تفسیر نمونہ جلد ۱۲

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 16468
ڈاؤنلوڈ: 2153


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16468 / ڈاؤنلوڈ: 2153
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 12

مؤلف:
اردو

آیات ۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸

۲( وَآتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًی لِبَنِی إِسْرَائِیلَ اٴَلاَّ تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِی وَکِیلًا )

۳( ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ کَانَ عَبْدًا شَکُورًا )

۴( وَقَضَیْنَا إِلیٰ بَنِی إسْرائِیلَ فِی الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاٴَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیرًا )

۵( فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ اٴُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَنَا اٴُولِی بَاٴْسٍ شَدِیدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا )

۶( ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمْ الْکَرَّةَ عَلَیْهِمْ وَاٴَمْدَدْنَاکُمْ بِاٴَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَجَعَلْنَاکُمْ اٴَکْثَرَ نَفِیرًا )

۷( إِنْ اٴَحْسَنتُمْ اٴَحْسَنتُمْ لِاٴَنفُسِکُمْ وَإِنْ اٴَسَاٴْتُمْ فَلَهَا فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِیَسُوئُوا وُجُوهَکُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوهُ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِیُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِیرًا )

۸( عَسیٰ رَبُّکُمْ اٴَنْ یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْکَافِرِینَ حَصِیرًا )

ترجمہ

۲ ۔ ہم نے موسیٰ کو(آسمانی )کتاب عطا کی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ قرار دیا اور ہم نے کہا کہ ہمارے غیر کو سہارا نہ بناؤ۔

۳ ۔ اے ان لوگوں کی اولاد کہ جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر)سوار کیا تھا!وہ ایک شکر گزار بندہ تھا ۔

۴ ۔ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب (تورات) میں بتادیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد برپا کرو گے اور بڑی سرکشی کرو گے ۔

۵ ۔ جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع آپا تو ہم تمہارے اوپر نہایت زور آور لوگ بھیجیں گے (تاکہ وہ تم سے سختی سے نمٹیں یہاں تک کہ مجرموں کو پکڑنے کے لیے) گھروں کی تلاشی لیں گے اور یہ وعدہ قطعی ہے ۔

۶ ۔ اس کے بعد ہم تمہیں ان پر غلبہ دیں گے اور تمہارا مال اور اولاد بڑھادیں گے اور تمہاری تعداد (دشمن سے)زیادہ کردیں گے ۔

۷ ۔ اگر نیکی کرو گے تو اپنے آپ سے بھلائی کرو گے اور اگر بدی کرو گے تو بھی خود سے کرو گے اور جب دوسرے وعدے کا وقت آپہنچا (تو دشمن تمہارا یہ حال کرے گا کہ) تمہارے چہرے غمزدہ ہوجائیں گے اور وہ مسجد (اقصیٰ)میں یوں داخل ہوں گے جیسے پہلے دشمن داخل ہوئے تھے اور جو چیز بھی ان کے ہاتھ پڑے گی اسے در ہم بر ہم کردیں گے ۔

۸ ۔ ہوسکتا ہے تمہارا رب تم پر رحم کرے ۔ جب تم پلٹ آوں گے تو ہم بھی پلٹ آئیں گے اورہم نے جہنم کو کافروں کے لیے سخت قید خانہ بنارکھا ہے ۔

دو عظیم طوفانی واقعات

اس سورت کی پہلی آیت میں رسول الله کے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ کے اعجاز آمیز سفر کا ذکر تھا ۔ ایسے واقعات کا عموماً مشرکین اور مخالفین انکار کردیتے تھے، وہ کہتے تھے کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے درمیان میں سے ایک پیغمبر مبعوث ہو اور پھر اسے یہ سب اعزاز واکرام حاصل ہو، لہٰذا زیر بحث آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی کتاب کی طرف دعوت دی تھی تاکہ واضح ہوجائے کہ رسالت کا پروگرام کوئی نئی چیز نہیں اور تاریخ شاہد ہے بنی اسرائیل نے بھی ایسی مخالفت اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تھا جیسی اب مشرکین کررہے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے: ہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب عطا کی (وَآتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ) اور ہم نے بنی اسرائیل کے لئے وسیلہ ہدایت قرار دیا (وَجَعَلْنَاہُ ھُدًی لِبَنِی إِسْرَائِیلَ) ۔

اس میں شک نہیں کہ کتاب سے یہاں مراد ”تورات“ ہے کہ جو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ(ع) پر نازل فرمائی تھی ۔ اس کے بعد بعثتِ انبیاء کا بنیادی مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان سے ہم کہا کہ میرے غیر کو سہارا نہ بناؤ( اٴَلاَّ تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِی وَکِیلًا ) ۔(۱)

”’عمل میں توحید“ ”عقیدے میں توحید“ کی علامت ہے اور یہ امر توحید کی بنیادی باتوں میں سے ہے جو شخص عالمِ کائنات میں مؤثر حقیقی صرف الله کو جانتا ہے وہ اس کے غیر پر تکیہ نہیں کرے گا اور جو کسی اور سہارا بناتے ہیں یہ ان کے اعتقادِ توحید کی کمزوری کی دلیل ہے ۔

آسمانی کتب کی عالی تجلیاتِ ہدایت دلوں کو نورِ توحید سے روشن کردیتی ہے اور اس کے سبب انسان ہر غیر الله سے کٹ کر خدا سے وابستہ ہوجاتا ہے اور اسی پر تکیہ کرتا ہے ۔

بنی اسرائیل کو جن نعماتِ الٰہی سے نوازا گیا بالخصوص کتابِ آسمانی میں روحانی نعمت، اگلی آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ ان کے احساساتِ تشکر کو ابھارا جائے، ارشاد ہوتا ہے: اے ان لوگوں کی اولاد کہ جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا نھا( ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ) ۔(۲)

( وقلنا لهم لا تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِی وَکِیلًا )

اور ہم نے ان سے کہا کہ میرے سوا کسی کو پناہ گا نہ بناؤ۔

یہ بہت بعید معلوم ہوتا ہے اور ”( إِنَّهُ کَانَ عَبْدًا شَکُورًا ) “ہے ہم آہنگ نہیں ہے (عور کیجئے گا) ۔

یہ بات مت بھولو کہ ”نوح ایک شکر گزار بندہ تھا“( إِنَّهُ کَانَ عَبْدًا شَکُورًا ) ۔

تم کہ جو اصحاب نوح کی اولاد ہوا اپنے با ایمان بزرگوں کی پیروی کیوں نہیں کرتے ہو؟ کیوں کفرانِ نعمت کی راہ اپنا تے ہو؟

”شکور“ مبالغے کا صسغہ ہے اور اس کا معنی ہے ”زیادہ شکر گزار“۔

بنی اسرائیل کو اصحاب نوح کی اولاد شاید اس لیے کہا گیا ہے کہ مشہور تواریخ کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹے تھے ۔ ان کے نام ”سام“ ”حام“ اور ”یافث“ تھے ۔ طوفان نوح کے بعد بنی نوع انسان انہی کی اولاد میں سے ہیں اور بنی اسرائیل بھی اس لحاظ سے انہی کی اولاد سے ہیں ۔

اس میں شک نہیں کہ تمام انبیاء اللہ کے شکر گزار بندے تھے لیکن حضرت نوح علیہ السلام کی کچھ ایسی خصوصیات احادیث میں مذکورہ ہیں کہ جن کے باعث انہیں خاص طور پر ”عبداً شکوراً“ کے لفظ سے نوازا گیا ہے ۔ ان کے بارے میں روایات میں ہے کہ جب وہ لباس پہنتے، پانی پیتے، کھانا کھاتے یا انیں کوئی بھی نعمت نصیب ہوتی تو فوراً ذکر خدا کرتے اور شکر الٰہی بجالاتے ۔

ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

حضرت نوح ہر روز صبح اور عصر کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے:

اللّٰهم انی اشهدک ان ما اصبح او امس بی من نعمة فی دین او دنیا فمنک، وحدک لا شریک لک، لک الحمد و لک الشکر بها علی حتّی ترضی، و بعد الرضا ۔

خداوندا !میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ جو بھی نعمت مجھے صبح و شام پہنچتی ہے وہ نعمتِ دین ہو یا نعمت دنیا، وہ نعمتِ روحانی ہو یا نعمتِ مادی ۔ سب تیری طرف سے ہے تو ایک اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ، حمد وثنا تیرے لیے مخصوص ہے اور شکر بھی تیرے ہی لیے ہے ۔ میں تیرا اس قدر شکر کرتا ہوں کہ تو مجھ سے راضی ہو جا اور تیری رضا کے بعد بھی میں تیرا شکر کرتا ہوں ۔

اس کے بعد امام نے مزید فرمایا کہ:---

ایسا تھا نوح کا شکر۔(۳)

اس کے بعد بنی اسرائیل کی داستان انگیز تاریخ کے ایک گوشے کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: ہم نے تورات میں بنی اسرائیل کو بتادیا تھا کہ تم زمین میں دو دفعہ فساد کرو گے اور بڑی سرکشی کا ارتکاب کرو گے( وَقَضَیْنَا إِلیٰ بَنِی إسْرائِیلَ فِی الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاٴَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیرًا ) ۔

”قضاء“ کے اگر چہ بہت سے معانی ہیں لیکن یہاں یہ لفظ ”بتانے“ کے معنی میں آیا ہے ۔

نیز بعد کی آیت کے قرینے سے لفظ ”الارض“ سے یہاں مراد فلسطین کی مقدس زمین ہے کہ جس میں مسجد الاقصیٰ واقع ہے ۔

آئندہ آیات میں ان دو عظیم حوادث کا ذکر ہے جو اللہ کی طرف سے سزا کے طور پر رونما ہوئے ۔ ارشاد ہوتا ہے: جب پہلے وعدے کا مرحلہ آپہنچا اور تم فساد، خونریزی اور ظلم کے مرتکب ہوئے او ہم اپنے بندوں میں سے ایک جنگ آزماگروہ تمہاری طرف بھیجیں گے تاکہ وہ تمہارے اعمال کی سزا کے طور پر تمہاری سرکوبی کرے( فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ اٴُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَنَا اٴُولِی بَاٴْسٍ شَدِیدٍ ) ۔

یہ روز آور لوگ اس طرح سے تم پر حملہ کریں گے کہ تمہارے افراد کو پکڑنے کے لیے گھر گھر کی تلاشی لیں گے(فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّیَارِ) ۔

اور یہ ایک قطعی اور ناقابلِ تغیر وعدہ ہے( وَکَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا ) ۔

اس کے بعد ایک مرتبہ پھر اللہ کا لطف و کرم تمہارے شاملِ حال ہوا اور ہم نے تمہیں اس حملہ آور قوم پر غلبہ عطا کیا( ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمْ الْکَرَّةَ عَلَیْهِمْ ) ۔

اور ہم نے تمہیں بہت مال و ثروت سے نوازا اور کثرت اولاد سے تمہیں تقویت بخشی( وَاٴَمْدَدْنَاکُمْ بِاٴَمْوَالٍ وَبَنِینَ ) ۔ اس قدر کہ تمہری تعداد دشمن سے زیادہ ہوگئی( وَجَعَلْنَاکُمْ اٴَکْثَرَ نَفِیرًا ) ۔(۴)

یہ الطاف الٰہی تمہارے لیے ہے کہ شاید تم ہوش میں آؤ، اپنی اصلاح کرو ، برائیوں کو ترک کر دو اور نیکیوں کا راستہ اختیار کرو کیونکہ ”اگر نیکی کرو گے تو اپنے آپ ہی سے بھلائی کرو گے اور اگر بدی کرو گے تو اپنے آپ ہی سے کرو گے( إِنْ اٴَحْسَنتُمْ اٴَحْسَنتُمْ لِاٴَنفُسِکُمْ وَإِنْ اٴَسَاٴْتُمْ فَلَهَا ) ۔

یہ ایک دائمی اصول ہے کہ نیکیاں اور برائیاں آخر کار خود انسان کی طرف لوٹتی ہیں ۔ اگر کوئی ضرب لگاتا ہے تو در اصل وہ اپنے جسم پر لگاتا ہے اور اگر کوئی کسی کی خدمت کرتا ہے تو در حقیقت اپنی ہی خدمت کرتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ نہ اس سزا نے تمہیں بیدار کیا اور نہ بارِ دیگر نعماتِ الٰہی حاصل ہونے نے ۔تم پھر بھی سرکشی کرتے رہے اور راہِ ظلم و تجاوز اختیار کیے رہے ۔ تم نے زمین پر بہت فساد پیدا کردیا اور غرور و تکبر میں حد سے گزرگئے ۔

پھر اللہ کے دوسرے وعدے کی تکمیل کا مرحلہ آپہنچا تو ایک اور زبر دست جنگجو گروہ تم پر مسلط ہوجائے گا اور وہ تمہارا یہ حال کرے گا کہ تمہارے چہرے غمزدہ ہوجائیں گے( فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِیَسُوئُوا وُجُوهَکُمْ ) ۔

یہاں تک کہ وہ تمہاری عظیم عبادت گاہ بیت المقدس کو تمہارے ہاتھ سے چھین لیں گے ”اور اس مسجد میں داخل ہوجائیں گے جیسے پہلی مرتبہ دشمن اس میں داخل ہوئے تھے“( وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوهُ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ ) ۔

وہ اسی پر بس نہیں کریں گے بلکہ ”ان کے سارے آباد شہر اور زمین اجاڑ کے رکھ دیں گے“( وَلِیُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِیرًا ) ۔

اس کے باوجود توبہ اور خدا کی طرف بازگشت کے دروازے تم پر بند نہیں ہوئے پھر بھی ”ممکن ہے اللہ تم پر رحم کرے“( عَسیٰ رَبُّکُمْ اٴَنْ یَرْحَمَکُمْ ) ۔

اور اگر ہماری طرف لوٹ آؤ تو ہم بھی اپنے لطف ں کرم کا رخ پھر تمہاری جانب کردیں گے اور اگر تم نے فساد اور اکڑپن کو نہ چھوڑا تو پھر تمہیں ہم شدیدعذاب میں مبتلا کردیں گے( وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا ) ۔اور پھر یہ تو دنیا کی سزا ہے جبکہ ”جہنم کو ہم نے کافروں کے لیے سخت قید خانہ قرار دیا ہے“( وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْکَافِرِینَ حَصِیرًا ) ۔(۵)

____________________

۱۔ ترکیب نحوی کے اعتبار سے بعض مفسرین نے ”اٴَلاَّ تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِی وَکِیلًا “ کو ”لئلاَّ تَتَّخِذُو ----“ سمجھا ہے اور بعض نے ”اٴن “ کو زائد اور ”قلنا لهم “ کو مقدر سمجھا ہے کہ جو مجموعی طور پر یوں ہوگا:

۲۔ ”ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ “جملہ ندائیہ ہے اور تقدیر میں ”یا ذریة من حملنا مع نوح“ تھا رہا یہ احتمال کہ ”ذریة“ ”وکیلا“کا بدل ہے یا ”تتخذوا“ کا مفعول ثانی ہے ۔

۳۔ مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۴۔ ”نفیر“ اسم جمع ہے اس کا معنی ہے ”لوگوں کا ایک گروہ“ بعض کہتے ہیں کہ یہ ”نفر“ کی جمع ہے اور در اصل یہ ”نفر“ (بوزن ”عفو“)کے مادہ سے کوچ کرنے اور کسی چیز کو سامنے لانے کے معنی میں ہے، اسی وجہ سے اس گروہ کو ”نفیر“ کہتے ہیں کہ جو کسی چیز کی طرف حرکت کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔

۵۔ ”حصیر“ ”حصر“ کے مادہ سے ”قید“ کے معنی میں ہے اور ہر وہ جگہ جس سے نکلنے کی راہ نہ ہوا سے ”حصیر“کہتے ہیں چٹائی کو بھی حصیر اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے مختلف حصے باہم بنے ہوئے اور محصور ہوتے ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ بنی اسرائیل کے دو تاریخی فسادات:

زیر نظر آیات میں بنی اسرائیل کے دو اجتماعی انحرافات کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔ یہ انحرافات فساد اور سرکشی پر منتج ہوئے ۔ ان میں سے ہر ایک کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر سخت زور آور لوگوں کو مسلط کردیا تاکہ وہ انہیں سخت سزادیں اور کیفرِ کردار تک پہنچائیں ۔

بنی اسرائیل کی تاریخ بہت داستان انگیز ہے ۔ وہ تاریخ کے بہت سے نشیب و فراز سے گزرے ہیں کبھی انہیں کامیابی نصیب ہوئی اور کبھی وہ شکست سے دوچار ہوئے لیکن قرآن یہاں کن حوادث کی طرف اشارہ کررہا ہے، اس سلسلے میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے ۔ اس سلسلے میو ہم بطور نمونہ چند ایک کا ذکر کرتے ہیں :

۱ ۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا شخص جس نے ان پر حملہ کیا اور بیت المقدس کو تباہ کردیا وہ بخت النصر تھا ۔ یہ بابل کا حکمران تھا ۔ اس حملے کے بعد بیت المقدس ستر برس تک اسی طرح برباد رہا یہاں تک کہ پھر یہودی اٹھے اور انہوں نے اس کی تعمیر نو کی ۔

دوسرا شخص جس نے ان پر حملہ کیا وہ قیصرِ روم ”اسپیانوس“ تھا ۔ اس نے اپنے وزیر ”طرطوز“ کو اس کام پر مامور کیا ۔ اس نے بیت المقدس کو تباہ کرنے اور بنی اسرائیل کو کمزور اور قتل کرنے میں پوری قوت صرف کر دی ۔ یہ واقعہ تقریباً سو سال قبل مسیح پیش آیا ۔

لہٰذا ممکن ہے کہ وہ دو داقعات جن کی طرف قرآن حکیم میں اشارہ کیا گیا ہے یہی ہوں کہ جو بنی اسرائیل کی تاریخ میں بھی آئے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں پیش آنے والے دوسرے واقعات اس قدر سنگین اور شدید نہیں تھے کہ ان کی حکومت بالکل ملیا میٹ ہوگئی ہو بخت النصر کے حملے نے ان کی طاقت و شوکت کو بالکل تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ ”کورش“ کے زمانے تک ان کی صورتِ حال اسی طرح رہی ۔ اس کے بعد پھر بنی اسرائیل بر سر اقتدار آئے ۔ ان کی حکومت اسی طرح برقرار رہی یہاں تک کہ پھر قیصرِ روم نے ان پر حملہ کیا اور ان کی حکومت کو ختم کردیا ۔ پھر ایک طویل مدت وہ در بدر رہے (اور اب پھر کچھ عرصہ پیشتران لوگوں نے انسانیت کُش سامراجی قوتوں کی مدد سے ایک حکومت قائم کی ہے اور اب وہ اس کی توسیع کے لیے کوشاں ہیں ) ۔(۱)

۲ ۔ طبری اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا:

پہلے فساد سے مراد زکریا اور بہت سے انبیاء کا قتل ہے اور پہلے وعدے سے مراد بخت النصر کے ذریعے اللہ کی طرف سے ان سے انتقام لینے کا وعدہ ہے اور دوسرے فساد سے مراد وہ شورش ہے جو انہوں نے ”آزادی“ کے بعد ایران کے ایک بادشاہ کی سرکردگی میں برپا کی اور یہ لوگ فساد اور خرابی کے مرتکب ہوئے جبکہ دوسرے وعدے سے مراد بادشاہِ روم ”انطیاخوس“ کا حملہ ہے ۔

ایک حد تک تو یہ تفسیر پہلی تفسیر پر منطبق کی جاسکتی ہے لیکن اس کا راوی قابلِ اعتماد نہیں ہے نیز حضرت زکریا علیہ السلام کی تاریخ کو بخت النصر اور اسپیانوس یا انطیا خوس کے زمانے پر منطبق نہیں کیا جاسکتا بلکہ بعض کے بقول بخت النصر ”ارمیا“ یا دانیال پیغمبر کا ہم عصر تھا اور یہ زمانہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے دور سے تقریباً چھ سو برس پہلے کا ہے لہٰذا کیونکر ممکن ہے کہ بخت النصر نے حضرت یحییٰ کے خون کے انتقام کے لیے قیام کیا ہو؟

۳ ۔ بعض دوسرے مفسرین نے کہا ہے کہ حضرت داؤد(ع) اور حضرت سلیمان (ع) کے زمانے میں ایک مرتبہ بیت المقدس تعمیر ہوا اور بخت النصر نے اسے تباہ و برباد کردیا ۔ یہی وہ پہلا وعدہ ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے ۔ اس کے بعد بیت المقدس ہخامنشی بادشاہوں کے زمانے میں تعمیر ہوا ۔ پھر اسے طیطوس رومی نے برباد کیا (توجہ رہے کہ ہوسکتا ہے یہ ”طیطوس“ وہی ”طرطوز“ ہوجس کا سطورِ بالا میں ذکر آچکا ہے) ۔ اس شہر کی یہی حالت رہی، یہاں تک کہ خلیفہ ثانی کے زمانے میں اسے مسلمانوں نے فتح کیا ۔(۲)

یہ تفسیر بھی مندرجہ بالا دو تفسیروں سے کوئی زیادہ اختلاف نہیں رکھتی ۔

۴ ۔ مندرجہ بالا تفاسیر اور دیگر تفاسیر کہ جو کم و بیش ان سے ہم آہنگ ہیں ، کے مقابلے میں ایک اور تفسیر بھی ہے ۔ اس کا احتمال سید قطب نے اپنی تفسیر فی ذکر کیا ہے ۔ یہ تفسیر مذکورہ تفسیروں سے بالکل مختلف ہے ۔ اس تفسیر کے مطابق یہ واقعات گزشتہ زمانے میں اور نزولِ قرآن کے زمانے میں پیش نہیں آئے بلکہ ان کا تعلق نزول قرآن سے بعد کے زمانے سے ہے ۔ احتمالاً ان کا پہلا فساد ہٹلر کے زمانے سے مربوط ہے کہ جب ہٹلر کی قیادت میں جرمن کے نازیوں نے یہودیوں کے خلاف قیام کیا ۔(۳)

لیکن۔ اس تفسیر میں یہ اشکال ہے کہ ان واقعات میں سے کسی واقعے میں بھی فتح مند قوم بیت المقدس میں داخل بھی نہیں ہوئی چہ جائیکہ بیت المقدس برباد ہوتا ۔

۵ ۔ ایک احتمال اور بھی بعض حضرات کی طرف سے ذکر ہوا ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں واقعات دوسری جنگِ عظیم کے بعد کے ہیں جبکہ صیہونزم کی بنیاد پڑی اور اسلامی ممالک کے قلب میں اسرائیل نامی حکومت تشکیل دی گئی بنی اسرائیل کے پہلے فساد اور سرکشی سے یہی مراد ہے اور پہلے انتقام سے مراد یہ ہے کہ جب ابتداء میں اسلامی ممالک اس سازش سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے اس کے مقابلے کے لیے قیام کیا نتیجتاً انہوں نے بیت المقدس اور فلسطین کے کچھ شہر اور قبضے یہودیوں کے چنگل سے آزاد کروالیے اور مسجدِ اقصیٰ سے یہودی اثر و نفوذ بالکل ختم ہوگیا ۔

دوسرے فساد سے مراد درندہ صفت سامراجی طاقتوں کے سہارے بنی اسرائیل کا وہ حملہ ہے جس کے نتیجے میں انہوں نے بہت سے اسلامی علاقوں پر قبضہ جمالیا اور بیت المقدس اور میجد اقصیٰ کو اپنے زیر نگین کرلیا ۔

اس بنا پر مسلمانوں کو بنی اسرائیل پر دوسری کامیابی کا انتظار کرنا چاہیے، مسجد اقصیٰ کو ان کے چنگل سے آزاد کروانا چاہیے اور اسلامی سرزمین سے ان کے اثر و نفوذ کا پوری طرح خاتمہ کردینا چاہیے ۔ ساری دنیا کے مسلمان اسی روز کے منتظر ہیں اور اللہ نے اسی کے لیے مسلمانوں سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا ہے ۔(۴)

ان کے علاوہ بھی کچھ تفاسیر ہیں کہ جن کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں ۔

چوتھی اور پانچویں تفسیر کے مطابق آیات میں جو ماضی کے صیغے استعمال ہوئے ہیں ان سب کو مضارع کی حالت میں ہونا چاہیے تھا البتہ عربی ادب کے لحاظ سے جہاں فعل حروفِ شرط کے بعد آئے وہاں یہ معنی بعید نہیں ہے ۔ لیکن یہ آیت:( ثم رددنا لکم الکرة علیهم و امددناکم با موال و بنین وجعلنا کم اکثر نفیراً )

ظاہری اعتبار سے اس بات کی غماز ہے کہ کم از کم بنی اسرائیل کا پہلا فساد اور اس کا انتقام گزشتہ زمانے میں وقوع پذیر ہوا ہے ۔

ان تمام چیزوں سے قطع نظر ایک اہم مسئلہ اس مقام پر لائق توجہ ہے ۔ اس آیت پر غور کیجیے:( بعثنا علیکم عباداً لنا اولی باٴس شدید )

ہم اپنے بندوں میں سے ایک زور آور گروہ تم پر مسلط کریں گے ۔

ظاہراً یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ انتقام لینے والے افراد با ایمان بہادر تھے کہ جو ”عباد“”لنا“ اور ”بعثنا“ کے اہل تھے ۔ یہ وہ بات ہے کہ جس کا ذکر بہت سی مذکورہ تفاسیر میں نہیں آیا ۔

البتہ اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لفظ ان کے علاوہ بھی استعمال ہوا ہے ۔ مثلا ۔ ہابیل اور قابیل کے واقعے میں ہے:( فَبَعَثَ الله غُرَابًا یَبْحَثُ فِی الْاٴَرْضِ )

اللہ نے ایک کوّا بھیجا کہ جو زمین کو کریدتا تھا ۔(مائدہ۔ ۳۱)

نیز یہی لفظ زمین و آسمان کے عذاب کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلیٰ اٴَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ اٴَوْ مِنْ تَحْتِ اٴَرْجُلِکُمْ ) ۔(انعام۔ ۶۵)

اسی طرح لفظ ”عباد“اور ”عبد“ قابل مذمت افراد کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ فرقان کی آیت ۵۸ میں یہ لفظ گنہگاروں کے

لیے استعمال ہوا ہے:( وَکَفیٰ بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِیرًا )

نیز سورہ شورایٰ کی آیت ۲۷ میں سرکشوں کے لیے یہ لفظ اس پیرائے میں استمال ہوا ہے:

( وَلَوْ بَسَطَ الله الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِی الْاٴَرْضِ )

اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت ۱۱۸ میں خطا کاروں اور منکرین توحید کے بارے میں فرماگیا ہے:( إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ )

لیکن ۔ ان تمام چیزوں کے باوجو اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر یقینی قرینہ موجود نہ ہوتو زیربحث آیات کاظاہری اسلوب یہی کہتا ہے کہ انتقام لینے والے اہلِ ایمان ہیں ۔

بہرحال مندرجہ بالا آیات اجمالاً ہم سے کہتی ہیں کہ بنی اسرائیل نے دومرتبہ فساد بر پا کیا اور سرکشی اختیار کی اور اللہ نے ان سے سخت انتقام لیا ۔ اس بات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بنی اسرائیل، ہم اور تمام انسان اس سے عبرت حاصل کریں اور یہ جان لیں کہ ظلم و ستم اور فساد انگیزی خدا کی بارگاہ میں سزا کے بغیر نہیں رہ سکتی اور جب ہمیں اقتدار یاقوت حاصل ہو تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دردناک حوادث ہمارے انتظار میں ہیں لہٰذا گزشتہ لوگوں کی تاریخ سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے ۔

۲ ۔ جو کام بھی کرو گے اپنے ساتھ ہی کرو گے:

زیر بحث آیات میں اس بنیادی اصول کی نشاندہی کی گئی ہے کہ تمہاری اچھائیاں اور برائیاں خود تمہاری طرف لوٹتی ہیں ۔ اگر چہ ظاہراً اس جملے کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں لیکن واضح ہے کہ اس مسئلے میں بنی اسرائیل کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے ۔ یہ تو پوری تاریخ انسانی کے لیے ایک دائمی قانون ہے اور خود تاریخ اس کی شاہد ہے ۔(۵)

بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے غلط اور برے کاموں کی بنیاد رکھی، ظالمانہ قوانین بنائے اور غیر انسانی بدعتوں کو رواج دیا اور آخر کار ان کا نتیجہ خود ان کے لیے کھودا تھا خود اس میں جا گرے ۔

خاص طور پر زمین پر فتنہ و فساد برپا کرنا، برتری جتانا اور اپنے تئیں بڑا سمجھنا( علواً کبیراً ) ایسے امور ہیں کہ جن کا اثر اسی جہان میں انسان کا دامن آپکڑتا ہے ۔ اسی بناء پر بنی اسرائیل بارہا سخت شکست سے دوچار ہوئے ، پراگندہ ہوئے اور انہیں رسوا کن انجام کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے زمین پر فتنہ و فساد برپا کیا ۔

اس وقت بھی صیہونی یہودیوں نے دوسروں کی زمین غضب کرنے، دوسروں کو بدر آوارہ وطن کرنے اور ان کی اولاد کوقتل و برباد کرنے کا ہمل شروع کررکھا ہے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کے گھر بیت المقدس کی حرمت کا بھی پاس نہیں کیا ۔ عالمی سطح پر ان کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ کسی قانون اور اصول کی پرواہ نہیں کرتے ۔اگر کوئی ایک فلسطینی مجاہدان کی طرف رائفل کی ایک گولی چلاتا ہے تو اس کے بدلے وہ مہاجر کمپوں ، بچوں کے اسکولوں اور ہسپتالوں پر وحشیانہ بمباری کرتے ہیں اور اپنے ایک شخص کے بدلے بعض اوقات سینکڑوں بے گناہوں کو خاک و خون میں تڑپا دیتے ہیں اور اپنے ایک شخص کے بدلے بعض اوقات سینکڑوں بے گناہوں کو خاک و خون میں تڑپا دیتے ہیں اور بہت سے گھروں کو تباہ و برباد کردیتے ہیں ۔

وہ اپنے آپ کو کسی بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں سمجھتے اور اعلانیہ سب کو پاؤں تلے روندیتے ہیں ۔

اس میں شک نہیں کہ یہ تمام تر قانون سکنی، بے انصافی اور خلافِ انسانیت کردار اس لیے ہے کہ اسرائیل کو انسان کش عالمی طاقت امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے لیکن یہ امر بھی قابل تردید و شک نہیں کہ خود یہ قوم سراپا ظلم و بربریت ہے اور تمام تر انسانی اقدار کو پامال کرنے پر اپنی مثال آپ ہے ۔ ان کا یہ طرز عمل بذاتِ خود زمین پر فساد برپا کرنے، بڑا بننے کی خواہش اور ظلم و استکبار کا مصداق ہے ۔ انہیں اب انتظار کرنا چاہیے کہ پھر ”عباداً لنا اولی باٴس شدید “ کے مصداق لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان پر غلبہ پائیں گے اور ان کے بارے میں اللہ کا قطعی وعدہ عملی شکل اختیار کرے گا ۔

۳ ۔ آیات کی تطبیق اسلامی تاریخ پر:

متعدد روایات میں زیر نظر آیات کو مسلمانوں کی تاریخ میں پیش آنے والے حوادث پر منطبق کیا گیا ہے ۔ ان کے مطابق پہلا فساد اور ظلم حضرت علی علیہ السلام کی شہادت ہے اور دوسرا امام حسن علیہ السلام کی شہادت جبکہ ”بعثنا علیکم عباداً لنا اولی باٴس شدید “ کے مصداق مہدی قائم علیہ السلام اور ان کے انصار ہیں ۔

بعض دوسری روایات کے مطابق یہ ایک ایسی قوم کی طرف اشارہ ہے جو حضرت مہدی علیہ السلام سے پہلے قیام کریگی ۔(۱۰)

یہ واضح ہے کہ ان احادیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے کہ زیر بحث آیات ی تفسیر اپنے لفظی مفہوم کے مطابق نہیں ہے کیونکہ یہ آیات پوری صراحت کے ساتھ بنی اسرائیل کے بارے میں گفتگو کررہی ہیں بلکہ ان روایات سے مراد یہ ہے کہ اس امت میں بھی ایسے فسادات اور مظالم کی ایسی ہی سزا ہوگی ۔

یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مذکورہ بالا طرزِ عمل اگر چہ بنی اسرائیل کے بارے میں ہے لیکن یہ ایک عمومی قانون ہے جو تمام اقوام و ملل کیلئے ہے اور ساری تاریخ انسانی پر جاری و ساری ایک عمومی سنت ہے ۔

____________________

۱۔ تفسیر المیزان، ج ۱۳ ص ۴۶۔

۲۔ تفسیر ابوالفتوح رازی، ج ۷ حاشیہ ص ۲۰۹ از قلم عالمِ معظم شعرانی مرحوم۔

۳۔ تفسیر فی ظلال، ج ۵ ص ۳۰۸۔

۴۔ مجلہ مکتب اسلام شوارہ ۱۲ سال ۱۲ و یک سال ۱۳ بحث تفسیر آقائی ابراہیم انصاری ۔

۵۔ نور الثقلین ج ۳، ص ۱۳۸-