تفسیر نمونہ جلد ۱۲

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 16431
ڈاؤنلوڈ: 2125


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16431 / ڈاؤنلوڈ: 2125
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 12

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

تفسیر نمونہ جلد دوازدہم

تفسیرنمونه ، آیه الله العظمی مکارم شیرازی (مدظله العالی) کی ۱۵ ساله زحمات کا نتیجه ہے جس کو معظم له نے اہل قلم کی ایک جماعت کی مدد سے فارسی زبان میں تحریر فرمایا ، اس کا اردو اور عربی زبان میں ترجمه ہو کر شایع ہوچکا ہے.

تعداد جلد: ۱۵جلد

زبان: اردو

مترجم : مولانا سید صفدر حسین نجفی (رح)

تاریخ اشاعت: ربیع الثانی ۱۴۱۷هجری

سورہ بنی اسرائیل

مکہ میں نازل ہوئی

اس میں ۔ ۱۱۱ آیتیں ہیں

نام اور مقام نزول

اس کا مشہور نام ”سورئہ بنی اسرائیل“ ہے البتہ دیگر چند نام بھی ہیں ۔ مثلاً:

”سورئہ اسراء“”سورئہ سبحان“ وغیرہ(۱)

ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر نام اس سورت میں موجود مطالب کے حوالے سے ہے ۔ سورئہ بنی اسرائیل اسے اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس سورت کی ابتداء اور اختتام کا ایک اچھا خاصا حصّہ بنی اسرائیل کے بارے میں ہے ۔

”اسراء“ اسے اس کی پہلی آیت کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ جو رسولِ اکرم (ص) کے اسراء (یعنی معراج) کے بارے میں گفتگو کرتی ہے اور سورہ سبحان اسے اس کے پہلے لفظ کی وجہ سے کہتے ہیں ۔

البتہ جن روایات میں اس سورہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے ان میں اسے صرف ”بنی اسرائیل“ کہا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مفسرین نے اس سورہ کے لیے یہی نام انتخاب کیا ہے ۔

بہرحال مشہور یہ ہے کہ اس سورہ کی تمام آیتیں مکہ میں نازل ہوئی ہیں اور اس کے مفاہیم و مضامین بھی مکّی سورتوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں ۔ تا ہم بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ اس کی کچھ آیتیں مدینہ میں نازل ہوئی ہیں لیکن پہلے والا قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔

____________________

۱۔ تفسیر آلوسی ج ۱۵ ص ۲-

فضیلت

پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور امام صادق علیہ السلام سے اس سورت کی تلاوت کرنے والے کے لیے بہت زیادہ اجر و ثواب منقول ہے ۔ ان روایات میں سے ایک کہ جو امام صادق علیہ السلام سے مردی ہے اس میں آپ (ع) فرماتے ہیں :من قرء سورة بنی اسرائیل فی کل لیلة جمعة لم یمت حتّی یدرک القائم و یکون من اصحابه

جو شخص ہر شبِ جمعہ سورہ بنی اسرائیل کی تلاوت کرے گا وہ اس وقت تک دنیا سے نہ جائے گا جب تک ”قائم(ع)“کو نہ دیکھ لے اور وہ آپ کے یارو و انصار میں سے ہوگا ۔

ہم نے بارہا اس امر کا تکرار کیا ہے کہ قرآن پاک کی سورتوں کا جو اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے وہ ہرگز صرف زبانی پڑھ لینے کے لیے نہیں ہے بلکہ ان روایات میں پڑھنے سے مراد ایسا پڑھنا ہے کہ جس میں غور و فکر اور سوچ بچار شامل ہوا اور اس کے نتیجے میں انسان اس قرات اور فکر کے تقاضوں کے مطابق عمل بھی کرے ۔

خصوصاً اسی سورہ کی فضیلت سے مربوط ایک روایت میں ہے:فرّق قلبه عند ذکر الوالدین

اس سورہ کا قاری جب اس میں اللہ کی نصیحتوں تک پہنچتا ہے تو اس کے احساسات میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور ماں باپ سے محبت کا جذبہ اس میں فزوں تر ہوجاتا ہے ۔

لہٰذا وہ شخص ایسے اجر کا حامل ٹھہرتا ہے ۔

اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اگر چہ قرآنی الفاظ محترم اور اہم ہیں لیکن یہ الفاظ تمہید ہیں معانی و مفاہیم کے لیے اور معانی مقدمہ ہیں عمل کے لیے ۔

مضامین ایک نگاہ میں

ہم کہہ چکے ہیں ، جیسا کہ مشہور ہے یہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی، لہٰذا فطری امر ہے کہ اس میں مکی سورتوں کی خصوصیات موجود ہیں ۔ ان میں دعوت توحید بھی ہے،معاد کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے،مفید نصیحتیں بھی ہیں اور شرک، ظلم، انحراف اور کج روی کے خلاف بھی اس میں بہت سارا مواد ہے ۔ کہا جاسکتا ہے کہ مجموعی طور پر اس سورت کی آیتیں ان امور پر مشتمل ہیں :

۱ ۔ نبوت کے دلائل۔ بالخصوص قرآن اور معراج کے حوالے سے ۔

۲ ۔ معاد سے مربوط بحثیں ۔ انجام کار، اجر و ثواب، نامہ اعمال اور اس کے نتائج۔

۳ ۔ سورہ کے آغاز اور اختتام پر بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک حصّہ۔

۴ ۔ ارادہ و اختیار کی آزادی ۔ اور یہ کہ ہر قسم کے اچھے برے عمل کا نتیجہ خود انسان کو بھگتنا پڑتا ہے ۔

۵ ۔ اس جہان کی زندگی کا حساب کتاب دوسرے جہان کے لیے نمونہ ہے ۔

۶ ۔ ہر سطح پر حق شناسی ۔ خصوصاً اعزاء و اقرباء کے بارے میں اور ان میں سے بھی خاص طور پر ماں باپ کے بارے میں ۔

۷ ۔ فضول خرچی، کنجوسی، اولاد کشی، زناء، مالِ یتیم کھانا، کم فروشی، تکبر اور خونریزی سب حرام ہیں ۔

۸ ۔ توحید اور خداشناسی سے متعلق مباحث۔

۹ ۔ پیش حق ہر قسم کی ہٹ دھرمی کے خلاف مقابلہ اور یہ کہ گناہ انسان اور چہرہ حق کے درمیان پردہ ڈال دیتے ہیں ۔

۱۰ ۔ انسان کا مقام اور دوسری مخلوقات پر اس کی فضیلت۔

۱۱ ۔ ہر قسم کی اخلاقی اور اجتماعی بیماری کے علاج کے لیے تاثیر قرآن۔

۱۲ ۔ اعجازِ قرآن اور اس کے مقابلے کی عدم توانائی ۔

۱۳ ۔ شیطانی وسوسے اور ان کے خلاف مومنین کو تنبیہ۔

۱۴ ۔ مختلف اخلاقی تعلیمات۔

۱۵ ۔ تاریخ انبیاء کے بعض نشیب و فراز۔ تمام انسان کے لیے عبرت کے درس۔

بہر حال مجموعی طور پر عقائد، اخلاق اور معاشرت کے حوالے سے راہنمائی پر مبنی یہ ایک جامع اور کامل سورت ہے اور یہ مختلف میدانوں میں انسان کے ارتقاء و کمال کا زمینہ بن سکتی ہے ۔

یہ امر جاذب توجہ ہے کہ یہ سورت تسبیح خدا سے شروع ہوتی ہے اس کی حمد و تکبیر پر تمام ہوتی ہے ۔ تسبیح نشانی ہے ہذ قسم کے عیب و نقص سے دوری اور پاک رہنے کی اور حمد و ثنا نشانی ہے صفاتِ فضیلت سے آراستہ ہونے کے لیے اور تکبیر کمال و عظمت کی طرف بڑھنے کے لیے علامت ہے ۔

آیت ۱

( بِسْمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

۱( سُبْحَانَ الَّذِی اٴَسْریٰ بِعَبْدِهِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْاٴَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِیَهُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّه هُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ )

ترجمہ

بخشنے والے مہربان الله کے نام سے

۱ ۔ پاک و منزل ہے وہ الله کہ جو اپنے بندے کو رات مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا کہ جس کا ماحول پر برکت ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں ۔یقینا وہ سننے والا ہے ۔

معراجِ رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم

اس سورت کی پہلی آیت میں ”اسراء“کا ذکر ہے ۔راتوں رات جو رسول الله نے مسجد الحرام سے مسجدالاقصیٰ(بیت المقدس)کا سفر کیا تھا اس میں اس کا ذکر ہے ۔یہ سفر معراج کا مقدمہ بنا ۔یہ سفر جو رات کے بہت کم وقت میں مکمل ہوگیا کم از کم اس زمانے کے حالات،راستوں اور معمولات کے لحاظ سے کسی طرح بھی ممکن نہ تھا ۔یہ بالکل اعجاز آمیز اور غیر معمولی تھا ۔

پہلے فرمایا گیا ہے :منزہ ہے وہ خدا کہ جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدالحرام سے مسجدالاقصیٰ کی طرف لے یے گیا( سُبْحَانَ الَّذِی اٴَسْریٰ بِعَبْدِهِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْاٴَقْصَی ) ۔

رات کی یہ غیر معمولی سیر اس لیے تھی تاکہ ہم اسے اپنی عظمت کی نشانیاں دکھائیں( لِنُرِیَهُ مِنْ آیَاتِنَا ) ۔

آخر آیت میں فرمایا گیا ہے:الله سننے والا اور دیکھنے والا ہے( إِنَّه هُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ الله نے اپنے پیغمبر کو اس افتخار کے لیے چنا ہے تو یہ بلاوجہ نہیں ہے کیونکہ رسول کی گفتار اور ان کا کردار اس قابل تھا کہ یہ لباس ان کے بدن کے لیے بالکل زیبا تھا ۔

الله نے اپنے رسول کی گفتار سنی،اس کا کردار دیکھا اور اس مقام کے لیے اس کی لیاقت مان لی ۔

اس جملے کے بارے میں بعض مفسریں نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس اعجاز کے منکریں کو تہدید کی جائے کہ الله ان کی باتیں سنتاہے،ای کے اعمال دیکھنا ہے اور ان کی سازش سے آگاہ ہے ۔

یہ آیت نہایت مختصر اور جچے تلے الفاظ پر مشتمل ہے تا ہم اس رات کے معجزہ نما سفر کے بہت سے پہلو اس آیت سے واضح ہوجاتے ہیں :

(۱) لفظ ”اسریٰ“ نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سفررات کے وقت ہوا کیونکہ ”اسراء“عربی زبان میں رات کے سفر کے معنی ہے جبکہ لفظ”سیر“دن کے سفر کے لیے بولا جاتا ہے ۔

(۲)لفظ ”لیلا“ ایک تو ”اسرا“ کے مفہوم کی تاکید ہے اور دوسرے اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ یہ سارے کا سارا سفر ایک ہی رات میں ہوا اور اہم بات بھی یہی ہے کہ مسجدالحرام اور مسجد الاقصیٰ کے در میان ایک سوفرسخ سے زیادہ کا فاصلہ کئی دنوں بلکہ کئی ہفتوں میں طے کیا جاتا تھا جبکہ شب اسراء تھوڑے سے وقت میں یہ سفر مکمل ہوگیا ۔

(۳)لفظ ”عبد“ نشاندہی کرتا ہے کہ یہ افتخار و اکرام رسول الله کے مقام عبودیت کی وجہ سے تھا کیونکہ انسان کے لیے سب سے بلند منزل یہی ہے کہ وہ الله کا سچا اور صحیح بندہ ہوجائے ۔اس کی بارگاہ کے سوا کہیں تھا نہ جھکائے،اس کے علاوہ کسی کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے،جو بھی کام کرے فقط خدا کے لیے ہو اور جو بھی قدم اٹھائے اسی کی رضا مطلوب ہو۔

(۴)”عبد“ کی تعبیر یہ واضع کرتی ہے کہ سفر عالم بیداری میں تھا اور یہ جسمانی سیر تھی نہ کہ روحانی کیونکہ سیر روحانی کا کوئی معقول معنی خواب یا خواب کی مانند حالت کے سوا نہیں ہے لیکن لفظ”عبد“ نشاندہی کرتا ہے کہ جسم و روح پیغمبر اس سفر میں شریک تھے ۔یہ اعجاز جن میں نہیں آتا انہوں نے جو زیادہ بات کی ہے یہ ہے کہ انہوں نے آیت کی توجیہ کے نام پر اسے روحانی کہہ دیا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں فلاں شخص کو فلاں جگہ سے لے گیا تو اس کا یہ مفہوم نہیں ہوگا کہ عالم خواب میں یا عالم خیال میں یا فکری طور پر لے گیا ۔

(۵)اس سفر کا آغاز مکہ کی مسجدالحرام سے وہاں سے بیت المقدس میں موجود مسجدالاقصیٰ پہنچے(اور یہ سفر معراج آسمانی کا مقدمہ تھا کہ جس کے بارے میں ہم بعد میں دلایل پیش کریں گے) ۔

البتہ تمام مکہ کو بھی چونکہ ااحترام کی وجہ سے مسجدالحرام کہا جاتا ہے لہذا مفسرین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ رسول الله کا یہ سفر خانہ کعبہ کے قریب سے شروع ہواتھا یا کسی عزیز رشتہ دار کے گھر سے ۔لیکن اس میں شک نہیں کہ آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ سیر خانہ کعبہ سے شروع ہوئی ۔

(۶)اس سیر کا مقصد یہ تھا کہ رسول الله عظمت الٰہی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں ۔آسمانوں کی سیر بھی اسی مقصد سے تھی کہ پیغمبراکرم صلی الله علیہ وآلہ کی باعظمت روح ان آیات بینات ما مشاہدہ کرکے اور بھی عظمت و بزرگی پالے اور انسانوں کی ہدایت کے لیے آپ خوب تیار ہوجائیں ۔یہ سفر معراج بعض کوتاہ فکر لوگوں کے خیال کے بر عکس اس لیے نہ تھا کہ آپ خدا کو دیکھیں ۔ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ خدا آسمانوں میں رہتا ہے ۔

بہر حال اگر چہ رسول الله عظمت الٰہی کو پیچانتے تھے اور اس کی خلقت کی عظمت سے بھی آگاہ تھے لیکن بقولے:ولی

شنیدن کی بود مانند دیدن

سورہ نجم کی آیات میں بھی اس سفر کے آخری حصے یعنی معراج آسمانی کی طرف اشارہ کیا گیاہے ۔

ارشاد ہوتا ہے:( لَقَد رَاٰی مِن اٰیَاتِ رَبِّهِ الکُبرٰی )

اس سفر میں اس نے اپنے رب کی عظیم آیات دیکھیں ۔

(۷) ” بارکناحولہ “یہ مطلب واضح کرتا ہے کہ مسجد الاقصیٰ علاوہ اس کے کہ خود مقدس ہے اس کے اطراف کی سرزمین بھی مبارک اور با برکت ہے ۔یہ اس کی ظاہری برکات کی طرف اشارہ ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ سر سبز و شاداب سرزمین ہے ۔درخت اس زمین پر سایہ فگن ہیں ۔پانی وہاں جاری رہتا ہے اور یہ ایک آباد علاقہ ہے ۔

(۸)جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ’ ’اِنَّہ ھُوَالسَّمِیعُ الْبَصِیر“کا جملہ اس طرف اشارہ ہے کہ رسولالله کو اس نعمت کی عطا بلا وجہ نہ بلکہ اس اہلبیت و لیاقت کے باعث تھی کہ جو آپ کی گفتار و کردار سے ہویدا تھی اور الله ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے ۔

(۹)ضمنی طور پر لفظ ”سبحان “اس بات کی دلیل ہے اور رسول الله کا یہ سفر بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ الله ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے ۔

( ۱۰)” من اٰیاتنا“میں لفظ”من“نشاندہی کرتا ہے کہ آیات عظمت الٰہی اس قدر زیادہ ہیں کہ اپنی تمام تر عظمت کے با وجود رسول الله (ص) نے اس با عظمت سفر میں صرف بعض کا ہی مشاہدہ کیا ۔

مسئلہ معراج

علماء اسلام کے در میان مشہور یہ ہے کہ رسول اکرم (ص) جس وقت مکہ میں تھے تو ایک ہی رات میں آپقدرت الٰہی سے مسجد الحرام سے مسجد المقدس میں ہے ۔وہاں سے آپ آسمانوں کی طرف گئے آسمانی وسعتوں میں عظمت الٰہی کے آثار مشاہدہ کیے اور اسی رات مکہّ واپس آگئے ۔

نیز یہ بھی مشہور ہے کہ یہ زمینی اور آسمانی سیر جسم اور روح کے ساتھ تھی البتہ یہ سیر چونکہ بہت عجیب و غریب اور بے نظیر تھی لہذا بعض حضرات نے اس کی توجیہ کی اور اسے معراج روحانی قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک طرح کا خوا ب تھا یا مکاشفہ روحی تھا لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں یہ بات آیات کے ظاہری مفہوم کے بالکل خلاف ہے کیونکہ ظاہرِ آیات اس معراج کے جسمانی ہونے کی گواہی دتا ہے ۔

بہر حال اس بحث سے بہت سے سوالات پیدا پیدا ہوتے ہیو مثلاً:

۱ ۔ قرآن، حدیث اور تاریخ کی نظر سے معراج کی کیفیت کیا تھی؟

۲ ۔ شیعہ اور سنی علماء اسلام کا اس سلسلے میں کیا عقیدہ ہے؟

۳ ۔ معراج کا مقصد کیا تھا؟

۴ ۔ دور ححاضر کے علم اور سائنس کی رو سے معراج کا کیا امکان ہے؟

ان تمام مسائل کا کماحقہ، جائزہ پیش کرنا اگر چہ تفسیر کی حدود سے باہر ہے تاکہ ہم کوشش کریں گے کہ مختصراً ان تمام مسائل کو قارئین محترم کے سامنے ذکر کریں ۔

۱ ۔ معراج۔ قرآن و حدیث کی نظر میں :

قرآن حکیم کی دں سں توں میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ پہلی سورت۔ یہی سورہ بنی اسرائیل ہے ۔ اس میں اس سفر کے ابتدائی حصے کا تذکرہ ہے ۔ یعنی مکہ کی مسجد الحرام سے بیت المقدس کی مسجدِ الاقصیٰ تک کا سفر۔

اس سلسلے کی دوسری سورت۔ سورئہ نجم ہے ۔ اس کی آیت ۱۳ تا ۱۸ میں معراج کا روسرا حصہ بیان کیا گیا ہے اور یہ آسمانی سیر کے متعلق ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے-:

( وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً اٴُخْری عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَی عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاٴْوَی إِذْ یَغْشَی السِّدْرَةَ مَا یَغْشَی مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی لَقَدْ رَاٴَی مِنْ آیَاتِ رَبِّهِ الْکُبْری ٰ)

ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ۔

رسول اللہ نے فرشتہ وحی جبریل کو اس کی اصل صورت میں دوسری مرتبہ دیکھا (پہلے آپ اسے نزول وحی کے آغاز میں کوہِ حرا میں دیکھ چکے تھے) یہ ملاقات بہشت جاوداں کے پاس ہوئی ۔ یہ منظر دیکھتے ہوئے رسول اللہ کسی اشتباہ کا شکار نہ تھے ۔ آپ نے عظمت الٰہی کی عظیم نشانیاں مشاہدہ کیں ۔

یہ آیات کہ جو اکثر مفسرین کے بقول واقعہ معراج سے متعلق ہیں یہ بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں پیش خصوصاً ”مازاغ البصر و ما طغیٰ“ اس امرکا شاہد ہے کہ رسول اللہ کی آنکھ کسی خطا، اشتباہ اور انحراف سے دوچار نہیں ہوئی ۔

اس واقعے کے سلسلے میں مشہور اسلامی کتابوں میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں ۔

علماء اسلام نے ان روایات کے تو اتر اور شہرت کی گواہی دی ہے ۔ ہم نونے کے طور پر چند روایات ذکر کرتے ہیں :

۱ ۔ عظیم فقیہ و مفسر شیخ طوسی تفسیر تبیان میں زیر بحث آیت کے ذیل میں کہتے ہیں :

شیعہ علما کا مؤقف ہے کہ جس رات اللہ اپنے رسول کو مکہ سے بیت المقدس لے گیا اسی رات اس نے آپ کو آسمانوں کی طرف بلند کیا اور آپ کو اپنی عظمت کی نشانیاں دکھائیں اور یہ سب کچھ عالم بیداری میں تھا ،خواب میں نہ تھا ۔

۲ ۔ بلند مرتبہ مفسر مرحوم طبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں سورہ نجم کی آیات کے ذیل میں کہتے ہیں :

ہماری روایات میں مشہور یہ ہے کہ اللہ اپنے رسول کو اسی جسم کے ساتھ عالم بیداری و حیات میں آسمانوں پر لے گیا اور اکثر مفسرین کا یہی عقیدہ ہے ۔

۳ ۔ مشہور محدث علامہ مجلسی بحار الانوار میں کہتے ہیں :

مسجد الحرام سے بیت المقدس کی طرف اور وہاں سے آسمانوں کی طرف رسول اسلام کی سیر ایسی بات ہے جس پر آیات قرآن اور شیعہ و سنی متواتر احادیث دلالت کرتی ہیں ۔ اس کا انکار یا اسے روحانی معراج کہنا یا عالم خواب کی بات قرار دینا ۔ آئمہ ہریٰ (ع) کی احادیث سے عدم اطلاع یا یقین کی کمزوری کے باعث ہے ۔

اس کے بعد علامہ مجلسی مزید کہتے ہیں :

اگر ہم اس واقعے سے متعلقہ احادیث جمع کرنا چاہیں تو ایک ضخیم کتاب بن جائیگی ۔(۱)

۴ ۔ اہل سنت کے معاصر علماء میں سے الا زہر کے منصور علی ناصف مشہور کتاب ”التاج“ کے مصنف ہیں ۔ انہوں نے اس میں احادیث معراج کو جمع کیا ہے ۔

۵ ۔ مشہور فسر فخر الدین رازی نے زیر بحث آیت کے ذیل میں واقعہ معراج کے امکان پر بہت سی عقلی دلیلیں پیش کی ہیں ۔ دلائل ذکر کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں :

حدیث کے لحاظ سے احادیث معراج مشہور روایات میں سے عیں کہ جو اہل سنت کی کتب صحاح میں نقل ہوئی ہیں اور ان کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کی ۔

۶ ۔ شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز ادارہ ”بحوث علمیہ و افتاء و دعوة و ارشاد“ کے سر براہ ہیں وہ دور حاضر کے متعصب وہابی علماء میں سے ہیں ۔ وہ اپنی کتاب ”التحذیر من البدع“ میں کہتے ہیں :

اس میں شک نہیں ہے کہ معراج ان عظیم نشانیوں میں سے ہے جو رسول کی صداقت اور بلند منزلت پر دلالت کرتی ہیں ۔

یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں :

رسول اللہ سے اخبار متواتر نقل ہوئی ہیں کہ اللہ انہیں آسمانوں پر لے گیا اور آپ پر آسمانوں کے دروازے کھول دیئے ۔(۲)

اس نکتے کا ذکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ احادیث معراج میں بعض جعلی یا ضعیف ہیں کہ جو کسی طرح سے بھی قابل قبول نہیں ہیے یہی وجہ ہے کہ عظیم مفسر طبرسی مرحوم نے اسی زیر بحث آیت کے ذیل میں لحادیث معراج کو ان چار قسموں میں تقسیم کیا ہے:

(۱)وہ روایات جو متواتر ہونے کی وجہ سے قطعی ہیں مثلاً اصل واقعہ معراج۔

(۲) وہ احادیث کہ عقلی لحاظ سے جنہیں قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں اور وایات میں اس امر کی تصریح کی گئی ہے ۔ مثلاً صحن آسمان میں عظمتِ الٰہی کی بہت سی نشانیوں کا مشاہدہ کرنا ۔

(۳) وہ روایات جد ہمارے ہاں موجود اصول و ضوابط پر تو پوری نہیں اتر تیں البتہ ان کی توجیہ کی جاسکتی ہے ۔ مثلاً وہ احادیث جو کہتی ہیں کہ رسول الله نے آسمانوں میں ایک گروہ کو جنت میں اور ایک گروہ کو دوزخ میں ددیکھا ۔کہنا چاہئے کہ اہل جنت اور اہل دوزخ کی صفات دیکھیں (یا برزخ کی جنت اور دوزخ کی) ۔

(۴)وہ روایات جو نا معقول اور باطل امور پر مشتمل ہیں اور ان کی کیفیت ان کے جعلی ہونے پر گواہ ہے ۔ مثلاً وہ روایات جو کہتی ہیں کہ رسول الله نے خدا کو واضح طور پر دیکھا،اس کے ساتھ باتیں کیں اور اس کے پاس بیٹھے ۔ایسی احادیث کسی دلیل و منطق کے لحاظ سے درست نہیں ہیں اور بلاشبہ اس قسم کی روایات من گھڑت اور جعلی ہیں ۔

واقعہ معراج کی تاریخ کے سلسلے میں اسلامی مورخین کے درمیان اختلاف ہے ۔بعض کا خیال ہے کہ یہ واقعہ بعثت کے دسویں سال ۲۷ رجب کی شب پیش آیا ۔بعض کہتے ہیں کہ یہ بعثت کے بارہوں سال ۱۷ رمضان المبارک کی رات وقوع پذیر ہوا جبکہ بعض اسے اوائل بعثت میں میں ذکر کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے وقوع پذیر ہونے کی تاریخ میں اختلاف اصل واقعہ پر اختلاف میں حائل نہیں ہوتا ۔

اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ صرف مسلمان ہی معراج کا عقیدہ نہیں رکھتے، دیگر ادیان کے پیروکاروں میں بھی یہ عقیدہ کم و بیش موجود ہے ۔ ان میں سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں یہ عقیدہ عجیب تر صورت نظر آتا ہے جیسا کہ انجیل مرقس کے باب ۶ ، لوتا کے باب ۲۴ اور یوحنا کے باب ۲۱ میں ہے کہ:

عیسیٰ مصلوب ہونے کے بعد دفن ہوگئے تو مُردوں میں سے اٹھ کھڑے ہونے اور چالیس روز تک لوگوں میں موجود دہے پھر آسمان کی طرف چڑھ گئے(اور ہمیشہ کے لیے معراج پر چلے گئے) ۔

ضمناًیہ وضاحت بھی ہوجائے کہ بعض اسلامی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض گذشتہ انبیاء کوبھی معراج نصیب ہوئی تھی ۔

معراج جسمانی تھی یا روحانی؟

شیعہ اور سنی علمائے اسلام کے در میان مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں صورت پذیر ہوا ۔

سوورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہ نجم کی موذکرہ آیات کا مظاہری مفہوم بھی اس امر کا شاہد ہے کہ یہ واقعہ بیداری کی حالت میں پیش آیا ۔

تواریخ اسلامی بھی اس امر پر شاہد صادق ہیں ۔ تاریخ کہتی ہے:

جس دقت رسول الله نے واقعہ معراج کا ذکر کیا تو مشرکین نے شدت سے اس کا انکار کردیا اور اسے آپ کے خلاف ایک بات بنا لیا ۔

یہ بات گواہی دیتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہرگز خواب یا مکاشفہ روحانی کے مدعی نہ تھے ورنہ مخالفین اس قدر شور و غوغا نہ کرتے ۔

یہ جو حسن بصری سے روایت ہے کہ:کان فی المنام رؤیاً راٰها

یہ واقعہ خواب میں پیش آیا ۔

اور اسی طرح جو حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ:والله ما فقد جسد رسول الله و لکن عرج بروحه

خدا کی قسم بدن رسول اللہ ہم سے جدا نہیں ہوا صرف آپ کی روح آسمانوں پر گئی ۔

ایسی روایات ظاہراً سیاسی پہلو رکھتی ہیں ۔(۳)

____________________

۱۔ بحار الانوار، ج ۶ طبع قدیم ص ۳۶۸-

۲۔ التحذیر ص۷-

۳۔ حسن بصری اور حضرت عائشہ سے مروی روایات بذاتِ خود محل اشکال ہیں کیونکہ واقعہ معراج مکہ مکرمہ میں پیش آیا تھا ۔(ثاقب)

معراج کا مقصد

گزشتہ مباحث پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ معراج کا مقصد یہ نہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم دیدار خدا کے لیے آسمانوں پر جائیں ، جیسا کہ سادہ لوح افراد خیال کرتے ہیں ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مغربی دانشور بھی نا آگاہی کی بناء پر دوسروں کے سامنے اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کرنے کے لیے ایسی باتیں کرتے ہیں ۔ ان میں سے ایک مسٹر ”گیورگیو“ ہیں ۔ وہ اپنی کتاب ”محمد وہ پیغمبر ہیں جنہیں پھر سے پہچاننا چاہیے“ میں کہتے ہیں :

محمد اپنے سفر معراج میں ایسی جگہ پہنچے کہ انہیں خدا کے قلم کی آواز سنائی دی انہوں نے سمجھا کہ اللہ اپنے بندوں کے حساب کتاب میں مشغول ہے البتہ وہ اللہ کے قلم کی آواز تو سنتے تھے مگر انہیں اللہ دکھائی نہ دیتا تھا کیونکہ کوئی شخص خدا کو نہیں دیکھ سکتا خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو۔(۱)

یہ عبارت نشاندہی کرتی ہے کہ قلم لکڑی کا تھا، ایسا کہ کاغذ پر لکھتے وقت لرزتا تھا اور آواز پیدا کرتا تھا ۔اسی طرح کی اور بہت ساری خرافات اس میں موجود ہیں ۔

جبکہ مقصدِ معراج یہ تھا کہ اللہ کے عظیم پیغمبر کائنات میں بالخصوص عالمِ بالا میں موجود عظمت الٰہی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں اور انسانوں کی ہدایت و رہبری کے لیے ایک نیا ادراک اور نئی بصیرت حاصل کریں ۔

امام صادق علیہ السلام سے مقصدِ معراج پوچھا گیا تو آپ (ع)نے فرمایا:

ان الله لا یوصف بمکان، ولا یجری علیه زمان، ولکنه عزوجل اٴراد اٴن یشرف به ملائکته و سکان سماواته، و یکرمهم بمشاهدته،و یریه من عجائب عظمته ما یخبربه بعد هبوطه ۔

خدا ہر گز کوئی مکان نہیں رکھتا اور نہ اس پر کوئی زمانہ گزرتا ہے لیکن وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں اور آسمان کے باسیوں کو اپنے پیغمبر کی تشریف آوری سے عزت بخشے اور انہیں آپ کی زیارت کا شرف عطا کرے نیز آپ کو اپنی عظمت کے عجائبات دکھائے تاکہ واپس آکر آپ انہیں لوگوں سے بیان کریں ۔(۲)

____________________

۱۔ مذکورہ کتاب کے فارسی ترجمہ کا نام ہے ”محمد پیغمبری کہ از نو باید شناخت“ ص ۱۲۵ دیکھیے ۔

۲۔ تفسیر برہان،ج۲،ص۴۰۰۔

معراج اور دور حاضر کا علم اور سائنس

گزشتہ زمانے میں بعض فلاسفہ بطلیموس کی طرح یہ نظریہ رکھتے تھے کہ نو آسمان پیاز کے چھلکے کی طرح ایک دوسرے کے اوپر ہیں ۔ واقعہ معراج کو قبول کرنے میں ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ان کا یہی نظریہ تھا ۔ ان کے خیال میں اس طرح تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ آسمان شگافتہ ہوگئے تھے اور پھر آپس میں مل گئے تھے ۔(۱)

لیکن بطلیموسی نظریہ ختم ہوگیا تو آسمانوں کے شگافتہ ہونے کا مسئلہ ہی ختم ہوگیا البتہ علم ہیئت میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے معراج کے سلسلے میں نئے سوالات ابھرے ہیں مثلاً:

(۱) ایسے فضائی سفر میں پہلی رکاوٹ کشش ثقل ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مدار اور مرکز ثقل سے نکلنے کے لیے کم از کم چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔

(۲)دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ۔

(۳) تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں اس حصے میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے کہ جس حصے پر سورج کی مستقیماً روشنی پڑ رہی ہے اور اس حصے میں مار ڈالنے والی سردی ہے کہ جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرہی ۔

(۴)اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطر ناک شعاعیں ہیں کہ فضائے زمین سے اوپر موجود ہیں مثلاً کاسمک ریز Cosmic Rays الٹراوائلٹ ریز Ultra Violet Rays اور ایکس ریز X-Rays ۔ یہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے آرگانزم Organism کے لیے نقصان وہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں ۔ (زمین پر رہنے والوں کے لیے زمین کے اوپر موجود فضا کی وجہ سے ان کی تابش ختم ہوجاتی ہے) ۔

(۵) ایک اور مشکل اس سلسلے میں یہ ہے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے اگر چہ تدریجاً بے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اگر زمین کے باسی بغیر کسی تیاری اور تمہید کے خلاص جا پہنچیں تو بے وزنی سے نمٹنا بہت ہی مشکل یا ناممکن ہے ۔

(۶) آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دور حاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی شخص آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہو۔

ان امور کے جواب میں ان نکات کس طرف توجہ ضروری ہے:

(۱) ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام ترمشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔

(۲) اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی کا پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعے صورت پذیر ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے، زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ معجزہ عقلاً محال نہیں ہونا چاہئے اور یہ معجزہ بھی عقلاً ممکن ہے ۔ باقی معاملات اللہ کی قدرت سے حل ہوجاتے ہیں ۔

جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے کہ جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں ، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ۔ یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا؟

ہمیں یقین ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اس سفر کے لیے انتہائی تیز رفتار سواری دی تھی اور اس سفر میں درپیش خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے انہیں اپنی مدد کا لباس پہنایا تھا ۔ ہاں یہ سواری کس قسم کی تھی اور اس کا نام کیا تھا ۔براق؟یا کوئی اور---؟ یہ مسئلہ قدرت کا راز ہے،ہمیں اس کا علم نہیں ۔

ان تمام چیزوں سے مقطع نظر تیز ترین رفتار کے بارے میں مذکورہ نظر یہ آج کے سائنسدانوں کے درمیان متزلزل ہوچکا ہے اگر چہ آئن سٹائن اپنے مشہور نظریے پر پختہ یقین رکھتا ہے ۔

آج کے سائنسدان کہتے ہیں کہ امواج جاذبہ Rays of Attraction زمانے کی احتیاج کے بغیر آنِ واحد میں دنیا کی ایک طرف سے دوسری طرف منتقل ہوجاتی ہیں اور اپنا اثر چھوڑتی ہیں یہاں تک کہ یہ احتمال بھی ہے کہ عالم کے پھیلاؤ سے مربوط حرکات میں ایسے منظومے موجود ہیں کہ جو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے مرکز جہان سے دور ہوجاتے ہیں (ہم جانتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے اور یتارے اور نظام ہائے شمسی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں )(غور کیجئے گا) ۔

مختصر یہ کہ اس سفر کے لیے جو بھی مشکلات بیان کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی عقلی طور پر اس راہ میں حائل نہیں ہے اور ایسی کوئی بنیاد نہیں کہ واقعہ معراج کو محال عقلی سمجھا جائے ۔اس راستے میں در پیش مسائل کو حل کرنے کے لیے جو وسائل درکار ہیں وہ موجود ہوں تو ایسا ہوسکتا ہے ۔

بہرحال واقعہ معراج نہ تو عقلی دلائل کے حوالے سے نا ممکن ہے اور نہ دور حاضر کے سائنسی معیاروں کے لحاظ سے، البتہ اس کے غیر معمولی اور معجزہ ہونے کو سب قبول کرتے ہیں لہٰذا جب قطعی اور یقینی نقلی دلیل سے ثابت ہوجائے تو اسے قبول کرلینا چاہیے ۔(۲)

واقعہ معراج کے سلسلے میں کچھ اور پہلو بھی ہیں جن پر انشاء اللہ سورہ نجم کی تفسیر میں گفتگو ہوگی ۔

____________________

۱۔ بعض قدیم فلاسفہ کا نظریہ تھا کہ آسمانوں میں ایسا ہوتا ممکن نہیں ہے ۔ اصطلاح میں وہ کہتے تھے کہ افلاک میں ”خرق“ (پھٹنا) اور ”التیام“(ملنا) ممکن نہیں ۔

۲۔ مزید وضاحت کے لیے کتاب ”ہمہ می خواہند بدانند“ کی طرف رجوع فرمائیں ۔ اس میں ہم نے معراج، شق القمر اور قطبین میں عبادت کے سلسلے میں بحث کی ہے ۔