تفسیر نمونہ جلد ۱۲

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 16259
ڈاؤنلوڈ: 2002


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16259 / ڈاؤنلوڈ: 2002
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 12

مؤلف:
اردو

آیات ۵۸،۵۹،۶۰

۵۸( وَإِنْ مِنْ قَرْیَةٍ إِلاَّ نَحْنُ مُهْلِکُوهَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ اٴَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِیدًا کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتَابِ مَسْطُورًا )

۵۹( وَمَا مَنَعَنَا اٴَنْ نُرْسِلَ بِالْآیَاتِ إِلاَّ اٴَنْ کَذَّبَ بِهَا الْاٴَوَّلُونَ وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلاَّ تَخْوِیفًا

) ۶۰( وَإِذْ قُلْنَا لَکَ إِنَّ رَبَّکَ اٴَحَاطَ بِالنَّاسِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی اٴَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا یَزِیدُهُمْ إِلاَّ طُغْیَانًا کَبِیرًا )

ترجمہ

۵۸ ۔ قیامت سے پہلے ہم ہر شہر اور آبادی کو ہلاک کریں گے یا (اگر گنہگار ہیں تو) انہیں سخت عذاب میں گرفتار کریں گے، یہ کتابِ الٰہی (لوح محفوظ) میں ثبت ہے ۔

۵۹ ۔ ہمارے لیے کوئی امر مانع نہیں کہ ہم (بہانہ ساز لوگوں کے تقاضوں پر) یہ معجزات بھجتے سوائے اس کے کہ گزرے ہوئے لوگوں نے (کہ جو اسی قسم کے تقاضے کرتے تھے اور انہی جیسے تھے انہوں نے) ان کی تکذیب کی۔ (انہی میں سے)ثمود کو ہم نے ناقہ دیا(اور وہ ایسا معجزہ تھا کہ) جو واضح اور روشن تھا لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا (اور ناقہ کو ہلاک کردیا) ہم معجزات صرف ڈرانے (اور اتمامِ حجت) کیلئے بھیجتے ہیں ۔

۶۰ ۔وہ وقت یاد کر جب ہم نے تجھ سے کہا کہ تیرا پروردگار لوگوں پر پوری طرح محیط ہے (اور ان کی کیفیت سے پوری طرح آگاہ ہے) ۔ہم نے جو خواب تجھے دکھایا تھا وہ صرف لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا ۔ اسی طرح جس شجرِ ملعونہ کا ہم نے قرآن میں ذکر کیا ہے، ہم انہیں ڈراتے (اور تنبیہ کرتے) ہیں لیکن ان کے طغیان و سرکشی کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں ہوتا ۔

بہانہ سازوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرو

پہلے مشرکین سے توحید و معاد کے بارے میں گفتگو تھی۔ زیرِ بحث پہلی آیت میں بیدار کرنے کے انداز میں انہیں پند و نصیحت کی گئی ہے ۔ اس میں ان کی نگاہِ عقل کے سامنے اس دنیا کے فانی ہونے کو مجسم کیا گیا ہے تاکہ وہ جان لیں کہ یہ دنیا سرائے فانی ہے اور سرائے بقا کوئی دوسری جلہ ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کرلیں ۔ ارشاد ہوتا ہے: روئے زمین پر کوئی ایسی آبادی نہیں جس روزِ قیامت سے قبل ہم ہلاک نہ کریں یا اسے عذابِ شدید میں گرفتار نہ کریں( وَإِنْ مِنْ قَرْیَةٍ إِلاَّ نَحْنُ مُهْلِکُوهَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ اٴَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِیدًا ) ۔ستمگروں ، بدکاروں اور سرکش باغیوں کو غذابِ شدید کے ذریعے ہلاک کردیں گے اور دوسرے طبعی موت یا عام حوادث ک سامنا کریں گے ۔

آخر کار یہ دنیا ختم ہوجائے گی اور سب راہِ فنا اختیار کریں گے اور یہ ایک تسلیم شدہ اور قطعی اصول ہے کہ جو کتابِ الٰہی میں ثبت ہے ( کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتَابِ مَسْطُورًا) ۔ یہ کتاب وہی لوح محفوظ، پروردگار کا علم بے پایان اور عالم ہستی میں اس کے ناقابلِ تغیّر قوانین کا مجموعہ ہے ۔ اس قطعی اور ناقابل تغیّر قوانین کا مجموعہ ہے، اس قطعی اور ناقبال تغیّر کتاب الٰہی کی طرف توجہ کرتے ہوئے گمراہوں ، ستمگروں اور آلودہ مشرکین کو ابھی سے اپنے اعمال کے انجام کا اندازہ کرلینا چاہیے، انھیں جان لینا چاہیے کہ اگر وہ اس جہان کے اختتام تک زندہ رہے تو تھی آخرکار ان کے لئے فنا ہے اور اس کے بعد انھیں حساب اور جزا کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

یہاں ے مشرکین کا ایک اعتراض باقی رہ جاتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اچھا، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ، ہم ایمان لے آئیں گے لیکن ایک شرط کے ساتھ اور وہ یہ کہ ہم جس معجزے کی فرمائش کریں پیغمبر اسلام وہ پیش کریں اور درحقیقت ہمارے عذر بہانوں کے سامنے سر جھکادیں ۔

قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے: ان معجزات کی تکذیب کی تھی( وَمَا مَنَعَنَا اٴَنْ نُرْسِلَ بِالْآیَاتِ إِلاَّ اٴَنْ کَذَّبَ بِهَا الْاٴَوَّلُونَ ) ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ معجزات جو صداقتِ پیغمبر کی دلیل ہیں کافی مقدار میں بھیجے جاچکے ہیں اور اب تمھارے من پسند کے معجزات اور تقاضے ایسے نہیں ہیں کہ جن سے موافقت کی جائے کیونکہ تم مشاہدہ کے بعد بھی ایمان نہیں لاؤگے، اگر تم پوچھو کہ اس کی دلیل کیا ہے تو اس کی دلیل ان گزشتہ امتوں کا طرزِعمل ہے جن کی حالت بالکل تم جیسی تھی وہ بھی بہانے تراشنے اور طرح طرح کے تقاضے کرتے تھے لیکن بعد میں وہ ایمان نہ لائے ۔

اس کے بعد قرآن اس کی ایک واضح مثال بیان پیش کرتا ہے: ہم نے قوم ثمود کو ایک ناقہ دیا کہ جو واضح کرنے والا تھا( وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً ) ۔

یہ اوٹنی تھی جو حکم خدا سے پہاڑ سے برآمد ہوئی، کیونکہ ”انھوں نے ایسا ہی معجزہ طلب کیا“ یہ ایک واضح اور واضح کرنے والا معجزہ تھا لیکن اس کے باوجود ایمان نہ لائے، ”انھوں نے اس ناقہ ظلم کیا“ اور اسے قتل کردیا( فَظَلَمُوا بِهَا ) ۔

اصولی طور پر ہمارا یہ پروگرام نہیں کہ جو شخص بھی معجزے کی فرمائش کرے ہمارا پیغمبر اسے قبول کرلے ”ہم تو لوگوں کو سوائے متنبہ کرنے اور ان پر اتمام حجّت کرنے کے، آیات ومعجزات نہیں بھیجتے“( وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلاَّ تَخْوِیفًا ) ۔ ہمارے انبیاء معجزہ گر لوگ نہیں کہ بیٹھ جائیں اور جو شخص بھی کوئی بھی کوئی فرمائشِ معجزہ کرے اور اسے پورا کرتے ہیں ، ان کا فریضہ بس یہ ہے کہ لوگوں تک دعوتِ الٰہی پہنچائیں ، تعلیم وتربیت کریں اور حکومتِ عدل قائم کریں البتہ خدا سے اپنے رابطے کے اثبات کے لئے اس قدر معجزے پیش کریں کہ جو کافی ہوں اور بس ۔

اس کے بعد دشمنوں کی سختی اور ہٹ دھرمی کے مقابلے میں ، خدا تعالیٰ اپنے رسول کی دلجوئی کرتا ہے اور کہتا ہے: تیری باتیں سُن کر اگر یہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ”وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تجھ سے کہا تھا کہ تیرا پروردگار لوگوں کی کیفیت سے بخوبی آگاہ ہے اور ان پر احاطہ علمی رکھتا ہے“( وَإِذْ قُلْنَا لَکَ إِنَّ رَبَّکَ اٴَحَاطَ بِالنَّاسِ ) ۔

ہمیشہ یہ ہوا کہ انبیاء کی دعوت سُن کر کچھ پاک دل لوگ ایمان لے آئے جبکہ متعصب اور ہٹ دھرم لوگ بہانہ تراشی، مخالفت اور دشمنی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، گزشتہ زمانے میں بھی ایسا ہی تھی اور اب ویسا ہی ہے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: ہم نے جو خواب تجھے دکھایا وہ صرف لوگوں کی آزمائش کے طور پر تھا( وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی اٴَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ ) ۔

اسی طرح جس شجرہ ملعونہ کی طرف ہم نے قرآن میں اشارہ کیا ہے وہ بھی لوگوں کی آزمائش کے لئے ہے (وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ) ۔

آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: ان کے دل اندھے اور ہٹ دھرم لوگوں کو ہم مختلف طریقوں سے ڈراتے ہیں لیکن اصلاحی اور تربیتی پروگرام ان کی سرکشی کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتے( وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا یَزِیدُهُمْ إِلاَّ طُغْیَانًا کَبِیرًا ) ۔

کیونکہ انسان کا دل قبولِ حق کے لئے آمادہ نہ ہو تو صرف یہ کہ حق بات اس پر اثر نہیں کرتی بلکہ عام طور پر اس کا الٹا نتیجہ نلکتا ہے اور اس کی سختی واصرار کی وجہ سے ان کی گمراہی اور ہٹ دھرمی بڑھ جاتی ہے (غور کیجئے گا) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ رسول الله کا خواب اور شجرہ ملعونہ:

اس ”رؤیا“ کے بارے مفسّرین میں بہت اختلاف ہے:

(الف)کچھ مفسّرین کا کہنا ہے کہ ”رؤیا“ یہاں خواب کے معنی میں نہیں ہے بلکہ آنکھ کا واقعی مشادہ ہے ۔ ان مفسّرین نے اس واقعہ معراج کی طرف اشارہ سمجھ ہے کہ جس کا ذکر اسی سورہ کی ابتداء میں آیا ہے ۔

اس تفسیر کے مطابق قرآن کہتا ہے: معراج کا واقعہ لوگوں کے لئے آزمائش تھا ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دن چڑھا تو رسول الله نے لوگوں کو واقعہ معجراج سنایا، اس پر بہت شور اٹھا ۔ دشمن اس کا مذاق اڑانے لگے، کمزور ایمان والے اس پر شک کرنے لگے اور حقیقی مومنین نے اسے مکمل طور پر قبول کرلیا، کیونکہ قدرتِ الٰہی کے سامنے یہ سب مسائل معمولی ہیں ۔

اس تفسیر پر ایک ہی اہم اعتراض ہے اور وہ یہ کہ لفظ ”رؤیا“ عام طور پر خواب کے معنی میں ہے نہ کہ جاگتے ہوئے دیکھنے کے معنی میں ۔

(ب) ابنِ عباس سے منقول ہے کہ ”رؤیا“ اس خواب کی طرف اشارہ ہے جو آپ نے (ہجرت کے چھٹے برس) حدیبیہ کے سال میں مدینہ میں دیکھا تھا اور لوگوں کو بشارت دی تھی کہ تم جلدی ہی قریش پر فتح پاؤگے اور بڑے امن وآرام سے مسجد الحرام میں داخل ہوجاؤگے لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس سال اس خواب نے عملی صورت اختیار نہ کی بلکہ دو سال بعد فتح مکہ کے موقع پر صورزت پذیر ہوا لیکن اتنی تاخیر کی وجہ سے مومنین آزمائش میں سے گزرے اور کمزور ایمان والے شک میں پڑگئے حالانکہ رسول الله نے ان سے بالصراحت فرمایا کہ میں نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم اس سال مکّہ جاؤگے بلکہ مَیں نے کہا تھا کہ جلد ایسا ہوگا (اور اسی طرح ہوا) ۔

اس تفسیر پر یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ یہ سورہ بنی اسرائیل مکّی سورتوں میں سے ہے اور حدیبیہ کا واقعہ ہجرت کے چھٹے سال میں ہوا ۔

(ج) بعض سُنی اور شیہ مفسّرین نے نقل کیا ہے کہ یہ ایک مہور خواب کی طرف اشارہ ہے جس میں رسول الله نے دیکھا کہ بندر آپ کے منبر پر اُچھل کود رہے ہیں ، اس پر آپ بہت غمگین ہوئے اور اس واقعہ کے بعد آپ بہت کم ہنستے تھے ۔

(ان بندروں سے بنی امیہ مراد لی گئی ہے، وہ یکے بعد دیگرے رسول الله کی جگہ اور منبر پر بیٹھتے انھوں نے اس میں ایک دوسرے کی تقلید کی، وہ بے حیثیت افراد تھے ۔ وہ اسلامی حکومت اور خلافتِ رسول الله کو تباہی کی طرف لے گئے) ۔

یہ تفسیر فخر الدین رازی نے ”تفسیر کبیر“ میں اہل سنت کے مشہور مفسّر قرطبی نے تفسیر الجامع میں طبرسی نے مجمع البیان میں اور متعدد دیگر مفسرین نے نقل کی ہے ۔

مرحوم فیض کاشانی تفسیر صافی میں کہتے ہیں کہ یہ روایت عامہ اور خاصہ میں مشہور روایات میں سے ہے ۔

البتہ یہ تینوں تفسیریں ایک دوسرے کے منافی ہیں ، ہوسکتا ہے یہ تینوں آیت میں جمع ہوں لیکن جیسا کہ ہم نے کہا ہے دوسری تفسیر سورہ کے مکّی ہونے سے مناسبت نہیں رکھتی۔

”شجرہ ملعونہ“ کے بارے میں اسی طرح متعدد تفاسیر ہیں :

الف) قران میں جس ”شجرہ ملعونہ“ کا ذکر ہے وہ ”شجرہ زقوم“ ہے ۔ یہ وہ درخت ہے جو سورہ صافّات کی آیہ ۶۴ کے مطابق جہنّم کی بنیاد میں اُگے گا ۔ اس کا پھل ناگوار اور رنج آور ہوگا، قرآنی الفاظ ہیں :

( إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِی اٴَصْلِ الْجَحِیمِ )

”یہ وہ درخت ہے جو جہنّم کی بنیاد سے اٹھے گا“۔

سورہ دخان کی آیت ۴۶ اور ۴۷ کے مطابق یہ درخت گنہگاروں کی خوراک ہے ۔ یہ اس دنیا کے کھانوں کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ پگھلی ہوئی دھات کی طرح دل میں جوش مارے گا، اس کی مکمل تفسیر انشاء الله سورہ دخان کی آیات کے ذیل میں آئے گی۔

اس میں شک نہیں کہ ”شجرہ زقوم“ اس دنیا کے درختوں سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا، اسی بناء پر آگ کے اندر سے اُگے گا ۔

واضح ہے کہ اس قوم کے مسائل کے جو دوسرے جہان سے مربوط ہیں ہمارے لئے تو ایک خیالی تصویر کی طرح ہیں جسے دور سے دیکھا جائے تو بس سیاہی سی معلوم ہوتی ہے ۔

مشرکینِ قریش قرآن کی اس تعبیر کا مذاق اڑاتے تھے، ابوجہل کہتا تھا:

محمد تمھیں ایسی آگ کی دھمکی دیتا ہے جو پتھروں کو جلائے گی اور اس کا خیال ہے کہ دوزخ میں درخت اُگے گا ۔

نیز یہ بھی منقول ہے وہ تمسخر کے طور پر کجھوریں اور مکھن منگواتا، انھیں کھاتا اور اپنے ساتھیوں سے کہتا: اسے کھاؤ یہی زقوم ہے ۔(۱)

اس بناء پر قران زیرِ بحث آیات میں شجرہ ملعونہ کا لوگوں کی آزمائش کے ذریعے کے طور پر تعارف کرواتا ہے کیونکہ ہٹ دھرم مشرک اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور سچّے مومنین سرتسلیم خم کرتے ہیں ۔

ممکن ہے سوال کیا جائے کہ یہ درخت قرآن میں ”شجرہ ملعونہ“ کے نام سے نہیں آیا، اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے مراد کھانے والوں پر لعنت ہو، علاوہ ازیں لعنت رحمتِ خدا سے دوری کے علاوہ کچھ نہیں اور واضح ہےں کہ ایسا درخت رحمتِ پروردگار سے بہت دور ہے ۔

ب) ”شجرہ ملعونہ“ سے مراد سرکش یہودی قوم ہے، وہ ایسے درخت کی طرح ہیں جس کی بہت شاخیں اور پتّے ہیں لیکن بارگاہِ الٰہی میں دھتکارے ہوئے ہیں ۔

ج) بہت سے شیعہ اور سُنّی تفاسیر میں منقول ہے کہ شجرہ ملعونہ بنی امیہ ہیں ۔ فخرا رازی نے مشہور اسلامی مفسّر ابن عباس سے اس سلسلے میں اپنی تفسیر میں ایک رویات نقل کی ہے:

یہ تفسیر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ(ص) وسلّم کے خواب کے بارے میں مذکورہ بالا روایت سے بھی مناسبت رکھتی ہے ۔ نیز اس حدیث سے بھی مناسبت رکھتی ہے جو حضرت عائشہ سے منقول ہے، انھوں نے مروان کی طرف منہ کرکے کہا:لعن الله اٴباک واٴنت فی صلبه فانت بعض من لعنه الله -

الله نے تیرے باپ پر لعنت کی جبکہ تُو اس کی صلب میں تھا لہٰذا تُو اس کا ایک حصّہ ہے جس پر خدا نے لعنت کی ہے ۔(۲)

یہاں پھر ایک سوال سامنے آتا ہے کہ قرآن میں کہاں بنی امیہ کے شجرہ پر لعنت ہوئی ہے ۔ جواب یہ ہے کہ سورہ ابراہیم میں آیہ ۲۶ میں ، جہاں شجرہ خبیثہ کا ذکر آیا ہے ۔ اگر شجرہ خبیثہ کے وسیع مفہوم کی طرف نظر رکھی جائے اور اس آیت کی تفسیر میں وارد روایات کہ جن میں بنی امیہ کو شجرہ خبیثہ قرار دیا گیا ہے کہ طرف توجہ کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ”خبیثہ“ معنی کے لحاظ سے لفظ”ملعونہ“ کے ساتھ لازم و ملزوم ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ قرآن میں بنی امیہ کے شجرہ خبیثہ پر لعنت ہوئی ہے ۔(۳)

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ یہ تمام تر یا زیادہ تر تفاسیر ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں ممکن ہے ہر منافق، خبیث اور درگاہِ الٰہی سے راندہ ہوا شجرہ ملعونہ کے مقہوم میں شامل ہو اور خصوصاً بنی امیہ، سنگدل، ہٹ دھرم یہودی اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے تمام لوگ اس سے مراد ہوں اور ہوسکتا ہے شجرہ زقوم دوسرے جان میں انہی شجراتِ خبیثہ کی تجسیم ہو اور یہ سب شجرات خبیثہ اِس جہان میں سچّے مومنین کی آزمائش اور امتحان کا باعث ہوں ۔

وہ یہودی کہ جو آج کل حساس اسلامی مراکز پر غاصبانہ طور پر مسلط ہوں اور ہر لمحہ دنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں آگ لگا رہے ہیں اور جو کچھ جرائم اور بے انصافیاں کررہے ہیں ، اسی طرح وہ منافقین جن کے ان سے سیاسی یا غیر سیاسی روابط ہیں اور تمام آمر حکمران کہ جنھوں نے اسلام کا راستہ چھوڑکر اسلامی ممالک میں بنی امیہ کا راستہ اپنا رکھا ہے اور معاشرے کے منظر سے نیک لوگوں کو دُور کررکھا ہے ، جنھوں نے پست اور کمینے افراد کو عوام کے سروں پر مسلط کررکھا ہے، وہ کہ جو داستانِ حق پر مظالم ڈھارہے ہیں اور سچّے مجاہدین کو شہید کررہے ہیں ، وہ جنھوں نے ایسے افراد کے ہاتھ میں معاشرے کی باگ ڈور دے رکھی ہے جو دَورِ جاہلیت کی یادگار ہیں ۔ یہ سب ”شجرہ ملعونہ“ کے شاخ وبرگ ہیں اور لوگوں کے لئے آزمائش اور امتحان کا باعث ہیں ۔

____________________

۱۔ تفسیر روح المعانی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲۔ تفسیر قرطبی، ج۶، ص۳۹۰۲ اور تفسیر فخر رازی، ج۲۰، ص۲۳۷-

۳۔ نور الثقلین، ج۲، ص۵۳۸-

۲ ۔ منکرینِ اعجاز کی عذرتراشیاں

ہمارے زمانے کے بعض بے خیر افراد یہ راگ الاپتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کا قرآن کے علاوہ کوئی معجزہ نہ تھا، اپنی اس بات کے لئے وہ کئی طرح کے بہانے تراشتے ہیں ، وہ ”وَمَا مَنَعنَا اٴن نُرسِلَ بِالآیاتِ “ کو بھی اس بات کی دلیل بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے گزشتہ انبیاء کے برخلاف کوئی معجزہ پیش نہیں کیا لیکن تعجب کی بات ہے کہ وہ آیت کے ابتدائی حصّے کا تو ذکر کرتے ہیں لیکن آخری حصّے کو چھوڑ دیتے ہیں جس میں ہے کہ:

( وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلاَّ تَخْوِیفًا )

ہم آیات صرف مخالفین کو ڈارنے کے لئے بھیجتے ہیں ۔

یہ تعبیر ناشاندہی کرتی ہے کہ معجزات دو قسم کے ہیں ، ایک قسم ان معجزات کی ہے جو دعوتِ رسول کی صداقت ثابت کرنے کے لئے، اہل ایمان کی تشویق کے لئے اور منکرین کو ڈرانے کے لئے ضروری ہیں ، جبکہ دوسری قسم ان من پسند معجزات کی ہے جن کا تقاضا ہے بہانہ جوئی کے طور پر کرتے تھے، تاریخ انبیاء میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں ، انبیاء نے ایسے معجزات منکرین کے سامنے پیش کئے لیکن وہ ہرگز ایمان نہ لائے ۔

اسی لئے وہ لوگ خدائی عذاب میں گرفتار ہوئے کیونکہ ان مجوزہ معجزات کے ظہور پذیر ہونے کے باوجود وہ ایمان نہ لائے لہٰذا فوری عذاب کے مستحق قرار پائے ۔ اس بناء پر مندرجہ بالا آیت میں قرآن جس چیز کی پیغمبر اسلام کے بارے میں نفی کر رہا ہےوہ صرف دوسری قسم کے معجزات ہیں نہ کہ پہلی قسم کے معجزات کی کیونکہ ان کا دعویٰ نبوت کے ثبوت کے لئے ناگزیر ہے ۔

یہ ٹھیک ہے کہ قرآن خود تنہا ایک واضح اور جاوداں معجزہ ہے اور اگر اس کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کا کوئی اور معجزہ نہ بھی ہوتا تب بھی آپ کی دعوت صداقت ہمارے لئے ثابت ہوسکتی تھی لیکن اس میں شک نہیں کہ قران آپ کا روحانی اور معنوی معجزہ ہے اور اہلِ فکر ونظر کے لئے یہ بہترین شاہد ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس معجزے کو اگر دوسرے محسوس مادی معجزات کے ساتھ ملادیا جائے تو عامة الناس کے لئے انتہائی اہم ہوجائے بالخصوص جبکہ قرآن نے دیگر انبیاء کے لئے ایسے معجزے کا بارہا ذکر کیا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ان معجزات کا ذکر اس بات کا سبب ہے کہ لوگ آپ سے تقاضا کریں کہ آپ کیسے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ سب انبیاء الٰہی سے افضل اور آخری پیغمبر ہیں جبکہ ان کے معجزات میں سے چھوٹا یا معجزہ بھی پیش کرسکے ۔

یقیناً اس سوال کا مطمئن کرنے والا جواب اس کے علاوہ نہ تھا کہ پیغمبرِ اکرم انبیائے سلف کے معجزات کا نمونہ پیش کریں اور متواتر اسلامی تاریخ بھی کہتی ہے کہ رسول الله نے ایسے معجزات دکھائے ۔

قرآن کی متعدد آیات میں ان معجزات کے نمونے موجود ہیں ، مثلاً آئندہ کے واقعات کے بارے میں مختلف پیش گوئیاں ، دشمن کے خلاف فرشتوں کا لشکر اسلام کی مدد کرنا اسی طرح دیگر معجزات خصوصاً وہ معجزات جو اسلامی جنگوں میں وقوع پذیر ہوئے ۔

۳ ۔ گزشتہ لوگوں کے انکار کا آئندہ لوگوں سے تعلق؟

مندرجہ بالا آیات میں قرآن کہتا ہے کہ گزشتہ لوگوں نے چونکہ معجزات کا طالبہ کیا تھا اور ان کے ظہور پذیر ہونے کے باوجود انھوں نے تکذیب کی لہٰذا اس سلسلے میں اب تمھارے مطالبے تسلیم نہیں کئے جاسکتے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گزشتہ لوگوں کی تکذیب بعد کی نسلوں کی محرومیت کا سبب بن سکتی ہے؟

جو کچھ سطور گزشتہ میں کہا گیا ہے اس سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک رائج طریقہ ہے کہ مثلاً ہم کہتے ہیں کہ ہم تمھاری بہانہ سازیوں کو نہیں مانتے، اگر دوسرا پوچھے کہ کیوں ؟ تو ہم کہتے ہیں کہ پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے کہ لوگوں نے ایسے تقاضے کئے تھے مگر بعد میں حق کو تسلیم نہیں کیا تمھاری کیفیت بھی انھی جیسی ہے ۔ اس کے علاوہ تم ان کی روش کی تائید کرتے ہو اور عملی طور پر تم نے ثابت کیا ہے کہ تمہارا مقصد تحقیق وجستجو نہیں ہے بلکہ تو تم صرف بہانے تراشتے ہو اور پھر ہٹ دھرمی، ڈھٹائی اور انکار پر باقی رہتے ہو لہٰذا تمھارے تقاضوں کا کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا ۔

یہی وجہ ہے کہ جب رسول الله نے خبر دی کہ جہنم کی گہرائیوں میں ایک درخت اُگے گا کہ جو ان اوصاف کا حامل ہوگا اور اس سے اہلِ دوزخ کو غذا حاصل ہوگی، تو وہ فوراً تمسخر اڑانے لگے، کبھی کہتے کہ ”زقوم“ کھجور اور مکھن کے علاوہ کچھ نہیں ، آؤ یہ میٹھی اور روغنی غذا ”زقوم“ کی یاد میں کھائیں اور کبھی کہتے کہ جس دوزخ کے پتھروں میں سے اُگے گی اس میں درخت کیسے اُگے گا حالانکہ واضح تھا کہ وہ درخت اس جہان کے درختوں کی مانند نہیں ہے ۔

آیات ۶۱،۶۲،۶۳،۶۴،۶۵

۶۱( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ قَالَ اٴَاٴَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِینًا )

۶۲( قَالَ اٴَرَاٴَیْتَکَ هٰذَا الَّذِی کَرَّمْتَ عَلَیَّ لَئِنْ اٴَخَّرْتَنِی إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ لَاٴَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَهُ إِلاَّ قَلِیلًا )

۶۳( قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَکَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُکُمْ جَزَاءً مَوْفُورًا )

۶۴( وَاسْتَفْزِزْ مَنْ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِکَ وَاٴَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکْهُمْ فِی الْاٴَمْوَالِ وَالْاٴَولَادِ وَعِدْهُمْ وَمَا یَعِدُهُمْ الشَّیْطَانُ إِلاَّ غُرُورًا )

۶۵( إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطَانٌ وَکَفیٰ بِرَبِّکَ وَکِیلًا )

ترجمہ

۶۱ ۔ وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ جس نے کہا کہ کیا ایسے کو سجدہ کروں جسے تُو نے مٹی سے پیدا کیا ہے ۔

۶۲ ۔ (پھر) اس نے کہا یہ شخص جسے تُونے مجھ پر ترجیح دی ہے اگر تونے مجھے قیامت تک زندہ رکھا تو تھوڑے سے افراد کے سوا اس شخص کی ساری اولاد کو گمراہ کروں گا اور ان کی بیخ کُنی کروں گا ۔

۶۳ ۔ فرمایا: نکل جا، ان میں سے جو شخص بھی تیری اتباع کرے گا اس کی سزا جہنم ہے اور یہ بہت سخت سزا ہے ۔

۶۴ ۔ ان میں سے جس پر تیرا بس چلے اسے آواز دے کر ابھار اور اپنے سوار اور پیادہ لشکر کو ان پر لگادے اور مال اور اولاد میں سے ان کے ساتھ شریک ہو اور ان سے (جھوٹے) وعدے کر، لیکن شیطان کا وعدہ سوائے جھوٹ اور فریب کے کچھ نہیں ہے ۔

۶۵ ۔ (لیکن جان لے) تُو ہر گز میرے بندوں پر تسلّط حاصل نہیں کرسکے گا (اور وہ کبھی تیرے دام میں گرفتار نہیں ہوں گے) یہی کافی ہے کہ تیرا پروردگار ان کا محافظ ووکیل ہے ۔

شیطان کے جال

یہ آیات ابلیس کی رُوگردانی کے بارے میں ہیں ۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے آدم(ص) کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے انکار کردیا، علاوہ ازیں اس میں اس کے بُرے انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے نیز اس واقعے کے بعد کے کچھ امور کا بھی ذکر ہے ۔

قبل ازیں ہٹ دھرم مشرکین سے متعلق مباحث تھیں ، ان کے بعد شیطان کے بارے میں یہ آیات اس طرف اشارہ ہیں کہ شیطان استکبار اور کفر و عصیان کا مکمل نمونہ تھا ۔ دیکھو کہ اس کا کیا انجام ہوا لہٰذا تم کہ جو اس کے پیروکار ہو تمہارا بھی وہی انجام ہوگا ۔

علاوہ ازیں یہ آیات ا ِس طرف بھی اشارہ کرتی ہیں کہ یہ دل کے اندھے مشرکین کہ جو خلافِ حق راستے پر ڈٹے ہوئے ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ شیطان کئی طریقوں سے انہیں گمراہ کرنے کے درپے ہے اور در حقیقت وہ اپنے اس پروگرام پر عمل پیرا ہے کہ جس کا اعلان اس نے اِن الفاظ میں کیا تھا:

میں اکثر اولادِ آدم کو گمراہ کروں گا ۔

پہلے ارشاد فرمایا گیا ہے: وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم(ص) کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سواسب سجدہ ریز ہوگئے( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ ) ۔

جیسا کہ خلقتِ آدم(ص) سے مربوط آیات کی تفسیر میں ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ سجدہ ایک طرح کا خضوع اور اظہارِ احترام تھا اور اس سے خلقتِ آدم(ص) کی عظمت اور دیگر مخلوقات کی نسبت ان کے امتیازی مقام کے اظہار کے طور پر تھا اور یہ عبادت کے طور پر خدا کو سجدہ تھا کہ اس نے ایسی عجیب و غریب مخلوق پیدا کی ہے ۔

ہم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر چہ یہاں ابلیس کا ذکر فرشتوں کے ساتھ آیا ہے لیکن قرآن کی شہادت کے مطابق ان میں سے نہیں تھا بلکہ بندگی خدا کے باعث ان کی صف میں جا پہنچا تھا ۔ وہ جنّات میں سے تھا اور اس کی خلقت مادی تھی۔ ابلیس کے سر پر غرور و تکبر سوار تھا ۔ خود بینی نے اس کی عقل و ہوش پر پردہ ڈال رکھا تھا ۔ اسے گمان تھا کہ مٹی آگ سے بہت کم حیثیت کی حامل ہے جبکہ مٹی تمام برکات کا منبع اور سرچشمہ حیات ہے ۔ اس نے اعتراض کے لہجے میں بارگاہِ خداوندی میں کہ-: کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تونے گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے

( قَالَ اٴَاٴَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِینًا ) ۔

جس وقت اس نے دیکھا کہ فرمانِ خدا کے سامنے غرور و تکبر اور سرکشی کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے اس کی بارگاہِ مقدس سے دھتکار دیا گیا ہے تو اس نے عرض کیا، اگر تو مجھے روزِ قیامت تک مہلت دے تو جسے تونے مجھ پر ترجیح دی ہے اور اعزاز بخشا ہے میں تھوڑے سے افراد کے سوا اس کی ساری اولاد کو گمراہ کردوں گا اور اس کی بیخ کنی کردوں گا( قَالَ اٴَرَاٴَیْتَکَ هٰذَا الَّذِی کَرَّمْتَ عَلَیَّ لَئِنْ اٴَخَّرْتَنِی إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ لَاٴَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَهُ إِلاَّ قَلِیلًا ) ۔(۱)

جسے تونے ترجیح دی ہے کیا اس شخص کو تونے دیکھا ہے؟ اگر مجھے زندہ رہنے دیا تو تودیکھے گا میں اس کی اکثر اولاد کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا ۔

دوسرا احتمال آیت کی ترکیب اور معنی کے لحاظ سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔

احتنکن “”احتناک “ کے مادہ سے کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے معنی میں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ٹڈی دَل زراعت کو بالکل کھاجائے تو عرب کہتے ہیں :”احتنک الجراد الزرع

لہٰذا مذکورہ گفتگو کا مفہوم یہ ہے کہ میں معدودِ چند افراد کے سوا ساری اولادِ آدم کو تیرے جادئہ و اطاعت سے ہٹادوں گا ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ ”احتنکن “”حنک“کے مادہ سے زیر گلو اور زیر حلق کے معنی میں ہو جس وقت جانور کی گردن میں رسی یا لگام ڈالتے ہیں تو عرب اسے ”حنتک الدابه “ کہتے ہیں ۔

اِس بناء پر مذکورہ گفتگو کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کہتا ہے کہ میں سب کی گردن میں وسوسے کی رسّی ڈال دوں گا اور انہیں گناہ کے راستے کی طرف کھینچ لے جاؤں گا ۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیطان کو مہلت دے دی گئی تاکہ ساری اولاد آدم کے لیے میدان امتحان معرضِ وجود میں آجائے اور حقیقی مومنین کی تربیت کا وسیلہ فراہم ہوجائے کیونکہ حوادث کی بھٹی میں انسان ہمیشہ پختہ تر ہوتا ہے اور طاقتور دشمن کے مقابلے میں دلیر ہوجاتا ہے ۔ فرمایا: نکل جا، ان میں سے جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے ان کی سزا جہنم ہوگی اور یہ بہت سزا ہے( قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَکَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُکُمْ جَزَاءً مَوْفُورًا ) ۔

اس ذریعے سے آزمائش کا اعلان کیا گیا ہے اور آخر میں اس عظیم خدائی آزمائش میں کامیابی اور شکست کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔ اس کے بعد شیطان کے ان ہتھکنڈوں ، حربوں اور وسائل کا ذکر کیا گیا جن سے وہ کام لیتا ہے ۔ اس سلسلے میں بہت واضح اور جاذبِ توجہ انداز میں فرمایا گیا ہے: ان میں سے ہر ایک کو اپنی آواز کے ذریعے تحریک کرسکتا ہے اور وسوسے میں ڈال سکتا ہے( وَاسْتَفْزِزْ مَنْ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِکَ ) ۔ اور اپنی پکار کے ذریعے اپنے سوار اور پیادہ لشکر کو ان کی طرف ہانک سکتا ہے( وَاٴَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ ) ۔ وہ ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجاتا ہے( وَشَارِکْهُمْ فِی الْاٴَمْوَالِ وَالْاٴَولَادِ ) ۔ اور اپنے جھوٹے وعدوں کے ذریعے انہیں فریب دیتا ہے (وَعِدْھُمْ) ۔ اس کے بعد قرآن خبردار کرتا ہے: شیطان فریب، دھوکہ اور غرور پر مبنی وعدوں کے علاوہ کچھ نہیں دیتا( وَمَا یَعِدُهُمْ الشَّیْطَانُ إِلاَّ غُرُورًا ) ۔

پھر خدا اس سے کہتا ہے: لیکن جان لے کہ ”میرے بندوں پر تیرا کچھ بس نہ چلے گا“( إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطَانٌ ) ۔ اتنا ہی کافی ہے تیرا پروردگار ان بندوں کا ولی و حافظ ہے( وَکَفیٰ بِرَبِّکَ وَکِیلًا ) ۔

____________________

۱۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ”ارء یتک“ کا کاف حرفِ خطاب ہے کہ جو تاکید کے طور پر آیا ہے اور ”ارء یتک“کا معنی ”اخبرنی“ (مجھے خبردے) ہے جس کا جواب محذوف ہے ۔ تقدیر میں اس طرح تھا:اور مجموعی طور پر اس کا یہ معنی ہو: