تفسیر نمونہ جلد ۱۲

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 16504
ڈاؤنلوڈ: 2175


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16504 / ڈاؤنلوڈ: 2175
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 12

مؤلف:
اردو

آیات ۲۶،۲۷،۲۸،۲۹

۲۶( وَآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّهُ وَالْمِسْکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَلَاتُبَذِّرْ تَبْذِیرًا )

۲۷( إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّهِ کَفُورًا )

۲۸( وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمْ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّکَ تَرْجُوهَا فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَیْسُورًا )

۲۹( وَلَاتَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَةً إِلیٰ عُنُقِکَ وَلَاتَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا )

۳۰( إِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاءُ وَیَقْدِرُ إِنَّهُ کَانَ بِعِبَادِهِ خَبِیرًا بَصِیرًا )

ترجمہ

۲۶ ۔ اور نزدیکیوں کو ان کا حق دے اور(اسی طرح) مسکین اور مسافر کا اور ہرگز اسراف اور فضولی خرچی نہ کر۔

۲۷ ۔ کیونکہ اسراف کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان نے اپنے پروردگار(کی نعمتوں ) کا کفران کیا ۔

۲۸ ۔ اور اگر تو ان(حاجت مندوں ) سے اعتراض کرے اور تم اپنے پروردگار کی رحمت کے انتظار میں ہو(کہ وہ تیرے کام میں کشائش کرے اور تُو ان کی مدد کرے) تو ان سے تو نرم اور لطیف و کرم کے پیرائے میں بات کر۔

۲۹ ۔ کبھی بھی اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کا حلقہ نہ بنا(اور انفاق و بخشش کر ترک نہ کر) اور نہ ہی اسے بالکل کھول دے کہ(آخر کار) تو ملامت زدہ اور بے کار ہو کررہ جائے ۔

۳۰ ۔ تیرا پروردگار جسے چاہتا ہے اس کی روزی کشادہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کی روزی تنگ کردیتا ہے وہ اپنے بندوں کے بارے میں آگاہ و بینا ہے ۔

انفاق و بخشش میں اعتدال

ان آیات میں اسلام کے بنیادی احکام کا ایک اور حصہ بیان کیا گیا ہے ۔ ان میں قریبیوں ، حاجت مندوں اور مسکینوں کے حق کی ادائیگی کے بارے میں حکم ہے نیز انفاق میں فضولی خرچی سے روکا بھی گیا ہے

پہلے فرمایا گیاہے: قریبیوں اور نزدیکیوں کا حق انہیں دے( وَآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّهُ ) ۔ اسی طرح حاجت مندوں اور راہ میں رہ جانے والوں کا حق انہیں دے( وَالْمِسْکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ ) ۔ لیکن اس طرح سے کہ ہرگز فضولی خرچی نہ ہو( وَلَاتُبَذِّرْ تَبْذِیرًا ) ۔

”تبذیر“ اصل میں ”بذر“ کے مادہ سے بیج ڈالنے اور دانہ چھڑکنے کے معنی میں ہے لیکن یہ لفظ ایسے مواقع سے مخصوص ہے جہاں انسان اپنے اموال کو غیر منطقی اور غلط کام میں خرچ کرے ۔ فارسی میں اس کا متبادل ہے”ریخت وپاش “۔دوسرے لفظوں میں ”تبذیر“ نامناسب مقام پر مال خرچ کرنے کو کہتے ہیں چاہے تھوڑا ساہی کیوں نہ ہو۔ بر محل مقام پر خرچ کرنے کو ”تبذیر“ نہیں کہتے چاہے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ تفسیر عیاشی میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ص) نے اس آیت کے بارے میں سوال کرنے والے کے جواب میں فرمایا:

من اٴنفق شیئاً فی غیر طاعة الله فهو مبذّر ومن اٴنفق فی سبیل الله فهو مقتصد -

جو شخص حکم الٰہی اطاعت کے خلاف کہیں خرچ کرے وہ”مبذر“(فضولی خرچ) ہے اور جو شخص راہ خدا میں خرچ کرے وہ مقتصد (میانہ رو) ہے(۱) ۔

آپ ہی سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ(ص) نے حاضرین کے لیے ترو تازہ کھجوریں لانے کا حکم دیا ۔

بعض لوگ کھجور کھاتے اور ان کی کٹھلیاں دور پھینک دیتے ۔آپ(ص) نے فرمایا: ایسا نہ کرو”تبزیر“ ہے اور خدا برائی کو پسند نہیں کرتا ۔(۲)

اسراف اور تبذیر کا معاملے اتنا باریک ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ(ص) وسلم ایک راستہ سے گزر رہے تھے ۔ آپ کے ایک صحابی سعد وضو کر رہے تھے اور پانی زیاد ہ ڈال رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا:

اسراف کیوں کرتے ہو؟

سعد نے عرض کیا:

کیا وضو کے پانی میں بھی اسراف ہے؟

آپ نے فرمایا:

نعم وان کنت علی نھر جار-

ہاں اگر چہ تم جاری دریا کے کنارے ہی کیوں نہ ہو۔(۳)

اس سلسلے میں کہ ”ذی القربیٰ“ سے آنحضرت کے سب رشتہ دار مراد ہیں یا مخصوص رشتہ دار(کیونکہ آیت میں مخاطب آنحضرت ہی ہیں )، اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے ۔

متعدد احادیث کہ جن کے بارے میں ”چند اہم نکات“ کے زیر عنوان بحث آئے گی، میں ہم پڑھیں گے کہ یہ آیت رسول الله کے”ذوی القربیٰ“ سے تفسیر ہوگئی ہے ۔ یہاں تک کہ بعض احادیث میں ہے کہ یہ آیت آنحضرت کی طرف سے حضرت فاطمہ الزہرا اسلام الله علیہا کو فدک کا علاقہ بخشے کے بارے میں ہے لیکن جیسا کہ ہم نے بار ہا کہا ہے ایسی تفسیر آیات کے وسیع مفہوم کو محدود نہیں کرتیں ۔ در اصل ان میں روشن اور واضح مصداق کا ذکر ہوتا ہے ۔

”واٰت“میں رسول الله سے خطاب کیا گیا ہے لیکن یہ بات اس امر کی دلیل نہیں کہ حکم آنحضرت ہی سے مخصوص ہے ۔کیونکہ باقی احکام جوان آیات میں آئے ہیں مثلا فضولی خرچی کی ممانعت، سائل اور مسکین سے نرمی یا بخل کی ممانعت سب رسول اکرم سے خطاب کی صورت میں ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ احکام آپ سے مخصوص نہیں ہیں اور ان کا مفہوم طرح عام ہے ۔

اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرنے کے حکم کے بعد فضولی خرچی کی ممانت اس طرف اشارہ ہے کہ کہیں انسان قرابت کے جذبات یا مسکین اور مسافر سے کسی جذباتی وابستگی کے زیر اثر نہ آ جائے اور ان کے استحقاق سے زیادہ خرچ نہ کرے اور سرف کی راہ اختیار نہ کرے کیونکہ اسراف اور فضولی خرچی ہر مقام پر مذموم ہے ۔

بعد والی آیت”تبذیر“ کی ممانعت پر استدال اور تاکید کے طور پر ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: اسراف کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں( إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ ) ۔

اور شیطان نے پروردگار کی نعمتوں کا کیسے کفران کیا تو اس کا جواب واضح ہے کیونکہ الله تعالیٰ نے اسے بہت زیادہ قوت و استعداد دے رکھی تھی۔ اس نے ان سب قوتوں کوغلط مقام پر صرف کیا یعنی لوگوں کوگمراہ کیا ۔

رہا یہ کہ اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی کیسے ہیں ؟ تو اس کو وجہ یہ ہے کہ وہ بھی خدا داد نعمتوں کا کفران کرتے ہیں اور جہاں انہیں استعمال کرنا چاہئے وہاں کی بجائے انہیں غلط مقام پر خرچ کرتے ہیں ۔

”اخوان“(بھائی) یا اس بناء پر ہے کہ ان کے اعمال شیطانوں سے اس طرح ہم آہنگ ہیں جیسے بھائیوں کے کہ جو ایک جیسے عمل کرتے ہیں اور یا اس بناء پر کہ وہ دوزخ میں شیطانوں کے ہم نشین ہوں گے جیسا کہ سورہ زخرف آیہ ۳۹ میں شیطان کا گناہوں سے آلودہ انسانوں سے بہت نزدیکی تعلق بیان کرنے کے بعدفرمایا گیا ہے:

( وَلَنْ یَنفَعَکُمْ الْیَوْمَ إِذْ ظَلَمْتُمْ اٴَنَّکُمْ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِکُونَ )

آج شیطان سے اظہار برائت اور علیحد گی کا تقاضا تمہارے لیے سود مند نہیں ہے کیونکہ تم سب عذاب میں مشترک ہو۔

رہا یہ کہ”شیاطین“ یہاں جمع کی صورت میں ہے ۔ ہو سکتا ہے یہ اس چیز کی طرف اشارہ ہو جو سورہ ز خرف کی آیات سے معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص یاد خدا سے منہ پھیر لے ایک شیطان کو اس کا ہمنشین قرار دیا جاتا ہے جو نہ صرف اس جہاں میں اس کے ہمراہ ہوگا بلکہ اس جہان میں بھی ساتھ ہوگا ۔ قرآن کے الفاظ میں :

( وَزُخْرُفًا وَإِنْ کُلُّ ذٰلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقِینَ، وَمَنْ یَعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمَانِ نُقَیِّضْ لَهُ شَیْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِینٌ، حَتَّی إِذَا جَائَنَا قَالَ یَالَیْتَ بَیْنِی وَبَیْنَکَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِینُ ) (زخرف/ ۳۶ و ۳۸)

بعض اوقات کوئی مسکین کسی کے پاس آتا ہے لیکن اس کی ضرورت کے مطابق اس کی مدد کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا ۔ اس سلسلے میں اگلی آیت بتاتی ہے کہ ضرورت مندوں سے کیسا سلوک کرنا چائیے ۔

ارشاد ہوتا ہے:”اگر تو ان ضرورت مندوں سے(وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اور) رحمت کے انتظار میں ہونے کے باعث رُخ موڑے تو ایسا تحقیر اور بے حرمتی سے نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان سے نرم اور سنجیدہ گفتگو سے بڑی محبت سے پیش آنا چاہئے ۔“ یہاں تک کہ اگر ہوسکے تو ان سے آئندہ کا وعدہ کرلے تا کہ وہ مایوس نہ ہوں( وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمْ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّکَ تَرْجُوهَا فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَیْسُورًا ) ۔

”میسور“ ”یسر“ کے مادہ سے راحت اور آسان کے معنی میں ہے ۔ یہاں یہ لفظ وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ اس میں ہر قسم کی اچھی گفتگو اور محبت آمیز برتاؤ کا مفہوم شامل ہے ۔ لہٰذا اگر بعض نے اس کی تفسیر کسی خاص عبارت سے کی ہے آئندہ کا وعدہ کرنا مراد لیا ہے تو یہ مصداق کی حیثیت رکھتا ہے ۔

روایات میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد جب کوئی شخص رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے کچھ مانگتا اور آپ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہوہوتا تو فرماتے:یرزقنا الله وایاکم من فضله -

میں امید رکھتا ہوں کہ خدا ہمیں اپنے فضل سے رزق دے گا ۔(۴)

ہمارے ہاں قدیمی طریقہ ہے کہ کوئی سائل گھر کے دروازے پر آئے اور اسے دینے کو کچھ نہ ہوتا تو کہتے ہیں : معاف کرو۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ تیرے آنے سے ہمارے اوپر ایک حق عائد ہو گیا ہے اور تو اخلاقی طور پر ہم سے کچھ طلب کر رہا ہے ۔ ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنا یہ اخلاقی حق ہمیں بخش دے کیونکہ ہم تمہارے حق کا تقاضا پورا نہیں کر سکتے ۔

اعتدال چونکہ ہر چیز میں ضروری ہے یہاں تک کہ انفاق میں بھی، لہٰذا اگلی آیت میں اس بارے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اپنے ہاتھ کا گردن کے گرد حلقہ نہ بنا( وَلَاتَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَةً إِلیٰ عُنُقِکَ ) ۔

یہ تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دینے والا ہاتھ تیرے پاس ہونا چاہئے اسے بخیلوں کے ہاتھ کی طرح گردن کی زنجیر نہیں بن جانی چاہیے کہ انسان مدد کرنے کے قابل نہ رہے ۔

دوسری طرف یہ بھی ہے کہ”اپنا ہاتھ اتنا بھی کھلانا رکھ اور بخشش اتنی بھی بے حساب نہ کر کہ تو کام کاج سے رہ جائے اور کبھی اِس اور کبھی اُس کی ملامت سنتار ہے اور لوگوں سے جدا ہو جائے“( وَلَاتَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا ) ۔

جیسے ہاتھ کا گردن کے لیے حلقہ زنجیربن جانا بخل کے لیے کنایہ ہے اسی طرح ہاتھ کا بالکل کھلا ہونا بے حساب بخشش کرکے بیٹھ رہنے اور بیکار ہوجانے کی طرف اشارہ ہے لفظ”تقعد“”قعود“ کے مادہ سے بیٹھے کے معنی میں ہے ۔

لفظ”ملوم“ اس طرف اشارہ ہے کہ بعض اوقات زیادہ انفاق اور بخشش نہ صرف انسان کی فعالیت ختم کردیتی ہے اوراسے لوگوں کی ملامت کا بہی شکار کردنتی ہے ۔

”محسور“ ”حسر“ (بروزن ”قصر“ )کے مادہ سے در اصل لباس اتار کر کچھ حصہ برہنہ کرنے معنی میں ۔اسی بناء پر ”حاسر“اس جنگجو کو کہتے ہیں جس کے بدن پر زِرہ اور سر پر خود نہ ہو ۔نیز جانور جو زیادہ چلنے کی وجہ سے تھک کررہ گئے ہو ں انہیں بھی ”حسیر“یا ”حاسر“ کہا جاتا ہے ۔گویا ان کی جسمانی طاقت کا لباس اتر جاتا ہے اور وہ برہنہ ہو جاتے میں ۔بعد ازاں اس لفظ مفہوم میں وسعت پیدا ہو گئی اور ہر اس شخص کو جو تھکا ماندہ ہو اور مقصد تک پہنچنے سے عاجز ہو ”حسیر“یا ”حاسر“”محسور“یا ”حسیر“یا ”حاسر“کہا جانے لگا ۔

لفظ ”حسرت“(بمعنی غم واندازہ )اسی مادہ سے لیاگیا ہے کیونکہ یہ حالت عام طور پر انسان پر ایسے عالم میں طاری ہوتی ہے جب وہ مشکلات کو ختم کر نے کی سکت نہ رکھتا ہو گویا اس کی طاقت کا جامہ اتر گیا ہو ۔

انفاق میں بھی انسان حد سے گزر جائے اور اس میں اپنی تمام قوت ہاتھ سے دے بیٹھے تو فطری امر ہے کہ وہ اپنی کار کردگی اور رکھنے اور زندگی کا سازدسامان مہیا کرنے سے رہ جاتاہے گویا اس کی برطرف ہوجاتی ہیں اور وہ غم والم میں ڈوب جاتاہے اور لوگوں سے بھی اس کا میل ملاپ منقطع ہوجاتا ہے ۔

بعض روایات جو اس آیت کی شان نزول میں منقول ہیں ۔ان میں یہ مفہوم وضاحت سے نظر آیا ہے ۔ایک روایات میں ہے :

رسول ا لله ایک گھر میں موجود تھے ۔اس گھر کے دروازہ ے پر ایک سائل آیا اسے دینے کے لیے کوئی چیز مہیانہ تھی ۔اس نے قمیص مانگی تھی۔ رسول الله نے اپنی قمیص اتار کر اسے دے دی ۔اس وجہ سے آپ اس روز مسجد میں نماز کے لیے نہ جا سکے ۔کفار نے اس مسئلے کو اچھا لا طرح طرح کی باتیں کرنے لگے ۔انہوں نے کہا ،محمّد(ص)سو گیاہے یالہو ولعب میں مشغول ہے اور اس نے اپنی نماز بھلادی ہے ۔

اس طرح یہ کام دشمن کی علامت وشماتت کا سبب بھی بنا اور دوستوں کی جدائی کا بھی ۔یعنی ”ملوم ومحسور “کا مصداق ہوا ۔اس پرمند رجہ بالا آیت نازل ہوتی اور رسول الله سے کہا گیا کہ اس کام کا اعادہ نہ ہو ۔

یہ مسئلہ ظاہر اًجس مو قع پر مسئلہ ایثار سے متضادہے، اس کے بارے میں ہم ”چند اہم نکات“کے زیر عنوان بحث کریں گے ۔

بعض نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ بعضی اوقات رسول الله بیت المال میں جو کچھ ہوتا کسی ضرورت مند کو دے دیتے ۔ بعد میں کوئی حاجت مند آتا تو پھر آپ کے پاس کچھ نہ ہوتا اور آپ کو شرمندگی محسوس ہوتی۔ ایسے میں بسا اوقات ضرورتمند شخص ملامت کرنے لگتا اور پیغمبر اکرم کے پاک دل کو آزردہ کرتا لہٰذا حکم دیا گیا کہ جو کچھ بیت المال میں ہو سارے کا سارا نہ دیا جائے اور نہ ہی سارا رکھ چھوڑا جائے تا کہ اس قسم کی مشکلات پیش نہ آئیں ۔

یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اصلاً بعض لوگ محروم، نیاز اور مسکین کیوں ہیں کہ جن کی وجہ سے ان کے لیے خرچ کرنا ضروری ہے ۔ کیا بہتر نہ تھا کہ خدا تعالیٰ خود انہیں جس چیز کی ضرورت ہے دے ویتا تا کہ وہ اس کے محتاج نہ ہوتے کہ ان پر خرچ کیا جائے ۔

زیر نظر آخری آیت گویا اس سوال کا جواب ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: خدا اپنی روزی جس کے لیے چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے کیونکہ وہ اپنے بندوں کے بارے میں آگاہ وبینا ہے( إِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاءُ وَیَقْدِرُ إِنَّهُ کَانَ بِعِبَادِهِ خَبِیرًا بَصِیرًا )

یہ تمھارے لئے ایک آزمائش اور امتحان ہے ورنہ اس کے لئے ہر چیز ممکن ہے، وہاس طرح سے تمھاری تربیت کرنا چاہتا ہے ۔ وہ تم میں سخاوت اور فداکاری کے جذبے پروان چڑھانا چاہتا ہے وہ تمہارے اندر خود غرضی کا خاتمہ چاہتا ہے ۔

علاوہ ازیں بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ اگر وہ بالکل بے نیاز ہوجائیں تو سرکشی کی راہ اختیار کرلیں ۔ان کے لیے مصلحت اسی میں ہے کہ ان کو محدود طور پر روزی ملے کہ جس سے وہ فقر و فاقہ میں بھی مبتلا نہ ہوں اور طغیان و سرکشی کی راہ بھی اختیار نہ کریں ۔

ان تمام امور سے قطع نظر انسانوں میں (معلول، معذور اور مجبور افراد کے علاوہ) رزق کی تنگی اور وسعت ان کی سعی و کوشش سے وابستہ ہے اور یہ جو فرمایا گیا ہے کہ خدا جس کے لیے چاہتا ہے روزی کشادہ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، اس کا یہ چاہنا اس کی حکمت کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ جس شخص کی کوشش زیادہ ہے اس کا حصہ زیادہ ہو اور جس کی کوشش کم ہے اس کا حصہ کم ہو۔بعض مفسرین نے اس آیت کے گزشتہ آیات سے متعلق کے بارے میں ایک اور احتمال قبول کیا ہے وہ یہ کہ زیر نظر آخری آیت انفاق میں افراط و تفریط سے روکنے کے حکم کی دلیل کے طور پر آئی ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ یہاں تک کہ خدا اپنی اس قدرت و طاقت کے با وجود عطائے رزق میں اعتدال رکھتا ہے نہ اس طرح سے بخشا ہے کہ برائی اور سرکشی بر پا ہوجائے اور نہ اس طرح تنگ کرتا ہے کہ لوگ زحمت و مصیبت میں پڑ جائیں یہ سب کچھ بندوں کے مفاد کے پیش نظر ہے لہٰذا حق یہی ہے کہ تم بھی خدائی اخلاق اپنا کر اعتدال کی راہ اختیار کرو اور افراط اور تفریط سے پرہیز کرو۔(۵)

____________________

۱۔ تفسیر صافی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں -

۲۔ تفسیر صافی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں -۳۔ تفسیر صافی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں -

۴۔ تفسیر مجمع البیان ، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں -۵۔ المیزان، ج۱۳، ص۸۸-

چند اہم نکات

۱ ۔ ”ذی القربیٰ“ سے یہاں کون لوگ مراد ہیں ؟

”ذی القربیٰ “ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں وابستہ اور نزدیکی افراد کے معنی میں ہے ۔ مفسرین نے اس بارے میں بحث کی ہے کہ یہ لفظ یہاں مخصوص افراد کے لیے ہے یا عام ہے ۔

بعض کا نظریہ یہ ہے کہ تمام مومنین و مسلمین مخاطب ہیں اور انہیں اپنے زشتہ داروں کا حق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ بعض دیگر کہتے ہیں کہ مخاطب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ آلہ وسلم ہیں اور آپ سے کہا گیا ہے کہ اپنے نزدیکیوں کو ان کا حق ادا کریں ۔ مثلا خمس غنائم اور خمس سے باقی متعلقہ چیزوں میں سے اور کلی طور پر بیت المال میں جو ان کے حقوق ہیں وہ ادا کریں ۔

متعدد روایات جو شیعہ اور سنی طرق سے نقل ہوئی ہیں ان کے مطابق جب یہ آیت نارل ہوئی تو رسول اکرم صلی الله علیہ آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ سلام الله علیہا کو بلایا اور فدک کی سرزمین آ پکو بخشش دی ۔(۱)

جب اس علاقے کے یہودیوں نے جنگ کیے بغیر ہتھیار ڈال دیئے اور انھوں نے اپنے تئیں آنحضرت کی خدمت میں پیش کردیا تو معتبر اسناد اور تواریخ کے مطابق آنحضرت نے یہ زمین حضرت فاطمہ زہر(ص) کو بخش دی لیکن آنحضرت کی رحلت کے بعد مخالفین نے اسے غصب کرلیا، سالہا سال تک یہ علاقہ ایک سیاسی حربے کے طور پر ان کے ہاتھ میں رہا لیکن بعض خلفاء نے اسے اولادِ فاطمہ(ص) کو واپس کردیا ۔

(بعض تواریخ کے مطابق فدک کا علاقہ تقریباً دس مرتبہ چھینا گیا اور واپس کیا گیا) ۔

اہل سنت کی منابع سے ایک حدیث مشہور صحابی رسول ابو سعد خددی سے منقول ہے :

لما نزل قوله تعالیٰ: ”واٰتِ ذا القربی حقه“ اعطی رسول الله فاطمة فدک -

جب یہ آیت نازل ہوئی :”واٰتِ ذا القربی حقہ“ تو رسو ل اللہنے فدک کا علاقہ فاطمہ(ص) کودے دیا ۔(۲)

بعض روایات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہاں تک کہ حضرت سجاد علیہ السلام نے اسیری کے دوران شام میں اسی آیت سے شامیوں کے سامنے استدلال کر تے ہوئے فرمایا :

آیت ”اٰتِ ذا القربی حقہ“سے مراد ہم میں کہ جن کے بارے میں خدا نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان کا حق انہیں اداکر ہم (جبکہ شامیو!تم نے ہمارے سب حقوق ضائع کردیئے ہیں ) ۔(۳)

لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود ،جیساکہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ دونوں تفاسیر ایک دوسرے کے مخالفت نہیں ہیں ۔

سب لوگوں کا فرض ہے کہ ذی القربیٰ کا حق ادا کریں ۔رسول اللہ چونکہ اسلامی معاشرت کے رہبر ہیں لہٰذا ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس عظیم خدائی فریضہ پر عمل کریں ۔

در حقیقت اہل بیت رسول ”ذی القربی ٰ “ کے واضح ترین مصداق ہیں اور رسول اللہ خود اس آیت کے روشن ترین مخاطب ہیں ۔لہٰذا پیغمبر اکرم نے ذی القربیٰ کا حق کہ جو خمس ،فدک یا اسی طرح دوسری چیزوں کی صورت میں تھا انہیں دے دیا کیونکہ زکوہٰ کہ جو درحقیقت عمومی اموال میں شمار ہو تی ہے اس کا لینا ان کے لیے ممنوع تھا ۔

۲ ۔اسراف کے بُرے اثرات :

اس میں شک نہیں کہ کرہ ارض میں موجود نعمتیں اس میں رہنے والوں کے لیے کافی ووافی ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں بے ہودہ اور فضول استعمال نہ کیا جائے بلکہ صحیح اور معقول طریقے سے ہر قسم کی افراط وتفریط سے بچ کران سے استفادہ کیا جائے ورنہ یہ نعمات اس قدر غیر محدود بھی نہیں کہ ان کے استعمال کے مہلک نتائج نہ نکلیں ۔

افسوس کا مقام ہے کہ اکثر اوقات زمین کے ایک علاقے میں اسراف اور فضول خرچی کے باعث دوسرا علاقہ محرومیت کا شکار ہوجاتا ہے یاایک زمانے کے لوگوں کا اسراف آیندہ نسلوں محرومیت کا باعث بن جاتاہے ۔

جس زمانے میں آج کے دَور کی طرح لوگوں کے پاس آبادی کے اعداد وشمار مو جود نہ تھے ، اسلام نے خبر دار کیا تھا کہ خدائی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اسراف اور فضول چرخی نہ کرو۔

قران حکیم نے بہت سی آیات میں مسرفین کی بڑی شدت سے مذمت کی ہے ۔

ایک جگہ فرمایا ہے:( وَلَاتُسْرِفُوا إِنَّهُ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ )

اسراف نہ کرو کہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ (انعام ۔ ۱۴۱ ،اعراف۔ ۳۱) ۔

ایک اور مقام پر فرمایاہے:( وَاَنَّ الْمُسْرَفِینَ هُمْ اٴَصْحَابُ النَّارِ )

اور یقینا مسرفین اصحاب دوزخ ہیں ۔ (مومن ۔ ۴۳) ۔

ایک اور مقام پر مسرفین کی پیروی سے روکتے ہوئے فرمایا ہے ۔( وَلَاتُطِیعُوا اٴَمْرَ الْمُسْرِفِینَ )

اور مسرفین کے حکم کی پیروی کی اطاعت نہ کرو ۔ (شوراء۔ ۱۵۱) ۔

ایک ا ور جگہ فرماتاہے :( مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِینَ )

مفسرین پر تیرے پروردگا ر کی طرف سے نشان لگا دیئے گئے ہیں ۔ (ذارعات ۔ ۳۴)

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے :( وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاٴَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِینَ )

شک نہیں کہ فرعون روئے زمین پر بڑا بن بیٹاٹھاتھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ وہ مسرفین میں سے تھا ۔ (یونس۔ ۸۳)

ایک اور جگہ فرماتاہے :ا( ِٕنَّ الله لَایَهْدِی مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ )

یقینا اللہ جھو ٹے مسرف کہ ہدایت نہیں کرتا ۔ (مومن ۔ ۲۸)

اور آخر کا ر ان کا انجام ہلاکت ونابودی بتا یا گیا ہے :( وَاٴَهْلَکْنَا الْمُسْرِفِینَ )

اور ہم نے مفسرین کو ہلاکت کر ڈالا ۔ (انبیاء ۔ ۲۸)

نیز جیسا کہ ہم نے لکھا ہے کہ زیر بحث آیت میں مسرفین کو شیطان کا بھائی اور ہمنشین شمار کیاگیا ہے ۔

”اسراف“اپنے وسیع معنی کہ لحاظ سے ہر قسم کے کام میں تجاوز کا مفہوم رکھتا ہے لیکن عام طو ر پر اخراجات میں حد سے تجاوز کے لیے بولا جاتا ہے ۔

خود آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اسراف کنجوسی اور تنگی کا متضاد ہے ۔

قرآن کہتا ہے :( وَالَّذِینَ إِذَا اٴَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا )

وہ لوگ کہ خرج کرتے وقت اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ میانہ روی سے کام لیتے ہیں ۔ (فرقان ۔ ۴۷)

۳ ۔”اسراف “اور ”تبذیر“میں فرق :

اس سلسلہ میں مفسّرین کی طرف سے کوئی واضح بحث نظر سے نہیں گزری لیکن ان دونوں الفاظ کے بنیادی معانی پر نظر کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ جس و قت یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلے پر ہوں تو اسراف حد اعتدال سے نکل جانے کے معنی میں ہے بغیر اس کے کہ ظاہراً کسی چیز کو ضائع کیا ہو۔مثلاًیہ کہ ہم ایسا گراں قیمت لباس پہنتے ہیں کے جو ہماری ضرورت کے لباس سے سوگنا زیادہ قیمت کا ہے یا اپنی ایسی گراں قیمت غذا تیار کرتے ہیں کہ جتنی قیمت سے بہت سے لوگون کو عزت وآبرو سے کھانا کھلایا جاسکتا ہے ۔ایسے موقع پر ہم حد سے تجاوز کر گئے ہیں لیکن ظاہراًکوئی چیز ختم اور ضائع نہیں ہوئی۔

جبکہ ”تنذیر “اس طرح سے خرچ کرنے کو کہتے ہیں کہ جو اتلاف اور ضیاع کی حد تک پہنچ جائے مثلاًدو مہمانو ں کے لیے دس افراد کا کھا نا پکالیں جیساکہ بعض نادان کے تے ہیں اور پھر اس پر فخر کے تے ہیں اور بچے ہوئے کھا نے کو کُوڑ ے کرکٹ میں پھینک کر ضا ئع کرتے ہیں ۔

حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :

الا اٴن اٴعطاء المال فی غیر حقه تبذیر واسراف وهو یرفع صاحبه فی الدنیا ویضعه فی الآخرة ویکرمه فی الناس ویهینه عند الله

خبر دار !مال کو اس کے مقام استحقاق کے علاوہ خرچ کرنا تبدیر واسراف ہے ۔ ہوسکتا ہے یہ کام انسان کو دنیا میں بلند مرتبہ کردے لیکن آخرت میں وہ یقینا پست وحقیر ہوگا ۔ہو سکتا ہے عام لوگوں کی نظر میں اسے عزت واکرام حاصل ہو جائے مگر بارگاہ الٰہی میں یہ کام انسان کی تنزلی اور سقوط کا سبب ہے ۔

زیر بحث آیات کی تشریح میں ہم نے پڑھا ہے کہ احکام اسلامی میں اسراف اور تبذیر کی اس قدر ممانعت کی گئی ہے کہ وضوکے لیے زیادہ پانی ڈالنے سے بھی منع کیا گیا ہے اگرچہ وضو کرنے والا لب دریا ہی کیوں نہ بیٹھا ہو ۔اسی طرح امام (ص)نے خر مے کی گٹھلیاں تک دُور پھینکنے سے منع کیاہے ۔

آج کی دنیا میں بعض مواد کی کمی کے احساس نے اس امر کی طرف اتنی شدت سے توجہ دلائی ہے کہ اب ہر چیزسے استفاوہ کیا جارہا ہے ۔یہاں تک کہ کو ڑاکرکٹ سے کھا دتیار کی جا رہی ہے اور پھوک سے اشیائے ضرورت تیار کی جارہی ہیں ۔استعمال شدہ گندے اور بچے ہوئے پانی سے زراعت کے لیے استفادہ کیا جارہا ہے کیو نکہ آج لوگ محسوس کرتے ہیں کہ عالم طبیعی میں موجود مواد غیر محدود نہیں ہے کہ جس کے باعث اس امر سے آسانی سے صرف نظر کرلیا جائے بلکہ لوگ سمجھتے ہیں ہر چیز سے دو ہر ا استفادہ کرناچاہیے ۔

۴ ۔کیا میانہ روی ایثار کے منا فی ہے :

زیر بحث آیات کہ جو انفاق میں اعتدال ملحوظ رکھنے کا حکم کر نے والوں کی تعریف اور توصیف اور مدح وثنا کی گئی ہے یہاں تک کہ انتہائی مشکل کا حالات میں بھی اپنی ذات کو فراموش کر کے دوسرں کے لیے ایثار کر نے کی تشویق کی گئی ہے ۔لہٰذا یہ دونوں با تیں آپس میں کس طرح ہم آہنگ ہوسکتی ہیں ۔

زیر بحث آیات کی شان نزول پرغور و خوص کرنے سے اور اسی طرح دیگر قرائن کو سامنے رکھنے سے مسئلہ واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ اعتدال ملحوظ رکھنے کا حکم وہاں ہے جہاں زیادہ بخشش انسان کی اپنی بے سروسامانی کا سبب بن جائے اور اصطلاح کے مطابق وہ ”ملوم و محسور “ہو جائے ۔یا ایثار اس کی اولاد کے لیے نا راحتی، پریشانی دباؤ اور تنگی کابا عث ہو جائے اور اس کے اپنے گھر کا نظام خطرے میں پر جائے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو یقینا ایسے میں ایثار بہترین راہ ہے ۔

ا س سے قطع نظر اعتدال ملحوظ رکھنے کا حکم عمومی ہے جبکہ ایثار ایک خواص حکم جو معین مواقع سے مربوط ہے لہٰذا یہ دونوں حکم ایک دوسرے سے متضاد نہیں ہیں ۔

____________________

۱۔ فدک خیبر کے پاس اور مدینہ سے تقریباً ۱۴۰ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک آباد اور زرخیز زمین ہے، خیبر کے بعد حجاز کے یہودیوں کا یہ واحد سہارا شمار ہوتی تھی۔ (کتاب ”مراصد الاطلاع“ کے مادہ ”مادہ فدک“ کی طرف رجوع کریں ) ۔

۲۔ بزاز ابو بعلی، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے یہ حدیث ابو سعید سے نقل کی ہے (کتاب میزان الاعتدال، ج۲، ص۲۸۸ اور کنز العمال، ج۲، ص۱۵۸ کی طرف رجوع کریں )مجمع البیان میں اور اسی طرح درمنثور میں زیرِ بحث آیت کے ذیل میں شیعہ اور سنن طرق کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے ۔

۳۔ نور الثقلین، ج۳، ص۲۵۵-