تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30538
ڈاؤنلوڈ: 2377


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30538 / ڈاؤنلوڈ: 2377
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

آیات ۶۶،۶۷،۶۸

۶۶( فَلَمَّا جَاءَ اٴَمْرُنَا نَجَّیْنَا صَالِحًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَمِنْ خِزْیِ یَوْمِئِذٍ إِنَّ رَبَّکَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیزُ ) ۔

۶۷( وَاٴَخَذَ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاٴَصْبَحُوا فِی دِیَارِهِمْ جَاثِمِین ) ۔

۶۸( کَاٴَنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیهَا اٴَلَاإِنَّ ثَمُودَ کَفَرُوا رَبَّهُمْ اٴَلَابُعْدًا لِثَمُودَ ) ۔

ترجمہ

۶۶ ۔جب (اس قوم کی سزا کے بارے میں ) ہمارا حکم آپہنچا تو صالح اور اس پر ایمان لانے والوں کو ہم نے اپنی رحمت کے ذریعے ( اس دن کی رسوائی سے نجات بخشی) کیونکہ تیرا پروردگار قوی اور ناقابل شکست ہے ۔

۶۷ ۔اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا انھیں ( آسمانی) صیحہ نے آلیا اور وہ اپنی ہی گھروں میں منہ کے بل گرکر مرگئے ۔

۶۸ ۔اس طرح سے کہ گویا وہ ان گھروں کے باسی ہی نہ تھے، جان لو کہ قوم ثمود نے اپنے پروردگار کا انکار کیا تھا، دور ہو قوم ثمود (رحمت پروردگار سے) ۔

قوم ثمود کا انجام

ان آیت میں اس سرکش قوم (قوم ثمود) پر تین دن کی مدت ختم ہونے پر نزول عذاب کی کیفیت بیان کی گئی ہے: اس گروہ پر عذاب کے بارے میں جب ہمارا حکم آپہنچاتو صالح اور اس پر ایمان لانے والوں کو ہم نے اپنی رحمت کے زیر سایہ نجات بخشی( فَلَمَّا جَاءَ اٴَمْرُنَا نَجَّیْنَا صَالِحًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا ) ۔

انھیں نہ صرف جسمانی ومادی عذاب سے نجات بخشی بلکہ ”رسوائی، خواری اور بے آبروئی سے بھی انھیں نجات عطا کی کہ جو اس روز اس سرکش قوم کو دامنگیر تھی“( وَمِنْ خِزْیِ یَوْمِئِذٍ ) ۔(۱)

کیونکہ تیرا پروردگار ہر چیز پر قادر اور ہرکام پر تسلط رکھتا ہے، اس کے لئے کچھ محال نہیں ہے اور اس کے ارادے کے سامنے کوئی طاقت کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی( إِنَّ رَبَّکَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیزُ ) ، لہٰذا کثیر جمعیت کے عذاب الٰہی میں مبتلا ہونے سے صاحب ایمان گروہ کو کسی قسم کی کوئی مشکل اور زحمت پیش نہیں ہوگی، یہ رحمت الٰہی ہے جس کا تقاضا ہے کہ بے گناہ گنہگاروں کی آگ میں نہ جلیں اور بے ایمان افراد کی وجہ سے مومنین گرفتارِ بلا نہ ہوں ۔

لیکن ظالموں کو صیحہ آسمانی نے گھیر لیا، اس طرح سے کہ یہ چیخ نہایت سخت اور وحشتناک تھی، اس کے اثر سے وہ سب کے سب گھروں ہی میں زمین پر گر کر مر گئے،( وَاٴَخَذَ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاٴَصْبَحُوا فِی دِیَارِهِمْ جَاثِمِین ) ۔

وہ اس طرح مرے اور نابود ہوئے اور ان کے آثار مٹے کہ گویا وہ اس سرزمین میں کبھی رہتے ہی نہ تھے،( کَاٴَنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیهَا ) ۔

جان لو کہ قوم ثمود نے اپنے پروردگار سے کفر کیا تھا اور انھوں نے احکام الٰہی کو پس پشت ڈال دیا تھا( اٴَلَاإِنَّ ثَمُودَ کَفَرُوا رَبَّهُمْ ) ۔

دُور ہو قوم ثمود، اللہ کے لطف ورحمت سے اور ان پر لعنت ہو( اٴَلَابُعْدًا لِثَمُود ) ۔

____________________

۱۔ ”خزی“ لغت میں شکست کے معنی میں ہے کہ جو انسان پر آتی ہے، چاہے خود اس کے اپنے ذریعہ ہو یا کسی دوسرے کی وجہ سے نیز ہر قسم کی رسوائی اور بہت زیادہ ذلت بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ مومنین کے لئے رحمت الٰہی

ان آیات میں ہم پھر دیکھتے ہیں کہ رحمت الٰہی مومنین پر اس قدر مہربان ہے کہ نزول عذاب سے پہلے خدا تعالیٰ انھیں امن وامان کی جگہ منتقل کردیتا ہے اور ہر خشک وتر کو عذاب اور سزا میں مبتلا نہیں کرتا ۔

البتہ ممکن ہے کہ حوادث ناگوار مثلا ًسیلاب، وبائی بیماریاں اور زلزلے وغیرہ ایسا رخ اختیار کرلیں کہ ہر چھوٹے بڑے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں لیکن یہ حوادث یقینی طور پر عذاب الٰہی کے حوالے سے نہیں ہوتے ورنہ عدالت الٰہی کی منطق میں محال ہے کہ ایک بھی بے گناہ شخص لاکھوں گنہگاروں کے ساتھ جرم میں گرفتار ہو۔

یہ بات البتہ پورے طور پر ممکن ہے کہ کچھ افراد ایک گنہگار جماعت میں رہتے ہوئے خاموش رہیں اور وہ برائی کے خلاف مقابلے کے بارے میں اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں اور وہ بھی اسی انجام سے دوچارہوں لیکن اگر وہ اپنی ذمہ داری پر عمل کریں توپھر محال ہے کہ وہ حادثہ جو عذاب کے طورپرنازل ہو انھیں دامنگیر ہو، (خدا شناسی سے مربوط مباحث میں نزول بلا اور حوادث کے مابین رابطے کے حوالے سے ہم نے اس موضوع سے متعلق کتب میں تفصیلی بحث کی ہے) ۔(۱)

۲ ۔ ”صیحہ“ سے کیا مراد ہے

”صیحة“ لغت میں میں ” بہت بلند آواز“ کو کہتے ہیں جو عام طور پر کسی انسان یا جانور کے منہ سے نکلتی ہے لیکن اس کامفہوم اسی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی ”نہایت بلند آواز“ اس کے مفہوم میں شامل ہے ۔

آیات قرآنی کے مطابق چند ایک گنہگار قوموں کو صیحہ آسمانی کے ذریعے سزا ہوئی، ان میں سے ایک یہی قوم ثمود تھی، دوسری قوم لوط (حجر: ۷۳) اور تیسری قوم شعیب (ہود: ۹۴) ۔

قرآن کی دوسری آیات سے قوم ثمود کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اسے صاعقہ کے ذریعے سزا ہوئی، ارشاد الٰہی ہے:

( فَإِنْ اٴَعْرَضُوا فَقُلْ اٴَنذَرْتُکُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ ) (فصلت: ۱۳)

یہ نشاندہی کرتی ہے کہ ”صیحة“ سے مراد”صاعقة“ کی وحشتناک آواز ہے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صاعقہ کی وحشتناک آواز کسی جمعیت کو نابود کرسکتی ہے؟ اس کا جواب مسلما مثبت ہے کویں کہ ہم جانتے ہیں کہ آواز کی لہریں جب ایک معین حد سے گزرجائیں تو شیشے کو توڑ دیتی ہیں ، یہاں تک کہ بعض عمارتوں کو تباہ کردیتی ہیں اورانسانی بدن کے اندر کے آرگانزم کو بے کار کردیتی ہیں ۔

ہم نے سناکہ جب ہوائی جہاز صوتی دیوار توڑ دیتے ہیں (اور آواز کی لہروں سے تیز رفتار سے چلتے ہیں )تو کچھ لوگ بے ہوش ہوکر گرجاتے ہیں یا عورتو ں کے حمل ساقط ہوجاتے ہیں یا ان علاقوں میں موجود عمارتوں کے تمام شیشے ٹوٹ جاتے ہیں ۔

فطری اور طبیعی ہے کہ اگر ااواز کی لہروں کی شدت اس سے بھی زیادہ ہوجائے تو آسانی سے ممکن ہے کہ اعصاب میں ، دماغ کی رگوں میں اور دل کی ڈھڑکن میں تباہ کن اختلال پیدا ہوجائے جو انسانوں کی موت کا سبب بن جائے ۔

آیات قرآنی کے مطابق اس دنیا کا اختتام بھی ایک عمومی صیحہ کے ذریعے ہوگا، ارشاد الٰہی ہے :

( مَا یَنظُرُونَ إِلاَّ صَیْحَةً وَاحِدَةً تَاٴْخُذُهُمْ وَهُمْ یَخِصِّمُونَ ) (یٰسین: ۴۹)

جیسا کہ قیامت بھی ایک بیدار کرنے والی صیحہ سے شروع ہوگی، قرآن کہتا ہے:

( إِنْ کَانَتْ إِلاَّ صَیْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِیعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُونَ ) ۔ (یٰسین: ۵۳)

۳ ۔ سزا صرف مادی پہلو سے نہیں

زیر بحث آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ سرکشوں اور طغیان گروں کی سزا نہ سرف مادی پہلو نہیں رکھتی بلکہ معنوی پہلو کی بھی حامل ہے کیونکہ ان کا رسوا کن انجام اور مرگبار سرنوشت کا تذکرہ تاریخ کا رسوا کردینے والا باب بن جائے گا جب کہ اہل ایمان کا ذکر تاریخ میں سنہری حروف میں رقم ہوگا ۔

۴ ۔” جاثمین“کا مفہوم

”جاثم“ مادہ ”جثم“ (بروزن خشم)سے گھٹنوں کے بل بیٹھنے کے معنی میں ہے، اسی طرح منہ کے بل گرنے کے معنی میں بھی آیا ہے ۔

”جاثمین“ کی تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ صیحہ آسمانی ان کی موت کا سبب بنی لیکن ان کے بے جان جسم زمین پر گرے پڑے تھے، البتہ چند ایک روایات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ صاعقہ کی آگ نے انھیں جلا کر خاکستر کر دیا لیکن یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں کیونکہ صدائے صاعقہ کا وحشتناک اثر فوراً ظاہر ہوجاتا ہے جب کہ اس کے جلانے کے آثار خصوصا ان لوگوں کے لئے جو عمارتوں کے اندر ہوں ، بعد میں ظاہر ہوتے ہیں ۔

۵ ۔ ”یغنوا“ کا مطلب

”یغنوا“ ”غنی“ کے مادہ سے، کسی مکان میں اقامت کے معنی میں ہے اور بعید نہیں کہ” غنا“ کا اصلی مفہوم بے نیازی کے معنی سے لیا گیا ہو کیونکہ بے نیاز شخص مستقل گھر رہتا ہے اور وہ مجبور نہیں ہوتا کہ ایک گھر سے دوسرے میں منتقل ہوتا رہے ۔

جملہ” کان لم یغنوا فیھا“ قوم ثمود اور اسی طرح قوم شعیب کے لئے آیا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی زندگی کا دفتر اس طرح سے لپیٹ دیا گیا کہ گویا وہ اس سرزمین میں رہتے ہی نہ تھے ۔(۲)

____________________

۱۔ تفسیر نمونہ، ج ۷، ص ۱۱۳(اردوترجمہ) پر بھی کچھ توضیحات آئی ہیں جو ایسی آیات سے فہم مقصود کے لئے موثر ہیں ، قارئین کرام! اس سلسلے میں کتاب ”آفریدگارِ جہان“اور ”در جستجوی خدا “ کی طرف رجوع کریں ۔

۲۔ اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ، ج۶، ص ۲۱۰، (اردوترجمہ) کی طرف رجوع کریں ۔

آیات ۶۹،۷۰،۷۱،۷۲،۷۳

۶۹( وَلَقَدْ جَائَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِیمَ بِالْبُشْریٰ قَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ فَمَا لَبِثَ اٴَنْ جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِیذٍ )

۷۰( فَلَمَّا رَاٴَی اٴَیْدِیَهُمْ لَاتَصِلُ إِلَیْهِ نَکِرَهُمْ وَاٴَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیفَةً قَالُوا لَاتَخَفْ إِنَّا اٴُرْسِلْنَا إِلیٰ قَوْمِ لُوطٍ )

۷۱( وَامْرَاٴَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ )

۷۲( قَالَتْ یَاوَیْلَتَا اٴَاٴَلِدُ وَاٴَنَا عَجُوزٌ وَهٰذَا بَعْلِی شَیْخًا إِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیبٌ )

۷۳( قَالُوا اٴَتَعْجَبِینَ مِنْ اٴَمْرِ اللهِ رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُهُ عَلَیْکُمْ اٴَهْلَ الْبَیْتِ إِنَّهُ حَمِیدٌ مَجِید )

ترجمہ

۶۹ ۔ہمارے بھیجے ہوئے بشارت لے کر ابراہیم کے پاس آئے، کہا: سلام، (اس نے بھی )کہا: سلام اور زیادہ دیر نہ لگی کہ (ان کے لئے بھنا ہوا گوسالہ لے آیا) ۔

۷۰ ۔ (لیکن ) جب اس نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس کی طرف نہیں بڑھتے (اور وہ اسے نہیں کھاتے) توانھیں بڑا سمجھا اور دل میں احساس خوف کیا (مگر) انھوں نے اس سے (جلد ہی )کہا: ڈرئےے نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔

۷۱ ۔اور اس کی بیوی کھڑی تھی وہ ہنسی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اس کے بعد یعقوب کی بشارت دی ۔

۷۲ ۔اس نے کہا: وائے ہو مجھ پر، کیا میں بچہ جنوں گی جب کہ میں بوڑھی عورت ہوں اور میرا یہ شوہر بھی بوڑھا ہے، یہ تو واقعاً عجیب بات ہے ۔

۷۳ ۔انھوں نے کہا کیا حکم خدا پرتعجب کرتی ہو، یہ خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں جو تم اہل بیت پر کیونکہ خدا حمید اور مجید ہے ۔

ابراہیم بت شکن کی زندگی کے کچھ حالات

اب ابراہیم جیسے بہادر بت شکن کی زندگی کے کچھ حالات کی باری ہے ۔

البتہ اس عظیم پیغمبر کی بھر پور زندگی کے بارے میں زیادہ تفصیل قرآن کی دوسری سورتوں میں آئی ہے، مثلا ًسورہ بقرہ، آل عمران، نساء،انعام اور انبیاء وغیرہ، یہاں ان کی زندگی کا صرف ایک حصہ ذکر ہوا ہے جو قوم لوط کے واقعہ سے اور اس سرکش گناہ آلود گروہ کے عذاب دئے جانے سے مربوط ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس ایک بشارت لے کرآئے (وَلَقَدْ جَائَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاھِیمَ بِالْبُشْریٰ ) ۔

جیسا کہ بعد کی آیات سے معلوم ہوگا یہ کدا کے بھیجے ہوئے وہی فرشتے تھے جو قوم لوط کو تباہ وبرباد کرنے پر مامور تھے لیکن پہلے وہ حضرت ابراہمعليه‌السلام کے پاس ایک پیغام دینے آئے تھے ۔

اس بارے میں کہ وہ کونسی بشارت لے کر آئے تھے، دو احتمالات ہیں اور ان دونوں کو جمع کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے ۔

پہلا احتمال یہ ہے کہ وہ حضرت اسماعیلعليه‌السلام اور حضرت اسحاقعليه‌السلام کی پیدائش کی بشارت تھی کیوں کہ حضرت ابراہمعليه‌السلام کی ایک طویل عمر گزر چکی تھی، ابھی تک ان کی کوئی اولاد نہ تھی، ان کی آرزو تھی کہ ان کا ایک یا کئی بیٹے ہوں جو صاحب نبوت ہوں ، اس لئے حضرت اسماعیلعليه‌السلام اور حضرت اسحاقعليه‌السلام کی پیدائش کی خبر ان کے لئے ایک عظیم بشارت تھی ۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ حضرت ابراہمعليه‌السلام قوم لوط کے فساد اور سرکشی سے بہت ناراحت تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ فرشتے ان کے بارے میں یہ ھکم لائے ہیں تو انھیں راحت ملی ۔

بہرحال جب بھیجے ہوئے (رسولان) ان کے پاس آئے تو انھوں نے سلام کیا( قَالُوا سَلَامًا ) ، اس نے بھی ان کے جواب میں سلام کہا (قالَ سَلَام) ۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ان کے لئے بھنا ہوا بچھڑا لے آئے( فَمَا لَبِثَ اٴَنْ جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِیذٍ ) ۔

”عجل“ کا معنی ”بچھڑا“ اور ”گوسالہ“ اور ”حنید“ کا معنی ہے”بھنا ہوا“ بعض نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ ”عنید“ ہر قسم کے بھنے ہوئے کو نہیں کہتے بلکہ صرف اسی گوشت کو کہتے ہیں جو پتھروں کے اوپر رکھا جائے اور اس کے اطراف میں آگ روشن کی جائے لیکن آگ اس تک نہ پہنچے اور وہ خستہ اور بھنا ہوا ہوجائے ۔

اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہمان نوازی کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے مہمان کے لئے کھانا تیار کیا جائے کیوں کہ مہمان جب کہیں سے آتا ہے خصوصا اگر مسافر ہوتو عموما تھکا ماندا اور بھوکا ہوتا ہے، اسے کھانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور آرام کی بھی لہٰذا جلدی سے اس کے لئے کھانا تیار کیا جانا چاہیئے تاکہ وہ پھر آرام کرسکے ۔

ہوسکتا ہے کہ بعض تنقید کریں کہ چند مہمانوں کے لئے ایک بچھڑا زیادہ ہے لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے اول تو مہمانوں کی تعداد قرآن نے صراحت سے بیان نہیں کی اور ان کی تعداد میں اختلاف ہے بعض نے تین، بعض چار،بعض نے نو اور بعض نے گیارہ افراد لکھے ہیں اور اس سے زیادہ کا بھی احتمال ہے، دوسرا یہ ہے کہ حضرت ابراہمعليه‌السلام کے پیروکار اور دوست احباب بھی تھے اور کن اور جان پہچان والے بھیاور یہ معمول ہے کہ بعض اوقات مہمان کے آنے پر مہمان کی ضرورت سے کئی گناہ زیادہ کھانا تیار کیا جاتا ہے اور سب اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔

لیکن اس موقع پر ایک عجیب واقعہ پیش آیا اور وہ یہ کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام)نے دیکھا کہ نو وارد کھانے کی طرف سے ہاتھ ہی نہیں بڑھاتے، یہ صورت ان کے لئے بالکل نئی تھی ، اس بنا پر آپ کو ان سے اجنبیت کا احساس ہوا، اور یہ معاملہ ان کی وحشت وپریشانی کا باعث بنا( فَلَمَّا رَاٴَی اٴَیْدِیَهُمْ لَاتَصِلُ إِلَیْهِ نَکِرَهُمْ وَاٴَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیفَةً ) ۔

اس امر کا سرچشمہ ایک دیرینہ روایت ہے جو آج تک ان موقعوں میں پائی جاتی ہے جو گزشتہ اچھی روایات کی پابند رہتی ہیں اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص دوسرے کا کھانا کھا لے یعنی اس کا نان ونمک کھالے تو اس کے بارے میں کوئی برا ارادہ نہیں کرتا، لہٰذا اگر کوئی واقعاً کسی کے بارے میں برا ارادہ رکھتا ہو تو کوشش کرتا ہے کہ اس کا نان ونمک نہ کھائے، اس لئے حضرت ابراہیمعليه‌السلام کو ان مہمانوں کے بارے میں شک ہوا اور سوچا کہ ہوسکتا ہے یہ کوئی برا ارادہ رکھے ہوں ۔

ان”رسولوں “کو یہ مسئلہ معلوم ہوگیا تو انھوں نے جلدی سے حضرت ابراہیمعليه‌السلام کا شک دور کردیا اور ”اس سے کہا: مت ڈریں ہم خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں “اور ایک ظالم قوم کو عذاب کرنے پر مامور ہیں اور فرشتے غذا نہیں کھاتے( قَالُوا لَاتَخَفْ إِنَّا اٴُرْسِلْنَا إِلیٰ قَوْمِ لُوطٍ ) ۔

اس موقع پر ابراہیم کی بیوی (سارہ) جو وہاں کھڑی تھی ہنسی( وَامْرَاٴَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِکَتْ ) ۔

شاید وہ اس لئے ہنسی ہوں کہ وہ بھی قوم لوط کے کرتوتوں سے سخت ناراحت اور پریشان تھیں اور ان کی سزا نزدی ک ہونے کا سن کر خوش ہوئیں ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ وہ تعجب بلکہ وحشت کے باعث ہنسی ہوں کیوں کہ ہنسی صرف مسرت کے لمحات کے لئے مخصوص نہیں بلکہ گاہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان شدت وحشت و تکلیف پر ہنستا ہے، عربوں کی مشہور ضرب المثل ہے :شر الشدائد ما یضحک ۔

بدترین مشکلات وہ ہیں جو انسان کو ہنسا دیں ۔

یا ہوسکتا ہے کہ وہ اس بنا پر ہنسی ہوں کہ کھانا موجود ہے لیکن نووارد مہمان ہاتھ کیوں نہیں بڑھاتے ۔

یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ وہ بیٹے کی خوشخبری پر ہنسی تھیں اگر چہ ظاہر آیت اس تفسیر کی نفی کرتی ہے کیوں کہ اسحاق کی بشارت انھیں اس ہنسنے کے بعد دی گئی ہے ہاں البتہ اگر یہ کہا جائے کہ پہلے انھوں نے ابراہیم کو بشارت دی ہو، سارا نے یہ بات سن لی ہو اور وہ اس احتمال پر خوش ہوئی ہوں کہ ان سے ابراہیمعليه‌السلام کا فرزند ہوگا ۔

لیکن انھوں نے تعجب کیا کہ کیا اس سن وسال میں ممکن ہے کہ ایک بوڑھی عورت اپنے بوڑھے شوہر کے بچے کو جنم دے، لہٰذا انہویں نے تعجب سے ان سے سوال کیا اور انھوں نے صراحت سے کہا: جی ہاں ! یہ بچہ تجھی سے ہوگا، سورہ ذارعات کی آیات میں غور کرنے سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ بعض مفسرین کا اصرار ہے کہ یہاں پر ” ضحکت“ ”ضحک“(بروزن ”درک“) کے مادہ سے عورتوں کے ماہواری کے معنی میں ہے، وہ کہتے ہیں کہ اسی وقت سارا کو دوبارہ ماہواری شروع ہوگئی جب کہ پہلے ختم ہوچکی تھی اور وہ حد یاس تک پہنچ چکی تھیں اور یہ ماہواری بچہ کی پیدائش کے امکان کی نشانی ہے، لہٰذا انھوں نے سارا کو اسحاق کے پیدا ہونے کی بشارت دی تو پھر انھوں نے مسئلہ کو پوری طرح باور کیا، مفسرین نے اس بات سے استدلال کیا ہے کہ لغت عرب میں کہا جاتا ہے :

ضحک الارانب ۔

یعنی ۔ خرگوش کی ماہواری شروع ہوگئی ۔

لیکن مختصر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ احتمال بعید معلوم ہوتا ہے کیوں کہ:

اوّلاً یہ نہیں سنا گیا کہ مادہ لغت عرب میں انسان کے بارے میں استعمال ہوا ہے، اسی لئے راغب نے مفرادات میں جب یہ معنی ذکر کیا ہے تو صراحت سے کہا ہے کہ یہ لفظ ”ضحکت “ کی تفسیر نہیں ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے خیال کیا ہے بلکہ اس لفظ کا معنی ہنسنا ہی ہے لیکن ہنستے ہوئے اسے ماہواری بھی شروع ہوگئی اور یہ دونوں چیزیں آپس میں خلط ملط ہوگئیں ۔

ثانیاً اگر یہ لفظ ایام ماہواری شروع ہونے کے بارے میں ہوتو پھر سارا کو اس کے بعد اسحاق کی بشارت پر تعجب نہیں کرنا چاہیئے تھا کیوں کہ اس حالت میں بچہ جننا کوئی عجیب بات نہیں ہے، حالانکہ اسی آیت کے بعد والے جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے نہ صرف تعجب کیا بلکہ پکار کر کہا کہ وائے ہو مجھ پر کیا ممکن ہے کہ میں بوڑھی عورت بچہ جنوں ؟

بہرحال یہ احتمال آیت کی تفسیر سے بہت بعید نظر آتا ہے ۔

قرآن مزید کہتا ہے:اس کے بعد ہم نے اسے بشارت دی کہ اس سے اسحاق پیدا ہوگا اور اسحاق کے بعد اسحاق سے یعقوب ہوگا( فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ ) ۔

در حقیقت انھیں بیٹے کی بشارت بھی دی گئی اور پوتے کی بھی، ایک اسحاق اور دوسرایعقوب،جو دونوں انبیاء خدا میں سے تھے ۔

ابراہیم کی بیوی سارا جو اپنی اور اپنے شوہر کی زیادہ عمر کی وجہ سے بچے کی پیدائش سے بہت مایوس اورر ناامید ہوچکی تھیں ”بڑے تعجب آمیز لہجے میں پکاری: اے وائے ہو مجھ پر میں بچہ جنوں گی جب کہ میں بوڑھی ہوں اور میرا شوہر بھی بوڑھا ہے، یہ بہت ہی عجیب معاملہ ہے( قَالَتْ یَاوَیْلَتَا اٴَاٴَلِدُ وَاٴَنَا عَجُوزٌ وَهٰذَا بَعْلِی شَیْخًا إِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیبٌ ) ۔

وہ حق بجانب تھی کہ تعجب کرتی کیوں کہ اول تو سورہ ذارعات کی آیہ ۲۹ کے مطابق وہ جوانی میں ہی بانجھ تھی اور ثانیا جس روز اسے یہ خوشخبری دی گئی مفسرین کے بقول اور تورات کے سفر تکوین کے مطابق وہ نوے سال یا اس سے بھی زیادہ عمر کی تھی اور اس کے شوہر ابراہیمعليه‌السلام اس وقت تقریبا سو سال یا اس سے بھی زیادہ عمر کے تھے ۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سارا نے اپنے بڑھاپے سے بھی استدلال کیا اور اپنے شوہر کے بڑھاپے سے بھی حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ عورتوں کو عام طور پر پچاس سال کی عمر سے خون حیض بند ہوجاتا ہے کہ جوکہ بچہ جننے کے قابل نہ ہونے کی نشانی ہے ، یہ عادت منقطع ہوجاتی ہے تو پھر اس کے بعد ان سے بچہ پیدا ہونے کا احتمال بہت کم رہ جاتا ہے لیکن طبی تجربات نشان دہی کرتے ہیں کہ مردوں میں باپ ہونے کے لئے لطفے کی صلاحیت زیادہ عمر میں بھی باقی رہتی ہے لیکن اس سوال کا جواب واضح ہے کہ اگر چہ مردوں میں اس کا امکان باقی رہتا ہے لیکن بہرصورت اس کے بارے میں بھی بہت زیادہ سن میں یہ احتمال کمزور پڑ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سورہ حجر کی آیہ ۵۴ کے مطابق اس بشارت پر خود حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے اپنے بڑھاپے کی وجہ سے تعجب کیا ۔

علاوہ ازیں نفسیاتی طور پر بھی شاید سارا نہیں چاہتی تھی کہ جرم ضعیفی صرف اپنی گردن پر لے لے ۔

بہرحال خدا نے بھیجے ہوؤں نے فوراً اسے اس تعجب سے نکالا اور اس خاندان پر خدا تعالیٰ کی جو پہلے سے بہت زیادہ نعمتیں رہی ہیں اور جس طرح سے خدا انھیں حوادث کے چنگل سے معجزانہ طور پر نجات دلاتا رہا ہے اسے یاد دلایا اور اس سے کہا: کیا فرمان خدا پر تعجب کرتی ہو( قَالُوا اٴَتَعْجَبِینَ مِنْ اٴَمْرِ اللهِ ) ،حالانکہ خدا کی رحمت اور اس کی برکات تم اہل بیت پر تھیں اور ہیں( رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُهُ عَلَیْکُمْ اٴَهْلَ الْبَیْتِ ) ،وہی خدا جس نے ابراہیم کو نمرود جیسے ظالم کے چنگل سے نجات بخشی اور آگ میں صحیح وسالم رکھا، وہ خدا جس نے بہادر بت شکن ابراہیم کو جب کہ اس نے تن تنہا طاغوتوں پر حملہ کیا ہمت، طاقت، استقامت اور عقل ودانائی عطا کی(۳) یہ رحمت وفیضان الٰہی صرف اس روز اور اس دور کے لئے نہ تھا بلکہ اس خاندان پر اسی طرح جاری وساری تھا اور ہے، پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) اور ائمہ اہل بیتعليه‌السلام سے بڑھ کر کیا برکت ہوگی جو کہ اس خاندان میں ظہور پذیر ہوئے ۔

یہاں مفسرین نے استدلال کیا ہے کہ انسان کی بیوی بھی ”اہل بیت“ کے مفہوم میں داخل ہے، اور یہ لفظ اولاد اور ماں باپ کے لئے مخصوص نہیں ہے، یہ استدلال صحیح ہے بلکہ اگر یہ آیت نہ بھی ہوتی تو لفظ ”اہل“ کے مفہوم کے لحاظ سے یہ معنی درست ہے لیکن کوئی مانع نہیں کہ کچھ لوگ اہل بیت پیغمبر کا حصہ ہوں لیکن الگ مکتب ومذہب پر کاربند ہونے کی وجہ سے روحانی اعتبار سے اور معنوی لحاظ سے اہل بیت سے خارج ہوجائیں ۔

( اس کی مزید تشریح انشاء اللہ سورہ احزاب کی آیہ ۳۳ میں آئے گی)

آیت کے آخر میں ۔فرشتوں نے زیادہ تاکید کے لئے کہا: ”وہ ایسا خدا ہے جو حمید اور مجید ہے“( إِنَّهُ حَمِیدٌ مَجِید ) ۔

در اصل پروردگار کی ان دو صفات کا ذکر گزشتہ جملے کی دلیل ہے کیونکہ”حمید“اسے کہتے ہیں جس کے اعمال قابل تعریف ہوں ، خدا کا یہ نام اس کی فراواں نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جو وہ اپنے بندوں پر روا رکھتا ہے کہ جن کے جواب میں وہ اس کی حمد وثنا کرتے ہیں ، نیز ”مجید“ اسے کہتے ہیں جو استحقاق سے پہلے بھی نعمت بخشتا ہے، کیا وہ خدا جو ان صفات کا حامل ہے اس سے عجیب معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کے خاندان کو ایسی نعمت(یعنی آبرومند اولاد) عطافرمائے ۔

____________________

۱۔ تفسیر نمونہ، ج ۷، ص ۱۱۳(اردوترجمہ) پر بھی کچھ توضیحات آئی ہیں جو ایسی آیات سے فہم مقصود کے لئے موثر ہیں ، قارئین کرام! اس سلسلے میں کتاب ”آفریدگارِ جہان“اور ”در جستجوی خدا “ کی طرف رجوع کریں ۔۲۔ اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ، ج۶، ص ۲۱۰، (اردوترجمہ) کی طرف رجوع کریں ۔

۳۔ممکن ہے ”رحمة اللّٰه وبرکاته علیکم “جملہ خریہ ہو اور اس مقام پر یہ بھی امکان ہے کہ یہ دعا ئیہ پہلو رکھتا ہو لیکن پہلا احتمال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔

آیات ۷۴،۷۵،۷۶

۷۴( فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِیمَ الرَّوْعُ وَجَائَتْهُ الْبُشْریٰ یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ ) ۔

۷۵( إِنَّ إِبْرَاهِیمَ لَحَلِیمٌ اٴَوَّاهٌ مُنِیبٌ ) ۔

۷۶( یَاإِبْرَاهِیمُ اٴَعْرِضْ عَنْ هٰذَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَ اٴَمْرُ رَبِّکَ وَإِنَّهُمْ آتِیهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُودٍ ) ۔

ترجمہ

۷۴ ۔جب ابراہیم کا خوف جاتا رہا اور اسے بشارت مل گئی تو ہمارے ساتھ قوم لوط کے بارے میں جھگڑنے لگا ۔

۷۵ ۔کیونکہ ابراہیم بردبار، ہمدرد اور (خدا کی طرف)بازگشت کرنے والا تھا ۔

۷۶ ۔اے ابراہیم! اس سے صرف نظر کرلے کہ تیرے پروردگار کا فرمان آپہنچا اور (خدا کا)عذاب قطعی طور پر ان پر آئے گا اور وہ پلٹ نہیں سکتا ۔

تفسیر

گزشتہ آیات میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ابراہیمعليه‌السلام بہت جلد نووارد مہمانوں کے بارے میں جان گئے کہ وہ خطرناک دشمن نہیں بلکہ پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں اور کود انہی کے بقول ایک ذمہ داری کی انجام دہی کے لئے قوم ِ لوط کی طرف جارہے ہیں ۔

ان کی طرف سے جب ابراہیمعليه‌السلام کی پریشانی ختم ہوگئی اور ساتھ ہی انھیں صاحبِ شرف فرزند اور جانشین کی بشارت مل گئی تو فورا وہ قوم لوط کی فکر میں پڑ گئے جن کی نابودی پر وہ فرستادگان مامور تھے، وہ اس سلسلے میں ان سے جھگڑنے لگے اور بات چیت کرنے لگے( فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِیمَ الرَّوْعُ وَجَائَتْهُ الْبُشْریٰ یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ ) ۔(۱)

ممکن ہے یہاں یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت ابراہیمعليه‌السلام ایک آلودہ گناہ قوم کے بارے میں کیوں گفتگو کے لئے کھڑے ہوگئے اور پروردگار کے اس رسولوں کے ساتھ کہ جو فرمان خدا سے مامور تھے جھگڑنے لگے (یہی وجہ ہے کہ ”یجادلنا“ کی تعبیر استعمال ہوئی یعنی ہم سے مجادلہ کرتے تھے) حالانکہ ایسا ایک پیغمبر کی شان سے اور وہ بھی ابراہیم (علیه السلام)جیسے باعظمت پیغمبر سے بعید ہے ۔

اسی لئے قرآن فوراً بعد والی آیت میں کہتا ہے: ابراہیم بردبار، بہت مہربان،خدا پر توکل کرنے والا اور اس کی طرف بازگشت کرنے والا ہے( إِنَّ إِبْرَاهِیمَ لَحَلِیمٌ اٴَوَّاهٌ مُنِیبٌ ) ۔(۲)

دواصل ان تین لفظوں میں مذکورہ سوال کا جواب دیا گیا ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ ابراہیمعليه‌السلام کے لئے ان صفات کا ذکر نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا مجادلہ اور جھگڑنا ممدوح اور قابل تعریف ہے، یہ اس لئے کہ ابراہیمعليه‌السلام پر یہ واضح نہیں تھا کہ خدا کی طرف سے عذاب کا قطعی فرمان صادر ہوچکا ہے، انھیں احتمال تھا کہ قوم کی نجات کے لئے ابھی امید کی کرن باقی ہے اور ابھی احتمال ہے کہ وہ بیدار ہوجائے لہٰذا ابھی شفاعت کاموقع باقی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ سزا اور عذاب میں تاخیر کے خواستگار ہوئے کیونکہ وہ حلیم، اور بردبار تھے، وہ بہت مہربان بھی تھے اور ہرموقع پر خدا کی طرف رجوع کرنے والے بھی تھے ۔

لہٰذا یہ جو بعض نے کہا کہ اگر ابراہیمعليه‌السلام کا مجادلہ خدا کے ساتھ تھا تو اس کا کوئی معنی نہیں ہے اور اگر اس کے بھیجے ہوئے فرشتوں کے ساتھ تھا تو وہ بھی اپنی طرف سے کوئی کام انجام نہیں دے سکتے تھے اس لئے یہ مجادلہ کسی صورت میں صحیح نہیں ہوسکتا، اس کا جواب یہ ہے کہ ایک قطعی حکم کے مقابلے میں تو بات نہیں ہوسکتی لیکن غیر قطعی فرامین، شرائط وکوائف میں تبدیلی کی سورت میں بدلے جاسکتے ہیں کیونکہ ان میں بازگشت اور رجوع کی راہ بند نہیں ہوتی، دوسرے لفظوں میں ایسے فرامین مشروط ہوتے ہیں ناکہ مطلق ۔

باقی رہا یہ احتمال کہ یہاں مجادلہ مومنین کی نجات کے لئے تھا تو یہاں سورہ عنکبوت کی آیہ ۳۱ ،اور ۳۲ سے اشتباہ ہوا ہے جہاں فرمایا گیا ہے:

( وَلَمَّا جَائَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِیمَ بِالْبُشْریٰ قَالُوا إِنَّا مُهْلِکُو اٴَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ إِنَّ اٴَهْلَهَا کَانُوا ظَالِمِینَ قَالَ إِنَّ فِیهَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ اٴَعْلَمُ بِمَنْ فِیهَا لَنُنَجِّیَنَّهُ وَاٴَهْلَهُ إِلاَّ امْرَاٴَتَهُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ )

جب ہمارے رسول بشارت لے کر ابراہیم کے پاس آئے تو کہا: ہم اس بستی (قوم لوط کا شہر) والوں کو ہلاک کردیں گے کیونکہ اس کے باسی ظالم ہیں ، ابراہیم نے کہا: وہاں تو لوط رہتا ہے، انھوں نے کہا: ہم وہاں رہنے والوں سے بہت آگاہ ہیں ، اسے اور اس کے خاندان کو ہم نجات دیں گے سوائے اس کی بیوی کے کہ جو قوم میں ہی رہے گی ۔

یہ احتمال صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ بعد والی آیت سے کسی طرح مناسبت نہیں رکھتا، جس کے بارے میں ابھی ہم بحث کریں گے ۔

بعد والی آیت میں ہے: رسولوں نے فوراً-ابراہیمعليه‌السلام سے کہا: اے ابراہیم! اس تجویز سے صرفِ نظر کرو اور شفاعت رہنے دو کیونکہ یہ اس کا موقع نہیں ہے( یَاإِبْرَاهِیمُ اٴَعْرِضْ عَنْ هٰذَا ) ، کیونکہ تیرے پروردگار کا حتمی اور یقینی فرمان آپہنچا ہے( إِنَّهُ قَدْ جَاءَ اٴَمْرُ رَبِّکَ ) ،اور خدا کا عذاب بلاکلام ان پر آکررہے گا( وَإِنَّهُمْ آتِیهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُود ) ۔

”ربک“ (تیرا رب) ۔یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ یہ عذاب نہ سرف یہ کہ انتقامی حوالے سے نہیں تھا بلکہ اس کا سرچشمہ پروردگار کی صفتِ ربوبیت ہے جو بندوں کی تربیت وپرورش اور اجتماعِ انسانی کی اصلاح کی نشانی ہے ۔

یہ بعض روایات میں ہے کہ ابراہیمعليه‌السلام نے خدا کے رسولوں سے کہا: اگر قوم میں سو مومن افراد ہوئے تو پھر بھی ہلاک نہیں کرو گے؟ اس پر انھوں نے کہا: نہیں ، ابراہیمعليه‌السلام نے پوچھا: اگر پچاس افراد ہوئے ؟ تو وہ کہنے لگے: نہیں ، پوچھا: اگر تیس ہوئے؟ وہ بولے: نہیں ، کہا اگر دس ہوئے؟ وہ کہنے لگے : نہیں ، پوچھا: اگر پانچ ہوئے؟ انھوں کہا: نہیں ، یہاں تک کہ پوچھا کہ: اگر ایک شخص بھی ان میں صاحب ایمان ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں ، اس پر حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے کہا: یقینا لوط تو ان کے درمیان ہیں ، انھوں نے جواب دیا: ہم خوب جانتے ہیں اسے اور اس کی بیوی کے سوا اس کے خاندان کو ہم نجات دیں گے ۔(۳)

یہ روایت کسی طرح اس بات کی دلیل نہیں کہ مجادلہ سے مراد یہ گفتگو تھی بلکہ یہ گفتگو تو مومنین کے بارے میں تھی، حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے جو گفتگوکفار کے بارے میں کی وہ اس سے جدا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ سورہ عنکبوت کی مذکورہ آیات بھی اس تفسیر کے منافی نہیں ہے (غور کیجئے گا)

____________________

۱۔ ”روع“(بروزن”نوع“)خوف ووحشت کے معنی میں ہے اور ”روع“(بروزن ”نوح“)روح یا لوح کے ایک حصے کے معنی میں ہے جو خوف ووحشت کے نزول کا مرکز ہے (قاموس اللغت کی رجوع کریں ) ۔

۲۔ ”حلیم“،”حلم“ سے ہے، اس کا معنی ایک مقدس ہدف تک پہنچنے کے لئے بردباری اختیار کرنا اور ”آواہ“ اصل میں اس شخص کے معنی میں ہے جو بہت آہیں بھرتا ہو چاہے اپنی ذمہ داریوں کے خوف سے یالوگوں کو گھیرے ہوئے مشکلات ومصائب کی وجہ سے اور ”منیب“ ”انابہ“ کے مادہ سے رجوع اور بازگشت کرنے کے معنی میں ہے ۔

۳۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۲۲۶۔