تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30540
ڈاؤنلوڈ: 2377


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30540 / ڈاؤنلوڈ: 2377
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

آیات ۷۷،۷۸،۷۹،۸۰

۷۷( وَلَمَّا جَائَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِیءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیبٌ ) ۔

۷۸( وَجَائَهُ قَوْمُهُ یُهْرَعُونَ إِلَیْهِ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوا یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ قَالَ یَاقَوْمِ هٰؤُلَاءِ بَنَاتِی هُنَّ اٴَطْهَرُ لَکُمْ فَاتَّقُوا اللهَ وَلَاتُخْزُونِی فِی ضَیْفِی اٴَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِیدٌ ) ۔

۷۹( قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِی بَنَاتِکَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّکَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِیدُ ) ۔

۸۰( قَالَ لَوْ اٴَنَّ لِی بِکُمْ قُوَّةً اٴَوْ آوِی إِلَی رُکْنٍ شَدِیدٍ ) ۔

ترجمہ

۷۷ ۔جب ہمارے رسول لُوط کے پاس آئے تو وہ ان کے آنے سے ناراحت ہوا اور اس کا دل پریشان ہوا اور کہا کہ آج کا دن سخت ہے ۔

۷۸ ۔اور اس کی قوم جلدی سے اس کے پاس آئی اور وہ پہلے سے برے کام انجام دیتی تھی، اس نے کہا: اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمھارے لئے زیادہ پاکیزہ ہیں (ان سے ازدواج کرو اور برے اعمال چھوڑ دو) خدا سے ڈرو اور مجھے میری مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو، کیا تمھارے درمیان جوکوئی مرد رشید نہیں ؟۔

۷۹ ۔وہ کہنے لگے: تو جانتا ہے کہ ہم تیری بیٹیوں کے لئے حق(اور میلان)نہیں رکھتے اور تو اچھی طرح جانتا ہے ہم کیا چاہتے ہیں ۔

۸۰ ۔کہا (افسوس) اے کاش! میں تمھارے مقابلے میں کوئی طاقت رکھتا یا کوئی محکم سہارا اورمدد گار مجھے میسّر ہوتا (تو اس وقت میں دیکھتا کہ تم جیسے برے لوگون سے کیا سلوک کروں ) ۔

قوم لوط کی شرمناک زندگی

سورہ اعراف کی آیات میں قوم لوط کی سرنوشت کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس کی تفسیر ہم وہاں پیش کرچکے ہیں ، یہاں انبیاء اور ان کی قوموں کی داستانوں کا سلسلہ جاری ہے، اسی مناسبت سے گزشتہ کچھ آیات حضرت لوطعليه‌السلام اور ان کی قوم کی سرگزشت سے تعلق رکھتی تھیں ، زیر نظر آیات میں اس گمراہ اور منحرف قوم کی زندگی کے ایک اور حصے سے پردہ اٹھایا گیا ہے تاکہ سارے انسانی معاشرے کی نجات وسعادت کے اصلی مقصد کو ایک اور زاوےے سے پیش کیا جائے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: جب ہمارت رسول لوط کے پاس آئے تو وہ ان کے آنے پر بہت ہی ناراحت اور پریشان ہوئے ، ان کی فکر اور روح مضطرب ہوئی اور غم وانداہ نے انھیں گھیر لیا( وَلَمَّا جَائَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِیءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا ) ۔

اسلامی روایات اور تفاسیر میں آیا ہے کہ حضرت لوطعليه‌السلام اس وقت اپنے کھیت میں کام کررہے تھے اچانک انھوں نے خوبصورت نوجوانوں کو دیکھا جو ان کی طرف آرہے تھے، وہ ان کی ہاں مہمان ہونا چاہتے تھے، اب حضرت لوطعليه‌السلام مہمانوں کی پذیرائی بھی چاہتے تھے لیکن اس حقیقت کی طرف بھی ان کی توجہ تھی کہ ایسے شہر میں جو انحراف جنسی کی آلودگی میں غرق ہے ان خوبصورت نوجوانوں کا آنا طرح طرح کے مسائل کا موجب ہے اور ان کی آبرو ریزی کا بھی احتمال ہے، اس وجہ سے حضرت لوطعليه‌السلام سخت مشکل سے دوچار ہوگئے، یہ مسائل روح فرسا افکار کی صورت میں ان کے دماغ میں ابھرے اور انھوں نے آہستہ آہستہ اپنے آپ سے کہنا شروع کیا: آج بہت سخت اور وحشتناک دن ہے( وَقَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیبٌ ) ۔

”سِیء“ مادہ”ساء“سے ناراحت وپریشان ہونے کے معنی میں ہے ۔

”ذرع“ کو بعض نے دل اور بعض نے خُلق کے معنی میں لیا ہے، اس بنا پر ”ضاق بھم ذرعا“ کا مفہوم ہے: ان کا دل یا خُلق ان کے بِن بلائے مہمانوں کے باعث ان سخت حالات میں بہت پریشان ہوا ۔

لیکن فخررازی نے اپنی تفسیر میں ازہری سے نقل کیاہے کہ ایسے موقع پر ”ذرع“ طاقت کے معنی میں ہے، اور اصل میں اس کا مطلب ہے” چلتے وقت اونٹ کے اگلے قدموں کے درمیان کا فاصلہ“۔

فطری اور طبیعی امر ہے جب اونٹ کی پشت پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لاددیں تو وہ مجبورا اپنے اگلے پاؤں کو زیادہ نزدیک کر کے رکھے گا اور چلتے وقت ان کے درمیان فاصلہ کم ہوگا، اسی مناسبت سے یہ تعبیر تدریجا کسی حادثے کی سنگینی کی وجہ سے ہونے والی ناراحتی اور پریشانی کے معنی میں استعمال ہونے لگی ۔

بعض کتبِ لغت مثلا ”قاموس“ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعبیر ایسے مواقع پر استعمال ہوتی ہے جہاں حادثے کی شدت اتنی ہو کہ انسان کو کوئی چارہ کار سجھائی نہ دے ۔

”عصیب“ ”عصب“ (بروزن ”اسپ“) کے مادہ سے ہے، اس کا معنی ہے کسی چیز کو ایک دوسرے سے باندھنا، سخت ناراحت کرنے والے حوادث چونکہ انسان کو ایک طرح سے لپیٹ دیتے ہیں اور گویا ناراحتی سے باندھ دیتے ہیں لہٰذا اس صورت حال پر ”عصیب“ کا اطلاق ہوتا ہے، نیز عرب گرم اور جلانے والے دن کو بھی ”یوم العصیب“ کہتے ہیں ۔

بہرحال حضرت لوطعليه‌السلام کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کارنہ تھا کہ وہ اپنے نووارد مہمانوں کے گھر لے جاتے لیکن اس بنا ء پر کہ وہ غفلت میں نہ رہیں راستے میں چند مرتبہ ان کے گوش گزار کردیا کہ اس شہر میں شریر اور منحرف لوگ رہتے ہیں تاکہ اگر مہمان ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو صورتِ حال کا اندازہ کرلیں ۔

ایک روایت میں ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ جب تک یہ پیغمبر تین مرتبہ اس قوم کی برائی اور انحراف کی گواہی نہ دے انھیں عذاب نہ دیا جائے (یعنی ۔ یہاں تک کہ ایک گنہگار قوم سے متعلق بھی حکم خدا عدالت کے ایک عادلانہ فیصلے کی روشنی میں انجام پائے) اور ان رسولوں نے راستے میں تین مرتبہ لوط کی گوہی سُن لی ۔(۱)

کئی ایک روایات میں آیا ہے کہ حضرت لوطعليه‌السلام نے مہمانون کو اتنی دیر تک (کھیت میں )ٹھہرائے رکھا کہ رات ہوگئی تاکہ شاید اس طرح اس شریر اور آلودہ قوم کی آنکھ سے بچ کر حفظِ آبرو کے ساتھ ان کی پذیرائی کرسکیں ، لیکن جب ان کا دشمن خود اس کے گھر کے اندر موجود ہوتو پھر کیا کیا جاسکتا، لوطعليه‌السلام کی بیوی کو جو ایک بے ایمان عورت تھی اور اس گنہگار قوم کی مدد کرتی تھی جب اسے ان نوجوانوں اور خوبصورت مہمانوں کے آنے کی خبر ہوئی تو چھت پر چڑھ گئی، پہلے اس نے تالی بجائی پھر آگ روشن کرکے اس کے دھوئیں کے ذریعے ان نے منحرف قوم کے بعض لوگوں کو آگاہ کیا کہ لقمہ ترجال میں پھنس چکا ہے ۔(۲)

یہاں قرآن کہتا ہے کہ وہ قوم حرص اور شوق کے عالم میں اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے بڑی تیزی سے لوطعليه‌السلام کی طرف آئی( وَجَائَهُ قَوْمُهُ یُهْرَعُونَ إِلَیْهِ ) ۔

وہی قوم کہ جس کی زندگی کے صفحات سیاہ اور ننگ وعار سے آلودہ تھے”اور جو پہلے ہی سے برے اور قبیح اعمال انجام دی رہی تھی“( وَمِنْ قَبْلُ کَانُوا یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ )

حضرت لوطعليه‌السلام اس وقت حق رکھتے تھے کہ لرزنے لگیں اور ناراحتی و پریشانی کی شدت سے چیخ وپکار کریں ، انھوں نے کہا: مَیں یہاں تک تیار ہوں کہ اپنی بیٹیاں تمھارے نکاح میں دے دوں ، یہ تمھارے لئے زیادہ پاکیزہ ہیں( قَالَ یَاقَوْمِ هٰؤُلَاءِ بَنَاتِی هُنَّ اٴَطْهَرُ لَکُمْ )

آؤ”اورخدا سے ڈرو، میری عزت وآبرو خاک میں نہ ملاؤ اور میرے مہمانوں کے بارے میں برا ارادہ کرکے مجھے رسوا نہ کرو“( فَاتَّقُوا اللهَ وَلَاتُخْزُونِی فِی ضَیْفِی ) ۔

اے وائے” کیا تم میں کوئی رشید، عقلمد اور شائستہ انسان موجود نہیں ہے “ کہ جو اس ننگین اور شرمناک عمل سے روکے (َلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِیدٌ) ۔

مگر تباہ کار قوم نے نبی خدا حضرت لوطعليه‌السلام کو بڑی بے شرمی سے جواب دیا: ”تو خود اچھی طرح جانتا ہے کہ ہمارا تیری بیٹیوں میں کوئی حق نہیں “( قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِی بَنَاتِکَ مِنْ حَقٍّ ) ”اور یقینا تو جانتا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں “۔(۳) ۔

یہ وہ مقام تھا کہ اس بزرگوار پیغمبر نے اپنے آپ کو ایک محاصرے میں گھِرا ہوا پایا اور انھوں نے ناراحتی وپریشانی کے عالم میں فریاد کی: اے کاش! مجھ میں اتنی طاقت ہوتی کہ مَیں اپنے مہمانوں کا دفاع کرسکتا اور تم جیسے سرپھروں کی سرکوبی کرسکتا( قَالَ لَوْ اٴَنَّ لِی بِکُمْ قُوَّةً ) ، یا کوئی مستحکم سہارا ہوتا، کوئی قوم وقبیلہ میرے پیروکاروں میں سے ہوتا اور میرے کوئی طاقتور ہم پیمان ہوتے کہ جن کی مدد سے تم منحرف لوگوں کا مقابلہ کرتا( اٴَوْ آوِی إِلَی رُکْنٍ شَدِید )

____________________

۱۔مجمع البیان، مزکورہ آیت کے ذیل میں ۔

۲۔المیزان، ج۱۰،ص ۳۶۲۔

۳۔ ”یُهْرَعُونَ“ ”اھراع“ کے مادہ سے دھکیلنے کے معنی میں ہے، گویا سرکش جنسی خواہش اس گمراہ قوم کو بٹی شدت سے حضرت لوطعليه‌السلام کے مہمانوں کی طرف دھکیل رہی تھی ۔

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ حضرت لوطعليه‌السلام کی بیٹیاں :

جس وقت قوم لوط نے حضرت لوطعليه‌السلام کے گھر پر ہجوم کیا اور وہ ان کے مہمانوں پر تجاوز کرنا چاہتے تھے اس وقت آپ نے کہا: میری بیٹیاں تمھارے لئے پاک اور حلال ہیں ، ان سے استفادہ کرو اور گناہ کے گرد چکر نہ لگاؤ۔

اس جملے نے مفسرین کے درمیان بہت سے سوالات اٹھا دئےے ہیں ۔

پہلا یہ کہ بیٹیوں سے مراد کیا لوطعليه‌السلام کی نسبی اور حقیقی بیٹیاں تھیں جب کہ تاریخ کے مطابق ان کی دو یا تین سے زیادہ بیٹیاں نہیں تھیں ، لہٰذا انھوں نے اتنی کثیر جمعیت کے سامنے یہ تجویز کس طرح سے پیش کی، یا یہ کہ مراد تمام قوم اور شہر کی بیٹیاں تھیں کیونکہ معمول یہ ہے کہ قبیلہ کا بزرگ قبیلے کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں ہی قرار دیتا ہے ۔

دوسرا احتمال ضعیف نظر آتا ہے کیونکہ خلافِ ظاہر ہے اور صحیح وہی پہلا احتمال ہے اور حضرت لوطعليه‌السلام کی یہ تجویز اس بنا پر تھی کہ ہجوم کرنے والے بستی کے چند افراد تھے نہ کہ سب کے سب، علاوہ ازیں وہ یہاں انتہائی قربانی کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے کہ مَیں یہاں تک تیار ہوں کہ گناہ کو روکنے اور اپنے مہمانوں کی عزت اور مرتبے کی حفاطت کے لئے اپنی بیٹیاں تمھارے نکاح میں دے دوں کہ شاید اس بے نظیر قربانی پر ان کے سوئے ہوئے ضمیر بیدار ہوجائیں اور وہ راہ حق کی طرف پلٹ آئیں ۔

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت لوطعليه‌السلام کی بیٹیوں جیسی باایمان لڑکیوں کی شادی بے ایمان کفار سے جائز تھی کہ آپ نے یہ تجویز پیش کی ۔

اس سوال کا جواب دو طرح سے دیا گیا ہے :

ایک یہ کہ اسلام کی حضرت لوطعليه‌السلام کے دین میں بھی آغاز میں اس قسم کا ازدواج حرام نہیں تھا ۔

دوسرا یہ کہ حضرت لوطعليه‌السلام کی مراد مشروط ازدواج تھی (یعنی ۔ مشروط باایمان)یعنی یہ میری بیٹیاں ہیں ، آؤ ایمان لے آؤ تاکہ مَیں انھیں تمھارے نکاح میں دے دوں ۔

یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ نبی خدا حضرت لوطعليه‌السلام پر یہ اعتراض کہ انھوں نے اپنی پاکیزہ بیٹیوں کے نکاح کی اوباش لوگوں سے تجویز کیونکر کی، درست نہیں ہے کیونکہ ان کی پیش کش مشروط تھی اور اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انھیں ان کی ہدایت سے کس قدر لگاؤ تھا ۔

۲ ۔ ”اطھر“ کا مفہوم:

توجہ رہے کہ لفظ ”اطھر“ (پاکیزہ تر) کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ان کا وہ برا اور شرمناک عمل پاک تھا اور ازدواج کرنا اس سے زیادہ پاک تھا بلکہ عربی زبان میں اور دیگر زبانوں میں ایسی تعبیر موازنے کے وقت استعمال میں کی جاتی ہے، مثلاً اگر کوئی شخص تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا ہو تو اسے کہتے ہیں :دیر سے پہنچنا بہتر ہے بالکل نہ پہنچے سے ”یا “ مشکوک غذا نہ کھانا بہتر ہے اس سے کہ انسان اپنی جان خطرے میں ڈال دے ۔

ایک روایت میں بھی ہے کہ امامعليه‌السلام نے خلفاء بنی عباس کی طرف سے احساس خطر اور شدتِ تقیہ کے موقع پر فرمایا:واللّٰه افطریوما من شهر رمضان احب الیٰ من ان یضرب عنقی ۔

ماہِ رمضان کا ایک دن کہ جب خلیفہ وقت نے عید کا اعلان کیا ہوا تھا حالانکہ اس روز عید نہیں ، اس دن افطار کروں (اور پھر اس دن کی قضا کروں ) اس سے بہتر ہے کہ مارا جاؤں ۔(۱)

حالانکہ نہ مارا جانا اچھا ہے اور نہ مقصد تک بالکل نہ پہنچنا، لیکن ایسے مقامات پر اس طرح کی تعبیر استعمال کی جاتی ہے ۔

۳ ۔ایک مرد رشید، کی نصیحت:

حضرت لوطعليه‌السلام کا آخرِ کلام میں یہ کہنا کہ ”کیا تمھارے درمیان کوئی مرد رشید نہیں ہے“ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ایک رشید انسان کا کسی قوم یا قبیلے میں ہونا بھی اس کے شرمناک اعمال سے اسے روکنے کے لئے کافی ہوتا ہے، یعنی ایک شخص بھی اگر عاقل اور رشدِ فکر رکھنے والا تمھارے درمیان ہوتا تو تم میرے گھر کی طرف میرے مہمانوں پر تجاوز کرنے کے ارادے سے اور بدنیتی سے ہرگزنہ آتے ۔

اس سے انسانی معاشرے کی رہبری کے لئے ”رجل رشید“ کا اثرواضح ہوتا ہے، یہ وہ حقیقت ہے جس کے بہت سے نمونے ہم نے پوری تاریخِ بشر میں دیکھی ہے ۔

۴ ۔ انحراف کی انتہا:

تعجب کی بات یہ ہے کہ اس گمراہ قوم نے حضرت لوطعليه‌السلام سے کہا: ہم تیری بیٹیوں پر حق نہیں رکھتے یہ امر اس گروہ کی انتہائی انحراف کو ظاہر کرتا ہے یعنی گناہ میں ڈوبا ہوا ایک معاشرہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتا ہے، انھوں نے پاک وپاکیزہ صاحبِ ایمان لڑکیوں سے ازدواج کو بالکل قلمروِ حق میں شمار نہیں کیا لیکن اس کے برعکس جنسی انحراف کو اپنا حق شمار کیا ۔

گناہ کی عادت اور خو ہوجائے تو یہ مرحلہ اس قدر خطرناک مراحل میں سے ہے کہ یہاں پہنچ کر افراد شرمناک ترین اور قبیح ترین اعمال کو اپنا حق شمار کرتے ہیں اور پاکیزہ ترین طریقے سے جنسی تقاضوں کی تسکین کو ناحق سمجھتے ہیں ۔

۵ ۔ ”قوة“ اور ”رکن شدید“ کا مفہوم:

ایک حدیث میں امام صادقعليه‌السلام سے مروی ہے کہ آپعليه‌السلام نے مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں فرمایا:

”قوة“ سے مراد وہی ”قائم“ہے اور ”رکن شدید“ ان کے ۳۱۳ یار وانصار ہیں ۔(۲)

ہوسکتا ہے یہ روایت عجیب معلوم ہوکہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس زمانے میں حضرت لوطعليه‌السلام ایسی شخصیت کی ایسے یاروانصار کے ساتھ ظہور کی آرزو کریں ، لیکن جو روایات آیاتِ قرآن کی تفسیر کے ذیل میں اب تک آئیں ہیں انھوں نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ عام طور پر ایک کلی قانون کو اس کے واضح مصداق کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، دراصل حضرت لوطعليه‌السلام یہ آرزو کرتے ہیں کہ اے کاش! مصمم ارادوں والے، جسمانی اور روحانی طور پر طاقتور کافی تعداد میں مرد ہوتے ان کے مرد وں کی طرح جو قیام مہدیعليه‌السلام کے زمانے میں عالمی حکومت تشکیل دیں گے تو مَیں بھی حکومتِ الٰہی کی تشکیل کے لئے کام کرتا اور ان کی مدد سے فساد وانحراف کے خلاف جہاد کرتا اور اس قسم کے سرپھرے اور بے شرم افراد کی سرکوبی کرتا ۔

____________________

۱۔ وسائل، ج۷،ص ۹۵.

۲۔ تفیسر برہان، ج۲،ص۲۲۸۔

آیات ۸۱،۸۲،۸۳

۸۱( قَالُوا یَالُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَصِلُوا إِلَیْکَ فَاٴَسْرِ بِاٴَهْلِکَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّیْلِ وَلَایَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اٴَحَدٌ إِلاَّ امْرَاٴَتَکَ إِنَّهُ مُصِیبُهَا مَا اٴَصَابَهُمْ إِنَّ مَوْعِدَهُمْ الصُّبْحُ اٴَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیبٍ ) ۔

۸۲( فَلَمَّا جَاءَ اٴَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَاٴَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُودٍ ) ۔

۸۳( مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا هِیَ مِنَ الظَّالِمِینَ بِبَعِیدٍ ) ۔

ترجمہ

۸۱ ۔انھوں نے کہا: اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے رسول ہیں ، وہ ہرگز تجھ پر دسترس حاصل نہیں کرسکیں گے، وسطِ شب اپنے خاندان کے ساتھ (اس شہر سے)چلا جااورتم میں سے کوئی بھی اپنی پشت کی طرف نگاہ نہ کرے، مگر تیری بیوی کہ وہ اسی بلا میں گرفتار ہوگی کہ جس میں لوگ گرفتار ہوں گے، ان کی وعدہ گاہ صبح ہے، کیا صبح نزدیک نہیں ہے ۔

۸۲ ۔جب ہمارا فرمان آپہنچا تو اس (شہر اور علاقے) کو ہم نے تہ وبالا کردیا اور ان پر ہم نے مٹیلے پتھروں کی بارش کی ۔

۸۳ ۔ (وہ پتھر کہ)جو تیرے پروردگار کے ہاں مخصوص تھے اور ایسا ہونا ستمگروں کے لئے بعید نہیں ہے ۔

ظالموں کی زندگی کا اختتام

آخرکار پرورگار کے رسولوں نے حضرت لوطعليه‌السلام کی شدید پریشانی دیکھی اور دیکھا کہ وہ روحانی طور پر کس اضطراب کا شکار ہیں تو انھوں نے اپنے اسرارِ کار سے پردہ اٹھایا اور ان سے ”کہا:اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں ، پریشان نہ ہو، مطمئن رہو کہ وہ ہرگز تجھ پر دسترس حاصل نہیں کرسکیں گے“

( قَالُوا یَالُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَصِلُوا إِلَیْکَ ) ۔

یہ امر جاذبِ توجہ ہے کہ خدا کے فرشتے یہ نہیں کہتے کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ کہتے ہیں کہ اے لوط! یہ تجھ پر دسترس حاصل نہیں کر سکیں گے کہ تجھے کوئی نقصان پہنچے ۔

یہ تعبیر یا تو اس بنا پر ہے کہ اپنے آپ کو لوطعليه‌السلام سے جدا نہیں سمجھتے تھے کیونکہ بہرحال وہ انہی کے مہمان تھے اور ان کی ہتکِ حرمت حضرت لوطعليه‌السلام کی ہتکِ حرمت تھی یا یہ اس بنا پر کہ وہ حضرت لوطعليه‌السلام پر یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ ہم خدا کے فرستادہ ہیں اور ہم تک ان کی دسترس نہ ہونا تو مسلم ہے یہاں تک کہ تُو جو اِن کا ہم نوع ہے تجھ تک بھی یہ نہیں پہنچ سکیں گے ۔

سورہ قمر کی آیہ ۳۷ میں ہے:( وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَنْ ضَیْفِهِ فَطَمَسْنَا اٴَعْیُنَهُمْ )

وہ لوط کے مہمانوں کے بارے میں تجاوز کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کردیں ۔

یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ اس وقت حملہ آور قوم پروردگار کے ارادے سے اپنی بینائی کھو بیٹھی تھی اور حملے کی طاقت نہیں رکھتی تھی، بعض روایات میں بھی ہے کہ ایک فرشتے نے مٹھی بھر مٹی ان کے چہروں پر پھینکی، جس سے وہ نابینا ہوگئے ۔

بہرحال حضرت لوطعليه‌السلام اپنے مہمانوں کے بارے میں ان کی ماموریت کے بارے میں آگاہ ہوئے تو یہ بات اس عظیم پیغمبر کے جلتے ہوئے دل کے لئے ٹھندک کے مانند تھی، ایک دم انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے دل سے گم کا بارِ گراں ختم ہوگیا اور ان کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھی، ایسا ہوا جیسے ایک شدید بیمار کی نظر مسیح پر جاپرے، انھوں نے سُکھ کا سانس لیا اور سمجھ گئے کہ غم واندوہ کا زمانہ ختم ہورہا ہے اور بے شرم حیوان صفت قوم کے چنگل سے نجات پانے کا اور خوشی کا وقت آپہنچا ہے ۔

مہمانوں نے فوراًحضرت لوطعليه‌السلام کو حکم دیا: تم اسی رات تاریکی شب میں اپنے خاندان کو اپنے ساتھ لے لو اور سرزمین سے نکل جاؤ( فَاٴَسْرِ بِاٴَهْلِکَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّیْلِ ) ۔(۱)

لیکن یہ پاپندی ہے کہ ”تم میں سے کوئی شخص پسِ پشت نہ دیکھے “( وَلَایَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اٴَحَدٌ ) ، اس حکم کی خلاف ورزی فقط تمھاری معصیت کار بیوی کرے گی کہ جو تمھاری گنہگار قوم کو پہنچنے والے مصیبت میں گرفتار ہوگی( إِلاَّ امْرَاٴَتَکَ إِنَّهُ مُصِیبُهَا مَا اٴَصَابَهُمْ ) ۔”( وَلَایَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اٴَحَدٌ ) “ کی تفسیر میں مفسرین نے چند احتمال ذکر کئے ہیں :

پہلا یہ کہ کوئی شخص پسِ پشت نہ دیکھے ۔

دوسرا یہ کہ شہر میں مال اور وسائل لے جانے کی فکر نہ کرے بلکہ صرف اپنے آپ کو اس ہلاکت سے نکال لے جائے ۔

تیسرا یہ کہ اس خاندان کے اس چھوٹے سے قافلے میں سے کوئی شخص پیچھے نہ رہ جائے ۔

چوتھے یہ کہ تمھارے نکلنے کے وقت زمین ہلنے لگے گی اور عذاب کے آثار نمایاں ہوجائیں گے لہٰذا اپنے پسِ پشت نگاہ نہ کرنا اورجلدی سے دور نکل جانا ۔

البتہ کوئی مانع نہیں کہ یہ سب احتمالات اس آیت کے مفہوم میں جمع ہو ں ۔(۲)

پہلا یہ کہ ”( وَلَایَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اٴَحَدٌ ) “ سے استثناء ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت لوطعليه‌السلام ان کا خاندان، یہاں تک کہ ان کی بیوی بھی سب شہر سے باہر کی طرف نکلے اور کسی نے بھی رسولوں کے فرمان کے مطابق پس پشت نگاہ نہ کی سوائے حضرت لوطعليه‌السلام کی بیوی کے کیونکہ اسے اپنی قوم سے بڑا لگاؤ اور دلی وابستگی تھی اور وہ ان کے انجام سے پریشان تھی، وہ لحظہ بھر کے لئے رکی اور پسِ پشت دیکھا، ایک روایت کے مطابق شہر پر برسنے والے پتھروں میں سے ایک پتھر اسے لگا اور اسے وہیں ڈھیر کردیا ۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ ”فاسرباھلک“سے استثناء ہے یعنی اپنی بیوی کے سوا تمام خاندان کو ساتھ لے جاؤ، اس صورت میں لوطعليه‌السلام کی بیوی شہر ہی میں رہ گئی تھی، البتہ پہلا احتمال زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔

بالآخر انھوں نے لوطعليه‌السلام سے آخری بات کہی: نزولِ عذاب کا لمحہ اور وعدہ کی تکمیل کا موقع صبح ہے اور صبح کی پہلی شعاع کے ساتھ ہی اس قوم کی زندگی تباہ ہوجائے گی( إِنَّ مَوْعِدَهُمْ الصُّبْحُ ) ۔

ابھی اٹھ کھڑے ہو اور جتنا جلدی ممکن ہو شہر سے نکل جاؤ ”کیا صبح نزدیک نہیں ہے“( اٴَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیبٍ ) ۔

بعض روایات میں ہے کہ جب ملائکہ نے کہا کہ عذاب کے وعدہ پر عملدار آمد صبح کے وقت تو حضرت لوط (علیه السلام)کو جو اس آلودہ قوم سے سخت ناراحت اور پریشان تھے، وہی قوم کہ جس نے اپنے شرمناک اعمال سے ان کا دل مجروح کر رکھا تھا اور ان کی روح کو غم وانداہ سے بھردیا تھا ، فرشتوں سے خواہش کی کہ اب جب کہ انھوں نے نابود ہی ہونا ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ جلدی ایسا ہو لیکن انھوں نے حضرت لوطعليه‌السلام کی دلجوئی اور تسلی کے لئے کہا: کیا صبح نزدیک نہیں ہے؟

آخرکار عذاب کا لمحہ آن پہنچا اور لوط پیغمبرعليه‌السلام کا انتظار ختم ہوا جیسا کہ قرآن کہتا ہے:جس وقت ہمارا فرمان آن پہنچا تو ہم نے اس زمین کو زیر وزبر کردیا اور ان کے سروں پر مٹیلے پتھروں کی پیہم بارش برسائی( فَلَمَّا جَاءَ اٴَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَاٴَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُودٍ ) ۔

”سجیل“ اصل میں فارسی لفظ ہے کہ جو ”سنگ وگِل“ سے لیا گیا ہے، لہٰذا اس کا مطلب ہے ایسی چیز جو پتھر کی طرح بالکل سخت ہو اور ناہی گیلی مٹی ڈھیلی مٹی کی طرح بالکل ان دونوں کے درمیان ہو۔

”منضود“ کا مادہ ”نضد“ ہے اس کا معنی ہے یکے بعد دیگرے اور پے در پے آنا، یعنی پتھروں کی یہ بارش اس قدر تیز اور پے در پے تھی کہ گویا پتھر ایک دوسرے پر سوار تھے ۔

لیکن یہ معمولی پتھر نہ تھے بلکہ تیرے پروردگار کے ہاں معتین اور مخصوص تھے( مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّکَ ) ، البتہ یہ تصور نہ کریں کہ یہ پتھر قوم لوط کے ساتھ ہی مخصوص تھے بلکہ ”یہ کسی ظالم قوم اور جمعیت سے دور نہیں ہیں “( وَمَا هِیَ مِنَ الظَّالِمِینَ بِبَعِیدٍ ) ۔

اس بے راہ رو اور منحرف قوم نے اپنے اوپر بھی ظلم کیا اور اپنے معاشرے پر بھی، وہ اپنی قوم کی تقدیر سے بھی کھیلے اور انسانی ایمان واخلاق کا بھی مذاق اڑایا، جب ان کے ہمدرد رہبر نے داد وفریاد کی تو انھوں نے کان نہ دھرے اورتمسخر اڑایا، اعلیٰ ڈھٹائی ، بے شرمی اور بے حیائی یہاں تک آن پہنچی کہ وہ اپنے رہبر کے مہمانوں کی حرمت وعزت پر تجاوز کے لئے بھی اٹھ کھڑے ہوئے ۔

یہ وہ لوگ تھے کہ جنھوں نے ہر چیز کو الٹ کر رکھ دیا، ان کے شہروں کو بھی الٹ جانا چاہیئے تھا، فقط یہی نہیں کہ ان کے شہر تہ وبالا ہوجاتے بلکہ ان پر پتھروں کی بارش بھی ہونا چاہیئے تھی تاکہ ان کے آخری آثارِ حیات بھی درہم برہم ہوجائیں ، اور وہ ان پتھروں میں دفن ہوجائیں اس طرح سے کہ ان کا نام ونشان اس سرزمین میں نظر نہ آئے صرف وحشتناک، تباہ وبرباد بیابان، خاموش قبرستان اور پتھروں میں دبے ہوئے مردوں کے علاوہ ان میں کچھ باقی نہ رہے ۔

کیا صرف قوم لوط کو یہ سزا ملنی چاہیئے، نہیں ، یقینا ہرگز نہیں بلکہ ہر منحرف گروہ اور ستم پیشہ قوم کے لئے ایسا ہی انجام انتظار میں ہے، کبھی سنگریزوں کی بارش کے نیچے، کبھی آگ اگلتے بموں کے نیچے اور کبھی معاشرے کے لئے تباہ کن اختلافات کے تحت ،خلاصہ یہ کہ ہر ستمگر کو کسی نہ کسی صورت میں ایسے عذاب سے دوچارہونا پڑے گا ۔

____________________

۱۔ ”اسر“ ”اسراء“ کے مادہ سے رات کو چلنے کے معنی میں ہے لہٰذا لفظ”لیل“(رات) اس آیت میں زیادہ تاکید کے لئے اور ”قطع“ رات کی تاریکی کے معنی میں ہے، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ رات کے سیاہ پردوں نے تمام جگہوں کو گھیر رکھا ہے اور یہ غافل قوم خوابیدہ یا مستِ شراب ہوس بازی ہے ، چپکے سے ان میں سے نکل جاؤ۔

۲۔ اس بارے میں کہ”الا امراتک “ میں استثناء کس جملے سے ہے، ،مفسرین نے دو احتمال ذکر کئے ہیں :