تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30562
ڈاؤنلوڈ: 2379


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30562 / ڈاؤنلوڈ: 2379
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

آیات ۴۵،۴۶،۴۷

۴۵( وَنَادیٰ نُوحٌ رَبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِی مِنْ اٴَهْلِی وَإِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَاٴَنْتَ اٴَحْکَمُ الْحَاکِمِینَ ) ۔

۴۶( قَالَ یَانُوحُ إِنَّهُ لَیْسَ مِنْ اٴَهْلِکَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ فَلَاتَسْاٴَلْنِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّی اٴَعِظُکَ اٴَنْ تَکُونَ مِنَ الْجَاهِلِینَ ) ۔

۴۷( قَالَ رَبِّ إِنِّی اٴَعُوذُ بِکَ اٴَنْ اٴَسْاٴَلَکَ مَا لَیْسَ لِی بِهِ عِلْمٌ وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِی وَتَرْحَمْنِی اٴَکُنْ مِنَ الْخَاسِرِین ) ۔

ترجمہ

۴۵ ۔نوح نے اپنے پروردگار سے عرض کیا: پروردگارا! میرا بیٹا میرے خاندان میں سے ہے اور تیرا وعدہ (میرے خاندان کے بارے میں ) حق ہے اور تو تمام حکم کرنے والوں سے برتر ہے ۔

۴۶ ۔ فرمایا: اے نوح ! تیرے اہل سے نہیں ہے، وہ غیر صالح ہے، جس سے تو آگاہ نہیں وہ سوال مجھ سے نہ کر، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں تاکہ جاہلوں میں سے نہ ہو۔

۴۷ ۔عرض کیا: پروردگارا! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ تجھ سے ایسی چیز کا سوال کروں کہ جس سے میں آگاہی نہیں رکھتا اور اگر تو مجھے نہ بخشے تو میں زیاں کاروں میں سے ہوجاؤں گا ۔

پسر نوح کا دردناک انجام

ہم پڑھ چکے ہیں کہ نوح کے بیٹے نے باپ کی نصیحت نہ سنی اور آخری سانس تک اس نے ہٹ دھرمی اور بے ہودگی کو نہ چھوڑا اور آخرکار طوفان کی موجوں میں گرفتار ہوکر غرق ہوگیا ۔

زیر بحث آیات میں اس داستان کا ایک اور حصہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ جب حضرت نوحعليه‌السلام نے اپنے بیٹے کو موجوں کے درمیان دیکھا تو شفقت پدری نے جوش مارا، انھیں چاپنے بیٹے کی نجات کے بارے میں وعدہ الٰہی یاد آیا، انھوں نے درگاہ الٰہی کا رخ کیا اور کہا: پروردگارا! میرا بیٹا میرے اہل اور میرے خاندان میں سے ہے اور تونے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے خاندان کو طوفان اور ہلاکت سے نجات دے گا اور تو تمام حکم کرنے والوں سے برتر ہے اور تو ایفائے عہد کرنے میں محکم تر ہے( وَنَادیٰ نُوحٌ رَبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِی مِنْ اٴَهْلِی وَإِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَاٴَنْتَ اٴَحْکَمُ الْحَاکِمِینَ ) ۔

یہ وعدہ اسی چیزکی طرف اشارہ ہے جو اسی سورہ کی آیہ ۴۰ میں موجود ہے جہاں فرمایا گیا:

( قُلْنَا احْمِلْ فِیهَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاٴَهْلَکَ إِلاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْل ) ۔

ہم نے نوح کو حکم دیا کہ جانوروں کی ہر نوع میں سے ایک جوڑا کشتی میں سوار کرلو اور اسی طرح اپنے خاندان کو سوائے اس شخص کے جس کی نابودی کے لئے فرمان کدا جاری ہوچکا ہے ۔

حضرت نوحعليه‌السلام نے خیال کیا کہ”الا من سبق علیه القول “ سے مراد صرف ان کی بے ایمان اور مشرک بیوی ہے اور ان کا بیٹا کنعان اس میں شامل نہیں ہے لہٰذا انھوں نے بارگاہ خدا وندی میں ایسا تقاضا کیا ۔

لیکن فوراً جواب ملا، ہلا دینے والا جواب اور ایک عظیم حقیقت واضح کرنے والا جواب ، وہ حقیقت جو کہ جو رشتہ مکتب کو نسب اور خاندان کے رشتہ سے مافوق قرار دیتی ہے،”درمایا: اے نوح وہ تیرے اہل اور خاندان میں سے نہیں ہے“( قَالَ یَانُوحُ إِنَّهُ لَیْسَ مِنْ اٴَهْلِکَ ) ،”بلکہ وہ غیر صالح عمل ہے“( ا( ِٕنَّهُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ) ، وہ نالائق شخص ہے اور تجھ سے مکتبی اور مذہبی رشتہ ٹوٹنے کی وجہ سے خاندانی رشتے کی کوئی اہمیت نہیں رہی ۔

اب جب ایسا ہے تو مجھ سے ایسی چیز کا تقاضا نہ کر جس کے بارے میں تجھے علم نہیں ”( فَلَاتَسْاٴَلْنِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ ) ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ جاہلوں میں سے نہ ہوجا“( إِنِّی اٴَعِظُکَ اٴَنْ تَکُونَ مِنَ الْجَاهِلِینَ ) ۔

حضرت نوحعليه‌السلام سمجھ گئے کہ یہ تقاضا بارگاہ الٰہی میں صحیح نہ تھا اور ایسے بیٹے کی نجات کو خاندان کی نجات کے بارے میں خدا کے وعدے میں شامل نہیں سمجھنا چاہیئے تھا، لہٰذا آپ نے درگاہ پرورگار کا رخ کیا اور کہا: ”پروردگارا! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس امر سے کہ تجھ کسی ایسی چیز کی خواہش کروں جس کا علم مجھے نہیں “( قَالَ رَبِّ إِنِّی اٴَعُوذُ بِکَ اٴَنْ اٴَسْاٴَلَکَ مَا لَیْسَ لِی بِهِ عِلْمٌ ) ۔

اور اگر تونے مجھے نہ بخشا اور اپنی رحمت میرے شامل حال نہ کی تو میں زیاں کاروں میں سے ہوجاؤں گا( وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِی وَتَرْحَمْنِی اٴَکُنْ مِنَ الْخَاسِرِین ) ۔

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ حضرت نوح (علیه السلام)کا بیٹا کیوں ”عمل غیر صالح “ تھا؟

بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ اس آیت میں ایک لفظ مقدر ہے اور اصل میں اس کا مفہوم اس طرح ہے: ”انہ ذو عمل غیر صالح“۔ یعنی تیرا بیٹا غیر صالح عمل والاہے ۔

لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ بعض اوقات انسان کسی کام میں اس قدر آگے بڑھ جاتا ہے کہ گویا عین ومل ہوجاتا ہے، مختلف زبانوں کے ادب میں یہ چیز بہت نظر آتی ہے، مثلا ًکہا جاتا ہے: فلاں شخص سراپا ودل وسخاوت ہے یا فلاں شخص سراپا فساد ہے، گویا وہ اس عمل میں اس قدر غوطہ زن ہے کہ اس کی ذات عین وہی عمل ہوچکی ہے، یہ پسر نبی بھی بروں کی صحبت میں اس قدر بیٹھا اور برے اعمال اور ان کے غلط افکار میں اس طرح غوطہ زن ہوا کہ گویا اس وجود ایک غیر صالح عمل میں بدل گیا ۔

لہٰذا مندرجہ بالا تعبیر اگرچہ بہت ہی مختصر ہے لیکن ایک اہم حقیقت کی عکاس ہے، یعنی اے نوح ۱ اگر برائی، ظلم اور فساد اس بیٹے کے وجود میں سطحی طور پر ہوتا تو اس کے بارے میں امکان شفاعت تھا لیکن اب جب کہ یہ سراپا غرق فساد وتباہی ہے تو اہل شفاعت نہیں رہا، اس کی بات ہرگز نہ کرو۔

یہ جو بعض مفسرین نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ حقیقتاً یہ آپ کا بیٹا نہیں تھا (یا غیر شرعی بیٹا تھا یا آپ کی بیوی کا دوسرا شوہر سے غیر شرعی بیٹا تھا) ۔ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ”( انه عمل غیر صالح ) “کا جملہ در حقیقت”( انه لیس من اهلک ) “ کے لئے علت وسبب کی طرح ہے، یعنی یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ”تیرے اہل میں سے نہیں ہے“ اس لحاظ پر ہے کہ کردار کے لحاظ سے تجھ سے جدا ہے، گرچہ اس کا نسب تجھ سے متصل ہے ۔

۲ ۔ حضرت نوحعليه‌السلام اپنے بیٹے کے بارے میں کیوں کر متوجہ نہ تھے؟

مندرجہ بالا آیت میں حضرت نوحعليه‌السلام کی گفتگو اور خدا کی طرف سے انھیں دئےے گئے جواب کی طرف توجہ کرنے سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ حضرت نوحعليه‌السلام اس مسئلے کی طرف کیوں کر متوجہ نہ تھے کہ وعدہ الٰہی میں ان کا بیٹا شامل نہیں ۔

اس سوال کا جواب یوں دیا جاسکتا ہے کہ اس بیٹے کی کیفیت پوری طرح سے واضح نہ تھی کبھی وہ مومنین کے ساتھ ہوتا اور کبھی کفار کے ساتھ، اس کی منافقانہ چال ہر شخص کو ظاہراًاشتباہ میں ڈال دیتی تھی ۔

علاوہ ازیں اپنے بیٹے سے متعلق حضرت نوحعليه‌السلام کو شدید احساس مسئولیت تھا، پھر فطری اور طبعی لگاؤ بھی تھا جو ہر اباپ کو اپنے بیٹے سے ہوتا ہے اور انبیاء بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہیں یہی سبب ہے کہ آپ نے اس قسم کی درخواست کی لیکن جب آپ حقیقی صورت حال سے آگاہ ہوئے تو فوراً درگاہ خداوندی میں عذرخواہی اور طلب عفو کی اگرچہ آپ سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا تھا لیکن نبوت کے مقام اور حیثیت کا تقاضا تھا کہ آپ اپنی گفتارورفتار میں اس سے زیادہ متوجہ ہوتے، اتنی عظیم شخصیت ہونے کے باعث یہ آپ کا ترک اولیٰ تھا، اسی وجہ سے آپ نے بارگاہ خداوندی میں بخشش کا تقاضا کیا ۔

یہیں سے ایک اور سوال کا جواب بھی واضح ہوگیا اور وہ یہ کہ کیا انبیاء گناہ کرتے ہیں جب کہ وہ بخشش کی دعا کرتے ہیں ۔

۳ ۔ جہاں رشتہ ٹوٹ جاتا ہے

مندرجہ بالا آیات سے حضرت نوحعليه‌السلام کی سرگزشت میں سے انسانی تربیت کے حوالے سے ایک اور بلند سبق ہاتھ آتا ہے، ایسا سبق جو مادی مکتبوں میں بالکل کوئی مفہوم نہیں رکھتا لیکن ایک خدائی اور معنوی مکتب میں یہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔

مادی رشتے یعنی نسب، رشتہ داری، دوستی اور رفاقت آسمانی مکاتب میں ہمیشہ روحانی رشتوں کے تحت ہوتے ہیں اس مکتب میں نسبی وخاندانی رشتوں کا مکتبی وروحانی رشتوں کے مقابلے میں کوئی مفہوم نہیں ۔

جہاں مکتبی رابطے موجود ہیں وہاں دور افتادہ سلمان فارسی جو نہ خاندان پیغمبر سے ہے نہ قریشی ہے، مکی بھی نہیں اور اصلا عرب بھی نہیں ، وہ خاندان رسالت کا حصہ شمار ہوتا ہے جیسا کہ مشہور حدیث ہے:

سلمان منا اهل البیت

یعنی ۔ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے ۔

دوسری طرف نوح جیسے پیغمبر کا بلا فصل حقیقی بیٹا باپ سے مکتبی رشتہ ٹوڑنے کی وجہ سے اس طرح دھتکادیا جاتا ہے:

انه لیس من اهلک

یہ تیرے اہل میں سے نہیں ۔

ہوسکتا ہے مادی فکر رکھنے والوں کو یہ بات بہت گراں محسوس ہو لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو تمام ادیان آسمانی میں نظر آتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ احادیث بیتعليه‌السلام میں ان شیعوں کے بارے میں صریح اور ہلا دینے والی باتیں ہیں جو صرف ام کے شیعہ ہیں لیکن اہل بیت (علیه السلام)کی تعلیمات اور ان کے عملی پروگراموں کا ان کی زندگی میں کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا، یہ امر بھی درحقیقت اسی روش کو واضح کرتا ہے جو قرآن نے زیر نظر آیات میں سامنے رکھی ہے ۔

امام علی بن موسیٰ رضا علیہما السلام سے منقول ہے کہ آپ نے ایک دن اپنے دوستوں اور موالیوں سے یہ پوچھا کہ :یہ لوگ اس آیت کی کس طرح تفسیر کرتے ہیں ”انہ عمل غیر صالح“ (یہ غیر صالح عمل ہے )

حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا:بعض کا نظریہ ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ نوح کا بیٹا کنعان ان کا حقیقی بیٹا نہیں تھا ۔امامعليه‌السلام نے فرمایا:

کلا لقد کان ابنه ولکن لما عصی اللّٰه نفاه عین عن ابیه کذا من کان منا لم یطع اللّٰه فلیس منا ۔

یعنی ۔ ایسا نہیں ہے یقینا وہ نوح کا بیٹا تھا لیکن جب اس نے نافرمانی کی اور حکم خدا کے راستے سے منحرف ہوگیا تو خدا نے اس کے فرزند ہونے کی نفی کی، اسی طرح جو لوگ ہم میں سے ہوں لیکن خدا کی اطاعت نہ کرتے ہوں وہ ہم میں سے نہیں ہیں ۔(۱)

۴ ۔دھتکارے ہوئے مسلمان:

نا مناسب نہ ہوگا اگر ہم مندرجہ بالا آیت سے استفادہ کرتے ہوئے کچھ اسلامی احادیث کی طرف اشارہ کریں جن میں سے بہت سے لوگوں کو، جو ظاہراً مسلمانوں کے زمرے میں ہیں یا ظاہراً مکتب اہل بیتعليه‌السلام کے پیروکار ہیں ، دھتکار دیا ہے اور انھیں مومنین اور شیعوں کی صف سے نکال دیا گیا ہے ۔

۱ ۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں :من غش مسلما فلیس منا ۔

جو مسلمان بھائیوں سے دھوکی بازی اور خیانت کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔(۲)

۲ ۔ امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں :لیس بولی لی من اکل مال مؤمن حراما ۔

جو مومن کا مال ناجائز طور پر کھائے وہ میرا دوست اور موالی نہیں ہے ۔(۳)

۳ ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں :اٴلا ومَن اٴکرمه الناس اتقاء فلیس منی ۔

جان لو کہ جس کے شر سے بچنے کے لئے لوگ اس کا احترام کریں وہ مجھ نہیں ہے ۔

۴ ۔امام نے فرمایا:لیس من شیعتنا من یظلم الناس ۔

جو لوگوں پر ظلم کرے وہ ہمارا شیعہ نہیں ۔

۵ ۔ امام کاظم فرماتے ہیں :لیس منا من لم یحاسب نفسه کل یوم ۔

جو شخص ہرروز اپنا محاسبہ نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔(۴)

۶ ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں :من سمع رجلا ینادی یا للمسلمین فلم یجبه فلیس بمسلم ۔

جو شخص کسی انسان کی آواز سے سنے جو پکار رہا ہو اے مسلمانو! میری مدد کو پہنچو، میری اعانت کرو اور اس پر لبیک نہ کہے وہ مسلمان نہیں ہے ۔(۵)

۷ ۔ امام باقر علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک شخص جابر تھا، آپ نے اس سے فرمایا:

واعلم یا جابر بانّک لاتکون لنا ولیا حتی لو اجتمع علیک اهل مصرک وقالوا اٴنت رجل سوء لم یحزنک ذٰلک ولوقالوا انّک رجل صالح لم یسرک ذٰلک ولکن اعرض نفسک علی کتاب اللّٰه ۔

اے جابر! جان لو کہ تم اس وقت تک ہمارے دوست نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمھارے سارے اہل شہر جمع ہوکر تم سے کہیں کہ تو برا شخص ہے اور تو اس پر غمگین نہ ہو اور سب مل کر کہیں کہ تو اچھا آدمی ہے اور تو خوش نہ ہو بلکہ اپنے آپ کو کتاب خدا قرآن کے سامنے پیش کرو اور اچھائی اور برائی کے بارے میں قوانین وضوابط اس سے لو اور پھر تم دیکھو کہ تم کس گروہ میں سے ہو۔(۶)

یہ احادیث ان لوگوں کے نظریات پر خط بطلان کھینچتی ہے جو صرف نام پر گزارا کرتے ہیں مگر عمل اور مکتبی ارتباط کی ان میں کوئی خبر نہیں ، یہ احادیث وضاحت سے ثابت کرتی ہیں کہ خدائی پیشواؤں کے مکتب ان کی بنیاد مکتب پر ایمان اور اس کے پروگراموں کے مطابق عمل کرنا ہے اور تمام چیزوں کو اسی معیار پر پرکھا جانا چاہیئے ۔

____________________

۱۔تفسیر صافی مذکرہ آیات کے ذیل میں ۔

۲۔ سفینة البحار، ج۲، ص ۳۱۸۔

۳۔ وسائل، ج ۱۲، ص ۵۳۔

۴۔ بحار، ج۱۵، حصہ اخلاق (طبع قدیم) ۔

۵ اصول کافی، ج۲، ص ۱۶۴۔

۶۔ سفینة البحار، ج۲، ص ۴۹۱۔

آیات ۴۸،۴۹

۴۸( قِیلَ یَانُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَکَاتٍ عَلَیْکَ وَعَلیٰ اٴُمَمٍ مِمَّنْ مَعَکَ وَاٴُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ یَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

۴۹( تِلْکَ مِنْ اٴَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیهَا إِلَیْکَ مَا کُنتَ تَعْلَمُهَا اٴَنْتَ وَلَاقَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعاقِبَةَ لِلْمُتَّقِینَ ) ۔

ترجمہ

۴۸ ۔ (نوح سے) کہاگیا: اے نوح ! سلامتی اور برکت کے ساتھ جو تجھ پر اور تیرے ساتھ موجود تمام امتوں پر ہے اتر آؤ کچھ ایسی امتیں ہیں جنہیں ہم اپنی نعمتوں سے سرفراز کریں گے اس کے بعد انھیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا ۔

۴۹ ۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی (اے پیغمبر !)ہم تجھ پر وحی کرتے ہیں اور انھیں اس سے پہلے نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم لہٰذا صبر اور استقامت سے کام لو کیونکہ عاقبت پرہیزگاروں کے لئے ہے ۔

حضرت نوحعليه‌السلام باسلامت اُتر آئے

حضرت نوحعليه‌السلام اور ان کی سبق آموز سرگزشت کے بارے میں اس سورت میں آنے والی یہ آخری آیات ہیں ان میں حضرت نوحعليه‌السلام کی کشتی سے اترنے اور نئے سرے سے روئے زمین پر معمول کی زندگی گزانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے : نوح سے کہا گیا کہ سلامتی اور برکت کے ساتھ جو ہماری طرف سے تم پر اور ان پر ہے جو تیرے ساتھ ہیں اتر آؤ( قِیلَ یَانُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَکَاتٍ عَلَیْکَ وَعَلیٰ اٴُمَمٍ مِمَّنْ مَعَکَ ) ۔

اس میں شک نہیں ”طوفان“ نے زندگی کے تمام آثار کو درہم برہم کردیا تھ، فطری طور پر آباد زمینیں ، لہلہاتی چراگاہیں اور سرسبز باغ سب کے سب ویران ہوچکے تھے، اس موقع ہر شدید خطرہ تھا کہ حضرت نوح (علیه السلام)اور ان کے اصحاب اور ساتھی زندگی گزارنے اور غذا کے سلسلے میں بہت تنگی کا شکار ہوں گے لیکن خدا نے ان مومنین کو اطمینان دلایاکہ برکت الٰہی کے دروازے تم پر کھل جائیں گے اور زندگی اور معاش کے حوالے سے تمھیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہونا چاہیئے ۔

علاوہ ازیں ممکن تھا کہ حضرت نوحعليه‌السلام اور ان کے پیروکاروں کو اپنی سلامتی کے حوالے سے یہ پریشانی ہوتی کہ طوفان کے بعد باقی ماندہ ان گندے پانیوں ، جوہڑوں اور دلدلوں کے ہوتے ہوئے زندگی کے خطرے سے دوچار ہوگی لہٰذا خدائے تعالی اس سلسلے میں بھی انھیں اطمینان دلاتا ہے کہ تمھیں کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا اور وہ ذات جس نے ظالموں کی نابود ی کے لئے طوفان بھیجا ہے وہ اہل ایمان کی سلامتی اور برکت کے لئے بھی ماحول فراہم کرسکتی ہے ۔

یہ مختصر سا جملہ ہمیں سمجھا تا ہے کہ قرآن کیسے چھوٹے چھوٹے مسائل کو بھی اہمیت دیتا ہے اور انھیں جچی تلی اور خوبصورت عبارتوں کے ذریعے پیش کرتا ہے ۔

لفظ ”امم“ ”امت“کی جمع ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت نوحعليه‌السلام کے ساتھ کئی امتیں تھیں ، یہ لفظ شاید اس بنا پر کہ جو افراد حضرت نوحعليه‌السلام کے ساتھ تھے ان میں سے ہر ایک ایک قبیلے اور امت کی پیدائش کاسرچشمہ تھا، یا یہ کہ جولوگ حضرت نوحعليه‌السلام کے ساتھ تھے ان میں سے ہرگروہ الگ الگ قوم وقبیلہ سے تھا جس سے مجموعة کئے امتیں بنتی تھیں ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ لفظ”امم“ ان مختلف اصناف حیوانات کے بارے میں ہے کہ جو حضرت نوحعليه‌السلام کے ساتھ تھے کیونکہ قرآن مجید میں ان کے بارے میں لفظ امت آیا ہے، جیسا کہ سورہ انعام کی آیہ ۳۸ میں ہے:

( وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ وَلَاطَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْهِ إِلاَّ اٴُمَمٌ اٴَمْثَالُکُمْ ) ۔

کوئی روئے زمین پر چلنے والا اور کوئی پرندہ جو اپنے دو پرو کے ساتھ پرواز کرتا ہے ایسا نہیں جو تمہاری طرح کی امت نہ ہو ۔

اس بنا پر جس طرح حضرت نوحعليه‌السلام اور ان کے ساتھی پروردگار کی لامتناہی لطف وکر م کے سائے میں طوفان کے بعد ان تمام مشکلات کے باوجود سلامتی وببرکت کے ساتھ جیتے رہے اسی طرح مختلف قسم کے جانور جو حضرت نوحعليه‌السلام کے ساتھ کشتی سے اترے تھے خدا کی طرف سے سلامتی اورحفاظت کے ساتھ اور اس کے لطف کے بسائے میں زندگی بسر کرتے رہے ۔

اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے : اس تمام تر صورت حال کے باوجود آئندہ پھر انھیں مومنین کی نسل سے کئی امتیں وجود میں آئیں گی جنہیں ہم انواع واقسام کی نعتیں بخشیں گے لیکن وہ غرور وغفلت میں ڈوب جائیں گی، اس کے بعد ہمارا دردناک عذاب انھیں پہنچے گا( وَاٴُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ یَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

لہٰذا ایسا نہیں کہ صالح لوگوں کا یہ انتخاب اور طوفان کے زریعے نوع انسانی کی اصلاح کوئی آخری اصلاح ہے بلکہ رشدو تکامل کے آخری مرحلہ کو پہنچنے تک انسان اپنے ارادے کی آزادی سے سوء استفادہ کی بنا پر کبھی کبھی شر وفساد کی راہ پر قدم رکھے گا اور پھر سزا اور عذاب کا وہی پروگرام اس جہان میں اسے دامنگیر ہوگا ۔

یہ بات جاذب نظر ہے کہ مذکورہ جملے میں لفظ”سنمتعھم“(عنقریب انھیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے بہرہور کریں گے)آیا ہے اور پھر بلا فاصلہ ان کے لے عذاب وسزا کی بات کی گئی ہے، یہ اس طرح اشارہ ہے کہ کم ظرف اور ضعیف الایمان لوگوں کو نعمت فراواں میسر آجائے تو ان میں شکر گزاریاور اطاعت کا جذبہ بیدار ہونے کی بجائے اکثر طغیان و غرور کے جذبات ابھر آتے ہےں اور اس کے ساتھ ہی وہ بندگی خدا کے رشتوں کو پارہ پارہ کردیتے ہےں ۔

مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں ایک قول نقل کیا ہے جو بہت جازب ہے ، وہ کہتا ہے:

”هلک المستمتعون فی الدنیا لان الجهل یغلب علیهم والغفلته، فلا یتفکرون الا فی الدنیا و عمارتها وملاذها“ ۔

صاحبان نعمت دنیا میں ہلاک اور گمراہ ہوئے ہیں کیونکہ جہالیت اور غفلت نے ان پر غلبہ کیا ہے اور دنیا اور اس کی لذت کے علاوہ انھیں کوئی فکر نہیں ۔

یہ حقیقت دنیا کے سرمایہ دار اور دولت مند ممالک کی زندگی میں اچھی طرح دیکھی جاسکتی ہے کہ وہ زیادہ تر برائی میں ہی غوطہ زن ہےں نہ صرف یہ کہ وہ دنیا کے مستضعف اور محروم انسانوں کے نارے میں سوچتے نہیں بلکہ الٹا ہر روز ان کا خون چوسنے کے لے نئی نئی سازشیں کرتے رہتے ہےں لہٰذا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خدا انھیں جنگوں اور دیگر المناک حوادث سے دوچار کرتا ہے جو وقتی طور پر ان سے یہ نعمتیں سلب کرلتا ہےں یہ اس لے ہوتا ہے کہ شاید وہ بیدار ہوں ۔

آخری زیرے بحث آیت جس میں اس سورہ میں جاری حضرت نوحعليه‌السلام کا وقعہ ختم ہوتا ہے تمام مذکورہ واقعات کی طرف عمومی اشارہ ہوتا ہے : یہ سب غیب کی خبرے ہےں کہ جو (اے پیغمبر) ہم تجھ پر وہی کرتے ہےں( تِلْکَ مِنْ اٴَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیهَا إِلَیْک ) ، قبل ازیں تم اور تمہاری قوم اس سے ہر گز آگاہ نہ تھے( مَا کُنتَ تَعْلَمُهَا اٴَنْتَ وَلَاقَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ هٰذا ) ۔

جو کچھ تم نے سنا اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اور اپنی دعوت کے دوران نوح کو پیش آمدہ تمام مشکلات اور اس کی استقامت دکھاؤ کیونکہ آخرکار کامیابی پرہیزگاروں ہی کےلئے ہے( ا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعاقِبَةَ لِلْمُتَّقِینَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ انبیاء کے سچے واقعات

قرآن حکیم نے انبیاء کے سچے واقعات پیش فرمائے ہیں ، زیر نظر آخر میں آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان واقعات کو ہر قسم کی تحریف اور انحراف سے پاک بیان کرنا صرف وہی آسمانی کے زریعے ممکن ہے ورنہ گزشتہ لوگوں لوگوں کی کتب تاریخ میں اس قدر افسانے اور خرافات شامل ہیں کہ حق وباطل میں تمیز ممکن نہیں اور جتنی تاریخ قدیم ہوتی جاتی ہے اتنا ہی غلط ملط زیادہ ہوتی جاتی ہے، لہٰذا انبیاء اور گزشتہ اقوام کی انحراف سے پاک سرگزشت بیان کرنا خود حقانیت قرآن اور پیغمبر اسلامعليه‌السلام کی صداقت کی نشانی ہے ۔(۱)

____________________

۱۔ اس سلسلے میں تفصیل کے لئے کتاب” قرآن و آخرین پیغمبر‘ ‘ ملاحظہ فرمائیں ۔

۲ ۔انبیاء اور علم غیب

بعض لوگوں کے خیال کے برخلاف آخری زیر بحث آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علم غیب رکھتے تھے البتہ یہ آگاہی وحی الٰہی کے ذریعے ہوتی تھی اور اتنی ہی جتنی خدا چاہتا تھا یہ نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کچھ جانتے تھے اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض آیات میں علم غیب کی نفی ہوئی ہے تو وہ اس طرف اشارہ ہے کہ ان کا علم ذاتی نہیں ہے بلکہ صرف خدا کی طرف سے ہے ۔

۳ ۔ درس کی ہمہ گیری

زیر بحث آخری آیت ایک اور حقیقت بھی واضح کرتی ہے کہ انبیاء اور گزشتہ اقوام کے واقعات قرآن میں صرف امت اسلامی کو درس دینے کے لئے بیان نہیں گئے بلکہ ایک طرح سے یہ پیغمبر اکرم (ص)کی دلجوئی اور تسلی کے لئے بھی ہیں اور اس آپ کے ارادے اور دل کو تقویت بھی مقصود ہے کیونکہ آپ بھی نوع انسانی میں سے ہیں اور آپ کوبھی خدا کے مدرسے سے اسی طرح درس لینا چاہیئے، اپنے زمانے کے طاغوتوں کے خلاف قیام کے لئے زیادہ تیار ہوناچاہیئے اور راستے میں موجود کثیر مشکلات سے نہیں ڈرنا چاہیئے یعنی جیسے ان تمام ابتلا اور مشکلوں کے باوجود حضرت نوحعليه‌السلام استقامت کا مظاہرہ کرتے تھے اور ان کی مشہور طویل ترین عمر میں بہت ہی کم لوگ ایمان لائے پھر بھی وہ خوشدل تھے اسی طرح آپ بھی کسی حالت میں صبر واستقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ۔

یہاں حضرت نوحعليه‌السلام کی تعجب خیز اور عبرت انگیز داستان کو چھوڑتے ہوئے ہم ایک اور عظیم پیغمبر حضرت ہودعليه‌السلام کہ جن کے نام سے یہ سورہ موسوم ہے کی طرف آتے ہیں ۔

آیات ۵۰،۵۱،۵۲

۵۰( وَإِلیٰ عَادٍ اٴَخَاهُمْ هُودًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَهٍ غَیْرُهُ إِنْ اٴَنْتُمْ إِلاَّ مُفْتَرُونَ ) ۔

۵۱( یَاقَوْمِ لَااٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْهِ اٴَجْرًا إِنْ اٴَجْرِی إِلاَّ عَلَی الَّذِی فَطَرَنِی اٴَفَلَاتَعْقِلُونَ ) ۔

۵۲( وَیَاقَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْهِ یُرْسِلْ السَّمَاءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا وَیَزِدْکُمْ قُوَّةً إِلیٰ قُوَّتِکُمْ وَلَاتَتَوَلَّوْا مُجْرِمِینَ ) ۔

ترجمہ

۵۰ ۔ (ہم نے قوم) عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، (اس نے ان سے)کہا: اے میری قوم! اللہ کی پرستش کرو کیونکہ اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں تم صرف تہمت لگاتے ہو۔

۵۱ ۔اے میری قوم! میں تم سے کوئی اُجرت نہیں چاہتا میری اُجرت اس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا سمجھتے نہیں ہو؟۔

۵۲ ۔اور اے میری قوم! اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو پھر اس کی طرف رجو ع کرو، تاکہ وہ آسمان سے (بارش) پیہم تمہاری طرف بھیجے اور تمہاری میں مزید قوت کا اضافہ کرے اور (حق سے) منہ نہ پھیرو اور گناہ نہ کرو ۔

بہادر بت شکن

جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اس سورت میں پانچ عظیم انبیاء کی دعوت، اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات اور دعوت کے نتائج کا تذکرہ ہے گزشتہ آیات میں حضرت نوحعليه‌السلام کے بارے میں گفتگو تھی اور اب حضرت ہودعليه‌السلام کی باری ہے ۔

یہ تمام انبیاء ایک ہی منطق اور ایک ہی ہدف کے حامل تھے، انھوں نے نوع بشر کو ہر طرح کی قید وبند سے نجات دلانے اور توحید کی طرف، اس کی تمام شرائط کے ساتھ، دعوت دینے کے لئے قیام کیا، ایمان، خلوص، جد وجہد اور راہ خدا میں استقامت ان سب کا شعار تھا، ان سب کے خلاف مختلف اقوام کا رویہ بہت تنگ اور سخت تھا انھوں نے انبیاء کو طرح طرح سے ستایا اور ان کو جبر واستبداد روا رکھا ۔

زیر نظر پہلی آیت میں اس سلسلے میں فرمایا گیا ہے: ہم قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا (وَإِلیٰ عَادٍ اٴَخَاهُمْ هُودًا ) ۔

یہاں حضرت ہود (علیه السلام)کو بھائی کہا گیا تھا، یہ تعبیر یا تو اس بنا پر ہے کہ عرب اپنے تمام اہل قبیلہ کو بھائی کہتے تھے کیونکہ نسب کی اصل میں سب شریک ہوتے ہیں ، مثلا ًبنی اسد کے شخص کو ”اخواسدی“ کہتے ہیں اور مذحج قبیلہ کے شخص کو ”اخومذحج“ کہتے ہیں ، یا ہوسکتا ہے یہ اس طرف اشارہ ہو کہ حضرت ہودعليه‌السلام کا سلوک اپنی قوم سے دیگر انبیاء کی طرح بالکل برادرانہ تھا نہ کہ حاکم کا سا بلکہ ایسا بھی نہیں جو باپ اپنی اولاد سے کرتا ہے بلکہ آپ کا سلوک ایسا تھا جو ایک بھائی دوسرے بھائیوں سے کرتا ہے کہ جس میں کوئی امتیاز اور برتری کا اظہار نہ ہو۔

حضرت ہودعليه‌السلام نے بھی اپنی دعوت کا آغاز دیگر انبیاء کی طررح کیا، آپ کی پہلی دعوت توحید اور ہر قسم کے شرک کی نفی کی دعوت تھی، ہود چنے ان سے کہا: ”اے میری قوم! خدا کی عبادت کرو“( قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ ) ۔

”کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اللہ اور معبود لائق پرستش نہیں “( مَا لَکُمْ مِنْ إِلَهٍ غَیْرُهُ ) ، ”بتوں کے بارے میں تمہارا اعتقاد غلطی اور اشتباہ پر مبنی ہے اور اس میں تم خدا پر افتراء باندھتے ہو“( إِنْ اٴَنْتُمْ إِلاَّ مُفْتَرُونَ ) ۔

یہ بت خدا کے شریک ہیں نہ خیر وشر کے منشاء ومبدا اور ان سے کوئی کام بھی نہیں ہوسکتا، اس سے بڑھ کر کیا افتراء اور تہمت ہوگی کہ اس قدر بے وقعت موجودات کے لئے تم اتنے بڑے مقام ومنزلت کا اعتقاد رکھو۔

اس کے بعد حضرت ہودعليه‌السلام نے منزید کہا:اے میری قوم ! میں اپنی دعوت کے سلسلے میں تم سے کوئی توقع نہیں رکھتا تم سے کسی قسم کی اجرت نہیں چاہتا کہ تم یہ گمان کرو کہ میری یہ دادوفریاد اور جوش وخروش مال ومقام کے حصول کے لئے ہے یاتم خیال کرو کہ تمھیں مجھے کوئی بھاری معاوضہ دینا پڑے گاکہ جس کی وجہ سے تم تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوتے ہو( یَاقَوْمِ لَااٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْهِ اٴَجْرًا ) ، میری اجرت صرف اس ذات پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، جس نے مجھے روح وجسم بخشے ہیں اور تمام چیزیں جس نے مجھے عطا کی ہیں وہی جو میرا خالق ورازق ہے (ا( ِٕنْ اٴَجْرِی إِلاَّ عَلَی الَّذِی فَطَرَنِی ) ، میں اگر تمہاری ہدایت وسعادت کے لئے کوئی قدم اٹھاتا ہوں تو وہ اصولاً اس کے حکم کی اطاعت میں ہوتا ہے لہٰذا اجروجزا بھی میں اسی سے چاہتا ہوں نہ کہ تم سے، علاوہ ازیں کیا تمھارے پاس اپنی طرف سے کچھ ہے جو تم مجھے دو، جو کچھ تمھارے پاس ہے اس کی طرف سے ہے، کیا سمجھتے نہیں ہے( اٴَفَلَاتَعْقِلُونَ ) ۔

آخر میں انھیں شوق دلانے کے لئے اور اس گمراہ قوم میں حق طلبی کاجذبہ بیدار کرنے کے لئے تمام ممکن وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے مشروط طور پر مادی جزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے کہ جو اس جہان میں خدا مومنین کو عطا فرماتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے: اے میری قوم ! اپنے گناہوں پر خدا سے بخشش طلب کرو( وَیَاقَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ) ، پھر توبہ کرو اور اس کی طرف لوٹ آؤ( ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْهِ ) ، اگر تم ایسا کرلو تو وہ آسمان کو حکم دے گاکہ وہ بارش کے حیات بخش قطرے پیہم تمیاری طرف بھیجے( یُرْسِلْ السَّمَاءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا ) (۱) ، تاکہ تمھارے کھیت اور باغات کم آبی یا بے آبی کا شکار نہ ہوں اور ہمیشہ سرسبز وشاداب رہیں ، علاوہ ازیں تمھارے ایمان، تقویٰ، گناہ سے پرہیز اور خدا کی طرف رجوع اور توبہ کی وجہ سے تمہاری قوت میں مزید قوت کا اضافہ کرے گا( وَیَزِدْکُمْ قُوَّةً إِلیٰ قُوَّتِکُمْ ) ۔

یہ کبھی گمان نہ کرو کہ ایمان وتقویٰ سے تمہاری قوت میں کمی واقع ہوگی ایسا ہرگز نہیں بلکہ تمہاری جسمانی و روحانی قوت میں اضافہ ہوگ، اس کمک سے تمہارا معاشرہ آبادتر ہوہوگا، جمعیت کثیر ہوگی، اقتصادی حالات بہتر ہوں گے اور تم طاقتور، آزاد اور خود مختار ملت بن جاؤ گے، لہٰذا راہ حق سے روگردانی نہ کرو اور شاہراہ گناہ پر قدم نہ رکھو( ولَاتَتَوَلَّوْا مُجْرِمِینَ )

____________________

۱۔ ”مدرار“ جیسے کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے ”در“ کے مادہ سے ”پستان سے دودھ گرنے“ کے معنی میں ہے، بعد ازاں بارش برسنے کے معنی میں بھی بولاجانے لگا، یہ بات جاذب نظر ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ آسمان سے تم پر بارش برسائے گا بلکہ فرمایا گیا ہے کہ آسمان کو تم پر برسائے گا یعنی اس قدر بارش برسے گی کی گویا ساراآسمان برس رہا ہے، نیز اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ”مدرار“ مبالغہ کا صیغہ ہے اس سے انتہائی تاکید ظاہر ہوتی ہے ۔