تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30548
ڈاؤنلوڈ: 2379


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30548 / ڈاؤنلوڈ: 2379
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

آیات ۱۰۹،۱۱۰،۱۱۱،۱۱۲

۱۰۹( فَلَاتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ مِمَّا یَعْبُدُ هٰؤُلَاءِ مَا یَعْبُدُونَ إِلاَّ کَمَا یَعْبُدُ آبَاؤُهُمْ مِنْ قَبْلُ وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِیبَهُمْ غَیْرَ مَنقُوصٍ )

۱۰۱۰( وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِیهِ وَلَوْلَاکَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَفِی شَکٍّ مِنْهُ مُرِیبٍ )

۱۱۱( وَإِنَّ کُلًّا لَمَّا لَیُوَفِّیَنَّهُمْ رَبُّکَ اٴَعْمَالَهُمْ إِنَّهُ بِمَا یَعْمَلُونَ خَبِیرٌ )

۱۱۲( فَاسْتَقِمْ کَمَا اٴُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَاتَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ )

ترجمہ

۱۰۹ ۔ جن معبودوں کی پرستش کرتے ہیں تم ان کے بارے میں شک میں نہ پڑنا ۔ یہ تو ان معبودوں کی ایسے ہی پرستش کرتے ہیں جیسے پہلے ان کے آباء واجداد کرتے تھے اور ہم انھیں ان کا حصّہ بے کم وکاست دیں گے ۔

۱۱۰ ۔ ہم نے موسیٰ آسمانی کتاب دی، اس کے بعد ان لوگوں نے اس میں اختلاف کیا اور اگر پہلے سے (ان کی آزمائش اور اتمامِ حجت کے بارے میں ) خدا کا فرمان نہ ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ ہوجاتا ۔

۱۱۱ ۔ اور تیرا پروردگار ہر خص کا عمل بے کم وکاست اسے دے گا وہ ان کی کارگزاری سے آگاہ ہے ۔

۱۱۲ ۔ لہٰذا تمھیں جس طرح حکم ہوا ہے استقامت اختیار کرو اور اسی طرح وہ لوگ بھی جو تیرے ساتھ خدا کی جانب آئے ہیں اور سرکشی نہ کرو کیونکہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے دیکھتا ہے ۔

استقامت کا دامن تھامے رکھو

یہ آیات در حقیقت پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی دلجوئی اور تسلّی کی خاطر اور ان کی مسئولیت وذمہ داری بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہیں ۔

در اصل گزشتہ قوموں کے حالات سے جو اہم نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اور ان کے بعد سچّے مومنین دشمنوں کی کثرت سے خوفزدہ نہ ہوں اور جس بت پرست اور ظالم قوم کا انھیں سامنا ہے اس کی شکست کے بارے میں شک وشبہ میں نہ پڑ یں اور خدائی امداد پر مطمئن رہیں ۔

اسی لئے پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: اس چیز کے بارے میں شک وشبہ میں نہ پڑو کہ جس کی یہ پرستش کرتے ہیں کیونکہ یہ بھی اسی راستے پر گامزن ہیں جس پر گزشتہ لوگوں کا ایک گروہ گیا ہے اور یہ بھی اسی طرح پرستش کرتے ہیں جیسے پہلے ان کے بڑے کیا کرتے تھے لہٰذا ان کا انجام ان سے بہتر نہیں ہوگا( فَلَاتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ مِمَّا یَعْبُدُ هٰؤُلَاءِ مَا یَعْبُدُونَ إِلاَّ کَمَا یَعْبُدُ آبَاؤُهُمْ مِنْ قَبْلُ ) ۔(۱)

لہٰذا بلافاصلہ فرمایا گیا ہے: ”ہم یقیناً سزا اور عذاب میں سے ان کا حصّہ انھیں بے کم وکاست دیں گے“ اور اگر وہ راہِ حق کی طرف پلٹ آئیں تو ہماری جزا میں ان کا حصّہ محفوظ ہے( وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِیبَهُمْ غَیْرَ مَنقُوصٍ )

باوجودیکہ لفظ ”( موفّوهم ) “ خود حق کی مکمل ادائیگی کے معنی میں ہے لفظ ”( غَیْرَ مَنقُوص ) “(بے کم وکاست) بھی اس مسئلے پر تاکید کے لئے ذکر کیا گیا ہے ۔

در اصل یہ آیت اس حقیقت کو مجسّم کرتی ہے کہ گزشتہ سرگزشت ہم نے پڑھی ہے وہ ناول یا افسانہ نہیں تھا نیز وہ انجام گزشتہ لوگوں کے ساتھ مخصوص نہیں تھا بلکہ یہ ایک ابدی اور جاودانی سنت ہے اور تمام انسانوں کے بارے میں ہے، کل آج اور آئندہ کل کے لئے البتہ یہ عذاب اور سزائیں بہت سی گزشتہ قوموں میں ہولناک اور عظیم بلاوں کی صورت میں عمل پذیر ہوئیں لیکن پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے دشمنوں کے لئے ایک اور شکل میں ظاہر ہوئیں ، وہ صورت یہ تھی کہ خدا نے اپنے پیغمبر کو اس قدر قدرت اور طاقت دی کہ آپعليه‌السلام ہٹ دھرم اور بے رحم دشمنوں کو کہ جو کسی طور پر بھی راہِ مستقیم پر آنے کے لئے تیار نہ تھے گروہِ مومنین کے ذریعے درہم وبرہم کرسکیں ۔

دوبارہ پیغمبر اکرم کی تسلّی کے لئے فرمایا گیا ہے: اگر تیری قوم تیری آسمانی کتاب کے بارے میں یعنی قرآن کے متعلق بہانہ جوئی کرتی ہے توپریشان نہ ہو کیونکہ ہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب (تورات) دی تھی، ان کی قوم نے اس میں اختلاف کیا بعض نے قبول کرلیا اوربعض نے انکار کردیا( وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِیهِ ) ۔

اگر تم دیکھتے ہو کہ تمھارے دشمنوں کو سزا دینے کے بارے میں ہم جلدی نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قوم کی تعلیم وتربیت اور ہدایت کے حوالے سے جو مصلحتیں ہیں وہ ایسا تقاضا نہیں کرتیں اور اگر یہ مصلحت نہ ہوتی اور وہ پروگرام جو تیرے پروردگار نے اس سلسلے میں پہلے سے شروع کررکھا ہے تاخیر کا تقاضا نہ کرتا تو لازماً ان کے درمیان فیصلہ ہوجاتا اور سزا انھیں دامنگیر ہوجاتی( وَلَوْلَاکَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ ) ۔ اگرچہ انھیں اس حقیقت کا ابھی تک یقین نہیں آیا اور اس کے بارے میں اسی طرح شک وشبہ میں ہیں ایسا شک وشبہ جس میں سوءِ ظن اور بدبینی کی آمیزش ہے( وَإِنَّهُمْ لَفِی شَکٍّ مِنْهُ مُرِیبٍ ) ۔(۲)

”مُرِیب“ مادہ ”ریب“ سے ایسے شک وشبہ کے معنی میں ہے جو بد بینی، سوء ظن اور مخالف قرائن کی آمیزش رکھتا ہو، اس بناء پر اس لفظ کا مفہوم یہ ہوگا کہ بُت پرست نہ صرف حقانیتِ قرآن کے بارے میں اور تباہ کاروں پر نزولِ عذاب کے معاملے میں شک کرتے ہیں بلکہ مدّعی ہیں کہ اس کے خلاف قرائن بھی ہمارے پاس ہیں ۔

”اس قوم کے لوگ ابھی تک کتاب موسیٰ کے بارے میں تردّد وشک میں ہیں “۔

لیکن بعض مفسّرین نے کہا ہے کہ پہلی ضمیر مشرکینِ مکّہ اور دوسری قرآن (یا ان کی سزا اور عذاب) کی طرف لوٹتی ہے اس طرف توجہ کرتے ہوئے قبل اور بعد کی آیات پیغمبر اسلام کی دلجوئی اور تسلّی کے لئے ہیں ، دوسری تفسیر زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے اور ہم نے بھی متن میں اسی ہی منتخب کیا ہے ۔

”راغب “ نے مفردات میں ”ریب“ کا معنی شک کیا ہے کہ جس سے چہرے سے بعد میں پردہ اٹھ جائے اور وہ یقین میں بدل جائے، اس بناء پر آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ عنقریب تیری دعوت کی حقانیت سے اور اسی طرح تباہ کاروں کی سزا اور عذاب سے پردہ اٹھ جائے گا اور حقیقتِ امر ظاہر ہوگی ۔

مزید تاکید کے لئے اضافہ کیا گیا ہے: تیرا پروردگار ان دو گروہوں (مومنین اور کافرین) میں سے ہر ایک کو ان کے اعمال کو پوری جزا دے گا اور ان کے اعمال بے کم وکاست خود انہی کی تحویل میں دے دے گا( وَإِنَّ کُلًّا لَمَّا لَیُوَفِّیَنَّهُمْ رَبُّکَ اٴَعْمَالَهُمْ ) ۔ خدا کے یہ کام مشکل نہیں کیونکہ وہ ہر چیز سے آگاہ ہے اور جو کچھ بھی انجام دیتے ہیں اس سے باخبر ہے( إِنَّهُ بِمَا یَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ) ۔

یہ بات جاذب نظر ہے کہ فرمایا گیا ہے کہ ہم انھیں ان کے اعمال دے دیں گے اور یہ مسئلہ تجسیمِ اعمال کی طرف ایک اور اشارہ ہے اور اس بات کی طرف نشاندہی ہے کہ جزا اور سزا دراصل انسان کے اعمال ہی کی مختلف شکل ہے جو اس تک پہنچ جاتے ہیں ۔

گزشتہ انبیاء اور قوموں کی سرگزشت اور ان کی کامیابی کی رمزِ بیان کرنے کے بعد اور اسی طرح پیغمبر اسلام کی دلجوں ئی اور ان کے ارادے کی تقویت کے بعد اگلی آیت میں پیغمبر اکرم کو اہم ترین حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: استقامت وپامردی اختیار کرو جیسا کہ تمھیں حکم دیا گیا ہے( فَاسْتَقِمْ ) ۔

تبلیغ وارشاد کی راہ میں استقامت اختیار کرو، جہاد وپیکار کے راستے میں استقامت اختیار کرو، خدائی ذمہ داریوں کی انجام دہی اور تعلیماتِ قرآن کو عملی کل دینے میں استقامت اختیار کرو۔ لیکن یہ استقامت اِسے اور اُسے خوش کرنے کے لئے نہ ہو، نہ ظاہرداری اور ریاکاری کے لئے ہو، نہ غلبے اور تسلط کے لئے، نہ مقام ومنصب اور ثروت ودولت کے لئے ہو اور نہ طاقت واقتدار کے لئے ہو، بلکہ صرف فرمانِ خدا کی خاطر ہو اور جس طرح تجھے حکم دیا گیا اسی طرح ہونا چاہیے( کَمَا اٴُمِرْتَ ) ۔

لیکن یہ حکم صرف تجھ سے مربوط نہیں تمھیں بھی استقامت کرنا چاہیے ”اور وہ تمام لوگ بھی جو شرک سے ایمان کی طرف لوٹے ہیں اور انھوں نے الله کی دعوت کو قبول کیا ہے“( وَمَنْ تَابَ مَعَکَ ) ۔

ایسی استقامت جو افراط وتفریط سے پاک ہو، جو کمی بیشی سے خالی اور جس میں سرکشی نہ ہو( وَلَاتَطْغَوْا ) کیونکہ خدا تمھارے اعمال سے آگاہ اور باخبر ہے اور حرکت وسکون، گفتگو اورپروگران اس سے مخفی نہیں ہے( إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ) ۔

پُر معنی اور روح فرسا آیت

ابن عباس سے مروی ایک مشہور حدیث میں ہے:

ما نزل علیٰ رسول الله (ص) آیة کانت اٴشد علیه ولا اٴشق من هٰذه الآیة،ولذلک قال لاٴصحابه حین قالوا اٴسرع الیک الشبیب یا رسول الله! شیبتی هود والواقعة.

پیغمبرِ خدا پر اس آیت سے زیادہ شدید اور گراں آیت نازل ہوئی، اسی لئے جب اصحاب نے آنحصرت سے پوچھا کہ یا رسول الله! آپ کے بال اتنی جلدی کیوں سفید ہوگئے اور پیری کے آثار اتنی جلدی کیوں نازل ہوگئے تو آپ نے فرمایا: مجھے سورہ واقعہ نے بوڑھا کردیا ہے ۔(۳)

ایک اور روایت میں ہے کہ جس وقت مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم نے فرمایا:

شمروا، شمروا، فما رئی ضاحکاً .

دامن سمیٹ لو، دامن سمیٹ لو (کہ کام اور کوشش کا وقت ہے) اور اس کے بعد آپ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔(۴)

اس کی دلیل بھی واضح ہے کیونکہ اس آیت میں چار اہم احکام موجود ہیں کہ جن میں سے ہر ایک انسان کے کندھے پر بارِگراں کی مانند ہے ۔

ان میں سے سب سے اہم حکم استقامت ہے ”استقامة“ جو ”قیام“ کے مادہ سے لی گئی ہے، اس لحاظ سے کہ انسان حالتِ قیام میں اپنے کام کاج پر زیادہ مسلط ہوتا ہے ۔

استقامت جو طلبِ قیام کے معنی میں ہے یعنی اپنے آپ میں ایسی حالت پیدا کر کہ تجھ میں سُستی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ کیسا سخت اور سنگین حکم ہے ۔

ہمیشہ کامیابیاں حاصل کرنا نسبتاً آسان کام ہے لیکن ان کی نگہداشت کرنا اور انھیں محفوظ رکھنا بہت ہی مشکل ہے وہ بھی ایسے معاشرے میں جو پسماندہ اور عقل ودانش سے دُور ہو، ایسے لوگوں کے مقابلے میں جو ہٹ دھرم اور سخت مزاج ہوں ( کثیراور مصمم ارادے والے دشمنوں کی درمیان) صحیح، سالم، سربلند، باایمان اور آگے بڑھنے والے معاشرے کی تعمیر کے راستے میں استقامت کوئی آسان کام نہیں تھا ۔

دوسرا حکم یہ کہ یہ استقامت ایسی ہو کہ اس کا ہدف صرف خدائی ہو اور اس کا سبب حکمِ خدا ہو اور یہ ہر قسم کے شیطانی وسوسے سے دور رہے یعنی بہت بڑی سیاسی اور اجتماعی طاقت ہاتھ میں لینے کے لئے ہو اور وہ بھی صرف خدا کی خاطر ۔

تیسرا مسئلہ ان لوگوں کی رہبری کا ہے کہ جو راہ حق کی لوٹے ہیں اور انھیں استقامت پر ابھارنا اور آمادہ کرنا ہے، اور

چوتھا حق وعدالت کے راستے میں جہاد کی رہبری کرنا اور ہر قسم کے تجاوز اور سرکشی کو روکنا ہے کیونکہ اکثر ایساہوتا ہے کہ بہت سے افرا مقصد تک پہنچنے کے لئے انتہائی استقامت وپامردی دکھاتے ہیں لیکن عدالت کا لحاظ نہیں رکھتے اور وہ اکثر اوقات طغیان وسرکشی اور حد سے تجاوز کرنے لگتے ہیں ۔

جی ہاں ! یہ تمام احکام جمع ہوگئے اور پیغمبر اکرم پر ذمہداریوں کا ایسا بوجھ لاد دیا کہ آپ نے مسکرانا چھوڑدیا اور آپ کو بوڑھا کردیا ۔

بہرحال یہ حکم صرف کل کے لئے نہیں تھا بلکہ آج کے لئے اور آئندہ کل اور اس کے بعد کے لئے بھی ہے ۔

آج بھی ہم مسلمانوں کی ذمہ داری، خصوصاً رہبرانِ اسلام کی ذمہ داری کا خلاصہ یہی چار جملے ہیں : استقامت، خلوص، مومنین کی رہبری اور سرکشی وتجاوز سے اجتناب، اور ان اصولوں کو پلّے باندھے بغیر ان دشمنوں پر کامیابی ممکن نہیں جنھوں نے داخلی اور خارجی طور پر ہمار احاطہ کررکھا ہ اور جو تمام ثقافتی، فرہنگی، سیاسی، اقتصادی، اجتماعی اور فوجی وسائل ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ ”مِریَة“ (بروزن ”جزیہ“ اور بروزن ”قریَة“بھی آیا ہے) عزم وارادے میں تردّد وشک کے معنی میں ہے ، بعض نے اسے ایسے شک کے معنی میں لیا ہے جس میں قرائنِ تہمت موجود ہوں ، بنیادی طور پر اس کا معنی اوٹنی کے پستان سے دودھ دوھ لینے کے بعد اسے اس امید پر نچوڑنا کہ اگر کچھ دودھ پستان میں باقی ہے تو وہ نکل آئے، یہ کام چونکہ تردّد وشک کے عالم میں انجام پاتا ہے لہٰذا اس لفظ کا اطلاق ہر قسم تردّد وشک پر ہونے لگا ۔

۲۔ اس بارے میں اس آیت میں ”ھم“ کی ضمیرز اور اسی طرح ”منہ“ کی ضمیر کس طرف لوٹتی ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے،بعض کا نظریہ ہے کہ ”ھم“کی ضمی قومِ موسیٰ کی طرف اور ”منہ“کی ضمیر کتاب موسیٰ کی طرف لوٹتی ہے اور آیت کا معنی یوں ہے:

۳۔ تفسیر مجمع البیان: ج۵، ص۱۹۹.

۴ درّا لمنثور: مذکورہ آیت کے ذیل میں

آیت ۱۱۳

۱۱۳( وَلَاتَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمْ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اٴَوْلِیَاءَ ثُمَّ لَاتُنصَرُونَ )

ترجمہ

۱۱۳ ۔ ظالموں پر بھروسہ نہ کرو کہ جو اس بات کا باعث ہوگا کہ آگ تمھیں چھُولے اور اس حالت میں خدا کے سوا تمھارا کوئی ولی وسرپرست نہیں ہوگااور تمھاری مدد نہیں کی جائے گی ۔

ظالموں پر بھروسہ نہ کرو

یہ آیت ایک نہایت بنیادی، اجتماعی، سیاسی، فوجی اور نظریاتی لائحہ عمل بیان کررہی ہے، تمام مسلمانوں کو مخاطب کرکے ان کی ایک قطعی اور حتمی ذمہ داری کے طور پر ان سے کہا گیا ہے: ان لوگوں پر بھروسہ نہ کرو کہ جنھوں نے ظلم وستم کیا ہے، نہ اُن پر اعتماد کرو، نہ ان کا سہارا لو اور نہ پر تمھارا تکیہ ہو( وَلَاتَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا ) ۔ کیونکہ اس کام کے سبب آتشِ جہنم کا عذاب تمھیں دامنگیر ہوجائے( فَتَمَسَّکُمْ النَّارُ ) ۔ اور خدا کے علاوہ تمھارا کوئی ولی، سرپرست اور یاور نہ ہوگا( وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اٴَوْلِیَاءَ ) ۔ اور واضح رہے کہ اس حالت میں کوئی تمھاری مدد نہیں کرے گا( ثُمَّ لَاتُنصَرُونَ ) ۔

چند قابلِ توجہ نکات

۱ ۔ ”رکون“ کا مفہوم:

”رکون“ مادہ ”رُکن“ سے ستون اور ان دیواروں کے معنی میں ہے جو کسی عمارت یا دوسری چیزوں کو کھڑا کئے رکھتی ہیں ، بعد ازاں یہ لفظ کسی پر اعتماد اور تکیہ کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔

مفسرین نے سا آیت کے ذیل میں اس لفظ کے لئے بہت سے معانی ذکر کئے ہیں لیکن وہ سب یا ان میں سے زیادہ تر ایک جامع اور کلی مفہوم کی طرف لوٹتے ہیں مثلاً بعض نے اس کا معنی ”تمایل“ کیا ہے، بعض نے ہمکاری“، بعض نے ”اظہارِ رضایت“ یا ”دوستی“، بعض نے ’خیرخواہی“ اور بعض نے اس کا معنی ”اطاعت“کیا ہے کہ جو سب کے سب تکیہ، اعتماد اور وابستگی کے جامع مفہوم میں جمع ہیں ۔

۲ ۔ کِن امور میں ظالموں سے وابستگی نہیں کرنی چاہیے:

واضح رہے کہ سب سے پہلے تو ان ظلم وستم میں شرکت نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی ایسے کام میں ان سے مدد لینا چاہیے ۔ اس کے بعد ان چیزوں میں ان سے تعلق نہیں رکھنا چاہیے جو اسلامی معاشرے کے ضعف وتوانائی کا باعث ہو، استقلال اور خود کفالت کھودینے کا سبب ہو اور ایک عضوِ ناتواں اور وابستہ میں تبدیل کردینے کا ذریعہ ہو، ایسے امور میں ان پر اعتماد اور بھروسہ نہیں کرنا کرنا چاہیے کیونکہ ایسے سہاروں کا نتیجہ اسلامی معاشروں کے لئے شکست، ناکامی اور کمزوری کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا ۔

باقی رہا مثال کے طور پر مسلمانوں کا غیر مسلمان معاشروں سے تجارتی یا علمی روابط ایس بنیاد پر رکھنا کہ اسلامی معاشروں کے مفادات، استقلال اور ثبات محفوظ رہیں تو ایسے روابط ظالمین سے ”رکون“ اور وابستگی کے مفہوم میں داخل نہیں اور نہ ہی اسلام کی نظر میں ایسی کوئی چیز ممنوع ہے، خود پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اور بعد کے ادوار میں ہمیشہ ایسے روابط موجود رہے ہیں ۔

۳ ۔ ظالموں سے وابستگی کی حرمت کا فلسفہ:

ظالموں پر تکیہ کرنا ان کی تقویت کا باعث ہے اور ان کے تقویت معاشروں میں ظلم، فساد اور تباہی پھیلانے کا باعث ہے ۔

احکامِ اسلامی میں ہے کہ جب تک انسان مجبور نہ ہو (بلکہ جب تک اوقات مجبور بھی ہو تب بھی) ظالم کے مقرر کردہ قاضی کے ذریعے اپنا حق حاصل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسے جج اور ایسی حکومت کی طرف احقاقِ حق کے رجوع کرنے کا مفہوم ضمنی طور پر اس حکومت کو تسلیم کرنا اور اس سے تقویت پہنچانا ہے اور اس کا کام ضرر بعض اوقات اپنا حق کھودینے سے زیادہ ہوتا ہے ۔

ظالموں پر بھروسہ تدریجاً معاشرے کی ثقافت وتمدن کے فکری پہلووں پر اثرانداز ہوتا ہے، رفتہ رفتہ ظلم اور گناہ کی برائی اور قباحت کا تصور ختم کردیتا ہے اور لوگوں کو ظلم کرنے اور ظالم بننے کی ترغیب دیتا ہے ۔

اصولی طور پر دوسروں پر تکیہ کرنا کہ جو وابستگی کی صورت میں ہو اس کا نتیجہ سوائے بدبختی کے کچھ نہیں چہ جائیکہ ظالم اور ستمگر پر ایسا بھروسہ کیا جائے ۔

ایک آگے بڑھنے والا، سربلند اور قوی معاشرہ وہ ہے جو اپنے پاوں پر کھڑا ہو جیسا کہ سورہ فتح کی آیہ ۲۹ میں قرآن ایک خوبصورمثال میں فرماتا ہے:( فَاسْتَویٰ عَلیٰ سُوْتِهِ ) ۔

سرسبز پوردے کی طرح کہ جو اپنے پاوں پر کھڑا ہو اور زندہ وسرفراز رہنے کے لئے کسی دوسری چیز سے وابستگی رکھتا ہو۔

ایک بااستقلال اور آزاد معارہ وہ ہے جو ہر لحاظ سے خود کفیل اور خود کفایت ہو اور دوسروں سے اس کا ارتباط برابر کے منافع کی بنیاد پر ہو، نہ کہ ایک ضعیف کے طاقتور پر بھروسہ سے اور انحصار کی بنیاد پر، یہ وابستگی چاہےفکری اور ثقافتی ہو یا فوجی، اقتصادی اور سیاسی ہو، ورنہ اس ما نتیجہ غلامی اور استعمار کے اور کچھ اور برآمد نہیں ہوگا اور اگر یہ وابستگی ظالموں کے ساتھ ہو تو اس کانتیجہ ان کے ظلم سے وابستگی اور ان کے پروگراموں میں شرکت ہوگا ۔

البتہ مندرجہ بالا آیت کا حکم معاشرے کے روابط کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دو افراد کے ایک دوسرے ے رابطے کے بارے میں بھی ہے یہاں تک کہ ایک آزاد با ایمان شخص کو کبھی بھی ایک ظالم وستمگر کا سہارا نہیں لینا چاہیے ورنہ وہ اپنا استقلال گنوا بیٹھے گا، اس کے دائرہ ظلم وستم کی طرف کھینچ جائے گا اور فساد وبے دادگری کی تقویت ووسعت کا باعث بھی ہوگا ۔

۴ ۔”( الذین ظلموا ) “ سے مراد کون لوگ ہیں ؟

اس سلسلے میں مفسرین نے بہت سے احتمالات ذکر کئے ہیں ، بعض نے ان سے مشرکین مراد لئے ہیں لیکن جیسا کہ بعض دیگر مفسرین نے کہا ہے کہ انھیں مشرکین میں منحصر سمجھنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اگر نزولِ آیت کے وقت ظالمین کا مصداق مشرک تھے تب بھی منحصر کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، جیساکہ روایات میں اس لفظ کی جو مشرکین کے ساتھ تفسیر کی گئی ہے وہ بھی انحصار کی دلیل نہیں بنتی، کیونکہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ایسی روایات واضح اور آشکار مصداق بیان کرتی ہیں ۔

اس بناء پر وہ تمام اشخاص جنھوں نے بندگانِ خدا پر ظلم اور فساد کے لئے ہاتھ دراز کئے ہیں ، انھیں اپنا غلام بنایا ہے اور ان کی قوت واستعداد سے اپنے لئے فائدہ اٹھایا ہے ”الذین ظلموا“کے عام مفہوم میں داخل ہیں اور آیت کے مصادیق میں سے ہیں لیکن مسلّم ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں کسی چھوٹے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں اور کبھی اس عنوان کے مصداق تھے اس کے مفہوم میں داخل نہیں ہیں ورنہ اس صورت میں تو بہت کم افراد ہی اس سے مستثنیٰ ہوئے ہوں گے اور پھر کسی شخص پر اعتماد اور بھروسہ کرنا جائز نہیں رہے گا ہاں البتہ اگر ”رکون“ کا معنی ظلم وستم کے پہلو پر اعتماد اور بھروسہ کیا جائے تو پھر وہ اشخاص بھی اس کے مفہوم میں شامل ہوں گے جنھوں نے ایک ہی مرتبہ ظلم میں ہاتھ آلودہ کئے ہیں ۔

۵ ۔ ایک اشکال اور اس کی وضاحت:

بعض اہل سنّت مفسّرین نے یہاں ایک اشکال پیش کیا ہے جس کا جواب اُن کے مبانی رُو سے ہرگز آسان نہیں ہے اور وہ یہ کہ ایک طرف ان کی روایات میں آیا ہے کہ ضروری ہے سلطانِ وقت کو ”اولوالامر“ سمجھتے ہوئے اس کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے چاہے وہ کوئی بھی ہو مثلاً انھوں نے پیغمبر اکرم سے ایک حدیث میں یوں بیان کیا ہے:

تم پر لازم ہے کہ سلطان اور بادشاہ کی اطاعت کرو۔”( وان اٴخذ مالک وضرب ظهرک )

(اگرچہ وہ تمھارا مال لے لے اور تمھاری پشت پر تازیانے لگائے) ۔

اسی طرح اور روایات بھی ہیں کہ جو وسیع معنی کے لحاظ سے اطاعتِ سلطان کی تاکید کرتی ہیں ، جبکہ دوسری طرف مندرجہ بالا آیت کہتی ہے کہ ظالم افراد پر تکیہ واعتماد نہ کرو۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان دونوں احکام کو ختم کریں اور یہ کہ بادشاہ کی اطاعت اس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ عصیان ونافرمانی کی راہ پر نہ چلے اور کفر کے راستے پر قدم نہ رکھے ۔

لیکن ان روایات کا لب ولہجہ اطاعتِ سلطان کے لئے ہرگز اس استثناء سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔

بہرصورت ہماری فکر یہ ہے کہ جس طرح مکتبِ اہلِ بیتعليه‌السلام میں آیا ہے کہ صرف اس حاکم اور متولی امورِ مسلمین کی اطاعت ضروری ہے جو عالم وعادل ہو اور جو عام مفہوم کے اعتبار سے پیغمبر اکرم اور امام معصومعليه‌السلام کا جانشین شمار ہوسکے، نیز اگر بنی امیہ اور بنی عباس کے بادشاہوں نے اپنے مفاد کے لئے اس سلسلے میں کچھ حدیثیں گھڑ لی ہیں تو وہ کسی طرح بھی ہمارے مکتب کے اصول اور ان تعلیمات کے ہم آہنگ نہیں ہیں جو قرآن سے لی گئی ہیں ، ایسی روایات اگر قابل تخصیص ہیں تو انھیں تخصیص دی جائے ورنہ انھیں بالکل چھوڑدیا جائے کیونکہ جو روایت کتاب الله کے خلاف ہو وہ مردود ہے، قرآن کی صراحت ہے کہ مومنین کا امام اور پیشوا ظالم نہیں ہوسکتا اور زیرِ بحث آیت بھی صراحت کے ساتھ کہتی ہے کہ ظالموں کا سہارا نہ لو اور ان پر اعتماد نہ کرو، یا پھر ایسی روایات کو ضرورت اور مجبوری کی حالت کے ساتھ مخصوص قرار دیا جائے ۔