر اور مشرک نہ کہیں۔

یہاں تک ہم نے امامیہ کی شناخت میں وہابیوںکے انحراف کا پہلا سبب بیان کیا ہے وہابیوں کی گمراہی کا پہلا سبب ان کا غلو کے معنی سے آگاہ نہ ہونا ہے اور دوسرا سبب ان کا تشیع کے معنی سے آگاہ نہ ہونا ہے، جس کے متعلق میں نے بعد والی کتاب بنام ''موقف الاثنی عشریہ من الغلو و الغلاة'' میں مفصل طور پر گفتگو کی ہے اور تیسرا سبب غلو اور غالیوں کے مقابل امامیہ کے موقف سے آگاہ نہ ہونا ہے جسے اسی بعد والی کتاب میں قارئین ملاحظہ فرمائیں گے اس مقام پر اس سبب کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہیں۔

____________________

(١) فی ظلال القرآن ، ج٦ ، ص ٤٠٠٨