تفسیر نمونہ جلد ۱۲

تفسیر نمونہ 21%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18899 / ڈاؤنلوڈ: 3545
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۱۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

تفسیر نمونہ جلد دوازدہم

تفسیرنمونه ، آیه الله العظمی مکارم شیرازی (مدظله العالی) کی ۱۵ ساله زحمات کا نتیجه ہے جس کو معظم له نے اہل قلم کی ایک جماعت کی مدد سے فارسی زبان میں تحریر فرمایا ، اس کا اردو اور عربی زبان میں ترجمه ہو کر شایع ہوچکا ہے.

تعداد جلد: ۱۵جلد

زبان: اردو

مترجم : مولانا سید صفدر حسین نجفی (رح)

تاریخ اشاعت: ربیع الثانی ۱۴۱۷هجری

سورہ بنی اسرائیل

مکہ میں نازل ہوئی

اس میں ۔ ۱۱۱ آیتیں ہیں

نام اور مقام نزول

اس کا مشہور نام ”سورئہ بنی اسرائیل“ ہے البتہ دیگر چند نام بھی ہیں ۔ مثلاً:

”سورئہ اسراء“”سورئہ سبحان“ وغیرہ(۱)

ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر نام اس سورت میں موجود مطالب کے حوالے سے ہے ۔ سورئہ بنی اسرائیل اسے اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس سورت کی ابتداء اور اختتام کا ایک اچھا خاصا حصّہ بنی اسرائیل کے بارے میں ہے ۔

”اسراء“ اسے اس کی پہلی آیت کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ جو رسولِ اکرم (ص) کے اسراء (یعنی معراج) کے بارے میں گفتگو کرتی ہے اور سورہ سبحان اسے اس کے پہلے لفظ کی وجہ سے کہتے ہیں ۔

البتہ جن روایات میں اس سورہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے ان میں اسے صرف ”بنی اسرائیل“ کہا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مفسرین نے اس سورہ کے لیے یہی نام انتخاب کیا ہے ۔

بہرحال مشہور یہ ہے کہ اس سورہ کی تمام آیتیں مکہ میں نازل ہوئی ہیں اور اس کے مفاہیم و مضامین بھی مکّی سورتوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں ۔ تا ہم بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ اس کی کچھ آیتیں مدینہ میں نازل ہوئی ہیں لیکن پہلے والا قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔

____________________

۱۔ تفسیر آلوسی ج ۱۵ ص ۲-

فضیلت

پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور امام صادق علیہ السلام سے اس سورت کی تلاوت کرنے والے کے لیے بہت زیادہ اجر و ثواب منقول ہے ۔ ان روایات میں سے ایک کہ جو امام صادق علیہ السلام سے مردی ہے اس میں آپ (ع) فرماتے ہیں :من قرء سورة بنی اسرائیل فی کل لیلة جمعة لم یمت حتّی یدرک القائم و یکون من اصحابه

جو شخص ہر شبِ جمعہ سورہ بنی اسرائیل کی تلاوت کرے گا وہ اس وقت تک دنیا سے نہ جائے گا جب تک ”قائم(ع)“کو نہ دیکھ لے اور وہ آپ کے یارو و انصار میں سے ہوگا ۔

ہم نے بارہا اس امر کا تکرار کیا ہے کہ قرآن پاک کی سورتوں کا جو اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے وہ ہرگز صرف زبانی پڑھ لینے کے لیے نہیں ہے بلکہ ان روایات میں پڑھنے سے مراد ایسا پڑھنا ہے کہ جس میں غور و فکر اور سوچ بچار شامل ہوا اور اس کے نتیجے میں انسان اس قرات اور فکر کے تقاضوں کے مطابق عمل بھی کرے ۔

خصوصاً اسی سورہ کی فضیلت سے مربوط ایک روایت میں ہے:فرّق قلبه عند ذکر الوالدین

اس سورہ کا قاری جب اس میں اللہ کی نصیحتوں تک پہنچتا ہے تو اس کے احساسات میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور ماں باپ سے محبت کا جذبہ اس میں فزوں تر ہوجاتا ہے ۔

لہٰذا وہ شخص ایسے اجر کا حامل ٹھہرتا ہے ۔

اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اگر چہ قرآنی الفاظ محترم اور اہم ہیں لیکن یہ الفاظ تمہید ہیں معانی و مفاہیم کے لیے اور معانی مقدمہ ہیں عمل کے لیے ۔

مضامین ایک نگاہ میں

ہم کہہ چکے ہیں ، جیسا کہ مشہور ہے یہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی، لہٰذا فطری امر ہے کہ اس میں مکی سورتوں کی خصوصیات موجود ہیں ۔ ان میں دعوت توحید بھی ہے،معاد کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے،مفید نصیحتیں بھی ہیں اور شرک، ظلم، انحراف اور کج روی کے خلاف بھی اس میں بہت سارا مواد ہے ۔ کہا جاسکتا ہے کہ مجموعی طور پر اس سورت کی آیتیں ان امور پر مشتمل ہیں :

۱ ۔ نبوت کے دلائل۔ بالخصوص قرآن اور معراج کے حوالے سے ۔

۲ ۔ معاد سے مربوط بحثیں ۔ انجام کار، اجر و ثواب، نامہ اعمال اور اس کے نتائج۔

۳ ۔ سورہ کے آغاز اور اختتام پر بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک حصّہ۔

۴ ۔ ارادہ و اختیار کی آزادی ۔ اور یہ کہ ہر قسم کے اچھے برے عمل کا نتیجہ خود انسان کو بھگتنا پڑتا ہے ۔

۵ ۔ اس جہان کی زندگی کا حساب کتاب دوسرے جہان کے لیے نمونہ ہے ۔

۶ ۔ ہر سطح پر حق شناسی ۔ خصوصاً اعزاء و اقرباء کے بارے میں اور ان میں سے بھی خاص طور پر ماں باپ کے بارے میں ۔

۷ ۔ فضول خرچی، کنجوسی، اولاد کشی، زناء، مالِ یتیم کھانا، کم فروشی، تکبر اور خونریزی سب حرام ہیں ۔

۸ ۔ توحید اور خداشناسی سے متعلق مباحث۔

۹ ۔ پیش حق ہر قسم کی ہٹ دھرمی کے خلاف مقابلہ اور یہ کہ گناہ انسان اور چہرہ حق کے درمیان پردہ ڈال دیتے ہیں ۔

۱۰ ۔ انسان کا مقام اور دوسری مخلوقات پر اس کی فضیلت۔

۱۱ ۔ ہر قسم کی اخلاقی اور اجتماعی بیماری کے علاج کے لیے تاثیر قرآن۔

۱۲ ۔ اعجازِ قرآن اور اس کے مقابلے کی عدم توانائی ۔

۱۳ ۔ شیطانی وسوسے اور ان کے خلاف مومنین کو تنبیہ۔

۱۴ ۔ مختلف اخلاقی تعلیمات۔

۱۵ ۔ تاریخ انبیاء کے بعض نشیب و فراز۔ تمام انسان کے لیے عبرت کے درس۔

بہر حال مجموعی طور پر عقائد، اخلاق اور معاشرت کے حوالے سے راہنمائی پر مبنی یہ ایک جامع اور کامل سورت ہے اور یہ مختلف میدانوں میں انسان کے ارتقاء و کمال کا زمینہ بن سکتی ہے ۔

یہ امر جاذب توجہ ہے کہ یہ سورت تسبیح خدا سے شروع ہوتی ہے اس کی حمد و تکبیر پر تمام ہوتی ہے ۔ تسبیح نشانی ہے ہذ قسم کے عیب و نقص سے دوری اور پاک رہنے کی اور حمد و ثنا نشانی ہے صفاتِ فضیلت سے آراستہ ہونے کے لیے اور تکبیر کمال و عظمت کی طرف بڑھنے کے لیے علامت ہے ۔

آیت ۱

( بِسْمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

۱( سُبْحَانَ الَّذِی اٴَسْریٰ بِعَبْدِهِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْاٴَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِیَهُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّه هُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ )

ترجمہ

بخشنے والے مہربان الله کے نام سے

۱ ۔ پاک و منزل ہے وہ الله کہ جو اپنے بندے کو رات مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا کہ جس کا ماحول پر برکت ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں ۔یقینا وہ سننے والا ہے ۔

معراجِ رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم

اس سورت کی پہلی آیت میں ”اسراء“کا ذکر ہے ۔راتوں رات جو رسول الله نے مسجد الحرام سے مسجدالاقصیٰ(بیت المقدس)کا سفر کیا تھا اس میں اس کا ذکر ہے ۔یہ سفر معراج کا مقدمہ بنا ۔یہ سفر جو رات کے بہت کم وقت میں مکمل ہوگیا کم از کم اس زمانے کے حالات،راستوں اور معمولات کے لحاظ سے کسی طرح بھی ممکن نہ تھا ۔یہ بالکل اعجاز آمیز اور غیر معمولی تھا ۔

پہلے فرمایا گیا ہے :منزہ ہے وہ خدا کہ جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدالحرام سے مسجدالاقصیٰ کی طرف لے یے گیا( سُبْحَانَ الَّذِی اٴَسْریٰ بِعَبْدِهِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْاٴَقْصَی ) ۔

رات کی یہ غیر معمولی سیر اس لیے تھی تاکہ ہم اسے اپنی عظمت کی نشانیاں دکھائیں( لِنُرِیَهُ مِنْ آیَاتِنَا ) ۔

آخر آیت میں فرمایا گیا ہے:الله سننے والا اور دیکھنے والا ہے( إِنَّه هُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ الله نے اپنے پیغمبر کو اس افتخار کے لیے چنا ہے تو یہ بلاوجہ نہیں ہے کیونکہ رسول کی گفتار اور ان کا کردار اس قابل تھا کہ یہ لباس ان کے بدن کے لیے بالکل زیبا تھا ۔

الله نے اپنے رسول کی گفتار سنی،اس کا کردار دیکھا اور اس مقام کے لیے اس کی لیاقت مان لی ۔

اس جملے کے بارے میں بعض مفسریں نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس اعجاز کے منکریں کو تہدید کی جائے کہ الله ان کی باتیں سنتاہے،ای کے اعمال دیکھنا ہے اور ان کی سازش سے آگاہ ہے ۔

یہ آیت نہایت مختصر اور جچے تلے الفاظ پر مشتمل ہے تا ہم اس رات کے معجزہ نما سفر کے بہت سے پہلو اس آیت سے واضح ہوجاتے ہیں :

(۱) لفظ ”اسریٰ“ نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سفررات کے وقت ہوا کیونکہ ”اسراء“عربی زبان میں رات کے سفر کے معنی ہے جبکہ لفظ”سیر“دن کے سفر کے لیے بولا جاتا ہے ۔

(۲)لفظ ”لیلا“ ایک تو ”اسرا“ کے مفہوم کی تاکید ہے اور دوسرے اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ یہ سارے کا سارا سفر ایک ہی رات میں ہوا اور اہم بات بھی یہی ہے کہ مسجدالحرام اور مسجد الاقصیٰ کے در میان ایک سوفرسخ سے زیادہ کا فاصلہ کئی دنوں بلکہ کئی ہفتوں میں طے کیا جاتا تھا جبکہ شب اسراء تھوڑے سے وقت میں یہ سفر مکمل ہوگیا ۔

(۳)لفظ ”عبد“ نشاندہی کرتا ہے کہ یہ افتخار و اکرام رسول الله کے مقام عبودیت کی وجہ سے تھا کیونکہ انسان کے لیے سب سے بلند منزل یہی ہے کہ وہ الله کا سچا اور صحیح بندہ ہوجائے ۔اس کی بارگاہ کے سوا کہیں تھا نہ جھکائے،اس کے علاوہ کسی کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے،جو بھی کام کرے فقط خدا کے لیے ہو اور جو بھی قدم اٹھائے اسی کی رضا مطلوب ہو۔

(۴)”عبد“ کی تعبیر یہ واضع کرتی ہے کہ سفر عالم بیداری میں تھا اور یہ جسمانی سیر تھی نہ کہ روحانی کیونکہ سیر روحانی کا کوئی معقول معنی خواب یا خواب کی مانند حالت کے سوا نہیں ہے لیکن لفظ”عبد“ نشاندہی کرتا ہے کہ جسم و روح پیغمبر اس سفر میں شریک تھے ۔یہ اعجاز جن میں نہیں آتا انہوں نے جو زیادہ بات کی ہے یہ ہے کہ انہوں نے آیت کی توجیہ کے نام پر اسے روحانی کہہ دیا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں فلاں شخص کو فلاں جگہ سے لے گیا تو اس کا یہ مفہوم نہیں ہوگا کہ عالم خواب میں یا عالم خیال میں یا فکری طور پر لے گیا ۔

(۵)اس سفر کا آغاز مکہ کی مسجدالحرام سے وہاں سے بیت المقدس میں موجود مسجدالاقصیٰ پہنچے(اور یہ سفر معراج آسمانی کا مقدمہ تھا کہ جس کے بارے میں ہم بعد میں دلایل پیش کریں گے) ۔

البتہ تمام مکہ کو بھی چونکہ ااحترام کی وجہ سے مسجدالحرام کہا جاتا ہے لہذا مفسرین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ رسول الله کا یہ سفر خانہ کعبہ کے قریب سے شروع ہواتھا یا کسی عزیز رشتہ دار کے گھر سے ۔لیکن اس میں شک نہیں کہ آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ سیر خانہ کعبہ سے شروع ہوئی ۔

(۶)اس سیر کا مقصد یہ تھا کہ رسول الله عظمت الٰہی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں ۔آسمانوں کی سیر بھی اسی مقصد سے تھی کہ پیغمبراکرم صلی الله علیہ وآلہ کی باعظمت روح ان آیات بینات ما مشاہدہ کرکے اور بھی عظمت و بزرگی پالے اور انسانوں کی ہدایت کے لیے آپ خوب تیار ہوجائیں ۔یہ سفر معراج بعض کوتاہ فکر لوگوں کے خیال کے بر عکس اس لیے نہ تھا کہ آپ خدا کو دیکھیں ۔ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ خدا آسمانوں میں رہتا ہے ۔

بہر حال اگر چہ رسول الله عظمت الٰہی کو پیچانتے تھے اور اس کی خلقت کی عظمت سے بھی آگاہ تھے لیکن بقولے:ولی

شنیدن کی بود مانند دیدن

سورہ نجم کی آیات میں بھی اس سفر کے آخری حصے یعنی معراج آسمانی کی طرف اشارہ کیا گیاہے ۔

ارشاد ہوتا ہے:( لَقَد رَاٰی مِن اٰیَاتِ رَبِّهِ الکُبرٰی )

اس سفر میں اس نے اپنے رب کی عظیم آیات دیکھیں ۔

(۷) ” بارکناحولہ “یہ مطلب واضح کرتا ہے کہ مسجد الاقصیٰ علاوہ اس کے کہ خود مقدس ہے اس کے اطراف کی سرزمین بھی مبارک اور با برکت ہے ۔یہ اس کی ظاہری برکات کی طرف اشارہ ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ سر سبز و شاداب سرزمین ہے ۔درخت اس زمین پر سایہ فگن ہیں ۔پانی وہاں جاری رہتا ہے اور یہ ایک آباد علاقہ ہے ۔

(۸)جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ’ ’اِنَّہ ھُوَالسَّمِیعُ الْبَصِیر“کا جملہ اس طرف اشارہ ہے کہ رسولالله کو اس نعمت کی عطا بلا وجہ نہ بلکہ اس اہلبیت و لیاقت کے باعث تھی کہ جو آپ کی گفتار و کردار سے ہویدا تھی اور الله ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے ۔

(۹)ضمنی طور پر لفظ ”سبحان “اس بات کی دلیل ہے اور رسول الله کا یہ سفر بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ الله ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے ۔

( ۱۰)” من اٰیاتنا“میں لفظ”من“نشاندہی کرتا ہے کہ آیات عظمت الٰہی اس قدر زیادہ ہیں کہ اپنی تمام تر عظمت کے با وجود رسول الله (ص) نے اس با عظمت سفر میں صرف بعض کا ہی مشاہدہ کیا ۔

مسئلہ معراج

علماء اسلام کے در میان مشہور یہ ہے کہ رسول اکرم (ص) جس وقت مکہ میں تھے تو ایک ہی رات میں آپقدرت الٰہی سے مسجد الحرام سے مسجد المقدس میں ہے ۔وہاں سے آپ آسمانوں کی طرف گئے آسمانی وسعتوں میں عظمت الٰہی کے آثار مشاہدہ کیے اور اسی رات مکہّ واپس آگئے ۔

نیز یہ بھی مشہور ہے کہ یہ زمینی اور آسمانی سیر جسم اور روح کے ساتھ تھی البتہ یہ سیر چونکہ بہت عجیب و غریب اور بے نظیر تھی لہذا بعض حضرات نے اس کی توجیہ کی اور اسے معراج روحانی قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک طرح کا خوا ب تھا یا مکاشفہ روحی تھا لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں یہ بات آیات کے ظاہری مفہوم کے بالکل خلاف ہے کیونکہ ظاہرِ آیات اس معراج کے جسمانی ہونے کی گواہی دتا ہے ۔

بہر حال اس بحث سے بہت سے سوالات پیدا پیدا ہوتے ہیو مثلاً:

۱ ۔ قرآن، حدیث اور تاریخ کی نظر سے معراج کی کیفیت کیا تھی؟

۲ ۔ شیعہ اور سنی علماء اسلام کا اس سلسلے میں کیا عقیدہ ہے؟

۳ ۔ معراج کا مقصد کیا تھا؟

۴ ۔ دور ححاضر کے علم اور سائنس کی رو سے معراج کا کیا امکان ہے؟

ان تمام مسائل کا کماحقہ، جائزہ پیش کرنا اگر چہ تفسیر کی حدود سے باہر ہے تاکہ ہم کوشش کریں گے کہ مختصراً ان تمام مسائل کو قارئین محترم کے سامنے ذکر کریں ۔

۱ ۔ معراج۔ قرآن و حدیث کی نظر میں :

قرآن حکیم کی دں سں توں میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ پہلی سورت۔ یہی سورہ بنی اسرائیل ہے ۔ اس میں اس سفر کے ابتدائی حصے کا تذکرہ ہے ۔ یعنی مکہ کی مسجد الحرام سے بیت المقدس کی مسجدِ الاقصیٰ تک کا سفر۔

اس سلسلے کی دوسری سورت۔ سورئہ نجم ہے ۔ اس کی آیت ۱۳ تا ۱۸ میں معراج کا روسرا حصہ بیان کیا گیا ہے اور یہ آسمانی سیر کے متعلق ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے-:

( وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً اٴُخْری عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَی عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاٴْوَی إِذْ یَغْشَی السِّدْرَةَ مَا یَغْشَی مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی لَقَدْ رَاٴَی مِنْ آیَاتِ رَبِّهِ الْکُبْری ٰ)

ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ۔

رسول اللہ نے فرشتہ وحی جبریل کو اس کی اصل صورت میں دوسری مرتبہ دیکھا (پہلے آپ اسے نزول وحی کے آغاز میں کوہِ حرا میں دیکھ چکے تھے) یہ ملاقات بہشت جاوداں کے پاس ہوئی ۔ یہ منظر دیکھتے ہوئے رسول اللہ کسی اشتباہ کا شکار نہ تھے ۔ آپ نے عظمت الٰہی کی عظیم نشانیاں مشاہدہ کیں ۔

یہ آیات کہ جو اکثر مفسرین کے بقول واقعہ معراج سے متعلق ہیں یہ بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں پیش خصوصاً ”مازاغ البصر و ما طغیٰ“ اس امرکا شاہد ہے کہ رسول اللہ کی آنکھ کسی خطا، اشتباہ اور انحراف سے دوچار نہیں ہوئی ۔

اس واقعے کے سلسلے میں مشہور اسلامی کتابوں میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں ۔

علماء اسلام نے ان روایات کے تو اتر اور شہرت کی گواہی دی ہے ۔ ہم نونے کے طور پر چند روایات ذکر کرتے ہیں :

۱ ۔ عظیم فقیہ و مفسر شیخ طوسی تفسیر تبیان میں زیر بحث آیت کے ذیل میں کہتے ہیں :

شیعہ علما کا مؤقف ہے کہ جس رات اللہ اپنے رسول کو مکہ سے بیت المقدس لے گیا اسی رات اس نے آپ کو آسمانوں کی طرف بلند کیا اور آپ کو اپنی عظمت کی نشانیاں دکھائیں اور یہ سب کچھ عالم بیداری میں تھا ،خواب میں نہ تھا ۔

۲ ۔ بلند مرتبہ مفسر مرحوم طبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں سورہ نجم کی آیات کے ذیل میں کہتے ہیں :

ہماری روایات میں مشہور یہ ہے کہ اللہ اپنے رسول کو اسی جسم کے ساتھ عالم بیداری و حیات میں آسمانوں پر لے گیا اور اکثر مفسرین کا یہی عقیدہ ہے ۔

۳ ۔ مشہور محدث علامہ مجلسی بحار الانوار میں کہتے ہیں :

مسجد الحرام سے بیت المقدس کی طرف اور وہاں سے آسمانوں کی طرف رسول اسلام کی سیر ایسی بات ہے جس پر آیات قرآن اور شیعہ و سنی متواتر احادیث دلالت کرتی ہیں ۔ اس کا انکار یا اسے روحانی معراج کہنا یا عالم خواب کی بات قرار دینا ۔ آئمہ ہریٰ (ع) کی احادیث سے عدم اطلاع یا یقین کی کمزوری کے باعث ہے ۔

اس کے بعد علامہ مجلسی مزید کہتے ہیں :

اگر ہم اس واقعے سے متعلقہ احادیث جمع کرنا چاہیں تو ایک ضخیم کتاب بن جائیگی ۔(۱)

۴ ۔ اہل سنت کے معاصر علماء میں سے الا زہر کے منصور علی ناصف مشہور کتاب ”التاج“ کے مصنف ہیں ۔ انہوں نے اس میں احادیث معراج کو جمع کیا ہے ۔

۵ ۔ مشہور فسر فخر الدین رازی نے زیر بحث آیت کے ذیل میں واقعہ معراج کے امکان پر بہت سی عقلی دلیلیں پیش کی ہیں ۔ دلائل ذکر کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں :

حدیث کے لحاظ سے احادیث معراج مشہور روایات میں سے عیں کہ جو اہل سنت کی کتب صحاح میں نقل ہوئی ہیں اور ان کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کی ۔

۶ ۔ شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز ادارہ ”بحوث علمیہ و افتاء و دعوة و ارشاد“ کے سر براہ ہیں وہ دور حاضر کے متعصب وہابی علماء میں سے ہیں ۔ وہ اپنی کتاب ”التحذیر من البدع“ میں کہتے ہیں :

اس میں شک نہیں ہے کہ معراج ان عظیم نشانیوں میں سے ہے جو رسول کی صداقت اور بلند منزلت پر دلالت کرتی ہیں ۔

یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں :

رسول اللہ سے اخبار متواتر نقل ہوئی ہیں کہ اللہ انہیں آسمانوں پر لے گیا اور آپ پر آسمانوں کے دروازے کھول دیئے ۔(۲)

اس نکتے کا ذکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ احادیث معراج میں بعض جعلی یا ضعیف ہیں کہ جو کسی طرح سے بھی قابل قبول نہیں ہیے یہی وجہ ہے کہ عظیم مفسر طبرسی مرحوم نے اسی زیر بحث آیت کے ذیل میں لحادیث معراج کو ان چار قسموں میں تقسیم کیا ہے:

(۱)وہ روایات جو متواتر ہونے کی وجہ سے قطعی ہیں مثلاً اصل واقعہ معراج۔

(۲) وہ احادیث کہ عقلی لحاظ سے جنہیں قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں اور وایات میں اس امر کی تصریح کی گئی ہے ۔ مثلاً صحن آسمان میں عظمتِ الٰہی کی بہت سی نشانیوں کا مشاہدہ کرنا ۔

(۳) وہ روایات جد ہمارے ہاں موجود اصول و ضوابط پر تو پوری نہیں اتر تیں البتہ ان کی توجیہ کی جاسکتی ہے ۔ مثلاً وہ احادیث جو کہتی ہیں کہ رسول الله نے آسمانوں میں ایک گروہ کو جنت میں اور ایک گروہ کو دوزخ میں ددیکھا ۔کہنا چاہئے کہ اہل جنت اور اہل دوزخ کی صفات دیکھیں (یا برزخ کی جنت اور دوزخ کی) ۔

(۴)وہ روایات جو نا معقول اور باطل امور پر مشتمل ہیں اور ان کی کیفیت ان کے جعلی ہونے پر گواہ ہے ۔ مثلاً وہ روایات جو کہتی ہیں کہ رسول الله نے خدا کو واضح طور پر دیکھا،اس کے ساتھ باتیں کیں اور اس کے پاس بیٹھے ۔ایسی احادیث کسی دلیل و منطق کے لحاظ سے درست نہیں ہیں اور بلاشبہ اس قسم کی روایات من گھڑت اور جعلی ہیں ۔

واقعہ معراج کی تاریخ کے سلسلے میں اسلامی مورخین کے درمیان اختلاف ہے ۔بعض کا خیال ہے کہ یہ واقعہ بعثت کے دسویں سال ۲۷ رجب کی شب پیش آیا ۔بعض کہتے ہیں کہ یہ بعثت کے بارہوں سال ۱۷ رمضان المبارک کی رات وقوع پذیر ہوا جبکہ بعض اسے اوائل بعثت میں میں ذکر کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے وقوع پذیر ہونے کی تاریخ میں اختلاف اصل واقعہ پر اختلاف میں حائل نہیں ہوتا ۔

اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ صرف مسلمان ہی معراج کا عقیدہ نہیں رکھتے، دیگر ادیان کے پیروکاروں میں بھی یہ عقیدہ کم و بیش موجود ہے ۔ ان میں سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں یہ عقیدہ عجیب تر صورت نظر آتا ہے جیسا کہ انجیل مرقس کے باب ۶ ، لوتا کے باب ۲۴ اور یوحنا کے باب ۲۱ میں ہے کہ:

عیسیٰ مصلوب ہونے کے بعد دفن ہوگئے تو مُردوں میں سے اٹھ کھڑے ہونے اور چالیس روز تک لوگوں میں موجود دہے پھر آسمان کی طرف چڑھ گئے(اور ہمیشہ کے لیے معراج پر چلے گئے) ۔

ضمناًیہ وضاحت بھی ہوجائے کہ بعض اسلامی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض گذشتہ انبیاء کوبھی معراج نصیب ہوئی تھی ۔

معراج جسمانی تھی یا روحانی؟

شیعہ اور سنی علمائے اسلام کے در میان مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں صورت پذیر ہوا ۔

سوورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہ نجم کی موذکرہ آیات کا مظاہری مفہوم بھی اس امر کا شاہد ہے کہ یہ واقعہ بیداری کی حالت میں پیش آیا ۔

تواریخ اسلامی بھی اس امر پر شاہد صادق ہیں ۔ تاریخ کہتی ہے:

جس دقت رسول الله نے واقعہ معراج کا ذکر کیا تو مشرکین نے شدت سے اس کا انکار کردیا اور اسے آپ کے خلاف ایک بات بنا لیا ۔

یہ بات گواہی دیتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہرگز خواب یا مکاشفہ روحانی کے مدعی نہ تھے ورنہ مخالفین اس قدر شور و غوغا نہ کرتے ۔

یہ جو حسن بصری سے روایت ہے کہ:کان فی المنام رؤیاً راٰها

یہ واقعہ خواب میں پیش آیا ۔

اور اسی طرح جو حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ:والله ما فقد جسد رسول الله و لکن عرج بروحه

خدا کی قسم بدن رسول اللہ ہم سے جدا نہیں ہوا صرف آپ کی روح آسمانوں پر گئی ۔

ایسی روایات ظاہراً سیاسی پہلو رکھتی ہیں ۔(۳)

____________________

۱۔ بحار الانوار، ج ۶ طبع قدیم ص ۳۶۸-

۲۔ التحذیر ص۷-

۳۔ حسن بصری اور حضرت عائشہ سے مروی روایات بذاتِ خود محل اشکال ہیں کیونکہ واقعہ معراج مکہ مکرمہ میں پیش آیا تھا ۔(ثاقب)

معراج کا مقصد

گزشتہ مباحث پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ معراج کا مقصد یہ نہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم دیدار خدا کے لیے آسمانوں پر جائیں ، جیسا کہ سادہ لوح افراد خیال کرتے ہیں ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مغربی دانشور بھی نا آگاہی کی بناء پر دوسروں کے سامنے اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کرنے کے لیے ایسی باتیں کرتے ہیں ۔ ان میں سے ایک مسٹر ”گیورگیو“ ہیں ۔ وہ اپنی کتاب ”محمد وہ پیغمبر ہیں جنہیں پھر سے پہچاننا چاہیے“ میں کہتے ہیں :

محمد اپنے سفر معراج میں ایسی جگہ پہنچے کہ انہیں خدا کے قلم کی آواز سنائی دی انہوں نے سمجھا کہ اللہ اپنے بندوں کے حساب کتاب میں مشغول ہے البتہ وہ اللہ کے قلم کی آواز تو سنتے تھے مگر انہیں اللہ دکھائی نہ دیتا تھا کیونکہ کوئی شخص خدا کو نہیں دیکھ سکتا خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو۔(۱)

یہ عبارت نشاندہی کرتی ہے کہ قلم لکڑی کا تھا، ایسا کہ کاغذ پر لکھتے وقت لرزتا تھا اور آواز پیدا کرتا تھا ۔اسی طرح کی اور بہت ساری خرافات اس میں موجود ہیں ۔

جبکہ مقصدِ معراج یہ تھا کہ اللہ کے عظیم پیغمبر کائنات میں بالخصوص عالمِ بالا میں موجود عظمت الٰہی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں اور انسانوں کی ہدایت و رہبری کے لیے ایک نیا ادراک اور نئی بصیرت حاصل کریں ۔

امام صادق علیہ السلام سے مقصدِ معراج پوچھا گیا تو آپ (ع)نے فرمایا:

ان الله لا یوصف بمکان، ولا یجری علیه زمان، ولکنه عزوجل اٴراد اٴن یشرف به ملائکته و سکان سماواته، و یکرمهم بمشاهدته،و یریه من عجائب عظمته ما یخبربه بعد هبوطه ۔

خدا ہر گز کوئی مکان نہیں رکھتا اور نہ اس پر کوئی زمانہ گزرتا ہے لیکن وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں اور آسمان کے باسیوں کو اپنے پیغمبر کی تشریف آوری سے عزت بخشے اور انہیں آپ کی زیارت کا شرف عطا کرے نیز آپ کو اپنی عظمت کے عجائبات دکھائے تاکہ واپس آکر آپ انہیں لوگوں سے بیان کریں ۔(۲)

____________________

۱۔ مذکورہ کتاب کے فارسی ترجمہ کا نام ہے ”محمد پیغمبری کہ از نو باید شناخت“ ص ۱۲۵ دیکھیے ۔

۲۔ تفسیر برہان،ج۲،ص۴۰۰۔

معراج اور دور حاضر کا علم اور سائنس

گزشتہ زمانے میں بعض فلاسفہ بطلیموس کی طرح یہ نظریہ رکھتے تھے کہ نو آسمان پیاز کے چھلکے کی طرح ایک دوسرے کے اوپر ہیں ۔ واقعہ معراج کو قبول کرنے میں ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ان کا یہی نظریہ تھا ۔ ان کے خیال میں اس طرح تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ آسمان شگافتہ ہوگئے تھے اور پھر آپس میں مل گئے تھے ۔(۱)

لیکن بطلیموسی نظریہ ختم ہوگیا تو آسمانوں کے شگافتہ ہونے کا مسئلہ ہی ختم ہوگیا البتہ علم ہیئت میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے معراج کے سلسلے میں نئے سوالات ابھرے ہیں مثلاً:

(۱) ایسے فضائی سفر میں پہلی رکاوٹ کشش ثقل ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مدار اور مرکز ثقل سے نکلنے کے لیے کم از کم چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔

(۲)دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ۔

(۳) تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں اس حصے میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے کہ جس حصے پر سورج کی مستقیماً روشنی پڑ رہی ہے اور اس حصے میں مار ڈالنے والی سردی ہے کہ جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرہی ۔

(۴)اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطر ناک شعاعیں ہیں کہ فضائے زمین سے اوپر موجود ہیں مثلاً کاسمک ریز Cosmic Rays الٹراوائلٹ ریز Ultra Violet Rays اور ایکس ریز X-Rays ۔ یہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے آرگانزم Organism کے لیے نقصان وہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں ۔ (زمین پر رہنے والوں کے لیے زمین کے اوپر موجود فضا کی وجہ سے ان کی تابش ختم ہوجاتی ہے) ۔

(۵) ایک اور مشکل اس سلسلے میں یہ ہے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے اگر چہ تدریجاً بے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اگر زمین کے باسی بغیر کسی تیاری اور تمہید کے خلاص جا پہنچیں تو بے وزنی سے نمٹنا بہت ہی مشکل یا ناممکن ہے ۔

(۶) آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دور حاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی شخص آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہو۔

ان امور کے جواب میں ان نکات کس طرف توجہ ضروری ہے:

(۱) ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام ترمشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔

(۲) اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی کا پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعے صورت پذیر ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے، زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ معجزہ عقلاً محال نہیں ہونا چاہئے اور یہ معجزہ بھی عقلاً ممکن ہے ۔ باقی معاملات اللہ کی قدرت سے حل ہوجاتے ہیں ۔

جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے کہ جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں ، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ۔ یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا؟

ہمیں یقین ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اس سفر کے لیے انتہائی تیز رفتار سواری دی تھی اور اس سفر میں درپیش خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے انہیں اپنی مدد کا لباس پہنایا تھا ۔ ہاں یہ سواری کس قسم کی تھی اور اس کا نام کیا تھا ۔براق؟یا کوئی اور---؟ یہ مسئلہ قدرت کا راز ہے،ہمیں اس کا علم نہیں ۔

ان تمام چیزوں سے مقطع نظر تیز ترین رفتار کے بارے میں مذکورہ نظر یہ آج کے سائنسدانوں کے درمیان متزلزل ہوچکا ہے اگر چہ آئن سٹائن اپنے مشہور نظریے پر پختہ یقین رکھتا ہے ۔

آج کے سائنسدان کہتے ہیں کہ امواج جاذبہ Rays of Attraction زمانے کی احتیاج کے بغیر آنِ واحد میں دنیا کی ایک طرف سے دوسری طرف منتقل ہوجاتی ہیں اور اپنا اثر چھوڑتی ہیں یہاں تک کہ یہ احتمال بھی ہے کہ عالم کے پھیلاؤ سے مربوط حرکات میں ایسے منظومے موجود ہیں کہ جو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے مرکز جہان سے دور ہوجاتے ہیں (ہم جانتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے اور یتارے اور نظام ہائے شمسی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں )(غور کیجئے گا) ۔

مختصر یہ کہ اس سفر کے لیے جو بھی مشکلات بیان کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی عقلی طور پر اس راہ میں حائل نہیں ہے اور ایسی کوئی بنیاد نہیں کہ واقعہ معراج کو محال عقلی سمجھا جائے ۔اس راستے میں در پیش مسائل کو حل کرنے کے لیے جو وسائل درکار ہیں وہ موجود ہوں تو ایسا ہوسکتا ہے ۔

بہرحال واقعہ معراج نہ تو عقلی دلائل کے حوالے سے نا ممکن ہے اور نہ دور حاضر کے سائنسی معیاروں کے لحاظ سے، البتہ اس کے غیر معمولی اور معجزہ ہونے کو سب قبول کرتے ہیں لہٰذا جب قطعی اور یقینی نقلی دلیل سے ثابت ہوجائے تو اسے قبول کرلینا چاہیے ۔(۲)

واقعہ معراج کے سلسلے میں کچھ اور پہلو بھی ہیں جن پر انشاء اللہ سورہ نجم کی تفسیر میں گفتگو ہوگی ۔

____________________

۱۔ بعض قدیم فلاسفہ کا نظریہ تھا کہ آسمانوں میں ایسا ہوتا ممکن نہیں ہے ۔ اصطلاح میں وہ کہتے تھے کہ افلاک میں ”خرق“ (پھٹنا) اور ”التیام“(ملنا) ممکن نہیں ۔

۲۔ مزید وضاحت کے لیے کتاب ”ہمہ می خواہند بدانند“ کی طرف رجوع فرمائیں ۔ اس میں ہم نے معراج، شق القمر اور قطبین میں عبادت کے سلسلے میں بحث کی ہے ۔

باب اوّل

نمازوں کے بارے میں

اس باب میں ان نمازوں کے بارے میں ہیں کہ جو حضرت صاحب الزمان سے منقول ہیں یا جو نماز یں حضرت کے لئے ذکر کی گئی ہیں ان نمازوں کو یہاں نقل کرتا ہوں۔

۱ ۔امام زمانہ کی نماز

مرحوم راوندی لکھتے ہیں کہ امام زمان کی نماز دو رکعت ہیں ہر رکعت میں سورہ حمد ایک مرتبہ پڑھے جب ایاک نعبد و ایاک نستعین پر پہنچے کہ اس کو ایک سو مرتبہ پڑھے اور نماز کے بعد سو مرتبہ پیغمبر پر درود بھیجے اس کے بعد اپنی حاجت کو خدا سے مانگے یہ نماز کی خاص زمان اور مکان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اس میں سورہ اور مخصوص دعا وارد نہیں ہے۔

۲ ۔ امام زمان کی ایک اور نماز

مرحوم سید بن طاوؤس فرماتے ہیں یہ نماز بھی دو رعکت ہے سورہ حمد کو پڑھے جب ایاک نعبد و ایاک نستعین تک پہنچے اس وقت سو مرتبہ ایاک نعبد و ایاک نستعین کو پڑھے اس کے بعد سورہ کو تمام کرے اس کے بعد ایک دفعہ سورہ اخلاص کو پڑھے اس کے بعد یہ دعا پڑھے دعاء

أَللَّهُمَّ عَظُمَ الْبَلاءُ ، وَبَرِحَ الْخِفاءُ ، وَانْكَشَفَ الْغِطاءُ ، وَضاقَتِ الْأَرْضُ بِما وَسِعَتِ السَّماءُ ، وَ إِلَيْكَ يا رَبِّ الْمُشْتَكى ، وَعَلَيْكَ الْمُعَوَّلُ فِي الشِّدَّةِ وَالرَّخاءِ أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، اَلَّذينَ أَمَرْتَنا بِطاعَتِهِمْ

وَعَجِّلِ اللَّهُمَّ فَرَجَهُمْ بِقائِمِهِمْ ، وَأَظْهِرْ إِعْزازَهُ ، يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِىُّ يا مُحَمَّدُ ، إِكْفِياني فَإِنَّكُما كافِيايَ ، يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِيُّ يا مُحَمَّدُ ، اُنْصُراني فَإِنَّكُما ناصِرايَ ، يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِيُّ يا مُحَمَّدُ ، إِحْفَظاني فَإِنَّكُما حافِظايَ ، يا مَوْلايَ يا صاحِبَ الزَّمانِ ثلاث مرّة ، اَلْغَوْثَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ ، أَدْرِكْني أَدْرِكْني أَدْرِكْني ، اَلْأَمانَ الْأَمانَ الْأَمانَ.( جمال الاُسبوع : ۱۸۱ ، البحار : ۱۹۱/۹۱ )

یہ نماز بھی کسی مخصوص فرمان کے اور مکان کے ساتھ مختص نہیں ہے لیکن آخر میں سورہ اخلاص اور اسی طرح دعاؤں کا پڑھنا چاہیے جنکا ذکر کیا گیا ہے۔

۳ ۔مسجد جمکران کی نماز

جناب حسن بن مثلہ جمکرانی لکھتے ہیں کہ امام زمان نے فرمایا کہ لوگوں سے کہو کہ اس مکان کی طرف زیادہ رغبت کریں اس جگہ کا احترام کریں اس مکان میں چار رکعت نماز پڑھیں دو رعکت تحیہ مسجد کہ ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور سو مرتبہ سورہ اخلاص کو پڑھے اور ہر رکوع اور سجدہ میں سات مرتبہ ذکر پڑھے اور دو رکعت نماز صاحب الزمان پڑھے اس ترتیب سے:

سورہ فاتحہ پڑھے اور جب ایّاک نعبد و ایاک نستعین پر پہنچے تو اس کو سو مرتبہ پڑھے جب نماز تمام کرے تو تھیلیل کہے اور حضرت فاطمہ الزھرا کی تسبیح پڑھے جب تسبیح تمام کرے تو سو مرتبہ محمد و آل محمد پر درود بھیجے جو بھی یہ نماز پڑھے گویا ایسا ہے کہ اس نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے۔

۴ ۔ امام زمانہ کی نماز حلّہ اور نعمانیہ میں

عالم جلیل میرزا عبداللہ اصفہانی کتاب ریاض العلماء کے جلد پنجم میں شیخ ابن ابوجواد نعمانی کے حالات میں لکھتے ہیں یہ ان لوگوں میں سے ہیں کہ جنھوں نے غیبت کبری کے زمانے میں امام زمانہ سے ملاقات کی ہے اور اس نے حضرت سے ایک روایت نقل کی ہے۔

کسی ایک کتاب میں دیکھا کہ شاگرد شہید کے خط سے لکھا ہوا تھا کہ ابن ابوجواد نعمانی نے حضرت مہدی کو دیکھا اور حضرت نے عرض کیا اے میرے مولا آپ ایک مقام نعمانیہ میں اور ایک مقام حلہ میں رکھتے ہیں وہاں کس وقت تشریف رکھتے ہیں حضرت نے فرمایا منگل کو دن اور رات نعمانیہ میں اور حلہ میں جمعہ کو دن اور رات ہوتاہوں لیکن حلہ کے لوگ میرے مقام کا احترام اور آداب کی رعایت نہیں کرتے ہیں جو بھی احترام کے ساتھ وہاں پر داخل ہو اور اس جگہ کو محترم شمار کرے مجھ پر اور اماموں کو سلام کرے نیز مجھ پر اور اماموں پر بارہ مرتبہ درود بھیجے اس کے بعد دو رکعت نماز‘ دو سوروں کے ساتھ پڑھے اور نماز میں خدا کے ساتھ مناجات کرے جو حاجات بھی رکھتاہو اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرتاہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں میں نے عرض کیا اے میرے مولا ان مناجات کو یاد کرادیں فرمایا کہو ص ۱۳۰

حضرت نے تین مرتبہ اس دعا کو تکرار کیا یہاں تک کہ میں نے اس کو سمجھا اور حفظ کی

۵ ۔ امام زمانہ کی ایک اور نماز

جناب الخلود میں نقل کیا ہے رات سوتے وقت ایک پاک برتن میں پانی ڈال کر پاک کپڑا اس پر ڈال کر سرہانے رکھے جب آخری شب نماز شب کے لئے بیدار ہوجائے تو اس سے تین گھونٹ پانی پی لے اس کے بعد باقی پانی سے وضو کرلے اور قبلہ کی طرف منہ کرے اذان اور اقامہ کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اس میں جو سورہ پڑھنا چاہئے پڑھ سکتاہے اور رکوع میں پچیس ( ۲۵) مرتبہ کہے یا غیاث المستغیثین اور رکوع کے بعد پچیس ( ۲۵) مرتبہ یہی پڑھے اسی طرح پہلے سجدہ میں بھی اور سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد بھی ہر ایک میں پچیس مرتبہ کہے اور دوسری رکعت کو بھی اسی کیفیت کے ساتھ انجام دے مجموعاً تین سو مرتبہ کہے نماز کے بعد اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرے اور تیس مرتبہ کہے من العبد الذلیل الی المولی الجلیل اس کے بعد اپنی حاجت مانگے انشاء اللہ جلد از جلد حاجت قبول ہوگی۔ اس نماز کو کتاب جنات الخود میں امام زمانہ کی طرف نسبت دی ہے لیکن مرحوم محدث قمی نے کتاب الباقیات الصالحات میں اس کو نماز استغاثہ کے عنوان سے نقل کیا ہے اور اس کو امام زمانہ کی طرف نسبت نہیں دی ہے۔

۶ ۔ نماز اور دعائے توجہ

احمد بن ابراھیم کہتاہے امام زمانہ کی زیارت کا شوق میرے دل میں پیدا ہوا اس لئے جناب ابوجعفر محمد بن عثمان سے شکایت کی جو نواب اربعہ میں سے ایک تھا جناب محمد بن عثمان نے فرمایا کہ کیا دل سے آرزو رکھتے ہو کہ امام زمانہ کی ملاقات ہوجائے میں نے کہا ہاں فرمایا خداوند تعالیٰ کے تمہاری آرزو کو پورا کرے میں تمہارا معاملہ آسان دیکھتاہوں ای ابا عبداللہ ان کی زیارت کا التماس نہ کرو چونکہ غیبت کبریٰ کے دوران ان کی زیارت کا اشتیاق رہتاہے لیکن اس اجتماع سے ان سے سوال نہیں کیا جاسکتاہے یہ آیات الٰہی میں سے ہے لیکن اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے لیکن جب آپ اس کی طرف توجہ کرنا چاہیں تو اس زیارت کے ساتھ حضرت کی طرف متوجہ ہوجائیں زیارت اس طرح کریں بارہ رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور تمام رکعتوں میں سورہ قل ھو اللہ پڑھے جب محمد و آل محمد پر درود بھیجے تو اس طرح سے خدا سے کلام کرےسلام علی آل یسین ذالک وهوالفضل المبین من عند الله والله ذوالفضل العظیم امامه من یهدیه صراطه المستقیم قد آتاکم الله خلافته یا آل یاسین ۔

۷ ۔ نماز اور دعائے فرج

مہم مشکلات دور کرنے کے لیئے ابو جعفر محمد بن جریر طبری مسند فاطمہ میں کہتے ہیں کہ ابو حسین کا تب نے کہا ابو منصور وزیر کی طرف سے میں نے ایک کام کی ذمہ داری لے لی اس ضمن میں میرے اور اس کے درمیان اختلاف واقع ہوا نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں اس کے ڈر سے چھپ گیا وہ مجھے تلاش کرنے لگا اور مجھے دھمکی بھی دی میں نے ایک مدت تک خوف اور ڈر کی وجہ سے چھپ کر زندگی گزاری میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ شب جمعہ حضرت امام موسیٰ کاظم کی مرقد پر حاضری دوں تا کہ رات کو دعاکروں اور حاجات مانگوں میں حرم میں داخل ہوا تیز بارش ہورہی تھی ابن جعفر خادم حرم سے خواہش کی کہ حرم کے دروازوں کو بند کردے تا کہ حرم میں تنہا ہی رہوں تا کہ رات کو تنہائی میں جو حاجت مانگنا چاہوں مانگوں اور جس سے میں ڈرتا تھا اس سے امن میں رہوں اس نے میری بات مانی اور دروازوں کو بند کردیا آدھی رات کو تیز بارش ہوئی لوگوں کا اس جگہ پر آنا جانا بند ہوا حرم مکمل طور پر تنہا ہوا میں راز و نیاز میں مشغول تھا دعا پڑھتا تھا زیارت کرتا تھا اور نماز پڑھتا تھا اچانک روضہ مطہرہ کے پاؤں کی طرف سے ایک آواز آئی ایک شخص زیارت میں مشغول تھا اس کے بعد اس نے حضرت آدم اور اولوالعزم پیغمبروں پر سلام بھیجا اس کے بعد ایک ایک امام پر سلام بھیجا یہاں تک کہ جب آخری امام کا نام آیا تو اس کا نام نہیں لیا مجھے اس عمل سے تعجب ہوا اپنے آپ سے کہا شاید انہوں نے فراموش کیا ہو یا اس کو نہیں جانتاہو یا اس شخص کا مذہب ایسا ہے جب وہ زیارت سے فارغ ہوئے تو دو رکعت نماز پڑھی اس کے بعد امام جواد کے مرقد کی طرف گیا اسی طرح زیارت کی اور سلام کیا اور دو رکعت نماز پڑھی میں ان کو نہیں جانتا تھا اس لیئے میں اس سے ڈرتا تھا وہ ایک مکمل جوان تھا سفید لباس پہنے ہوئے تھے سر پر عمامہ کے ساتھ تحت الحنک تھا اور بدن پر عباء تھی وہ میری طرف متوجہ ہوا اور فرمایا اے ابوحسین تم دعا ے فرج کیوں نہیں پڑھتے ہو میں نے عرض کیا کہ دعاء فرج کونسی ہے اے میرے آقا تو فرمایا دو رکعت نماز پڑھو اور کہو

يا مَنْ أَظْهَرَ الْجَميلَ وَسَتَرَ الْقَبيحَ ، يا مَنْ لَمْ يُؤاخِذْ بِالْجَريرَةِ وَلَمْ يَهْتِكِ السِّتْرَ ، يا عَظيمَ الْمَنِّ ، يا كَريمَ الصَّفْحِ ، يا مُبْتَدِئَ النِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقاقِها ، يا حَسَنَ التَّجاوُزِ ، يا واسِعَ الْمَغْفِرَةِ ، يا باسِطَ الْيَدَيْنِ بِالرَّحْمَةِ ، يا مُنْتَهى كُلِّ نَجْوى ، وَيا غايَةَ كُلِّ شَكْوى ، وَيا عَوْنَ كُلِّ مُسْتَعينٍ ، يا مُبْتَدِئاً بِالنِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقاقِها ،

”یٰا ربّٰا ہُ “ دس ۱۰ مرتبہ ”یٰا سَیَّدٰاہُ “ دس ۱۰ مرتبہ ، ” یٰا مَوْلاٰہُ ( یٰا مَوْلَیٰاہُ ) “ دس ۱۰ مرتبہ ،”یٰا غٰایَتٰاہُ“د س ۱۰ مرتبہ ،”یٰا مُنْتَھیٰ رَغْبَتٰاہُ“ دس ۱۰ مرتبہ ۔

أَسْأَلُكَ بِحَقِّ هذِهِ الْأَسْماءِ ، وَبِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرينَ عَلَيْهِمُ السَّلامُ إِلّا ما كَشَفْتَ كَرْبي ، وَنَفَّسْتَ هَمّي ، وَفَرَّجْتَ عَنّي ، وَأَصْلَحْتَ حالي

اس کے بعد جو دعاء مانگنا چاہو مانگو اس وقت دایاں رخسار کو زمین پر رکھو اور سجدہ میں سو مرتبہ کہو

يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِيُّ يا مُحَمَّدُ ، إِكْفِياني فَإِنَّكُما كافِياني ، وَانْصُراني فَإِنَّكُما ناصِراني

اس کے بعد بائیں رخسار کو زمین پر رکھے اور سو مرتبہ کہے ادرکنی یا اس سے زیادہ تکرار کرے اور کہو الغوث الغوث ایک سانس لینے کی مقدار تکرار کرے اور سجدہ سے سر اٹھائے خداوند تعالیٰ اپنے کرم سے تیری حاجت کو قبول کرے گا ان شاء اللہ۔

جس وقت میں نماز اور دعا میں مشغول ہوا وہ باہر چلے گئے میں نے نماز اور دعا تمام کی اور آیاتا کہ ابن جعفر سے اس شخص کے بارے میں پوچھوں کہ وہ کس طرح حرم میں داخل ہوا ہے تو میں نے دیکھا کہ تمام دروازے بند ہیں اور تالا لگا یا ہوا ہے میں نے تعجب کیا اپنے آپ سے کہا شاید یہ یہاں سویا ہوا ہو اورمجھے معلوم نہ ہو میں ابن جعفر کے پاس گیا وہ اس کمرہ سے کہ جس میں حرم کے تیل سے چراگ جل رہا تھا وہاں سے باہر آیا میں نے اس واقعہ کے بارے میں اس سے پوچھا اس نے کہا جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دروازے بند ہیں میں نے سامنے سارا واقعہ بیان کیا اس نے کہا وہ ہمارے مولیٰ صاحب الزمان تھے اور میں نے ایسے موقع پر جب حرم لوگوں سے خالی ہو تو ان کو دیکھا ہے اس نے اس وقت امام کی ملاقات سے محروم ہونے پر افسوس کیا طلوع فجر کے نزدیک حرم مطہر سے باہر آیا اور مقام کرخ کہ جہاں میں چھپا ہوا تھا وہاں پر گیا ابھی ظہر کا وقت نہیں ہوا تھا کہ ابومنصور کے مامور مجھ سے ملاقات کی تلاش میں تھے اور میرے دوستوں سے پوچھ گچھ کرتے تھے ان کے پاس وزیر کی طرف سے ایک امان نامہ تھا اس میں سب نیکیاں لکھی ہوئی تھی میں اپنے کسی ایک دوست کے ساتھ وزیر کے پاس چلا گیا وہ اٹھا اور مجھے بغل گیر کیا میرے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ جو آج تک نہیں دیکھا تھا اور کہا اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ میری شکایت امام زمانہ سے کرتے ہو میں نے کہا کہ میں نے اپنی طرف سے دعا اور درخواست تھی اس نے کہا وائے ہو تجھ پر گذشتہ رات یعنی شب جمعہ خواب میں امام زمان کو دیکھا وہ مجھے اچھے کاموں کا حکم دیتے تھے لیکن اس دفعہ اتنی سختی سے پیش آئے کہ میں ڈر گیا میں نے ان سے کہا لا الہ الا اللہ میں گواہی دیتاہوں کہ وہ حق ہیں گذشتہ شب اپنے مولیٰ کی بیداری کی حالت میں زیارت کی ہے اور مجھ سے وہ باتیں کہیں جو کچھ میں نے حرم امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام ) میں دیکھا تھا وہ سب بتادیا اس نے اس واقعہ سے تعجب کیا اور اس نے بہت بری نیکی کو میرے حق میں انجام دیا اور اس کی طرف سے ایسے مقام پر پہنچا کہ میں گمان نہیں کرتا تھا اور یہ سب کچھ صاحب الزمان کی برکت سے ہوا ہے۔

علامہ شیخ علی اکبرنھاوندی الحبقری الحسان میں کہتے ہیں میں نے یہ عمل کئی مرتبہ تجربہ کیا ہے اور میں نے حاجت روائی کے لئے بہت زیادہ موثر دیکھا اس لئے میں چاہتاہوں کہ اس کے موثر ہونے کو اس کے ہم عصر مرحوم ملا محمود عراقی نے جو داراالسلام میں نقل کیا ہے اس کو ذکر کروں اس کتاب میں اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: میں نے اس دعا میں بہت زیادہ معجزہ دیکھا ہے چونکہ اس عمل سے تعجب انگریز آثار کو دیکھا ہے سب سے پہلے یہ نعمت بارہ سو پینسٹھ ہجری میں ملی میں تہران میں امام جمعہ تبریز حاج میرزا باقر تبریزی کے ساتھ آقائی مھدی ملک کے گھر میں مہمان تھا وہ کسی وجہ سے تہران چلے گئے دوبارہ تبریز آنا ممنوع تھا مجھے بھی ان سے جو محبت تھی خرچہ نہ ہونے کے باوجود سفر کیا میں اپنے گھر نہیں لوٹ سکتا تھا چونکہ امام جمعہ کا مہمان تھا خوراک اس کے ساتھ تھی لیکن اور خرچ بھی تھا اور میں اس شہر والوں کے ساتھ آشنا نہیں تھا کسی سے قرض بھی نہیں لے سکتا تھا اس لئے مجھے ذرا تکلیف تھی ایک دن امام جمعہ کے ساتھ صحن میں چار دیواری کے اندر بیٹھا ہوا تھا آرام کر رہا تھا ظہر کے وقت نماز کے لئے اوپر والے کمرہ میں چلا گیا نماز میں مشغول تھا نماز کے بعد الماری میں ایک کتاب کو دیکھا بحارالانوار کی تیرھویں جلد کا ترجمہ تھا اس میں امام زمانہ کے حالت موجود تھے میں نے اس کتاب کو کھولا یہ روایت معجزات کے بارے میں ملی میں نے اپنے آپ سے کہا اس حالت میں جو مجھے سختی ہے میں اس عمل کا تجربہ کرتاہوں اٹھا نماز دعا اور سجدہ کو بجالایا اپنے مشکل کام کے لئے دعا مانگی کمرہ سے باہر آکر امام جمعہ کے پہلو میں بیٹھا اچانک ایک مرد گھر کے دروازے سے داخل ہوا اور امام جمعہ کو ایک خط دیا اور اس کے پاس ایک سفید رومال رکھا امام جمعہ نے خط پڑھا اس کو رومال کے ساتھ مجھے دیا اور کہا یہ تمہارا مال ہے میں نے خط پڑھا خط کو آقا علی اصغر تاجر تبریزی نے لکھا تھا وہ مکتوب اور بیس تومان رومال میں رکھ کر امام جمعہ کو لکھا کہ یہ رقم فلان شخص کو دیدیں میں نے اس واقعہ کی پوری تحقیق کی خط آنے کا رومال آنے کا زمانہ اور عمل کا زمانہ ایک تھا مجھے اس واقعہ سے تعجب ہوا سبحان اللہ کہہ کر ہنس دیا امام جمعہ نے تعجب کی وجہ کو پوچھا میں نے سارا واقعہ بتادیا میں نے کہا کہ جلدی اٹھیں اور انجام دیں وہ اٹھا اسی کمرہ میں گیا نماز ظہر اور عصر پڑھی اس کے بعد اس عمل کو انجام دیا ابھی تھوڑا وقت گزرا تھا کہ خبر پہنچی کہ امیر نے اس کو تہران میں حاضر کر کے اس کو معزول کردیا اور اس کو کاشان بھیجا ہے شاہ نے امام جمعہ سے معذرت کرلی اور اس کو احترام کے ساتھ تبریز بھیجا اس کے بعد میں نے اس عمل کو ذخیرہ کیا سختی میں اور مشکل حاجات میں اس کو انجام دیتا تھا میں نے عجیب و غریب آثار کا مشاہدہ کیا ایک سال وباء کی بیماری نجف اشرف میں پھیلی بہت زیادہ لوگ مرگئے لوگ اس ڈر سے مضطرب ہوگئے اس لئے میں شہر کے چھوٹے دروازہ سے باہر چلا گیا اور دروازہ کے باہر ایک خالی جگہ پر اس عمل کو انجام دیا اور خدا سے چاہا کہ یہ بیماری دور ہوجائے دوسروں کو اطلاع دئے بغیر شہر لوٹ آیا دوسرے دن وباء بیماری کے ختم ہونے کی خبر لوگوں کو دے دی جاننے والے کہنے لگے کہ آپ کیسے یہ کہتے ہو میں نے کہا میں اس کی وجہ نہیں بتاتا لیکن تم تحقیق کرلو کل رات کے بعد اگر کوئی اس بیماری میں مبتلا ہوا تو تم سچے ہو انہوں نے کہا کہ فلانی فلانی آج رات اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہے میں نے کہا ایسا نہیں ہے یقینا کل ظہر سے پہلے یا اس سے پہلے بیمار ہوا ہے تحقیق کی تو انہوں نے دیکھا جیسا میں نے کہا تھا وہ صحیح نکلااس کے بعد بیماری کے کوئی نشان دکھائی نہیں دیا لوگوں نے اس سال بیماری سے نجات حاصل کی لیکن اس کی علت کو نہیں سمجھ سکے کئی بار ایسا ہوا ہے کئی برادران کو سختی میں دیکھا اور اس عمل کو ان کو یاد کرادیا جلدی ان کے مشکلات حل ہوئے یہاں تک کہ ایک دن اپنے کسی برادر کے وہاں تھا اس کے لئے کوئی مشکلات تھیں اس کی مشکل سے باخبر ہوا میں نے یہ عمل اس کو سکھادیا گھر واپس آیا تھوڑی دیر کے بعد دروازے پر کوئی آیا تو اسی شخص کو دیکھا کہ کہتا تھا اسی دعا کی برکت سے میرا مشکل حل ہوا کچھ رقم اس کو ملی کہا تمہیں جتنی ضرورت ہے لے لے میں نے کہا اس عمل کی برکت سے میں محتاج نہیں ہوں لیکن یہ بتاؤ کہ تمہاری مشکل کس طرح حل ہوا اس نے کہا آپ کے جانے کے بعد حرم امیرالمومنین میں چلا گیا اور اس عمل کو انجام دیا روضہ مطہر سے باہر نکلا صحن میں کسی ایک شخص سے ملاقات کی مجھے جتنی رقم کی ضروت تھی اتنی رقم دیکر چلا گیا۔ خلاصہ یہ کہ میں نے اس عمل کا بہت زیادہ اثر دیکھا ہے کہ جلد از جلد میری حاجت قبول ہوئی ہے لیکن جہاں محتاج نہیں اور کوئی اضطرار موجود نہیں وہاں کسی کو نہیں دیاہے میں نے خود بھی فائدہ نہیں اٹھایا اس لئے جب خود اس بزرگوار نے اس دعا کا فرج نام رکھا ہے اس سے پتہ چلتاہے کہ یہ دعا سختی اور تکلیف کے وقت بہت زیادہ موثر ہے۔

۸- امام زمانہ کا نماز استغاثہ

امام زمانہ کی نماز استغاثہ اس طرح ہے کہ سید علی خان کلم الطیب میں فرمایا ہے یہ استغاثہ ہے امام زمانہ سے جہاں پر بھی ہو دو رکعت نماز حمد اور سورہ کیساتھ پڑھ لیں پس قبلہ کی طرف منہ کر کے آسمان کے نیچے بیٹھیں اور کہیں دعا:

سَلامُ اللَّهِ الْكامِلُ التَّامُّ الشَّامِلُ الْعامُّ ، وَصَلَواتُهُ الدَّائِمَةُ وَبَرَكاتُهُ الْقائِمَةُ التَّامَّةُ ، عَلى حُجَّةِ اللَّهِ وَوَلِيِّهِ في أَرْضِهِ وَبِلادِهِ ، وَخَليفَتِهِ عَلى خَلْقِهِ وَعِبادِهِ ، وَسُلالَةِ النُّبُوَّةِ ، وَبَقِيَّةِ الْعِتْرَةِ وَالصَّفْوَةِ ، صاحِبِ الزَّمانِ ، وَمُظْهِرِ الْإيمانِ ، وَمُلَقِّنِ أَحْكامِ الْقُرْآنِ ، وَمُطَهِّرِ الْأَرْضِ ، وَناشِرِ الْعَدْلِ فِي الطُّولِ وَالْعَرْضِ ، وَالْحُجَّةِ الْقائِمِ الْمَهْدِيِّ ، اَلْإِمامِ الْمُنْتَظَرِ الْمَرْضِيِّ ، وَابْنِ الْأَئِمَّةِ الطَّاهِرينَ ، اَلْوَصِيِّ بْنِ الْأَوْصِياءِ الْمَرْضِيّينَ ، اَلْهادِي الْمَعْصُومِ بْنِ الْأَئِمَّةِ الْهُداةِ الْمَعْصُومينَ

اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُعِزَّ الْمُؤْمِنينَ الْمُسْتَضْعَفينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُذِلَّ الْكافِرينَ المُتَكَبِّرينَ الظَّالِمينَ

اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مَوْلايَ يا صاحِبَ الزَّمانِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ فاطِمَةَ الزَّهْراءِ سَيِّدَةِ نِساءِ الْعالَمينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ الْأَئِمَّةِ الْحُجَجِ الْمَعْصُومينَ وَالْإِمامِ عَلَى الْخَلْقِ أَجْمَعينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مَوْلايَ سَلامَ مُخْلِصٍ لَكَ فِي الْوِلايَةِ

أَشْهَدُ أَنَّكَ الْإِمامُ الْمَهْدِيُّ قَوْلًا وَفِعْلًا ، وَأَنْتَ الَّذي تَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَعَدْلاً ، بَعْدَ ما مُلِئَتْ جَوْراً وَظُلْماً ، فَعَجَّلَ اللَّهُ فَرَجَكَ ، وَسَهَّلَ مَخْرَجَكَ ، وَقَرَّبَ زَمانَكَ ، وَكَثَّرَ أَنْصارَكَ وَأَعْوانَكَ ، وَأَنْجَزَ لَكَ ما وَعَدَكَ ، فَهُوَ أَصْدَقُ الْقائِلينَ « وَنُريدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوارِثينَ »

يا مَوْلايَ يا صاحِبَ الزَّمانِ ، يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، حاجَتي كَذا وَكَذا ، ثمّ اذكر حاجتك وقل : فَاشْفَعْ لي في نَجاحِها ، فَقَدْ تَوَجَّهْتُ إِلَيْكَ بِحاجَتي ، لِعِلْمي أَنَّ لَكَ عِنْدَ اللَّهِ شَفاعَةً مَقْبُولَةً ، وَمَقاماً مَحْمُوداً ، فَبِحَقِّ مَنِ اخْتَصَّكُمْ بِأَمْرِهِ ، وَارْتَضاكُمْ لِسِرِّهِ ، وَبِالشَّأْنِ الَّذي لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ ، سَلِ اللَّهَ تَعالى في نُجْحِ طَلِبَتي ، وَ إِجابَةِ دَعْوَتي ، وَكَشْفِ كُرْبَتي

کذا کذا کی جگہ اپنی حاجت کو بیان کریں اور دعا کریں جو بھی چاہیں تو وہ حاجت قبول ہوگی۔

علامہ بزرگوار شیخ محمود عراقی کتاب دارالسلام میں کہاہے کہ میں نے اس عمل سے تجربہ کیا اس سے تعجب انگیز آثار کو مشاہدہ کیا دوسرا سفر بارہ سو پچھتر ہجری میں کی

علماء میں سے ایک نے اس عمل کا تجربہ کیا اور اپنے مہم امور میں اس نے عمل کیا جو اہلیت نہیں رکھتا تھا اس کو یاد نہیں کرتے تھے میں نے اس عمل کو اس سے دریافت کیا ہے۔ درالسلام میں کہا ہے ظاہر یہ ہے کہ چاہیئے اس نماز میں سورہ فتح اور سورہ نصر کو پڑھا جائے ہم عصر فاضل کا بھی یہی نظریہ تھا بعید نہیں کہ اس کا وقت بھی آدھی رات ہو چونکہ راوی نے اس وقت اس عمل کے بجا لانے کا حکم دیا ہے اور کلام میں اس وقت کے علاوہ کوئی اور وقت نہیں ہے قدر متعین وہی آخری آدھی رات کا وقت ہے اس عالم نے بھی آخری شب کا وقت معین نہیں کیا فاضل ہم عصر کتاب البلاد الامین سے کفحمی نے نقل کیا ہے علاوہ اس کے کہ دونوں سورہ میں ہیں چاہے کہ نماز اور زیارت سے پہلے غسل کرلے اس نے کتاب مصباح الزائر میں نقل کیا ہے کہ سورہ معین نہیں ہے اس بناء پر سورہ کاتعین اظہر ہے وقت کا تعین بھی اگر اقویٰ نہ ہو تو احوط ہے لیکن اظہر یہ ہے کہ نماز اور زیارت سے پہلے غسل کا کوئی اعتبار نہیں ہے اگر چہ مستحب ہے کہ غسل کرے۔

۹ ۔ امام زمانہ کی خدمت میں نماز ہدیہ

سید بن طاوؤس فرماتے ہیں کہ ابو محمد صمیری سلسلہ سند کے ساتھ ائمہ معصومین سے نقل کرتے ہیں فرماتے ہیں اگر ممکن ہو نماز واجب اور نافلہ نماز میں اضافہ کرنا۔ تو اضافہ کرے اگر چہ دو ررکعت کی مقدار پر زور بجالائے اور اس کو ہر روز آئمہ معصومین کی خدمت میں ھدیہ بھیجے اس طریقے پر کہ اپنی نماز کو پہلی رکعت میں شروع کرے واجب نماز کی طرح ساتھ مرتبہ تکبیر یا تین مرتبہ یا ایک مرتبہ رکوع وسجود کے ذکر کے بعد تین مرتبہ کہے صلی اللہ علی محمد و آلہ الطیبین الطاہرین پس تشہد اور اسلام کے بعد چودہویں دن کے بعد نماز امام حاضر کی خدمت میں ھدیہ کرنے اور کہے ۱۴۳ اللھم ۔۔ انت تا آخر

۱۰ ۔ امام زمانہ کے لئے نماز کا ھدیہ

شیخ بزرگوار ابوجعفر طوسی کتاب مصباح کبیر میں کہتے ہیں نماز ھدیہ آٹھ رکعت ہے معصوم اماموں سے روایت ہوئی ہے انسان کے لئے ضروری ہے کہ جمعہ کے دن آٹھ رکعت نماز پڑھے چار رکعت رسول خدا کی خدمت میں دوسرے چار رکعت حضرت فاطمہ زھراء کے لئے ھدیہ کرے پھر اسی طرح ہر روز چار رکعت پڑھے اور آئمہ میں سے کسی ایک کے لئے ھدیہ پیش کرے جمعرات کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور امام صادق(علیہ السلام ) کو ھدیہ پیش کرے۔

جمعہ کے دن دوبارہ آٹھ رکعت نماز پڑھے چار رکعت حضرت رسول کے لئے اور چار رکعت حضرت فاطمہ زھرا کے لئے ھدیہ کرے اس کے بعد ہفتہ کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور حضرت امام کاظم کو ھدیہ پیش کرے اور اسی طرح جمعرات کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور حضرت امام زمانہ کے لئے ھدیہ پیش کرے اور دو رکعت کے درمیان اس دعا کو پڑھے

أَللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلامُ ، وَمِنْكَ السَّلامُ ، وَ إِلَيْكَ يَعُودُ السَّلامُ ، حَيِّنا رَبَّنا مِنْكَ بِالسَّلامِ أَللَّهُمَّ إِنَّ هذِهِ الرَّكَعاتِ هَدِيَّةٌ مِنّي إِلَى الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ ، فَصَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَبَلِّغْهُ إِيَّاها ، وَأَعْطِني أَفْضَلَ أَمَلي وَرَجائي فيكَ ، وَفي رَسُولِكَ صَلَواتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ ]وَفيهِ[ ، وتدعو بما

جو چاہتاہے اس کے لئے بھی دعا مانگے۔

۱۱ ۔ امام زمانہ کے لئے نماز استغاثہ

کتاب التحفة الرضویہ میں لکھتے ہیں عالم بزرگوار سید حسین ھمدانی نجفی نے مجھ سے کہا جس کسی کو کوئی حاجت ہو جمعرات اور جمعہ کی رات آسمان کے نیچے حالانکہ سر اور پاؤں برہنہ ہوں دو رکعت نماز پڑھے نماز کے بعد اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرے پانچسو نوے مرتبہ کہے یا حجة القائم اس کے بعد سر کو سجدہ میں رکھے اور ستر مرتبہ کہے یا صاحب الزمان اغثنی اور اپنی حاجت کی درخواست کرے یہ عمل ہر مہم حاجت کے لئے مجّرب ہے اگر ان دو راتوں میں حاجت پوری نہ ہو دوبارہ دوسرے ہفتہ میں اس عمل کو انجام دے اگر پھر بھی حاجت قبول نہ ہوئی دوبارہ تیسرے ہفتہ میں انجام دے یقینا اس کی حاجت قبول ہوگی صاحب کتاب التحفة الرضویہ نے کہا ہے کہ سید محمد علی جواہری حائری نے مجھ سے نقل کیا ہے کہ جو اس نماز کو حاجت کے لئے انجام دیتاہے اسی رات حضرت امام مھدی کو خواب میں دیکھتاہے اور اپنی حاجت کو حضرت کی خدمت میں پیش کرتاہے خداوند تعالیٰ امام زمانہ کی برکت سے اس کی مشکل کو حل اور اس کی حاجت کو پوری کرتاہے۔

۱۲ ۔ نماز استغاثہ کا ایک اور طریقہ

علامہ بزرگوار صدر الاسلا م ھمدانی اپنی عمدہ کتاب تکالیف الانام فی غیبة الامام میں اس عمل کو ایک اور طریقہ سے نقل کیا ہے اس نے سید سند استاد اور عالم ربّانی حکیم فقیہ پرہیزگار سید محمد ہندی نجفی سے اس نے عالم بزرگوار سید حسن قزوینی سے اس نے سید حسین شوشتری امام جماعت سند کے ساتھ سید علی خان سے نقل کیا ہے۔ جو صحیفہ سجادیہ کا شارح ہے کہتاہے کہ شب جمعرات اور جمعہ شب جمعہ آسمان کے نیچے چھت کے اوپر سر برہنہ دو رکعت نماز پڑھتا تھا اس کے بعد ۵۹۵ مرتبہ کہتا تھا یا حجة اللہ سے مجموع عدد وہی عبارت ہوتی ہے اور اس توسل کی تاثیر پر تجربہ ہوا ہے وہ اضافہ کرتاہے کہ عدد یا حجة القائم عبارت ہے ۱۰+ ۱ + ۸+ ۳+ ۱۰۰+ ۱-+ ۳۰ + ۱۰۰ + ۱ + ۴۰) کہ مجموعی طور پر ۵۹۵ ہے یہ ایک خاص عمل میں ہے اس کی حفاظت کی کوشش کریں میں نے بارھا اس عمل کے ساتھ تجربہ کیا ہے۔

۱۳ ۔ شبع جمعہ میں امام زمانہ کی نماز

سید بزرگوار علی بن طاوؤس فرماتے ہیں کتاب کنوز النجاح فقیہ ابو علی فضل بن حسن طبرسی کی ہے اس میں دیکھا ہے کہ ہمارے امام زمانہ سے اس طرح منقول ہے حسین بن محمد بزوفری کہتاہے کہ صاحب العصر کی جانگ سے اس طرح صادر ہوا ہے جس کسی کو خدا سے کوئی حاجت ہو شب جمعہ آدھی رات کے بعد غسل کرے اور نماز پڑھنے کی جگہ جائے اور دو رکعت نماز پڑھ لے پہلی رکعت میں سورہ حمد کو پڑھ لے جب ایّاک نعبد و ایّاک نستعین تک پہنچے تو سو مرتبہ اس آیہ کو دھرائے اس کے بعد آخری سورة تک پڑھ لے اور ایک مرتبہ سورہ توحید پڑھ لے اس کے بعد رکوع اور سجود بجا لائے اور اس کے ذکر کو سات مرتبہ پڑھے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طریقے پر پڑھے اور یہ دعا پڑھے اس کے بعد جو حاجت بھی ہو سوائے قطع صلہ رحم کے علاوہ جو بھی چاہے خدا سے مانگے اللہ تعالیٰ یقینا اس کی حاجت کو پوری کرے گا۔

اور دعا یہ ہے

أَللَّهُمَّ إِنْ أَطَعْتُكَ فَالْمَحْمَدَةُ لَكَ ، وَ إِنْ عَصَيْتُكَ فَالْحُجَّةُ لَكَ ، مِنْكَ الرَّوْحُ وَمِنْكَ الْفَرَجُ ، سُبْحانَ مَنْ أَنْعَمَ وَشَكَرَ ، سُبْحانَ مَنْ قَدَرَ وغَفَرَ

أَللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ قَدْ عَصَيْتُكَ ، فَإِنّي قَدْ أَطَعْتُكَ في أَحَبِّ الْأَشْياءِ إِلَيْكَ وَهُوَ الْإيمانُ بِكَ ، لَمْ أَتَّخِذْ لَكَ وَلَداً ، وَلَمْ أَدْعُ لَكَ شَريكاً ، مَنّاً مِنْكَ بِهِ عَلَيَّ لا مَنّاً مِنّي بِهِ عَلَيْكَ ، وَقَدْ عَصَيْتُكَ يا إِلهي عَلى غَيْرِ وَجْهِ الْمُكابَرَةِ ، وَلَا الْخُرُوجِ عَنْ عُبُودِيَّتِكَ ، وَلَا الْجُحُودِ لِرُبُوبِيَّتِكَ ، وَلكِنْ أَطَعْتُ هَوايَ ، وَأَزَلَّنِي الشَّيْطانُ

فَلَكَ الْحُجَّةُ عَلَيَّ وَالْبَيانُ ، فَإِنْ تُعَذِّبْني فَبِذُنُوبي غَيْرَ ظالِمٍ ، وَ إِنْ تَغْفِرْ لي وَتَرْحَمْني ، فَإِنَّكَ جَوادٌ كَريمٌ ، يا كَريمُ يا كَريمُ

ایک سانس میں جتناپڑھ سکتا ہے پڑھے پھر کہے:

يا آمِناً مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ ، وَكُلُّ شَيْ‏ءٍ مِنْكَ خائِفٌ حَذِرٌ ، أَسْأَلُكَ بِأَمْنِكَ مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ ، وَخَوْفِ كُلِّ شَيْ‏ءٍ مِنْكَ ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَأَنْ تُعْطِيَني أَماناً لِنَفْسي وَأَهْلي وَوَلَدي ، وَسائِرِ ما أَنْعَمْتَ بِهِ عَلَيَّ ، حَتَّى لا أَخافَ أَحَداً ، وَلا أَحْذَرَ مِنْ شَيْ‏ءٍ أَبَداً ، إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ ، وَحَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكيلُ

يا كافِيَ إِبْراهيمَ نُمْرُودَ ، يا كافِيَ مُوسى فِرْعَوْنَ ، أَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَأَنْ تَكْفِيَني شَرَّ فُلانِ بْنِ فُلانٍ

اور فلان بن فلان کی جگہ کہ جس شخص کے شر سے ڈرتاہے اس کا نام لے خداوند تعالیٰ ان شاء اللہ اس کے شر سے محفوظ رکھے گا اس کے بعد سجدہ میں چلا جائے اور اپنی حاجت خدا سے مانگے اور خدا سے تضرع اور زاری کرے چونکہ کوئی مومن مرد یا عورت نہیں ہے کہ جو بھی یہ نماز پڑھ لے اور اس دعاء کے ساتھ خلوص کے ساتھ نیت کرے مگر یہ کہ آسمان کے دروازے اجابت کے لئے اس کی طرف کھل جاتے ہیں۔ اسی وقت اور اسی رات جو حاجت بھی ہو قبول ہوجائے گی یہ اللہ کا فضل ہمارے لئے اور لوگوں کے لئے ہے۔

۱۴ ۔ امام زمانہ کی ایک اور نماز

نجم الثاقب میں اس نماز کو کتاب سید فضل اللہ راوندی سے یہ نماز حضرت امام زمانہ کے عناون سے نقل کیا ہے اور کہا ہے نماز تمام ہونے کے بعد سو مرتبہ درود بھیجے لیکن جس دعا کو میں نے ذکر کیا تھا اس کو بیان نہیں کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ نماز خاص زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

۱۵ ۔ ستائیس ماہ رجب کے دن کی نماز

احمد بن علی بن روح کہتاہے اس نماز کو محسن بن عبدالحکیم سجری نے میرے لئے نقل کیا ہے اور میں نے اس کو اس کی کتاب سے لکھا ہے وہ کہتا تھا میں نے اس نماز کو کتاب ابونصر جعفر بن محمد سے لکھا ہے وہ کہتا تھا کہ یہ نماز ابوالقاسم حسین بن روح کی طرف سے صادر ہوئی ہے۔ ستائیس رجب کے دن کی نمازیں اس میں بارہ رکعت نماز کا ذکر ہوا ہے کہ ہر رکعت میں سورہ حمد کو جس سورہ کے ساتھ چاہیں پڑھ لیں اور نماز تمام کریں پس ہر دو رکعت کے بعد یہ دعا پڑھے ۱۴۸ الحمد اللہ

جب نماز اور دعا پڑھ لے تو سورہ حمد اور قل ھوا اللہ احد قل یا ایھالکافرون۔ معوذتین۔ انا انزلناہ فی لیلة القدر آیہ الکرسی ہر ایک کو سات مرتبہ پڑھ لے اس کے بعد سات مرتبہ کہے لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و سبحان اللہ ولا حول ولا قوة الا باللہ پھر اس کے بعد سات مرتبہ پڑھیں اللہ اللہ ربّی لا اشرک بہ شیئاً اس کے بعد جو پسند کریں دعا مانگیں

۱۶ ۔ پندرہ شعبان کی رات کی نماز

ابو یحی صنعانی نے روایت کی ہے کہ اس کو قابل اطمینان تیس آدمیوں سے نقل کیا گیا ہے کہ امام باقر اور امام صادق نے فرمایا جب بھی پندرہ شعبان کی رات ہوجائے تو چار رکعت نماز پڑھ لے ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور سو مرتبہ سورہ قل ھو اللہ احد پڑھے اور نماز کے بعد یہ دعا مانگے ۱۴۹ اللھم

۱۷ ۔ پندرہ شعبان کی رات ایک اور نماز

ابو یحیٰ نے امام صادق سے روایت کی ہے اس نے امام باقر سے کہ پندرہ شعبان کی رات کے فضیلت کے بارے میں سوال ہوا تو حضرت نے فرمایا نیمہ شعبان کی رات شب قدر کے بعد سب سے افضل ترین رات ہے اس رات خداوند اپنا فضل اپنے بندوں کو عطا کرتاہے ان پر احسان کرتاہے اور بخشش دیتاہے اس بناء پر اس رات خدا سے قرب حاسل کرنے کی کوشش کرو چونکہ خدا نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ اس رات کسی سائل کو رد نہیں کرے گا جب تک خدا سے کسی معصیت کا سوائل نہ کرے یہ وہ رات ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اس کو ہم اھلبیت کے لئے قرار دیا ہے شب قدر کے برابر کہ اس کو پیغمر کے لئے قراردیا ہے ۱۵۰ پس اس رات خدا سے دعا کی کوشش کرو چونکہ جو بھی اس رات سو مرتبہ تسبیح پڑھے سوبار حمد پڑھے سو مرتبہ تکبیر کہے تو خداوند تعالیٰ ان کے گذشتہ گناہوں کو بخشتیاہے اور دنیا اور آخرت کی حاجتوں کو اسی طرح وہ حاجتیں کہ جن کا محتاج ہے لیکن خدا سے طلب نہیں کیا ہے یہ بھی خدا کے فضل سے عطا کرتاہے۔ ابو یحییٰ کہتاہے کہ میں نے امام صادق سے عرض کیا دعاؤں میں سے کس دعاء میں زیادہ فضیلت ہے حضرت نے فرمایا جب بھی نماز عشا پڑھ لیں تو دو رکعت نماز پڑھ لیں پہلی رکعت میں سورہ حمد اور سورة قل یا ایھا الکافرون اور دوسری رکعت میں سورہ حمد اور سورہ قل ھو اللہ احد کو پڑھے نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ الحمد اللہ اور ۳۴ مرتبہ کہو اللہ اکبر اس وقت کہو ۱۵۱ یا من الیہ

اس کے بعد سجدہ میں بیس مرتبہ یا رب یا اللہ کہو اور سات مرتبہ کہولا حول ولا قوة الّا باللّٰه اور دس مرتبہ کہو ماشاء اللہ اور دس مرتبہ کہو لا قوة الّا باللّٰہ اس کے بعد درود بھیجیں اور اللہ سے اپنی حاجت مانگیں خداوند تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو عطا کرے گا۔

مولف: چار رکعت بھی وارد ہے کہ جو ظہر عاشور کے وقت پڑھی جاتی ہیں اس کے بعد ایک دعا پڑھی جاتی ہے طولانی کی وجہ سے مہینوں کے دعاؤں ادعیہ ص ۲۴۱ میں ذکر کیا گیا ہے

باب اوّل

نمازوں کے بارے میں

اس باب میں ان نمازوں کے بارے میں ہیں کہ جو حضرت صاحب الزمان سے منقول ہیں یا جو نماز یں حضرت کے لئے ذکر کی گئی ہیں ان نمازوں کو یہاں نقل کرتا ہوں۔

۱ ۔امام زمانہ کی نماز

مرحوم راوندی لکھتے ہیں کہ امام زمان کی نماز دو رکعت ہیں ہر رکعت میں سورہ حمد ایک مرتبہ پڑھے جب ایاک نعبد و ایاک نستعین پر پہنچے کہ اس کو ایک سو مرتبہ پڑھے اور نماز کے بعد سو مرتبہ پیغمبر پر درود بھیجے اس کے بعد اپنی حاجت کو خدا سے مانگے یہ نماز کی خاص زمان اور مکان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اس میں سورہ اور مخصوص دعا وارد نہیں ہے۔

۲ ۔ امام زمان کی ایک اور نماز

مرحوم سید بن طاوؤس فرماتے ہیں یہ نماز بھی دو رعکت ہے سورہ حمد کو پڑھے جب ایاک نعبد و ایاک نستعین تک پہنچے اس وقت سو مرتبہ ایاک نعبد و ایاک نستعین کو پڑھے اس کے بعد سورہ کو تمام کرے اس کے بعد ایک دفعہ سورہ اخلاص کو پڑھے اس کے بعد یہ دعا پڑھے دعاء

أَللَّهُمَّ عَظُمَ الْبَلاءُ ، وَبَرِحَ الْخِفاءُ ، وَانْكَشَفَ الْغِطاءُ ، وَضاقَتِ الْأَرْضُ بِما وَسِعَتِ السَّماءُ ، وَ إِلَيْكَ يا رَبِّ الْمُشْتَكى ، وَعَلَيْكَ الْمُعَوَّلُ فِي الشِّدَّةِ وَالرَّخاءِ أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، اَلَّذينَ أَمَرْتَنا بِطاعَتِهِمْ

وَعَجِّلِ اللَّهُمَّ فَرَجَهُمْ بِقائِمِهِمْ ، وَأَظْهِرْ إِعْزازَهُ ، يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِىُّ يا مُحَمَّدُ ، إِكْفِياني فَإِنَّكُما كافِيايَ ، يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِيُّ يا مُحَمَّدُ ، اُنْصُراني فَإِنَّكُما ناصِرايَ ، يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِيُّ يا مُحَمَّدُ ، إِحْفَظاني فَإِنَّكُما حافِظايَ ، يا مَوْلايَ يا صاحِبَ الزَّمانِ ثلاث مرّة ، اَلْغَوْثَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ ، أَدْرِكْني أَدْرِكْني أَدْرِكْني ، اَلْأَمانَ الْأَمانَ الْأَمانَ.( جمال الاُسبوع : ۱۸۱ ، البحار : ۱۹۱/۹۱ )

یہ نماز بھی کسی مخصوص فرمان کے اور مکان کے ساتھ مختص نہیں ہے لیکن آخر میں سورہ اخلاص اور اسی طرح دعاؤں کا پڑھنا چاہیے جنکا ذکر کیا گیا ہے۔

۳ ۔مسجد جمکران کی نماز

جناب حسن بن مثلہ جمکرانی لکھتے ہیں کہ امام زمان نے فرمایا کہ لوگوں سے کہو کہ اس مکان کی طرف زیادہ رغبت کریں اس جگہ کا احترام کریں اس مکان میں چار رکعت نماز پڑھیں دو رعکت تحیہ مسجد کہ ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور سو مرتبہ سورہ اخلاص کو پڑھے اور ہر رکوع اور سجدہ میں سات مرتبہ ذکر پڑھے اور دو رکعت نماز صاحب الزمان پڑھے اس ترتیب سے:

سورہ فاتحہ پڑھے اور جب ایّاک نعبد و ایاک نستعین پر پہنچے تو اس کو سو مرتبہ پڑھے جب نماز تمام کرے تو تھیلیل کہے اور حضرت فاطمہ الزھرا کی تسبیح پڑھے جب تسبیح تمام کرے تو سو مرتبہ محمد و آل محمد پر درود بھیجے جو بھی یہ نماز پڑھے گویا ایسا ہے کہ اس نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے۔

۴ ۔ امام زمانہ کی نماز حلّہ اور نعمانیہ میں

عالم جلیل میرزا عبداللہ اصفہانی کتاب ریاض العلماء کے جلد پنجم میں شیخ ابن ابوجواد نعمانی کے حالات میں لکھتے ہیں یہ ان لوگوں میں سے ہیں کہ جنھوں نے غیبت کبری کے زمانے میں امام زمانہ سے ملاقات کی ہے اور اس نے حضرت سے ایک روایت نقل کی ہے۔

کسی ایک کتاب میں دیکھا کہ شاگرد شہید کے خط سے لکھا ہوا تھا کہ ابن ابوجواد نعمانی نے حضرت مہدی کو دیکھا اور حضرت نے عرض کیا اے میرے مولا آپ ایک مقام نعمانیہ میں اور ایک مقام حلہ میں رکھتے ہیں وہاں کس وقت تشریف رکھتے ہیں حضرت نے فرمایا منگل کو دن اور رات نعمانیہ میں اور حلہ میں جمعہ کو دن اور رات ہوتاہوں لیکن حلہ کے لوگ میرے مقام کا احترام اور آداب کی رعایت نہیں کرتے ہیں جو بھی احترام کے ساتھ وہاں پر داخل ہو اور اس جگہ کو محترم شمار کرے مجھ پر اور اماموں کو سلام کرے نیز مجھ پر اور اماموں پر بارہ مرتبہ درود بھیجے اس کے بعد دو رکعت نماز‘ دو سوروں کے ساتھ پڑھے اور نماز میں خدا کے ساتھ مناجات کرے جو حاجات بھی رکھتاہو اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرتاہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں میں نے عرض کیا اے میرے مولا ان مناجات کو یاد کرادیں فرمایا کہو ص ۱۳۰

حضرت نے تین مرتبہ اس دعا کو تکرار کیا یہاں تک کہ میں نے اس کو سمجھا اور حفظ کی

۵ ۔ امام زمانہ کی ایک اور نماز

جناب الخلود میں نقل کیا ہے رات سوتے وقت ایک پاک برتن میں پانی ڈال کر پاک کپڑا اس پر ڈال کر سرہانے رکھے جب آخری شب نماز شب کے لئے بیدار ہوجائے تو اس سے تین گھونٹ پانی پی لے اس کے بعد باقی پانی سے وضو کرلے اور قبلہ کی طرف منہ کرے اذان اور اقامہ کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اس میں جو سورہ پڑھنا چاہئے پڑھ سکتاہے اور رکوع میں پچیس ( ۲۵) مرتبہ کہے یا غیاث المستغیثین اور رکوع کے بعد پچیس ( ۲۵) مرتبہ یہی پڑھے اسی طرح پہلے سجدہ میں بھی اور سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد بھی ہر ایک میں پچیس مرتبہ کہے اور دوسری رکعت کو بھی اسی کیفیت کے ساتھ انجام دے مجموعاً تین سو مرتبہ کہے نماز کے بعد اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرے اور تیس مرتبہ کہے من العبد الذلیل الی المولی الجلیل اس کے بعد اپنی حاجت مانگے انشاء اللہ جلد از جلد حاجت قبول ہوگی۔ اس نماز کو کتاب جنات الخود میں امام زمانہ کی طرف نسبت دی ہے لیکن مرحوم محدث قمی نے کتاب الباقیات الصالحات میں اس کو نماز استغاثہ کے عنوان سے نقل کیا ہے اور اس کو امام زمانہ کی طرف نسبت نہیں دی ہے۔

۶ ۔ نماز اور دعائے توجہ

احمد بن ابراھیم کہتاہے امام زمانہ کی زیارت کا شوق میرے دل میں پیدا ہوا اس لئے جناب ابوجعفر محمد بن عثمان سے شکایت کی جو نواب اربعہ میں سے ایک تھا جناب محمد بن عثمان نے فرمایا کہ کیا دل سے آرزو رکھتے ہو کہ امام زمانہ کی ملاقات ہوجائے میں نے کہا ہاں فرمایا خداوند تعالیٰ کے تمہاری آرزو کو پورا کرے میں تمہارا معاملہ آسان دیکھتاہوں ای ابا عبداللہ ان کی زیارت کا التماس نہ کرو چونکہ غیبت کبریٰ کے دوران ان کی زیارت کا اشتیاق رہتاہے لیکن اس اجتماع سے ان سے سوال نہیں کیا جاسکتاہے یہ آیات الٰہی میں سے ہے لیکن اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے لیکن جب آپ اس کی طرف توجہ کرنا چاہیں تو اس زیارت کے ساتھ حضرت کی طرف متوجہ ہوجائیں زیارت اس طرح کریں بارہ رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور تمام رکعتوں میں سورہ قل ھو اللہ پڑھے جب محمد و آل محمد پر درود بھیجے تو اس طرح سے خدا سے کلام کرےسلام علی آل یسین ذالک وهوالفضل المبین من عند الله والله ذوالفضل العظیم امامه من یهدیه صراطه المستقیم قد آتاکم الله خلافته یا آل یاسین ۔

۷ ۔ نماز اور دعائے فرج

مہم مشکلات دور کرنے کے لیئے ابو جعفر محمد بن جریر طبری مسند فاطمہ میں کہتے ہیں کہ ابو حسین کا تب نے کہا ابو منصور وزیر کی طرف سے میں نے ایک کام کی ذمہ داری لے لی اس ضمن میں میرے اور اس کے درمیان اختلاف واقع ہوا نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں اس کے ڈر سے چھپ گیا وہ مجھے تلاش کرنے لگا اور مجھے دھمکی بھی دی میں نے ایک مدت تک خوف اور ڈر کی وجہ سے چھپ کر زندگی گزاری میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ شب جمعہ حضرت امام موسیٰ کاظم کی مرقد پر حاضری دوں تا کہ رات کو دعاکروں اور حاجات مانگوں میں حرم میں داخل ہوا تیز بارش ہورہی تھی ابن جعفر خادم حرم سے خواہش کی کہ حرم کے دروازوں کو بند کردے تا کہ حرم میں تنہا ہی رہوں تا کہ رات کو تنہائی میں جو حاجت مانگنا چاہوں مانگوں اور جس سے میں ڈرتا تھا اس سے امن میں رہوں اس نے میری بات مانی اور دروازوں کو بند کردیا آدھی رات کو تیز بارش ہوئی لوگوں کا اس جگہ پر آنا جانا بند ہوا حرم مکمل طور پر تنہا ہوا میں راز و نیاز میں مشغول تھا دعا پڑھتا تھا زیارت کرتا تھا اور نماز پڑھتا تھا اچانک روضہ مطہرہ کے پاؤں کی طرف سے ایک آواز آئی ایک شخص زیارت میں مشغول تھا اس کے بعد اس نے حضرت آدم اور اولوالعزم پیغمبروں پر سلام بھیجا اس کے بعد ایک ایک امام پر سلام بھیجا یہاں تک کہ جب آخری امام کا نام آیا تو اس کا نام نہیں لیا مجھے اس عمل سے تعجب ہوا اپنے آپ سے کہا شاید انہوں نے فراموش کیا ہو یا اس کو نہیں جانتاہو یا اس شخص کا مذہب ایسا ہے جب وہ زیارت سے فارغ ہوئے تو دو رکعت نماز پڑھی اس کے بعد امام جواد کے مرقد کی طرف گیا اسی طرح زیارت کی اور سلام کیا اور دو رکعت نماز پڑھی میں ان کو نہیں جانتا تھا اس لیئے میں اس سے ڈرتا تھا وہ ایک مکمل جوان تھا سفید لباس پہنے ہوئے تھے سر پر عمامہ کے ساتھ تحت الحنک تھا اور بدن پر عباء تھی وہ میری طرف متوجہ ہوا اور فرمایا اے ابوحسین تم دعا ے فرج کیوں نہیں پڑھتے ہو میں نے عرض کیا کہ دعاء فرج کونسی ہے اے میرے آقا تو فرمایا دو رکعت نماز پڑھو اور کہو

يا مَنْ أَظْهَرَ الْجَميلَ وَسَتَرَ الْقَبيحَ ، يا مَنْ لَمْ يُؤاخِذْ بِالْجَريرَةِ وَلَمْ يَهْتِكِ السِّتْرَ ، يا عَظيمَ الْمَنِّ ، يا كَريمَ الصَّفْحِ ، يا مُبْتَدِئَ النِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقاقِها ، يا حَسَنَ التَّجاوُزِ ، يا واسِعَ الْمَغْفِرَةِ ، يا باسِطَ الْيَدَيْنِ بِالرَّحْمَةِ ، يا مُنْتَهى كُلِّ نَجْوى ، وَيا غايَةَ كُلِّ شَكْوى ، وَيا عَوْنَ كُلِّ مُسْتَعينٍ ، يا مُبْتَدِئاً بِالنِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقاقِها ،

”یٰا ربّٰا ہُ “ دس ۱۰ مرتبہ ”یٰا سَیَّدٰاہُ “ دس ۱۰ مرتبہ ، ” یٰا مَوْلاٰہُ ( یٰا مَوْلَیٰاہُ ) “ دس ۱۰ مرتبہ ،”یٰا غٰایَتٰاہُ“د س ۱۰ مرتبہ ،”یٰا مُنْتَھیٰ رَغْبَتٰاہُ“ دس ۱۰ مرتبہ ۔

أَسْأَلُكَ بِحَقِّ هذِهِ الْأَسْماءِ ، وَبِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرينَ عَلَيْهِمُ السَّلامُ إِلّا ما كَشَفْتَ كَرْبي ، وَنَفَّسْتَ هَمّي ، وَفَرَّجْتَ عَنّي ، وَأَصْلَحْتَ حالي

اس کے بعد جو دعاء مانگنا چاہو مانگو اس وقت دایاں رخسار کو زمین پر رکھو اور سجدہ میں سو مرتبہ کہو

يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِيُّ يا مُحَمَّدُ ، إِكْفِياني فَإِنَّكُما كافِياني ، وَانْصُراني فَإِنَّكُما ناصِراني

اس کے بعد بائیں رخسار کو زمین پر رکھے اور سو مرتبہ کہے ادرکنی یا اس سے زیادہ تکرار کرے اور کہو الغوث الغوث ایک سانس لینے کی مقدار تکرار کرے اور سجدہ سے سر اٹھائے خداوند تعالیٰ اپنے کرم سے تیری حاجت کو قبول کرے گا ان شاء اللہ۔

جس وقت میں نماز اور دعا میں مشغول ہوا وہ باہر چلے گئے میں نے نماز اور دعا تمام کی اور آیاتا کہ ابن جعفر سے اس شخص کے بارے میں پوچھوں کہ وہ کس طرح حرم میں داخل ہوا ہے تو میں نے دیکھا کہ تمام دروازے بند ہیں اور تالا لگا یا ہوا ہے میں نے تعجب کیا اپنے آپ سے کہا شاید یہ یہاں سویا ہوا ہو اورمجھے معلوم نہ ہو میں ابن جعفر کے پاس گیا وہ اس کمرہ سے کہ جس میں حرم کے تیل سے چراگ جل رہا تھا وہاں سے باہر آیا میں نے اس واقعہ کے بارے میں اس سے پوچھا اس نے کہا جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دروازے بند ہیں میں نے سامنے سارا واقعہ بیان کیا اس نے کہا وہ ہمارے مولیٰ صاحب الزمان تھے اور میں نے ایسے موقع پر جب حرم لوگوں سے خالی ہو تو ان کو دیکھا ہے اس نے اس وقت امام کی ملاقات سے محروم ہونے پر افسوس کیا طلوع فجر کے نزدیک حرم مطہر سے باہر آیا اور مقام کرخ کہ جہاں میں چھپا ہوا تھا وہاں پر گیا ابھی ظہر کا وقت نہیں ہوا تھا کہ ابومنصور کے مامور مجھ سے ملاقات کی تلاش میں تھے اور میرے دوستوں سے پوچھ گچھ کرتے تھے ان کے پاس وزیر کی طرف سے ایک امان نامہ تھا اس میں سب نیکیاں لکھی ہوئی تھی میں اپنے کسی ایک دوست کے ساتھ وزیر کے پاس چلا گیا وہ اٹھا اور مجھے بغل گیر کیا میرے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ جو آج تک نہیں دیکھا تھا اور کہا اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ میری شکایت امام زمانہ سے کرتے ہو میں نے کہا کہ میں نے اپنی طرف سے دعا اور درخواست تھی اس نے کہا وائے ہو تجھ پر گذشتہ رات یعنی شب جمعہ خواب میں امام زمان کو دیکھا وہ مجھے اچھے کاموں کا حکم دیتے تھے لیکن اس دفعہ اتنی سختی سے پیش آئے کہ میں ڈر گیا میں نے ان سے کہا لا الہ الا اللہ میں گواہی دیتاہوں کہ وہ حق ہیں گذشتہ شب اپنے مولیٰ کی بیداری کی حالت میں زیارت کی ہے اور مجھ سے وہ باتیں کہیں جو کچھ میں نے حرم امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام ) میں دیکھا تھا وہ سب بتادیا اس نے اس واقعہ سے تعجب کیا اور اس نے بہت بری نیکی کو میرے حق میں انجام دیا اور اس کی طرف سے ایسے مقام پر پہنچا کہ میں گمان نہیں کرتا تھا اور یہ سب کچھ صاحب الزمان کی برکت سے ہوا ہے۔

علامہ شیخ علی اکبرنھاوندی الحبقری الحسان میں کہتے ہیں میں نے یہ عمل کئی مرتبہ تجربہ کیا ہے اور میں نے حاجت روائی کے لئے بہت زیادہ موثر دیکھا اس لئے میں چاہتاہوں کہ اس کے موثر ہونے کو اس کے ہم عصر مرحوم ملا محمود عراقی نے جو داراالسلام میں نقل کیا ہے اس کو ذکر کروں اس کتاب میں اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: میں نے اس دعا میں بہت زیادہ معجزہ دیکھا ہے چونکہ اس عمل سے تعجب انگریز آثار کو دیکھا ہے سب سے پہلے یہ نعمت بارہ سو پینسٹھ ہجری میں ملی میں تہران میں امام جمعہ تبریز حاج میرزا باقر تبریزی کے ساتھ آقائی مھدی ملک کے گھر میں مہمان تھا وہ کسی وجہ سے تہران چلے گئے دوبارہ تبریز آنا ممنوع تھا مجھے بھی ان سے جو محبت تھی خرچہ نہ ہونے کے باوجود سفر کیا میں اپنے گھر نہیں لوٹ سکتا تھا چونکہ امام جمعہ کا مہمان تھا خوراک اس کے ساتھ تھی لیکن اور خرچ بھی تھا اور میں اس شہر والوں کے ساتھ آشنا نہیں تھا کسی سے قرض بھی نہیں لے سکتا تھا اس لئے مجھے ذرا تکلیف تھی ایک دن امام جمعہ کے ساتھ صحن میں چار دیواری کے اندر بیٹھا ہوا تھا آرام کر رہا تھا ظہر کے وقت نماز کے لئے اوپر والے کمرہ میں چلا گیا نماز میں مشغول تھا نماز کے بعد الماری میں ایک کتاب کو دیکھا بحارالانوار کی تیرھویں جلد کا ترجمہ تھا اس میں امام زمانہ کے حالت موجود تھے میں نے اس کتاب کو کھولا یہ روایت معجزات کے بارے میں ملی میں نے اپنے آپ سے کہا اس حالت میں جو مجھے سختی ہے میں اس عمل کا تجربہ کرتاہوں اٹھا نماز دعا اور سجدہ کو بجالایا اپنے مشکل کام کے لئے دعا مانگی کمرہ سے باہر آکر امام جمعہ کے پہلو میں بیٹھا اچانک ایک مرد گھر کے دروازے سے داخل ہوا اور امام جمعہ کو ایک خط دیا اور اس کے پاس ایک سفید رومال رکھا امام جمعہ نے خط پڑھا اس کو رومال کے ساتھ مجھے دیا اور کہا یہ تمہارا مال ہے میں نے خط پڑھا خط کو آقا علی اصغر تاجر تبریزی نے لکھا تھا وہ مکتوب اور بیس تومان رومال میں رکھ کر امام جمعہ کو لکھا کہ یہ رقم فلان شخص کو دیدیں میں نے اس واقعہ کی پوری تحقیق کی خط آنے کا رومال آنے کا زمانہ اور عمل کا زمانہ ایک تھا مجھے اس واقعہ سے تعجب ہوا سبحان اللہ کہہ کر ہنس دیا امام جمعہ نے تعجب کی وجہ کو پوچھا میں نے سارا واقعہ بتادیا میں نے کہا کہ جلدی اٹھیں اور انجام دیں وہ اٹھا اسی کمرہ میں گیا نماز ظہر اور عصر پڑھی اس کے بعد اس عمل کو انجام دیا ابھی تھوڑا وقت گزرا تھا کہ خبر پہنچی کہ امیر نے اس کو تہران میں حاضر کر کے اس کو معزول کردیا اور اس کو کاشان بھیجا ہے شاہ نے امام جمعہ سے معذرت کرلی اور اس کو احترام کے ساتھ تبریز بھیجا اس کے بعد میں نے اس عمل کو ذخیرہ کیا سختی میں اور مشکل حاجات میں اس کو انجام دیتا تھا میں نے عجیب و غریب آثار کا مشاہدہ کیا ایک سال وباء کی بیماری نجف اشرف میں پھیلی بہت زیادہ لوگ مرگئے لوگ اس ڈر سے مضطرب ہوگئے اس لئے میں شہر کے چھوٹے دروازہ سے باہر چلا گیا اور دروازہ کے باہر ایک خالی جگہ پر اس عمل کو انجام دیا اور خدا سے چاہا کہ یہ بیماری دور ہوجائے دوسروں کو اطلاع دئے بغیر شہر لوٹ آیا دوسرے دن وباء بیماری کے ختم ہونے کی خبر لوگوں کو دے دی جاننے والے کہنے لگے کہ آپ کیسے یہ کہتے ہو میں نے کہا میں اس کی وجہ نہیں بتاتا لیکن تم تحقیق کرلو کل رات کے بعد اگر کوئی اس بیماری میں مبتلا ہوا تو تم سچے ہو انہوں نے کہا کہ فلانی فلانی آج رات اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہے میں نے کہا ایسا نہیں ہے یقینا کل ظہر سے پہلے یا اس سے پہلے بیمار ہوا ہے تحقیق کی تو انہوں نے دیکھا جیسا میں نے کہا تھا وہ صحیح نکلااس کے بعد بیماری کے کوئی نشان دکھائی نہیں دیا لوگوں نے اس سال بیماری سے نجات حاصل کی لیکن اس کی علت کو نہیں سمجھ سکے کئی بار ایسا ہوا ہے کئی برادران کو سختی میں دیکھا اور اس عمل کو ان کو یاد کرادیا جلدی ان کے مشکلات حل ہوئے یہاں تک کہ ایک دن اپنے کسی برادر کے وہاں تھا اس کے لئے کوئی مشکلات تھیں اس کی مشکل سے باخبر ہوا میں نے یہ عمل اس کو سکھادیا گھر واپس آیا تھوڑی دیر کے بعد دروازے پر کوئی آیا تو اسی شخص کو دیکھا کہ کہتا تھا اسی دعا کی برکت سے میرا مشکل حل ہوا کچھ رقم اس کو ملی کہا تمہیں جتنی ضرورت ہے لے لے میں نے کہا اس عمل کی برکت سے میں محتاج نہیں ہوں لیکن یہ بتاؤ کہ تمہاری مشکل کس طرح حل ہوا اس نے کہا آپ کے جانے کے بعد حرم امیرالمومنین میں چلا گیا اور اس عمل کو انجام دیا روضہ مطہر سے باہر نکلا صحن میں کسی ایک شخص سے ملاقات کی مجھے جتنی رقم کی ضروت تھی اتنی رقم دیکر چلا گیا۔ خلاصہ یہ کہ میں نے اس عمل کا بہت زیادہ اثر دیکھا ہے کہ جلد از جلد میری حاجت قبول ہوئی ہے لیکن جہاں محتاج نہیں اور کوئی اضطرار موجود نہیں وہاں کسی کو نہیں دیاہے میں نے خود بھی فائدہ نہیں اٹھایا اس لئے جب خود اس بزرگوار نے اس دعا کا فرج نام رکھا ہے اس سے پتہ چلتاہے کہ یہ دعا سختی اور تکلیف کے وقت بہت زیادہ موثر ہے۔

۸- امام زمانہ کا نماز استغاثہ

امام زمانہ کی نماز استغاثہ اس طرح ہے کہ سید علی خان کلم الطیب میں فرمایا ہے یہ استغاثہ ہے امام زمانہ سے جہاں پر بھی ہو دو رکعت نماز حمد اور سورہ کیساتھ پڑھ لیں پس قبلہ کی طرف منہ کر کے آسمان کے نیچے بیٹھیں اور کہیں دعا:

سَلامُ اللَّهِ الْكامِلُ التَّامُّ الشَّامِلُ الْعامُّ ، وَصَلَواتُهُ الدَّائِمَةُ وَبَرَكاتُهُ الْقائِمَةُ التَّامَّةُ ، عَلى حُجَّةِ اللَّهِ وَوَلِيِّهِ في أَرْضِهِ وَبِلادِهِ ، وَخَليفَتِهِ عَلى خَلْقِهِ وَعِبادِهِ ، وَسُلالَةِ النُّبُوَّةِ ، وَبَقِيَّةِ الْعِتْرَةِ وَالصَّفْوَةِ ، صاحِبِ الزَّمانِ ، وَمُظْهِرِ الْإيمانِ ، وَمُلَقِّنِ أَحْكامِ الْقُرْآنِ ، وَمُطَهِّرِ الْأَرْضِ ، وَناشِرِ الْعَدْلِ فِي الطُّولِ وَالْعَرْضِ ، وَالْحُجَّةِ الْقائِمِ الْمَهْدِيِّ ، اَلْإِمامِ الْمُنْتَظَرِ الْمَرْضِيِّ ، وَابْنِ الْأَئِمَّةِ الطَّاهِرينَ ، اَلْوَصِيِّ بْنِ الْأَوْصِياءِ الْمَرْضِيّينَ ، اَلْهادِي الْمَعْصُومِ بْنِ الْأَئِمَّةِ الْهُداةِ الْمَعْصُومينَ

اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُعِزَّ الْمُؤْمِنينَ الْمُسْتَضْعَفينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُذِلَّ الْكافِرينَ المُتَكَبِّرينَ الظَّالِمينَ

اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مَوْلايَ يا صاحِبَ الزَّمانِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ فاطِمَةَ الزَّهْراءِ سَيِّدَةِ نِساءِ الْعالَمينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ الْأَئِمَّةِ الْحُجَجِ الْمَعْصُومينَ وَالْإِمامِ عَلَى الْخَلْقِ أَجْمَعينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مَوْلايَ سَلامَ مُخْلِصٍ لَكَ فِي الْوِلايَةِ

أَشْهَدُ أَنَّكَ الْإِمامُ الْمَهْدِيُّ قَوْلًا وَفِعْلًا ، وَأَنْتَ الَّذي تَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَعَدْلاً ، بَعْدَ ما مُلِئَتْ جَوْراً وَظُلْماً ، فَعَجَّلَ اللَّهُ فَرَجَكَ ، وَسَهَّلَ مَخْرَجَكَ ، وَقَرَّبَ زَمانَكَ ، وَكَثَّرَ أَنْصارَكَ وَأَعْوانَكَ ، وَأَنْجَزَ لَكَ ما وَعَدَكَ ، فَهُوَ أَصْدَقُ الْقائِلينَ « وَنُريدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوارِثينَ »

يا مَوْلايَ يا صاحِبَ الزَّمانِ ، يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، حاجَتي كَذا وَكَذا ، ثمّ اذكر حاجتك وقل : فَاشْفَعْ لي في نَجاحِها ، فَقَدْ تَوَجَّهْتُ إِلَيْكَ بِحاجَتي ، لِعِلْمي أَنَّ لَكَ عِنْدَ اللَّهِ شَفاعَةً مَقْبُولَةً ، وَمَقاماً مَحْمُوداً ، فَبِحَقِّ مَنِ اخْتَصَّكُمْ بِأَمْرِهِ ، وَارْتَضاكُمْ لِسِرِّهِ ، وَبِالشَّأْنِ الَّذي لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ ، سَلِ اللَّهَ تَعالى في نُجْحِ طَلِبَتي ، وَ إِجابَةِ دَعْوَتي ، وَكَشْفِ كُرْبَتي

کذا کذا کی جگہ اپنی حاجت کو بیان کریں اور دعا کریں جو بھی چاہیں تو وہ حاجت قبول ہوگی۔

علامہ بزرگوار شیخ محمود عراقی کتاب دارالسلام میں کہاہے کہ میں نے اس عمل سے تجربہ کیا اس سے تعجب انگیز آثار کو مشاہدہ کیا دوسرا سفر بارہ سو پچھتر ہجری میں کی

علماء میں سے ایک نے اس عمل کا تجربہ کیا اور اپنے مہم امور میں اس نے عمل کیا جو اہلیت نہیں رکھتا تھا اس کو یاد نہیں کرتے تھے میں نے اس عمل کو اس سے دریافت کیا ہے۔ درالسلام میں کہا ہے ظاہر یہ ہے کہ چاہیئے اس نماز میں سورہ فتح اور سورہ نصر کو پڑھا جائے ہم عصر فاضل کا بھی یہی نظریہ تھا بعید نہیں کہ اس کا وقت بھی آدھی رات ہو چونکہ راوی نے اس وقت اس عمل کے بجا لانے کا حکم دیا ہے اور کلام میں اس وقت کے علاوہ کوئی اور وقت نہیں ہے قدر متعین وہی آخری آدھی رات کا وقت ہے اس عالم نے بھی آخری شب کا وقت معین نہیں کیا فاضل ہم عصر کتاب البلاد الامین سے کفحمی نے نقل کیا ہے علاوہ اس کے کہ دونوں سورہ میں ہیں چاہے کہ نماز اور زیارت سے پہلے غسل کرلے اس نے کتاب مصباح الزائر میں نقل کیا ہے کہ سورہ معین نہیں ہے اس بناء پر سورہ کاتعین اظہر ہے وقت کا تعین بھی اگر اقویٰ نہ ہو تو احوط ہے لیکن اظہر یہ ہے کہ نماز اور زیارت سے پہلے غسل کا کوئی اعتبار نہیں ہے اگر چہ مستحب ہے کہ غسل کرے۔

۹ ۔ امام زمانہ کی خدمت میں نماز ہدیہ

سید بن طاوؤس فرماتے ہیں کہ ابو محمد صمیری سلسلہ سند کے ساتھ ائمہ معصومین سے نقل کرتے ہیں فرماتے ہیں اگر ممکن ہو نماز واجب اور نافلہ نماز میں اضافہ کرنا۔ تو اضافہ کرے اگر چہ دو ررکعت کی مقدار پر زور بجالائے اور اس کو ہر روز آئمہ معصومین کی خدمت میں ھدیہ بھیجے اس طریقے پر کہ اپنی نماز کو پہلی رکعت میں شروع کرے واجب نماز کی طرح ساتھ مرتبہ تکبیر یا تین مرتبہ یا ایک مرتبہ رکوع وسجود کے ذکر کے بعد تین مرتبہ کہے صلی اللہ علی محمد و آلہ الطیبین الطاہرین پس تشہد اور اسلام کے بعد چودہویں دن کے بعد نماز امام حاضر کی خدمت میں ھدیہ کرنے اور کہے ۱۴۳ اللھم ۔۔ انت تا آخر

۱۰ ۔ امام زمانہ کے لئے نماز کا ھدیہ

شیخ بزرگوار ابوجعفر طوسی کتاب مصباح کبیر میں کہتے ہیں نماز ھدیہ آٹھ رکعت ہے معصوم اماموں سے روایت ہوئی ہے انسان کے لئے ضروری ہے کہ جمعہ کے دن آٹھ رکعت نماز پڑھے چار رکعت رسول خدا کی خدمت میں دوسرے چار رکعت حضرت فاطمہ زھراء کے لئے ھدیہ کرے پھر اسی طرح ہر روز چار رکعت پڑھے اور آئمہ میں سے کسی ایک کے لئے ھدیہ پیش کرے جمعرات کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور امام صادق(علیہ السلام ) کو ھدیہ پیش کرے۔

جمعہ کے دن دوبارہ آٹھ رکعت نماز پڑھے چار رکعت حضرت رسول کے لئے اور چار رکعت حضرت فاطمہ زھرا کے لئے ھدیہ کرے اس کے بعد ہفتہ کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور حضرت امام کاظم کو ھدیہ پیش کرے اور اسی طرح جمعرات کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور حضرت امام زمانہ کے لئے ھدیہ پیش کرے اور دو رکعت کے درمیان اس دعا کو پڑھے

أَللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلامُ ، وَمِنْكَ السَّلامُ ، وَ إِلَيْكَ يَعُودُ السَّلامُ ، حَيِّنا رَبَّنا مِنْكَ بِالسَّلامِ أَللَّهُمَّ إِنَّ هذِهِ الرَّكَعاتِ هَدِيَّةٌ مِنّي إِلَى الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ ، فَصَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَبَلِّغْهُ إِيَّاها ، وَأَعْطِني أَفْضَلَ أَمَلي وَرَجائي فيكَ ، وَفي رَسُولِكَ صَلَواتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ ]وَفيهِ[ ، وتدعو بما

جو چاہتاہے اس کے لئے بھی دعا مانگے۔

۱۱ ۔ امام زمانہ کے لئے نماز استغاثہ

کتاب التحفة الرضویہ میں لکھتے ہیں عالم بزرگوار سید حسین ھمدانی نجفی نے مجھ سے کہا جس کسی کو کوئی حاجت ہو جمعرات اور جمعہ کی رات آسمان کے نیچے حالانکہ سر اور پاؤں برہنہ ہوں دو رکعت نماز پڑھے نماز کے بعد اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرے پانچسو نوے مرتبہ کہے یا حجة القائم اس کے بعد سر کو سجدہ میں رکھے اور ستر مرتبہ کہے یا صاحب الزمان اغثنی اور اپنی حاجت کی درخواست کرے یہ عمل ہر مہم حاجت کے لئے مجّرب ہے اگر ان دو راتوں میں حاجت پوری نہ ہو دوبارہ دوسرے ہفتہ میں اس عمل کو انجام دے اگر پھر بھی حاجت قبول نہ ہوئی دوبارہ تیسرے ہفتہ میں انجام دے یقینا اس کی حاجت قبول ہوگی صاحب کتاب التحفة الرضویہ نے کہا ہے کہ سید محمد علی جواہری حائری نے مجھ سے نقل کیا ہے کہ جو اس نماز کو حاجت کے لئے انجام دیتاہے اسی رات حضرت امام مھدی کو خواب میں دیکھتاہے اور اپنی حاجت کو حضرت کی خدمت میں پیش کرتاہے خداوند تعالیٰ امام زمانہ کی برکت سے اس کی مشکل کو حل اور اس کی حاجت کو پوری کرتاہے۔

۱۲ ۔ نماز استغاثہ کا ایک اور طریقہ

علامہ بزرگوار صدر الاسلا م ھمدانی اپنی عمدہ کتاب تکالیف الانام فی غیبة الامام میں اس عمل کو ایک اور طریقہ سے نقل کیا ہے اس نے سید سند استاد اور عالم ربّانی حکیم فقیہ پرہیزگار سید محمد ہندی نجفی سے اس نے عالم بزرگوار سید حسن قزوینی سے اس نے سید حسین شوشتری امام جماعت سند کے ساتھ سید علی خان سے نقل کیا ہے۔ جو صحیفہ سجادیہ کا شارح ہے کہتاہے کہ شب جمعرات اور جمعہ شب جمعہ آسمان کے نیچے چھت کے اوپر سر برہنہ دو رکعت نماز پڑھتا تھا اس کے بعد ۵۹۵ مرتبہ کہتا تھا یا حجة اللہ سے مجموع عدد وہی عبارت ہوتی ہے اور اس توسل کی تاثیر پر تجربہ ہوا ہے وہ اضافہ کرتاہے کہ عدد یا حجة القائم عبارت ہے ۱۰+ ۱ + ۸+ ۳+ ۱۰۰+ ۱-+ ۳۰ + ۱۰۰ + ۱ + ۴۰) کہ مجموعی طور پر ۵۹۵ ہے یہ ایک خاص عمل میں ہے اس کی حفاظت کی کوشش کریں میں نے بارھا اس عمل کے ساتھ تجربہ کیا ہے۔

۱۳ ۔ شبع جمعہ میں امام زمانہ کی نماز

سید بزرگوار علی بن طاوؤس فرماتے ہیں کتاب کنوز النجاح فقیہ ابو علی فضل بن حسن طبرسی کی ہے اس میں دیکھا ہے کہ ہمارے امام زمانہ سے اس طرح منقول ہے حسین بن محمد بزوفری کہتاہے کہ صاحب العصر کی جانگ سے اس طرح صادر ہوا ہے جس کسی کو خدا سے کوئی حاجت ہو شب جمعہ آدھی رات کے بعد غسل کرے اور نماز پڑھنے کی جگہ جائے اور دو رکعت نماز پڑھ لے پہلی رکعت میں سورہ حمد کو پڑھ لے جب ایّاک نعبد و ایّاک نستعین تک پہنچے تو سو مرتبہ اس آیہ کو دھرائے اس کے بعد آخری سورة تک پڑھ لے اور ایک مرتبہ سورہ توحید پڑھ لے اس کے بعد رکوع اور سجود بجا لائے اور اس کے ذکر کو سات مرتبہ پڑھے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طریقے پر پڑھے اور یہ دعا پڑھے اس کے بعد جو حاجت بھی ہو سوائے قطع صلہ رحم کے علاوہ جو بھی چاہے خدا سے مانگے اللہ تعالیٰ یقینا اس کی حاجت کو پوری کرے گا۔

اور دعا یہ ہے

أَللَّهُمَّ إِنْ أَطَعْتُكَ فَالْمَحْمَدَةُ لَكَ ، وَ إِنْ عَصَيْتُكَ فَالْحُجَّةُ لَكَ ، مِنْكَ الرَّوْحُ وَمِنْكَ الْفَرَجُ ، سُبْحانَ مَنْ أَنْعَمَ وَشَكَرَ ، سُبْحانَ مَنْ قَدَرَ وغَفَرَ

أَللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ قَدْ عَصَيْتُكَ ، فَإِنّي قَدْ أَطَعْتُكَ في أَحَبِّ الْأَشْياءِ إِلَيْكَ وَهُوَ الْإيمانُ بِكَ ، لَمْ أَتَّخِذْ لَكَ وَلَداً ، وَلَمْ أَدْعُ لَكَ شَريكاً ، مَنّاً مِنْكَ بِهِ عَلَيَّ لا مَنّاً مِنّي بِهِ عَلَيْكَ ، وَقَدْ عَصَيْتُكَ يا إِلهي عَلى غَيْرِ وَجْهِ الْمُكابَرَةِ ، وَلَا الْخُرُوجِ عَنْ عُبُودِيَّتِكَ ، وَلَا الْجُحُودِ لِرُبُوبِيَّتِكَ ، وَلكِنْ أَطَعْتُ هَوايَ ، وَأَزَلَّنِي الشَّيْطانُ

فَلَكَ الْحُجَّةُ عَلَيَّ وَالْبَيانُ ، فَإِنْ تُعَذِّبْني فَبِذُنُوبي غَيْرَ ظالِمٍ ، وَ إِنْ تَغْفِرْ لي وَتَرْحَمْني ، فَإِنَّكَ جَوادٌ كَريمٌ ، يا كَريمُ يا كَريمُ

ایک سانس میں جتناپڑھ سکتا ہے پڑھے پھر کہے:

يا آمِناً مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ ، وَكُلُّ شَيْ‏ءٍ مِنْكَ خائِفٌ حَذِرٌ ، أَسْأَلُكَ بِأَمْنِكَ مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ ، وَخَوْفِ كُلِّ شَيْ‏ءٍ مِنْكَ ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَأَنْ تُعْطِيَني أَماناً لِنَفْسي وَأَهْلي وَوَلَدي ، وَسائِرِ ما أَنْعَمْتَ بِهِ عَلَيَّ ، حَتَّى لا أَخافَ أَحَداً ، وَلا أَحْذَرَ مِنْ شَيْ‏ءٍ أَبَداً ، إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ ، وَحَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكيلُ

يا كافِيَ إِبْراهيمَ نُمْرُودَ ، يا كافِيَ مُوسى فِرْعَوْنَ ، أَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَأَنْ تَكْفِيَني شَرَّ فُلانِ بْنِ فُلانٍ

اور فلان بن فلان کی جگہ کہ جس شخص کے شر سے ڈرتاہے اس کا نام لے خداوند تعالیٰ ان شاء اللہ اس کے شر سے محفوظ رکھے گا اس کے بعد سجدہ میں چلا جائے اور اپنی حاجت خدا سے مانگے اور خدا سے تضرع اور زاری کرے چونکہ کوئی مومن مرد یا عورت نہیں ہے کہ جو بھی یہ نماز پڑھ لے اور اس دعاء کے ساتھ خلوص کے ساتھ نیت کرے مگر یہ کہ آسمان کے دروازے اجابت کے لئے اس کی طرف کھل جاتے ہیں۔ اسی وقت اور اسی رات جو حاجت بھی ہو قبول ہوجائے گی یہ اللہ کا فضل ہمارے لئے اور لوگوں کے لئے ہے۔

۱۴ ۔ امام زمانہ کی ایک اور نماز

نجم الثاقب میں اس نماز کو کتاب سید فضل اللہ راوندی سے یہ نماز حضرت امام زمانہ کے عناون سے نقل کیا ہے اور کہا ہے نماز تمام ہونے کے بعد سو مرتبہ درود بھیجے لیکن جس دعا کو میں نے ذکر کیا تھا اس کو بیان نہیں کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ نماز خاص زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

۱۵ ۔ ستائیس ماہ رجب کے دن کی نماز

احمد بن علی بن روح کہتاہے اس نماز کو محسن بن عبدالحکیم سجری نے میرے لئے نقل کیا ہے اور میں نے اس کو اس کی کتاب سے لکھا ہے وہ کہتا تھا میں نے اس نماز کو کتاب ابونصر جعفر بن محمد سے لکھا ہے وہ کہتا تھا کہ یہ نماز ابوالقاسم حسین بن روح کی طرف سے صادر ہوئی ہے۔ ستائیس رجب کے دن کی نمازیں اس میں بارہ رکعت نماز کا ذکر ہوا ہے کہ ہر رکعت میں سورہ حمد کو جس سورہ کے ساتھ چاہیں پڑھ لیں اور نماز تمام کریں پس ہر دو رکعت کے بعد یہ دعا پڑھے ۱۴۸ الحمد اللہ

جب نماز اور دعا پڑھ لے تو سورہ حمد اور قل ھوا اللہ احد قل یا ایھالکافرون۔ معوذتین۔ انا انزلناہ فی لیلة القدر آیہ الکرسی ہر ایک کو سات مرتبہ پڑھ لے اس کے بعد سات مرتبہ کہے لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و سبحان اللہ ولا حول ولا قوة الا باللہ پھر اس کے بعد سات مرتبہ پڑھیں اللہ اللہ ربّی لا اشرک بہ شیئاً اس کے بعد جو پسند کریں دعا مانگیں

۱۶ ۔ پندرہ شعبان کی رات کی نماز

ابو یحی صنعانی نے روایت کی ہے کہ اس کو قابل اطمینان تیس آدمیوں سے نقل کیا گیا ہے کہ امام باقر اور امام صادق نے فرمایا جب بھی پندرہ شعبان کی رات ہوجائے تو چار رکعت نماز پڑھ لے ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور سو مرتبہ سورہ قل ھو اللہ احد پڑھے اور نماز کے بعد یہ دعا مانگے ۱۴۹ اللھم

۱۷ ۔ پندرہ شعبان کی رات ایک اور نماز

ابو یحیٰ نے امام صادق سے روایت کی ہے اس نے امام باقر سے کہ پندرہ شعبان کی رات کے فضیلت کے بارے میں سوال ہوا تو حضرت نے فرمایا نیمہ شعبان کی رات شب قدر کے بعد سب سے افضل ترین رات ہے اس رات خداوند اپنا فضل اپنے بندوں کو عطا کرتاہے ان پر احسان کرتاہے اور بخشش دیتاہے اس بناء پر اس رات خدا سے قرب حاسل کرنے کی کوشش کرو چونکہ خدا نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ اس رات کسی سائل کو رد نہیں کرے گا جب تک خدا سے کسی معصیت کا سوائل نہ کرے یہ وہ رات ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اس کو ہم اھلبیت کے لئے قرار دیا ہے شب قدر کے برابر کہ اس کو پیغمر کے لئے قراردیا ہے ۱۵۰ پس اس رات خدا سے دعا کی کوشش کرو چونکہ جو بھی اس رات سو مرتبہ تسبیح پڑھے سوبار حمد پڑھے سو مرتبہ تکبیر کہے تو خداوند تعالیٰ ان کے گذشتہ گناہوں کو بخشتیاہے اور دنیا اور آخرت کی حاجتوں کو اسی طرح وہ حاجتیں کہ جن کا محتاج ہے لیکن خدا سے طلب نہیں کیا ہے یہ بھی خدا کے فضل سے عطا کرتاہے۔ ابو یحییٰ کہتاہے کہ میں نے امام صادق سے عرض کیا دعاؤں میں سے کس دعاء میں زیادہ فضیلت ہے حضرت نے فرمایا جب بھی نماز عشا پڑھ لیں تو دو رکعت نماز پڑھ لیں پہلی رکعت میں سورہ حمد اور سورة قل یا ایھا الکافرون اور دوسری رکعت میں سورہ حمد اور سورہ قل ھو اللہ احد کو پڑھے نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ الحمد اللہ اور ۳۴ مرتبہ کہو اللہ اکبر اس وقت کہو ۱۵۱ یا من الیہ

اس کے بعد سجدہ میں بیس مرتبہ یا رب یا اللہ کہو اور سات مرتبہ کہولا حول ولا قوة الّا باللّٰه اور دس مرتبہ کہو ماشاء اللہ اور دس مرتبہ کہو لا قوة الّا باللّٰہ اس کے بعد درود بھیجیں اور اللہ سے اپنی حاجت مانگیں خداوند تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو عطا کرے گا۔

مولف: چار رکعت بھی وارد ہے کہ جو ظہر عاشور کے وقت پڑھی جاتی ہیں اس کے بعد ایک دعا پڑھی جاتی ہے طولانی کی وجہ سے مہینوں کے دعاؤں ادعیہ ص ۲۴۱ میں ذکر کیا گیا ہے


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14