تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30545
ڈاؤنلوڈ: 2379


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30545 / ڈاؤنلوڈ: 2379
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

آیات ۱۱۴،۱۱۵

۱۱۴( وَاٴَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفِی النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذٰلِکَ ذِکْریٰ لِلذَّاکِرِینَ )

۱۱۵( وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللهَ لَایُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

ترجمہ

۱۱۴ ۔ نماز کو دن کے دو اطراف اور ابتدائے رات میں بپا کرو کیونکہ نیکیاں برائیوں (اور ان کے آثار) کو برطرف کردیتی ہیں ، یہ تذکرہ ہے ان لوگوں کے لئے جو اہلِ ذکر ہیں ۔

۱۱۵ ۔ اور صبر کرو کہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔

نماز اور صبر

ان آیات میں اسلامی احکام میں سے دو اہم ترین نشاندہی کی گئی ہے جو در حقیقت روحِ ایمان اور رکنِ اسلام ہیں ۔

پہلے نماز کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: نماز کو دن کے دو اطراف میں اور اوائل شب میں قائم کرو( وَاٴَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفِی النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ ) ۔

( طَرَفِی النَّهَارِ ) “ (یعنی دن کے دوطرف)، ظاہراً یہ تعبیر صبح اور مغرب کی نماز کے بارے میں ہے جو دن کے دو اطراف میں قرار پائی ہیں اور ”زُلف“ کہ جو ”زُلفہ“ کی جمع ہے نزدیکی کے معنی میں رات کے ابتدائی حصّوں پر ہے کہ جو دن کے قریب بولا جاتا ہے اس بناء پر بہ لفظ نمازِ عشاء پر منطبق ہوگا، روایاتِ اہلِ بیتعليه‌السلام میں بھی یہی تفسیر وارد ہوئی ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں تین نمازوں (فجر، مغرب اور عشاء) کی طرف اشارہ ہے ۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پنجگانہ نمازوں میں سے صرف تین نمازوں فجر، مغرب اور عشاء کا ذکر کیوں ہوا ہے اور ظہر ومصر کی نمازوں کے بارے میں گفتگو نہیں کی گئی ہے؟

اس سوال کا جواب پیچیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض مفسّرین نے ”طَرَفِی النَّھَارِ“ کا مفہوم اس قدر وسیع لیا ہے کہ اس میں فجر،ظہر، عصر اور مغرب سب کو شامل کرلیا ہے اور ”زلفاً من اللّیل“ کی تعبیر کہ جو نماز عشاء کے لئے ہے اس کے ساتھ پانچ نمازوں کی گنتی پوری کرلی ہے ۔

لیکن انصاف یہ ہے کہ ”طرفی النہار“ کے الفاظ ایسی تفسیر کی تاب نہیں رکھتے خصوصاً اس طرف توجہ رکھتے ہوئے کہ صدر اوّل کے مسلمان پابندی سے نماز ظہر کو اول وقت میں اور نماز عصر کو درمیانے وقت میں (زوال اور غروب آفتاب کے درمیان) انجام دیتے تھے ۔

یہاں جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ آیاتِ قرآن میں پانچوں نمازوں کا ذکر ہوا ہے مثلاً:

( اٴَقِمْ الصَّلَاةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلیٰ غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ) (بنی اسرائیل/ ۷۸)

کبھی تین نمازوں کا ذکر ہے جیسے محلِ بحث آیت اور کبھی صرف ایک نماز کا تذکرہ ہے، مثلاً:

( حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَی وَقُومُوا لِلّٰهِ قَانِتِینَ ) (البقرہ/ ۲۳۸)

اس بناء پر ضروری نہیں کہ ہر موقع پر تمام پانچ نمازوں کا ایک ساتھ ذکر ہو۔ خصوصاًیہ کہ کبھی مناسبات کا تقاضا ہوتاہے کہ صرف نماز ظہر (صلوٰة الوسطیٰ) کی اہمیت کے پیش نظر اسی کا ذکر کیا جائے اور کبھی فجر، مغرب، اور عشاء ہی کے ذکر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کبھی خستگی اور تکان کی وجہ سے یا نیند کی بناء پر ہوسکتا ہے یہ نمازیں معرضِ فراموشی میں چلی جائیں ۔

اس کے بعد روزانہ نماز نمازوں کے لئے خصوصاً اور تمام عبادات، اطاعات اور حسنات کے لئے عموماً فرمایا گیا ہے: نیکیاں برائیوں کو برطرف کردیتی ہیں( إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئَاتِ ) اور یہ ان کے لئے تذکر اور یادہانی ہے جو توجہ رکھتے ہیں( ذٰلِکَ ذِکْریٰ لِلذَّاکِرِینَ ) ۔

یہ آیت قرآن کی دیگر آیات کی طرح بتاتی ہیں کہ نیک اعمال کی تاثیر یہ ہے کہ وہ بُرے اعمال کے اثرات کو برطرف کردیتے ہیں ، سورہ نساء کی آیت ۳۱ میں ہے:( إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ )

”اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کرو تو ہم تمھارے چھوٹے گناہوں کو چھپادیں گے“۔

اور سورہ عنکبوت کی آیہ ۷ میں ہے:( وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّئَاتِهِمْ )

”وہ لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال انجام دیئے ہم ان کے گناہوں کو چھپادیں گے ۔

اسی طرح اطاعت اور نیک اعمال کے ذریعے گناہوں کے اثرات زائل ہونا ثابت کیا گیا ہے ۔

نفسیاتی طور پر بھی اس میں شک نہیں کہ ہر گناہ اور بُر عمل انسانی روح میں ایک طرح کی تاریکی پیدا کردیتا ہے اور اگر اسے جاری رکھا جائے تو اس کے پیہم اور تہ بہ تہ اثرات انسان کو ایک وحشتناک صورت میں مسخ کردیتے ہیں ۔

لیکن نیک اعمال کہ جن کا سرچشمہ رضائے الٰہی ہوتا ہے روحِ انسانی کو ایک لطافت بخشتے ہیں کہ جو اس سے آثار گناہ دھودیتے ہیں اور ان تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیتے ہیں ۔

( إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئَاتِ ) “ چونکہ نماز کے حکم کے بعد فوراً ٰآیا ہے اس لئے اس کا ایک واضح مصداق روزانہ نماز ہے اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ روایات میں اس کی تفسیر صرف روزانہ کی نماز ہوئی ہے تو وہ اس کے منحصر ہونے کی دلیل نہیں بلکہ جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے یہ ایک واضح قطعی مصداق بیان کیا گیا ہے ۔

نماز کی انتہائی اہمیت

متعدد روایات جو مندرجہ بالا آیت کے ذیل میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور آئمہ معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں ان میں کچھ ایسی تعبیرات نظر آتی ہیں جو مکتبِ اسلام میں نماز کی اہمیت سے پردہ اٹھاتی ہیں ۔

ابوعثمان کہتا ہے: مَیں سلمان فارسی کے ساتھ ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا، انھوں نے درخت کی ایک خشک شاخ پکڑکر ہلائی یہاں تک کہ اس کے سارے پتے جھڑگئے، اس کے بعد میری طرف رخ کرکے کہا: تُو نے پوچھا نہیں کہ مَیں نے یہ کام کیوں کیا ہے؟ میں نے کہا: بتائیے آپ کی اس کام سے کیا مراد تھی؟ انھوں نے کہا: یہی کام ایک مرتبہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے انجام دیا تھا، جب میں ان کی خدمت میں ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا، اس کے بعد رسول نے مجھ سے کہا: سلمان پوچھتے نہیں ہو کہ میں نے ایسا کیوں کیا، میں نے عرض کیا: فرمائیے آپ نے کیاس کیوں کیا تو آپ نے فرمایا:انّ المسلم اذا توضاٴ فاٴحسن الوضوء ثمّ صلی الصلوات الخمس تحاتت خطایاه کما تحات هذا الورق ثمّ قرء هذه الآیة وَاٴَقِمْ الصَّلَاةَ ....

جب مسلمان وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر وہ پنجگانہ نماز ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑجاتے ہیں جیسا کہ اس شاخ کے پتے جھڑگئے ہیں ، اس کے بعد آپ نے یہ آیت ”( وَاٴَقِمِ الصَّلَاةَ ) ....“کی تلاوت فرمائی ۔(۱)

ایک اور حدیث رسول الله کے صحابی ابی امامہ سے مروی ہے، ابی امامہ کہتے ہیں : ایک دن میں مسجد میں رسول الله کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا، اس نے عرض کی: اے الله کے رسول! میں نے ایک گناہ کیا ہے کہ جس کی وجہ سے مجھ پر حد لازم ہوجاتی ہے، وہ حد مجھ پر جاری کیجئے، فرمایا: کیا تُو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟ اُس نے عرض کی: جی ہاں یا رسول الله! فرمایا: خدا نے تیرا گناہ یا تیری حد بخش دی ہے ۔(۲)

نیز حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے، آپ فرماتے ہیں : مَیں رسولِ خدا کے ساتھ مسجد میں نماز کے انتظار میں تھا کہ ایک شخص کھڑا ہوگیا، اس نے عرض کیا: اے الله کے رسول! مَیں نے ایک گناہ کیا ہے، رسول الله نے اس سے منھ پھیر لیا، جب نماز ختم ہوئی تو وہی شخص پھر کھڑا ہوا اور پھلی بات دُہرائی، رسول خدا نے فرمایا: کیا تُونے ہمارے ساتھ نماز یہ نماز ادا کی ہے؟ اور اچھی طرح وضو نہیں کیا؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں ، آپ نے فرمایا: یہ تیرے گناہوں کا کفارہ ہے ۔(۳)

نیز حضرت علی علیہ السلام ہی کے واسطے سے پیغمبر اکرم سے منقول ہے، آپ نے فرمایا:

انّما منزلة الصلوٰات الخمس لاٴمِتی کنهر جار علیٰ باب اٴحدکم فمایظن اٴحدکم لو کان فی جسده درن ثمّ اغتسل فی ذٰلک النهر خمس مرّات لو کان یبقی فی جسده درن فکذلک والله الصلوٰت الخمس لاٴمتی .

پنجگانہ نماز میری امت کے لئے پانی کی جاری نہر کی طرح ہے کہ جو کسی شخص کے گھر کے دروازے سے گزرتی ہے، کیا تم گمان کرتے ہو کہ اگر اس کے بدن پر میل کچیل ہو اور پھر وہ پانچ مرتبہ روزانہ اس نہر میں غسل کرے تو پھر بھی کوئی میل کچیل اس کے بدن پر رہ جائے گی؟ (یقیناً نہیں ) خدا کی قسم اسی طرح میری امت کے لئے پنجگانہ نماز ہے ۔(۴)

بہرحال اس میں شک وشبہ نہیں کہ جب نماز اپنی شرائط کے انجام پائے تو انسان کو معنویت اور روحانیت کے ایک ایسے عالم میں لے جاتی ہے کہ اس کے ایمانی رشتے خدا کے ساتھ ایسے مستحکم کردیتی ہے کہ آلودگیوں اور گناہوں کے آثار اس کے قلب وجان سے دُھل جاتے ہیں ۔

نماز انسان کا گناہ کے مقابلے میں بیمہ کردیتی ہے اور گناہ کا زنگ آئینہ دل سے صاف کردیتی ہے ۔

نماز ملکاتِ عالی کے پودے انسانی روح کی گہرائیوں میں اُگاتی ہے، نماز ارادے کو قوی، دل کو پاک اور روح کو طاہر کرتی ہے اور اگر نماز جسمِ بے روح کی صورت میں نہ ہو تو تربیت کا اعلیٰ مکتب ہے ۔

قرآن کی نہایت امید افزا آیت

زیرِ بحث آیت کی تفسیر میں حضرت علی علیہ السلام سے ایک عمدہ اور جاذبِ نظر حدیث منقول ہے، جو اس طرح ہے:ایک دن آپ نے لوگوں کی طرف رخِ انور کرکے فرمایا: تمھاری نظرمیں قرآن کی کونسی آیت زیادہ امید بخش ہے؟

بعض نے کہا:( إِنَّ اللهَ لَایَغْفِرُ اٴَنْ یُشْرَکَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَاءُ ) (۵)

(خدا شرک کو ہرگز نہیں بخشتا اور اس سے کم تر جس شخص کے لئے چاہے بخش دیتا ہے) ۔

امامعليه‌السلام نے فرمایا: خوب ہے لیکن جو میں چاہتا تھا وہ نہیں ہے ۔

بعض نے کہا:( وَمَنْ یَعْمَلْ سُوئًا اٴَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرْ اللهَ یَجِدْ اللهَ غَفُورًا رَحِیمًا ) (۶)

(جو شخص کوئی برا عمل انجام دے یا اپنے اوپر ظلم کرے اس کے بعد خدا سے بخشش طلب کرے تو خدا کو غفور ورحیم پائے گا) ۔

بعض نے کہا:( قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ اٴَسْرَفُوا عَلیٰ اٴَنْفُسِهِمْ لَاتُقْنِطُوا مِنْ رِحْمَةِ اللّٰه ) (۷)

(کہہ دو! اے میرے بندو! کہ جنھوں نے اپنے نفسوں پر اسراف کیا ہے! خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا)

فرمایا: اچھی ہے لیکن جو میں چاہتا تھا وہ نہیں ہے ۔

بعض دیگر نے کہا:( وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً اٴَوْ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللهُ ) (۸)

(پرہیزگار وہ لوگ ہیں جو جب تک بُرا کام انجام دیں یا اپنے اوپر ظلم کریں تو خدا کی یاد میں پڑجاتے ہیں اور اپنے اوپر گناہوں کو بخشش طلب کرتے ہیں اور خدا کے علاوہ کون ہے جو گناہوں کو بخشے گا ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ بھی اچھی ہے لیکن جو میں چاہتا تھا وہ نہیں ہے ۔

اس وقت لوگ ہر طرف سے امام کی طرف متوجہ ہوئے اور ہمہمہ کیا تو فرمایا: کیا بات ہے مسلمانو! تو وہ عرض کرنے لگے: خدا کی قسم! ہماری نظر میں اس سلسلے میں اور کوئی آیت نہیں ۔

امام نے فرمایا: میں نے اپنے حبیب رسول اللہ سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

قرآن کی امید بخش ترین آیت یہ ہے:( وَاٴَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفِی النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذٰلِکَ ذِکْریٰ لِلذَّاکِرِینَ ) (۹)

البتہ جیسا کہ ہم ہے سورہ نساء کی آیت ۸۴ کے ذیل می کہا ہے کہ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ قرآن کی زیادہ امید بخش آیت یہ ہے:ا( ِٕنَّ اللهَ لَایَغْفِرُ اٴَنْ یُشْرَکَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَاءُ )

یعنی ۔ خدا شرک کو نہیں بخشتا اور اس سے کمتر جتنے گناہ ہیں جسے چاہے بخش دے ۔

لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ان آیات میں سے ہر ایک اس بحث کے ایک زاویے کے بارے میں ہے اور اس کے پہلووں میں سے ایک پہلو کو بیان کرتی ہے، لہٰذا ان کا آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے در حقیقت زیر بحث آیت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو اپنی نمازیں اچھی طرح سے بجالاتے ہیں ۔ ایسے نماز جو حضور قلب کے ساتھ ہوتی ہے وہ ان کے قلب و روح سے گناہوں کے آثار دھویتی ہے ۔

جبکہ دوسری آیت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو ایسی نماز کے حامل نہیں اور صرف توبہ کا راستہ اپنا تے ہیں لہٰذا یہ آیت اس گروہ کیلئے اور وہ آیت اس گروہ کے لیے زیادہ امید بخش ہے ۔

اس سے زیادہ امید افزاء بات کیا ہوگی کہ انسان جان یے کہ جس وقت اس پاؤں پھسلے یا ہوا و ہوس کا اس پر غلبہ ہو(جبکہ وہ گناہ پر اصرار نہ کرے اور نہ اس پاؤں گناہ کی طرف کھینچا رہے) وقت نماز آپہنچے تو وہ وضو کرے اور بارگاہ معبود میں راز و نیاز کے لیے کھڑا ہوجائے، گزشتہ اعمال کے بارے میں احساسِ شرمندگی اس میں موجود ہو۔ وہ احساس ندامت کو جو خدا کی طرف توجہ کے لوازمات میں سے ہے، تو اس کا گناہ بخشا جائے گا اور اس گناہ کی تاریکی اس کے دل سے ہٹ جائے گی ۔

نماز کو جو انسان ساز پرواگرام ہے اور حسنات کی یہ تاثیر کہ وہ برائیوں کو ختم کردیتی ہیں ، کے ذکر کے بعد اگلی آیت میں ”صبر“ کا حکم دیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہوتا ہے: صبر کرو کہ خدا نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا( وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللهَ لَایُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ) ۔

اگر چہ بعض مفسرین نے یہاں صبر کو نماز کے معنی میں یا رسول اللہ کے سامنے جو دشمن تھے ان کی اذیت کے مقابلے کے مفہوم میں محدود کردیا ہے لیکن واضح ہے کہ محل بحث آیت میں صبر کے معنی کو محدود کرنے کیلئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ اس کا ایک عمومی اور جامع مفہوم ہے کہ جس مشکلوں ، مخالفتوں ، ایذاؤں ، ہیجانوں ، طغیانوں اور طرح طرح کی مصیبتوں کے مقابلے میں صبر کرنے کا معنی شامل ہے اور ان تمام حوادث کے مقابلے میں پامردی اور قیام صبر کا جامع مفہوم اس میں مندرج ہے ۔

صبر کو جو اسلام کا ایک اساسی حکم ہے قرآن میں کئی مواقع پر اس کا ذکر نماز کے ساتھ آیا ہے ۔ شاید ایسا اس بناء پر ہے کہ نماز انسان میں حرکت پیدا کرتی ہے اور صبر کا حکم مقاومت جب دوش بدوش ہوں تو ہر قسم کی کامیابی اصلی عامل عامل بن جاتے ہیں ۔

اصولی طور پر کوئی نیکی صبر اور استقامت کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ نیک کاموں کے اختتام پذیر ہونے پر حتمی طور پر استقامت لازمی ہے ۔ اسی بناء پر مندرجہ بالا آیت میں صبر کا حکم دیتے کے بعد فرمایا گیا ہے: وہ نیکوں کاروں کی جزا ضائع نہیں کرتا ۔ یعنی نیکی صبر اور قیام کے بغیر میسر نہیں آتی ۔

اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ناگوار حوادث کے مقابلے میں مختلف لوگ ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

۱ ۔ کچھ لوگ فوراً اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں اور قرآنی ارشاد کے مطابق یہ ہے کہ وہ واویلا شروع کردیتے ہیں ۔ قرآنی الفاظ میں :( اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً )

یعنی جب اسے کوئی تکلیف چُھوتی ہے تو جزع وفزع شروع کردیتا ہے ۔ (معارج/ ۲۰)

۲ ۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو حواس نہیں گنوا بیٹھتے بلکہ حادثے کے مقابلے میں تحمل وبردباری سے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔

۳ ۔ بعض لوگ تحمل وبردباری کے ساتھ شکرگزاری بھی کرتے ہیں ۔

۴ ۔ کچھ لوگ ایسے حوادث کے مقابلے میں والہانہ جد وجہد کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور حادثے کے منفی اثرات ختم کرنے کے لئے انتظامات کرتے ہیں اور ایسا جہاد شروع کردیتے کہ تھکنے کا نام نہیں لیتے اور جب تک کہ مشکل کو سامنے سے ہٹا نہیں دیتے چین نہیں لیتے ۔

خدا نے ایسے صابروں کے لئے کامیابی کا وعدہ کیا ہے:( إِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ )

اور اگر تم لوگوں میں ثابت قدم رہنے والے بیس بھی ہوئے تو دو سو پر غالب آجاوگے ۔ (انفال/ ۶۵)

اور ان کے لیے دوسرے جہاں کی جزاء نعماتِ بہشت کو قرار دیا گیا ہے:( وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِیرًا )

اور ان کے صبر کے بدلے خدا انھیں باغ بہشت اور ریشمی پوشاک عطا کرے گا ۔ (دہر/ ۱۲)

____________________

۱۔ مجمع البیان: مذکورہ آیت کے ذیل میں ۔

۲۔ مجمع البیان: مذکورہ آیت کے ذیل میں .۳ مجمع البیان: مذکورہ آیت کے ذیل میں

۴۔ مجمع البیان: مذکورہ آیت کے ذیل میں .۵۔ سورہ نساء: آیت۱۱۶.

۶۔ سورہ نساء: آیت۱۱۰.۷۔ سورہ زمر: آیت۵۳.

۸۔ سورہ آل عمران: آیت۱۳۵.۹۔ مجمع البیان، مذکورہ آیت کے ذیل میں

آیات ۱۱۶،۱۱۷

۱۱۶( فَلَوْلَاکَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِکُمْ اٴُوْلُوا بَقِیَّةٍ یَنْهَوْنَ عَنْ الْفَسَادِ فِی الْاٴَرْضِ إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّنْ اٴَنْجَیْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مَا اٴُتْرِفُوا فِیهِ وَکَانُوا مُجْرِمِینَ )

۱۱۷( وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُهْلِکَ الْقُریٰ بِظُلْمٍ وَاٴَهْلُهَا مُصْلِحُونَ )

ترجمہ

۱۱۶ ۔ تم سے پہلے کے زمانوں (اور قوموں ) میں طاقتور علماء کیوں نہیں تھے کہ جو زمین میں فساد کو روکتے مگر یہ کہ ان میں سے بہت کم تھے کہ جنھیں ہم نے نجات دی اور جو ظلم و ستم کرتے تھے انھوں نے عیش و عشرت اور لذتوں کی پیروی کی اور وہ گنہ گار تھے (اور وہ نابود ہوگئے) ۔

۱۱۷ ۔ اور ایسا نہ تھا کہ تیرا پروردگار آبادیوں کو ظلم و ستم کے باعث نابود کرتا جبکہ ان کے باسی اصلاح کے درپے ہوتے ۔

معاشروں کی تباہی کا سبب

گزشتہ مباحث کی تکمیل کے لیے ان دو آیات میں ایک ایسا اہم نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ جو معاشروں کی تباہی سے نجات کا ضامن ہے اور وہ یہ کہ ہر معاشرے میں جب تک صاحبانِ عقل و فکر کا ایک متعہد اور ذمہ دار گروہ موجود ہے کہ جو مفاسد کو دیکھ کر ساکت اور خاموش ہوکر نہیں بیٹھ جاتا بلکہ ان کے خلاف مقابلے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور فکری و مکتبی حوالے سے لوگوں کی رہبری و رہنمائی اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ تو اس صورت میں یہ معاشرہ تباہی اور نابودی کی طرف نہیں جاسکتا ۔

لیکن جب بے اعتنائی اور سکوت ہر سطح اور ہر طبقے میں حکم فرما ہو اور فساد اور برائی کے عوامل کے مقابلے میں معاشرے کا کوئی دفاع نہ ہو اور اس کا کوئی حامی و مددگا رنہ ہو تو پھر فساد اور اس کے پیچھے پیچھے نابودی و تباہی یقینی ہے ۔

پہلی آیت میں ان گزشتہ اقوام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو طرح طرح کی مصیبتوں میں گرفتار تھیں ، ارشاد ہوتا ہے: تم سے پہلے کے قرنوں ، امتوں اور قوموں میں ایسے نیک پاک طاقتور اور صاحب شعور لوگ کیوں نہیں تھے کہ جو زمین میں فساد کو پھیلنے سے روکتے( فَلَوْلَاکَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِکُمْ اٴُوْلُوا بَقِیَّةٍ یَنْهَوْنَ عَنْ الْفَسَادِ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔

اس کے بعد استثناء کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: مگر تھوڑے سے افراد کو جنھیں ہم نے نجات دی( إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّنْ اٴَنْجَیْنَا مِنْهُمْ ) ۔

یہ چھوٹا سا گروہ اگرچہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہا، لیکن یہ لوگ لوطعليه‌السلام اور ان کے چھوٹے سے خاندان کی مثل نوحعليه‌السلام اور ان کے چند ایمان لانے والوں کی طرح اور صالحعليه‌السلام اور ان کے چند پیروکاروں کی مانند، اتنے کم اور اس قدر تھوڑے تھے کہ جو پورے معاشرے کی اصلاح نہ کرسکے ۔

بہرحال ظالم کہ جن کی معاشرے میں کثرت تھی ناز ونعمت اور عیش نوشی کے پیچھے لگے رہے اور بادہ غرور اور نعمتوں اور لذّتوں میں اس طرح سے مست ہوئے کہ طرح طرح کے گناہوں میں جاپڑے( وَاتَّبَعَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مَا اٴُتْرِفُوا فِیهِ وَکَانُوا مُجْرِمِینَ ) ۔

اس کے بعد اس حقیقت پر زرو دینے کے لئے اگلی آیت میں مزید فرمایا گیا ہے: یہ تم دیکھ رہے ہو کہ خدا نے اس قوم کو دیارِ عدم کی طرف بھیج دیا تو یہ اس اس بناء پر تھا کہ ان کے درمیان اصلاح کرنے والے نہ تھے، کیونکہ خدا کسی قوم وملت اور شہر ودیار کو اس کے ظلم کی وجہ سے نابود نہیں کرتا اگر وہ اصلاح کی طرح قدم اٹھالے( وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُهْلِکَ الْقُریٰ بِظُلْمٍ وَاٴَهْلُهَا مُصْلِحُونَ ) ۔ کیونکہ عام طور پر ہر معاشرے میں ظلم اور برائی ہوتی ہے لیکن اہم یہ ہے کہ لوگ اس ظلم اور برائی کا احساسکریں اور خدا انھیں اصلاح کے لئے اقدام کی مہلت دیتا ہے اور قانونِ آفرینش ان کے لئے حقِ حیات کا قائل ہے لیکن جب یہ احساس ختم ہوجاتا ہے ، معاشرے بے پرواہی اور لااُبالی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ظلم وفساد پوری طرح چھاجاتا ہے تو یہ ایسی منزل ہوتی ہے کہ سنتِ فطرت کے مطابق ان کے لئے زندہ رہنے کا حق نہیں رہتا، اس حقیقت کو ایک مثال واضح سے بیان کیا جاسکتا ہے ۔

انسانی بدن میں ایک قوتِ مدافعت موجود ہوتی ہے، یہ قوتِ مدافعت خون کے سفید گلبول کی صورت میں ہوتی ہے، جب یہ ہَوا، آب وغذا اور چمڑے کی خراش وغیرہ کے ذریعے بیرونی جراثیم بدن کے اندر حملہ آور ہوتے ہیں تو خون کے یہ سفید ذرّات سپاہیوں کی طرح ان کے مقابلے میں قیام کرتے ہیں اور انھیں نابود کرتے ہیں یا کم از کم ان کے پھیلاو کو روکتے ہیں ، ظاہر ہے کہ اگر کسی دن لاکھوں سپاہیوں کا یہ عظیم لشکر کمزور پڑجائے اور بدن کا دفاع نہ کرسکے تو بدن مضر جراثیموں کے تخت وتاراج کا میدان بن جائے گا اور طرح طرح کی بیماریاں اس پر حملہ آور ہوجائیں گی ۔

پورے انسانی معاشرے کی بھی یہی کیفیت ہے، اگر مدافع قوت اور محافظ لشکر کہ جسے ”اولوا بقیة“ کہا گیا ہے ہٹ جائے تو اجتماعی بیماری کے حامل جراثیم کہ جو معاشرے کے گوشہ وکنار میں موجود ہوتے ہیں بڑی تیزی سے نشو ونما پاتے ہیں اور کثرت حاصل کرکے معاشرے کو سرتاپا بیمار کردیتے ہیں ۔

”اولوا بقیة“ کا اثر معاشروں کی بقاء کے لئے اتنا حساس ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے بغیر معاشروں سے حقِ حیات سلب ہوجاتا ہے اور یہ وہی چیز ہے جس کی طرف مندرجہ بالا آیات اشارہ کرتی ہیں ۔

”اولوا بقیة“ کون ہیں ؟

”اولوا“ کا معنی ہے ”صاحبان“ اور ”بقیة“ کا معنی ہے باقی ماندہ، لُغت عرب میں عموماً یہ تعبیر ”اولوا الفضل“ (صاحبانِ فضیلت اور نیک پاک شخصیات) کے معنی میں استعمال ہوتی ہے کیونکہ عام طور پر انسان بہتر اجناس اور زیادہ نفیس چیزوں کو سنبھال رکھتا ہے اور وہ اس کے پاس رہ جاتی ہیں ، اسی لئے یہ لفظ نفاست اور نیکی کا مفہوم بھی رکھتا ہے اس کے علاوہ اجتماعی مقابلوں میں جو لوگ زیادہ ضعیف ہوجاتے ہیں میدان اور منظر سے جلدی ہٹ جاتے ہیں یا نابود ہوجاتے ہیں اور وہ افراد باقی رہ جاتے ہیں جو فکر ونظر اور جسمانی قوت کے اعتبار سے زیادہ قوی ہوتے ہیں ، اسی بناپر باقی رہ جانے والے طاقتور اور قوی ہوتے ہیں ، اس لئے عربوں میں ضرب امثل ہے:

فی الزوایا خبایا وفی الرجال بقای .

گوشہ وگنار میں ابھی چھپے ہوئے مسائل موجود ہیں اور مردوں میں سے باقی ماندہ شخصیتیں موجود ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ لفظ ”بقیة“ جو قرآن میں تین مواقع پر آیا ہے اسی مفہوم کا حامل ہے، طالوت وجالوت کے واقعہ میں قرآن مجید میں ہے:ا( ِٕنَّ آیَةَ مُلْکِهِ اٴَنْ یَاٴْتِیَکُمْ التَّابُوتُ فِیهِ سَکِینَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَبَقِیَّةٌ )

حکومتِ طالوت کی حقانیت کی نشانی یہ ہے کہ صندوقِ عہد تمھارے ہاتھ آئے گا وہی صندوق کہ جس میں موسیٰ وہارون کے خاندان کی نفیس یادگار ہے اور تمھارے سکون کی پونجی ہے ۔ (قبرہ/ ۲۴۸)

نیز حضرت شعیب علیہ السلام کے واقعہ میں زیرِ بحث سورہ میں ہم نے پڑھا ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:( بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ )

بقیة الله تمھارے لئے بہتر ہے ۔ (ہود/ ۸۶)

نیز یہ جو بعض تعبیرات میں حضرت مہدی موعود علیہ السلام کو ”بقیة الله“ کہا گیا ہے وہ بھی اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ کیونکہ وہ خدا کی طرف سے ایک عظیم اور پُرفیض ذخیرہ ہیں کہ جنھیں اس جہان سے ظلم وستم کی بساط الٹنے اور عدل وداد کا پرچم گاڑنے کے لئے باقی رکھا گیا ہے ۔

یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ قیمتی شخصیتیں ، بُرائی کے خلاف کام کرنے والے افراد اور ”اولوابقیة“ انسانی معاشروں پر کتان بڑا حق رکھتے ہیں کیونکہ یہ اقوام وملل کی بقاء اور ہلاکت سے نجات کا وسیلہ ہیں ۔

مندرجہ آیت میں جو دوسرا قابلِ توجہ نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ جب تک کسی شہر اور آبادی کے رہنے والے مصلح ہیں خدا اسے نابود نہیں کرتا ”مصلح“ اور ”صالح“ میں جو فرق ہے اس کی طرف توجہ کرنے سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ صرف صالحیت اور اچھا ہونا ضامن بقاء نہیں بلکہ اگر معاشرہ صالح نہ ہو لیکن اصلاح کی کوشش کرے تو وہ بھی بقاء وحیات کا حق رکھتا ہے لیکن جب نہ صالح ہوں نہ مصلح تو پھر سنتِ افرینش کےلحاظ سے اس کے لئے حقِ حیات نہیں ہے اور وبہت جلد ختم ہوجائے گا ۔

دوسرے لفظوں میں جب معاشرہ باقی رہ جاتا ہے لیکن اگر ظالم ہو اور اصلاح کے لئے قدم نہ اٹھائے تو وہ باقی نہیں رہ سکتا ۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیات میں ظلم وجُرم کا ایک سرچشمہ ہوس رانی، لذّت پرستی اور عیش ونوش کی پیروی کو قرار دیا گیا ہے جسے قرآن میں ”اتراف“ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، یہ بے قید وبے عیش کوشی اور لذّت پرستی طرح طرح کے انحرافات کا سرچشمہ ہے جو معاشرے کے خوشحال طبقوں میں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ شہوت کی مستی انھیں حقیقی انسانی اقدار اور اجتماعی حقائق کے ادراک سے روک دیتی ہے اور عصیان وگناہ میں غرق کردیتی ہے ۔