تفسیر نمونہ جلد ۱۲

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 16254
ڈاؤنلوڈ: 1997


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16254 / ڈاؤنلوڈ: 1997
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 12

مؤلف:
اردو

سعادت کا بالکل سیدھا راستہ

گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل، ان کی آسمانی کتاب تورا ت، ان کی طرف سے احکام الہٰی خلاف ورزی اور اس سلسلے میں ان کی سزاؤں سے متعلق گفتگو تھی۔اب مسلمانوں کی آسمانی کتاب قرآن مجید کی طرف بات کا رخ موڑاگیا ہے کہ جو کتب آسمانی کی آخری کڑی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: یہ قرآن لوگوں کو مستقیم ترین اور بالکل سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے( إِنَّ هٰذَا الْقُرْآنَ یَهْدِی لِلَّتِی هِیَ اٴَقْوَمُ ) ۔

”اقوم“ ”قیام “کے مادہ سے ہے اور چونکہ انسان جب کسی اہم کام کو انجام دینا چاہتا ہے تو قیام کرتا ہے اور کام شروع کردیتا ہے اسی لحاظ سے احسن طریقے اور تندہی سے انجام دینے کے لیے ”قیام“ بطور کنایہ استعمال ہوا ہے ۔

ضمناً یہ بھی کہہ دیا جائے کہ لفظ” استقامت“ بھی اسی مادے سے ہے اور”قیم“بھی اسی مادے سے ہے جس کا معنی ہے صاف و شفاف،مستقیم،ثابت اور ٹھوس۔

”اقوم“چونکہ افعل التفضیل کا صیغہ ہے لہٰذا صاف تر،مستقیم تر اور بالکل سیدھا کے معنی میں ہے ۔ اس لحاظ سے زیر بحث آیت کا مفہوم یہ ہوگا:

قرآن ایسے راستے کی طرف دعوت دیتا ہے جو زیادہ مستقیم، زیادہ صاف اور زیادہ محفوظ و مضبوط ہے ۔

قران کے پیش کردہ عقائد صاف اور مستقیم ہیں ،روشن و واضح ہیں ،قابل ادراک ہیں ، ہر قسم کے ابہام اور خرافات سے پاک ہیں ۔وہ عقائد کہ جو عمل کی دعوت دیتے ہیں انسانی صلاحیتوں کو مجتمع کرتے ہیں اور انسان اور عالم فطرت کے قوانین میں ہم آہنگی بر قرار رکھتے ہیں ۔

یہ قرآن زیادہ صاف اور زیادہ مستقیم ۔اس لحاظ سے کہ ظاہر و باطن،عقیدہ و عمل،فکر و نظر اور طرز حیات کے در میان یکجہنی پیدا کرکے سب کوالله کی طرف دعوت دیتا ہے ۔

یہ قرآن صاف تر اور مستقیم تر ہے ۔سماجی ،اقتصادی اور سیاسی نظام اور قوانین کے اعتبار سے ۔ اس کا نظام تمام روحانی پہلوؤں کی بھی پرورش کرتا ہے اور مادی لحاظ سے بھی کمال و ارتقاء آفرین ہے ۔

یہ قرآن عبادت میں بھی افراط و تفریط سے بچاتا ہے ۔

اسی طرح قرآن کا اخلاقی نظام بھی ہر طرح کے افراط و تفریط سے محفوظ رکھتا ہے ۔ حرص اور طمع سے بھی بچاتا ہے، اسراف اور فضول خرچی سے بھی نجات دلاتا ہے، بخل اور کنجوسی سے بھی محفوظ رکھتا ہے، حسد سے بھی دوکتا ہے کمزور بن جانے اور دوسروں کو کمزور کرکے خود بڑا بن بیٹھنے سے بھی بچانا ہے ۔

یہ قرآن صاف تر اور مستقیم تر ہے ۔ اپنے پیش کردہ نظام حکومت کے لحاظ سے کہ جو عدل و انصاف پر مبنی ہے اور ظلم اور ظالموں کی سرکوبی کرتا ہے ۔

جی ہاں !قرآن ایسے راستے کی ہدایت کرتا ہے جو ہر لحاظ سے زیادہ صاف،زیادہ مستقیم،زیادہ محفوظ اور زیادہ مضبوط ہے ۔

یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ”افعل التفضیل “کا صیغہ یہ معنی دیتا ہے کہ دوسری اقوام کے مذاہب میں بھی استقامت اور عدالت کی خوبیاں موجود تھیں جبکہ قرآن میں ان کی نسبت زیادہ ہیں لیکن چند پہلوؤں کی طرف توجہ کرنے سے یہ مسئلہ واضح ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ:

اولاً: اگر موازنہ دوسرے آسمانی ادیان کے ساتھ ہو تو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے ہر ایک اپنے زمانے میں صاف،مستقیم اور مضبوط دین تھا لیکن تکامل و ارتقاء کے مطابق جب ہم آخری مرحلے یعنی مرحلہ خاتمیت تک پہنچیں گے تو ایسا دین موجود ہوگا کہ جو صاف تر، مستقیم تر اور مضبوط تر ہوگا ۔

ثانیاً: اگر موازنہ دیگر آسمانی مذاہب کی بجائے دیگر مذاہب سے ہو تو بھی”افعل التفضیل “ با معنی ہوگا کیونکہ ہر مکتب و مذاہب کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم ان خوبیوں کا لحاظ رکھیں لیکن ان میں موجود کوتاہیوں ، خرابیوں اور انحرافوں کو مجموعی طور پر دیکھا جائے اور پھر قرآن سے ان کا موازنہ کیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ یہ دین زیادہ صاف اور انسان کی روحانی و مادی ضروریات سے زیادہ ہم آہنگ ہے لہٰذا یہ زیادہ مضبوط اور زیادہ محفوظ ہے ۔

ثالثاً: جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ”افعل التفضیل “ کا صیغہ ہمیشہ اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ لازماً کسی چیز سے موازنہ کیا جارہا ہے اور لازماًدوسری طرف کوئی چیز اس کے کچھ مفہوم کی حامل ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

( اَفَمَنْ یَّهْدِیٓ اِلَی الْحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا یَهِدِّیٓ اِلَّا ٓاَنْ یُّهْدٰی )

جو شخص حق کی طرف دعوت دیتا ہے کیا رہبری کا وہ زیادہ حق رکھتا ہے اور زیادہ اہل ہے یا وہ شخص جو حق کے راستے کا راہی ہی نہیں ۔ (یونس۔ ۳۵)

ضمنی طور پر اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ” اقوم“ کا ایک معنی زیادہ ثابت اور زیادہ محفوظ و مضبوط ہے نیز آیت کی عبارت میں موازنے کے طور پر کسی دوسری چیز کا ذکر نہیں ہے جبکہ اصطلاح کے مطابق”متعلق کا حذف ہونا عمومیت و شمولیت کی دلیل ہے“ ان امور کی طرف توجہ کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو اسلام اور رسول کی خاتمیت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں کیونکہ اس آیت کے مطابق یہ دین زیادہ ثابت، زیادہ باقی، زیادہ ٹھوس، زیادہ مضبوط اور زیادہ محفوظ ہے ۔ (غور کیجیے گا) ۔

اس مستقیم الٰہی پروگرام سے لوگوں کا تعلق چونکہ دو طرح ہے لہٰذا اس کے بعد اس رابطے اور تعلق کے نتیجے کا انہی دو حوالوں سے ذکر کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: جن با ایمان لوگوں نے نیک عمل انجام دئیے ہیں قرآن انہیں خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے( وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِینَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَهُمْ اٴَجْرًا کَبِیرًا ) (۱)

اور وہ کہ جو آخرت اور اس کی عظیم عدالت پر ایمان نہیں رکھتے (اور اس لیے انہوں نے اعمال صالح انجام نہیں دیئے) انہیں آگاہ کردیتا ہے کہ ان کے لیے دردناک عذاب ہم نے تیار کررکھا ہے( وَاٴَنَّ الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ اٴَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا )

مومنین کے لیے بشارت کی تعبیر تو واضح ہے لیکن بے ایمان اور سرکش افراد کے لیے در حقیقت یہ ایک قسم کا استہزاء ہے یا پھر مومنین کے لیے بشارت ہے کہ ان کے دشمنوں کا یہ انجام ہوگا ۔

اس طرف بھی نظر جاتی ہے کہ مومنین کے لیے اجمالاً ”اجراًکبیراً “ فرمایا گیا ہے جبکہ بے ایمان افراد کی سزاکے لیے صراحتاً ”عذابا الیماً “ فرما گیا ہے ۔ان دونوں تعبیرات کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ معنوی و مادی اور روحانی و جسمانی تمام پہلووں پر محیط ہے ۔

رہی یہ بات کہ دوزخیوں کی صفات میں سے صرف”آخرت پر ایمان نہ لانے“کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ ان کے اعمال کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ہو سکتا ہے کہ یہ اس بناء پر ہوکہ اگر انسان اس عظیم عدالت پر ایمان رکھتا ہو تو گناہوں سے بچانے کے لیے یہ ایمان سب سے زیادہ مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے ۔ اس سے قطع نظر انکار قیامت کا مطلب انکارِ خدا بھی ہے کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ عادل و حکیم خدا اس جہان کے لوگوں کو ان حالات میں کہ جو ہم دیکھ رہے ہیں ، ان کی حالات پر چھوڑدے اور کوئی دوسرا جہاں موجود نہ ہو۔یہ امر نہ اس کی حکومت سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ اس کی عدالت سے ۔علاوہ ازیں آیت میں موجود جزاء سزا کے بارے میں گفتگو جاری ہے اور یہ گفتگو آخرت اور عدالتِ الٰہی کے مسئلے سے مناسبت رکھتی ہے اس لیے یہاں آخرت پر ان کے ایمان نہ لانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔

اگلی آیت میں گزشتہ بحث کی مناسبت سے بے ایمانی ایک اہم علت بیان کی گئی ہے اور وہ مختلف امور کے بارے میں درکار آگاہی کا نہ ہونا ۔ ارشاد ہوتا ہے: جیسے انسان بھلائی کا خواہشمند ہوتا ہے اسی طرح جلد بازی کرتے ہوئے اور درکار آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے برائی طلب کرنے لگتا ہے( وَیَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَائَهُ بِالْخَیْر ) ۔

کیونکہ انسان پر جلد باز ہے( وَکَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا ) ۔

اس مقام پر ”دعا“کا ایک وسیع مفہوم ہے اور اس میں ہر قسم کی خواہش و طلب شامل ہے چاہے زبان سے ہو یا عمل سے ۔

در حقیقت زیادہ سے زیادہ اور جلد منافع کے حصول کی تڑپ اس امر کا سبب بنتی ہے کہ مسائل کے تمام پلوؤں کے بارے میں غور و فکر اور تحقیق و مطالعہ نہیں کرتا اور بسا ایسا ہوتا ہے کہ اس جلد بازی کے باعث انسان حقیقی فائدے اور منافع کی تمیز نہیں کر پاتا بلکہ خواہشات کی سرکش اور بے تابی حقیقت کا چہرہ چھپادیتی ہے اور انسان اپنی بھلائی کی بجائے برائی کے پیچھے چل نکلتا ہے ۔ اس حالت میں جس طرح انسان الله سے بھلائی کا تقاضا کرتاہے عدم معرفت اور غلط پہچان کے باعث برائیوں کا بھی تقاضا کرنے لگتا ہے اور جس طرح بھلائی کے لیے کوشش کرتا ہے برائی کے بھی پیچھے چل پڑتا ہے ۔یہ نوع انسانی کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت ہے اور سعادت کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔

کتنے ہی ایسے لوگ ہیں کہ جو جلد بازی کی وجہ سے خطرناک گڑھوں میں گرجاتے ہیں ۔ اپنے تئیں وہ امن و خوشحالی کے راستے پر جارہے ہوتے ہیں لیکن بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ منزل سعادت کے تصور میں برائیوں اور بدبختیوں میں جا پڑتے ہیں افتخار و عزت کی بجائے ذلت و رسوائی کے پانیوں میں جا اتر تے ہیں ۔ یہ برا نتیجہ عجلت پسندی اور جلد بازی کا ہے ۔

جو کچھ ہم کہہ چکے ہیں اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آیت کا مفہوم نہ لفظی دعا میں منحرف ہے اور نہ عملی طلب میں ۔ بلکہ یہ سب کچھ ایک جامع مفہوم میں موجود ہے ۔ لہٰذا اگر بعض مفسریں نے اسے کسی ایک حصے میں محدود کیا ہے تو اس کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے ۔ نیز اگر بعض روایات میں صرف لفظی دعا کا ذکر ہے تو وہ در اصل ایک مصداق کی نشاندہی ہے نہ کہ پورے مفہوم کا ذکر ہے ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

واعرف طریق نجاتک وھلاکک، کی لاتدعوا الله بشیء عسی فیہ ھلاکک، وانت تظن ان فیہ نجاتک، قال الله تعالیٰ ”( وَیَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَائَهُ بِالْخَیْرِ وَکَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا )

اپنی نجات اور اپنی ہلاکت کے راستے کو خوب پہچان لے تا کہ تو ا للهسے کسی ایسی چیز کا مطالبہ نہ کربیٹھے کہ جس میں تیری ہلاکت ہے جبکہ تیرا یہ گمان ہو کہ اسی میں تیری نجات ہے ۔ الله تعالیٰ کہتا ہے کہ انسان جس طرح سے بھلائی کی دعا کرتا ہے اسی طرح برائی کی طلب کرنے لگتا ہے کیونکہ انسان جلد باز ہے ۔

لہٰذا حیر و سعادت تک پہنچنے کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ انسان جو بھی کام کرنا چاہے بڑے غور و خوض،سمجھداری اور جلد بازی سے بچتے ہوئے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر کے اور اس سلسلے میں بے سوچے سمجھے فیصلوں سے بچے اور خواہشات نفسانی کی آلودگیوں سے اپنی رائے کو پاک رکھے پھر الله سے اس کام کے لئے مدد طلب کرے تا کہ منزل سعادت سے ہمکنار ہو سکے اور ہلاکت کے گڑھے میں نہ جا گرے ۔

اگلی آیت میں خلقت شب و روز، ان کی برکات اور علم میں ایک نظم وحساب کی موجودگی کے بارے گفتگو کی گئی ہے تا کہ توحید و معرفت الٰہی کی دلیل بھی بنے اور گزشتہ سے پیوستہ بحث قیامت کی بھی تکمیل ہوجائے اور اس کے علاوہ کاموں میں غور و حوض کرنے اور عجلت سے کام نہ لینے کے ضروری ہونے کے لیے بھی مشاہدہ بن سکے ۔ارشاد ہوتا ہے: رات اور دن کو ہم نے اپنی نشانیاں قرار دیا ہے( وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ آیَتَیْنِ ) ۔

پھر ہم نے رات کی نشانی کو محو کردیا اور اس کی جگہ دن کی نشانی لے آئے کہ جو ضیاء بخش ہے( فَمَحَوْنَا آیَةَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَا آیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً ) ۔

اس سے ہمارے دو مقصد تھے ۔ پہلا یہ کہ” تم اپنے رب کے فضل سے بہرہ ور ہوجاؤ“( لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ ) ۔ رات کو آرام کرو اور دن میں کام کاج اور بھاگ دوڑ کرو اور اس کے نتیجہ میں نعمات الٰہی سے فائدہ اٹھاؤ۔

دوسرا یہ کہ اپنے کاموں کے نظم و حساب کے لیے سالوں کی تعداد اور مدت معین کرو اور وقت کا حساب کتاب اور تقسیم طے کرلو

( وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ ) ۔

اور ہم نے سب کچھ مفصل اور واضح کردیا ہے( وَکُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِیلًا ) ۔ تا کہ کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے ۔

”اٰیة اللیل“ اور ”ایةالنہار“ سے مراد خود رات دن ہیں اور ان میں سے ہر ایک پروردگار کی ایک نشانی ہے یا”آیة اللیل“ سے مراد چاند اور ”آیة النہار“ سے مراد سورج ہے ۔اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔لیکن آیت پر ہی غور و خوض کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ پہلی تفسیر صحیح ہے ۔

”وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ آیَتَیْنِ“ کی تعبیر اس بات کی دلیل ہے کہ ان میں سے ہر ایک اثباتِ وجود خدا کے لیے دلیل، ایک نشانی ہے اور آیتِ شب محو ہونے سے مراد یہ ہے کہ رات کے تاریک پردے دن کے اجالے کی وجہ سے چھٹ جاتے ہیں اور رات کے وقت جوکچھ چھپ جاتا ہے دن کے روشنی میں آشکار ہوجاتا ہے ۔

قرآن نے جو بعض دوسری آیات( یونس۔ ۵) میں سال اور مہینے کے حساب کے لیے سورج اور چاند کو پیمانہ اور ذریعہ قرار دیا ہے وہ ہمارے مذکورہ بیان کے منافی نہیں ہے کیونکہ انسانی زندگی میں نظم اور حساب کے پیدا ہونے کو رات دن کی طرف بھی نسبت دی سکتی ہے اور چاند سورج کی طرف بھی چونکہ یہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔ نہج البلاغہ کے خطبہ اشباح میں عظمتِ الٰہی کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

وجعل الشمس آیة مبصرة لنهارها، وقمرها، آیة ممحوة من لییلها، واجراهما فی مناقل مجراهما، وقدر سیرهما فی مدارج درجهما، لیمز بین اللیل والنهار بهما، ولیعلم عدد السنین والحساب بمقادیرهما

سورج کو دن ضیاء بخش نشانی قرار دیا اور چاند کو رات کی محو کرنے والی نشانی بنایا اور ان دونوں کو رواں دواں کردیا ۔ ان کی حرکت کے مراحل مقرر کیے تا کہ رات اور دن کے درمیان فرق پیدا کرے اور دونوں سے حاصل کیے گئے حساب کتاب سے سالوں کا اندازہ لگا یا جاسکے ۔

یہ تفسیر بھی مذکورہ بالا پہلی تفسیر کے منافی نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں سال کے حساب کتاب کو رات دن سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے اور چاند سورج سے بھی کیونکہ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔

____________________

۱۔ سورہ نساء کی آیت ۳۸ کے ذیل میں ہم کہہ چکے ہیں کہ لفظ ”بشارت“ در اصل ”بشرة“ سے لیا گیا ہے اور ”بشرة“ کا ہے ”چہذہ“ اور ہر چیز جو انسان پر اثر انداز ہو، اسے مسرور یا مغموم کردے اسے ”بشارت“ کہتے ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ کیا انسان ذاتی طور پر جلد باز ہے ؟

زیر بحث آیت میں تو انسان کو جلد باز کہا گیا ہے لیکن کسی آیات بھی ہیں جن میں انسان کو ”ظلوم‘،” جھول“، ”کفور“، سرکش، کم ظرف اور مغرور وغیرہ کہا گیا ہے ۔

ان تعبیروں سے بعضی اوقات یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ظرف یہ کہا گیا ہے اور دوسری طرف انسان کے پاک فطرت اور الٰہی روح کے حامل ہونے کا ذکر ہے ۔ ان دونوں کو کس طرح ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے؟

دوسری لفظوں میں اسلامی تصور کائنات کے مطابق انسان ایک عالی مرتبہ موجود ہے خلیفة الله اور زمین میں الله کی نمائندگی کے لایق ہے ۔ انسان فرشتوں کا استاد اور ان سے برتر ہے ۔ یہ بات مذکورہ مذمت آمیز تعبیرات سے کیونکہ ہم آہنگ ہے؟

اس سوال کا جواب ایک ہی جملے میں دیا جاسکتا ہے کہ انسان کا یہ تمام تر مقام، اہمیت اور قیمت سے مشروط ہے اور وہ شرط ہے” ہادیاں الٰہی کے زیر نظر تربیت“۔ اس صورت کے علاوہ انسان خود رو گھاس پھونس کی طرح پرورش پاتا ہے اور خواہشات و شہوات میں غوطے کھاتا رہتا ہے اور اپنی عظیم صلاحتیں کھو دیتا ہے اور اس میں منفی پہلو آشکار ہو جاتے ہیں ۔

اس بنا پر۔ اگر مذکورہ شرط پوری ہوجائے تو وہ تمام مثبت صفات جو قرآن حکیم میں انسان کے بارے میں آئی ہیں وہ صورت پذیر ہو جائیں گی اور اگر یہ شرط پوری نہ ہوئی تو مذکورہ منفی صفات نمایان ہوجائیں گی۔ اسی لیے سورہ معارج کی آیہ ۱۹ تا ۲۳ میں ہے:

( إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا، إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا، وَإِذَا مَسَّهُ الْخَیْرُ مَنُوعًا، إِلاَّ الْمُصَلِّینَ، الَّذِینَ هُمْ عَلیٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ )

انسان بہت کم ظرف پیدا ہوا ہے ۔ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بے تاب ہو جاتا ہے اور جب اسے کوئی اچھائی میسر آتی ہے تو بخل کرتا ہے سوائے ان نمازگزاروں کے کہ جو ہمیشہ اس طرز عمل پر باقی رہتے ہیں ۔

اس سلسلے میں مزید تفصیل تفسیر نمونہ کی آٹھویں جلد میں سورہ یونس کی آیت ۱۲ کے ذیل میں بیان کی جاچکی ہے ۔

۲ ۔ جلد بازی۔ ایک مصیبت:

کسی چیز کو زیادہ پسند کرنا، سطحی اور محدود فکر،خواہشات کا انسان پر غلبہ اور کسی چیزکے بارے میں حد سے زیادہ اچھا گمان۔ یہ سب جلد بازی کے عوامل ہیں ۔ عام طور پر سطحی مطالعہ اور ابتدائی آگاہی کسی امر کی حقیقت اور اس کے نفع و نقصان کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہوتے لہٰذا عموماً جلد بازی ندامت، نقصان اور پشیمانی کا موجب بنتی ہے ۔ یہاں تک کہ زیر بحث آیات کے مطابق بعض اوقات عجلت کے باعث انسان غلط کاموں کے پیچھے ایسی تیزی سے اچھے کاموں کے پیچھے جاتا ہے ۔

پوری تاریخ انسانی میں انسان کو جن تلخ کامیوں ، شکستوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ان کا شمار ممکن نہیں اور خود ہم نے اپنی زندگی میں اس کے کئی نمونے دیکھے ہیں اور اس کے تلخ ثمرات چکھے ہیں ۔

”عجلت“کے مقابل ”تثبت“اور ”تانی“ یعنی توقف کرنا، تفکر و تامل کرنا اور کسی کام کے انجام دینے کے لیے اس کے تمام پہلووں کا جائز لینا ہے ۔

ایک حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

انما اٴهلک الناس العجلة ولو ان الناس تثبتوا لم یهلکو اٴحد

لوگوں کو ان کی جلد بازی نے مار ڈالا اور لوگ تامل اور سوچ بچار سے کام انجام دیتے تو کوئی شخص ہلاک نہ ہوتا ۔(۱)

ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

مع التثبت تکون السلامة، وع العجلة تکون الندامة

توقف اور تامل کرنے میں سلامتی ہے اور جلد بازی میں ندامت ہے ۔(۲)

نیز رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :ان الانة من الله والعجلة من الشیطان

سوچ سمجھ کر کام کرنا الله کی طرف سے ہے اور عجلت شیطان کی جانب سے ہے ۔(۳)

البتہ اسلامی روایات میں ”نیک کام جلدی کرنے کا باب“ بھی موجود ہے ۔ ان میں سے ایک حدیث رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے، آپ فرماتے ہیں :ان الله یحب من الخیر ما یعجل

الله کو پسند ہے کہ نیک کام میں جلدی کی جائے ۔(۴)

اس سلسلے میں بہت سی روایات ہیں ۔ یہاں بے جا تاخیر، تساہل اور آج کل کرنے کے مقابل عجلت کا حکم ہے کیونکہ یہ طرز عمل عام طور پر کاموں میں مشکلیں اور رکاوٹیں پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے ۔

اس امر کی شاہد وہ حدیث ہے جو اسی باب میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے،آپ فرماتے ہیں :

من هم بشیء من الخیر فلیعجله فان کل شیء فیه تاٴخیر فان للشیطان فیه نظرة

جو شخص کسی کار خیر کا ارادہ کرے اسے چاہئے کہ اس میں جلدی کرے کیونکہ جس کام میں تاخیر کرو گے شیطان اس میں حیلے بہانے پیدا کردے گا ۔(۵)

اس بنا پر کہنا چاہئے کہ کاموں میں سرعت اور مضبوط ارادہ تو ضرور ہونا چاہیئے لیکن جلد بازی نہیں ۔

دوسرے لفظوں میں مذموم ایسی جلد بازی ہے کہ نتیجے میں کام بغیر تمام پہلووں کا جائزہ لیے اور بغیر تحقیق و شناخت کے، صورت پذیر ہوجائے اور لایق تحسین ایسی سرعت ہے جو مصمم اردہ کر لینے کے بعد تاخیر سے بچنے کے لیے ہو۔

ردایات میں ہے کہ”نیک کام میں جلدی کرو“ یعنی پہلے یہ جان لو کہ یہ کام۔ کار خیر ہے اور جب اس کا اچھا ہونا ثابت ہو جائے تو پھر اس میں تساہل نہ بر تو۔

____________________

۱۔ و۲۔ و۳۔ سفینة البحار، ج۱، ص۱۳۹؟

۴۔ اصول کافی، ج۱، کتاب ایمان وکفر، باب ”تعجیل فعل الخیر “-

۵۔ اصول کافی، ج۱، کتاب ایمان وکفر، باب ”تعجیل فعل الخیر “-

۳ ۔ کائنات میں نظم و حسا ب کا انسانی زندگی پر اثر:

تمام تر نظام کائنات کسی حساب کتاب اور نظم و شمار پر قائم ہے ۔ نظام عالم کی کوئی چیز بغیر کسی حساب کتاب کے نہیں ہے ۔ فطری امر ہے کہ انسان کہ جواس سارے نظام کا ایک جزو ہے کسی حساب کتاب کے بغیر زندگی بستر نہیں کر سکتا ۔

اسی بناء پر قرآن کی مختلف آیات میں یہ فرمایا گیا ہے کہ چاند، سورج یا رات دن کا وجود انسان کے لیے نعمات الٰہی میں سے ہے کیونکہ یہ انسان زندگی میں نظم و حساب پیدا کرنے کا ایک عامل ہے ۔کیونکہ بے نظم زندگی فنا اور نابود کا سبب ہے ۔

ایک۔ ”ابتغاء فضل الله “۔ کہ جو عام طور پر مفید اور تعبیر کام کے معنی میں ہے ۔

دوسرا ۔سالوں کا حساب جاننا ۔

ان دونوں کا اکٹھا ذکرشاید اس بات کی دلیل ہے کہ”ابتغاء فضل الله “”نظم و حساب“ سے استفادہ کیے بغیر ممکن نہیں ہے ۔

گزشتہ زمانے میں شاید یہ بات اتنی واضح نہیں تھی لیکن آج کی دنیا نو اعداد و شمار کی دنیا ہے آج تو ہر اقتصادی، سماجی، سیاسی، سائنسی اور ثقافتی ادارے میں شماریات کا شعبہ ہوتا ہے ۔ ہر کار خانے میں شعبہ ہوتا ہے ۔دور حاضر میں اس قرآن اشارے کی گہرائی کی طرف توجہ کرنا چاہئے اور یہ جاننا چاہیئے کہ قرآن نہ صرف یہ کہ قرآن نہ صرف یہ کہ زمانہ گزرنے سے پرانا نہیں ہوتا بلکہ جوں جوں وقت گرزتا ہے اس کی تازگی زیادہ نکھر کر سامنے آتی ہے ۔(۱)

____________________

۱۔ اس سلسلے میں ہم نے سورہ یونس کی آیت ۵ کے ذیل میں بھی تفصیلی بات کی ہے، اس سلسلے میں تفسیر نمونہ کی آٹھویں جلد میں مذکورہ آیت کی تفسیر کی طرف رجوع کیجئے ۔

آیات ۱۳،۱۴،۱۵

۱۳( وَکُلَّ إِنسَانٍ اٴَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِی عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاهُ مَنشُورًا )

۱۴( اقْرَاٴْ کِتَابَکَ کَفیٰ بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا )

۱۵( مَنْ اهْتَدیٰ فَإِنَّمَا یَهْتَدِی لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اٴُخْریٰ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُولًا )

ترجمہ

۱۳ ۔اور ہر شخص کے اعمال کو ہم نے اس کے گلے کار ہار بنا دیا ہے اور روز قیامت اس کے لیے ہم ایک کتاب نکالیں گے کہ جسے وہ اپنے سامنے کھلاہوا پائے گا ۔

۱۴ ۔ (یہ اس کا نامہ اعمال ہی ہوگا ۔ ہم اس کہیں گے)اپنی کتاب پڑھ، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے ۔

۱۵ جو شخص بھی ہدایت پائے اس نے اپنے لیے ہدایت پائی اور جو شخص گمراہ ہو وہ اپنے ہی نقصان میں گمراہ ہوا (اس کا نقصان خود اسی کو پہنچے گا) اور کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اپنے کندھے پر نہیں اٹھائے گا ہم (لوگوں کو ان کی ذمہ دارایاں بتانے کے لیے) پیغمبر مبعوث کیے بغیر کسی (شخص یا قوم) کو عذاب نہیں دیتے ۔

چادر اہم اسلامی اصول

گزشتہ آیات میں معادو قیامت اور حساب و کتاب کے بارے میں گفتگو تھی۔اسی مناسب سے زیر بحث آیات میں انسان کے اعمال کے حساب و کتاب کے ابرے میں بات کی گئی۔ گفتگو قیامت میں اس معاملے کی کیفیت سے شروع ہوتی ہے ۔ ارساد ہوتا ہے: ہر شخص کے اعمال کو ہم نے اس کے گلے کا ہار بنادیا ہے

( وَکُلَّ إِنسَانٍ اٴَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِی عُنُقِهِ ) ۔

”طائر“پرندے کے معنی میں ہے لیکن عربوں کے درمیان معمول تھا کہ وہ پرندوں کے ذریعے نیک یابد فال نکالتے تھے اور ان کی حرکت کی کیفیت سے نتیجہ نکالتے تھے ۔یہاں اس چیز کی طرف اشارہ ہے ۔ مثلاً اگر ایک پرندہ ان کی دائیں طرف اڑرہا ہوتا تو ایک اسے نیک فال سمجھتے اور اگر بائیں طرف اڑرہا ہوتا تو اسے بد فال خیال کرتے ۔اسی لیے یہ لفظ زیادہ تر فال بد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے حالانکہ ”تفال“زیادہ تر نیک فال کے لیے بولا جاتا ہے ۔

آیات قرآن میں بھی بارہا” تطیر“ فال بد کے معنی میں آیا ہے ۔مثلاً:

( وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَطَّیَّرُوا بِمُوسیٰ وَمَنْ مَعَهُ )

فرعوں والوں کو کوئی پر یشانی لایق ہوتی تو وہ اسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست سمجھتے تھے ۔ (اعراف۔ ۱۳۱)

نیز سورہ نمل کی آیت ۴۷ میں ہے:( قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ وَبِمَنْ مَعَکَ )

قوم صالح کے مشرکین کہنے لگے: ہم تجھے اور تیرے ساتھیوں کو منحوس اور فال بد سمجھتے ہیں ۔

اسلامی احادیث میں ”تطیر“سے منع کیا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں ”توکل علی الله ‘ ‘کی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔

بہر حال زیر بحث آیت میں بھی”طائر“اس معنی کی طرف اشارہ ہے یا پھر یہ قسمت کے معنی میں ہے کہ جو نیک و بد فال کے قریب قریب ہے ۔

قرآن در حقیقت کہتا ہے کہ نیک و بد فال اور اچھی بری قسمت کوئی چیز نہیں ۔یہ تو تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں تمہاری گردن میں لٹکایا جائے گا ۔

”الزمناہ“(ہم نے لازم قرار دیا ہے اس کو) اور”فی عنقہ“(اس کی گردن میں )کی تعبیر اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے اعمال اور ان کے نتائج دنیا اور آخرت میں اس سے جدا نہیں ہوتے اور ہر حالت میں اسے ان کا مسئول اور ذمہ دار ہونا چاہئے ۔جو کچھ ہے عمل ہے باقی سب باتیں ہیں ۔بعض مفسرین نے لفظ ”طائر“کے انسانی اعمال پر اطلاق سے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ انسان کے اچھے برے اعمال گویا ایک پرندے کی مانند ہیں کہ جو اس کے وجود سے پرواز کرتا ہے ۔ اسی لیے ان پر ”طائر“کا اطلاق ہوا ہے ۔

زیر بحث آیت میں لفظ”طائر“اچھائی اور برائی سے انسان کے حصے کے معنی میں ہے یا دلیل اور رہنما کے معنی میں ہے یا نامہ اعمال کے معنی میں ہے یا برکت و نحوست کے معنی میں ہے ۔

ان میں سے بعض تفاسیر سے تو وہی مفہوم نکلتا ہے جس کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں جبکہ بعض تفاسیر آیت کے مفہوم سے بہت دور ہیں ۔

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے: روزِ قیامت ہم اس کے لیے کتاب نکالیں گے کہ جسے وہ اپنے سامنے کھلا ہوا پائے گا( وَنُخْرِجُ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاهُ مَنشُورًا ) ۔

واضح ہے کہ”کتاب“سے مراد انسان کے نامہ اعمال کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ وہی نامہ اعمال کہ جو اس دنیا میں بھی موجود ہے کہ جس میں اس کے اعمال ثبت ہوئے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ یہاں وہ نامہ اعمال پوشیدہ اور وہاں کھلا ہوا سامنے رکھا ہوگا ۔ ”نخرج“‘ (نکالیں گے) اور ”منشور“ (کھلا ہوا) کی تعبیر اسی معنی کی طرف اشارہ ہے کہ جو اس جہان میں مخفی ہے وہاں آشکار اور کھلاہوا ہوگا ۔

نامہ اعمال اور اس کی حقیقت کے بارے میں آئندہ صفحات میں ہم مزید گفتگو کریں گے ۔

تو اس وقت اس سے کہا جائے گا: اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے( اقْرَاٴْ کِتَابَک ) ۔ اپنا حساب کتاب کرنے کے لیے آج تو خود ہی کافی ہے( کَفیٰ بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا ) )

یعنی مسائل اس قدر واضح ہیں کہ جائے کلام نہیں ہے ۔جو شخص بھی اس نامہ اعمال کودیکھے گا خود فیصلہ کر سکے گا، چا ہے وہ خود مجرم ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ نامہ اعمال خود اسی کے اعمال یا اعمال کے آثار کا مجموعہ ہے لہٰذا کرئی ایسی چیز نہیں کہ جس کا انکار ہوسکے ۔

اگر میں اپنی ریکارڈ شدہ آواز سنوں یا کرئی اچھایا برا کام کرتے ہوئے کھینچی گئی اپنی تصویر دیکھوں تو کیا اسکا انکار کر سکتا ہوں ۔ نامہ اعمال کی کیفیت روز قیامت اس سے بھی زیادہ اضح اور باریک تفصیلات کے ساتھ ہوگی۔

اگلی آیت میں حساب اور جزاء کے بارے میں چار اصولی احکام بیان کیے گیے ہیں :

۱ ۔ جو شخص ہدایت پالے تو اس نے اپنے ہی فائدے میں ہدایت پائی ہے اور اس کا نتیجہ خود اسی کو حاصل ہوگا( مَنْ اهْتَدیٰ فَإِنَّمَا یَهْتَدِی لِنَفْسِهِ ) ۔

۲ ۔ اور جوشخص گمراہی کا راستہ اپنا لے تو وہ اپنے ہی نقصان میں گمراہ ہوا ہے اور اس کے برے نتائج خود اسی کے دامن گیر ہوں گے

( وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا ) ۔

ان دو احکام کی نظیر اسی سورت کی ساتویں آیت میں بھی گزرچگی ہے ۔

۳ ۔ کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ اپنے دوش پر نہیں اٹھائے گا اور کسی کو دوسرے کے جرم کی سزا نہیں دی جائے گی( وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وزَر اٴُخْری )

”وزر“کا معنی ہے”بھاری بوجھ“ یہ لفظ مسئولیت اور جوابد ہی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ روحانی اعتبار سے یہ بھی انسان کے کندھے پر ایک بھار بوجھ کی مانند ہی ہے”وزیر “کو بھی اسی لیے ”وزیر “کہتے ہیں کہ سر براہ مملکت یا عوام کی طرف سے اس کے کندھے پر ایک بھاری بوجھ ہوتا ہے ۔یہ ایک عمومی قانون ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ اپنے کندھے پر نہیں اٹھائے گا ۔

البتہ یہ قانون سورہ نحل کی آیت ۲۵ کے مفہوم کے منافی نہیں ہے کہ جس میں ہے کہ گمراہ کرنے والے افراد سے ان لوگوں کے بارے میں بھی جوابدہی ہوگی جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے کیونکہ دوسروں کو گمراہ کرنا بھی بذات خود گناہ ہے یا گمراہ کرنے والے مثل فاعل شمارہوں گے لہٰذا در حقیقت یہ ان کے اپنے گناہوں کا بوجھ ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہاں ”سبب“ کام انجام دینے والے کے حکم میں ہے ۔

متعدد روایات کے مطابق جو اچھی یا بری رسم کی بنیاد رکھے گا وہ جزااور سزا میں اس رسم کی پیروی کرنے والوں کا شریک ہے ۔ جو کچھ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے یہ روایات اس سے متضاد نہیں ہیں کیونکہ کسی سنت یا رسم کی بنیاد رکھنے والا در حقیقت عمل کے بنیادی اسباب میں سے ہے اور عمل میں شریک ہے ۔

۴ ۔آخر میں چو تھا حکم یوں بیان کیا گیا ہے: ہم کسی شخص یا قوم کو اس وقت تک سزا نہیں دیتے جی تک ان کے لیے کوئی پیغمبر مبعوث نہ کریں تا کہ وہ پوری طرح انہیں ا ن کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرکے ان پر حجت تمام کردے( وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُولًا ) ۔

مفسرین میں اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ یہاں عذاب سے مراد ہر قسم کا دنیاوی یا اخروی عذاب ہے یا خصوصیت سے”عذابِ استیصال“ ہے (یعنی طوفان نوح کی طرح کا ہولناک عذاب) ۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ آیت کا ظاہری مفہوم مطلق ہے اور اس میں ہر قسم کا عذاب شامل ہے ۔

نیز اس بارے میں بھی مفسرین میں اختلاف ہے کہ یہ حکم شرعی مسائل کہ جنہیں نقلی دلائل سے معلوم کیا جاتا ہے کے لیے مخصوص ہے یا اصولی و فرعی اور عقلی و نقلی تمام مسائل سے مربوط ہے ۔ البتہ اگر ہم آیت کے ظاہری مفہوم کو دیکھیں تو مطلق ہے ۔ لہٰذا کہنا چاہئے اصول و فروع دین سے مربوط تمام عقلی و نقلی احکام اس میں شامل ہے ۔

آیت کے ظاہری مفہوم کے لحاظ سے اس گفتگو کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مسائل بھی جن کے بارے میں عقل مستقلاً اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ رکھتی ہے(مثلاً عدل کا اچھا ہونا اور ظلم کا برا ہونا) الله تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے ان کے بارے میں بھی کسی کو اس وقت تک سزا نہیں دیتا جب تک خدا کے پیغمبر نہ آئیں اور حکم نقل کے ذریعے حکم عقل کی تائید نہ کریں ۔ (غور کیجئے گا) ۔

لیکن یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کیونکہ عقل جن امور کے بارے میں مستقل فیصلہ رکھتی ہے وہ بیان شرعی کے محتاج نہیں ہیں اور ایسے امور کے لیے حکم عقل اتمام حجت کے لیے کافی ہے لہٰذا ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم مستقلات عقلی کو اس آیت سے مستثنیٰ سمجھیں اور اگر ایسا نہ سمجھیں تو پھر عذاب کے اس جملے میں عذابِ استیصال کا معنی لینا ہوگا ۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ الله تعالیٰ اپنے لطف اور کرم کی وجہ سے ظالموں اور منحرفوں کواس وقت تک نابود نہیں کرے گا جب تک انہیں سعادت کی تمام راہیں بتانے والا پیغمبر ان میں مبعوث نہ کرے ۔وہ پیغمبر ان سے مستقلات عقلی کے بارے میں بھی شرعی حکم بیان کرے گا اور عقل و نقل دونوں حوالوں سے اتمام حجت کرے گا(غور کیحئے گا) ۔