تفسیر نمونہ جلد ۱۲

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 16483
ڈاؤنلوڈ: 2159


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16483 / ڈاؤنلوڈ: 2159
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 12

مؤلف:
اردو

جاہل مغرور

گزشتہ آیات کے بعد بہت سے لوگوں کے سامنے یہ سوال ابھرتا ہے کہ مسئلہ توحید اس قدر واضح ہے کہ تمام موجودات عالم اس کی گواہی دیتے ہیں تو پھر مشرکین اس حقیقت کو کیوں قبول نہیں کرتے، وہ یہ گویا اور رسا آیات قرآن سننے کے باوجود بیدار کیوں نہیں ہوتے؟

ہوسکتا ہے زیرِ بحث آیات اس سوال کے جواب کی طرف اشارہ ہوں ۔ پہلی آیت کہتی ہے: اے رسول! ”جس وقت تو قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے درمیان پردہ حائل کردیتے ہیں “( وَإِذَا قَرَاٴْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا ) ۔

یہ حجاب در اصل ہٹ دھرمی، تعصب، خود پرستی، غرور و تکبر اور جہالت ہی تھی کہ جوان کی فکر و نظر سے حقائق قرآن چھپادیتی تھی اور انہیں اجازت نہ دیتی تھی کہ وہ توحید و معاد، دعوتِ پیغمبر کی صداقت اور اس قسم کے دیگر حقائق کا ادراک کرسکیں ۔

لفظ ”مستور“یہاں ”حجاب“ کی صفت یا ذاتِ پیغمبر کی حقائقِ قرآن کی، اس بارے میں مفسرین نے مختلف آراء پیش کی ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم ان آیات کی تفسیر کے آخر میں بحث کریں گے ۔اسی طرح خدا کی طرف سے اس حجاب کے پیدا ہونے کی کیفیت کے بارے میں بھی وہیں پر بحث آئے گی۔

اگلی آیت میں مزید فرمایا گیا ہے: ”ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں تاکہ وہ قرآن کو نہ سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں گرانی اور بوجھ ہے“( وَجَعَلْنَا عَلیٰ قُلُوبِهِمْ اٴَکِنَّةً اٴَنْ یَفْقَهُوهُ وَفِی آذَانِهِمْ وَقْرًا ) ۔اسی لیے جب تو اپنے پروردگار کو قرآن میں تنہا یاد کرتا ہے تو وہ پیٹھ پھیر لیتے ہیں( وَإِذَا ذَکَرْتَ رَبَّکَ فِی الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلیٰ اٴَدْبَارِهِمْ نُفُورًا ) ۔

واقعاً حق سے فرار کیسی عجیب بات ہے یعنی بات ہے یعنی سعادت و نجات سے فرار، خوش بختی اور کامیابی سے فرار اور فہم و شعور سے فرار۔ اس معنی کی نظیر سورہ مدثر کی آیات ۵۰ اور ۵۱ میں بھی ہے:

( کَاٴَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ ) ۔

”گویا وہ خو فزدہ گدھے ہیں کہ غضبناک شیر سے بھاگ رہے ہیں “۔

مزید فرمایا گیا: ہم جانتے ہیں کہ وہ کیوں تمہاری باتیں کان دھر کر سنتے ہیں( نَحْنُ اٴَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ یَسْتَمِعُونَ إِلَیْک ) ۔ اور جب وہ آپس میں سر گوشیاں اور کان پھونسیاں کرتے ہیں( وَإِذْ هُمْ نَجْوَی ) ۔

جس وقت ظالم لوگ مومنین سے کہتے ہیں ہیں کہ صرف تم ایسے شخص کی پیروی کرتے ہو جو سحر زدہ ہے اور ساحروں نے جس کی عقل و ہوش کو ختم کردیا ہے( إِذْ یَقُولُ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلاَّ رَجُلًا مَسْحُورًا ) ۔

یہ لوگ در اصل ادراک حقیقت کے لیے تیرے پاس نہیں آتے اور تیری باتیں دل کے کانوں سے نہیں سنتے بلکہ ان کا مقصد تو یہ ہے کہ وہ آکر مخل ہوں اور اگر ہوسکے تو مومنین کو راستے سے بھٹکا دیں ۔ اصولی طور پر جس کے دلپر پردہ پڑا ہو اور جس کے کان ایسے بوجہل ہوں کہ وہ حق بات سن ہی نہ سکے وہ مردان حق کی باتیں ایسے مقاصد کے علاوہ نہیں سنتے ۔

زیرِ بحث آخری آیت میں پیغمبر اکرم کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے مختصرسی عبارت میں ان گمراہوں کو دندان شکن جواب دیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: دیکھ! تیرے بارے میں کیسی کیسی پھبتیاں کستے ہیں (کوئی تجھے جادو گر کہتا ہے، کوئی سحر زدہ ، کوئی کاہن اور کوئی مجنون) ، یہی وجہ ہے کہ وہ گمراہ ہوئے ہیں اور راہِ حق پانے کی سکت نہیں رکھتے( انظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوا لَکَ الْاٴَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَایَسْتَطِیعُونَ سَبِیلًا ) ۔

ایسا نہیں کہ راستہ واضح نہیں ہے اور حق کا چہرہ چھپ گیا ہے بلکہ ان کے پاس چشم بینا نہیں ہے اور وہ بعض و جہالت، تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی عقل و خرد گنوا بیٹھے ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ان آیات کا مجموعی جائزہ:

زیرنظر آیات میں گمراہ لوگوں کی حالت اور شناخت حق کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کا عمدہ نقشہ کھینچا گیا ہے ۔ مجموعی طور پر یہ آیات کہتی ہیں کہ حق کی پہنچان میں ان کے لیے تین بڑی رکاوٹیں موجود ہیں ، وہ نہ ہوں تو اُن کے لئے حق کا چہرہ دیکھنا آسان ہوجائے ۔

پہلی یہ کہ قرآن رسول اللہ سے کہتا ہے کہ تیرے اور ان کے درمیان ایک حجاب حائل ہے یہ حجاب سوائے بغض ، کینے، حسد اور عداوت کے کچھ اور نہیں کہ جو ان کے سینوں میں تیرے لیے موجود ہے ۔ اسی وجہ سے وہ تیری بلند شخصیت کو نہیں دیکھ پاتے اور تیری گفتار و رفتار کی عظمت کو نہیں سمجھ پاتے ۔ یہاں تک کہ اچھائیاں بھی انہیں برائیاں معلوم ہوتی ہیں ۔

دوسری یہ کہ وہ رسول اللہ سے کینہ اور حسدہی نہ رکھتے تھے بلکہ ان کے دلوں پر جہالت اور اندھی تقلید کے پردے بھی پڑے ہوئے تھے یہاں تک کہ وہ کسی شخص سے حق بات سننے کے لیے بھی تیار نہ تھے ۔

تیسری رکاوٹ شناختِ حق میں یہ حائل تھی کہ ان کے آلاتِ شناخت ہی حق قبول کرنے کے لئے آمادہ نہ تھے ۔ مثلاً ان کے کان ہی حق بات سے ایسی نفرت کرتے تھے کہ گویا حق بات کو دفع کرتے تھے اور اس کے سامنے گویا بہرے ہوجاتے تھے جبکہ اس کے برعکس باطل کی باتیں انہیں پسند تھیں ۔ باطل ان کے لیے لذت بخش تھا اور ان پر فوری اثر کرتا تھا ۔

خصوصاً یہ بات تو تجربے سے ثابت ہوئی ہے کہ جن باتوں کی طرف انسان رغبت نہ رکھتا ہو انہیں مشکل ہی سے سنتا ہے اور جن کی طرف میلان رکھتا ہے انہیں خاص تیزی کے ساتھ سنتا اور سمجھتا ہے گویا اندرونی میلانات بھی انسان کے ظاہری حواس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اسے اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں ۔

ان تین موانع کا نتیجہ یہ تھا کہ:

اولاً: وہ کلمہ حق سننے سے بھاگتے تھے خصوصاً جب اللہ کی وحدانیت کے بارے میں گفتگو ہوتی کہ جوان کے تمام مشرکانہ عقائد کی بنیاد ہی سے متصادم تھی تو وہ تیزی سے بھاگ کھڑے ہوتے تھے ۔

ثانیاً: وہ اپنے انحرافی خط کو صحیح ثابت کرنے کے لیے رسول اللہ اور ان کے ارشادات کے بارے میں غلط توجہیں کرتے تھے اور آپ پر طرح طرح کی تہمتیں لگاتے تھے ۔ کوئی ساحر کہتا اور کوئی شاعر ، کوئی آپ کو مجنون قرار دیتا اور کوئی دیوانہ۔

تمام دشمنانِ حق کہ جن کے اعمال و صفات رذیلہ ان کے لیے حجاب ہیں ، کی یہی حالت ہے ۔ اسی مقام پر ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص راہِ حق اور صراط مستقیم پر چلنا چاہتا ہے اور انحراف و گمراہی سے بچنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسے اپنی اصلاح کی کوشش کرنا چاہئے ۔ دل کو بغض و کینہ اور حسد و عناد سے پاک کرنا چاہیے ۔ روح کو غرور و نخوت سے پاک کرنا چاہیے ۔ خلاصہ یہ کہ اپنے وجود کو صفاتِ رذیلہ سے پاک کرنا چاہیے چونکہ جب دل کا آئینہ ان رذائل سے پاک صاف ہوکر صیقل ہوجائے گا تو پھر تمام حقائق اس پر اپنا پَرتَو ڈال سکیں گے یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات بے علم پاک دل افراد حقائق سمجھ لیتے ہیں لیکن غیر تہذیب یافتہ عالم نہیں سمجھ پاتے ۔

۲ ۔ خدا کی طرف نسبت کا مفہوم:

دوسری بہت سی آیات کی طرح زیر بحث آیات میں بھی حجابوں کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے ۔ فرمایا گیا ہے:

ہم ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں ۔

تیرے اور ان کے درمیان ہم حجاب حائل کردیتے ہیں اور ان کے کانوں میں سنگینی قرار دیتے ہیں ۔

ہوسکتا ہے ایسی تعبیرات سے جاہل افراد مکتبِ جبر کا مفہوم لیں حالانکہ یہ تو ان کے اعمال ہی کے آثار اور نتائج ہیں ۔ در حقیقت وہ خود ہی ہیں جو اپنے گناہوں اور بری صفات کے ذریعے یہ حجاب پیدا کرتے ہیں لیکن چونکہ ہر چیز کی خاصیت خدا کی طرف سے ہے اور عملِ قبیح اور صفاتِ رذیلہ میں خدانے یہ تاثیر پیدا کی ہے لہٰذا اس خاصیت اور حجاب کی نسبت خدا کی طرف بھی دی جاسکتی ہے ۔ اس بارے میں گزشتہ مباحث میں ہم بارہا گفتگو کرچکے ہیں اور اس سلسلے میں قرآن سے بھی بہت سے شواہد پیش کیے حا چکے ہیں ۔

۳ ۔ حجاب مستور کیا ہے؟ :

اس سلسلے میں مفسرین کی کئی مختلف آراء ہیں ۔ مثلاً:

(الف) بعض ”مستور“کو ”حجاب“ کی صفت سمجھتے ہیں کہ قرآن کی تعبیر کا ظہور یہ ہے کہ حجاب نگاہوں سے پوشیدہ ہیں ۔ در حقیقت کینہ و عداوت اور حسد وبغض کے حجاب ایسے نہیں ہیں جو آنکھ سے دکھائی دیں بلکہ ان کے باعث جس سے حسد اور کینہ ہوتا ہے اُس کے اور اِس کے درمیان ایک ضخیم پردہ حائل ہوجاتا ہے ۔

(ب) بعض دیگر مفسرین ”مستور “کو ”ساتر“ کے معنی میں سمجھتے ہیں (کیونکہ اسم مفعول بعض اوقات فاعل کے معنی میں آتا ہے جیسا کہ آیات مذکورہ میں بھی بعض مفسرین ”مسحور“ کو ”ساحر“ کے معنی میں سمجھتے ہیں ) ۔(۱)

(ج) بعض ”مستور“ کو ”حجاب“ کی مجازی توصیف سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مراد یہ نہیں ہے کہ یہ حجاب مستور ہے بلکہ وہ حقائق جو اس حجاب کے ماو راء ہیں وہ مستور ہیں (مثلاً پیغمبر اکرم کی شخصیت آپ کی دعوت کی عظمت اور آپ کے ارشادات کی عظمت) ۔

لیکن ان تینوں تفسیروں میں غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ پہلی تفسیر ظاہر آیت سے زیادہ ہم آہنگ ہے، بعض روایات میں بھی ہے کہ بعض اوقات رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سخت ترین دشمن آپ کی طرف آتے جبکہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت میں مشغول ہوتے لیکن وہ آپ کو نہ دیکھ پاتے گویا آپ کی خیرہ کن عظمت کے باعث یہ دل کے اندھے آپ کو نہ دیکھ پاتے اور نہ پہچان پاتے لہٰذا آپ ان کی طرف سے اذیت سے محفوظ رہتے ۔

____________________

۱۔ اخفش سے منقول ہے کہ وہ کہتا ہے:”اسم مفعول کبھی اسم فاعل کے معنی میں ہوتا ہے مثلاً ”میمون“ ”یامن“ کے معنی میں اور ”مشئوم“ ”شائم“ کے معنی میں ۔

۴ ۔ ”اکنہ “اور ”وقر“ کیا چیز ہے؟

”اکنہ“ ”کنان“ (برورزن ”زیان“) کی جمع ہے، یہ در اصل ہر قسم کی ڈھانپتے اور مستور کرتے ہیں لیکن ”کن“ (بروزن ”جِنّ“)اس برتن کو کہتے ہیں جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ ”کن“ کی جمع ”اکنان“ ہے ۔ بعد ازان اس معنی میں وسعت پیدا ہوگئی اور ہر چیز کہ جو مستور ہونے کا باعث بنے کے لئے بولا جانے لگا، مثلاً پردہ، گھر اور وہ اجسام کہ جن کے پیچھے انسان اپنے آپ کو چھپائے ۔

”وقر“ (بروزن ”جبر“) سنگینی کے معنی میں ہے کہ جو کان میں پیدا ہوجائے اور ”وقر“ (بروزن ”رزق“) بارِسنگین کے معنی میں ہے ۔

۵ ۔ ”( ما یستمعون به ) “ کی تفسیر

اس کی مفسرین نے دو تفسیر کی ہیں :

طبرسی نے مجمع البیان میں اور فخر الداین رازی نے تفسیر کبیر میں اور بعض دیگر مفسّرین نے اسے ”سببِ استماع“ کے معنی میں لیا ہے یعنی ہم جانتے ہیں کہ وہ تیری باتیں کیوں کان لگار سنتے ہیں ، ادراکِ حق کے لئے؟ نہیں بلکہ استہزاء اور جوڑ توڑ لگانے اور الٹی سیدھی توجیہات کرنے کے لئے مختصر یہ کہ گمراہ ہونے اور گمراہ کرنے کے لئے علامہ طباطبائی نے المیزان میں اور بعض دیگر مفسّرین نے اسے ”وسیلہ استماع“ کے معنی میں لیا ہے یعنی ہم جانتے ہیں کہ وہ کن کانوں سے تیری باتیں کان لگار سنتے ہیں اور ہم ان کے دلوں اور ان کی سرگوشیوں سے آگاہ ہیں ۔

(پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے) ۔

۶ ۔ وہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ”مسحور“ کیوں کہتے تھے؟

”مسحور“ کا معنی ہے سحر شدہ اور ”ساحر“ کا معنی ہے سحر کرنے والا ۔

دشمن رسول لله کو ”مسحور“ یا تو اس بناء پر کہتے تھے کہ وہ اس طرح آپ کی طرف جنون کی نسبت دینا چاہتے تھے اور کہنا چاہتے تھے کہ جادوگروں نے آپ کو فکر وعقل پر اثر کیا ہے اور ساحروں نے (معاذ الله ) آپ کے حواس مختل کردیئے ہیں ۔

بعض مفسّرین نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ ”مسحور“ یہاں ”ساحر “کے معنی میں ہے (کیونکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اسم مفعول کبھی اسمِ فاعل کے معنی میں آتا ہے) ۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ رسول الله کا غیر معمولی کلام جادو ہے جو لوگوں کے دلوں پر اثر کرتا ہے ۔ ضمنی طور پر یہ بات کہہ کر وہ آپ کے کلام کی عجیب تاثیر کا اعتراف کرتے تھے ۔

۷ ۔ توحید کی آواز پر مشرکین کا خوف

زیرِ بحث آیات میں ہم نے پڑھا ہے مشرکین خاص طور پر توحید کی آواز سن کر سخت خوف میں مبتلا ہوجاتے تھے اور بھاگ کھڑے ہوتے تھے کیونکہ ان کی تمام تر زندگی کی بنیاد شرک اور بت پرستی تھی اور ان کے معاشرے پر مشرکانہ نظام حکمران تھا ۔ اگر توحید کی بنیاد پڑجاتی تو نہ صرف ان کے مذہبی عقائد پر ضرب پڑتی تھی بلکہ ان کا معاشرتی، اقتصادی، سیاسی، ثقافتی اور تمدنی نظام بھی جو شرک پر مبنی تھا وہ تباہ ہوکر رہ جاتا، اس طرح حکومت پسے ہوئے مستضعف لوگوں کے ہاتھ آجاتی۔

مستکبرین کا خاتمہ ہوجاتا، اور استعمار اور لوٹ کھسوٹ کہ جو مشرکانہ نظاموں کا نتیجہ ہے ختم ہوجاتا، اور طبقاتی تفاوت ختم ہوجاتا تھا، لہٰذا جن کے اقتدار کا انحصار شرک پر تھا ان کی سخت کوشش تھی کہ توحید کی پکار کسی کے کان تک نہ پہنچنے پائے لیکن جیسا کہ زیرِ بحث آیات اشارہ کرتی ہیں وہ ظالم اور ستمگر لوگ تھے کہ جو مستضعف عوام پر بھی ظلم کرتے تھے اور اپنے آپ پر بھی، کیونکہ ہر ظالم منحرف اپنی قبر آپ کھودتا ہے ۔

یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ مشرکین چاہتے تھے کہ انھیں فسق وفجور اور گناہ جاری رکھنے کا کوئی جواز ہاتھ آجائے لہٰذا باربار پوچھتے تھے قیامت کا دن کب آئے گا:( بَلْ یُرِیدُ الْإِنسَانُ لِیَفْجُرَ اٴَمَامَهُ، یَسْاٴَلُ اٴَیَّانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ )

”بلکہ انسان تو یہ چاہتا ہے کہ ہمیشہ بُرائی کرتا رہے ۔ (جبھی تو) پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا“۔ (قیامت/ ۵,۶)

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ بھی ذمہ داری اور جوابدہی سے فرار کے لئے ایک بہانہ سازی تھی۔

آیات ۴۹،۵۰،۵۱،۵۲

۴۹( وَقَالُوا اٴَئِذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا اٴَئِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا )

۵۰( قُلْ کُونُوا حِجَارَةً اٴَوْ حَدِیدًا )

۵۱( اٴَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُورِکُمْ فَسَیَقُولُونَ مَنْ یُعِیدُنَا قُلْ الَّذِی فَطَرَکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ فَسَیُنْغِضُونَ إِلَیْکَ رُئُوسَهُمْ وَیَقُولُونَ مَتیٰ هُوَ قُلْ عَسیٰ اٴَنْ یَکُونَ قَرِیبًا )

۵۲( یَوْمَ یَدْعُوکُمْ فَتَسْتَجِیبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِیلًا )

ترجمہ

۴۹ ۔ اور انھوں نے کہا کہ بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے اور بکھر جائیں گے تو دوبارہ نئی خلقت حاصل کریں گے ۔

۵۰ ۔ کہہ دو کہ تم پتھر یا لوہا ہوجاؤ۔

۵۱ ۔ یا جو مخلوق تمھاری نظر میں ان سے زیادہ سخت ہو ( اور جس میں زندگی کے دُور دُور تک کوئی آثار نہ ہوں ۔ پھر بھی خدا قادر ہے کہ تمھیں نئی زندگی کی طرف پلٹادے) ۔ عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں دوبراہ پلٹائے گا ۔ کہہ دو: وہی جس نے تمھیں پیدا کیا تھا ۔ وہ (تعجب اور انکار سے) تیرے سامنے اپنے سر جھکاتے ہیں اور کہتے ہیں :ایسا کس وقت ہوگا ۔ کہہ دو: شاید نزدیک ہو۔

۵۲ ۔ وہی دن کہ جب وہ تمھیں (تمھاری قبروں سے) بُلائے گا تم بھی جواب دوگے اس حالت میں کہ اُس کی حمد کررہے ہوگے اور خیال کروگے کہ تم تھوڑی سی مدت ہی (عالمِ برزخ میں ) رہے ہو۔

قیامت یقینی ہے

گزشتہ آیات توحید سے متعلق اور شرک کے خلاف مبارزہ کے بارے میں تھیں لیکن زیرِ نظر آیات میں معاد اور قیامت کے بارے میں گفتگو ہے اور ہر مقام پر اس گفتگو سے مسئلہ توحید کی تکمیل ہوتی ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ عقائدِ اسلامی میں سے بنیادی ترین مبداء ومعاد کا عقیدہ ہے یہی عقیدہ انسان کی عملی اور اخلاقی طور پر تربیت کرتا ہے، یہ عقیدہ آلودگی اور گناہ سے بچاتا اور ادائیگی فرض کی دعوت دیتا ہے اور انسان کو تکامل وارتقاء کے راستے پر جاتا ہے ۔

ان آیات میں منکرین معاد کے تین سوالات یا تین اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، پہلے ارشاد ہوتا ہے: انھوں نے کہا کہ جب ہم ہڈیوں میں تبدیل ہوگئے اور یہ ہڈیاں بھی بوسیدہ ہوکر منتشر ہوگئیں تو کیا ہمیں نئے سرے سے تخلیق کیا جائے گا( وَقَالُوا اٴَئِذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا اٴَئِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا ) ۔(۱)

کیا اصولی طور پر اس بات کا امکان ہے کہ بوسیدہ اور ذرہ ذرہ ہوکر بکھر جانے والی ہڈیاں نئے سے جمع ہوں اور اس کے بعد پھر انھیں لباسِ حیات عطا ہوجائے، بوسیدہ اور پراکندہ ہڈیاں کہاں اور ایک زندہ طاقتور اور عقلمند انسان کہاں ۔

معاد کے بارے میں قرآن کی دیگر بہت سی تعبیرات کی طرح یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ رسول الله اپنی گفتگو میں ہمیشہ معادِ جسمانی کی بات کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بکھر جانے کے بعد یہ جسم پھر پلٹ آئے گا، ورنہ اگر معادِ روحانی کی بات ہوتی تو مخالفین کے ایسے اعتراضات کے کوئی معنی نہ تھے ۔

قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے: کہہ دو: کہ بوسیدہ اور خاک شدہ ہڈی سے لباسِ حیات عطا کرنا تو آسان کام ہے ”تم پتھر یا لوہا بن جاؤ“ تو پھر بھی خدا قادر ہے کہ تمھارے بدن کو لباسِ حیات پہنادے( قُلْ کُونُوا حِجَارَةً اٴَوْ حَدِیدًا ) ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مخلوق پتھر اور لوہے سے بھی سخت تر ہو اور زندگی سے بہت دُور ہو اور اس لحاظ سے تمھاری نظر میں زیادہ بڑا کام ہو تو خدا قادر ہے کہ اس کے بدن پر جامہ حیات پہنادے( اٴَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُورِکُمْ ) ۔

واضح رہے کہ ہڈیاں بوسیدہ ہوکر خاک ہوجاتی ہیں اور مٹی میں ہمیشہ آثارِ حیات ہوتے ہیں ، نباتات خاک ہی سے اُگتے ہیں ، زندہ موجودات خاک ہی میں پرورش پاتے ہیں اور انسانی وجود کی اصل بھی خاک ہے، مختصر یہ کہ خاک زندگی کات دروازہ ہے لیکن پتھر، لوہا یا وہ موجودات جو ان سے زیادہ سخت ہیں ان کا فاصلہ زندگی سے بہت زیادہ ہے، نباتات کبھی بھی ہو اور جو کچھ بھی ہوجاؤ تمھاری طرف زندگی لوٹادینا اس کے لئے کچھ مشکل نہیں ۔

پتھر بوسیدہ ہوکر خاک میں بدل جاتے ہیں اور پھر مٹھی کے سینے سے زندگی پیدا ہوجاتی ہے، لویا بھی بوسیدہ ہوکر پراکندہ ہوجاتا ہے اور پھر اس کرہ خاکی کے دوسرے موجودات سے مل کر تمام مبداء حیات بن جاتا ہے ۔

اس زمین میں ہم جس موعود کا بھی تصور کریں ، وہ معدنیات میں سے ہو یا معدنیات سے مشابہ کسی چیز سے، انسانی بدن کی عمارت میں ساعمتال ہوتا ہے، یہ چیز نشاندہی کرتی ہے کہ اس عالم کے تمام ذرّات میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ موجودِ زندہ میں تبدیل ہوجائے اگرچہ ان میں سے بعض کسی مرحلے میں زندگی سے زیادہ قریب ہوتے ہیں مثلاً مٹی اور بعض نسبتاً دور ہوتے ہیں مثلاً پتھر اور لوہا ۔

ان کا اعتراض یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ اچھا اگر ہم مان لیں کہ یہ بوسیدہ اور منتشر ہڈیاں پھر زندگی حاصل کرسکتی ہیں تو یہ کام انجام دینے کی قدرت کسی میں ہے؟ وہ یہ اس لئے کہتے تھے کیونکہ وہ اس تبدیلی کو ایک نہایت پیچیدہ اور مشکل امر سمجھتے تھے ۔ ”وہ کہتے تھے کہ کون انھیں اٹھائے گا“( فَسَیَقُولُونَ مَنْ یُعِیدُنَا ) ۔

اس سوال کا جواب قرآن اس طرح دیتا ہے: ان سے کہو کہ وہی جس نے پہلی مرتبہ تمھیں پیدا کیا تھا( قُلْ الَّذِی فَطَرَکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ ) ۔

اگر ”وہ قابل“ کی قابلیت میں تمھیں شک ہے تو سوچو کہ تم پہلے بھی تو خاک تھے، پھر اب کیا رکاوٹ ہے پھر خاک بننے کے بعد تمھیں زندگی دے دی جائے، اگر ”فاعل“ کی فاعلیت میں شک ہے تو وہی خدا جس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا وہ پھر بھی یہ کام کرسکتا ہے کیونکہ:حکم الامثال فیما یجوز وفیما لایجوز واحد -

ہم مثل چیزوں کے جائز اور ناجائز فیصلہ ایک جیسا ہوتا ہے ۔

آخر میں ان کا تیسرا اعتراض بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: وہ تعجب اور انکار کرتے ہوئے اپنا سر ہلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قیامت کب برپا ہوگی( فَسَیُنْغِضُونَ إِلَیْکَ رُئُوسَهُمْ وَیَقُولُونَ مَتیٰ هُوَ ) ۔

( فَسَیُنْغِضُونَ ) “”انغاض“ کے مادہ سے کسی مقابل شخص کی جانب تعجب سے سربلانے کے معنی میں ہے ۔

اس اعتراض سے ان کی مراد یہ تھی کہ فرض کریں یہ مادہ خاکی انسان میں تبدیل ہونے کے مقابل ہے اور یہ بھی مان لیں کہ خدا میں یہ قدرت ہے لیکن یہ تو ایک ادھار والے وعدے سے زیادہ بات نہیں ہے اور معلوم نہیں کہ قیامت کب واقع ہوگی، اگر ہزاروں یا لاکھوں سال بعد ہوتی تو ہماری آج کی زندگی میں اس کا کیا اثر ہوگا،نقد بات کرو ادھار بات چھوڑو۔

قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے: ان سے کہہ دو: اس کا زمانہ قریب ہے( قُلْ عَسیٰ اٴَنْ یَکُونَ قَرِیبًا ) ۔

قیامت کی گھڑی قریب ہی ہے کیونکہ اس عالم کی مجموعی عمر کتنی ہی کیوں نہ ہو دوسرے جہاں کی بے پایاں زندگی کے مقابلے میں تو جلدی گزر جانے والے ایک لمحے سے زیادہ نہیں ہے ۔

اس سے قطع نظر اگر قیامت ہمارے چھوڑے اور محدود معیار کے مطابق دور بھی ہوتو بھی قیامت کا آستانہ۔ یعنی موت۔ ہم سب کے قریب ہے ۔ کیونکہ موت قیامت صغریٰ ہے:”اذا مات الانسان قامت قیامته

جب انسان کو موت آجاتی ہے تو اس کے لیے قیامت واقع ہوجاتی ہے ۔

یہ ٹھیک ہے کہ موت قیامت کبریٰ نہیں ہے لیکن اس کی یاد تو دلاتی ہے ۔

ضمنی طور پر ”عَسیٰ “ کی تعبیر شاید اس طرف اشارہ ہو کہ کوئی شخص دقیقاً قیامت کی تاریخ نہیں جانتا اور یہ ان علوم میں سے ہے جو ذاتِ پروردگار سے مخصوص ہیں ۔ اس کے علاوہ کوئی بھی اس سے آگاہ نہیں ۔

اگلی آیت میں قیامت کی متعین تاریخ ذکر کیے بغیر اس خصوصیات بیان کی گئی ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے: زندگی کی طرف یہ بازگشت اس دن ہوگی جس دن تمہیں قبروں سے پکارا جائے گا اور تم چاہو یا نہ چاہو اس کی دعوت پر لبیک کہو گے اور خدا کی حمد و ثناء کرتے ہوئے زندگی کی طرف پلٹ آؤ گے

( یَوْمَ یَدْعُوکُمْ فَتَسْتَجِیبُونَ بِحَمْدِهِ ) ۔

اور وہ ایسا دن ہے کہ تم موت اور قیامت کے درمیان کے فاصلہ(دور ِبرزخ) کو کم سمجھو گے اور خیال کرو گے کہ برزخ میں تو تم تھوڑی سی مدت ہی رہے ہو

( وَتَظُنُّونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِیلًا ) ۔ اگر چہ یہ طولانی ہو لیکن عالم بقاء کی انتہا عمر کے مقابلے میں چند جلدی سے گزر جانے والے لمحات سے زیادہ نہیں ہے ۔

بعض مفسّرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ یہ دنیال میں توقف کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ دن کہ جب تم جان لوگ کہ دنیاوی زندگی کوئی زیادہ طولانی نہ تھی چند مختصر سی گزر گھڑیاں تھیں ۔

____________________

۱۔ رفاف، بروزن کرات۔