تفسیر نمونہ جلد ۱۲

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 16469
ڈاؤنلوڈ: 2153


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16469 / ڈاؤنلوڈ: 2153
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 12

مؤلف:
اردو

آیات ۳۱،۳۲،۳۳،۳۴،۳۵

۳۱( وَلَاتَقْتُلُوا اٴَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِیَّاکُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیرًا )

۳۲( وَلَاتَقْرَبُوا الزِّنَی إِنَّهُ کَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِیلًا )

۳۳( وَلَاتَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ الله إِلاَّ بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَانًا فَلَایُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ إِنَّهُ کَانَ مَنصُورًا )

۳۴( وَلَاتَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلاَّ بِالَّتِی هِیَ اٴَحْسَنُ حَتَّی یَبْلُغَ اٴَشُدَّهُ وَاٴَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ کَانَ مَسْئُولًا )

۳۵( وَاٴَوْفُوا الْکَیْلَ إِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَاٴَحْسَنُ تَاٴْوِیلًا )

ترجمہ

۳۱ ۔ اور اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خون سے قتل نہ کرو ۔ہم انہیں اور تمہیں رزق دیتے ہیں انہیں قتل کر نا ایک بہت بڑا گناہ ہے ۔

۳۲ ۔ اور زنا کے قریب نہ جاؤ کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔

۳۳ ۔ اور جس شخص کا خون خدا نے حرام قرار دیا ہے اسے سوائے حق کے قتل نہ کرو اور جو شخص مظلوم ما را گیا ہے اس کے ولی کو ہم نے (حق قصاص )پر تسلط دیا ہے لیکن وہ قتل میں اسراف نہ کرے کیونکہ وہ مدد دیا گیا ہے ۔

۳۴ ۔اور سوائے احسن طریقے کے مالِ یتیم کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ حدّ بلوغ کو پہنچ جائے اور اپنے عہد کو ایفا کرو کیونکہ عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔

۳۵ ۔اور جب تم ناپ تول کرو تو پیمانہ کا حق ادا کرو اور ترازو سے وزن صحیح کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھا ہے ۔

چھ اہم احکام

گزشتہ آیات میں احکام اسلامی کے کچھ حصے آئے ہیں ۔ ان کے بعد زیر نظر آیات میں کچھ مزید احکام پیش کیے گئے ہیں ۔ چھ اہم احکام پانچ آیات میں بہت پر معنی اور دلنشین پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں ۔

(۱) پہلے زمانہ جاہلیت کے ایک بہت قبیح اور برے عمل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ یہ انتہائی دردناک گناہوں میں سے تھا ۔ ارشاد ہوتا ہے: اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو( وَلَاتَقْتُلُوا اٴَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلَاقٍ ) ۔ان کی روزی تمہارے ذمہ نہیں ہے بلکہ انہیں اور تمہیں ہم رزق دیتے -ہیں( نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِیَّاکُمْ ) ۔کیونکہ ان کا قتل ایک بہت بڑا گناہ تھا اور ہے( إِنَّ قَتْلَهُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیرًا ) ۔

اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کی اقتصادی حالت اتنی سخت اور پریشان کن تھی کہ وہ اپنی مالی حالت پتلی ہونے کی وجہ سے اپنی عزیز اولاد تک کو قتل کردیتے تھے ۔

مفسرین میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا زمانہ جاہلیت کے عرب فقر کے خوف سے صرف اپنی بیٹیوں کو مٹی میں دبا دیتے تھے یا بیٹیوں کو بھی زندہ در گور کردیتے تھے ۔

بعض کا نظریہ ہے کہ یہ سب گفتگوبیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کی طرف اشارہ ہے ۔ وہ لوگ ایسا دو وجوہ کی بناء پر کرتے تھے ۔ ایک تو اس خیال کی بناء پر کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی جنگ میں دشمنوں کی قید میں چلی جائیں اور اس طرح ان کی غزت و ناموس دوسروں کے ہاتھ آجائے ۔

دوسرا فقر و فاقہ کی وجہ سے اور اسباب زندگی مہیا کرنے کی طاقت نہ ہونے کے سبب وہ لڑکیوں کو قتل کردیتے تھے ۔ کیونکہ اس زمانہ میں لڑکی مالی پیدا وار کا ذریعہ نہ تھی بلکہ اکثر اوقات اخراجات کا سبب شمار ہوتی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ابتداء میں بیٹے بھی اخراجات ہی کا باعث تھے لیکن زمانہ جاہلیت کے عرب ہمیشہ بیٹیوں کو اہم سرمائے کے طور پر دیکھتے تھے اور انہیں گنوانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے ۔

بعض دوسروں کانظریہ ہے کہ وہ دو طرح سے اولاد کو قتل کرتے تھے ۔ ایک قتل و ہ ناموس کی حفاظت کے غلط نام پر لڑکیوں کا کرتے تھے اور دوسرا فقر و فاقہ کے خوف سے بلا تخصیص بیٹے اور بیٹی کا ۔

آیت کی ظاہری تعبیر کہ جو جمع مذکر (قتلھم اور نرزقھم)کی صورت میں آئی ہے، اس نظریے کی دلیل بن سکتی ہے کیونکہ عربی ادب کے لحاظ سے جمع مذکر کا اطلاق بیٹیوں پر مجموعی طور پر درست ہے لیکن خصوصیت سے اس کا بیٹیوں کے لیے ہونا بعید معلوم ہوتا ہے ۔

البتہ یہ جو کہا گیا ہے کہ بیٹے پیدا واری صلاحیت رکھتے تھے اور سرمایہ شمار ہوتے تھے، یہ بالکل صحیح ہے لیکن یہ اس صورت میں کہ جب اس تھوڑی مدت کے لیے وہ اجراجات برداشت کرسکتے ۔ حالانکہ بعض اوقات تو وہ اس قدر تنگ دستی میں ہوتے کہ اس تھوڑی سی مدت کے لیے بھی اسبابِ زندگی مہیا کرنے کے قابل نہ ہوتے ۔

لہٰذا دوسری تعبیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔

بہر حال یہ بات ایک وہم و گمان سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی کہ روزی دینے والے ماں باپ ہی ہیں ۔ خدا تعالیٰ اعلان کررہا ہے کہ اس شیطانی خیال کو دماغ سے نکال دو زیادہ سے زیادہ سعی و کوشش کے لئے اٹھ کھڑے ہو تو خدا بھی مدد کرے گا اور ان کی زندگی کا نظام چلادے گا ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ ہم اس قبیح اور شرمناک جرم سے وحشت کرتے ہیں حالانکہ یہی جرم ہمارے زمانے میں ایک اور شکل میں موجود ہے ۔ یہاں تک کہ یہ کام بہت زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی انجام پاتا ہے اور وہ ہے اسقاطِ حمل۔ یہ کام بہت زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام اور اقتصادی حالات کے نام پر کیا جارہا ہے ۔

(مزید توضیح کے لیے تفسیر نونہ جلد ۶ سورہ انعام کی آیہ ۱۵۱ کی طرف رجوع کریں )

”خشیة املاق“ بھی اس شیطانی وہم کی نفی کے لیے لطیف اشارہ ہے کہ یہ صرف ایک خوف ہے جو تمہیں اس بہت بڑے جرم پر ابھارتا ہے ورنہ اس میں حقیقت نہیں ہے ۔“

ضمناً توجہ رہے کہ ”کان خطاً کبیراً“ کہ جو فعل ماضی کے ساتھ آیا ہے اس امر کے لیے اشارہ اور تاکید ہے کہ اولاد کو قتل کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے کہ جو قدیم زمانے سے لوگوں میں موجود ہے اور اس کی قباحت اور برائی فطرت کی گہرائیوں میں موجود ہے لہٰذا یہ قباحت کسی زمانے سے مخصوص نہیں ہے ۔

(۲) ایک اور عظیم گناہ کہ جس کی طرف اگلی آیت اشارہ کرتی ہے وہ زنا اور منافی عفت عمل ہے ۔ قرآن کہتا ہے: زنا کے قریب نہ جاؤ کیونکہ یہ بہت بُرا اور قبیح عمل ہے اور بہت بری روشن ہے( وَلَاتَقْرَبُوا الزِّنَی إِنَّهُ کَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِیلًا ) ۔

اس مختصر سے جملے میں تین نکات کی طرف اشارہ ہوا ہے:

الف۔ یہ نہیں فرمایا کہ زنانہ کرو۔ بلکہ فرمایا کہ اس شرمناک کام کے قریب نہ جاؤ۔ یہ تعبیر اپنی گہرائی کے اعتبار سے اس حکم کے لیے تاکید ہے نیز یہ اس امر کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ اکثر اوقات اس گناہ کے کچھ تمہیدی اعمال بھی ہوتے ہیں جو تدریجاً انسان کو اس کے قریب کردیتے ہیں ۔ ہوا و ہوس کی نظر سے عورتوں کو دیکھنا بھی اس کا ایک مقدمہ ہے ۔ بے پردگی اس کا دوسرا مقدمہ ہے ۔ بری باتیں سکھانے والی کتابیں ، گندی فلمیں ، گھٹیا جرائد اور برائی کے مختلف مراکز بھی اس کام کا مقدمہ فراہم کرتے ہیں ۔

اسی طرح نامحرم عورتوں کے ساتھ خلوت بھی اس کا ایک عامل ہے (یعنی ایک نامحرم مرد اور عورت کسی خالی مکان یا مقام پر ہوں تو وہ بھی اس کا عامل بن سکتا ہے) ۔

اسی طرح جوان لڑکے اور لڑکی کی شادی نہ کرنا اور دونوں پر بلا وجہ سختیاں عائد کرنا بھی اس کا سبب بن جاتا ہے ۔

یہ سب ”زنا کے قریب جانے کے“عامل ہیں ۔ مذکورہ آیت اپنے مختصر جملے میں ان سب سے روکتی ہے ۔ اسلامی روایات میں ان مقدمات میں سے ہر ایک کی الگ الگ ممانعت کی گئی ہے ۔

ب۔ ”انہ کان فاحشة“ میں تین تاکیدیں موجود ہیں :

ایک ”انّ“ دوسری فعل ماضی اور تیسری ”فاحشة“۔

ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گناہ کتنا بڑا ہے ۔

ج۔ ”ساء سبیلا“ (یعنی زنا بہت بری روش ہے) ۔ یہ جملہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ یہ عمل معاشرے میں دیگر بُرائیوں کو بھی کھینچ لاتا ہے ۔

زنا کا فلسفہ حرمت

(الف) اس سے خاندانی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ ماں باپ اور اولاد کے درمیان رابطہ ختم ہوجاتا ہے جبکہ یہ وہ رابطہ ہے جو نہ صرف معاشرے کی شناخت کا سبب ہے بلکہ خود اولاد کی نشود و نما کا موجب بھی ہے ۔ یہی رابطہ ساری عمر محبت کے ستونوں کو قائم رکھتا ہے اور انہیں دوام دیتا ہے ۔

مختصر یہ کہ جس معاشرے میں غیرشرعی اور بے باپ کی اولاد زیاد ہ ہو اس کے اجتماعی روا بط سخت تزلزل کا شکا ر ہو جاتے ہیں کیونکہ ان روابط کی بنیاد خاندانی روابط ہیں ۔

اس مسئلے کی اہمیت سمجھنے کے لیے لحظہ بھر اس امر پر غور کرنا کافی ہے کہ اگر سارے انسانی معاشرے میں زنا جائز اور مباح ہوجائے اور شادی بیاہ کا قانون ختم کردیا جائے تو ان حالات میں غیر مشخص اور بے ٹھکانہ اولاد پیدا ہوگی۔ اس اولاد کو کسی کی مدد اور سرپرستی حاصل نہ ہوگی۔ اسے نہ پیدائش کے وقت کوئی پوچھے گا نہ بڑا ہوکر۔

اس سے قطع نظر برائیوں ، سختیوں اور مشکلوں میں محبت کا اثر تسلیم شدہ ہے جبکہ ایسی اولاد اس محبت سے محروم ہوجائے گی اور انسانی معاشرہ پوری طرح تمام پہلوؤں سے حیوانی درندگی کی شکل اختیار کرلے گا ۔

(ب) یہ شرمناک اور قبیح عمل ہوس باز لوگوں کے درمیان طرح طرح کے جھگڑوں اور کشمکشوں کا باعث بنے گا ۔ وہ واقعات کہ جو بعض افراد نے بد نام محلوں اور غلط مراکز کی داخلی کیفیت کے بارے میں لکھے ہیں ان سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ جنسی بے راہ رویاں بدترین جرائم کو جنم دیتی ہیں ۔

(ج) یہ بات علم اور تجربے نے ثابت کردی ہے کہ زنا طرح طرح کی بیماریاں پھیلنے کا سبب بناہے ۔ اس کے آثارِ بد اور برے نتائج کی روک تھام کے لیے آج کے دور میں بہت سے ادارے قائم ہیں اور بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں مگر اعداد و شمار نشاندہی کرتے ہیں کہ کس قدر افراد اس راستے میں اپنی صحت و سلامتی گنوا بیٹھے ہیں ۔

(د) اکثر اوقات یہ عمل اسقاطِ حمل، قتل اولاد اور انقطاع نسل کا سبب بنتا ہے کیونکہ ایسی عورتوں ایسی اولاد کی نگہداری کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوتیں اور اصولاً اولاد ان کے لیے ایسا منحوس عمل جاری رکھنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے لہٰذا وہ ہمیشہ اسے پہلے سے ختم کردینے کی کوشش کرتی ہیں ۔

یہ مفروضہ بالکل موہومی ہے ایسی اولاد حکومت کے زیر کنٹرول اداروں میں رکھی جاسکتی ہے ۔ اس مفروضے کی ناکامی عملی طور پر واضح ہوچکی ہے اور ثابت ہوچکا ہے کہ اس صورت میں بِن باپ کی اولاد کی پرورش کس قدر مشکلات کا باعث ہے اور نتیجتاً بہت ہی نامرغوب اور غیر پسندیدہ ہے ۔ ایسی اولاد سنگدل، مجرم، بے حیثیت اور ہر چیز سے عاری ہوتی ہے ۔

(ہ) یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ شادی بیاہ کا مقصد صرف جنسی تقاضے پورے کرنا نہیں بلکہ تشکیل حیات میں اشتراک، روحانی محبت، فکری سکون، اولاد کی تربیت اور تمام حالاتِ زندگی میں ہمکاری شادی کے نتائج میں سے ہیں اور ایسا بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ عورت اور مرد باہم مخصوص ہوں اور عورتیں دوسروں پر حرام ہوں ۔

امام علی بن ابی طالب علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں :

میں نے پیغمبر اکرم صلی ا لله علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا:

فی الزناست خصال:ثلث فی الدنیا و ثلث فی الاٰخرة، فاٴما اللّواتی فی الدنیا فیذهب بنورالوجه، و یقطع الرزق، ویسرع الفناء و اٴما اللّواتی فی الاٰخرة فغضب الرب و سوءِ الحساب و الدخول فی النار، اٴو الخلود فی النار ۔

زنا کے چھ بُرے اثرات ہیں : ان میں سے تین کا تعلق دنیا سے ہے اور تین کا تعلق آخرت سے ہے ۔ دُنیاوی بُرے اثرات یہ ہیں کہ یہ عمل انسان کی نورانیت گنوادیتا ہے، روزی منقطع کردیتا ہے اور جلد فنا سے ہمکنار کردیتا ہے ۔ اُخروی آثار یہ ہیں کہ یہ عمل پروردگار کے غضب، حساب کتاب میں سختی اور آتشِ جہنم میں دخول یا دوام کا سبب بنتا ہے ۔(۱)

(۳) اگلی آیت میں ایک اور حکم ہے ۔ یہ حکم انسانوں کے خون کے احترام کے بارے میں ہے اور قتل نفس کی انتہائی حرمت کا ترجمان ہے ۔ قرآن کہتا ہے: جس شخص کا خون خدا نے حرام قرار دیا ہے اسے سوائے حق کے قتل نہ کرو( وَلَاتَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ الله إِلاَّ بِالْحَقِّ ) ۔

انسان کے خون کا احترام اور قتل نفس کی حرمت ایسے مسائل ہیں جن میں تمام آسمانی شریعتیں ، دین اور انسانی قوانین متفق ہیں اور اس قتل کو ایک بہت بڑا جرم اور گناہ شمار کرتے ہیں لیکن اسلام نے اس مسئلے کو بہت ہی زیادہ اہمیت دی ہے یہاں تک کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے ۔ قرآن کہتا ہے:

( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اٴَوْ فَسَادٍ فِی الْاٴَرْضِ فَکَاٴَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا )

جو کسی کو نہ جان کے بدلے اور نہ فساد فی الرض کی سزا میں قتل کردے تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر ڈالا ۔ (مائدہ۔ ۳۲)

یہاں تک کہ قرآن کی بعض آیات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ دائمی عذابِ جہنم کہ جو کفار کے لیے مخصوص ہے قاتل کے لیے بھی بیان ہوا ہے اور ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ممکن ہے یہ تعبیر اس بات کی دلیل ہو کہ وہ افراد جن کے ہاتھ بے گناہ افراد کے خون سے رنگین ہوتے ہیں وہ دنیا سے ایمان کے ساتھ نہیں جائیں گے بہر حال قرآن کہتا ہے:

( وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِیهَا )

جس کسی نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردیا تو اس کی جزاء جہنم ہے کہ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔ (نساء/ ۹۳)

یہاں تک کہ جو افراد لوگوں کے سامنے ہتھیار کھینچتے ہیں ان کے لیے اسلام میں محارب کی حیثیت سے سنگین سزا مقرر ہوئی ہے جس کی تفصیل فقہی کتب میں آئی ہے اس سلسلے میں ہم سورہ مائدہ آیہ ۳۳ کے ذیل میں اشارہ کر آئے ہیں ۔

نہ صرف قتل کرنا بلکہ کسی شخص کو کم سے کم اور چھوٹا آزار پہنچانے پر بھی اسلام میں سزا موجود ہے ۔

یہ بات بڑے اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ خون، جان اور انسان کے مقام کا یہ سب احترام جو اسلام میں ہے کسی اور دین و آئین میں موجود نہیں ہے ۔

لیکن بالکل اسی وجہ سے کچھ ایسے مواقع آتے ہیں کہ خون کا احترام اٹھ حاتا ہے اور ان افرا د کے لیے ہے جو قتل یا اس جیسے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ اسی لیے زیر بحث آیت میں پہلے حرمت قتل نفس کا بنیادی اور عمومی قانون بیان کیا گیا اور اس کے فوراً بعد”الّابالحق “ کہہ کر ایسے افراد کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے ایک مشہور حدیث میں فرمایا ہے:

لایحل امرء مسلم یشهد اٴن لا الٰه الّا الله واٴنّ محمداً رسول الله الّا باٴحدی الثلاث: النفس بالنفس، والزانی المحصن، والتارک لدینه المفارق للجماعة -

کسی مسلمان کا خون کہ جو ”لا اله الا الله “ اور ”محمد رسول الله “ کی گواہی دیتا ہو حلال نہیں ہے مگر تین مواقع پر۔ ایک یہ کہ وہ قاتل ہو، زانی محصن ہو اور وہ جو اپنا دین چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوجائے ۔(۲)

قاتل کے بارے میں حکم تو واضح ہے ۔ اس کے قصاص میں معاشرے کی حیات اور انسانوں کی حفظِ جان کی ضمانت اور اگر اولیاءِ مقتول کو حقِ قصاص نہ دیا جائے تو قاتلوں کوشہ ملے گی اور معاشرے کا امن وامان تباہ ہوجائے گا ۔

باقی رہا زانی محصن تو اس کا قتل ایک ایسے انتہایی قبیح گناہ کے بدلے میں ہے جو قتل کے برابر ہے ۔نیز مرتد کا قتل اسلامی معاشرے میں حرج مرج کو روکتا ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے یہ ایک سیاسی حکم ہے، تا کہ نظام اجتماعی کی حفاظت کی جاسکے کیونکہ ارتداد نہ صرف اجتماعی امن و امان کے لیے خطرہ ہے بلکہ خود نظام اسلام کے لیے بھی خطرہ ہے ۔

اصولی طور پر اسلام کسی شخص کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ یہ دین قبول کرے ۔ دوسرے ادیان سے اسلام منطقی بنیادپر معاملہ کرتا ہے اور آزاد بحث و مباحثہ کا تامل ہے لیکن اگر کسی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا او راسلامی معاشرے کا جز بن گیا اور اس طرح مسلمانوں کے اسرار سے آگاہ ہوگیا ۔اب اگر وہ دین سے پلٹ جانا چاہے اور عملی طور پر نظام اسلام کی بنیاد کمزور کرنا چاہے اور اسلامی معاشرے کے ستون گرانا چاہے تو یقیناً یہ عمل ناقابل برداشت ہے اور ان شرائط کے ساتھ اس کی سزا قتل ہے ۔(۳)

البتہ اسلام میں انسانوں کے خون کا احترام مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ غیر مسلمان جو مسلمانوں سے بر سرجنگ نہیں ہیں اور ان سے دامن و سلامتی کی زندگی بسر کرتے ہیں ان کی جان و مال ائر نا موس بھی محفوظ ہے اور ان پر تجاوز کرنا حرام اور ممنوع ہے ۔اس کے بعد قرآن اولیاء مقتول کے حق قصاص کے بارے میں کہتا ہے: جو شخص مظلوم مارا جائے اس کے ولی کو ہم نے(قاتل سے قصاص لینے کا) تسلط دیا ہے( وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَانًا ) ۔

لیکن اسے بھی نہیں چاہیے کہ ان حالات میں وہ اپنے حق سے زیادہ کا مطالبہ کرے اور قتل میں اسراف کرے کیونکہ وہ مدد دیا گیا ہے( فَلَایُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ إِنَّهُ کَانَ مَنصُورًا ) ۔

جی ہاں ! اولیاءِ مقتول جب تک حد اسلام کے اندر رہتے ہیں اور اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے وہ نصرت الٰہی کے زیر سایہ ہیں یہ جملہ ان اعمال کی طرف اشارہ ہے زمانہ جاہلیت میں تھے اور بعض اوقات آج کل بھی ہوتے ہیں ۔ کبھی ایک شخص کے قتل کے علاوہ اور بہت سے بے گناہ افراد قتل کردیئے جاتے ہیں ۔ جیسے زمانہ جاہلیت کی رسوم میں تھا کہ جب کسی قبیلے کا کوئی معروف آدمی قتل ہوجاتا تو مقتول کا قبیلہ قاتل کے قتل پر قناعت نہ کرتا بلکہ ضروری سمجھتا کہ قاتل کے قبیلے کا سردار معروف شخص قتل کرے چاہے اس قتل میں اس کا کوئی حصّہ نہ ہو۔(۴)

ہمارے زمانے میں بھی بعض اوقات ایسے جرائم ہوتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ خصوصاً غاصب اسرائیل کا یہی کردار ہے ۔ جب کوئی فلسطینی مجاہدان میں سے کسی کو قتل کردے تو وہ فوراً فلسطینی بچوں اور عورتوں پر بم برسانے لگتے ہیں اور بعض اوقات ایک شخص کے بدلے بیسیوں بے گناہ افراد کو خاک و خون میں تڑپا دیتے ہیں ۔

عراق کی بعث پاڑٹی کی طرف سے ہمارے اسلامی ملک پر مسلط کردہ جنگ میں بھی یہی صورتِ حال دیکھتے ہیں ۔آئندہ تاریخ ان کے بارے میں فیصلہ کرے گی ہم یہ معاملہ اسی کے سپرد کرتے ہیں ۔

اسلام میں عدالت کی اس قدر اہمیت ہے کہ اسے قاتل تک کے لیے ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی وصیتوں میں فرماتے ہیں :

یا بنی عبد المطلب لا الفینکم تخوضون دماء المسلمین خوضاً تقولون قتل امیرالمومنین، الّا لا تقتلن بی الّا قاتلی، انظروا اذا انامت من ضربته هذه فاضربوه، ولا تمثلوا بالرجل ۔

اے اولادِ عبد المطلب!مبادا میری شہادت کے بعد مسلمانوں کا خون بہا نے لگو اور کہو کہ امیرالمومنین مارے گئے ہیں اور اس بہانے سے لوگوں کا خون بہانے لگو۔ آگاہ رہو کہ صرف میرا قاتل (عبدالرحمن بن ملجم مرادی) قتل ہوگا ۔ پوری طرح غور کرنا کہ جب میں اس ضرب سے شہید ہوجاؤں کہ جو مجھ پر لگائی گئی ہے تو اسے صرف ایک ضرب کاری لگانا اور قتل کے بعد اس کا مثلہ نہ کرنا (ناک کان وغیرہ نہ کاٹنا) ۔(۵)

(۴) اگلی آیت میں اس سلسلہ احکام کا چوتھا حکم ہے ۔ پہلے یتیموں کے مال کی حفاظت کی اہمیت بتائی گئی ہے ۔ اس میں وہی لب ولہجہ اختیار کیا گیا ہے جو منافی عفت عمل کے بارے میں گزشتہ آیات میں اختیار کیا گیا ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے: یتیموں کے مال کے قریب نہ جاؤ( وَلَاتَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ )

نہ صرف یہ کہ یتیموں کا مال نہ کھاؤ بلکہ اس کے حریم و حدود کو بھی محترم سمجھو۔ لیکن ممکن تھا کہ نا آگاہ لوگ اس حکم کو منفی حوالے سے دیکھتے اور یتیموں کا مال بے سرپرست چھوڑنے کے لیے اسے سند بنالیتے اور یوں یتیموں کا مال حوادث کے رحم و کرم پر رہ جاتا لہٰذا فوراً بلافاصلہ استثناء فرمایا گیا ہے: مگر نہایت اچھے طریقے سے( إِلاَّ بِالَّتِی هِیَ اٴَحْسَنُ ) ۔

ا س جامع اور واضح تعبیر کے مطابق یتیموں کے اموال میں ہر ایسا تصرف جائز ہے جو ان کی حفاظت، اصلاح اور اضافے کی نیت سے ہو اور جس میں قبل ازیں ان کے ضروری پہلوؤں کا اتلاف نہ ہونے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہو بلکہ ایسا تصرف ان یتیموں کی ایک خدمت ہے جو اپنے مفادات کی حفاظت نہیں کرسکتے ۔ البتہ یہ کیفیت یتیم کے فکری واقتصادی رشد تک پہنچنے کے وقت تک ہونا چاہئے ۔ جیسا کہ زیرِ بحث آیت جاری رکھتے ہوئے قرآن کہتا ہے: اس زمانے تک کہ ان میں یہ طاقت پیدا ہوجائے( حَتَّی یَبْلُغَ اٴَشُدَّهُ ) ۔

”اشد“ مادہ ”شدّ“ (بروزن ”جَد“) سے محکم گرہ کے معنی میں ہے ۔ بعد ازاں اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہو گئی اور اب یہ لفظ ہر قسم کے جسمانی و روحانی استحکام کے لیے بولا جاتا ہے ۔ یہاں ” اشد“ سے مراد حدّ بلوغ کو پہنچنا ہے لیکن جسمانی و بلوغت کافی نہیں بلکہ فکری و اقتصادی بلوغت ہونا چاہیے ۔ اس طرح سے کہ یتیم اپنے اموال کی حفاظت کرسکے یہ تعبیر اسی لیے منتخب کی گئی ہے کہ یقینی طور پر آزما کر دیکھ لیا جائے ۔

اس میں شک نہیں کہ ہر معاشرے میں مختلف حوادث کے باعث یتیم موجود ہوتے ہیں ۔ انسانی اقدار اور دیگر حوالوں سے ضروری ہے کہ یہ یتیم تمام پہلووں سے معاشرے کے خیر خواہ افراد کی سرپرستی میں ہوں ۔ اسی لیے اسلام نے اس مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے ۔ اس کا کچھ حصہ ہم سورہ نساء کی آیہ ۲ کے ذیل میں ذکر کر آئے ہیں ( تفسیر نمونہ جلد ۳ کی طرف رجوع فرمائیں ) ۔

جس چیز کا ہمیں یہاں اضافہ کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ بعض روایات میں یتیم وسیع تر معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ ان افراد کو بھی یتیم کہا گیا ہے جو اپنے امام اور پیشوا سے جدا ہوچکے ہیں اور ایک مادی حکم سے معنوی استفادہ کیا گیا ہے ۔

(۵) اس کے بعد ایفائے عہد کا مسئلہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: اپنا عہد وفا کرو کیونکہ ایفائے عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا( وَاٴَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ کَانَ مَسْئُولًا ) ۔

بہت سے معاشرتی روابط، اقتصادی نظام اور سیاسی مسائل عہد و پیمان کے گرد گھومتے ہیں ۔ اگر عہد و پیمان متز لزل ہوجائے اور اعتماد اٹھ جائے تو معاشرے کا نظام تیزی سے در ہم برہم ہوجائے اور اس پر وحشتناک حرج و مرج مسلط ہوجائے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن آیات میں ایفائے عہد پر بہت زور دیا گیا ہے ۔

عہد و پیمان کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ اس میں افراد کے درمیان جو اقتصادی اور کار و باری پیمان ہوتے ہیں وہ بھی شامل ہیں اور شادی بیاہ وغیرہ کے پیمان بھی شامل ہیں ۔ ان میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو اقوام وملل اور حکومتوں کے درمیان ہوتے اور ان سے بڑھ کر خدائی پیمان اور آسمانی رہبروں کے اپنی امتوں سے کیے گئے پیمان یا امتوں کی طرف سے ان سے باندھے گئے پیمان بھی اس میں شامل ہیں ۔(۶)

(۶)آخری زیرِ بحث آیت میں آخری حکم ناپ تول میں عدالت کے بارے میں ہے ۔ اس کے ذریعے حقوق الناس کی حغاظت اور کم فروشی کا سدِّ باب مقصود ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: جب کسی پیمانہ سے کوئی چیز ناپو تو اس کا حق ادا کرو( وَاٴَوْفُوا الْکَیْلَ إِذَا کِلْتُمْ ) ۔ اور صحیح اور سیدھے ترازو سے وزن کرو( وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِ ) ۔ کیونکہ یہ کام تمہارے فائدے میں ہے اور اس کا انجام سب سے بہتر ہے( ذٰلِکَ خَیْرٌ وَاٴَحْسَنُ تَاٴْوِیلًا ) ۔

____________________

۱۔ تفسیر مجمع البیان ج ۶ ص ۴۱۴-

۲۔ تفسیر فی ضلال، ج۵، ص۳۲۳ بحوالہ صحیح بخاری وصحیح مسلم-

۳۔ ارتداد اور اس کی سخت سزا کے بارے میں سورہ نحل کی آیہ۱۰۶ کے ذیل میں تفسیر نمونہ کی جلد ۱۱ میں ہم تفصیلی بحث کرچکے ہیں ۔

۴۔ تفسیر روح المعانی از آلوسی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں -

۵۔ نہج البلاغہ، حصّہ مکتوبات نمبر۴۷-

۶۔ ایفائے عہد اور قسم پوری کرنے کی اہمیت کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد ۱۱ سورہ نحل آیہ ۹۱ تا ۹۴ کے ذیل میں ہم تفصیلی بحث کرچکے ہیں

چند اہم نکات

۱ ۔ کم فروشی کا نقصان:

پہلا نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہیے یہ ہے کہ قرآن مجید میں بارہا کم فروشی، وزن میں کمی اور دھوکا بازی کے خاتمے پر زور دیا گیا ہے ۔ ایک مقام پر یہ مسئلہ وسیع عالمِ ہستی کے نظامِ خلقت کے ہم پّلہ رکھا گیا ہے:

( وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِیزَانَ، اٴَلاَّ تَطْغَوْا فِی الْمِیزَان ) ۔

خدانے آسمان بلند کیا اور ہر چیز میں میزان اور حساب و کتاب رکھا تا کہ تم وزن اور حساب و کتاب میں سرکشی نہ کرو۔ (رحمٰن۔ ۷ و ۸) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ناپ تول پورا رکھنا کوئی کم اہم مسئلہ نہیں بلکہ اصل عدالت اور اس آفرینش کے نظم و ضبط کا حصّہ ہے جو پورے عالم ہستی پر حکم فرما ہے ۔

ایک اور مقام پر شدید اور دھمکی آمیز لہجے میں ارشاد فرما یا گیا ہے:

( وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ، الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُون، وَإِذَا کَالُوهُمْ اٴَوْ وَزَنُوهُمْ یُخْسِرُون، اٴَلَایَظُنُّ اٴُولَئِکَ اٴَنَّهُمْ مَبْعُوثُونَ، لِیَوْمٍ عَظِیمٍ )

وائے اور ہلاکت ہے کم فروشی کرنے والوں کے لیے کہ جو خرید تے وقت اپنا حق پورا پورا لیتے ہیں اور بیچتے وقت کم وزن میں کمی کرتے ہیں کیا وہ یہ گمان نہیں کرتے کہ قیامت کے عظیم دن عدل الٰہی کی بارگاہ میں مبعوث ہوں گے ۔ (مطففین۔ ۱ ۔ ۵)

یہاں تک کہ قرآن مجید میں بعض انبیاء کے حالات میں ہے کہ ان کے شدید مبارزہ کا رُخ شرک کے بعد کم فروشی کی طرف تھا مگر ان کی ظالم قوم نے پرواہ نہ کی اور خدا کے شدید عذاب میں گرفتار ہو کر نابود ہوگئی۔

(تفسیر نمونہ جلد ۶ دیکھیے ۔سورہ اعراف کی آیہ ۸۵ کے ذیل میں ، مدین میں حضرت شعیب(ص) کی تبلیغ کے ضمن میں تفصیلات ذکر کی گئی ہیں ) ۔

اصولی طور پر حق و عدالت، نظم و ضبط اور حساب و کتاب ہر چیز میں لاور ہر جگہ بنیادی اور حیاتی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ یہ روح ہے جو تمام عالم ہستی پر حکم فرما ہے ۔ لہٰذا اس بنیادی مسئلے سے کسی بھی قسم کا انحراف خطرناک اور بد انجام ہوگا خصوصاً کم فروشی اعتماد و اطمینان کا سرمایہ ختم کردیتی ہے کہ جو مبادلات کا اہم رکن ہے ۔ یہ کام اقتصادی نظام کو درہم برہم کردیتا ہے ۔

بہت ہی افسوس کا مقام ہے کہ بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں اس اصول کو اپنا نے میں غیر مسلم بعض فرض شناسی مسلمانوں سے آگے بڑھ جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کی منڈیوں میں اسی وزن کے مطابق اجناس پہنچائیں جو ان پر لکھا ہوا ہے تا کہ دوسروں کا اعتماد حاصل کر سکیں ۔

جی ہاں ! وہ جانتے ہیں کہ انسان اہل دنیا بھی ہو تا اس راستہ یہی ہے کہ معاملہ میں خیانت نہ کرے ۔

یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ حقوق کے اعتبار سے کم فروش خریداروں کے مقروض ہیں ۔ لہٰذا ان کی توبہ یہ حقوق ادا کیے بغیر نہیں ہوسکتی جو انہوں نے غصب کیے ہیں ۔ یہاں تک کہ اگر وہ ان حقوق کے مالکوں کو نہیں پہچانتے تب بھی انہیں چاہئے کہ ان کے برابر ”ردّ مظالم“ کے طور پر اصلی مالکوں کی طرف سے سے فقرا اور مساکین کودیں ۔

۲ ۔ کم تولنے کے مفہوم کی وسعت:

بعض اوقات کم فروشی کا مفہوم وسعت اختیار کر جاتا ہے اور اس میں عمومیت آجاتی ہے ۔ اس طرح سے کہ ہر قسم کی کوتاہی اور فرائض کی انجام دہی میں کمی اس کے مفہوم میں شامل ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا وہ کارگیر جو اپنے کام میں کچھ کمی چھوڑ دیتا ہے ، وہ استاد جو ٹھیک طرح سے درس نہیں دیتا، وہ مزدور جو بر وقت کام پر حاضر نہیں ہوتا اور دل جمعی سے کام نہیں کرتا ۔ اس حکم کے مخاطب ہیں اور اس کی خلاف ورزی کے نتائج کے حصہّ دار ہیں ۔

البتہ زیرِ بحث آیت کے الفاظ براہِ راست اس عمومیت کے لیے نہیں ہیں بلکہ مفہوم کی یہ وسعت عقلی ہے لیکن سورہ رحمن میں جو تعبیر آئی ہے وہ اس عمومیت اور وسعت کی طرف اشارہ کرتی ہے:

( وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِیزَانَ، اٴَلاَّ تَطْغَوْا فِی الْمِیزَانِ )

۳ ۔”قسطاس “ کا مفہوم:

قاف کے نیچے زیر اور پیش کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے (”بروزن ”مقیاس“ اور کبھی بر وزنِ ”قُرآن“) اس کا معنی ہے ترازو ۔بعض اسے رومی زبان کا لفظ سمجھتے ہیں اور بعض عربی کا ۔بعض اوقات کہا جاتاہے کہ اصل میں یہ دو لفظوں کا مرکب ہے ”قسط“ بمعنی عدل انصاف اور ”طاس“ بمعنی ترازوکا پلڑا ۔بعض کہتے ہیں کہ ”قسطاس“بڑے ترازو کو اور ”میزان“ چھو ٹے ترازو کو کہتے ہیں ۔(۱)

بہر حال ”قسطاس“ سے مراد متقسیم اور صحیح سالم ترازو ہے جو بے کم وکاست عادلانہ وزن کرے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایک روایت میں امام باقر علیہ السلام اس لفظ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

هو الذی له لسان

ترازو وہ میزان ہے جس کی زبان (دوپلڑوں کا توان بتانے والی سوئی )ہو۔(۲)

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جو ترازو اس سوئی کے بغیر ہوتے ہیں وہ دو پلڑوں کی حرکات اور توازن کو پوری طرح واضح نہیں کرتے لیکن اگر ترازو میں یہ معیاری سوئی ہوتو پلڑوں کی تھوڑی سی حرکت بھی اس سے ظاہر ہوجائے گی اور عدالت پوری طرح ملحوظ رکھی جاسکے گی ۔

____________________

۱۔ تفسیر المیزان، تفسیر فخر الدین رازی وتفسیر مجمع البیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲۔ تفسیر صافی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔