تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 194971 / ڈاؤنلوڈ: 4799
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب سے سوال کیا کہ ”:اے میرے رب! کیا منصب امامت پر میری اولاد میں سے بھی کوئی پہنچے گا؟“ تو ارشاد خداوندی ہوا کہ امامت کے درجہ پر کوئی ظالم نہیں پہنچ سکتا۔ ظلم سے مراد صرف لوگوں پر ظاہری ظلم و ستم ہی نہیں بلکہ اس کا تعلق عدم عدل سے ہے یعنی جہاں عدل نہیں ہوگا، وہاں ظلم ہوگا۔ اگر اس کو مزید دیکھیں تو ظلم تین طرح سے ہوسکتا ہے:

خدا کے ساتھ ۔

اپنے نفس کے ساتھ ۔

لوگوں پر ۔

ظاہر ہے کہ اگر کوئی ظلم کی ان تین اقسام میں سے کسی ایک ظلم کا مرتکب بھی ہوتا ہے تو وہ ظالم شمار ہوگا اور وہ منصب امامت کے لائق نہیں رہے گا۔

یہ دلیل بجائے خود عظیم اہمیت کی حامل ہے اور آئمہ معصومین کیلئے خلافت برحق ہونے کی ایک اہم دلیل ہے۔ یہی آیت قرآنی اور اس کی تفسیر حضرت علی علیہ السلام اور اُن کی اولاد پاک کیلئے خلافت کوثابت کرتی ہے کیونکہ اس سے اس نکتہ کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ دوسرے صحابہ دور جاہلیت میں اپنی اپنی عمر کے کچھ حصے بت پرستی میں گزار چکے تھے اور قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:

( یَبُنَیَّ لَا تُشْرِکُ بِاللّٰهِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ )

”لقمان حکیم اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں“

” اے میرے بیٹے! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے“۔(سورئہ لقمان:آیت۱۳)۔

اس سے پتہ چلا کہ شرک سب سے بڑا (خدا کے ساتھ) ظلم ہے ۔ اب رسول خدا کے صحابہ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ جس کسی نے ایک لحظہ کیلئے بھی بتوں کے سامنے سجدہ نہ کیا، وہ حضرت علی علیہ السلام تھے۔

۲۱

گزشتہ بحث میں اشارہ کیا گیا کہ امام کے لئے پہلی اور سب سے ضروری شرط یہی ہے کہ امام کی پوری مادّی اور معنوی زندگی کے ہر پہلو میں پاکیزگی، طہارت اور عصمت ہو۔ گہری سوچ رکھنے والے دانشمند حضرات اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ عصمت(ہرگناہ سے پاکیزگی) انسان کا اندرونی مسئلہ ہے اور اس کو مکمل جانچنے اور پرکھنے کیلئے کوئی طریقہ کار یا پیمانہ موجود نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے امام معصوم کی معرفت اور شناخت کی جانی چاہئے۔ خدا عالم مطلق ہے، حاضر و غائب کو جاننے والا ہے، دلوں کی کیفیات کو زبانوں سے بہتر جانتا ہے، اس لئے امام حق کا تعارف کروانے کیلئے ہم اُسی کی ذات کے محتاج ہیں اور وہی ہمیں اُن افراد ذی قدر کا تعارف کروائے۔

حقیقت شناسی کا ثبوت انسان کو مطالعہ اور تحقیق کرنے پر مجبور کرتا ہے اور اس طرح وہ فرمودات خدا اور رسول تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ تحقیق ہی کا نتیجہ ہے کہ تمام پوشیدہ حقائق ایک ایک کرکے مانند آفتاب انسان کے سامنے آجاتے ہیں او رہر قسم کے ظلمت و تاریکی ، جہل و تعصب کے پردے چاک ہو جاتے ہیں۔ آئیے ہم محکم دلائل، آیات قرآنی اور احادیث متواترہ کو تلاش کریں تاکہ امام کو پہچاننے میں جتنی رکاوٹیں یا شکوک و شبہات ہیں، دور ہوجائیں اور حق تلاش کرنے والوں کو سچا رہبر اور صراط مستقیم مل جائے۔

فرمودات خدا اور دیگر دلائل کچھ اس طرح سے ہیں کہ قرآن کریم کی متعدد آیات اور رسول اکرم کی معتبراحادیث متواترہ نہایت خوبصورت انداز میں لوگوں کو اعلیٰ ترین انسانوں سے متعارف کرواتی ہیں۔ یہ عظیم ہستیاں انسانوں کی ہدایت و رہبری کی ذمہ دار ہیں۔انہی سالاران حق کے پہلے رہبر مولائے متقیان ، امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں اور ان کا آخری رہبر حضرت قائم آل محمدبقیة اللہ الاعظم حجة بن الحسن العسکری علیہ السلام ہیں۔

خدا کی مدد و نصرت سے آئندہ ان دلائل کو تفصیل سے بیان کیا جائے گا اور اس کے علاوہ دوسرے ابواب میں ہم اور نئی چیزیں بیان کریں گے جو انشاء اللہ مقصد کتاب کی تصدیق کرنے والی ہوں گی،لیکن آخری فیصلہ ہم پڑھنے والوں پر ہی چھوڑتے ہیں۔

اَلّٰلهُمَّ عَرِّفْنِیْ نَفْسَکَ فَاِ نَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ نَفْسَکَ لَمْ اَعْرِفْ رَسُولَکَ،اَلّٰلهُمَّ عَرِّفْنِیْ رَسُولَکَ فَاِ نَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ رَسُولَکَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَکَ،اَلّٰلهُمَّ عَرِّفْنِیْ حُجَّتَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِیْنِیْ،اَلّٰلهُمَّ لاٰ تُمِتْنِیْ مَیْتََةً جٰاهِلِیَّةً وَلاٰ تُزِغْ قَلْبِیْ بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنِیْ ۔(آمین)۔

۲۲

دوسرا باب

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔ ۲

(ا)۔عَنْ اُمِّ سلمه قَالَتْ: نَزَلَتْ هٰذِهِ الآیَةُ فِی بَیْتِیْ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا“، وَفِی الْبَیْتِ سَبْعَة، جبرئیل و میکائیل و علیٌ فاطمة والحسن والحسین وأَنَا عَلٰی بٰابِ الْبَیْتِ قُلْتُ: یٰارَسُوْلَ اللّٰهِ، أَ لَسْتُ مِنْ اَهْلِ الْبَیْتِ؟ قٰالَ اِنَّکِ عَلٰی خَیْرِ اِنَّکِ مِنْ اَزْوَاجِ النَّبِیَ ۔

”اُم سلمہ سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ آیہ تطہیر اُن کے گھر میں نازل ہوئی اور آیت کے نزول کے وقت گھر میں سات افراد موجود تھے اور وہ جبرئیل، میکائیل، پیغمبر اسلام، حضرت علی علیہ السلام، جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام تھے۔ میں گھر کے دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟“ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اے سلمہ! بے شک تو خیر پر ہے لیکن تو ازواج میں شامل ہے“۔

(ب)۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں اُم سلمہ سے یوں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم گھر میں موجود تھے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک ریشمی چادر اپنے بابا کے پاس لائیں۔ پیغمبر خدا نے فرمایا:”بیٹی فاطمہ ! اپنے شوہر اور اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ“۔ بی بی فاطمہ نے اُن کو اطلاع دی اور وہ آگئے۔ غذا تناول کرنے کے بعد پیغمبر نے چادر اُن پر ڈال دی اور کہا:

’اَلّٰلهُمَّ هٰولٰاءِ اَهلُبَیْتِیْ وَعِتْرَتِیْ فَاَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِیْرا‘

”خداوندا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ان سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھ اور ان کو ایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔

اس وقت یہ آیت( اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا ) نازل ہوئی۔

میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! کیا میں بھی آپ کے ساتھ اس میں شامل ہوں؟“ آپ نے فرمایا:”سلمہ! تو خیر اور نیکی پر ہے(لیکن تو اس میں شامل نہیں)“۔

۲۳

(ج)۔ علمائے اہل سنت کی کثیر تعداد نے جن میں ترمذی ، حاکم اور بہیقی بھی شامل ہیں، اس روایت کو نقل کیا ہے:

عَنْ اُمِّ سَلْمَه قٰالَت: فِیْ بَیْتِیْ نَزَلَتْ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا“ وَفِیْ الْبَیْتِ فاطمةُ وَعَلیُ والحسنُ والحُسینُ فَجَلَّلَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلّٰی اللّٰه علیهِ وآله وسلَّم بِکِسٰاءِ کَانَ عَلَیْهِ، ثُمَّ قٰالَ: هٰولٰاءِ اَهْلُ بَیْتِی فَاَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِّرْهُمْ تَطْهِیْرا

”اُم سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ آیہ تطہیر اُن کے گھر میں نازل ہوئی۔ آیت کے نزول کے وقت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا، علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام گھر میں موجود تھے۔ اُس وقت رسول اللہ نے اپنی عبا جو اُن کے جسم پر تھی، اُن سب پر ڈال دی اور کہا:(اے میرے اللہ)! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ پس ہر قسم کے رجس کو ان سے دور رکھ اور ان کوایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۵۶اورصفحہ۳۱۔

۲۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، باب مناقب اہل بیت ، ج۹،ص۱۶۹ وطبع دوم ،ج۹،ص۱۱۹۔

۳۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب امیر المومنین ، حدیث۳۴۵،صفحہ۳۰۱، طبع اوّل۔

۴۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد ج۹،ص۱۲۶، باب شرح حال سعد بن محمد بن الحسن عوفی

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲، صفحہ۲۴۲اور باب ۱۰۰،صفحہ۳۷۱۔

۶۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد۳،صفحہ۱۳۳،۱۴۶،۱۷۲ اور جلد۲،صفحہ۴۱۶۔

۷۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں ج۳،ص۴۸۳،البدایہ والنہایہ ج۷،ص۳۳۹، باب فضائل علی

۸۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۳۳،صفحہ۱۲۴اور صفحہ۲۷۱۔

۲۴

۹۔ فخر رازی تفسیر کبیر میں، جلد۲۵،صفحہ۲۰۹۔

۱۰۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد۱،صفحہ۳۶۹۔

۱۱۔ سیوطی ، تفسیر الدرالمنشور، جلد۵،صفحہ۲۱۵۔

۱۲۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، استیعاب، ج۳،ص۱۱۰۰، روایت شمارہ۱۸۵۵، باب علی

۱۳۔ ذہبی، تاریخ اسلام، واقعات۶۱ہجری تا ۸۰ہجری، تفصیل حالات امام حسین ،ص۹۶

۱۴۔ حافظ بن عساکر، تاریخ دمشق، حدیث۹۸، جلد۱۳،صفحہ۶۷۔

۱۵۔ ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں جلد۲۲،صفحہ۶،۷۔

دسویں آیت

مودت اہل بیت کا ایک انداز

( قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی )

”(اے میرے رسول) کہہ دو کہ میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے اہل بیت سے محبت کرو“۔(سورئہ شوریٰ:آیت۲۳ )

تشریح

”اس آیت کی شان نزول اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ جب پیغمبر اسلام مدینہ میں تشریف لائے اور اسلام کی بنیاد مضبوط ہوئی تو انصار کی ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:”یا رسول اللہ! ہم اعلان کرتے ہیں کہ اگر آپ کوکوئی مالی یا اقتصادی مشکل درپیش ہے تو ہم اپنے اموال و دولت آپ کے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں۔ جب انصار یہ باتیں کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی:( قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی )

”میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قریبیوں سےمودّت کرو“۔

پس رسول خدا نے اپنے قریبیوں سے محبت کرنے کی تاکید کی ہے۔(مجمع البیان، جلد۹،ص۲۹)

۲۵

قربیٰ سے مراد کون کونسے رشتہ دار ہیں؟

قربیٰ کو پہچاننے کا سب سے بہترین اور احسن ترین ذریعہ قرآنی آیات اور روایات ہیں۔ قربیٰ سے محبت تمام مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔ یہ اجر رسالت بھی ہے ، خدا اور اُس کے رسول کا حکم بھی۔ لہٰذا ان کو پہچاننے میں نہایت دقت اورسوچ سمجھ سے کام لینا ہوگا۔ ہم بغیر کسی مزید بحث کئے ہوئے برادران اہل سنت کی کتب سے تین روایات نقل کرتے ہیں، ملاحظہ ہوں:

(ا)۔ احمد بن حنبل کتاب” فضائل الصحابہ“ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں:

لَمَّا نَزَلَتْ’ ( قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰیط‘ )

قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰه مَنْ قَرابَتُکَ؟مَنْ هٰولَاءِ الَّذِیْنَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّ تُهُم؟ قَالَ صلّٰی اللّٰه عَلَیْهِ وَآله وَسَلَّم علیٌ فاطمةُ وَ اَبْنَاهُمَا وَقٰالَهٰا ثَلَا ثاً

جب یہ آیہ شریفہ( قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی ) نازل ہوئی۔ اصحاب نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! آپ کے جن قرابت داروں کی محبت ہم پر واجب ہوئی، وہ کون افراد ہیں؟“ آپ نے فرمایا:”وہ علی علیہ السلام، فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اُن کے دونوں فرزند ہیں“۔ آپ نے اسے تین بار تکرار کیا۔

(ب)۔ سیوطی تفسیر”الدرالمنثور“ میں اس آیت پر بحث کرتے ہوئے ابن عباس سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:

اَنْ تَحْفَظُوْنِیْ فِیْ اَهْلِ بَیْتِیْ وَتُوَدُّوْهُمْ بِیْ

”میرے اہل بیت کے بارے میں میرے حق کی حفاظت کریں اور اُن سے میری وجہ سے محبت کریں“۔

۲۶

(ج)۔ زمخشری تفسیر کشاف میں ایک بہترین اور خوبصورت روایت نقل کرتے ہیں۔ فخررازی ، قرطبی اور دوسروں نے بھی اپنی تفسیروں میں اس کے کچھ حصے نقل کئے ہیں۔ یہ حدیث واضح طور پر مراتب و مقام اور فضیلت آل محمدکوبیان کرتی ہے۔ ہم بھی اس کو اس کی اہمیت کے پیش نظر تفصیل سے بیان کرتے ہیں:

قَالَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلّٰی اللّٰه علیه وآله وسلم

”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

( i )۔مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَهِیْداً

جو کوئی محبت آل محمد میں مرا، وہ شہید مرا۔

( ii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُوْراً

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا وہ مغفور (جس کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں) مرا۔

( iii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ تَائِباً ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا وہ تائب(جس کی توبہ قبول ہوگئی ہو)مرا۔

( iv )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مُومِناً مُسْتَکْمِلَ الاِ یْمَانِ ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا وہ مومن اور مکمل ایمان کے ساتھ مرا۔

( v )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ بَشَّرَه مَلَکُ الْمَوْتِبِالجَنَّةِ ثُمَّ مُنکَرٌوَنَکِیرٌ ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا اُس کو ملک الموت نے اور پھر منکر و نکیرنے جنت کی بشارت دی۔

( vi )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ یَزَّفُ اِلی الجَنَّةِ کَمَا تَزُفُّ العُرُوسُ اِلٰی بَیتِ زَوجِهَا ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا اُسے جنت میں ایسے لے جایا جائے گا جیسے دلہن اپنے شوہر کے گھر لے جائی جاتی ہے۔

۲۷

( vii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ فُتِحَ لَه فِیْ قَبْرِه بَابَانِ اِلٰی الجَنَّةِ ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا اُس کی قبر میں دودروازے جنت کی طرف کھول دئیے جاتے ہیں۔

( viii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ جَعَلَ اللّٰهُ قَبْرَه مَزَارَ مَلا ئِکَةِ الرَّحْمَةِ

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا اللہ نے اُس کی قبر کو فرشتوں کی زیارتگاہ بنادیا۔

( ix )۔اَ لَا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ عَلَی السُنَّة وَالْجَمَاعَةِ ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مراوہ اہل سنت والجماعت کے طریقہ پرمرا۔

( x )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ جاءَ یَوْمَ القِیٰامَةِ مَکْتُوْبٌبَیْنَ عَیْنَیْهِ اَئِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ

آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنی آل محمد میں مرا وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئےگا کہ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ”خدا کی رحمت سے مایوس“ لکھا ہوا ہوگا۔

( xi )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ کَافِرًا

آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنی آل محمد میں مرا، وہ کافر مرا۔

( xii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ یَشُُمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ

آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنی آل محمد میں مرا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکے گا۔

آل محمد کے بارے میں فخرالدین رازی کے نظریات

بڑی دلچسپ بات ہے کہ فخرالدین رازی جو اہل سنت کے بڑے بزرگ عالم دین ہیں، نے حدیث بالا جو تفسیر کشاف میں بڑی واضح طور پر اور تفصیل سے بیان کی گئی ہے، کو اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد لکھاہے کہ آل محمد سے مرادوہ افراد ہیں جن کا پیغمبر خدا سے بڑا گہرا اور مضبوط تعلق ہو اور اس میں شک تک نہیں کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا، علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کا تعلق پیغمبر خدا سے سب سے زیادہ تھا اور یہ مسلمہ حقیقت ہے اور روایات متواترہ سے ثابت شدہ ہے۔پس لازم ہے کہ انہی ہستیوں کو آل محمد قرار دیاجائے۔

۲۸

فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں اس حدیث کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! وہ آپ کے قریبی رشتہ دار کون سے افراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟“ آپ نے فرمایا:”وہ علی علیہ السلام ، فاطمہ سلام اللہ علیہا،حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں“۔

اس کے علاوہ اہل سنت کی کتابوں میں بہت سی دوسری احادیث اور روایات اس بارے میں بیان کی گئی ہیں۔ اُن سب کو یہاں پر بیان کرنا ممکن نہیں اور صرف مزید اطلاع دینے کی غرض سے اشارہ کررہے ہیں کہ اوپر درج کی گئی حدیث جو محبت آل محمد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑی اہم ہے، اہل سنت کی کم از کم پچاس معروف کتابوں میں درج کی گئی ہے۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ زمخشری تفسیر کشاف میں ، جلد۴،صفحہ۲۱۹۔

۲۔ بیضاوی اپنی تفسیر(تفسیر بیضاوی ) میں، جلد۲،صفحہ۳۶۲۔

۳۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد ۴،صفحہ۱۱۲۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۲،صفحہ۱۲۳اور ۴۴۴، اس کےعلاوہ اس حدیث کو مکمل طور پر مقدمہ کتاب میں بھی نقل کیا ہے۔

۵۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب علی علیہ السلام میں، حدیث۳۵۲،صفحہ۳۰۷۔

۶۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۱۳۰، طبع اوّل، حدیث۸۲۲۔

۷۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل، کتاب الفضائل میں، حدیث۲۶۳،صفحہ۱۸۷،طبع اوّل،باب فضائل امیرالمومنین علی ۔

۸۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، جلد۹،صفحہ۱۶۸، باب فضائل اہل بیت ۔

۹۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۷،۸۔

۱۰۔ فخر رازی اپنی تفسیر(تفسیر کبیر) میں، جلد۲۷،صفحہ۱۶۶۔

۲۹

۱۱۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۸۶۔

۱۲۔ حموینی ، کتاب فرائد السمطین، باب۲۶،جلد۲،صفحہ۱۲۰۔

۱۳۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ حبیب ابن ابی ثابت کے تراجم میں، جلد۵،صفحہ۳۶۷۔

۱۴۔ حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۷۲ اور بہت سے علمائے اہل سنت۔

گیارہویں آیت

علی نفس رسول ہیں(علی اور اہل بیت آیت مباہلہ میں)

( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ۔)

”پس آپ کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو(بلائیں)اور تم اپنی عورتوں کو(بلاؤ) اور ہم اپنے نفسوں کو(بلائیں) اور تم اپنے نفسوں کو(بلاؤ) پھر ہم خدا کی طرف رجوع کریں اور خدا کی لعنت جھوٹوں پر قرار دیں“۔(سورئہ آل عمران:آیت۶۱)۔

تشریح

تمام مفسرین اور محدثین اہل سنت اور شیعہ کے مطابق یہ آیت (جو آیت مباہلہ کے نام سے مشہور ہے)اہل بیت کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں ”اَبْنَاءَ نَا“سي امام حسن اور امام حس ین مراد ہیں،”نِسَاءَ نَا “سے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور”اَنْفُسَنَا“ سے علی ابن ابی طالب علیہما السلام مرادہیں۔

روایات لکھنے سے پہلے ہم مباہلہ کے واقعہ کو مختصراً بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

۳۰

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کودعوت اسلام دی۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادریوں نے باہم مشورہ کیا اور اکٹھے ہوکر مدینہ میں آئے او رپیغمبر اسلام سے ملاقاتیں کیں اور بحث و مباحثہ شروع کردیا۔یہ سلسلہ مناظرہ تک جاپہنچا۔ رسول اللہ نے انہیں محکم دلائل دئیے جس کے جواب میں عیسائیوں نے اپنے عقائد کو درست قرار دینے کیلئے بحث میں ضد کی۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحکم خدا عیسائیوں کو مباہلہ(مخالف گروہوں کا مل کر جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجنا)کی دعوت دی تاکہ حق ظاہر ہوجائے۔

عیسائیوں نے یہ دعوت قبول کرلی اور قرار پایا کہ مباہلہ کیلئے اگلے روز مدینہ سے باہر کھلے میدان میں جمع ہوں گے۔ مباہلہ کا وقت آن پہنچا۔ تمام عیسائی ، اُن کے علماء اور راہب مدینہ سے باہر مقررہ جگہ پر پہنچ گئے اور پیغمبر اسلام کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔اُن کا خیال تھا کہ آپ یقینا مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کے ہمراہ آئیں گے۔ ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ نصاریٰ نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ پیغمبر خدا کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت ہے نہ اصحاب و انصار کی کوئی تعداد۔آپ بڑی متانت کے ساتھ صرف چار افراد کے ہمراہ تشریف لارہے ہیں۔ اُن میں سے ایک بچہ(آپ کا نواسہ امام حسین علیہ السلام) ہے جو آپ کی گود میں ہے۔ دوسرے بچے(آپ کا نواسہ امام حسن علیہ السلام)کی انگلی پکڑی ہوئی ہے۔ آپ کے پیچھے ایک بی بی ہیں جن کو خاتون جنت کہا جاتا ہے یعنی سیدہ فاطمة الزہرا اور اُن کے پیچھے اُن کے شوہرنامدار حضرت علی ہیں۔ ان سب افراد کے چہروں سے نورانی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔یہ سب افراد کمال اطمینان اور ایمان راسخ کے ساتھ آہستہ آہستہ میدان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ عیسائیوں کا رہبر” اسقف اعظم“ حیران ہوا اوراپنے لوگوں سے پکار کر کہنے لگا کہ دیکھو! محمد اپنے بہترین عزیزوں کو لے کر مباہلہ کیلئے تشریف لا رہے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر اُن کو مباہلہ میں کوئی فکروتشویش ہوتی تو ہرگز اپنے قریبی رشتہ داروں کو نہ لاتے۔ اے لوگو!ان افراد کے چہروں سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہوئی دیکھ رہا ہوں۔ اگر یہ افراد خدا سے دعا کریں تو پہاڑ اپنی جگہ سے حرکت کرنا شروع کردیں۔لہٰذا ان سے مباہلہ کرنے سے گریز کریں وگرنہ ہم سب عذاب خدا میں گرفتار ہوجائیں گے۔

اس موقع پر اسقف نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم آپ سے ہرگز مباہلہ نہیں کریں گے بلکہ آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ پیغمبر خدا نے اُن کی تجویز کو قبول کرلیا اور معتبر روایات کے مطابق علی علیہ السلام کے دست مبارک سے صلح نامہ لکھا گیا۔

۳۱

اوپر بیان کئے گئے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے چند روایات جو تشریح اور تفسیر آیت مباہلہ کے ضمن میں نقل کی گئی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:

(ا)۔ ابو نعیم اپنی کتاب حلیة الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ عامر بن سعد اپنے باپ سے اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں:

لَمَّا نَزَلَتْ هٰذِ هِ الاٰ یَةُ (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ) دَعٰا رَسُوْلُ اللّٰهِ صلّٰی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ عَلِیاً وَفَاطِمةَ وَحَسَناًوَحُسَیْناً فَقَالَ:اَلَّلهُمَّ هٰولاءِ اَهْلِیْ

جس وقت یہ آیت( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ) نازل ہوئی، پیغمبر اسلام نے علی ،فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور خدا کے حضور عرض کی:”پروردگار! یہ میرے اہل بیت ہیں“۔

(ب)۔ اسی طرح کتاب حلیة الاولیاء میں اسناد کے ساتھ جابر روایت کرتے ہیں:

قَالَ جَابِرُ: فِیْهِمْ نَزَلَتْ هٰذِهِ الآ یَةُ قَالَ جَابِرْ:اَنْفُسَنَا رَسُوْلُ اللّٰه وَعَلِیٌّ وَ ”اَبْنَاءَ نَا“ اَلحَسَنُ وَالحُسَیْنُ وَ ”نِسَاءَ نَا“ فَاطِمَةُ

جابر کہتے ہیں کہ یہ آیہ شریفہ( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْقفثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ) ان ہستیوں(یعنی حضرت محمد، علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام)کیلئے نازل ہوئی ہے۔

جابر کہتے ہیں کہ اَنْفُسَنَا سے رسول خدااور عل ی علیہ السلام اوراَبْنَآءَ نَا سي حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام اورَنِسَآءَ نَا سے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا مراد ہیں۔

۳۲

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں، جلد۱۲،صفحہ۸۰ اور اشاعت دوم، جلد۸،صفحہ۸۵۔

۲۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد۱،صفحہ۳۷۱ ، البدایہ والنہایہ ،جلد۷،ص۳۴۰،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۳۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۲،صفحہ۴۳اور کتاب تاریخ الخلفاء، صفحہ۱۶۹۔

۴۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب، باب۳۲،صفحہ۱۴۲۔

۵۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب علی علیہ السلام، حدیث۳۱۰،صفحہ۲۶۳اور۳۱۸۔

۶۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد۱،صفحہ۱۲۵، اشاعت اوّل۔

۷۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،ینابیع المودة، باب مناقب، ص۲۷۵،حدیث۱۰،ص۲۹۱

۸۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد۱،صفحہ۳۶، اشاعت دوم، صفحہ۱۹۳۔

۹۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد۳،صفحہ۱۵۰(اشاعت حیدرآباد)۔

۱۰۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں، جلد۱،صفحہ۱۶۳۔

۱۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، چوتھا باب، جلد۲،صفحہ۲۳، اشاعت اوّل۔

۱۲۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب”ما نزل من القرآن فی علی “ ، کتاب دلائل النبوة،ص ۲۹۷

۱۳۔ احمد بن حنبل، کتاب مسند، جلد۱،صفحہ۱۸۵،اشاعت مصر۔

۱۴۔ طبری اپنی تفسیر میں، جلد۳،صفحہ۱۹۲۔

۱۵۔ واحدی نیشاپوری، کتاب اسباب النزول میں، صفحہ۷۴(اشاعت انڈیا)۔

۱۶۔ آلوسی ، تفسیر ”روح المعانی“میں، جلد۳،صفحہ۱۶۷،اشاعت مصر۔

۱۷۔ علامہ قرطبی، ”الجامع الاحکام القرآن“، جلد۳،صفحہ۱۰۴، اشاعت مصر۱۹۳۶۔

۱۸۔ حافظ احمد بن حجر عسقلانی،’کتاب الاصابہ‘ ،ج۲،ص۵۰۲، اشاعت :مصطفی محمد، مصر۔

۳۳

بارہویں آیت

اللہ تعالیٰ نے علی کو ایمان کامل اورعمل صالح کے سبب دلوں کا محبوب بنادیا۔

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا )

”بہ تحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے، عنقریب خدائے رحمٰن اُن کیلئے ایک محبت قرار دے گا“۔(سورئہ مریم:آیت۹۶)

تشریح

اس آیت میں دو نکات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے:

(ا)۔ یہ آیہ شر یفہ ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ ایمان اور عمل صالح کا اثر پوری کائنات پر

چمکتا ہے اور نتیجتاً اُس کی محبوبیت کی شعاعیں تمام مخلوق کو اپنے حلقہ اثر میں لے لیتی ہیں اور وہ ذات اقدس ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو دوست رکھتی ہے اور اُن کو تمام مخلوقات کا بھی محبوب بنادیتی ہے۔

(ب)۔ اگرچہ ہر فرد ایمان لانے کے بعد عمل صالح بجالانے پر اس منزل کو پاسکتا ہے لیکن

اہل سنت اور شیعہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت سب سے پہلے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شان میں نازل ہوئی۔ حقیقت میں تمام اصحاب رسول میں سب سے پہلے جو ایمان اور عمل صالح کے نتیجہ میں عنایات خداوندی کا مستحق ٹھہرا اور جس کی محبت تمام توحید پرستوں کے دلوں میں ڈال دی گئی، وہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تھے۔

اس سلسلہ میں روایات ملاحظہ ہوں:

(ا)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَولهِ تعالٰی ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) قَالَ: اَلْمُحَبَّةُ فِی صُدُوْرِ المُومِنِینَ نَزَلَتْ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”ابن عباس ے روایت ہے کہ آپ نے اس آیت( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) کے بارے میں فرمایا کہ خدا محبت کو مومنوں کے دلوں میں جگا دیتا ہے اور یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے(اور یہ اس بات کو بیان کرتی ہے کہ خدا نے محبت علی علیہ السلام مومنوں کے دلوں میں ڈال دی ہے)۔

۳۴

(ب)۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں براء بن عاذب سے اس طرح نقل کرتے ہیں:

قَالَ رسول اللّٰه لعلی ابن ابی طالب:یَا عَلِیُّ وَ قُل، اَلّٰلهُمَّ اجْعَلْ لِیْ عِنْدَکَ عَهْداً وَاجْعَلْ لِی فِی صُدُوْرِ الْمُومِنِیْنَ مَوَدَّة، فَانْزَلَ اللّٰهُ ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) قَالَ: نَزَلَتْ فِیْ عَلِی

”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب علیہما السلام سے فرمایا:’کہو ، اے میرے اللہ! میرے لئے اپنی دوستی(محبت) قرار دے اور میرے لئے مومنوں کے دلوں میں محبت ڈال دے‘۔ اُس وقت یہ آیت( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) نازل هوئ ی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کیلئے نازل ہوئی ہے“۔

(ج)۔ حافظ حسکانی کتاب ”شواہد التنزیل“ میں اس آیت کے ضمن میں ابن حنفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:”میں نے امیر المومنین سے پوچھا کہ اس آیت( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟“

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کسی مردوزن مومن کو نہیں پاؤ گے جس کے دل میں علی اور اُن کی آل کی محبت نہ ہو(یعنی ایمان کی اہم ترین شرط علی اور اُن کی پاک آل سے محبت ہے)“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۴،صفحہ۲۸۷اور اشاعت دوم،صفحہ۳۱۵۔

۲۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب اوّل من یحبُ علیاً او یبغضہ، جلد۹،صفحہ۱۲۵۔

۳۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث ۵۰۲،جلد۱،صفحہ۳۶۵۔

۴۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، چودہواں باب، جلد۱،صفحہ۷۹۔

۵۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد۳،صفحہ۴۷۔

۳۵

۶۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، حدیث۳۷۴،صفحہ۳۲۷،اشاعت اوّل۔

۷۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۹۔

۸۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ۲۵۰اور۳۶۳۔

۹۔ طبرانی، کتاب معجم الکبیر، جلد۳،صفحہ۱۷۲(ترجمہ عبداللہ بن عباس)۔

۱۰۔ ثعلبی اپنی تفسیر کشف البیان ، جلد۲،صفحہ۴۔

تیرہویں آیت

علی تنہا اس آیت کے حکم پر عمل کرنے والے ہیں

( یٰاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰ کُمْ صَدَ قَةًط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْهَرُط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم ) ”اے ایمان لانے والو! جب تم رسول سے علیحدگی میں کچھ عرض کرنا چاہو تو اپنے اس تخلیہ سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو ، تمہارے لئے بہتر(بھی) ہے اور زیادہ پاک کرنے والا(بھی)پھر تم کو اگر یہ میسر نہ ہو تو ضرور اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے“۔(سورئہ مجادلہ:آیت۱۳)۔

تشریح

اس سے پہلے کہ اس آیہ شریفہ سے متعلق روایات نقل کی جائیں، مناسب ہوگا کہ مرحوم علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں اور دوسرے بہت سے مفسرین نے اپنی معروف کتب میں اس آیت کے شان نزول میں جو ذکر کیا ہے، اُس پر توجہ فرمائیں۔

عرب کے تقریباً سبھی اُمراء پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے تھے اور آپ سے رازونیاز کی باتیں آپ کے کان میں کرتے تھے( اس عمل سے نہ صرف پیغمبر اسلام کا قیمتی وقت ضائع ہوتا تھا بلکہ غرباء کیلئے باعث تشویش بنتا جارہا تھا یعنی اُمراء اس کو اپنا حق تصور کرنے لگے) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اور اس کے بعد والی آیت کو نازل فرمایا اور حکم دیا کہ پیغمبر اکرم کے کان میں سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ دیا جائے اور اسے مستحقین تک پہنچا دیا جائے۔ جب اُمراء، اغنیاء اور سرداروں نے یہ حکم سنا تو سرگوشی کرنے سے پرہیز کرنے لگے تو اس آیت کے بعد والی آیت نازل ہوئی(جس میں بخل کرنے پر اُن کی مذمت کی گئی اور کچھ رعایت دی گئی) اور سرگوشی کرنے کی اجازت سب کو دے دی گئی۔

۳۶

اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے جو روایات نقل کی ہیں، اُن کی بناء پر تو صرف اور صرف علی نے اس آیت پر بڑی شائستگی کے ساتھ عمل کیا اور وہی اس امتحان میں کامیاب ہوئے۔ اس سلسلہ میں دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔قٰالَ عَلِیٌّ عَلَیْهِ السَّلَام: آ یَةٌ مِّن کِتَابِ اللّٰهِ لَمْ یَعْمَلْ بِهٰا اَحَدٌ قَبْلِی وَلَا یَعْمَلْ بِهَا اَحَدٌ بَعْدِیْ، کَانَ لِیْ دِیْنَارٌ فَصَرَفْتُهُ بِعَشْرَةِ دَرٰاهِمَ فَکُنْتُ اِذَاجِعْتُ اِلَی النَّبِیْ صلّٰی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ تَصَدَّقْتُ بِدِرْهَمٍ

”حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن میں یہ ایک ایسی آیت ہے جس پر نہ مجھ سے پہلے اور نہ ہی کسی نے بعد میں عمل کیا۔ میرے پاس ایک دینار تھا جس کو میں نے دس درہموں میں تبدیل کیا اور جب بھی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی راز کی بات کرتا تو میں اس سے قبل ایک درہم صدقہ دے دیتا“۔

(ب)۔عَنْ اِبْن عَبَّاس رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ فی قَولِهِ تَعٰالٰی ( یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰ کُمْ صَدَقَةًط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْهَرُط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم ) قَالَ: اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ کَلٰامَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلّٰی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ و(اصحابُ رسولِ اللّٰه)بَخِلُوْا اَنْ یَّتَصَدِّ قُوْا قَبْلَ کَلامِه قَال:وَتَصَدَّقَ عَلَیٌّ وَلَمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ اَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غَیْرُه ۔

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس آیت یعنی

( یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَةًط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْهَرُط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم )

میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے ساتھ سرگوشی کو حرام قراردیاہے مگر یہ کہ جو چاہے وہ پہلے صدقہ دے ۔ اصحاب نے اس ضمن میں سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ دینے میں بخل سے کام لیا اور صرف علی علیہ السلام نے صدقہ دیا اور اس کام کو سوائے علی علیہ السلام کے کسی دوسرے مسلمان نے انجام نہ دیا۔

۳۷

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ فخر رازی اپنی تفسیر میں،جلد۲۹،صفحہ۲۷۱۔

۲۔ سیوطی الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۱۸۵اور اشاعت دوم صفحہ۲۰۵اور حدیث۲۵،کتاب جمع الجوامع، جلد۲،صفحہ۲۸، اشاعت اوّل۔

۳۔ حافظ حسکانی، حدیث۹۴۹، شواہد التنزیل جلد۲،صفحہ۲۳۱،۳۴۳، اشاعت اوّل۔

۴۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں جلد۴،صفحہ۳۲۶۔

۵۔ حاکم، کتاب المستدرک میں باب”کتاب التفسیر“جلد۲،صفحہ۴۸۲۔

۶۔ ابن مغازلی، مناقب امیر المومنین ، حدیث۳۷۲،۳۷۲،صفحہ۳۲۵،اشاعت اوّل۔

۷۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۶۶،جلد۱،صفحہ۳۵۸،اشاعت بیروت۔

۸۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۸،باب۲۹،صفحہ۱۳۵۔

۹۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، باب۲۷،صفحہ۱۲۷۔

۱۰۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں، جلد۲،صفحہ۴۷۶۔

۱۱۔ واحدی، کتاب اسباب النزول، صفحہ۳۰۸، اشاعت اوّل۔

۱۲۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“۔

چودہویں آیت

علی اور اُن کے شیعہ بہترین مخلوق ہیں

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )

”یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے، ساری مخلوق سے بہتروہی لوگ ہیں“۔(سورئہ بیّنہ:آیت۷)

۳۸

تشریح

یہ آیت نہایت پُرمعنی اور عظمت والی ہے اورعلی علیہ السلام اور اُن کے حقیقی ماننے والوں کے مدارج و مراتب کو بیان کرتی ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کیلئے ہم مختلف روایات جو اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے اس ضمن میں بیان کی ہیں، کی طرف رجوع کرتے ہیں، ملاحظہ ہوں:

(ا)۔ حافظ حسکانی کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں:

عَنْ ابنِ عباس رضی اللّٰه عنه قال: لَمَّا نَزَلَتْ هٰذِه الآیةُ ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ لِعَلِیٍّ علیه السَّلام هُمْ اَنْتَ وَشِیْعَتُکَ تَاتِی اَنْتَ وَشِیْعَتُکَ یَومَ القِیٰامَةِ رٰاضِیِّیْنَ مَرْضِیِّیْنَ وَیَاتِی عَدُ وُّ کَ غِضْبَاناً مُقْمِحِیْنَ

”ابن عباس سے روایت ہے ،انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )

نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمنے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ ”یا علی !اس آیت سے مراد تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔ تم اور تمہارے شیعہ قیامت کے روز میدان محشر میں اس طرح داخل ہوں گے کہ خدا تم سے اور تم خدا سے راضی ہوگے اور تمہارے دشمن پریشان حالت میں میدان محشر میں داخل ہوں گے“۔

(ب)۔ خوارزمی اس آیت کی فضیلتیں بیان کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں:

عَنْ جابر قال:کُنَّاعِنْدَالنَّبِیْ صلی اللّٰه علیه وآله وسلَّم فَأَ قْبَلَ علی ابن ابی طالب علیه السلام فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه وآله وَسلَّم قَدْأَ تٰاکُمْ اَخِی ثُمَّ اِلْتَفَتَ اِلَی الْکَعْبَةِ فَضَرَبَهٰابِیَدِه ثُمَّ قَالَ:وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِه اِنَّ هٰذَا وَشِیْعَتَهُ هُمُ الفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثُمَّ قٰالَ اِنَّه اَوَّلُکُمْ اِیْمَاناً بِاللّٰهِ وَأَوْفٰاکُمْ بِعَهْدِاللّٰهِ تَعَالٰی وَاَقْوَمُکُمْ بِاَمْرِاللّٰهِ وَاَعْدَلُکُمْ فِی الرّعِیَةِ وَاَقْسَمُکُمْ بِالسَّوِیَّةِ وَاَعْضَمُکُمْ عِنْدَاللّٰهِ مَزِیَّةً

قَالَ جابر: وَفِی ذٰلِکَ الْوَقْتِ نَزَلَتْ فِیْهِ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) قَالَ وَکَانَ اصحٰابُ النَّبِی اِذَاَقْبَلَ عَلَیْهِمْ علیٌ قَالُوْ قَدْ جَاءَ خَیْرُ البَرِیَّةِ

۳۹

”جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم پیغمبر اکرم کی خدمت میں بیٹھے تھے ۔ علی علیہ السلام ہماری طرف آرہے تھے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:’میرا بھائی تمہاری طرف آرہا ہے‘۔ پھر کعبہ کی طرف رخ مبارک کیا اور کعبہ کی دیوار پر ہاتھ لگا کر کہا:”مجھے اُس ہستی کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ شخص اور اس کے شیعہ قیامت کے روز کامیاب ہیں‘۔ بعد میں فرمایا:’خدا کی قسم! وہ تم سب سے پہلے خدا پر ایمان لانے والا ہے۔ خدا کے ساتھ عہد میں اُس کی وفا سب سے زیادہ ہے۔ خدا کے احکام کیلئے اُس کا قیام سب سے زیادہ ہے۔اُس کا عدل اپنی رعیت کے ساتھ سب سے زیادہ ہے اور تقسیم بیت المال میں اُس کی مساوات سب سے بڑھی ہوئی ہے اور اُس کا مقام نزد خدا سب سے بلند تر ہے“۔

جابر نے کہا:اس وقت خدا کی طرف سے یہ آیت

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )

رسول اکرم پر نازل ہوئی۔ اس کے بعد جب بھی علی علیہ السلام اصحاب پیغمبر کی طرف جاتے تو وہ کہتے کہ بہترین مخلوق خدا آرہے ہیں“۔

(ج)۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدرالمنثور میں درج ذیل روایت کو نقل کیا ہے:

عَنْ ابنِ مَرْدَوِیة، عَنْ علی علیه السلام قٰالَ:قٰالَ لِی رَسُوْل اللّٰهِ صلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ أَ لَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ اللّٰهِ: ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) (هم) أَنْتَ وَشِیْعَتُکَ وَمَوْعِدی وَمَوْعِدُکُمُ الحَوْضُ اِذٰاجِعْتَ الْاُمَمَ لِلْحِسَابِ تَدْعُوْنَ غُرّاً مُحَجَّلِیْنَ ۔

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا :پیغمبر اسلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا تم نے خدا کا یہ کلام

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )

سنا ہے؟ ‘ پھر فرمایاکہ’وہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔ تمہارا اور میرا مقام حوض کوثر ہے۔ جب اُمتوں کو حساب کیلئے بلایاجائے گا تو تم اس حالت میں آؤ گے کہ تمہاری پیشانی سفید ہوگی اور جانی پہچانی ہوگی“۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

چونكہ مادى آسائش كے سامان ميں سے صرف مال و اولاد كى طرف اشارہ كيا گيا ہے اس سے مندرجہ بالا نكتہ حاصل ہوتا ہے_

۷_پيغمبراكرم(ص) كو منافقين كے پاس مادى وسائل كى موجودگى پر تعجب _فلا تعجبك اموالهم و لا اولادهم

ممكن ہے آيت ميں نہى كا خطاب صرف پيغمبر اكرم(ص) كو ہويا ان سب لوگوں كوجو خدا تعالى كے مخاطب بننے كى صلاحيت ركھتے ہيں _ مندرجہ بالا نكتہ پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۸_ عصر پيغمبراكرم(ص) كے مومنين كے پاس منافقين كى نسبت مالى اور اجتماعى وسائل كى كمي_

فلا تعجبك اموالهم و لا اولادهم

منافقين كے مادى وسائل اور سامان آسائش كا رشك آور ہونا، ان كے مقابلے ميں صدر اسلام كے مومنين كى اقتصادى كمزورى اور مادى محروميت كا پتا ديتا ہے_

۹_ خدا تعالى كى طرف سے منافقين كو فراوان دنياوى وسائل كى فراہمى كا تنہا مقصد انہيں اس دنيا ميں عذاب اور پريشانى ميں مبتلا كرنا ہے_انما يريد الله ليعذبهم بها فى الحياة الدنيا

۱۰_ دنياوى عذاب دينے كے سلسلے ميں ارادہ الہى كا ظاہرى نعمتوں اور طبيعى وسائل كى فراہمى كے ذريعے عملى ہونا_

انما يريد الله ليعذبهم بها فى الحياة الدنيا

۱۱_ مال و اولاد كى كثرت بے ايمانوں كيلئے پريشانى اور رنج و الم كا باعث ہے_

فلا تعجبك اموالهم و لا اولادهم ...ليعذبهم بها فى الحياة الدنيا

۱۲_مرتے وقت منافقين كى جانوں كا سختى كے ساتھ نكلنا_و تزهق انفسهم

''تزہق'' كے مصدر ''زہوق '' كا معنى ہے سختى كے ساتھ نكلنا ( مجمع البيان ذيل آيہ )_

۱۳_ موت كے وقت اپنے اموال اور اولاد كھونے پر منافقين كى حسرت_فلا تعجبك اموالهم و لا اولادهم ليعذبهم و تزهق انفسهم

''زہوق نفس '' كا مطلب ہے تأسف اور حسرت كے نتيجے ميں جان كا نكلنا ( مفردات راغب )_

۱۴_ منافقين ايمان كے دعوى كے با وجود كفر كى حالت ميں مرتے ہيں _و تزهق انفسهم و هم كافرون

۱۵_ منافقين كى كثيراولاد اور فراوان مال موت كے وقت ان كے كفر كى طرف مائل ہونے كا پيش خيمہ _

۱۴۱

فلا تعجبك اموالهم و تزهق انفسهم و هم كافرون

۱۶_منافقين كى حسرت اور سختى كے ساتھ جان كنى اوران كا كفر پر خاتمہ، ان كے كثير مال و اولاد كا نتيجہ اور عذاب الہى كا نمونہ ہے_فلا تعجبك اموالهم يريد الله ليعذبهم بها و تزهق انفسهم و هم كفرون

۱۷_ زندگى كے آخرى لمحات تك ايمان اور حسن انجام كا محفوظ رہنا اہم چيز اور قابل توجہ نعمت ہے_

و تزهق انفسهم و هم كفرون

حالت كفر ميں مرنے كو منافقين كيلئے عذاب شمار كيا گيا ہے اس سے ايمان كى اہميت اور قدر و قيمت كا اندازہ ہوتا ہے كہ مومنين كو اموال و اولاد كى طرف توجہ كى بجائے اسكى طرف توجہ كرنى چاہيے_

۱۸_ موت، روح كے بدن سے جدا ہونے كا نام ہے نہ فنا ہونے كا _و تزهق انفسهم

''زہوق نفس'' كا معنى ہے روح كا بدن سے نكل جانا نہ اس كا فنا ہوجانا_

۱۹_امور كى قدر و قيمت كا اندازہ لگانے ميں ان كے انجام كى طرف توجہ ضرورى ہے _

فلا تعجبك اموالهم ...و تزهق انفسهم و هم كفرون

خدا تعالى كا نہى (لا تعجبك ) كى علت كے طور پر منافقين كے انجام كى طرف اشارہ كرنا مندرجہ بالا نكتے پر دلالت كرتا ہے_

۲۰_ امام صادق سے روايت كى گئي ہے :'' اياك ان تطمح نفسك الى من فوقك وكفى بما قال الله عزوجل لرسوله (ص) ''فلا تعجبك اموالهم و لا اولادهم'' ...;كہيں ايسا نہ ہو كہ دنياوى لحاظ سے اپنے سے بر تر پر نظريں لگالے اور اسكے مال و متاع كى آرزو كرنے لگے_ اس سلسلے ميں اللہ تعالى كا اپنے پيغمبر(ص) كيلئے يہى فرمان كافى ہے تجھے ان كے اموال اور اولاد اپنى طرف جذب نہ كرليں _(۱)

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۸

انجام :نيك انجام كى اہميت ۱۷

اولاد:اسكى كشش ۶; اس كا كردار ۱; كثرت اولاد كے آثار ۱۱ ،۱۵

ايمان :اسكى اہميت ۱۷

____________________

۱)كافى ج۸ ص ۱۶۸ ح ۱۸۹نورالثقلين ج۲ ص ۲۲۷ ح ۱۸۵_

۱۴۲

ثروت :اسكے آثار ۱

خدا تعالى :اس كا ارادہ ۱۰; اس كا عذاب ۱۶; اسكى نصيحت ۲۰; اس كے عطيے ۹; اسكے نواہى ۴

خدا تعالى كى سنتيں :اسكى بالتدريج والى سنت ۹ ، ۱۰

روايت ۴

روح:اسكا باقى رہنا ۱۸

زہد :اسكى اہميت ۲۰

سعادت :اس كے عوامل ۱

عاقبت انديشى :اسكى اہميت ۱۹

عذاب:دنيوى عذاب كا ذريعہ ۱۰

قدر و قيمت كا اندازہ لگانا:

اسكا معيار ۱۹

كفار:ان كے عذاب كا ذريعہ ۱۱

كفر :اس كا پيش خيمہ۱۵

مادى وسائل :انكى كشش ۵

مال:اسكى كشش ۶;كثرت مال كے آثار ۱۱ ،۱۵

منافقين :انكا انجام ۲; انكا دنيوى عذاب ۹; انكا عذاب ۱۶; انكا كفر ۱۴،۱۵،۱۶; انكى آسائش پر تعجب ۴; انكى اولاد ۱۵; انكى اولاد كا بے قدرو قيمت ہونا ۲; انكى اولاد كى كثرت ۱۵،۱۶; انكى پليدگى ۷;انكى ثروت ۱۵،۱۶; انكى جان كنى كا سخت ہونا ۱۲،۱۶;انكى حالت جان كنى ۱۳; انكى حسرت ۱۳،۱۶;انكى روح قبض كرنا ۱۲; انكى موت ۱۴; ان كے اموال كا بے قدر و قيمت ہونا ۲; ان كے دعوے۱۴; ان كے مادى وسائل كا فلسفہ ۹; صدر اسلام كے منافقين كے مادى وسائل ۳،۸

موت:اس كى حقيقت ۱۸; كفر پر مرنا ۱۴;كفر پر مرنے كا سبب ۱۵

مومنين :انكا عقيدہ ۲ ; انكے تمايلات ۵;صدر اسلام كے مومنين كے مادى وسائل ۷

۱۴۳

آیت ۵۶

( وَيَحْلِفُونَ بِاللّهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ وَلَـكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ )

اور يہ اللہ كى قسم كھا تے ہيں كہ يہ تمھيں ميں سے ہيں حالا نكہ يہ تم ميں سے نہيں ہيں يہ لوگ بزدل لوگ ہيں _

۱_ صدر اسلام كے منافقين كا اپنے ايمان اور مومنين كے ساتھ ہونے كو ثابت كرنے كيلئے خدا تعالى كى جھوٹى قسم كھانا _

و يحلفون بالله انهم لمنكم

۲_ مومنين كا صدر اسلام كے منافقين كى زندگى ميں ، كفر و نفاق كى بعض نشانيوں كا مشاہدہ كرنا _و يحلفون بالله انهم لمنكم

واضح ہے كہ سچے مومنين كو قسم كھانے كى ضرورت نہيں ہے كيونكہ ان كے بارے ميں بدگمانى نہيں ہے اور منافقين كو جس چيز نے قسم كھانے پر مجبور كيا وہ ايسى نشانياں ہيں جو ان كے بارے ميں بدگمانى كا سبب بنيں _

۳_ خدا تعالى كى طرف سے منافقين كے ايمان كى واضح نفي_و ما هم منكم

۴_ منافقين كو ملت مسلمہ سے الگ شمار كرنا ضرورى ہے_و ما هم منكم

۵_ خدا تعالى كى طرف سے مومنين كيلئے صدر اسلام كے منافقين كے چہروں سے پردہ اٹھانا اور انكى پليد فطرت كو افشاء كرنا_و يحلفون بالله انهم لمنكم و ما هم منكم

۶_ منافقين كى حقيقت كى طرف توجہ اور ان كے مكرو فريب كى شناخت ضرورى ہے_و يحلفون بالله انهم لمنكم و ما هم منكم

۷_ منافقين اندرونى خوف و اضطراب ميں گرفتار _و لكنهم قوم يفرقون

( يفرقون) كے مصدر ''فرق ''كا معنى ہے شديد خوف اور پريشانى يعنى منافقين شديد خوف اور اضطراب كى حالت سے گزر رہے ہيں _ قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت اسى مطلب كا مفصل بيان ہے_

۱۴۴

۸_ منافقين كا مومنين سے خوفزدہ ہونا انكے اپنے آپ كو مومن ظاہر كرنے كا سبب ہے_

و يحلفون بالله انهم لمنكم و لكنهم قوم يفرقون

۹_ مدينہ كے مومنين ، منافقين كے مقابلے ميں زيادہ قدرت اور شوكت ركھتے تھے_

و يحلفون بالله انهم لمنكم ...و لكنهم قوم يفرقون

منافقين كا خوفزدہ ہونا اور انكا اپنے آپ كو مومن ظاہر كرنے كى كوشش كرنا مومنين كى قدرت و شوكت كى علامت ہے_

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۲،۹

ايمان:اپنے كو مومن ظاہر كرنے كے عوامل ۸

خدا تعالى :اسكا افشاء كرنا ۵

خوف:اسكے آثار۸

قسم:خدا كى قسم ۱

منافقين :انكا اضطراب ۷; انكا بيگانہ ہونا ۴; انكا پليد ہونا ۵; انكا خوف ۷،۸; انكا كفر۳;انكا مكر ۶; انكى تشخيص كى اہميت ۶;ان كے ساتھ سلوك كرنے كى روش ۴;صدر اسلام كے منافقين كا جھوٹ بولنا ۱;صدر اسلام كے منافقين كا كفر ۲;صدر اسلام كے منافقين كو افشا كرنا ۵;صدر اسلام كے منافقين كى علامتيں ۲; صدر اسلام كے منافقين كى قسم ۱; يہ اور مسلمان ۴; يہ اور مومنين ۱; يہ مدينہ ميں ۹

َمومنين :مدينے كے مومنين كى قدرت ۹

آیت ۵۷

( لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلاً لَّوَلَّوْاْ إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ )

ان كو كوئي پناہ گاہ يا غار يا گھس بيٹھنے كى جگہ مل جائے تو اس كى طرف بے تحاشہ بھاگ جائيں گے_

۱_ ( جنگ تبوك كے بعد) اگر منافقين كو كوئي پناہ گاہ ،غار يا چھپنے كيلئے سوراخ مل جائے تو يہ اسلامى معاشرے سے فورى طور پر نكل جانے كيلئے تيار ہيں _لو يجدون ملجا او مغرت او مد خلا لو لوا اليه

''ملجأ'' كامعنى ہے پناہگاہ اور مغارات جمع ہے مغارہ كى يعنى غار اور مدخل اس گڑھے يا سوراخ كو كہا جاتا ہے جس ميں چھپا جاسكے _

۱۴۵

۲_ صد ر اسلام كے منافقين كيلئے معاشرہ سے فرار كا ممكن نہ ہونا ان كے اپنے آپ كو مومن ظاہر كرنے كيلئے قسميں كھانے كا عامل بنا_و يحلفون بالله انهم لمنكم ...لو يجدون ملجا ...لو لوا اليه

۳_ منافقين كى اسلام كے ساتھ سخت دشمنى اور انہيں اسلامى معاشرے سے شديد نفرت _

لو يجدون ملجأ او مغرات او مدخلا لو لّوا اليه

۴_ صدر اسلام كے منافقين اغيار كے يہاں پناہ لينے ، دور افتادہ جگہوں كى طرف فرار كر جانے اور خفيہ مقامات ميں زندگى گزارنے كے درپے تھے_لو يجدون ملجأ او مغرات او مدّخلا لو لّوا اليه

يہ كلمات '' ملجأ ، مغرت اور مدّخل '' ہوسكتا ہے مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو ں _

۵_ اسلامى معاشرے كا ماحول بہت سخت ، دشوار اورمنافقين كيلئے نا قابل تحمل _لو يجدون ملجا ً لو لّوا اليه و هم يجمحون

( يجمحون) كے مصدر ''جموح'' كامعنى ہے سرعت سے بھاگنا اور پيچھے مڑ كر بھى نہ ديكھنا _ اور يہ كہ اگر منافقين كو كوئي پناہگاہ ملتى تو وہ بے خطر اور بغير اسكے كہ پيچھے مڑكے ديكھيں اس ميں پناہ لے ليتے بتا تا ہے كہ ان كيلئے اسلامى معاشرے ميں زندگى گزارنا بہت دشوار اور پريشان كن تھا _

۶_ مال و اولاد كى فراوانى كے باوحود اسلامى معاشرے ميں منافقين كا رنج و اضطراب انكے دنياوى عذاب كا ايك نمونہ _*

فلا تعجبك اموالهم و لا اولادهم انما يريد الله ليعذبهم بها فى الحى وة الدنيا ...لو يجدون ملجا و هم يجمحون

مندرجہ بالا نكتہ اس احتمال كى بنا پر ہے كہ منافقين كى دشوار زندگى كا بيان ان كے اس دنياوى عذاب كا ايك نمونہ ہو جس كا ذكر سابقہ آيات ميں ہو چكا ہے_

۷_ منافقين كا ( اسلامى ماحول سے باہر ) پناہگاہ اور زندگى گزارنے كيلئے مناسب مقام تلاش كرنے كيلئے شديد كوشش كرنا انكى بے ايمانى اور مومنين كے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے كى دليل ہے _

و ما هم منكم ...لو يجدون ملجا ...لو لّوا اليه وهم يجمحون

جملہ '' لو يجدون '' ہو سكتا ہے '' وما ہم منكم '' كہ جو سابقہ آيت ميں تھا ،كى دليل اور شاہد كے طور پر ہو _

۱۴۶

اسلام :اسلام كے دشمن ۳;صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۴

عذاب :دنيوى عذاب ۶

غزوہ تبوك :اسكے بعد منافقين

منافقين :انكا اسلامى معاشرے سے فرار ۷;انكا اضطراب ۶;انكا پناہگاہ تلاش كرنا ۱،۷; انكا دنيوى عذاب ۶; انكى بے ايمانى كے دلائل ۷;انكى جھوٹى قسم ۲;انكى دشمنى ۳; انكى كوشش ۷; انكے مادى وسائل ۶; صدر اسلام كے منافقين كا پناہ تلاش كرنا ۴; صدر اسلام كے منافقين كا نفاق ۲ ;صدر اسلام كے منافقين كے جھوٹ بولنے كے عوامل ۲; يہ اور اسلامى معاشرہ ۵،۶;يہ اور مسلمان ۳;يہ اور مومنين ۷

منافقين مدينہ :۱

آیت ۵۸

( وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُواْ مِنْهَا رَضُواْ وَإِن لَّمْ يُعْطَوْاْ مِنهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ )

اور انھيں ميں سے وہ بھى ہيں جو خيرات كے بارے ميں الزام لگاتے ہيں كہ انھيں كچھ مل جائے تو راضى ہو جائيں گے او نہ ديا جگائے وہ تو ناراض ہو جائيں گے_

۱_ صدقات تقسيم كرنے كے سلسلے ميں بعض منافقين كى طرف سے پيغمبر اكرم(ص) پر طعن اورنكتہ چيني_

و منهم من يلمزك فى ا/لصدقات

''يلمز '' كے مصدر'' لمز ''كا معنى ہے نكتہ چينى كرنا اور عيب لگانا _

۲_ منافقين كا پيغمبر اكرم(ص) كى عدالت كے بارے ميں شكوك پيدا كرنا _و منهم من يلمزك فى الصدقات

صدقات كے سلسلے ميں منافقين كا پيغمبر (ص) كى عيب جوئي كرنے اور آپ(ص) پر تنقيد كرنے كامطلب ہے آپكى (ص) عدالت كے بارے ميں شكوك پيدا كرنا _

۳_ بعض منافقين كا پيغمبراكرم (ص) كے ساتھ گستاخانہ اور غير مؤدب رويہ_و منهم من يلمزك فى الصدقات

۴_ اسلامى معاشرے كے راہنما عادل ہونے كے باوجود منافقين كى عيب جوئي كانشانہ ہيں _و منهم من يلمزك فى الصدقات

۱۴۷

جب پيغمبراكرم(ص) اپنى اس عدالت اور پاكيزگى كے باوجود منافقين كے طعن اور اعتراض كا نشانہ بنے تو دوسرے بھى بلا شك ان كى عيب جوئي سے محفوظ نہيں رہيں گے _

۵_اسلامى معاشرے كا اقتصادى اور مالى نظام (صدقات كى تقسيم ، اس پر نظارت و غيرہ) پيغمبراكرم (ص) كے اختيار ميں ہے _و منهم من يلمزك فى الصدقات

۶_ اسلامى معاشرے كا مالى اور اقتصادى نظام رہبر كے اختيار ميں ہے _و منهم من يلمزك فى الصدقات

۷_منافقين صرف صدقات ( بيت المال كے اموال ) مل جانے كى صورت ميں خوش تھے چاہے وہ ناحق ہى ہوں ورنہ وہ ناخوش تھے_فان اعطوا منها رضوا و ان لم يعطوا منها اذا هم يسخطون

۸_ منافقين كے پيغمبراكرم(ص) كے بارے ميں فيصلہ كرنے كا معيار اور آنحضرت (ص) پر طعن و تشنيع كرنے كا عامل ان كے ذاتى مفادات تھے_و منهم من يلمزك فى الصدقات فان اعطوا منها رضوا

۹_ منافقين مفاد پرست ، بے انصاف اور خود پسند لوگ_و منهم من يلمزك فى الصدقات و ان لم يعطوا منها اذا هم يسخطون

۱۰_ منافقين كى باتوں اور نظريات كے تجزيہ و تحليل كرنے كيلئے ان كے اندرونى ارادوں اور ذاتى ترجيحات كو واضح كرنا ضرورى ہے_و منهم من يلمزك فى الصدقات اذا هم يسخطون

مندرجہ بالا مطلب كا استفادہ اس بات سے ہوتا ہے كہ خداتعالى نے منافقين كے فيصلہ كے نادرست ہونے كو بيان كرنے كيلئے ان كے مادى اہداف كا ذكر كيا ہے_

۱۱_ اسحاق بن غالب كہتے ہيں امام صادق (ع) نے فرمايا :''كم ترى اهل هذه الآية ''''ان اعطوا منها رضوا و ان لم يعطوا منها اذا هم يسخطون '' قال :ثم قال: هم اكثر من ثلثى الناس'' ; اے اسحاق تيرى نظر ميں كتنے لوگ اس آيت ( اگر انہيں صدقات ديئے جائيں تو خوش ہيں اور اگر نہ ديئے جائيں تو ناراض ہيں ) كے مصداق ہيں ؟ اسحاق كہتے ہيں پھر امام (ع) نے فرمايا :ايسے لوگ دوتہائي سے زيادہ ہيں _(۱)

____________________

۱)كافى ج ۲ ص ۴۱۲ ح ۴_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۲۸ ح ۱۸۸_

۱۴۸

آنحضرت(ص) :آپ (ص) كے اختيارات ۵; آپكى (ص) عيب جوئي ۱،۸

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱،۳

اقتصاد:اقتصادى نظام كا ذمہ دار ۵،۶

دينى راہنما :ان كے اختيارات ۶

روايت ۱۱

صدقات :انكى تقسيم ۵

لوگ :انكى اكثريت ۱۱

منافقين :انكا راضى ہونا ۷; انكا ناخوش ہونا ۷;انكى بے ادبى ۳; انكى بے انصافى ۹;انكى پسند ۷; انكى خودپسندى ۹;انكى عيب جوئي ۱،۴;انكى عيب جوئي كے عوامل ۸ ; انكى فكر كى تحليل ۱۰;انكى مفاد پرستى ۹;انكى مال دوستى ۷;ان كے اہداف ۱۰; ان كے ذاتى مفادات ۸; ان كے رذائل ۹; ان كے سلوك كى روش ۳،۴; ان كے فيصلہ كا معيار ۸; يہ اور حضرت محمد (ص) ۱،۳،۸ ; يہ اور حضرت محمد(ص) كى عدالت ۲;يہ اور دينى راہنما ۴

آیت ۵۹

( وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ )

حالا نكہ اے كاش يہ خدا و روسول كے دئے ہوئے پر راضى ہو جاتے اور يہ كہتے كہ ہمارے لئے اللہ ہى كافى ہے عنقريب وہ اور اس كا رسول اپنے فضل و احسان سے عطا كرديں گے اور ہم تو صرف اللہ كى طر ف رغبت ركھنے والے ہيں _

۱_خدا و رسول كى عطا پر راضى ہونا اور اپنے حق سے زيادہ كى طمع نہ كرنا ضرورى ہے_

و لو انهم رضوا ما آتاهم الله و رسوله

۲_ بعض مسلمانوں ( منافقين ) كا بيت المال سے اپنے حصے پر راضى نہ ہونا _و لو انهم رضوا ما آتاهم الله و رسوله

۱۴۹

۳_ خدا تعالى كى طرف سے مسلمانوں كے درميان صدقات تقسيم كرنے كے سلسلے ميں پيغمبراكرم (ص) كى واضح حمايت_

و لو انهم رضوا ما آتاهم الله و رسوله

۴_ بيت المال كو تقسيم كرنے كے سلسلے ميں فيصلے كرنے كا حق پيغمبراكرم(ص) كو تھا _ما آتاهم الله و رسوله

۵_ مالى اور اقتصادى امور ميں فيصلے كرنے كا اختيار اسلامى معاشرے كے رہبر كو ہے _ما آتاهم الله و رسوله

۶_ انسان كے لئے خداتعالى پر توكل كرنے اور اپنى ضروريات كے پورا ہونے ميں اسے كافى سمجھنے كى ضرورت _

و لو انهم و قالوا حسبنا الله

۷_ سچے مومنين خدا و پيغمبراكرم(ص) كے فضل و عطا كے اميدوار ہيں _سيو تينا الله من فضله و رسوله

۸_ انسان كا خداتعالى پر توكل كرنا اور اپنى ضروريات كے پورا ہونے ميں اسے كافى سمجھنا خداتعالى كے فضل و عطا كے ملنے كا پيش خيمہ ہے _و قالوا حسبنا الله سيو تينا الله من فضله

خداتعالى كا اپنے فضل كى اميدوارى كو بيان كرنے سے پہلے توكل ( حسبنا الله ) كو ذكر كرنا مندرجہ بالا نكتہ پر دلالت كرتا ہے _

۹_ خدا تعالى كا وعدہ كہ توكل كرنے والے اس كا فضل و عطا پاليں گے_و قالوا حسبنا الله سيؤتينا الله من فضله

خداتعالى انسان كو تعليم دے رہا ہے اور بلاشك خداتعالى انسان كو جو تعليم دے وہ واقع كے مطابق اور سچ ہے _ اس كا مطلب يہ ہے كہ جملہ ''سيوئتينا '' توكل كرنے والوں كيلئے الله تعالى كى عطا كو بيان كررہا ہے

۱۰_ سچے مومنين كا شوق و رغبت صرف خداتعالى كى طرف ہے _انا الى الله راغبون

'' الى الله '' كا تعلق '' راغبون'' كے ساتھ ہے اور اسكا '' راغبون'' پر مقدم كرنا آيات كے فاصلے كو محفوظ كرنے كے ساتھ ساتھ ہو سكتا ہے حصر كو بيان كرنے كيلئے ہو_

۱۱_ خداتعالى كى عطا پر راضى ہونا اور اس كے فضل كى اميد ركھنے كا سرچشمہ انسان كا واقعا خداتعالى كى طرف راغب اور مائل ہونا ہے _و لو انهم رضوا ما آتاهم الله انا الى الله راغبون

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ جملہ '' انا الى الله راغبون '' سابقہ جملے كى علت ہو _

۲_انسان كا خداتعالى كى عطا پر راضى نہ ہونا اسكے

۱۵۰

خداتعالى كى طرف راغب نہ ہونے كى علامت ہے_و لو انهم رضوا ماء آتاهم الله انا الى الله راغبون

اقتصاد :اقتصادى فيصلوں كا ذمہ دار۴،۵

اميدوارى :پيغمبر(ص) كے فضل كى اميد وارى ۷;خدا تعالى كى عطا كى اميدوارى ۷; خدا تعالى كے فضل كى اميدوارى ۷،۱۱

انسان:اس كے تمايلات ۱۱

بيت المال :اسكى تقسيم ۴

توحيد:توحيد افعالى كے آثار ۸

توكل:خدا پر توكل كى اہميت ۶;خدا پر توكل كے آثار ۸

توكل كرنے والے:ان پر فضل ۹; ان كے ساتھ وعدہ ۹

خدا تعالى :اس كا كافى ہونا ۶،۸; اسكى رضا۳; اس كى طرف بے رغبتى كى علامتيں ۱۲;اسكى عطا پر راضى نہ ہونا ۱۲ ; اسكى عطا پر راضى ہونا ۱،۱۱;اسكى عطا كا پيش خيمہ۸; اس كے فضل كا پيش خيمہ۸; اسكے وعدے ۹

خدا تعالى كى عطائيں :اسكے مستحقين ۹

دينى راہنما:ان كے اختيارات ۵

رغبت:خدا تعالى كى طرف رغبت كے آثار ۱۱

ضروريات:ان كے پورا ہونے كا سرچشمہ ۸

طمع:اس سے اجتناب ۱

فضل خدا:اسكے مستحقين ۹

محمد(ص) :آپ(ص) اور بيت المال ۴; آپ (ص) اور صدقات كى تقسيم ۳; آپ(ص) كى حمايت ۳; آپ (ص) كى عطا پر راضى ہونا ۱; آپ (ص) كے اختيار ات ۴

منافقين :انكا راضى نہ ہونا ۲;يہ اور بيت المال ۲

مومنين :انكى اميداورى ۷; انكى توحيد ۱۰; انكى رغبت ۱۰

۱۵۱

آیت ۶۰

( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )

صدقات و خيرات بس فقراء ، مساكين اور ان كے كام كرنے والے اور جن كى تاليف قلب كى جاتى ہے اورغلاموں كى گردن كى آزادى ميں اور قرضداروں كے لئے اورراہ خدا ميں اورغربت زدہ مسافروں كے لئے ہيں يہ اللہ كى رف سے فريضہ ہے اور اللہ خوب جاننے والا اور حكمت والا ہے_

۱_ صدقات و زكات ، فقرا ( حاجتمندلوگ) مساكين (تہى دست لوگ) اور صدقات كے امور كو انجام دينے والوں كو دينا ضرورى ہيں _انما الصدقت للفقراء و المساكين و العاملين عليه

۲_ صدقات كو ، تاليف قلوب ، غلاموں كى آزادى ، مقروضوں كا قرض ادا كرنے ،راہ خدا ميں اور سفر ميں پھنسے ہوؤں كيلئے خرچ كرنا واجب ہے_انما الصدقات و المؤلفة قلوبهم و فى الرقاب و الغارمين و فى سبيل الله و ابن السبيل

۳_ اسلام كى طرف سے معاشرہ كى اقتصادى ضروريات اور انكو پورا كرنے كى طرف توجہ _

انما الصدقات للفقراء و ابن السبيل

۴_ صدقات ( زكات ) كو آٹھ موارد ( فقراو ...) كے علاوہ خرچ كرنا ممنوع ہے_انما الصدقات للفقراء و ابن السبيل

آيت شريفہ صدقات خرچ كرنے كے موارد بيان كر رہى ہے اور اس ميں كلمہ''انما'' جو حصر كا فائدہ ديتا ہے، كا استعمال دلالت كرتا ہے كہ آيت شريفہ ميں بيان كئے گئے آٹھ موارد كے علاوہ صدقات خرچ كرنا ممنوع ہے_

۵_ صدر اسلام كے منافقين كا مستحق نہ ہونے كے باوجود صدقات پر نظريں لگانا_

و منهم من يلمزك فى الصدقات فان اعطوا منها رضوا انما الصدقات للفقراء و ابن السبيل

۶_ منافقين كا غلط تصور كہ صدقات كى تقسيم كا كوئي معيار نہيں ہے اور اس كا دار و مدارپيغمبر اكرم (ص) كى پسندپرہے_

و منهم من يلمزك فى الصدقات انما الصدقات للفقراء و المساكين و ابن السبيل

عيب جوئي كرنے والے منافقين كو مسترد كرتے ہوئے خدا تعالى كا زكات خرچ كرنے كے موارد كو معين كرنا اس بات كى غمازى كرتا ہے كہ منافقين كا خيال يہ تھا كہ پيغمبر اكرم(ص) اس كام كو بغير كسى معيار كے اپنى مرضى كے مطابق انجام ديتے ہيں _

۱۵۲

۷_ فقرا ، مساكين، صدقات كے امور انجام دينے والے اور مؤلفةا لقلوب ، صدقات ميں سے اپنے حصے كے مالك ہيں _

انما الصدقات للفقرائ و المؤلفة قلوبهم

مندرجہ بالا نكتہ '' للفقرائ'' كے لام كى وجہ سے ہے جو ملكيت كا فائدہ ديتا ہے _

۸_ پيغمبراكرم (ص) كے زمانے ميں صدقات اكٹھے كرنے والے كارندوں كا وجود_انما الصدقات للفقراء و العاملين عليه

۹_ صدقات اكٹھا كرنا ، انہيں تقسيم كرنا اور اس كيلئے كارندوں كو معين كرنا اسلامى حكومت كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_

انما الصدقات للفقراء والعاملين عليه

مندرجہ بالا نكتہ اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ زكات جمع كرنے والے پيغمبر اكرم(ص) كى اجازت اور آپكے معين كرنے پر يہ كا م كرتے تھے_

۱۰_ حكومتى كارندے اور اسلامى معاشرے كى خدمت كرنے والے لوگ اپنے كام كى اجرت لينے كے حقدار ہيں _

انما الصدقات للفقراء و العاملين عليه

مندرجہ بالا نكتہ اس احتمال كى بنا پر ہے كہ كام كى اجرت كا مستحق ہونا صرف صدقات جمع كرنے والوں كيلئے نہ ہو بلكہ سب حكومتى كارندے اسكے مستحق ہوں _

۱۱_ كام كى قدر و قيمت ہے اور كام كرنے والے اپنے كام كے مقابلے ميں مزدورى كے مستحق ہيں _و العالمين عليه

مندرجہ بالا نكتہ اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ صدقات كا ايك حصہ اسكے امور انجام دينے والوں كيلئے قرار ديا گيا ہے اور يہ حصہ ان كے كام كے مقابلے ميں ہے، چاہے وہ اسكے ضرورتمند ہوں يا نہ _

۱۲_ اسلام كى بنا زيادہ سے زيادہ لوگوں كو جذب كرنے اور ان كے دلوں كو دين حق كى طرف مائل كرنے پر ہے_

انما الصدقات للفقرائ و المؤلفة قلوبهم

۱۳_ قلوب كو جذب كرنے اوران كو اسلام كى طرف مائل كرنے كيلئے اقتصادى وسائل سے استفادہ كرنا اسلامى حكومت كى ذمہ دارى ہے_انما الصدقات للفقرائ ...و المؤلفة قلوبهم

صدقات كا حكومت كے اختيار ميں ہونا اور خدا تعالى كا تاليف قلوب كو زكات كا ايك مصرف قرار دينا مندرجہ بالا نكتہ پر دلالت كرتا ہے_

۱۵۳

۱۴_ بعض انسانوں كے اجتماعى اور فكرى موقف اپنانے ميں اقتصادى كمك كى تاثير_و المؤلفة قلوبهم

مادى كمك كے ذريعے كمزور ايمان يا مخالفين كى دلجوئي كا مقصد ہو سكتا ہے انہيں اعتقادى لحاظ سے حق كى طرف مائل كرنا ہو يا كم از كم يہ كہ اجتماعى موقف اپناتے وقت اسلام كى حمايت كريں _

۱۵_ زيادہ سے زيادہ غلاموں كو آزاد كرانے كيلئے اسلام كى مسلسل اور سخت كوشش_انما الصدقات للفقرائ و فى الرقاب

صدقات كے ايك حصے كو غلاموں كى آزادى كيلئے مختص كرنا مندرجہ بالا نكتہ پر دلالت كرتا ہے_

۱۶_غلاموں ، مقروض لوگوں ، راہ خدا ميں اور مجبور مسافروں كيلئے صدقات كا خرچ كرنا صرف انكى حاجت روائي كيلئے ہے نہ انكى ملكيت ميں دينے كيلئے _و فى الرقاب و ابن السبيل

آخرى چار موارد ميں لام ملكيت كى بجائے ''في'' كا استعمال كہ جو صدقات خرچ كرنے كے مقامات كو بيان كر رہا ہے، مندرجہ بالا نكتے پر دلالت كرتا ہے_

۱۷_خدا تعالى عليم ( بہت جاننے والا ) اور حكيم ( حكمت والا) ہے_و الله عليم حكيم

۱۸_ خدا كا علم ، حكمت كے ساتھ آميختہ ہے_و الله عليم حكيم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ حكيم ، عليم كى صفت ہونہ دوسرى خبر_

۱۹_ خدا تعالى كى طرف سے زكات كے مصارف كے آٹھ موارد ( فقرا و غيرہ) ميں منحصر ہونے كا سرچشمہ اس كا علم و حكمت ہے_انما الصدقات للفقراء و الله عليم حكيم

۲۰_ امام صادق (ع) سے اللہ تعالى كے فرمان '' انما الصدقات ...'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ نے فرمايا:''ان جعلتها فيهم جميعاً وان جعلتها لواحد اجزء عنك ; صدقات كو چاہے آٹھ مقامات ميں خرچ كريں يا ايك ميں ہى خرچ كرديں كافى ہے _(۱)

____________________

۱)تفسير عياشى ج ۲ ص ۹۰ ح ۶۷ _ تفسير برہان ج ۲ ص ۱۳۶ ح ۸_

۱۵۴

۲۱_ امام صادق سے روايت كى گئي ہے كہ آپ نے فرمايا: ''الفقراء هم الذين لا يسألون و عليهم مؤنات من عيالهم ...والمساكين هم اهل الزمانة من العميان والعرجان والمجذومين وجميع الا صناف الزمنى ...;فقرا وہ لوگ ہيں جو كمك كى درخواست نہيں كرتے با وجود اس كے كہ اہل خانہ كا خرچ ان كے ذمہ ہے اور مساكين معذور لوگ ہيں جيسے نابينے ، لنگڑے ، جذام زدہ اور ديگر آفت زدہ لوگ _(۱)

۲۲_ زرادة كہتے ہيں ميں نے امام باقر (ع) سے مؤلفة القلوب كے بارے ميں سوال كيا تو آپ نے فرمايا:'' هم قوم وّحودوا الله عزوجل وخلعوا عبادة من يعبد من دون الله و شهدوا ان لا اله الا الله وان محمداً (ص) رسول الله وهم فى ذلك شكاك فى بعض ما جاء به محمد (ص) فامر الله عزوجل نبيه ان يتالفهم بالمال و العطاء لكى يحسن اسلامهم ويثبتوا على دينهم الذى دخلو فيه واقرّوا به ...;يہ وہ لوگ ہيں جو خدا تعالى كى وحدانيت كو قبول كرچكے ہيں اور غير خدا كى عبادت نہيں كرتے اور خدا تعالى كى وحدانيت اور محمد(ص) كى رسالت كى گواہى ديتے ہيں ليكن اس كے باوجود پيغمبر (ص) كى لائي ہوئي بعض چيزوں ميں شك كرتے ہيں _لذا خدا تعالى نے اپنے پيغمبر (ص) كى ڈيوٹى لگائي كہ مال و عطا كے ذريعے ان كے دلوں كو الفت بخشيں تا كہ انكا عقيدہ اسلام بہتر ہوجائے اورجس دين ميں يہ وارد ہوچكے ہيں اور جسے يہ لوگ قبول كرچكے ہيں اس پر ثابت قدم رہيں _(۲)

۲۳_زرارة كہتے ہيں ميں نے امام صادق سے عرض كيا اگر غلام زنا كرے ؟ تو آپ نے فرمايا:''يجلد نصف الحد قلت: فهل يجب عليه الرجم فى شيء من فعله فقال نعم يقتل فى الثامنة ...ثم قال: على امام المسلمين ان يدفع ثمنه الى مولاه من سهم الرقاب ; اس پر آدھى حد جارى كى جائيگى _ ميں نے كہا كيا اسكے كسى گنا ہ كى وجہ سے اسے سنگسار كرنا واجب ہے؟ تو فرمايا ہاں آٹھويں مرتبہ زنا كرنے پر قتل كيا جائيگا پھر فرمايا : مسلمانوں كے امام كى ذمہ دارى ہے كہ غلاموں والے حصے سے اسكى قيمت اسكے مالك كو ادا كرے(۳)

۲۴_ اما م صادق(ع) سے روايت ہے كہ پيغمبر(ص) نے فرمايا:''ايما مؤمن او مسلم مات وترك ديناً لم يكن فى فساد ولا اسراف فعلى الامام ان يقضيه ...هو من الغارمين وله سهم عند الامام ..; اگر كوئي مومن يا مسلمان

____________________

۱)تفسير قمى ج ۱ ص ۲۹۸ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۳۰ ح ۱۹۵_

۲)كافى ج ۲ ص ۴۱۱ ح ۲ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۳۱ ح ۱۹۸_

۳)تفسير عياشى ج ۲ ص ۹۴ ح ۷۷_ تفسير برہان ج۲ ص۱۳۸ح ۱۹_

۱۵۵

فوت ہو جائے اور اس پر قرض ہو كہ جسے اس نے برى جگہ پر خرچ نہ كيا ہو اور فضول خرچى بھى نہ كى ہو تو امام كى ذمہ دارى ہے كہ اسے ادا كرے يہ مقروض '' غارمين'' ميں سے ہے اور امام كے يہاں اس كا ايك حصہ ہے_(۱)

۲۵_ عبدا الرحمن بن حجاج كہتے ہيں :''ان محمد بن خالد سا ل ابا عبدالله عن الصدقات قال: اقسمها فيمن قال الله: ولا يعطى من سهم الغارمين الذين ينادون نداء الجاهلية قلت: وما نداء الجاهلية؟ قال: الرجل يقول : يا آل بنى فلان فيقع فيهم القتل والدماء فلا يؤدى ذلك من سهم الغارمين و الذين يغرمون مهور النساء ...و لا الذين لا يبالون بما صنعوا من اموال الناس ; محمد بن خالد نے امام صادق(ع) سے صدقات كے خرچ كرنے كے بارے ميں سوال كيا توفرمايا اسے ان لوگوں كے درميان تقسيم كرو جنكے بارے ميں خدا تعالى نے فرمايا ہے ليكن مقروض لوگوں كے حصے سے ان لوگوں كو كچھ نہيں ديا جائيگا جو زمانہ جاہليت والى آواز يں لگاتے ہيں _ ميں نے پوچھا جاہليت والى آوازيں كيا تھيں تو فرمايا ايك شخص آواز ديتا اے فلان قبيلے والو ( اور اپنے قبيلے كو مدد كيلئے پكارتا) اور انكے درميان كشت وكشتار اور خونى جنگ شروع ہو جاتى يہ نقصانات ، مقروض لوگوں كے حصے سے ادا نہيں كئے جائيں گے نيز عورتوں كے مہر كى بابت لوگوں كا قرض اور ان لوگوں كا قرض كہ جو لوگوں كے اموال خرچ كرنے ميں بے باك ہيں ( اس حصے سے ادا نہيں كئے جائيں گے)(۲)

۲۶_ اما م صادق(ع) سے روايت ہے:''ان ا ناساً من بنى هاشم اتوا رسول الله(ص) فسا لوه ا ن يستعملهم على صدقات المواشى وقالوا: يكون لنا هذا السهم الذى جعله الله للعاملين عليها فنحن ا ولى به فقال رسول الله(ص) يا بنى عبدالمطلب ان الصدقة لا تحل لى ولا لكم .;كہ بنى ہاشم كے كچھ لوگ پيغمبراكرم (ص) كى خدمت ميں آئے اور عرض كيا ہميں چوپايوں كى زكات جمع كرنے كى ذمہ دارى سونپ ديجئے تا كہ يوں خداتعالى نے صدقات جمع كرنے والوں كيلئے جو ايك حصہ مختص كيا ہے ہميں مل سكے اور ہم اسكے زيادہ حقدار ہيں تو پيغمبر (ص) نے فرمايا: اے فرزندان عبدالمطلب ميرے اور تمہارے لئے صدقہ حلال نہيں ہے _(۳)

۲۷_ ابن عباس سے روايت ہے:''فرض رسول الله (ص) الصدقة فى الذهب والورق والابل والبقر والغنم والزرع والكرم

____________________

۱)كافى ج ۱ ص ۴۰۷ ح ۷ _نور الثقلين ج ۲ ص ۲۲۸ ح ۱۸۹_۲)تفسير عياشى ج ۲ ص ۹۴ ح ۷۹ _ تفسير برہان ج ۲ ص ۱۳۸ ح ۲۱_

۳)كافى ج۴ ص ۵۸ ح۱_ نور الثقلين ج۲ ص ۲۳۵ ح ۲۱۳_

۱۵۶

والنخل ..; پيغمبر(ص) نے سونا ، چاندى ( موجودہ كرنسى ) اونٹ ، گائے ، بھيڑ بكرى ، زراعت ، انگور اور كھجور پر زكات واجب فرمائي_(۱)

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو صدقہ دينا ۲۶

احكام : ۱، ۲، ۴، ۷، ۲۰، ۲۳، ۲۵، ۲۶، ۲۷

اسلام :اس كا اقتصادى پہلو ۳; اسكى خصوصيات ۳; صدر اسلام كى تاريخ ۸

اسلامى حكومت:اسكى ذمہ دارى ۹،۱۳

اسلامى معاشرہ :اسكے كارندوں كى اجرت ۱۰

اسما و صفات :حكيم ۱۷; عليم ۱۷

اقتصاد :اقتصاد اور فكر ۱۴;اقتصادى امدادكے آثار ۱۴

بنى ہاشم :انكو صدقہ دينا۳۶

تاليف قلوب :اسكى اہميت ۲، ۱۲،۱۳; اس كا پيش خيمہ۱۳

حاجتمند لوگ :انكى ضروريات پورى كرنا ۱۶

خداتعالى :اسكى حكمت ۱۸ ; اسكى حكمت كى نشانيان ۱۹; اسكے علم كى خصوصيات ۱۸;اسكے علم كى نشانياں ۱۹

دينى راہنما :انكى ذمہ دارى ۲۳، ۲۴

راہ خدا :اسكى تقويت كى اہميت۲، ۱۶

روايت :۲۰ ، ۲۱، ۲۲، ۲۳، ۲۴،۲۵،۲۶،۲۷

زكات :اسكے احكام : ۱، ۲،۴; اسكے مصارف ۱،۲،۴

صدقات :اس سے فقرا كا حصہ ۷; اس سے مساكين كا حصہ ۷;انكا فلسفہ ۱۶; انكا كن چيزوں كے ساتھ تعلق ہے ۲۷; انكى تقسيم كا ذمہ دار ۹ ;انكى تمليك ۱۶;ان كے احكام ۱، ۲، ۴، ۷، ۱۶،۲۰، ۲۵،۲۶،۲۷; ان كے مصارف ۱، ۲، ۴، ۱۶ ، ۱۹ ، ۲۰، ۲۵، ۲۶; صدر اسلام ميں عاملين صدقات ۸; صدقات راہ خدا ميں ۲;عاملين صدقات كاحصہ ۱، ۷; صدقات۹

____________________

۱)در المنثور ج ۴ ص ۲۲۶_

۱۵۷

ضروريات :اقتصادى ضروريات پورى كرنا ۳

غلام :اس كو سنگسار كرنا ۲۳; اسى كى آزادى كى اہميت ۲،۱۵; اسكے احكام ۲۳; اس كے زنا كى حد ۲۳

فقرا:ان سے مراد ۲۱; انكى ضروريات پورى كرنا ۱; انكى مالكيت ۷; انہيں صدقہ دينا ۱

قانون :اسلامى قوانين كا فلسفہ ۱۲

كام :اسكى اجرت ۱۰، ۱۱; اسكى قدر و قيمت ۱۱

كام كرنے والے :انكى اجرت ۱۱

مادى وسائل :ان سے استفادہ كرنا ۱۳

مسافر :اسكو صدقہ دينا ۲;اسكى حاجت روائي كى اہميت ۱۶

مساكين :ان سے مراد ۲۱ ; انكى ضروريات پورى كرنا ۱; انكى مالكيت ۷;انہيں صدقہ دينا ۱

مقروض لوگ :انكا قرض ادا كرنا ۲۴،۲۵;انكو صدقہ دينا ۲;انكى حاجات روائي كى اہميت ۲، ۱۶

منافقين :صدر اسلام كے منافقين اور صدقات ۵; صدر اسلام كے منافقين كى طمع ۵; منافقين اور حضرت محمد (ص) ۶; منافقين اور صدقات كى تقسيم ۶

موقف اپنانا :اسكا پيش خيمہ ۱۴

مؤلفةا لقلوب :ان سے مراد ۲۲; انكو صدقہ دينا ۷

واجبات :۱،۲

۱۵۸

آیت ۶۱

( وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيِقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ آمَنُواْ مِنكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )

ان ميں سے وہ بھى ہيں جو پيغمبر (ص) كواذيت ديتے ہيں او ركہتے ہيں كہ وہ توصرف كا ن ہيں _ آكہہ ديجئے كہ تمھارے حق ميں بہترى كے كان ہيں كہ خدا پر ايمان ركھتے ہيں اور مومنين كى تصديق كرتے ہيں اور صاحبان ايمان كےلئے رحمت ہيں اورجو لوگ رسول خدا كو اذيت ديتے ہيں ان كے واسطے دردناك عذاب ہے_

۱_ پيغمبراكرم (ص) بعض منافقين كى طرف سے مسلسل اذيت اور تكليف ميں _و منهم الذين يؤذون النبي

'' منہم '' ميں ''من '' تبعيض كيلئے اور ''يو ذون '' مضارع استمرار كيلئے ہے يعنى بعض منافقين مسلسل پيغمبر اكرم(ص) كو اذيت ديتے اور آپ (ص) كو رنجيدہ خاطر كرتے ہيں _

۲_منافقين كى طرف سے پيغمبر اكرم(ص) كے خلاف پروپيگنڈا اور ماحول كو آپ (ص) كے خلاف تيار كرنا _

و منهم الذين يو ذون النبى و يقولون هو اذن

۳_ پيغمبراكرم(ص) كو ايك سادہ اور جلدى باور كر جانے والے شخص كے طور پر متعارف كرانا منافقين كى اذيتوں كا ايك نمونہ ہے_الذين يؤذون النبى و يقولون هو اذن

'' اذن'' اسے كہا جاتا ہے جو ہر شخص كى بات پر كان دھرے اور جلدى قبول كرلے يعنى سادہ اور جلدى باور كرنے والا شخص _قابل ذكر ہے كہ مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ جملہ''يقولون هو اذن '' منافقين كے پيغمبر (ص) كو متہم كرنے اور آپكو (ص) رنجيدہ خاطر كرنے كے ايك نمونہ كو بيان كررہا ہو_

۱۵۹

۴_ منافقين كا پيغمبراكرم (ص) كى مہر و محبت اور وسعت ظرفى (آنحضرت(ص) كا لوگوں كى باتوں پر كان دھرنا ) سے سوء استفادہ كرنا _الذين يؤذون النبى ويقولون هو اذن

۵_ لوگوں كى مختلف قسم كى باتوں پر پورے حوصلے اور وسعت ظرفى كے ساتھ كان دھرنا پيغمبراكرم(ص) كى ايك خصلت _و يقولون هو اذن قل اذن خير لكم

۶_ خداتعالى كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) ،كے لوگوں كى سب باتيں سننے اور وسعت ظرفى كا ثبوت دينے پر آپ(ص) كى تعريف _و يقولون هو اذن قل اذن خير لكم

۷_پيغمبراكرم(ص) اچھى اور قابل قدر باتوں كو سنتے تھے نہ باطل اور بيہودہ باتوں كو_و يقولون هو اذن قل اذن خير لكم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ ''اذن ''كى خير كى طرف اضافت حقيقى ہونہ موصوف كى صفت كى طرف اضافت كے باب سے يعنى پيغمبر (ص) اچھى باتوں كو سننے والے ہيں نہ ہر بات كو چاہے وہ بيہودہ ہى ہو_

۸_پيغمبراكرم (ص) كا سب لوگوں كى باتوں كو سننا ان كے مفاد اور معاشرے كى بھلائي اور بہترى كيلئے تھا_

و يقولون هو اذن قل اذن خير لكم

مندرجہ بالا نكتہ اس احتمال كى بنا پر ہے كہ ''اذن''كى اضافت خير كى طرف موصوف كى صفت كى طرف اضافت كے باب سے ہو يعنى پيغمبر(ص) تم لوگوں كيلئے اچھے سننے والے ہيں اور يہ صفت ايمانى معاشرے كے فائدہ ميں ہے_

۹_ معاشرے كے سب طبقوں كى باتوں كو سننا اور ان كے مقابلے ميں وسعت قلبى كا مظاہرہ كرنا ، ايك اچھى اور اسلامى معاشرے كے راہنماؤں كيلئے ضرورى خصلت ہے_و يقولون هو اذن قل اذن خير لكم

۱۰_ پيغمبراكرم (ص) اگرچہ سب لوگوں كى باتيں سنتے تھے ليكن قبول كرنے كے مرحلے ميں صرف خدا تعالى اور مومنين كى باتوں كو قبول كرتے تھے_و يقولون هو اذن قل اذن خير لكم يو من بالله و يؤمن للمومنين

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ ''اذن ''كى خير كى طرف اضافت ، حقيقى ہو يعنى پيغمبر(ص) صرف اچھى بات سنتے ہيں اور ہر بات كو قبول نہيں كرتے بلكہ صرف خدا تعالى اور مومنين كى باتوں كو باور كرتے ہيں _

۱۱_ پيغمبراكرم (ص) صرف ان باتوں كو قبول كرتے تھے جن ميں مومنين كا مفاد ہو _

و يقولون هو اذن قل اذن خير لكم و يؤمن للمومنين

''للمومنين '' كا لام جو منفعت كيلئے ہے مندرجہ بالا نكتہ پر دلالت كرتا ہے_

۱۲_ مومنين كا احترام ان پر اعتماد اور انكى باتوں كى

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746