تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30554
ڈاؤنلوڈ: 2379


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30554 / ڈاؤنلوڈ: 2379
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ صبح کے وقت نزولِ عذاب کیوں ؟:

مندرجہ بالا آیات میں غور کرنے سے قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نزولِ عذاب کے لئے صبح کا وقت کیوں منتخب کیا گیا، رات کے وقت ہی عذاب کیوں نازل نہیں ہوا ؟

ایسا اس لئے تھا کہ جب حضرت لوطعليه‌السلام کے گھر پر چڑھ آنے والے افراد اندھے ہوگئے اور قوم کے پاس لوٹ کر گئے اور واقعہ بیان کیا تو وہ کچھ غوروفکر کرنے لگے کہ معاملہ کیا ہے، خدا نے صبح تک انھیں مہلت دی کہ شاید بیدار ہوجائیں اور اس کی بارگاہ کی طرف رجوع کریں اور توبہ کریں یا یہ کہ خدا انھیں چاہتا تھا کہ رات کی تاریکی میں ان پر شب خون مارا جائے اسی بنا پرحکم دیا کہ صبح تک مامور عذاب سے ہاتھ روکے رکھیں ۔

تفاسیر میں اس کے بارے میں تقریبا کچھ نہیں لکھا گیا لیکن جو کچھ ہم اوپر ذکر کیا ہے وہ اس سلسلے میں چند قابلِ مطالعہ احتمالات ہیں ۔

۲ ۔ زیر وزبر کیوں کیا گیا:

ہم کہہ چکے ہیں کہ عذاب کی گناہ سے کچھ نہ کچھ مناسبت ہونا چاہیئے، اس قوم نے انحراف جنسی کے ذریعے چونکہ ہرچیز کو الٹ پلٹ کردیا تھا لہٰذا خدا نے بھی ان کے شہروں کو بھی زیر وزبر کردیا، اور چونکہ روایات کے مطابق ان کے منہ سے ہمیشہ رکیک اور گندی گندگی کی بارش ہوتی رہتی تھی لہٰذا خدا نے بھی ان پر پتھروں کی بارش برسائی ۔

۳ ۔پتھروں کی بارش کیوں ؟:

کیا پتھروں کی بارش ان کے شہر زیر وزبر ہونے سے پہلے تھی یا اس کے ساتھ ساتھ یا اس کے بعد، اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے اور آیاتِ الٰہی میں بھی اس سلسلے میں صراحت نہیں ہے کیونکہ یہ جملہ واؤ کے ساتھ عطف ہوا ہے کہ جس ست ترتیب معلوم نہیں ہوتی ۔

لیکن بعض مفسرین مثلا المنار کا مولف معتقد ہے کہ پتھروں کی بارش یا زیر وزبر ہونے سے پہلے تھی یا ساتھ ساتھ اور اس کا فلسفہ یہ تھا کہ وہ افراد جو اِدھر اُدھر گوشہ وکنار میں تھے اور ملبے میں دفن نہیں ہوئے تھے وہ صحیح وسالم نہ رہیں اور وہ بھی اپنے برے اعمال کی سزا تک پہنچ جائیں ۔

وہ روایت کہ جس میں ہے کہ حضرت لوطعليه‌السلام کی بیوی نے آواز سنی تو سر پیچھے کی طرف پھیرا اور اسی عالم میں اسے پتھر آلگااور اسے مارڈالا، نشاندہی کرتی ہے کہ یہ دونوں امور (زیروزبر ہونا اور پتھروں کی بارش) اکٹھے صورت پذیر ہوئے ۔

اگر ان چیزوں سے صرف نظر لیں تو کوئی مانع نہیں کہ تشدیدِ عذاب اور ان کے آثار محو کرنے کے لئے سنگریزے ان کے زیروزبر ہونے کے بعد ہی ان پر نازل ہوئے ہوں اس طرح سے کہ ان کا علاقہ ان کے نیچے چھپ جائے اور اس کے آثار مٹ جائیں ۔

۴ ۔پتھر نشاندارکیوں تھے؟

ہم نے کہا کہ: ” مسومة عند ربک“ کے جملے سے بات واضح ہوتی ہے کہ یہ پتھر خدا کے نزدیک مخصوص اور نشاندار تھے لیکن یہ کس طرح نشاندار تھے، اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے ۔

بعض نے کہا ہے کہ ان پتھروں میں کچھ ایسی علامتیں تھیں جو نشاندہی کرتی تھیں کہ یہ عام پتھر نہیں ہیں بلکہ خصوصیت سے عذابِ الیہی کے لئے نازل ہوئے ہیں تاکہ دوسرے پتھر گرنے سے اشتباہ نہ ہو، اسی لئے بعض دوسروں نے کہا کہ پتھر زمینی پتھروں جیسے نہیں تھے بلکہ وہ ایک طرح کے آسمانی پتھر تھے جو کرّہ زمین کے باہر سے زمین کی طرف بھیجے گئے تھے ۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ علمِ پروردگار میں ان کی کچھ علامتیں تھیں کہ ان میں سے ہر ایک ٹھیک معین شخص اور معین مقام پر جاگرتا تھا، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ خدائی سزا اور عذاب اس قدر حساب شدہ ہے کہ یہ تک معین ہے کہ کس شخص کو کون سے پتھر کے ساتھ سزا دی جائے گی اور اس کا کوئی کام حساب اور ضابطے کے بغیر انجام نہیں پاتا ۔

۵ ۔ہم جنس کی طرف میلان کی حُرمت۔

ہم جنس سے آمیزش، چاہے مردوں میں ہویا عورتوں میں ، اسلام میں بہت بڑے گناہوں میں سے شمار کی گئی ہے اور دونوں کے لئے حدّ شرعی معیّن ہے ۔

مردوں میں ہم جنسی کا گناہ ہو تو فاعل ہو یا مفعول اسلام میں اس کی سزا قتل ہے اور فقہ میں اس اغلام اور قتل کے کئی طریقے بیان ہوئے ہیں ، البتہ اس کی سزا کے لئے ضروری ہے کہ یہ گناہ معتبر اور قطعی ذرائع سے ثابت ہو کہ جو فقہ اسلامی میں اور معصومین کی روایات میں ذکر ہوئے ہیں ، یہاں تک کہ سرف تین مرتبہ اقرار کرنا بھی کافی نہیں ہے کم از کم چار مرتبہ اس عمل کا اقرار ضروری ہے ۔

باقی رہا عورتوں میں ہم جنسی گناہ کی سزا تو اس کے لئے چار مرتبہ اقرار کرنے یا چار عادل گواہوں کی گواہی سے ثابت ہونے کے بعد (فقہ میں مذکورہ شرائط کی روشنی میں )سوتازیانے ہیں ، بعض فقہاء نے کہا ہے کہ شوہردار عورت یہ گناہ کرے تو اس کی حدّ قتل ہے ۔

ان حدود کے اجراء کے لئے دقیق اور نپی تلی شرائط ہیں کہ جو فقہ اسلامی کی کتب میں موجود ہیں ، وہ رویات کہ جو ہم جنسی کے گناہ کی مذمت میں پیشوایانِ اسلام کی طعف سے منقول ہیں اس قدر زیادہ اور ہلا دینے والی ہیں کہ ان کے مطالعے سے ہر شخص محسوس کرتا ہے کہ اس گناہ کی قباہت اور برائی اس قدر ہے کہ بہت کم گناہ اس کے برابر شمار کئے گئے ہیں ۔

ان میں سے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے ایک روایت میں منقول ہے کہ :

لما عمل قوم لوط ما عملوا بکت الارض الیٰ ربها حتیٰ بلغ ودعها الی السماء ،بکت السماء حتیٰ بلغ ودعها العرش، فاوحی اللّٰه الی السماء ان احصبیهم،واوحی الی الارض ان اخفی بهم ۔

جب قوم لوط نے یہ قبیح ومل انجام دیا تو زمین نے اس قدر گریہ وبکا کیا کہ اس کے آنسو آسمان تک پہنچے اور آسمان نے اس قدر گریہ وبکا کیا کہ اس آنسو عرش تک پہنچے، اس وقت اللہ نے آسمان کو وحی کی کہ ان پر پتھر برسا اور زمین پر وحی کی کہ انھیں نیچے کی طرف لے جا ۔(۱)

ظاہر ہے کہ یہاں آنسو بہانا تشبیہ اور کنایہ کے طور پر ہے ۔

ایک اور حدیث امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:

من جامع غلاما جاء یوم القیامة جنبا لا ینقیه ماء الدنیا وغضب اللّٰه علیه ولعنه واعدله جهنم وساء ت مصیرا ثم قال ان الذکر فیهتزالعرش لذلک ۔

جوشخص کسی لڑکے کے ساتھ جنسی ملاپ کرے گا قیامت کے دن ناپاک اور مجنب عرصئہ محشر میں پیش آئے گا یہاں تک کہ عالمِ دنیا کے تمام پانی اسے پاک نہیں کرسکیں گے اور خدا اس پر غضبناک ہوگا اور اسے اپنی رحمت سے دور کرے گا اور اس پر لعنت کرے گا اور جہنم اس کے لئے تیار رکھی گئی ہے اور جہنم کس قدر بری جگہ ہے، اس کے بعد فرمایا:جب مذکر مذکر سے جنسی ملاپ کرے تو عرش خداہلنے لگتا ہے ۔(۲)

ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

جو لوگ یہ کام کرتے کرواتے ہیں وہ سدوم(قوم لوط) کے باقی ماندہ لوگ ہیں ۔

سوال ہوا: وہی شہر سدوم جو زیر وزبر ہوا ۔

فرمایا:ہاں ، وہ چار شہر تھے سدوم، صریم، لانا اور غمیرا (عمورا) ۔(۳)

ایک اور روایت میں حضرت امیر المومنینعليه‌السلام سے منقول ہے کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا:

میں نے پیغمبر سے سنا ہے کہ آپ کہہ رہے تھے:

لعن اللّٰه المتشبهین من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال ۔

خدا کی لعنت ہو ان مَردوں پر جو اپنے آپ کو عورتوں کے مشابہ کرتے ہیں (مَردوں سے جنسی ملاپ کرواتے ہیں ) اور خدا کی لعنت ہو ان عورتوں پر کہ جو اپنے آپ کو مَردوں کی شبیہ بناتی ہیں ۔(۴)

____________________

۱۔تفسیر بریان، ج۲، ص۲۳۱۔

۲۔وسائل الشیعہ، ج۱۴،ص ۲۴۹۔

۳۔وسائل الشیعہ، ج۱۴،ص ۲۵۳۔

۴-وسائل الشیعہ، ج۱۴،ص ۲۵۵۔

ہم جنس پرستی کی حرمت کا فلسفہ

اگرچہ مغربی دنیا میں جہاں جنسی بے راہ روی بیت زیادہ ہے ایسی برائیوں سے نفرت نہیں کی جاتی یہاں تک کہ سننے میں آیا ہے کہ بعض ممالک مثلا برطانیہ میں پارلمیٹ نے اس کام کو انتہائی بے شرمی سے قانونی جواز دے دیا ہے لیکن ان برائیوں کے عام ہونے سے ان کی برائی اور قباحت میں ہرگز کوئی کمی نہیں آتی اور اس کے اخلاقی، نفسیاتی اور اجتماعی مفاسد اپنی جگہ پر موجود ہیں ۔

بعض اوقات مادی مکتب کے بعض پیروکار جو اس قسم کی آلودگیوں میں مبتلا ہیں اپنے عمل کی توجیہ کے لئے کہتے ہیں کہ اس میں طبی نکتہ نظر سے کوئی خرابی نہیں ہے لیکن وہ یہ بات بھول چکے ہیں کہ اصولی طور پر ہر قسم کا جنسی انحراف انسانی وجود کے تمام ڈھانچے پر اثرانداز ہوتا ہے اور اس کا اعتدال درہم برہم کردیتا ہے ۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسانی فطری اور طبعی طور پر اپنے صفِ مخالف کی میلان رکھتا اور یہ میلان انسانی فطرت میں بہت مضبوط جڑیں رکھتا ہے اور انسانی نسل کی بقا کا ضامن ہے، ہر وہ کام جو طبعی میلان سے انحراف کی راہ پر ہو انسان میں ایک قسم کی بیماری اور نفسیاتی انحراف پیدا کرتا ہے ۔

وہ مرد جو جنس مواقف کی طرف میلان رکھتا ہے اور وہ مرد کہ جو اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کرتا ہے ایک کامل مرد نہیں ہے جنسی امور کی کتب میں ہم جنس پرستی ( HOMOSEXUALISM ) کو ایک اہم ترین انحراف قرار دیا ہے ۔

اگر یہ کام جاری رہے تو جنس مخالف کے لئے انسان میں میلان آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے اور جو یہ کام کرواتا ہے ان میں رفتہ رفتہ زنانہ احساسات پیدا ہونے لگتے ہیں اور دونوں بیت زیادہ جنسی ضعف اور اصطلاح کے مطابق سردمزاجی میں گرفتار ہوجاتے ہیں ، اس طرح سے کہ ایک مدت کے بعد وہ طبیعی اور فطری (جنس مخالف سے ملاپ)پر اقدر نہیں رہتے ۔

اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ مرد اور عورت کے جنسی احساسات جہاں ان کے بدن کے آرگنزم میں موثر ہیں وہاں ان کے روحانی اور مخصوص اخلاقی پہلوؤں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ، یہ بات واضح ہے کہ طبیعی اور فطری احساسات سے محروم ہوکر انسان کے جسم اور روح پر کس قدر ضرب پڑتی ہے ، یہاں تک کہ ممکن ہے کہ اس طرح کے انحراف میں مبتلا افراد اس قدر ضعفِ جنسی کا شکار ہوں کہ پھر اولاد پیدا کرنے کی طاقت سے بھی محروم ہوجائیں ۔

اس قسم کے افراد عموماً نفسیاتی طور پر صحیح وسالم نہیں ہوتے اور اپنی ذات میں اپنے آپ سے ایک طرح کی بیگانگی محسوس کرتے ہیں اور جس معاشرے میں رہتے سہتے ہیں اس سے خود کو لاتعلق سا محسوس کرنے لگتے ہیں ، ایسے افراد قوت ِارادی کہ جو ہر قسم کی کامیابی کی شرط ہے آہستہ آہستہ کھو بیٹھتے ہیں اور ایک قسم کی سرگردانی اور پریشانی ان کی روح میں آشیانہ بنالیتی ہے ۔

ایسے افراد اگر جلدی اپنی اصلاح کا ارادہ نہ کریں بلکہ لازمی طور پر جسمانی اور روحانی طبیب سے مدد نہ لیں اور یہ عمل ان کی عادت کی شکل اختیار کرلے تو اس کا ترک کرنا مشکل ہوجائے گا ۔

بہرحال اگر مصمم ارادہ کرلیا جائے تو کسی حالت میں بھی یہ عادت ترک کرنے میں دیر نہیں لگتی، ارادہ بہرصورت قوی ہونا ضروری ہے ۔

بہرکیف نفسیاتی سرگردانی انھیں تدریجاً منشیات اورشراب کی طرف لے جاتی ہے اور وہ مزید اخلاقی انحرافات کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ ایک اوربڑی بدبختی ہے ۔

یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ اسلامی روایات میں مختصر اور پرمعنی عبارات کے ذریعے ان مفاسد کی طرف اشاری کیا گیاہے، ان میں سے ایک روایت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے، کسی نے آپ سے سوال کیا:

لم حرم اللّٰه اللواط ۔

خدانے لواطت کو کیوں حرام کیا ہے؟

آپ نے فرمایا:من اجل انه لوکان اتیان الغلام حلالا لاستغنی الرجال عن النساء وکان فیه قطع النسل وتعطیل الفروج وکان فی اجازة ذلک فساد کثیر ۔

اگر لڑکوں سے ملاپ حلال ہوتا تو مرد عورتوں سے بے نیاز ہوجاتے (اور ان کی طرف مائل نہ رہتے ) اور یہ چیز نسلِ انسانی کے منقطع ہونے کا باعث بنتی اور جنسِ مخالف سے فطری ملاپ کے ختم ہونے کا باعث بنتی اور یہ کام بہت سی اخلاقی اور اجتماعی خرابیوں کا سبب بنتا ہے ۔(۱)

اس نکتے کا ذکر بھی قابل توجہ ہے کہ اسلام ایسے افراد کے لئے جن سزاؤں کا قائل ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ فاعل پر مفعول کی بہن، ماں اور بیٹی سے نکاح حرام ہے یعنی اگر یہ کام ازدواج سے پہلے صورت پذیر ہوتو یہ عورتیں اس کے لئے ابدی طور پر حرام ہیں ۔

جس نکتے کا ہم آخر میں ذکر ضروری سمجھتے ہیں یہ ہے کہ جنسی انحراف کی طرف افراد کے میلان کے بہت سے علل واسباب ہیں ، یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ کا اپنی اولاد سے سلوک یاہم جنس اولاد کی نگرانی نہ کرنا، ان کے طرزِ معاشرت اور ایک ہی جگہ پر سونا وغیرہ بھی ہوسکتا ہے اس آلودگی کا ایک عامل بن جائے ۔

بعض اوقات ممکن ہے کہ اس انحراف سے اےک اور اخلاقی انحراف جنم لے لے ۔

یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ قومِ لوط کے حالات میں ہے کہ ان کے اس گناہ میں آلودہ ہونے کا ایک سبب یہ تھا کہ وہ بخیل اور کنجوس لوگ تھے چونکہ ان کے شہر شام جانے والے قافلوں کے راستے میں پڑتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مہمانوں اور مسافروں کی پذیرائی کریں لہٰذا ابتدا ء میں وہ اس طرح ظاہر کرتے تھے کہ وہ ان پر جنسی تجاوز کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ مہمانوں اور مسافروں کو اپنے سے دور بھگائےں لیکن تدریجاً یہ عمل ان کی عادت بن گیا اور انحراف جنسی کے میلانات آہستہ آہستہ ان کے وجود میں بےدار ہوگئے اور معاملہ یہاں تک جاپہنچا کہ وہ سر سے لے کر پاؤں تک اس میں آلودہ ہوگئے ۔(۲)

یہاں تک کے فضول قسم کا مذاق جو کبھی کبھی لڑکوں یا لڑکیوں کے درمیان اپنے ہم جنسوں کے بارے میں ہوتا ہے بعض اوقات ان انحرفات کی طرف کھینچ لے جانے کا سبب بن جاتا ہے ۔

بہرحال پوری توجہ سے ان امور کا خیال رکھنا چاہیئے اور جو اس گناہ میں آلودہ ہوں انھیں جلدی نجات حاصل کرنا چاہیئے اور اس بارے میں خدا سے توفیق طلب کرنا چاہیئے ۔

____________________

۱۔ وسائل الشیعہ ،ج ۱۴،ص ۲۵۲۔

۲۔ بحار، ج۱۲،ص ۱۴۷۔

قومِ لُوط کا اخلاق

اسلامی روایات وتواریخ میں جنسی انحرفات کے ساتھ قومِ لوط کے برے اور شرمناک اعمال اور گھٹیا کردار بھی بیان ہوا ہے، اس سلسلے میں سفینة البحار میں ہے:

قیل کانت مجالسهم تشتمل علی انواع المناکیر مثل الشتم والسخف والصفح والقمار وضرب المخراق وخذف الاحجار علی من مر بهم وضرب المعازف والمزامیر وکشف العورات ۔

کہا گیا ہے کہ ان کی مجالس اور بیٹھکیں طرح طرح کے منکرات اور برے اعمال سے آلودہ تھیں ، وہ آپس میں رکیک جملوں ، فحش کلامی اور پھبتیوں کا تبادلہ کرتے تھے، ایک دوسرے کی پشت پر مُکّے مارتے تھے طرح طرح کی آلاتِ موسیقی استعمال کرتے تھے اور لوگوں کے سامنے اپنی شرم گاہوں کا ننگا کرتے تھے ۔(۱)

واضح ہے کہ اس قسم کے گندے ماحول میں ہرروز انحراف اور بدی نئی شکل میں رونما ہوتی ہے اور وسیع سے وسیع ہوتی چلی جاتی ہے، ایسے موحول میں اصولی طور پر بُرائی کا تصور ختم ہوجاتا ہے اور لوگ اس طرح سے اس راہ پر چلتے ہیں کہ کوئی کام ان کی نظر میں برا اور قبیح نہیں رہتا، اس سے زیادہ بد بخت وہ قومیں ہیں جو وعلمِ کی پیش رفت کے زمانے میں انھیں راہوں پر گامزن ہیں ، بعض اوقات تو ان کے اعمال اس قدر شرمناک اور رسوا کن ہوتے ہیں کہ قومِ لوط کے اعمال بھو ل جاتے ہیں ۔

____________________

۱۔ سفینة البحار، ص ۵۱۷۔

آیات ۸۴،۸۵،۸۶

۸۴( وَإِلیٰ مَدْیَنَ اٴَخَاهُمْ شُعَیْبًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَهٍ غَیْرُهُ وَلَاتَنقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ إِنِّی اٴَرَاکُمْ بِخَیْرٍ وَإِنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُحِیطٍ ) ۔

۸۵( وَیَاقَوْمِ اٴَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَاتَبْخَسُوا النَّاسَ اٴَشْیَائَهُمْ وَلَاتَعْثَوْا فِی الْاٴَرْضِ مُفْسِدِینَ ) ۔

۸۶( بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ وَمَا اٴَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیظ ) ۔

ترجمہ

۸۴ ۔اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا، اس نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کراو، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں اور پیمانہ اور وازن کم نہ کرو (کم فروشی نہ کرو)مَیں تمہارا خیر خواہ ہوں اور مِیں تمھارے لئے محیط ہوجانے والے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔

۸۵ ۔اے میری قوم! پیمانہ اور وززن عدالت سے پورا کرو اور لوگوں کی اشیاء (اجناس)پر قابو نہ رکھو اور ان کے حق میں کمی نہ کرو اور زمین میں فساد نہ کرو۔

۸۶ ۔خدا نے تمھارے لئے جو حلال سرمایہ باقی رکھا ہے وہ تمھارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو اور میں تمہارا پاسدار (اور تمھیں ایمان پر مجبور کرنے والا)نہیں ہوں ۔

حضرت شعیبعليه‌السلام کی سرزمین۔ مدین

قوم لوط کی عبرت انگیز داستان ختم ہونے پر قومِ شعیب اور اہلِ مدین کی نوبت آئی ہے، یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے توحید کا راستہ چھوڑ دیا تھا اور شرک وبت پرستی کی سنگلاخ زمین میں سرگرداں ہوگئے تھے، یہ لوگ نہ صرف بُتوں کو پوجتے تھے بلکہ درہم ودینار اور اپنے مال وثروت کی بھی پرستش کرتے تھے اور اسی لئے وہ اپنے کاروبار اور بارونق تجارت کو نادرستی ، کم فروشی اور غلط طریقوں سے آلودہ کرتے تھے ۔

ابتدا میں فرمایا گیا ہے: مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا( وَإِلیٰ مَدْیَنَ اٴَخَاهُمْ شُعَیْبًا ) ۔

جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں لفظ ”اخاھم“ (ان کا بھائی) اس بنا پر ہے کہ اپنی قوم سے پیغمبروں کی انتہائی محبت کو بیان کیا جائے، نہ صرف اس بناء پر کہ وہ افراد ان کے گروہ اور قبیلے سے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ ان کے خیرخواہ اور ہمدرد بھائی کی طرح تھے ۔

مدین (بروزن” مَریَم“) حضرت شعیبعليه‌السلام اور ان کے قبیلے کی آبادی کا نام ہے، یہ شہر خلیج عقبہ کے مشرق میں واقع ہے، اس کے لوگ ااولادِ اسماعیل میں سے تھے، مصر، لبنان اور فلسطین سے تجارت کرتے تھے ۔

آج کل شہر مدین کا نام ”معان“ ہے، بعض جغرافیہ دانوں نے خلیج عقبی کے درمیان سے کوہ سینا تک زندگی بسر کرنے والوں پر مدین کے نام کا اطلاق کیا ہے ۔

تورات میں بھی لفظ ”مدیان“ آیا ہے لیکن بعض قبائل کے لئے (البتہ ایک ہی لفظ شہر اور اہل شہر پر عام طور پر استعمال ہوجاتا ہے) ۔(۱)

اس پیغمبر اور ہمدرد ومہربان بھائی نے جیسا کہ تمام انبیاء کا آغازِ دعوت میں طریقہ ہے پہلے انھیں مذہب کے اساسی ترین رکن ”توحید“ کی طرف دعوت دی اور کہا:اے قوم! یکتا ویگانہ خدا کی پرستش کروکہ جس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں( قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَهٍ غَیْرُه ) ، کیونکہ دعوتِ توحید تمام طاغوتوں اور جہالت کی تمام سنتوں کو توڑنے کی دعوت ہے اور اس کے بغیر کسی قسم کی اجتماعی اور اخلاقی اصلاح ممکن نہیں ہے ۔

اس وقت اہل مدین میں ایک اقتصادی خرابی شدید طور پر رائج تھی جس کا سرچشمہ شرک اور بت پرستی کی روح ہے، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:خرید وفروخت کرتے وقت چیزوں کا پیمانہ اور وازن کم نہ کرو( وَلَاتَنقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَان ) ۔

”مکیال“اور ”میزان“ پیمانہ اور ترازو کے معنی میں ہے اور انھیں کرنا اور کم فروشی لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنے کے معنی میں ہے ۔

ان دونوں کے کاموں کا ان کے درمیان رواج نشاندہی کرتا ہے کہ ان کے کاموں میں نظم ونسق، حساب وکتاب اور میزان وترازو نہیں تھا اور ان کے سرمایہ دار معاشرے میں غارت گری، استثماری اور ظلم وستم کا نمونہ تھا ۔

یہ عظیم پیغمبر اس حکم کے بعد فوراً اس کے وہ علل واسباب کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

پہلے کہتے ہیں :اس نصیحت کو قبول کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اچھائیوں کے دروازے تمھارے لئے کھُل جائیں گے، تجارت کو فروغ حاصل ہوگا، چیزوں کی قیمتیں گر جائیں گی، معاشرے کو سُکھ چین نصیب ہوگا، خلاصہ یہ کہ ”مَیں تمہارا خیر خواہ ہوں “ اور مجھے اعتماد ہے کہ یہ نصیحت تمھارے معاشرے کے لئے خیروبرکت کا سرچشمہ بنے گی( إِنِّی اٴَرَاکُمْ بِخَیْر ) ۔

اس جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت شعیبعليه‌السلام کا مقصود یہ تھا کہ” مَیں دیکھ رہا ہوں کہ تم نعمتِ فراواں اور خیرِ کثیر کے حامل ہو “ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ تم پستی کی طرف مائل ہوکر لوگوں کے حقوق ضائع کرو اورشکرِ نعمت کی بجائے کفرانِ نعمت کرو۔

دوسرا یہ کہ اس سے ڈرتا ہوں کہ شرک، کفرانِ نعمت اور کم فروشی پر اصرار کے نتیجے میں تمھیں محیط ہوجانے والے دن کا عذاب نہ آلے( وَإِنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُحِیطٍ ) ۔

یہاں ”محیط“ ”یوم“ کی صفت ہے یعنی ایک گھیر لینے والادن، البتہ گھیر لینے والے دن سے مراد اس دن کا گھیر لینے والاعذاب ہے، ہوسکتا ہے یہ عذابِ آکرت کی طرف اشارہ ہو اور اسی طرح دنیا کے گھیر لینے والے عذاب اور سزا کی بھی نشاندہی ہو۔

لہٰذا تمھیں بھی ایسے کاموں کی ضرورت نہیں اور ان کاموں کے باعث عذابِ خدا بھی تمھاری گھات میں ہے اس لئے جس قدر جلد ممکن ہو اپنی حالت ٹھیک کرلو۔

بعد والی آیت پھر ان کے اقتصادی نظام کے بارے میں تاکید کررہی ہے، اگر پہلے شعیب اپنی قوم کو کم فروشی سے منع کرچکے تھے تو آیت کے اس حصے میں لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی دعوت دی جارہی ہے، فرمایا: اے قوم! پیمانہ اور میزان کو عدل سے پورا کرو( وَیَاقَوْمِ اٴَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْط ) ، قسط وعدل کا یہ قانون اور ہر شخص کو اس کے حق کی ادائیگی کا یہ ضابطہ تمھارے پورے معاشرے پر حکمران ہوناچاہیئے ۔

پھر اس کے آگے بڑھ کر فرمایا: لوگوں کی چیزوں اوراجناس پرعیب نہ رکھو اور ان میں سے کسی چیز کو کم نہ کرو( وَلَاتَبْخَسُوا النَّاسَ اٴَشْیَائَهُم ) ۔

”بخس “(بروزن”نحس“) اصل میں ظلم کرتے ہوئے کم کرنے کے معنی میں ہے اور یہ جو ان زمینوں کو ”بخس“ کہا جاتا ہے کہ جو آبیاری کے بغیر کاشت ہوتی ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ ان کا پانی کم ہے (اور وہ صرف بارش سے استفادہ کرتی ہیں ) یا اس لئے کہ ان کی پیداوار پانی والی زمینوں سے کم ہے ۔

اس جملے کے مفہوم کی وسعت پر نگاہ ڈالیں تو یہ سب اقوام وملل کے لئے تمام انفرادی اور اجتماعی حقوق کے احترام کی دعوت ہے، ”بخس حق“ ہر ماحول اور ہر زمانے میں میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات بلا معاوضہ مدد یا کسی اور صورت میں تعاون اور قرض کے نام پر بھی حقوق غصب کئے جاتے ہیں (جیسا کہ آج کل استعماری اور سامراجی طاقتوں کا طرزِ عمل ہے) ۔

آیت کے آخر میں اس سے بھی آگے بڑھ کر فرمایا گیا ہے: روئے زمین پر فساد نہ کرو( وَلَاتَعْثَوْا فِی الْاٴَرْضِ مُفْسِدِین ) ۔

کم فروشی کے ذریعے فساد اور برائی، لوگوں کے حقوق کو غصب کرنے کا فساد اور حقوق پر تجاوز کا فساد، معاشرتی میزان اور اعتدال کو درہم برہم کرنے کا فساد، اموال اور اشخاص پر عیب لگانے کا فساد۔ خلاصہ یہ کہ لوگوں کی حیثیت، آبرو، ناموس اور جان کے حریم پر تجاوز کرنے کا فساد۔

”لا تعثوا“ ”فساد نہ کرو“ کے معنی میں ہے، اس بناء پر اس کے بعد ”مفسدین“ کا ذکر زیادہ سے زیادہ تاکید کی خاطر ہے ۔

مندرجہ بالا دو آیات سے یہ حقیقت اچھی طرح سے واضح ہوتی ہے کہ توحید کا اعقاد اور آئیڈیالوجی کا معاملہ ایک صحیح وسالم اقتصاد کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے، نیز یہ آیات اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اقتصادی نظام کا درہم برہم ہونا معاشرے کی وسیع تباہی اور فساد کا سرچشمہ ہے ۔

آخر میں انھیں یہ گوش گزار کیا گیا ہے کہ ظلم وستم کے ذریعے اور استعماری ہتھکنڈوں سے بڑھنے والی دولت تمھاری بے نیازی اور استغنا کا سبب نہیں بن سکتی بلکہ حلال طریقے سے حاصل کیا ہوا جو سرمایہ تمھارے پاس باقی رہ جائے چاہے وہ تھوڑا ہی ہو اگر خدا اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ ہو تو بہتر ہے( بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) ۔

” بَقِیَّةُ اللهِ“کی تعبیر اس بنا پر ہے کہ تھوڑا حلال چونکہ خدا کے فرمان کے مطابق ہے لہٰذا ” بَقِیَّةُ اللهِ“ ہے اور یااس لئے ہے کہ حلال کی کمائی نعمتِ الٰہی دوام اور برکات کی بقا کا باعث ہے یا پھر یہ معنوی جزا اور ثواب کی طرف اشارہ ہے کہ جو ابد تک باقی رہتا ہے اگرچہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے فنا ہوجائے گا، سورہ کہف کی آیہ ۴۶ میں ہے:

( وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ اٴَمَلًا )

اور باقی رہنے والی نیکیاں تمھارے رب کے نزدیک انجام کی حیثیت سے بھی بہتر ہے اور امید وآرزو کے لحاظ سے بھی ۔

یہ بھی اسی طرف اشارہ ہے ۔”( إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) “(اگر تم ایمان رکھتے ہو)، یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ یہ حقیقت صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو خدا، اس کی حکمت اور اس کے فرامین کے فلسفہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔

متعدد روایات میں ہے کہ ”بقیة اللہ“ صرف مہدیعليه‌السلام یا بعض دوسرے ائمہ کے وجود کی طرف اشارہ ہے، ان روایات میں سے ایک کتاب ”اکمال الدین“ میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے، آپعليه‌السلام نے فرمایا:

( اول ما ینطق به القائم علیه السلام حین خرج هٰذه الایة ”بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) “ ۔

( ثم یقال:انا بقیةاللّٰه و حجته وخلیفته علیکم فلا یسلم علیه مسلم الا قال علیک یا بقیةاللّٰه فی ارضه ) ۔

پہلی بات جو حضرت مہدیعليه‌السلام اپنے قیام کے بعد کریں گے وہ یہ آیت ہوگی”( بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) “۔اس کے بعد کہیں گے:مَیں بقیةاللہ ہوں اور تم میں اس کی حجت اور خلیفہ ہوں ، لہٰذا اس کے بعد کوئی شخص ایسا نہ ہوگا کہ جو اس طرح سے آپعليه‌السلام پر سلام نہ کرے گا:( السلام علیک یا بقیة اللّٰه فی ارضه ) ۔

یعنی ۔اے خدا کی زمین میں بقیةاللہ! آپ پر سلام ہو۔(۲)

ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ آیاتِ قرآن اگرچہ خاص مواقع کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ان کا مفہوم جامع ہے اور یہ ممکن ہے کہ بعد کے زمانوں میں وہ زیادہ اور وسیع مصداق پر منطبق ہوں ۔

یہ صحیح ہے کہ زیرِ بحث آیت میں قومِ شعیب مخاطب ہے اور”( بَقِیَّةُ اللهِ ) “ سے مراد حلال سرمایہ اور منافع اور جزائے الٰہی ہے لیکن ہر نفع بخش موجود کہ جو خدا تعالی کی طرف سے بشر کے لئے باقی ہے اور خیروسعادت کا باعث ہے اسے ” بَقِیَّةُ اللهِ“ شمار کیا جاسکتا ہے ۔تمام انبیائے الٰہی اور بزرگ ہادی ”( بَقِیَّةُ اللهِ ) “ ہیں ، اسی طرح جو مجاہد سپاہی کامیابی کے بعد میدان جنگ سے پلٹ آتے ہیں وہ بھی ”( بَقِیَّةُ اللهِ ) “ ہیں ۔حضرت مہدی موعود چونکہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے بعد آخری پیشوا اور عظیم ترین انقلابی قائد ہیں ” بَقِیَّةُ اللهِ“ کے مصادیق میں سے ایک روشن ترین مصداق ہیں اور ہر کسی سے بڑھ کر اس لقب کے اہل ہیں خصوصا جب کہ آپعليه‌السلام انبیاء اور ائمہ کے واحد باقی ماندہ ہیں ۔

زیرِ بحث آیت کے آخر میں حضرت شعیبعليه‌السلام کی زبانی بیان کیا گیاہے کہ وہ کہتے ہیں :میری ذمہ داری تو فقط ابلاغ، انذار اور کبردار کرنا ہے ”اور مَیں تمھارے اعمال کا جواب دہ نہیں اور نہ میری یہ ذمہ داری ہے کہ تمھیں یہ راہ اختیار کرنے پر مجبور کروں “تم ہو ، یہ تمھاری راہ ہے اور یہ چاہ ہے( وما انا عليکم بحفیظ )

____________________

۱۔ اعلام قرآن،ص ۵۷۳۔

۲ -تفسیر صافی میں مذکورہ آیت کے ذیل میں یہ روایت نقل ہے ۔