تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30547
ڈاؤنلوڈ: 2379


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30547 / ڈاؤنلوڈ: 2379
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

آیت ۶

۶( وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ إِلاَّ عَلَی اللهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا کُلٌّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ )

ترجمہ

۶ ۔ اور زمین میں حرکت کرنے والی چیز نہیں مگر یہ کہ اس کی روزی خدا کے ذمہ ہے اور وہ اس کی جائے قیام اور نقل وحرکت کے مقام کو جانتا ہے یہ سب کچھ واضح کتاب (علمِ خدا کی لوح محفوظ) میں ثبت شدہ ہے ۔

سب اسی کے مہمان ہیں

گزشتہ آیت میں پروردگار کے علم کی وسعت اور ہر آشکار وپنہان چیز پر اس کے احاطہ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، زیرِ بحث آیت در حقیقت اس امر کی دلیل ہے کیونکہ اس میں تمام موجوداتِ عالم کو خدا کی طرف سےروزی دینے کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور یہ ایسا کام ہے جو تمام موجوداتِ عالم کے کامل احاطہ علمی کے بغیر ممکن نہیں ، اسی لئے خداوندعالم فرماتا ہے: رُورئے زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کی روزی اس کے ذمہ نہ ہو وہ انسان کی جائے قرار کو جانتا ہے اور اپنی قار گاہ سے جن نقاط کی طرف منتقل ہوتا ہے اس سے بھی باخبر ہے، نیز ایک جاندار جہاں کہیں بھی ہو اس تک روزی پہنچاتا ہے( وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ إِلاَّ عَلَی اللهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ) ۔ یہ تمام حقائق اپنی تمام حدود وقیود کے ساتھ کتابِ مبین اور علمِ خدا کی لوح محفوظ میں ثبت ہیں( کُلٌّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ”دابہ“ لفظ دبیب سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں آہستہ آہستہ چلنا اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا لیکن لغوی مفہوم کے لحاظ سے ہر قسم کی حرکت اس میں شامل ہوتی ہے، کبھی کبھار ان معانی کا اطلاق گھوڑے یا سواری کے دیگر جانوروں پر بھی کیا جاتا ہے، چنانچہ واضح ہے کہ زیرِ بحث ایت میں تمام زندہ موجودات کو شامل کیا گیا ہے ۔

۲ ۔ ”رزق“ مسلسل عطا کے معنی میں آیا ہے اور چونکہ موجودات عالم کے لئے خدا کی دی ہوئی روزی اس کی طرف سے پائیدار اور مسلسل عطا ہے لہٰذا اسے ”رزق“کہا جاتا ہے، اس نقطہ کا بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ عطا وبخشش کا مفہوم صرف مادی ضروریات پورا ہوجانے کے معنی میں مقید نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی مادّی ومعنوی عطا اس میں شامل ہے اسی لئے تو ہم کہتے ہیں :”( اللّٰهم ارزقنی علماً تاماً ) “خدایا! مجھے کامل علم عطا فرما ۔

یا کہتے ہیں :”( اللّٰهم ارزقنی شهادة فی سبیلک )

خدایا! اپنی راہ مجھے شہادت نصیب فرما ۔

البتہ ممکن ہے کہ زیرِ بحث آیت میں مادّی رزق کو مدّنظر رکھا گیا ہو اگرچہ اس کا عمومی مفہوم بھی زیادہ بعید نہیں ہے ۔

۳ ۔ ”مستقر“ در اصل قرار گاہ کے معنی میں ہے، کیونکہ اس لفظ کی بنیاد مادہ ”قر“ (بروزنِ حر) ہے جس کا مطلب ہے سخت سردی جو انسان اور دیگر موجودات زندہ کو خانہ نشین بنادیتی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ سکون اور توقف کے معنی میں بھی آیا ہے ۔

”مستودع“ اور ”ودیعہ“ ایک ہی مادّہ سے ہیں جو درحقیقت کسی کو چھوڑ دینے کے معنی میں ہے، وہ تمام امور جو اپنی ناپائیداری سے اصلی اور پائیدار حالت کی طرف پلٹ جاتے ہیں ان کو ”مستودع“ کہا جاتا ہے اور ”ودیعت“ بھی اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آخرکار اسے اپنے موجودہ محل ومقام کو چھوڑکر اپنے اصلی مالک کی طرف پلٹ جانا ہے ۔

حقیقت میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ تصور ہرگز نہ کیا جائے کہ خدا صرف ان حرکت کرنے والوں کو روزی دیتا ہے جو اپنی اصل پر برقرار ہیں اور اصطلاح کے مطابق ان کا حصّہ ان کے گھروں میں لے آتے ہیں ، بلکہ جہاں کہیں بھی ہوں اور جس کیفیت وحالت میں ہوں ان کی روزی اور رزق کا حصّہ انھیں عطا کرتا ہے، اس لئے کہ وہ ان (موجودات) کی اصلی قرار گاہ کو بھی جانتا ہے اور جہاں جہاں وہ نقل مکانی کرتے ہیں ان تمام خطوں سے باخبر ہے اس نے غول پیکر دریائی جلانوروں سے لے کر بہت ہی باریک اور آنکھ سے نظر نہ آنے والے جانداروں کے لئے بھی ان کے مناسب رزق مقرر کردیا ہے ۔

یہ رزق اس قدر حساب شدہ اور موجودات کے مناسبِ حال ہے کہ ”مقدار“ اور ”کیفیت“ کے لحاظ سے کاملاً ان کی خواہشات وضروریات کو پورا کرتا ہے یہاں تک کہ اس بچہ کی کی غذا کو شکمِ مادر میں ہے ہر ماہ ہر دن دوسرے مہینوں اور دنوں سے مختلف ہے اگرچہ ظاہری طور پر ای قسم کے خون سے زیادہ نہیں نیز بچّہ شِیرخواری کے زمانے میں باوجودیکہ ظاہراً پے ردپے کئی ماہ تک اس کی ایک قسم کی غذا (دودھ) ہوتی ہے مگر اس دودھ کی ترکیب بھی پہلے دن سے مختلف ہوتی ہے ۔

۴ ۔ ”کتاب مبین“ کا مطلب ہے کہ واضح وآشکار تحریر اور یہ اشارہ ہے پروردگار کے وسیع علم کے ایک مرحلہ کی جانب کہ جسے کبھی کبھی اپنی روزی حاصل کرنے کے سلسلے میں معمولی سے معمولی پریشانی بھی نہیں ہونی چاہیے اور وہ یہ تصور نہ کرے کہ اپنی روزی کا حصّہ لینے میں کبھی اس کا نام درج ہونے سے رہ جائے گا، اس لئے کہ تمام موجوداتِ اراضی وسماوی کے نام اس کتاب میں درج ہیں کہ جس میں اس کا نام سب کو شمار اور ضریحاً بیان کیا گیا ہے، اسی طرح جیسا کہ اگر ایک ادارہ میں کام کرنے والے تمام ملازمین کا نام ایک رجسٹر میں واضح طور پر درج کیا گیا ہو تو کیا ان کا قلم سے رہ جانے کا احتمال ہوسکتا ہے؟۔

تقسیمِ رزق اور زندگی کے لئے سعی وکوشش

رزق کے بارے میں بہت سی اہم بحثیں موجود ہیں جن میں سے ایک کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

۱ ۔ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے” رزق کے لغوی معنی استمراری اور دائمی بخشش کے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ مادّی یا روحانی ومعنوی، بنابریں ہر وہ منفعت جو خدا اپنے بندوں کو نصیب کرے، غذائی مواد، مکان اور لباس میں سے یا علم وعقل ، فہم وایمان اور اخلاص میں سے، ان سب کو رزق کہا جاتا ہے، جو لوگ اس مفہوم کو صرف مادّ ی پہلو میں محدود کرتے ہیں انھوں نے اس کے استعمال کے مواقع کی طرف دقیق توجہ نہیں کی، قرآن مجید راہِ حق میں شہید ہونے والوں کے بارے میں کہتا ہے:( بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ )

وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق حاصل کرتے ہیں (آل عمران/ ۱۶۹)

واضح رہے کہ شہداء کی روزی اور وہ بھی عالمِ برزخ میں مادّی نعمتیں نہیں بلکہ وہی روحانی ومعنوی عنایات ہیں جن کا تصور کرنا ہمارے لئے اس مادی زندگی میں مشکل ہے ۔

۲ ۔ زدنہ موجودات کی ضروریات یا دوسرے لفظوں میں ان کا رزق مہیا کرنے کا معاملہ سب سے زیادہ توجہ طلب مسائل میں سے ہے اس کے اسرار سے وقت گزرنے اور سائنسی پیش رفت کے ساتھ ساتھ پردہ اٹھ رہا ہے، سائنس اس سلسلے میں تعجب انگیز امور منکشف کررہی ہے ۔

گزشتہ زمانے میں تمام سائنسدان اس فکر میں تھے کہ اگر سمندروں اور دریاوں کی تہوں میں زندہ موجودات موجود ہیں تو ان کی غذا کس راستے سے ان تک پہنچتی ہوگی کیونکہ غذاوں کی اصلی بنیاد تو نباتات ہیں جنھیں سورج کی روشنی کی ضرورت ہے جبکہ دریاوں کی گہرائیوں میں ۷۰۰ میٹر سے آگے مطلقاً روشنی کا وجود نہیں اور اس سے آگے تو گویا ایک ابدی تاریک رات ہے لیکن بہت جلد معلوم ہوگیا کہ سورج کی روشنی نباتات اور سبزے کے باریک ذرّات کی سطح آب اور موجوں کے بستر پر پرورش کرتی ہے اور جب وہ اپنے تکامل وارتقاء کا مرحلہ طے کرلیتے ہیں تو پکے ہوئے پھل کی مانند دریاوں کی گہرائیوں اور تہوں میں چلے جاتے ہیں اور وہاں زندہ موجودات کے لئے خوانِ نعمت ثابت ہوتے ہیں ۔

دوسری طرف بہت سے پرندے دریائی مچھلیوں کو اپنی غذا بناتے ہیں حتّیٰ کہ کئی قسم کے رات کو پرواز کرنے والے پرندے موجود ہیں جو رات کی تاریکی میں ایک ماہر غوطہ خور کی طرح اپنے شکار کو، جسے مخصوص امواج ریڈار کی طرح پہنچانتی ہیں اور اس کی نشاندہی کرتی ہیں ، باہر لے آتے ہیں ۔

بعض پرندوں کی روزی عظیم الجثّہ دریائی جانوروں کے دانتوں کے اندر چھپی ہوتی ہے، یہ حیوانات دوسرے دریائی جانوروں کے بطور غذا کھانے کے بعد اپنے دانتوں میں ”طبیعی خلال“ کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ساحل کی طرف آتے ہیں اور اپنے منھ کو جو ایک چھوٹی غار سے مشابہت رکھتا ہے کھلا چھوڑدیتے ہیں وہ پرندے جن کی روزی خدا نے یہاں رکھی ہے بغیر کسی ڈر خوف کے اس غارنمار منھ میں داخل ہوجاتے ہیں ، اور اس دیو پیکر جانور کے منھ سے اپنی روزی تلاش کرلیتے ہیں ، اس تیار غذا سے جہاں پرندے شکم سیر ہوتے ہیں وہاں اس جانور کو بھس ضرر رساں مادّوں سے نجات دلاتے ہیں ، چنانچہ جب دونوں فریقوں کا مقصد پورا ہوجاتا ہے تو پرندے باہر پرواز کرجاتے ہیں اور وہ حیوان آرام وسکون کا احساس کرتے ہوئے اپنا منھ بند کرلیتا ہے اور واپس دریا کی گہرائیوں میں چلا جاتا ہے ۔

مختلف موجودات کو روزی بہم پہنچانے کے لئے خداوندعالم کا طریقہ وتدبیر واقعاً حیرت انگیز ہے وہ نطفہ جو شکم مادرمیں برقرار ہے، سے لے کر قسم قسم کے حشرات الارض تک، جو زمین کی تاریک گہرائیوں ، پُرپیچ راستوں ، درختوں کی چھالوں ، پہاڑوں کی چوٹیوں اور درّوں کی پہنائیوں میں زندگی بسر کرتے ہیں اس خداوندعظیم کے علم و بینش سے ہرگز مخفی نہیں ہیں ، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے کہ خداوند ان کی قرار گاہ اور حقیقی مسکن سے بھی آگاہ ہے وہ ان کے چلنے پھرنے کی جگہ کو بھی جانتا ہے اور جہاں کہیں بھی ہوں ان کی روزی ان تک پہنچاتا ہے ۔

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ زیرِ نظر آیت میں روزی حاصل کرنے والوں کے بارے میں بحث کے دروان انھیں ”دابة“ (پھرنے والے) اور ”جنیدہ“ (حرکت کرنے والے) سے تعبیر کیا گیا ہے جو ”توانائی“( ENERGY ) اور ”حرکت“ ( MOTION ) میں رابطہ کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی حرکت وجود میں آتی ہے وہ توانائی پیدا کرنے والے مادّہ کی محتاج ہوتی ہے یعنی وہ مادّہ جو حرکت کا منشاء ہے، اسی لئے قرآن بھی زیرِ بحث آیات میں کہتا ہے کہ خدا تمام متحرک موجوات کوروزی دیتا ہے ۔

اگر حرکت کی اس وسیع تر معنی میں تفسیر کریں تو پھر نباتات بھی اس میں شامل ہوں گے کیونکہ وہ بھی نشو ونما میں ایک دقیق وباریک حرکت رکھتے ہیں اسی بناء پر فلسفہ میں حرکت کی ایک قسم ”نمو“ بھی شمار کی گئی ہے ۔

۳ ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہر شخص کی روزی اس کی ابتداء سے لے کر آخر عمر تک مقرر ومعین ہے اور چاہتے نہ چاہتے اس تک پہنچے گی؟ یا یہ کہ اس کے پیچھے نکلنا چاہیے، بقولِ شاعرشرط عقل است جستن از درھایعنی عقل کے لئے شرط ہے کہ اس سے کے دروازوں سے ڈھونڈا جائے ۔

بعض سُست بے حال لوگ اس آیت کی مذکورہ تعبیر ان روایات کا سہارا لیتے ہوئے جو روزی کی مقدار اور اس کے تعیّن کے بارے میں کچھ بیان کرتی ہیں ، یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ انسان تلاشِ معاش اور روزی مہیّا کرنے کے لئے زیادہ سعی وکوشش کرے یا اس کی تلاش میں نکلے کیونکہ روزی انسان کا مقدر ہے اور وہ ہر حالت میں اس تک پہنچے گی اور کوئی بھی شخص روزی سے محروم نہیں رہے گا ۔

اس طرح کے نادان افراد جن کو دین ومذہب کے بارے میں بہت کم معرفت ہوتی ہے، دشمنوں کو بہانہ پیدا کرنے کا موقع دیتےں ہیں کہ مذہب اقتصادی کساد کا حامل ہے، جو زندگی میں شامل ہوتی تو بے چون وچرا مجھے مل جاتی، استثمار گروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ یہ ایک اچھا بہانہ لگا کہ جتنا ہوسکے محروم طبقوں کا خون چوشیں اور انھیں زندگی کی ابتدائی ضروریات سے بھی محروم رکھیں ۔

حالانکہ قرآن اور احادیثِ اسلامی سے معمولی سی آشنائی بھی اس حقیقت تک پہنچنے کے لئے کافی ہے کہ اسلام ہر قسم کی مادّی ومعنوی منفعت کے حصول کے لئے کی جانے والی کوششوں کو مثبت شمار کرتا ہے، یہاں تک کہ قرآن کہتا ہے:

’‘( لَیسَ لِلاِنْسَانِ الَّا مَا سَعیٰ ) “انسان کے لئے کچھ نہیں ماسوا اس کے جتنی اس نے کوشش کی ۔

اس فرمان میں انسان کے فائدہ ومنفعت کو اس کی کوشش اور کام میں قرار دیا گیا ہے، ہادیان اسلام دوسروں کے لئے نمونہ عمل مہیا کرنے کے لئے سخت محنت سے کام کرتے تھے، انبیاء ماسلف بھی اس کام سے مستثنیٰ نہ تھے انھوں نے چرواہوں کا کام کیا، کپڑے سیئے ، نیزہ زِرہ بنانے اور ہل چلانے تک کے طاقت آزما کام سرانجام دیئے، پس اگر خدا کی طرف سے رزق بہم پہنچانے کا ضامن ہونے سے مراد گھر بیٹھے رہنا اور روزی پہنچنے کا انتظار کرنا ہوتا تو انبیاء(علیه السلام)، آئمہعليه‌السلام جو تمام انسانوں سے زیادہ عالم اور مفاہیمِ دین سے آشنا تھے تلاشِ رزق میں کوشش وجستجو نہ کرتے ۔

بنابریں ہم یہ تو کہتے ہیں کہ ہر خص کی روزی مقدر اور مسلّم ہے لیکن مشروط ہے اس کی تلاش وکوشش سے لہٰذا جہاں کہیں یہ شرط پوری نہیں ہوگی مشروط بھی دستیاب نہیں ہوگا، یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہیں کہ ہر شخص کی ایک اجل ہے اور اس کی عمر کی مقدار معیّن ہے، واضح طور پر اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بدن ایک مناسب مدّت تک باقی رہنے کی استعداد رکھتا ہے بشرطیکہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا لحاظ رکھا جائے اور ضرررساں اشیاء سے پرہیز کیا جائے نیز جو چیزیں موت کی جلدی کا سبب بنتی ہیں ان سے دور رہے ۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ آیات وروایات جو روزی کے معیّن ہونے سے مربوط ہیں دراصل ایک ”بریک“ اور حد ہیں ، ان حریص اور دنیا پرست لوگوں کے لئے جو زندگی گزارنے کے لئے ہر دروازہ کھٹکھٹاتے پھرتے ہیں اور ہر ظلم وستم وبد دیانتی کا ارتکاب کرتے ہیں اس گمان پر کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو ان کی زندگی اچھی نہیں گزرسکتی، آیاتِ قرآنی اور احادیثِ اسلامی ایسے افراد کو خبردار کرتی ہیں کہ بے کار ہاتھ پاوں نہ ماریں اور روزی کمانے کے لئے غیر شرعی اور غیر معقول ذرائع استعمال نہ کریں ، بلکہ شرعی طریقے سے سعی وکوشش کرتے ہوئے مطمئن رہیں کہ خدا اس راستے سے ان کی تمام حاجات پوری کردے گا، وہ خدا کہ جس نے انھیں ظلمت کدہ رحم میں فراموش نہیں کیا اور وہ خدا کہ جس نے بچپن میں جب انسان اس دنیا کے موادِ غذائیہ کی تغذیہ کی توانائی نہیں رکھتا تھا ااس کی مہربان ماں کے پستانوں میں اس کی روزی مہیّا کی، وہ خدا جس نے شِیر خواری کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی جبکہ انسان ناتواں تھا اس کی روزی اس کے مہربان باپ کے ہاتھ میں رکھی جو صبح وشام اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بھی خوش ہو کہ مَیں اپنی اولاد کو غذا مہیا کرنے کے لئے زحمت ومشقت اٹھاتا رہا ۔

لہٰذا کس طرح ممکن ہے کہ جب انسان بڑا ہوجائے اور ہر قسم کے کام کی توانائی اور قدرت حاصل کرلے خدا اسے بھلادے، کیا عقل وایمان اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ انسان اس گمان پر کہ ممکن ہے اس روزی فراہم نہ ہو، گناہ، ظلم وستم اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرے اور حریص بن کر مستضعفین اور کمزوروں کا حق غصب کرے ۔

البتہ اس چیز کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ رزق ایسے ہیں کہ انسان ان کے آگے پیچھے بھاگے یا نہ وہ اس کے پیچھے آتے ہیں مثلاً سورج کی روشنی جو ہماری تلاش وکوشش کے بغیر ہمیں میسّر ہے اور ہمارے گھر روشن کرتی ہے، کیا اس کا انکار ممکن ہے کہ بارش اور ہَوا بغیر ہماری جدوجہد اور کوشش کی ہماری تلاش میں آتی ہے کیا اس بات کا انکار کیا جاسکتا ہے کہ وہ عقل وہوش اور قوّت واستعداد جو روزِ اوّل سے ہمارے وجود میں رکھ دی گئی تھی ہمیں اس کے لئے جستجو نہیں کرنا پڑی ۔

لیکن اس طرح کی نعمتیں جو ہَوا کے جھونکے کے ساتھ مل گئیں یا یہ کہ وہ نعمتیں جو کہ کوشش کے بغیر ہاتھ سے نکل جائیں گی یا بے اثر ہوکر رہ جائیں گی ۔

حضرت علی علیہ السلام سے ایک مشہور حدیث نقل ہوئی ہے آپعليه‌السلام نے فرمایا:

واعلموا یا بنی! انّ الرزق ورزقان تطلبه ورزق یطلبک

اے فرزند جان لو! رزق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ کہ تو جس کی جستجو میں نکلے اور ایک وہ جو تجھے تلاش کرتے ہوئے تیرے پیچھے آئے ۔(۱)

امام علیہ السلام کا یہ فرمان بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اکثر اوقات انسان کسی نعمت یا ضرورت کی تلاش میں سرگرداں نہیں ہوتا مگر حادثات واتفاقات کے ایک وسیع سلسلہ کے باعث کوئی نعمت اسے نصیب ہوجاتی ہے یہ حوادث اگرچہ ہماری نظر میں اچانک اور اتفاقیہ ہیں لیکن درحقیقت وہ صاحبِ تجلیق کے حساب وکتاب کے عین مطابق ہیں ، بلاشبہ اس قسم کی روزی کا حساب اس روزی کی طرف اشارہ ہو۔

بہرحال نکتہ اساسی یہ ہے کہ تمام تعلیماتِ اسلامی میں ہمیں متوجہ کرتی ہیں کہ بہترین زندگی گزارنے کے لئے چاہے وہ مادّی ہو یا معنوی زیادہ سے زیادہ کوشش وجستجو کرنی چاہیے اس لئے کہ کام سے فرار کا یہ جواز غلط ہے کہ روزی تو مقسوم میں لکھی ہے اور مل کر رہے گی ۔

۴ ۔ زیرِ بحث آیات میں فقط ”رزق وروزی“ کی طرف اشارہ ہُوا ہے حالانکہ بعد کی چند آیات میں جہاں پر توبہ کرنے والے باایمان افراد کا ذکر ہے ”متاع حَسن“ یعنی شائستہ ومناسب منفعت اور فائدہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ان دونوں کا مدِّمقابل ہونا ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ تمام حرکت کرنے والوں کے لئے وہ انسان ہوں یہ حیوان، حشرات الارض ہوں یا درندے، نیک ہوں یا بَد سب کے لئے رزق کا حصّہ معیّن ہے، لیکن متاع حَسن اور شائستہ وگرانبہا نعمتیں صرف صاحبان ایمان کے ساتھ مخصوص ہیں جنھوں نے خود کو آبِ توبہ سے ہر قسم کے گناہ اور آلودگی سے پاک کرلیا ہے اور جو خدائی نعمتوں کو اس کے احکامات کی اطاعت کے تابع رہ کر استعمال کرتے ہیں نہ کہ ہَوا وہوس اور سرکشی کی راہ میں ۔

____________________

۱۔ نہج البلاغہ، امامعليه‌السلام کی اپنے فرزند امام حسنعليه‌السلام کے نام وصیت۔

آیت ۷

۷( وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ فِی سِتَّةِ اٴَیَّامٍ وَکَانَ عَرْشُهُ عَلَی الْمَاءِ لِیَبْلُوَکُمْ اٴَیُّکُمْ اٴَحْسَنُ عَمَلًا وَلَئِنْ قُلْتَ إِنَّکُمْ مَبْعُوثُونَ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُولَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ هٰذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِینٌ )

ترجمہ

۷ ۔ وہ ایسی ذات ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دِنوں (چھ ادوار) میں خلق کئے اور اس کا عرش (قدرت) پانی پر ہے (اور یہ اس لئے پیدا کیا) تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کس کا عمل بہتر ہے اور اگر تم کہو کہ موت کے بعد دوبارہ مبعوث ہوگے (اور قبروں سے اٹھوگے) تو یقیناً کافر کہیں گے کہ یہ کھُلا جادو ہے ۔

مقصدِ خلقت

اس آیت میں تین اساسی نکات پر بحث کی گئی ہے، اوّل جہانِ ہستی کی آفرینش، خصوصاً آغاز آفرینش کہ جو پروردگار کی قدرت کی نشانی اور اس کی عظمت کی دلیل ہے، ”وہ ایسی ذات ہے جس نے آسمان اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا“( وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ فِی سِتَّةِ اٴَیَّامٍ ) ۔

اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ یہاں دن سے مراد چوبیس گھنٹے والا دن ہے اس لئے کہ جس زمانے کی بات ہورہی ہے اس وقت زمین وآسمان وجود میں آئے تھے نہ کرہ ارض تھا اور نہ ہی اس کی اپنے گرد چوبیس گھنٹوں کی گردش، بلکہ جیسا کہ پہلے کہاجاچکا ہے اس سے مراد ایک ”دورانیہ“ ہے اب خواہ یہ دورانیہ چھوٹا ہو یا بہت طویل اور کروڑوں سالوں پر مشتمل ہو، سورہ اعراف کی آیت ۵۴ کے ذیل میں اس بات کی جامع اور مفصل تشریح بیان کی جاچکی ہے لہٰذا تکرار کی ضرورت نہیں ہے ۔(۱)

نیز وہاں ہم نے یاددہانی کروائی تھی کہ خدا قدرت وطاقت رکھتا تھا کہ تمام عالم کو ایک ہی لحظہ میں پیدا کرے لیکن متواتر اور پے درپے چھ ادوار میں اس لئے پیدا کیا ہے کہ یہ تدریجی خلقت جو ہر وقت رنگِ نو اور چہرہ تازہ دکھاتی ہے ، قدرت وعظمتِ خداوندی کو بیشتر اور بہتر انداز میں متعارف کرواتی ہے ۔

خدا چاہتا تھا کہ اپنی قدرت کو ہزراوں رُخ میں نمایاں کرے ایک ہی رُخ میں نہیں اور اپنی قدرت وحکمت کی پہچان آسان تر اور زیادہ واضح ہو اور اس کی معرفت کے دلائل ماہ و سال صدیوں اور زمانوں کی تعداد کے برابر ہمارے پاس موجود ہیں ۔

پھر فرمایا کہ ”اس (خدا) کا عرش پانی پر تھا“( وَکَانَ عَرْشُهُ عَلَی الْمَاءِ ) ۔ اس جملے کی تفسیر سمجھنے کے لئے ان دو الفاظ ”عرش“ اور ”ماء‘’‘ کے مفہوم سے آشنا ہونا چاہیے ۔

”عرش“ دراصل ”چھت“ یا ”چھت نما“ چیز کے معنی میں آیا ہے سلاطینِ گزشتہ کے بلند تختوں کو بھی عرش کہا جاتا ہے، اسی طرح ان بلند دیواروں اور مقامات کو بھی عرش کہتے ہیں جن پر بیل دار پودوں کو چڑھایا جاتا ہے، نیز بعد میں یہ کلمہ ”قدرت“ کے مفہوم میں بھی استعمال ہونے لگا جیسا کہ لفظ تخت فارسی زبان میں اسی استعمال ہواہے ۔

عربی میں کہتے میں :”فلان استویٰ علیٰ عرشه، اٴو، تُلّ عرشه “یعنی فلان آدمی تخت پر بیٹھا یا اس کا تخت گرگیا ۔

عربی زبان کا یہ کنایہ کہ اسے اقتدار مل گیا یا اس کا اقتدار ختم ہوگیا فارسی زبان میں استعمال ہوتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلان شخص کو لوگوں نے تخت پر بٹھادیا ہے یا فلاں کو تخت سے اتاردیا ہے ۔(۲)

اس نکتہ کی جانب توجہ رکھنا چاہیے کہ بعض اوقات عرش مجموعہ عالمِ ہستی کے معنی میں بھی آیا ہے کیونکہ قدرت کا تخت اس پورے جہاں پر محیط ہے ۔

باقی رہا لفظ ”ماء“ اس کا عام معنی تو پانی ہے لیکن بعض اوقات مائع اور بہنے والی اشیاء مثلاً بہنے والی دھاتوں کو بھی ”ماء“ کہا جاتا ہے ۔

ان دو الفاظ کے تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء خلقت میں جہانِ ہستی پگھلے ہوئے مادّہ یا تہ بہ تہ بہنے والی گیس کی شکل میں تھا جس کے بعد اس مانندِ آب ٹکڑے میں سخت مدّ وجزر اورشکست وریخت پیدا ہوئی اور اس کے بعض حصّے سطح سے باہر آپڑے، اتصال، پیوستگی اور جدائی کا عمل شروع ہوا اور یکے بعد دیگرے سیّارے، ستارے اور منظومے ( SILAR SYSTEMS ) تشکیل پانے لگے، اس لئے جہانِ ہستی اور قدرت کا تخت سب سے پہلے پانی کی مانند (مثل آبگینہ) اس عظیم مادّہ پر قرار پایا ۔

سورہ انبیاء کی آیت ۳۰ میں بھی اسی طرف اشارہ ہوا ہے:

( اٴَوَلَمْ یَرَی الَّذِینَ کَفَرُوا اٴَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ )

”کیا وہ جو خدا کا انکار کرتے ہیں علم ودانش کی آنکھ سے اس حقیقت کو نہیں دیکھتے کہ آسمان وزمین ابتدا میں ایک دوسرے سے پیوست تھے پھر ہم نے انھیں جدا کیا اور ہر زندہ موجود کو ہم نے پانی سے خلق کیا“

نہج البلاغہ کے خطبہ اوّل میں بھی اسی معنی کی طرف واضح اشارے ملتے ہیں ۔

دوسرا مطلب جس کی طرف مندرجہ بالا آیت اشارہ کرتی ہے، وہ جہانِ ہستی اور عالمِ وجود کی خلقت کا ہدف ومقصد ہے، وہی ہدف کہ جس کا اہم ترین حصّہ اس جہان کا گل سرسبد یعنی انسان ہے، وہ انسان کہ جسے تعلیم وتربیت کی راہ اپنانا اور تکامل وارتقاء کی طرف بڑھنا چاہیے تاکہ وہ ہر لمحہ خدا کے قریب ہوتا جائے ۔

خداوندعالم فرماتا ہے، باعظمت خلقت اس لئے معرضِ وجود میں آئی تاکہ تمھاری آزمائش کرے اور دیکھے کہ تم میں سے کون اعمالِ حسنہ انجام دیتا ہے( لِیَبْلُوَکُمْ اٴَیُّکُمْ اٴَحْسَنُ عَمَلًا ) ۔

( ”لِیَبْلُوَکُمْ“ ) مادہ ”بلاء وابتلاء“ سے آزمائش کے معنی میں ہے، جیسا کہ قبل ازیں اشارہ کیا گیا ہے کہ خدا کی طرف سے آزمائش کشفِ ا ۔حوال اور لوگوں کی داخلی، روحانی اور فکری وضعیت وکیفیت معلوم کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ پرورش اور تربیت کرنے کے لئے ہے (اس موضوع کی تفصیل تفسیر نمونہ جلد اوّل سورہ بقرہ کی آیت ۱۵۵ کے ذیل میں بیان ہوچکی ہے)

توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں انسان کی قدر وقیمت کو اس کے ”حسنِ عمل“ سے مربوط کیا گیا ہے نہ کہ اس کے کثرتِ عمل سے، یہ بات نشاندہی کرتی ہے کہ اسلام ہر جگہ کیفیتِ عمل پر نظر رکھتا ہے کثرت وکمیّت اور مقدار پر نہیں ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اسی سلسلہ میں ایک حدث نقل ہوئی ہے، آپعليه‌السلام نے فرمایا:

لیس یعنی اکثر عملاً ولٰکن اٴصوبکم عملا، وانّما الاصابة خشیة الله، والنیة الصادقة، ثمّ قال الابقاء علی العمل حتّی یخلص اشد من العمل، والعمل الخالص، الذی لاترید اٴن یحمدک علیه اٴحد الّا الله عزّوجل .

خدا کثرتِ عمل نہیں چاہتا بلکہ عمل کی درستی چاہتا ہے اور درستی عمل خدا ترسی اور نیک نیّتی سے مربوط ہے ۔

اس کے بعد فرمایا:

عمل کو ریاکاری اور بد نیّتی کی آلودگیوں سے پاک رکھنا خود عمل سے کہیں زیادہ مشکل تر ہے اور عملِ خالص خالص یہ ہے کہ تُو نہ چاہے کہ خدا کے سوا کوئی اور تیری (اس عمل پر) ستائش کرے ۔

تیسرا موضوع جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ”معاد“ ہے جو آفرینش جہاں کے مسئلہ اور ہدف خلقت سے نہ ٹوٹنے والا رشتہ رکھتا ہے کیونکہ خلقتِ عالم کا مقصد انسانوں کا تکامل وارتقاء ہے اور انسانوں کا ارتقاء انھیں ایک وسیع تر اور کامل تر جہاں میں زندگی گزارنے کے لئے تیار کرتا ہے، اسی لئے فرمایا: اگر ان سے کہا جائے کہ تم مرنے کے بعد اٹھائے جاوگے تو کافر از روئے تعجب کہتے ہیں کہ اسے باور نہیں کیا جاسکتا اور اس میں کوئی حقیقت وواقعیت نہیں ہے بلکہ یہ ایک واضح جادو ہے( وَلَئِنْ قُلْتَ إِنَّکُمْ مَبْعُوثُونَ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُولَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ هٰذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِینٌ ) ۔

”کلمہ ”ھذا“ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی معاد وقیامت کے بارے میں گفتگو کی طرف اشارہ ہے یعنی کافروں کے نزدیک پیغمبر کا معاد کے بارے میں یہ دعویٰ جادو ہے اس بناء پر لفظ ”سحر“ یہاں حقیقت سے عاری بے بنیاد گفتگو اور سادہ وعام تعبیر کے مطابق فریب وشعبدہ بازی کے مترادف ہے کیونکہ جادوگر عموماً حقیقت وواقعیت سے عاری چیزیں دکھاتے ہیں لہٰذا لفظ ”سحر“ حقیقت سے خالی چیز کے معنی میں استعمال ہوسکتا ہے ۔

رہا یہ مسئلہ کہ بعض لوگوں کے نردیک ”ھذا“ قرآن مجید کی طرف اشارہ ہے اس لئے کہ قرآن اپنے سننے والوں میں ایک سحر انگیز نفوذ وجذب رکھتا ہے صحیح نظر نہیں آتا، کیونکہ آیت میں بحث معاد وقیامت کے بارے میں ہے نہ کہ قرآن کے متعلق اگرچہ قرآن کی غیر معمولی قوتِ جذب سے انکار نہیں ۔

____________________

۱۔ تفسیر نمونہ، ج۶.

۲۔ البتہ بعض اوقات تخت کرسی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس کا ایک دوسرا مفہوم ہے جسے ہم نے تفسیر نمونہ جلد۲، سورہ بقرہ میں آیت الکرسی کے ذیل میں ذکر کیا ہے ۔