تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30334
ڈاؤنلوڈ: 2312


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30334 / ڈاؤنلوڈ: 2312
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

تفسیر نمونہ جلد نہم

تفسیرنمونه ، آیه الله العظمی مکارم شیرازی (مدظله العالی) کی ۱۵ ساله زحمات کا نتیجه ہے جس کو معظم له نے اہل قلم کی ایک جماعت کی مدد سے فارسی زبان میں تحریر فرمایا ، اس کا اردو اور عربی زبان میں ترجمه ہو کر شایع ہوچکا ہے.

تعداد جلد: ۱۵جلد

زبان: اردو

مترجم : مولانا سید صفدر حسین نجفی (رح)

تاریخ اشاعت: ربیع الثانی ۱۴۱۷هجری

سورہ هود

مضامین اور فضیلت

مفسرین میں مشہور ہے کہ تمام سورہ مکّہ میں نازل ہوئی ۔”تاریخ القرآن“ کے مطابق یہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم پر نازل ہونے والی انچاسویں سورت ہے ۔ بعض مفسّرین کی تصریح کے مطابق یہ سورة ان آخری سالوں میں نازل ہوئی جب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم مکّہ میں تھے ۔ یعنی حضرت ابوطالبعليه‌السلام اور حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد لہٰذا فطرتاً پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی کا ایک سخت ترین دور تھا اس بنا پر اس کہ اس زمانے میں دشمن کا دباؤ اور اس کا زہریلا پروپیگنڈا ہر دور سے زیادہ محسوس ہوتا تھا ۔ اس سورة کی ابتدا میں ایسی تعبیریں نظر آتی ہیں جو پیغمبر اکرمصلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور مومنین کی دل جوئی اور تسلّی کا پہلو رکھتی ہیں ۔

اس سورة کی آیات کا اہم اور بیشتر حصّہ گزشتہ انبیاء خصوصاً حضرت نوح علیہ السلام کی سرگزشت جہاں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور مومنین کے لیے تسلی اور سکون قلب کا باعث تھا وہاں ان کے طاقتور دشمنوں کے لیے درسِ عبرت بھی تھا ۔

اس سورة کی آیات باقی مکی سورتوں کی طرح معارف اسلامی کے اصولوں خصوصاً شرک و بت پرستی سے مبارزہ، بعد از موت کے معاملات اور دعوتِ پیغمبر اسلام کی صداقت کی تشریح پر مبنی ہیں ۔ ان مباحث میں دشمنوں کو شدید انجام سے ڈرایا گیا ہے اور مومنین کو استقامت و پامردی کی تاکید کی گئی ہے ۔

حضرت نوح علیہ السلام کے حالات اور دشمنوں سے نبرد آزمائی کی تفاصیل کے علاوہ حضرت ہود (علیه السلام)، حضرت صالح(علیه السلام)، حضرت ابراہیم (علیه السلام)، حضرت لوطعليه‌السلام اور حضرت موسیٰعليه‌السلام کی سرگزشت نیز شرک و کفر اور انحراف و ستم گری کے خلاف وسیع و طویل جنگ کی بابت اشارات بھی اس سورة میں موجود ہیں ۔

اس سورة نے مجھے بوڑھا کردیا

اس سورة کی آیات وضاحت کے ساتھ اس امر کو ثابت کرتی ہیں کہ مسلمانوں کو کبھی دشمنوں کی کثرت اور ان کے شدید حملوں کی وجہ سے میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہیئے بلکہ ہر لمحہ ان کی استقامت و پامردی میں اضافہ ہونا چاہیئے ۔

اسی بناپر ایک مشہور حدیث میں مذکور ہے کہ حضورِ اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:شیبتنی سورة هود

سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا ۔(۱) یا جس وقت آپ کے صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ کے چہرہ انور پر بڑھاپے کے آثار زیادہ جلدی نمودار ہوگئے ہیں ، تو فرمایا:شیبتنی هود والواقعه

سورہ ہود اور سورہ واقعہ نے مجھے بوڑھا کردیا ۔(۲)

اور بعض روایات میں سورہ ”مرسلات، عمّ یتساء لون اور تکویر“ وغیرہ کا اضافہ بھی ہوا ہے ۔(۳)

ابن عباس سے اس حدیث کی تشریح میں منقول ہے:

رسول اللہ پر اس آیت سے زیادہ سخت اور دشوار کوئی اور آیت نازل نہیں ہوئی جس میں فرمایا گیا ہے:

( فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَ مَن تَابَ مَعَکَ )

یعنی تم اور تمھارے ساتھی اس طرح ثابت قدم رہیں جیسا کہ حکم دیا گیا ۔(۴)

بعض مفسرین سے منقول ہے کہ ایک عالم دین نے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا تو آپ سے سوال کیا کہ یہ جو آپ سے مروی ہے کہ ”سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا“ کیا اس کا سبب و علت گزشتہ امتوں کی سرگزشت اور ہلاکت بیان کرنا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔ اس سبب ”( فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ) “ والی آیت تھی ۔(۴)

بہر حال اس سورة میں عالاوہ اس آیت کے، قیامت اور عدالتِ خدواندی میں باز پرس سے مربوط گزشتہ امتوں کی ہلادینے والی سزاؤں سے متعلق اور فتنہ و فساد کے خلاف جنگ کے بارے میں احکام ہیں ۔ یہ سب امور احساسِ مسئولیت پیدا کرتے ہیں ۔ تعجب کی بات نہیں کہ ان ذمہ داریوں کے بارے میں غور و فکر انسان کو بوڑھا کردے ۔

ایک نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا ضروری ہےن یہ ہے کہ اس سورة کی بہت سی آیات ان مطالب کی تاکید کرتی ہیں ، جو گزشتہ سورة یونس میں آچکے ہیں ۔ خصوصاً اس کا آغاز بعینہ اس کے آغاز جیسا ہے اور بہت سے مواقع پر اس کا مقصد اور ماحول بھی انہی مسائل کی تاکید ہے ۔

____________________

۱۔ نور الثقلین جلد دوم، ص۲۳۴.۲۔مجمع البیان اسی سورة کے آیة ۱۱۸ کے ذیل میں ۔

۳۔روح المعانی جلد ۱۱ ، ص ۱۷۹۔۴۔مجمع البیان اسی سورة کی آیت ۱۱۲ کے ذیل میں ۔

۵۔روح المعانی جلد ۱۱، ص ۱۷۹۔

اس سورة کی معنوی تاثیر

اس سورة کی فضیلت کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے ایک حدیث مروی ہے آپ نے فرمایا:

من قرء هذه السوره اعطی من الاجر والثواب بعد من صدق هوداً والانبیاء علیهم السلام، ومن کذب بهم، و کان یوم القیامة فی درجة الشهداءٰ وحوسب حساباً یسیراً

جو شخص اس سورہ کی تلاوت کرے اس کی جزا اور ثواب ان اشخاص جیسا ہے جو حضرت ہودعليه‌السلام اور باقی انبیاء پر ان کے جھٹلانے والوں اور منکرین کے مقابلے میں ایمان لائے ۔ ایسا شخص قیامت کے دن شہداء میں سے قرار پائے گا اور اس کا حساب آسان وسہل ہوگا ۔(۱)

واضح ہے کہ خالی اور خشک تلاوت یہ اثر نہیں رکھتی بلکہ غور و فکر کے ساتھ کی گئی تلاوت ہی عمل کی جانب گامزن کرتی ہے اور یہ بات انسان کو مومنین ماسلف کے نزدیک اور منکرین انبیاء سے دور کردیتی ہے ۔ اسی بناء پر اسے ان میں سے ہر ایک کی تعداد کے برابر جزا ملے گی ۔ فکر و معرفت کے ساتھ اس سورة کی تلاوت کرنے والا قاری چونکہ گزشتہ امتوں کے شہداء کے ساتھ ہم مقصد و یک ہدف ہوگا لہٰذا تعجب نہیں کہ وہ ان جیسا قرار پائے اور اس کا حساب کتاب (روزِ آخرت میں ) آسان و سہل ہوجائے ۔امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے، آپعليه‌السلام نے فرمایا:

جو شخص یہ سورة اپنے پاس لکھ کر رکھے خدا اسے بے حد قوت و طاقت عطا فرمائے گا اور جس کے پاس یہ سورة تحریراً موجود ہو تو وہ جنگ میں دشمن پر غالب آئے گا یہاں تک کہ جو بھی اسے دیکھے گا اس سے خوف کھائے گا ۔(۲)

اگر چہ راحت طلب اور ظاہری مقاصد اخذ کرنے والے افراد اس قسم کی احادیث سے یہ مطلب نکالتے ہیں کہ صرف قرآن کی تحریر اور نقش کا ہمراہ ہونا ان مقاصد کے حصول کے لیے کافی ہے مگر در حقیقت ان کو اپنے پاس رکھنے سے مراد انھیں ایک دستور العمل اور زندگی کے پروگرام کے طور پر اپنے پاس رکھنا، اسے ہمیشہ پڑھتے رہنا اور ہُوبہُو اس کا اجرا کرنا ہے ۔ لہٰذا یہ بات مسلّم ہے کہ ایسا کرنے سے ہی نصرت و کامیابی کے آثار ظاہر ہوں گے، کیونکہ اس سورة میں استقامت و پامردی، فساد سے نفرت اور ہدف و مقصد سے ہم بستگی کا حکم اور گزشتہ اقوام کی تاریخ و تجربات کا بیشتر حصّہ بیان کیا گیا ہے، ان میں سے ایک مذکورہ واقعہ دشمن پر کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کا درس دیتا ہے ۔

____________________

۱۔ تفسیر برہان جلد ۲، ص۲۰۶.۲۔ تفسیر برہان جلد ۲، ص۲۰۶.

آیات ۱،۲،۳،۴

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

۱( الٓرٰ کِتَابٌ اٴُحْکِمَتْ آیَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ ) ۔

۲( اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ اللهَ إِنَّنِی لَکُمْ مِنْهُ نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ ) ۔

۳( وَاٴَنْ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْهِ یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلیٰ اٴَجَلٍ مُسَمًّی وَیُؤْتِ کُلَّ ذِی فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیرٍ ) ۔

۴( إِلَی اللهِ مَرْجِعُکُمْ وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ۔

ترجمہ

” بخشنے والے مہربان خدا کے نام سے “

۱ ۔ یہ کتاب ہے کہ جس کی آیات مستحکم کی گئی ہیں پھر ان کی تشریح و تفصیل بیان کی گئی ہے، حکیم و آگاہ خدا کی طرف سے (یہ نازل ہوئی ہے) ۔

۲ ۔ (میری دعوت یہ ہے کہ) خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو میں اس کی طرف سے تمھیں ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں ۔

۳ ۔ اور یہ کہ اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو پھر اس کی طرف پلٹو تاکہ وہ اچھے طریقے سے تمھیں مدت معین تک (اس جہان کی نعمتوں سے) بہرہ مند کرے اور ہر صاحبِ فضیلت کو اس کی فضیلت کے مطابق عطا کرے اور اگر (اس فرمان سے) تم نے منہ موڑلیا تو مجھے تمھارے لیے بہت بُرے دن کے عذاب کا خوف ہے ۔

۴ ۔ (جان لو) تمھاری بازگشت اللہ کی طرف ہے اور وہ چیز پر قادر ہے ۔

دعوت انبیاء کے چار اہم اصول

یہ سورة بھی گزشتہ سورة اور قرآن کی دیگر بہت سی سورتوں کی مانند اس عظیم آسمانی کتاب کی اہمیت کے بیان سے شروع ہورہی ہے تاکہ لوگ اس کے مضامین کی طرف سے زیادہ متوجہ ہوں اور اسے زیادہ باریک بینی سے دیکھیں ۔

حروف مقطعات ”( آلرٰ ) “ کا ذکر خود اس عظیم آسمانی کتاب کی اہمیت کی دلیل ہے، یہ کتاب باوجود اپنے اعجاز وعظمت کے معمولی حروف مقطعات جو کہ سب کے سامنے ہیں یعنی الف، لام، راء، سے تشکیل پائی ہے( الٓرٰ ) ۔(۱)

حروف مقطعات کے بعد قرآن مجید کی ایک خصوصیت دو جملوں میں بیان کی گئی ہے، پہلی یہ کہ یہ ایسی کتاب ہے جس کی تمام آیات مستحکم ہیں( کِتَابٌ اٴُحْکِمَتْ آیَاتُهُ ) ۔ دوسری یہ کہ اس میں انسانی زندگی کی تمام انفرادی، اجتماعی، مساوی اور معنوی ضروریات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے( ثُمَّ فُصِّلَتْ ) ۔

یہ عظیم کتاب ان خصوصیات کے ساتھ اس خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو حکیم بھی ہے اور آگاہ بھی( مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ ) ۔

اپنے حکیم ہونے کے تقاضے بناپر اس نے آیاتِ قرآن کو محکم بیان کیا ہے اور خبیر وآگاہ ہونے کے تقاضے کے پیشِ نظر آیاتِ قرآنی کو انسانی ضروریات کے مطابق مختلف حصّوں میں بیان فرمایا ہے ۔اس لئے کہ جب تک کوئی انسان کی تمام روحانی وجسمانی کی جزئیات سے باخبر نہ ہو وہ تکامل آفرین اور ارتقائی اہلیّت کے حامل احکام صادر نہیں کرسکتا ۔

درحقیقت صفاتِ قرآن میں سے ایک، جو اس آیت میں آئی ہے، کا سرچشمہ خدا کی کوئی ایک صفت ہے، قرآن کا مستحکم ہونا خدا کی حکمت سے ہے اور اس کی تشریح وتفصیل اس کے باخبر ہونے کے باعث ہے ۔

اٴُحْکِمَتْ “اور ”فُصِّلَتْ “میں فرق مفسّرین قرآن نے ”( اٴُحْکِمَتْ ) “ اور ”( فُصِّلَتْ ) “کے فرق میں بہت سی بحثیں کی ہیں اور کئی ایک احتمالات پیش کئے ہیں ، لیکن مذکورہ آیت کے مفہوم سے نزدیک تر جو بحث سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے لفظ میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ قرآن ایک واحد مجموعہ ہے جو آپس میں پیوست ہے اور ایک محکم واستوار عمارت کی مانند ہے اور اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ خدا واحد ویکتا کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس بناپر اس کی آیات میں کسی قسم کا تضاد واختلاف نظر نہیں آتا ۔

دوسرا لفظ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس کتاب میں باوجود وحدت واکائی کے بہت سے شعبے اور شاخیں ہیں جو انسان کی تمام تر جسمانی وروحانی ضروریات کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے اسی بناپر وحدت کے باوجود کثیر ہے اور کثرت کے باوصف واحد ہے ۔

بعد والی آیت میں قرآن کا اہم ترین اور سب سے بنیادی موضوع یعنی توحید کا بیان اور شرک کا مقابلہ ان الفاظ میں میں کیا گیا ہے”( اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ اللهَ ) “، یعنی میری پہلی دعوت یہ ہے کہ یکتا ویگانہ خدا کے کسی کی پرستش نہ کرو(۲) یہ دراصل اس عظیم کتاب کے احکام کی پہلی تفسیر ہے ۔

میری دعوت کا دوسرا پروگرام یہ ہے کہ: ”( إِنَّنِی لَکُمْ مِنْهُ نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ ) “ یعنی میں تمھارے لئے اسی خدا کی طرف نذیر (ڈرانے والا) اور بشیر (خوشخبری دینے والا) ہوں ، مَیں تمھیں نافرمانیوں ، ظلم وفساد اور شرک وکفر کے بارے میں ڈراتا ہوں اور تمھارے کرکوتوں کے عکس العمل اور خدائی عذاب وسزا سے خبردار کرتا ہوں ، اطاعت وپاکیزگی اور تقویٰ کے بدلے میں تمھیں سعادت بخش زندگی کی بشارت دیت ہوں( إِنَّنِی لَکُمْ مِنْهُ نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ ) ۔

میری تیسری دعوت یہ ہے کہ اپنے گناہوں سے استغفار کرو اور اپنے کو آلودگیوں سے پاک و صاف رکھو( وَاٴَنْ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ) ۔

میری چوتھی دعوت یہ ہے کہ اس کی طرف پلٹ آؤ اور استغفار کے نتیجہ میں گناہوں سے پاک ہو جانے کے بعد اپنے کو خدائی صفات سے آراستہ کرو کیونکہ اس کی جانب بازگشت اس کی صفات سے اپنے آپ کو مزین کرنے کے علاوہ کچھ نہیں( ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْهِ ) ۔

درحقیقت حق کی جانب دعوت دینے کے چار مراحل ان چار جملوں کے ذریعے بیان ہوئے ہیں کہ جن میں دو عقیدہ اور بنیاد سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے دو کا تعلق بنیاد کے اوپر والے حصّے اور عمل سے ہے، حقیقی توحید قبول کرنا، شرک سے مبارزہ اور پیغمبر اکرم کی ر سالت کو قبول کرنا اعتقادی اصول ہیں ، اسی طرح اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرنا اور صفات الٰہی کو اپنانا یعنی عملی لحاظ سے اپنی مکمل اصلاح کرلینا قرآن کے دو عملی احکام ہیں لہٰذا اگر صحیح معنوں میں غور وفکر کریں تو قرآن کے تمام موضوعات کا خلاصہ یہی چار اقسام وامور ہیں ، یہی اس سورة اور سارے قرآن کے موضوعات کی فہرست ہے، ان چار احکام کا ”موافقت“ یا مخالفت“ کی صورت میں عملی نتیجہ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

جس وقت اس پرگرام کو عملی جامہ پہناوگے تو خدا تمھیں تمھاری عمر کے آخری لمحات تک اس دنیا کی سعادت بخش زندگی سے بہرہ ور کرے گا( یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلیٰ اٴَجَلٍ مُسَمًّی ) ۔

اس سے بڑھ کر یہ کہ ہر شخص کو اس کے عمل کے برابر بہرہ مند کرے گا اور ان چار اصولوں پر عمل کرنے کی کیفیت میں لوگوں کے فرق اور تفاوت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرے گا بلکہ ہر صاحبِ فضیلت کو اس کی فضیلت کے مطابق عطا کرے گا( وَیُؤْتِ کُلَّ ذِی فَضْلٍ فَضْلَهُ ) ۔

لیکن اگر انسان نے راہِ مخالفت اختیار کی اور عقیدہ وعمل سے متعلق ان چار احکام کی نافرمانی کے راستے پر چلے تو مَیں تم پر اس عظیم دن (قیامت) کے عذاب سے ڈرتا ہوں ، وہ دن کہ جس میں تم عدلِ الٰہی کی عظیم عدالت میں حاضر ہوگے( وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیرٍ ) ۔ بہرحال جان لیجئے کہ تم جو کچھ بھی ہو اور جس مقام ومنزلت پر فائز ہوں آخرکار تم سب کی بازگشت خدا کی طرف ہے( إِلَی اللهِ مَرْجِعُکُمْ ) ۔ یہ جملہ قرآن کے تفصیلی اصولوں میں سے یعنی مسئلہ معاد وقیامت کی طرف اشارہ ہے ۔

لہٰذا یہ کبھی نہ سوچنا کہ تمھاری قوت خدا کی قوت وقدرت کے مقابلہ میں کوئی اہمیت رکھتی ہے یا سمجھنے لگو کہ تم اس کے فرمان اور اس کی عدالت کے کٹہرے سے فرار حاصل کرسکو گے، نیز یہ تصوّر بھی نہ کرنا کہ وہ تمھاری بوسیدہ ہڈیوں کو موت کے بعد جمع نہیں کرسکتا اور نئی حیات کا لباس پہناسکتا، اس لئے کہ وہ تو ہر چیز پر قادر وتوانا ہے( وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ )

____________________

۱۔ اس معنی کی تفصیل اور قرآن کے حروف مقطعات کی دیگر تفاسیر سورة بقرہ، آلِ عمران اور اعراف کی ابتداء میں مذکورہ وچکی ہیں ۔

۲۔ ”اَلَّا تَعْبدُوا الا اللّٰه “ کے بارے میں دو احتمال پیش کیے گئے ہیں پہلا یہ کہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے یہ زبان پیغمبر سے ہے اور اس کی ترکیب یہ ہوگی: ”دعوتی وامری الاتعبدو الا اللّٰه“- دوسرا یہ کہ یہ خدا کا کلام ہے اور اس کی تقدیر یہ ہے :امرکم الا تعبدوا الاللّه - لیکن جملہ ”اننی لکم منه نذیر و بشیر “(میں تمھیں ڈرانے اور خوشخبری سنائے والا ہوں ) پہلے معنی سے زیاد مطابقت رکھتا ہے ۔

دین ودُنیا کا رشتہ

ابھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جوگمان کرتے ہیں کہ دینداری فقط آخرت کا گھر آباد کرنے اور بعد از موت راحت وسکون حاصل کرنے کے معنی میں ہے اسی طرح اعمال نیک آخرت کا ثمر اور زادِراہ ہیں ، ایسے لوگ اس جہان کی اصل زندگی میں ایک پاکیزہ اور حقیقی مذہب کے اثر سے بے اعتنا ہیں یا اس کے لئے کم اہمیت کے قائل ہیں حالانکہ مذہب آخرت کا گھر آباد کرنے سے پہلے دنیاوی گھر آباد کرنے والا ہے اور اصولاً جب تک مذہب اِس زندگی میں اثر انداز نہ ہو اُس زندگی کے لئے اس کی کوئی تاثیر نہ ہوگی ۔

قرآن صراحت کے ساتھ بہت سی آیات میں اس موضوع کو اپنا عنوان قرار دیا ہے، یہاں تک کہ بعض جزوی مسال کو بھی اہمیت دی ہے جیسا کہ سورہ نوح میں ہے کہ اس عظیم پیغمبر نے اپنی قوم سے یوں فرمایا:

( اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّهُ کَانَ غَفَّارًا، یُرْسِلْ السَّمَاءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا، وَیُمْدِدْکُمْ بِاٴَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَلْ لَکُمْ اٴَنْهَارًا )

اور اپنے گناہوں سے اتسغفار کرو اور توبہ کے پانی سے انھیں دھو ڈالو کہ خدا بخشنے والا ہے تاکہ وہ پے درپے تم پر آسمان کی برکتیں نازل کرے اور مال واولاد سے تمھاری مدد کرے اور سرسبز باغات کی اور پانی کی نہریں تمھارے قبضہ دے دے (نوح/ ۱۰،۱۱،۱۲)

بعض لوگ دینا کی ان مادی نعمات اور استغفار وگناہ سے پاک ہونے کے درمیان صرف ایک معنوی رتہ سمجھتے ہیں جو سمجھ نہیں آسکتا ، حالانکہ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ ان امور کی ایسی تفسیر کی جائے جو سمجھ میں آنے والی نہ ہو، کون شخص اس حقیقت میں شک رکھتا ہے کہ حقیقی توحید کوقبول کرنے، انبیاء کی رہبری میں الٰہی معاشرے کا قیام، ماحول کو گناہوں سے پاک کرنے اور انسان قدروں سے آراستہ کرنے، (یعنی وہ چار اصول جن کی طرف اوپر والی آیت میں اشارہ ہوا ہے) ان پر عمل پیرا ہونے سے معاشرہ تکامل اور ارتقاء کی جانب بڑھتا ہے اور امن وسلامتی اور صلح وصفا سے معمور ایک آباد وآزاد معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔اسی بناء پر مذکورہ بابا آیات میں ان چار اصولوں کے تذکرے کے بعد ہم پڑھتے ہیں :( یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلیٰ اٴَجَلٍ مُسَمًّی ) اگر ان اصولوں پر کاربند ہوجاو تو آخری عمر تک شائستہ اور نیک طرزِ زندگی سے بہرہ مند رہوگے ۔

آیت ۵

۵( اٴَلَاإِنَّهُمْ یَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِیَسْتَخْفُوا مِنْهُ اٴَلَاحِینَ یَسْتَغْشُونَ ثِیَابَهُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ )

ترجمہ

۵ ۔ آگاہ رہو کہ جب وہ (اپنے سروں کو ایک دوسرے کے نزدیک اور )سینوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو (اور اپنی باتوں کو) اس (پیغمبر) سے پوشیدہ رکھیں ، آگاہ رہو کہ جب وہ اپنے لباس کو اپنے اوپر لپیٹ لیتے ہیں اور اپنے آپ کو اس میں چھپُ لیتے ہیں (خدا) ان کے ظاہر اور باطن سے باخبر ہے کیونکہ وہ سینوں کے اندر کے رازوں سے آگاہ ہے ۔

شان نزول

بعض مفسّرین نے اس آیت کے لئے کئی شانِ نزول ذکر کی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ آیت اخنس بن شریق منافق کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو نہایت شیرین زبان تھا اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے سامنے دوستی اور محبّت کا اظہار کرتا مگر باطن میں دشمنی اور عداوت رکھتا تھا ۔

نیز جابر بن عبد الله نے امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ مشرکین کا ایک گروہ جب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے سامنے سے گزرتا تو اپنے سروں کو نیچے کرلیتا یہاں تک کہ اپنے سر کو لباس سے چھپالیتا تاکہ پیغمبر انھیں دیکھ نہ لیں ، یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ۔

تفسیر

یہ آیت بطور کلی اسلام اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے دشمنوں کے احمقانہ فعل کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اپنی نفاق آمیز اور حق سے گریزاں روش سے چاہتے تھے کہ اپنی ذات کو دوسرےں کے نظروں سے پنہاں رکھیں تاکہ کہیں حق کی آواز نہ سُن لیں ، لہٰذا فرمایا گیا ہے: آگاہ رہو کہ وہ پیغمبر کی دشمنی کو دلوں میں پوشیدہ رکھتے ہیں اور سروں کو نیچے کئے ہوئے سینوں کو آگے سے خم کرتے ہیں تاکہ خود کو آنحضرت کی نظر سے پوشیدہ رکھیں( اٴَلَاإِنَّهُمْ یَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِیَسْتَخْفُوا مِنْهُ ) ۔

اس آیت کے معنی کوطور پر سمجنے کے لئے ضروری ہے کہ لفظ ”یَثْنُون“کا مفہوم پورے طور پر واضح ہو، ”یَثْنُون“کا مادہ ”ثنی“ (بروزنِ سنگ) ہے جو در اصل کسی چیز کے مختلف حصّوں کو ایک دوسرے کے نزدیک کرنے کے معنی میں آیا ہے مثلاً لباس تہ کرنے کے لئے ”ثنی ثوبہ“کہا جاتا ہے اور یہ افراد کو ”اثنان“کہا جاتا ہے اس بناء پر ہے کہ ہم ان میں سے ایک کو دوسرے کے پہلو میں قرار دیتے ہیں ، مداحی اور قصیدہ گوئی کو ”ثناخوانی“ بھی اس بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ ممدوح کی صفاتِ برجستہ یکے بعد دیگرے شمار کی جاتی ہیں ، نیز یہ مادّہ خم ہونے اور جھکنے کے معنی میں بھی آیا ہے اس کے انسان اس کام سے اپنے بدن کے کچھ حصّوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیتا ہے، اسی طرح کینہ وعداوت رکھنے کے معنی میں بھی بیان کیا گیا ہے کیونکہ اس طرح انسان کبھی کسی شخص یا چیز کی دشمنی کو دل کے نزدیک کرلیتا ہے، یہ تعبیر بھی عربی ادب میں ملتی ہے ۔

اثنونی صدره علی البغضاء “اس نے میرا کینہ دل میں رکھا ۔

جو کچھ ذکر کیا گیا ہے اس پر توجہ دینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ممکن ہے مندرجہ بالا تفسیر دشمنانِ پیغمبر کی ظاہری وباطنی مخالفت اور ہر قسم کی خفیہ یاسازشوں کی طرف اشارہ ہو، اس لئے کہ ایک طرف تو دل میں بغض وکینہ اور دشمنی رکھنے کے باوجود ظاہراٍ شیرین زبان سے اظہارِ دوستی کرتے تھے اور دوسری جانب گفتگو کرتے وقت سروں کو ایک دوسرے کے قریب اور سینوں کو پیچھے کی طرف کئے ہوئے یہاں تک کہ اپنے لباسوں کو بھی سر پر لے لیتے ہیں ، تاکہ اشارہ وکنایہ میں بدگوئیاں اور سازشیں کرسکیں اور کوئی شخص ان کے رازوں سے آگاہ نہ ہو، لہٰذا قرآن بلافاصلہ آگاہ کرتا ہے کہ ”آگاہ رہو جس وقت وہ اپنے آپ کو اپنے لباسوں میں چھپالیتے ہیں( اٴَلَاحِینَ یَسْتَغْشُونَ ثِیَابَهُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ ) ۔ پروردگار ان کے ظاہر وپنہان سب کو جانتا ہے اس لئے کہ وہ ان کے سینوں (اندر) کے بھیدوں سے واقف ہے( إِنَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ) ۔