تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192910 / ڈاؤنلوڈ: 4754
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

میں ابن حجرنے اس لئے ان کا نام اپنی کتاب کے اس حصہ میں لکھا ہے اور اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ وہ فتوح ( وہ جنگیں جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد انصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی حیات میں واقع ہوئی ہیں ) میں صحابی کے علاوہ ہرگز کسی کو سپہ سالاری کا عہدہ نہیں سونپتے تھے۔

ابن مسکویہ نے بھی کہا ہے کہ سماک بن خرشہ غیراز ابودجانہ کا نام شہر رے کی فتح میں لیا گیا ہے (ز) ( ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اسی طرح ابن حجر نے سیف کی انہی روایتوں پر اعتماد کرتے ہوئے سماک بن عبید عبسی کو اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات پر الگ سے شرح لکھی ہے وہ اس کے ضمن میں لکھتا ہے :

اس کا نام گزشتہ شرح میں آیا ہے ...ہمدان کی فتح میں بھی اس کا تذکرہ کیا گیا ہے

سماک بن مخرمہ بھی اس فیض و برکت سے محروم نہیں رہا ہے ابن حجر اور دوسروں نے سیف کی روایتوں پر اسی گزشتہ اعتماد کی بناء پر سماک بن مخرمہ کو بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے قبول کیا ہے اور اپنی کتابوں میں اس کیلئے الگ سے شرح لکھی ہے ۔

اس طرح ابن حجر نے ان تین افراد کو سیف کے کہنے کے مطابق کہ سپہ سالار تھے اسی وجہ سے ، اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں درج کیا ہے اور خصوصی طور پر اس دلیل کی صراحت کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے لکھتا ہے :

میں نے اس لئے ان کو اپنی کتاب کے اس حصہ میں درج کیا ہے کہ اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ وہ '' جنگوں '' میں صحابی کے علاوہ کسی کو کسی صورت میں سپہ سالار کے عہدہ پر مقرر نہیں کرتے تھے ۔

اس لحاظ سے ، ابن حجر کی نظر میں سیف کے ان تین جعلی صحابیوں کے اصحاب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ، کیونکہ وہ سپہ سالاری کے عہدہ دار تھے !!١

ابن حجر ، سیف کی مخلوق سماک کے بارے میں اپنی بات کو حرف '' ز'' پر خاتمہ بخشتا ہے تا کہ یہ دکھائے کہ اس نے اس صحابی کے حالات کی تشریح میں دیگر تذکرہ نویسوں کی نسبت اضافہ کیاہے۔

۲۲۱

ابن عبد البر نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور '' سماک بن مخرمۂ اسدی'' کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے نقل کیا ہے کہ ' ' سماک بن مخرمۂ اسدی '' ، '' سماک بن عبید عبسی'' اور '' سماک بن خرشہ انصاری''' ( غیر از ابو دجانہ ) وہ پہلے عرب سردار تھے جنہوں نے '' دستبی '' کی فوجی چھاؤنیوں کی کمانڈ سنبھالی ہے ۔

ابن اثیر نے کتاب ' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے اپنی '' تجرید'' میں ان مطالب کو نقل کرنے میں ابن عبد البر کی تقلید کی ہے ۔

جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ کتاب '' اصابہ '' میں ابن حجر کے کہنے کے مطابق '' ابن مسکویہ '' نے بھی تینوں سماک کے بارے میں یہی مطالب لکھے ہیں ۔

ابن ماکولا اپنی کتاب '' اکمال'' میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے نقل کیاہے کہ سماک بن خرشہ انصاری غیر از ابودجانہ ، سماک بن مخرمۂ اسدی اور سماک بن عبید عبسی ، عمر کی خدمت میں پہنچے ہیں ۔ یہ وہ پہلے عرب سردار ہیں جنہوں نے دیلمیوں سے جنگ کی ہے ۔

طبری نے بھی مذکورہ روایت کو سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ، اور ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون اور دوسرے تاریخ نویسوں نے بھی طبری کی تقلید کرتے ہوئے سیف کے انہیں مطالب کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

انہی روایتوں کی وجہ سے ابن فتحون غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور ایسا خیال کیا ہے کہ جس سماک نے امیر المؤمنین علی کے ہمراہ جنگ صفین میں شرکت کی ہے وہ وہی سیف کا جعل کردہ سماک ہے جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ صفین کی جنگ میں شرکت کرنے والا سماک '' جعفی'' جو اور انصار میں سے نہیں تھا۔

تاریخی حوادث کے سالوں میں تبدیلی ، وقائع و رودادوں میں تحریف ، کرداروں کی تخلیق ، قصے اور افسانے گڑھنا اور انہیں تاریخ کی اہم اور فیصلہ کن رودادوں کی جگہ پیش کرناسب کے سب سیف اور اس کی روایات کی خصوصیات ہیں تا کہ مسلمانوں کیلئے تشویش اور پریشانی فراہم کرکے انھیں تاریخی حقائق تک پہنچنیسے روکے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ سیف اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوا ہے۔ گزشتہ بارہ صدیوں سے زیادہ زمانہ گزر چکا ہے اور اس پورے زمانے میں اس کے تمام افسانے اور جعل کئے گئے مطالب معتبر اسلامی مصادر و مآخذ میں درج ہوچکے ہیں جس کے نتیجہ میں آج عالم اسلام کے علماء و محققین تشویش اور پریشانی سے دوچار ہیں ۔

۲۲۲

سیف کے ہم نام اصحاب کا ایک گروہ

اس بحث میں ہم سیف کے دو جعلی اصحاب کے حالات کی تشریح کریں گے جن کے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی دو اصحاب کے مشابہ ہیں ۔ سیف نے ان دو ناموں کا انتخاب کرکے ان کیلئے داستان گڑھ کر اسلام کی تاریخ میں درج کرائی ہے ہم ان کے بارے میں حسبِ ذیل وضاحت کرتے ہیں :

١۔ خزیمہ بن ثابت انصاری ( غیر از ذو الشہادتین ) سیف نے '' خزیمہ بن ثابت انصاری ذو الشہادتین '' کے ہم نام جعل کیاہے اور اس کے لئے الگ سے ایک داستان گڑھ لی ہے ۔

٢۔ سماک بن خرشۂ انصاری ( غیراز ابودجانہ کہ سیف نے اسے '' سماک بن خرشۂ انصاری ابودجانہ کے ہم نام جعل کیا ہے ۔ گزشتہ شرح کے مطابق اس کیلئے بھی الگ سے ایک داستان گڑھی ہے۔

سیف نے صرف ان دو اصحاب کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی اصحاب کے ہم نام خلق کرنے پر اکتفاء نہیں کی ہے بلکہ ہم نے دیکھا اور مزید دیکھیں گے کہ اس نے اصحاب اور معروف شخصیتوں کے ہم نام حسبِ ذیل کردار بھی خلق کئے ہیں :

٣۔ زر بن عبدا للہ بن کلیب فقیمی کو ''زر بن عبد اللہ کلیب فقیمی شاعر '' کے ہم نام خلق کیا ہے کہ جو جاہلیت کے زمانے سے تعلق رکھتا تھا۔

٤۔ جریر بن عبد اللہ حمیری کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہم نام خلق کیاہے اور جریر بن عبد اللہ بجلی کے بعض کارناموں کو بھی اس سے نسبت دی ہے ۔

٥۔ وبرة بن یحنس خزاعی کو '' وبر بن یحنس کلبی '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

٦۔ حارث بن یزید عامری کو بنی لوئی کے '' حارث بن یزید عامری قرشی '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

٧۔ حارث بن مرۂ جہنی کو '' حارث بن مرۂ عبدی یا فقعسی '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

٨۔ بشیر بن کعب حمیری کو '' بشیر بن کعب عدوی '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

۲۲۳

جب کہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف نے صرف کردار ادا کرنے والے ، انسان اور صحابیوں کے نام پر ہی افراد خلق کرنے پر اکتفا نہیں کیے ہیں بلکہ اس نے ایسے مقامات بھی خلق کی جو کرۂ ارض پر موجود دوسری جگہوں کے ہم نام ہیں ، جیسے '' جعرانہ '' و نعمان '' جو حجاز میں واقع تھے اور سیف نے ان کے ہم نام اپنی جعلی روایتوں اور اخبار کے ذریعہ انھیں عراق میں خلق کیا ہے ۔ یاقوت حموی نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرکے ان مقامات کا نام اور ان کی تشریح اپنی کتاب ' ' معجم البلدان '' میں درج کی ہے۔

افسانۂ سماک کو نقل کرنے والے راوی اور علما

سیف نے اپنے سماک بن خرشہ کے افسانہ کو درج ذیل روایوں سے نقل کیا ہے ۔

١۔ ٢ - محمد اور مھلب جو اس کے جعلی راوی ہیں ۔

٣ تا ٦- طلحہ ، عمرو ، سعید و عطیہ کو ذکر کیا ہے جو مجہول ہیں اور ہمیں معلوم نہ ہوسکا یہ کون ہیں تا کہ ان کی پہچان کرتے۔

جن علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس کے افسانوں کو نقل کرکے '' افسانہ سماک '' کی اشاعت میں مدد کی ہے ، حسب ذیل ہیں :

١۔ امام المؤرخین محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر ابن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں سماک بن مخرمہ کے حالات کی تشریح میں ۔

٣۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب ' ' اسدا الغابہ'' میں '' سماک بن مخرمہ '' کے حالات کی تشریح میں ۔

٤۔ ابن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں سماک بن خرشہ کے حالات کی تشریح میں ۔

٥۔ ابن فتحون نے استیعاب کے حاشیہ پر لکھا ہے ۔

٦۔ ابن مسکویہ نے ابن حجر کی '' اصابہ '' کے مطابق ۔

٧۔ اب ماکولا نے اپنی کتاب '' اکمال '' میں

٨۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ۔

٩۔ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں

۲۲۴

١٠۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں ۔

١١۔ امیر شکیب نے ابن خلدون کی تاریخ پر لکھی گئی تعلیق میں جسے گزشتہ علماء سے نقل کیا ہے ۔

١٢۔ سید شرف الدین نے اپنی کتاب فصول المہمہ میں شیعوں کے نام کے ذکر میں حرف سین کے ذیل میں لکھا ہے :

'' اور سماک بن خرشہ بظاہریہ ابودجانہ کے علاوہ ہے ۔

مصادر و مآخذ

ابودجانہ انصاری کا شجرۂ نسب :

١۔ ابن حزم کی '' جمہرہ '' ص ٣٦٦۔

٢۔ استبصار ص ١٠١

ابو دجانہ کے حالات میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اصلی شرط:

١۔ استیعاب ، طبع حیدر آباد (٢ ٥٦٦ ) نمبر : ٢٤٥١اور (٢ ٦٤٣) نمبر : ١١٠

٢۔ذہبی کی تاریخ اسلام (١ ٣٧١) پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زبیر کو تلوار دینے میں پرہیز کرنا ان دو مصادر میں آیا ہے ۔

٣۔ تاریخ طبری ( ١ ١٣٩٧) زبیر کی روایت ، ابن اسحاق کی روایت کو اس کے بعد ذکر کیا ہے۔

٤۔ اس کے علاوہ '' سیرۂ ابن ہشام '' ( ٣ ١٢۔١١)

سماک بن خرشہ جعفی

١۔ نصر مزاحم کی '' کتاب صفین '' طبع اول مصر ( ٤٢٦)

٢۔ ابن حزم کی جمہرہ ص ٢٣٢ ۔ ٣٦٦ ، انصار کے نسب کے بارے میں جعفی کا نسب اسی ماخذ ٤٠٩ ، ٤١٠ میں

٣۔ حموی کی '' معجم البلدان '' مادۂ '' جعفی '' میں

٤۔ ابن درید کی '' استقاق '' (ص ٢٠٦ )

٥۔ ابن اثیر کی لسان العرب ( ٩ ٢٧از و اللباب )

۲۲۵

سیف کا سماک بن خرشہ غیر از ابودجانہ

١۔ '' تاریخ طبری ''' جنگ قادسیہ کے بعد واقع ہونے والے حوادث ( ١ ٢٣٦٣ ، ٢٣٦٤)

٢۔ تاریخ طبری ، ہمدان اور آذربائیجان کی فتح ( ١ ٢٦٥٠۔ ٦٣ ٢٦)

٣۔ تاریخ طبری ، سماک کی عراق پر حکومت (١ ٣٠٥٨)

٤۔ تاریخ ابن اثیر (٣ ١٠ -١١ و ٧٢)

٥۔ تاریخ ابن کثیر ( ٧ ١٢١۔ ١٢٢)

٦۔ تاریخ ابن خلدون ( ٢ ٣٥٤ ، و ٤٠٢)

٧۔ تاریخ ابن خلدون پر امیر شکیب کی تعلیق ( ٢ ٣٥٤)

٨۔ ابن ماکولا کی کتاب '' اکمال '' ( ٤ ٣٥٠)

٩۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٧٥) نمبر : ٣٤٦٥ سماک بن خرشہ غیر ازابودجانہ کے حالات کی شرح میں ۔

١٠۔ سید شرف الدین کی فصول المہمہ ١٨٢۔

ہمدان اور آذربائیجان کی فتح کی خبر ، سیف کے علاوہ دوسروں کی روایت میں ۔

١۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط (٢ ١٢٤) ٢٢ھ کے حوادث کے ضمن میں ۔

٢۔ تاریخ طبری ٢٢ھ کے حوادث ( ١ ٢٦٤٧)

٣۔ بلاذری کی '' فتوح البلدان '' ص ٤٠٠۔

داستان عروہ ، فتح رے اور اس کے حکام :

١۔ بلاذری کی '' فتوح البلدان '' ص ٣٨٩ -٣٩٣ اور کثیر بن شہاب کی خبر اسی کے ص ٣٧٨ پر

۲۲۶

سماک بن عبید کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٧٦) نمبر : ٣٤٦٧

٢۔ تاریخ طبری اس کے بارے میں سیف کی روایت ( ١ ٢٦٣١) یاقوت حموی نے اس روایت کی طرف اشارہ کیاہے ۔

٣۔تاریخ طبری ( ١ ٢٦٥٠ ۔ ٢٦٥١ و ٢٦٦٠) سیف کے علاوہ دوسروں کی روایات (٢ ٣٩ ۔ ٤٢ ، ٤٥ و ٥٧)

سماک بن مخرمہ کے حالات

١۔ '' استیعاب '' طبع حیدرآباد ( ٢ ٥٦٧) نمبر : ٢٤٥٣

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٢ ٣٥٣)

٣۔ ذہبی کی تجرید (١ ٢٤٦) نمبر: ٢٤٠٣۔

٤۔ ''اغانی'' طبع ساسی ١٠ ٨٠ سماک مخرمہ کے اخبار

٥۔ یاقوت حموی کی معجم البلدان لفظ '' مسجد سماک '' میں ۔

٦۔ تاریخ طبری( ١ ٢٦٥٠۔ ٢٦٥١ ، ٢٦٥٣ ، ٢٦٥٦ و ٢٦٥٩ -٢٦٦٠) سماک بن مخرمہ کے بارے میں سیف کی روایات ۔

۲۲۷

ساتواں حصہ

گروہ انصار میں سے چند اصحاب

*ابوبصیرہ

*حاجب بن زید

*سہل بن مالک

*اسعد بن یربوع

*ام زمل ، سلمی بنت حذیفہ

۲۲۸

انچاسواں جعلی صحابی ابو بصیرۂانصاری

ابن عبد البر اپنی کتاب '' استیعاب '' میں ابو بصیرہ کے تعارف میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے جنگِ یمامہ مسیلمہ کذاب سے جنگ میں شرکت کرنیو الے انصار کے ایک گروہ کے نام کے ضمن میں ابو بصیرہ کا نام لیا ہے اور کہا ہے خدا سے رحمت نازل کرے اس کے علاوہ اس کے بارے میں ایک داستان بھی نقل کی ہے ۔

دوسرے علماء جیسے ، ابن اثیر نے کتاب اسد الغابہ میں ، ابن حجر نے '' اصابہ'' میں اور ذہبی نے کتاب '' تجرید'' میں ابو بصیرہ کے بارے میں ابن عبد البر کی عین عبارت '' استیعاب '' سے نقل کی ہے اور اس میں کس قسم کا اضافہ نہیں کیاہے ۔

مقدسی نے بھی ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کی ہے کہ سیف نے اس کا نام یمامہ کی جنگ میں شرکت کرنے والوں میں ذکر کیا ہے ۔

'' ابن ماکولا نے بھی ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے کہ سیف بن عمر کہتا ہے کہ اس نے بنی حنیفہ کی جنگ ( وہی جنگ یمامہ ) میں شرکت کی ہے ۔

لیکن جس خبر کی طرف ابن عبد البر نے اشارہ کیا تھا ۔ امام المؤرخین طبری نے اپنی تاریخ میں سیف بن عمر سے اس نے'' ضحاک بن یربوع '' سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے جس کا خلاصہ ہم پیش کرتے ہیں :

سر انجام مسیلمہ کے حامی مقابلہ کی تاب نہ لاکر اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں شکست کھائی۔ اور مسیلمہ مارا گیا اور اس کے حامی تتر بتر ہوگئے اس طرح ان کے بلوہ اور فتنہ کا خاتمہ ہوا۔

ان میں بنی عامر سے ایک شخص موجود تھا ، جسے '' اغلب '' کہتے تھے ١ '' اغلب '' وقت کا غنڈہ ترین شخص شمار کیا جاتا تھا ۔ ہٹا کٹا دکھائی دیتا تھا۔

جب مسیلمہ کی فوج تہس نہس ہوگئی اور اس کے حامی بھاگ کھڑے ہوئے تو، '' اغلب'' جان بچانے کے مارے اپنے آپ کو مردہ جیسا بناکر لاشوں میں گرادیا ۔ اس فتح کے بعد مسلمان دشمن کی لاشوں کا مشاہدہ کر رہے تھے ، اسی اثناء ان کی نظر ایک موٹے انسان اور غنڈہ '' اغلب '' پر پڑی ۔ لوگوں نے ابو بصیرہ سے مُخاطب ہوکر کہا :

تم مدعی ہو کہ تمہاری تلوار بہت تیز ہے اگر واقعاً ایسا ہے تو یہ '' اغلب '' کا مردہ جو زمین پر پڑا ہے،اس کی گردن کاٹ کر دکھاؤ!

ابو بصیر نے تلوار میان سے کھینچ لی اور آگے بڑھا تا کہ اپنے بازؤں کی قدرت اور تلوار کی

____________________

١۔سیف نے اس '' اغلب '' کو قبیلہ ٔ بکر بن وائل کے بنی عامر بن حنیفہ سے خلق کیا ہے اور اس کے بارے میں دکھایا گیا اس کا تعصب واضح ہے ، کتاب '' قبائل العرب ' ' کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۲۹

تیزی کا مظاہرہ کرے جب '' اغلب '' نے موت کے سائے اپنے سر پر منڈلاتے دیکھے تو اچانک اٹھ کر ابو بصیر پر جھپٹ پڑا اس کے بعد جان چھڑا کر تیزی سے بھاگ نکلا۔

ابو بصیرہ جو ایک لمحہ کیئے چونک گیا تھا ، اغلب کے پیچھے دوڑتے غیر ارادی طور پر فریاد بلند کررہا تھا: '' میں ابو بصیرہ انصاری ہوں '' لیکن اغلب جو کافی آگے بڑھ چکا تھا ، ابو بصیرہ کے جواب میں چیختے ہوئے بولا : اپنے کافر بھائی کے دوڑنے کو کیسا پایا ؟ اور اسی حالت میں نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔

افسانۂ ابو بصیرہ کے مآخذ

سیف بن عمر نے اس افسانہ کے راوی کے طور پر '' ضحاک بن یربوع '' کو اپنے باپ سے نقل کرتے ہوئے پیش کیا ہے ۔

طبری نے سیف کے ذریعہ اسی ضحاک سے چار روایتیں اور ابن حجر نے '' اقرع '' کے حالات کی تشریح میں سیف سے نقل کرکے اس سے صرف ایک روایت نقل کی ہے ۔

ہم نے اس ضحاک کا کسی اسلامی ماخذ یا مصدر میں کوئی نام و نشان نہیں دیکھا صرف '' میزان الاعتدال '' اور '' لسان المیزان '' میں ضحاک کے حالات کی تشریح میں لکھا گیا ہے : کہ '' اس کی حدیث صحیح نہیں ہے ''۔ ازدی کی بات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بات سے غافل تھا کہ ان تمام فتنوں کا سرچشمہ سیف بن عمر ہے جس نے اس قسم کی جھوٹی روایت کو بیچارہ '' ضحاک'' کی زبان پر جاری کیا ہے ورنہ '' ضحاک بن یربوع''' نام کے کسی شخص کے بالفرض وجود کی صورت میں بھی وہ قصوروار نہیں ہے۔

چونکہ ہمیں معتبر منابع میں '' ضحاک '' نام کے کسی راوی کا نام نہیں ملا، اسلئے ہم اسے راویوں کی فہرست سے حذف کرتے ہوئے سیف کا خلق کردہ صحابی جانتے ہیں ۔

۲۳۰

افسانۂ ابو بصیرہ کا نتیجہ

١۔ انصار میں سے ایک صحابی کی تخلیق جس نے یمامہ کی جنگ میں شرکت کی ہے ۔

٢۔ یمانی قحطانیوں کی رسوائی ، سیف ان کو اتنا بے لیاقت دکھاتا ہے کہ ایک عدنانی شخص جس نے ڈر کے مارے اپنے آپ کو مردہ جیسا بنا دیا تھا اور ان کے چنگل میں ہونے کے باوجود ، ان کی بے لیاقتی کی وجہ سے بھاگنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔

٣۔ ابو بصیرہ قحطانی کی ناتوانی دکھلانا جو مکررکہہ رہا تھا ، '' میں ابو بصیرہ انصاری ہوں '' اور وہ عدنانی جواب دیتا تھا '' اپنے کافر بھائی کے دوڑنے کو کیسا پارہے ہو؟!!

٤۔ ضحاک بن یربوع اور یربوع جیسے راوی خلق کرنا۔

مصادر و مآخذ

ابو بصیرہ کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' (٢ ٦٣٠) نمبر : ٥٠

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٥ ١٥٠)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید' '( ٢ ١٦٣)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٤ ٢٢) نمبر : ١٤٣

٥۔ تاریخ طبری (١ ١٩٥٠)

٦۔ مقدسی کی کتاب '' استبصار'' ( ص ٣٣٨)

٧۔ ابن ماکولا کی کتاب '' اکمال '' ( ١ ٣٢٨)

ضحاک بن یربوع کے حالات

١۔ میزان الاعتدال ( ٢ ٣٢٧)

٢۔ ابن حجر کی '' لسان المیزان '' (٣ ٢٠١)

مراجع :

١۔ رضا کحالہ کی قبائل العرب ( ٢ ٧٠٦)

۲۳۱

پچاسواں جعلی صحابی حاجب بن زید یا یزید انصاری اشہلی

ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں حاجب کا یوں تعارف کیا گیا ہے :

حاجب '' بنی عبد الاشہل '' میں سے تھا ۔ اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ وہ '' بنی زعواراء بن جشم '' کی نسل سے عبدا لاشہل جشم کا بھائی اور '' اوسی'' تھا جو یمامہ کی جنگ میں قتل ہوا ہے ۔

حاجب قبیلۂ '' اَزْد'' کے ''شَنَوْئَ'' کا ہم پیمان تھا ۔ '' خدا اس سے راضی ہو '' ( عبد البر کی بات کا خاتمہ)

بالکل انہی باتوں کو ابن اثیر جیسے عالم نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے ''تجرید '' میں کسی کمی و بیشی کے بغیر درج کیا ہے ۔

ابن حجر نے بھی ایسا ہی ظاہر کیا ہے ، لیکن آخر میں حسب ذیل اضافہ کیا ہے:

سیف نے طائفہ '' بنی الاشہل '' کے جنگ یمامہ میں قتل ہوئے افراد کی فہرست میں ''حاجب '' کا نام بھی لیا ہے ۔ یہ افراد ہیں اور حاجب بن زید ۔ اس کے علاوہ اس میں کسی اور چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔

ہم نے اس نام کو تلاش کرنے کیلئے موجود تمام تاریخ اور انساب کے معتبر مصادر میں زبردست جستجو و تلاش کی لیکن تاریخ طبری کے علاوہ کہیں اور اس کا سراغ نہ مل سکا۔

لیکن طبری قادسیہ کی جنگ کے اخبار کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے لکھتا ہے : قادسیہ کی جنگ میں قتل ہونے والوں میں سے ایک اور شخص حاجب بن زید تھا

ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ قادسیہ کی جنگ میں خاک و خون میں غلطاں ہونے والے اس حاجب بن زید سے سیف کی مراد وہی حاجب ہے جو یمامہ کی جنگ میں مارا گیا ہے ، یا یہ کہ اسے دوشخص شمار کیا ہے۔

دوسرے الفاظ میں ، وہ بھول گیا ہے کہ اس حاجب کو اس نے دس سال پہلے یمامہ کی جنگ میں موت کے گھاٹ اتاردیا ہے ، یا یہ کہ اس نے دو اشخاص کو ہم نام خلق کیا ہے ان میں سے ایک ''حاجب بن زید '' ہے جسے یمامہ کی جنگ میں مروا دیا ہے اور دوسرا ''حاجب بن زید '' وہ ہے سجے قادسیہ کی جنگ میں قتل کروایاہے ؟!!

۲۳۲

بہر حال خواہ سیف نے فراموش کیا ہو یا نہ کیا ہو، ہمارے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم نے اس حاجب بن زید کو سیف بن عمر اور اس کی روایات کی اشاعت کرنے والے علماء کے علاوہ تاریخ ، ادب ، انساب اور حدیث کے کسی منبع اور مصدر میں نہیں پایا ۔ اس لحاظ سے اس کو سیف کے خیالات کی مخلوق سمجھتے ہیں ۔

ضمناً سیف نے جو داستان اس حاجب کے لئے گڑھی ہے اس میں اس کا وہی مقصد ہے یمانی قحطانی ان چیزوں سے موصوف ہوں ، کیونکہ سیف کے نقطہ نظر میں جنگی کمالات' کامیابیاں ، میدان کارزار سے صحیح و سالم نکلنا اور دیگر افتخارات غرض جو بھی برتری و سربلندی کا باعث ہو وہ تمیم ،مضر اور قبیلۂ عدنان کے افراد سے مخصوص ہے کسی دوسرے کو اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ کسی یمانی قحطانی کوکوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ اس قسم کے افتخارات اور کامیابیوں کے مالک ہوں ، مگر یہ کہ خاندان مضر کے سرداروں کے زیر فرمان خاک و خون میں غلطان ہوں اور یہ لیاقت پائیں کہ ان کے رکاب میں شہید ہونے والے شمار ہوجائیں !!!

لیکن،سیف نے اس حاجب کیلئے جو نسب گڑھا ہے وہ ''بنی اشہل'' ہے اور'' بنی اشہل '' و '' جشم'' اوس سے حارث بن خزرج کے بیٹے ہیں ، اور '' ازدشنوئ'' یعنی قبائل ''ازد'' کے وہ افراد جو ''شنوئ'' میں ساکن تھے۔ یہ ازد میں سے ایک قبیلہ ہے سکونت کے لحاظ سے وہ ''شنوء '' کے باشندے تھے (جو یمن کے اطراف میں واقع ہے ۔) یہ لوگ اس جگہ سے منسوب ہوئے ہیں اور تینوں قبیلے یمانی قحطانی ہیں ۔

مصادر و مآخذ

حاجب بن زید کے بارے میں درج ذیل مصادر و مآخذ کی طرف رجوع کیا جائے :

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ١٣٨) نمبر : ٥٧٣

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ١ ٣١٥)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ١ ١٠١)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ١ ٢٧٢) نمبر :١٣٦٠

٥۔ تاریخ طبری ( ١ ٢٣١٧ ) اور ( ١ ٢٣١٩)

٦۔ تاریخ ابن اثیر ( ٢ ٣٧٠)

٧۔ ابن حزم کی ''جمہرہ انساب العرب '' ( ٣١٩ ۔ ٣٢٠)

٨۔ قبائل العرب ( ١ ١٥٥) اور ٢ ٣٧٤ ) اور (٢ ٧٢٢)

۲۳۳

اکاونواں جعلی صحابی سہل بن مالک انصاری

سہل ، کعب بن مالک کا ایک بھائی

اس جعلی صحابی کے حالات کی تشریح میں ابن حجر کی کتاب '' اصابہ'' میں یوں آیا ہے :

'' سہل بن مالک بن ابی کعب ١ بن قین '' انصاری رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معروف شاعر '' کعب بن مالک ' کا بھائی ہے ۔

ابن حبان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سہل کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے ۔

سیف بن عمر نے ابو ہمام' سہل بن یوسف بن سہل ٢ بن مالک سے نقل کیا ہے اور اس نے اپنے باپ سے اور اپنے جد سے روایت کی ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع سے مدینہ واپس آنے کے بعد منبر پر تشریف لے جا کر فرمایا:

اے لوگو! ابو بکر نے کبھی بھی میرا دل نہیں دکھایا ہے اور

____________________

١۔ ابو کعب کا نام عمرو تھا ۔

٢۔سہل بن مالک کا نام ہمارے پاس موجود اصابہ کے نسخہ میں نہیں آیا ہے لیکن ابن حجر کی '' لسان المیزان '' میں درج کی گئی روایت کی سند میں ذکر ہوا ہے ۔

۲۳۴

ابن حجر نے علمِ رجال میں لکھی گئی اپنی کتاب ' ' لسان المیزان '' میں لکھا ہے کعب بن مالک کے بھائی ، سہل بن یوسف بن سہل بن مالک نے اپنے باپ سے اااس نے اپنے جد سے یوں روایت کی ہے۔

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع سے واپس مدینہ لوٹے تو منبر پر تشریف لے جا کر بارگاہ الٰہی میں حمد و ثناء فرمایا:

اے لوگو! میں ابو بکر عمر اور عثمان سے راضی ہوں اے لوگو ! اپنی زبانیں مسلمان کو برا بھلا کہنے سے روک لو ، جب ان میں سے کوئی اس دنیا سے چلا جائے تو اس کے بارے میں خوبی کے سوا کچھ نہ کہنا ! ابن حجر نے مذکورہ بالا مطالب بیان کرنے کے بعد لکھا ہے :

سیف بن عمر نے اس حدیث کو اسی صورت میں سہل بن یوسف سے نقل کرکے اپنی کتاب '' فتوح'' میں لکھا ہے ۔

سہل اور اس کے نسب پر ایک بحث

سیف نے اس روایت کو ایک ایسے راوی کی زبانی نقل کیا ہے جس کا نام اس نے '' ابوہمام سہل'' رکھا ہے اس نے اپنے باپ یوسف سے اور اس نے اپنے جد سہل بن مالک سے روایت کی ہے اور سہل کا تعارف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شاعر کعب بن مالک کے بھائی کے عنوان سے کہا ہے ۔ یعنی سیف نے کعب بن مالک انصاری کے نام پر ایک معروف صحابی اور حقیقت میں وجود رکھنے والے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شاعر کیلئے ایک بھائی خلق کیا ہے اور اس نام '' سہل بن مالک '' رکھا ہے اس طرح اس نے بالکل وہی کام انجام دیا ہے جو اس سے پہلے '' طاہر ، حارث اور زبیر '' ابو ہالہ ١ کو خلق کرنے میں انجام دیا تھا اور تینوں کو ابو ہالہ اور ام المؤمنین خدیجہ کے بیٹے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منہ بولے بیٹے اور پروردہ کی حیثیت سے خلق کیا تھا یا مشہور ایرانی سردار ہرمزان کیلئے '' قماذبان '' ٢ نام کا ایک بیٹا خلق کیا تھا' وغیرہ وغیرہ

لیکن بات یہ ہے کہ '' کعب بن مالک '' کا حقیقت میں سہل بن مالک انصاری نام کا نہ کوئی بھائی تھا ، نہ '' یوسف'' نام کا اس کا کوئی بھتیجا تھا اور نہ اس کے بھائی کا سہل نام کا کوئی پوتا تھا !

۲۳۵

سہل بن یوسف ، سیف کا ایک راوی

جو کچھ ہم نے بیان کیا ، اس کے علاوہ طبری نے سیف سے نقل کرکے سہل بن یوسف کی انتالیس یا چالیس روایتیں اپنی تاریخ کبیر میں درج کی ہیں جن میں سے چار روایتیں سہل کے باپ یعنی '' یوسف '' سے نقل ہوئی ہیں کہ ان میں سے ایک میں سہل کا نسب یوں ذکر ہوا ہے : '' سہل بن یوسف سلمی'' ۔

دوسرے مصنفین اور علماء جنہوں نے اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، ''عبید بن صخر ، اور معاذ بن جبل '' کیلئے لکھے گئے حالات کی تشریح میں سیف بن عمر سے نقل کرکے سہل بن یوسف بن سہل کی چھ روایتیں عبید بن صخر سے اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں ۔

____________________

١۔ اسی کتاب کی دوسری جلد ملاحظہ ہو۔

٢۔ کتاب عبدا للہ بن سبا جلد ١ ملاحظہ ہو۔

۲۳۶

آخر کی روایتوں میں سے ایک روایت میں سہل بن یوسف کا تعارف یوں کیا گیا ہے : '' سہل بن یوسف بن سہل انصاری''

اس تحقیق کا نتیجہ

مجموعی طور پر جو کچھ گزرا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے سہل کے خاندان کو اپنے خیال میں یوں خلق کیا ہے : '' ابوہمام ، سہل بن یوسف بن سہل بن مالک انصاری سلمی '' اور '' دادا '' سہل کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شاعر صحابی کعب بن مالک انصاری کے بھائی کی حیثیت سے خلق کیا ہے یہی سبب بناہے کہ کتاب '' اصابہ '' کے مصنف ابن حجر نے سہل کو خاندان کعب کے نسب سے منسلک کرکے لکھا ہے : '' سہل بن مالک بن ابی کعب بن قین '' ، ابن حجر نے اس نسبت کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے جب کہ سہل کے خالق سیف بن عمر نے ایسا دعویٰ نہیں کیا اور اپنی مخلوق کو '' قین '' سے منسلک نہیں کیا ہے!! ١

قلمی سرقت

سیف نے مذکورہ روایت کو اپنی کتاب '' فتوح '' جو دوسری صدی کی پہلی چوتھائی میں تالیف ہوئی ہے میں بڑی آب و تاب کے ساتھ درج کیا ہے اور اپنے خاندانی تعصب و قبیلہ ٔ مضر خاص طور سے وقت کے حکام و دلتمندوں کے بارے میں منقبت و مداحی کی ایسی روایت درج کرکے ثابت کیا ہے ۔

____________________

١۔ جہاں تک سیف کی رواتیوں سے استفادہ ہوتا ہے ۔

۲۳۷

زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ تیسری صدی ھجری کا '' خالد بن عمرو اموی کوفی ''آپہنچا اور ایک ادبی اور قلمی چوری کا مرتکب ہوتا ہے وہ سیف کی عین روایت کو اس کی کتاب سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے اور اس میں سیف اور اس کی کتاب کا کہیں نام نہیں لیتا گویا اس نے کسی واسطہ کے بغیرخود اس روایت کو سنا ہے ۔

خالد کا یہ کام اس بات کا سبب بناکہ اس کے بعد آنے والے علماء نے اسی روایت کو خالد کی کتاب سے لے کرکے گمان کیاہے کہ خالد تنہا شخص ہے جس نے ایسی روایت اپنی کتاب میں نقل کی ہے اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کی ہے کہ خالد سے تقریباً ایک صدی پہلے یہی روایت سیف بن عمر نام کے شخص کے ذہن میں پیدا ہوچکی ہے اور اس نے اسے اپنی کتاب فتوح میں درج کیا ہے ١

سہل کے افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما

خالد کا یہ کام اس امر کا سبب بنا کہ مندرجہ ذیل علماء نے یہ گمان کیاہے کہ خالد بن عمرو اس روایت کو نقل کرنے والا وہ تنہا شخص ہے :

١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ) جو یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ اس روایت کو نقل کرنے میں خالد اکیلا ہے ۔

٢۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٩ھ ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں لکھا ہے کہ :

یہ ایک تعجب خیز روایت ہے جسے میں نے اس راوی کے علاوہ کہیں نہیں پایا ہے ۔

____________________

١۔ کتاب '' روات مختلقون '' سلسلۂ روات کی بحث میں '' سہل بن یوسف بن سہل'' کے نام میں ملاحظہ ہو۔

۲۳۸

یعنی خالد بن عمرو کے علاوہ کسی دوسرے نے یہ روایت بیان نہیں کی ہے

٣۔ ابن عبدا لبر ( وفات ٤٦٣ھ) نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں لکھا ہے :

اس سہل بن مالک کی روایت کو صرف خالد بن عمرو نے نقل کیا ہے ١

بعضعلماء نے بھی مذکورہ روایت کو خالد کی کتاب سے نقل کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ خالد اس روایت کو نقل کرنے والا تنہا شخص ہے ، جیسے :

١۔ ابنوسی '' ( وفات ٥٠٥ھ ) نے اپنی کتاب فوائد میں ٢

ان میں سے بعض کی کتابوں میں کچھ راویوں کے نام لکھنے سے رہ گئے ہیں ، جیسے :

١۔ طبرانی ( وفات ٣٦٠ھ) نے کتاب '' المعجم الکبیر عن الصحابہ الکرام '' میں ۔

بعض نے مذکورہ روایت کو ارسال مرسل کی صورت میں یعنی راویوں اور واسطوں کا نام ذکر کئے بغیر درج کیا ہے ، جیسے:

____________________

١۔ '' ابن شاہین '' ( وفات ٣٨٥ھ )

۲۳۹

٢۔ ابو نعیم '' ( وفات ٤٣٠ ھ ) کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

بعض نے اپنے سے پہلے علماء جن کا ذکر اوپر آیا سے نقل کیا ہے ۔ جیسے:

١۔ ضیاء مقدسی ( وفات ٦٤٣ ھ ) نے کتاب المختارہ میں طبرانی کی بات کوقبول کیا ہے اور اس سے متاثر ہوا ہے۔

____________________

١۔سہل بن مالک کے حالات کی تشریح کتاب '' اصابہ'' اور '' کنز العمال '' باب سوم ، کتاب فضائل فصل دوم کے آخر میں ( ١٢ ١٥٥) اور تیسری فصل سوم کے آخر میں ( ١٢ ٢٣٩ ) ملاحظہ ہو۔

٢۔سہل بن مالک ( دادا ) کے حالات کی تشریح میں کتاب '' استیعاب ''ملاحظہ ہو ۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

هو الذى يسيركم فى البر و البحر حتى اذا كنتم فى الفلك و جرين بهم بريح طيبة

فعل ''يسير'' كو خدا تعالى كى طرف نسبت دينا باوجود اسكے كہ ہميں علم ہے بيابانوں كو طے كرنا اور درياؤں ميں سے گزر جانا بلا واسطہ طور پرسواريوں اور ہواؤں كے ذريعے انجام پاتا ہے_ مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرتا ہے_

۴_ عصر بعثت ميں دريائي سفروں كيلئے بادبانى كشتيوں سے استفادہ ہونا _حتى اذا كنتم فى الفلك و جرين بهم بريح طيبة

۵_ بادبانى كشتيوں كے ذريعے دريائي سفر، موافق ہواؤں كا مرہون منت ہے_حتى اذا كنتم فى الفلك و جرين بهم بريح طيبة

۶_ فرح بخش اور موافق ہواؤں كا چلنا بادبانى كشتيوں كے ذريعے درياؤں كو طے كرنے والوں كى خوشى كا سامان فراہم كرتا ہے_حتى اذا كنتم فى الفلك و جرين بهم بريح طيبة و فرحوا به

۷_ عصر بعثت ميں دريائي سفروں كيلئے جن بادبانى كشتيوں سے استفادہ كيا جاتا تھا وہ طوفانوں اور دريائي لہروں كے مقابلے ميں آسيب پذير تھيں _حتى اذا كنتم فى الفلك جاء تها ريح عاصف و جاء هم الموج من كل مكان و ظنوا انهم احيط بهم

۸_ بادبانى كشتيوں كے ذريعے درياؤں كو طے كرنا ايسا سفرہے جو اميد و خوف كے ہمراہ ہے_

حتى اذا كنتم فى الفلك و فرحوا بها و ظنوا انهم احيط بهم

۹_ تيز ہواؤں كا چلنا دريا كے طوفانى ہونے اور لہروں كے اٹھنے كا سبب بنتا ہے _

جاء تها ريح عاصف و جائهم الموج من كل مكان

۱۰_ دريا كا طوفانى ہوجانا اور كشتى كے غرق ہونے كے خطرے كا احساس كرنا ان لمحات ميں سے ہے جن ميں انسان خدا تعالى اور اسكى بارگاہ ميں خالصانہ راز و نياز كرنے كى طرف توجہ كرتا ہے_

و جاء هم الموج من كل مكان وظنوا انهم احيط بهم دعوا الله مخلصين له الدين

۱۱_ انسان كے يہاں دنيا كا آجانا اسكے خدا سے غفلت اور دنيا كااس سے پيٹھ پھير جانا اسكے خدا كى طرف توجہ كا عامل ہے_

و جرين بهم بريح طيبة و فرحوا بها جائتها ريح عاصف و ظنوا انهم احيط بهم دعوا الله مخلصين له الدين

۴۴۱

۱۲_توحيد اور صرف خدا كى ربوبيت كا اعتقاد انسان كى فطرت اور سرشت ميں موجود ہے_

و جائهم الموج من كل مكان وظنوا انهم احيط بهم دعوا الله مخلصين له الدين

۱۳_ مجبور ہو جانے اور موت كے خطرے كے احساس كا وقت انسان كى توحيدى فطرت كے جلوہ گر ہونے اور اسكے شرك سے رخ موڑلينے كا وقت ہے_و جائهم الموج من كل مكان دعو ا الله مخلصين له الدين

۱۴_ مجبورى اور موت كے خطرے كے وقت لوگ بارگاہ خداوندى ميں دعا كرتے ہيں اور مسلسل قسميں كھا كھا كر كہتے ہيں كہ وہ اسكے شكر گزار بندے بنيں گے_وظنوا انهم احيط بهم دعوا الله مخلصين له الدين لئن انجيتنا من هذه لنكونن من الشاكرين

۱۵_نا شكرے لوگ موت ( غرق ہونے و غيرہ) كے خطرے كے احساس كے وقت خدا تعالى كے ساتھ محكم پيمان باندھتے ہيں كہ اگر اس گرداب سے نجات پاگئے تو ہرگز گناہ كے قريب نہيں جائيں گے اور شكر گزار بندوں كے حلقے ميں داخل ہوجائيں گے_و ظنوا انهم احيط بهم دعواالله لئن انجيتنا من هذه لنكونن من الشاكرين

۱۶_ مجبورى ، پريشانى اور موت كے خطرے كے وقت انسان كى غير خدا سے اميد منقطع ہوجاتى ہے_

و ظنوا انهم احيط بهم دعوا الله مخلصين له الدين لئن انجيتنا من هذه لنكونن من الشاكرين

۱۷_ مجبورى ، پريشانى اور موت كے خطرے كے احساس كے وقت انسان كو اپنى برائياں ياد آتى ہيں ،بارگاہ خدا ميں ندامت اور شرمسارى كا اظہار كرتاہے اور اپنى خطائوں اور ناشكرى سے توبہ كرتا ہے_

و ظنوا انهم احيط بهم دعوا الله لنكونن من الشاكرين

انسان:انسان اور مفيد چو پائے۱; انسان كا خدا كے ساتھ عہد ۱۵ ;ناشكر ے انسان خطرے كے وقت ۱۵

بيچارگى :اسكے اثرات ۱۳،۱۶،۱۷

توحيد :توحيد ربوبى كا فطرى ہونا ۱۲

خدا تعالى :افعال خدا كے مظاہر ۳; خداشناسى بے چارگى كے وقت ۱۴; خداشناسى سختى ميں ۱۰; خدا(كى ياد) غرق ہوتے وقت ۱۰;ربوبيت خدا كى نشانياں ۱،۲

۴۴۲

دريا :اسكى موجوں كے عوامل ۹; اسكے طوفان كے عوامل ۹

درياؤں كو طے كرنے والے:انكى خوشنودى كے عوامل ۶

دعا :دعا، بيچارگى كے وقت ۱۴; دعا، دريائي طوفان كے وقت ۱۰

دنيا :اسكے آنے كے اثرات ۱۱; اسكے پيٹھ پھيرنے كے اثرات ۱۱

سختى :اسكے اثرات ۱۳،۱۴،۱۶،۱۷

سفر :خوفناك سفر ۸

شكر :شكر گزار ہونے كا وعدہ ۱۴

غفلت :خدا تعالى سے غفلت كا پيش خيمہ ۱۱

فطرت :توحيدى فطرت كى علامتيں ۱۳

قدرتى عوامل :انكا كردار ۳

كشتي:اسكى حركت ۲; بادبانى كشتى كا آسيب پذير ہونا ۷; بادبانى كشتى كى حركت كا سرچشمہ ۵بادبانى كشتى كے ذريعے سفر ۸; صدر اسلام ميں بادبانى كشتى ۷

كشتى رانى :اسكى تاريخ ۴; يہ صدر اسلام ميں ۴

گناہ :اس سے پشيمانى كے عوامل ۱۷

معذرت كرنا :خدا تعالى سے معذرت كرنے كے عوامل ۱۷

موت :موت كے خطرے كا احساس ۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷

نا اميدى :غير خدا تعالى سے نااميد ہونے كے عوامل ۱۶

ہوا :تيز ہواؤں كا اثر ۹; ملائم ہواؤں كا اثر ۵،۶

يادكرنا:خدا تعالى كى ياد كے عوامل ۱۱; ناپسنديدہ عمل كے ياد كرنے كے عوامل ۱۷

۴۴۳

آیت ۲۳

( فَلَمَّا أَنجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنفُسِكُم مَّتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَينَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ )

اس كے بعد جب اس نے نجات ديدى تا زمين ميں ناحق ظلم كرنے لگے _انسانو يا د ركھو تمھارا ظلم تمھارے ہى خلاف ہو گا يہ صرف چند روزہ زندگى كا مزہ ہے اس كے بعد تم سب كى بازگشت ہمارى ہى طرف ہوگى اور پھر تمھيں بتائيں گے كہ تم دنيا ميں كيا كر رہے تھے_

۱_ مشركين كى خالص اور كسى ملاوٹ كے بغير دعاؤں كو خدا تعالى قبول كرتا ہے_

دعوا الله مخلصين له الدين فلما انجاهم اذا هم يبغون

جملہ '' انجاہم '' كى '' دعوا اللہ مخلصين لہ الدين '' پر تفريع ، ہو سكتا ہے مندرجہ بالا مطلب كو بيان كر رہى ہو_

۲_ پريشانى اور موت كے خطرے سے نجات حاصل كر لينے كے بعد لوگ خدا تعالى كے ساتھ كئے گئے اپنے پيمان كو توڑ ديتے ہيں اور ناشكرى اور حق سے تجاوز كرنے لگتے ہيں _

لئن انجيتنا من هذه لنكونن من الشاكرين فلما انجاهم اذا هم يبغون فى الارض بغير الحق

۳_ انسان ، خدا تعالى كى دستگيرى كے مقابلے ميں ناشكرا ہے_فلما انجاهم اذا هم يبغون فى الارض بغير الحق

۴_ انسان، عہد شكن او كمزور پيمان والا ہوتا ہے_

لئن انجيتنا من هذه لنكونن من الشاكرين فلما انجاهم اذا هم يبغون فى الارض بغير

۴۴۴

الحق

۵_ انسان ، بے انصاف اور خود سر ہوتا ہے_اذا هم يبغون فى الارض بغير الحق

( غير حق كے ساتھ بغى ) دوسروں پر ظلم كرنے اور ان كے حقوق پر ڈاكہ ڈالنے سے كناية ہے فعل مضارع (يبغون)كا استعمال كہ جو استمرار پر دلالت كرتا ہے، انسان كے خودسر ہونے اپنے حق پر قناعت نہ كرنے اور دوسروں كے حقوق تك دست درازى كرنے كو بيان كر رہا ہے_

۶_ دنيا طلبى اور دنيا پرستى انسان كے خود سر اور بے انصاف بن جانے كاپيش خيمہ ہے_

اذا هم يبغون فى الارض بغير الحق متاع الحياة الدنيا

۷_ خودسر اور غير منصف افراد كى كاميابى ، تيزى سے گزرجانے والى دنياوى زندگى تك محدود ہے_

اذا هم يبغون فى الارض بغير الحق متاع الحياة الدنيا

۸_ دنيا سے ظالمانہ طريقے سے بہرہ مند ہونا، خدا تعالى كى ناشكرى ہے_

لئن انجيتنا من هذه لنكونن من الشاكرين فلما انجاهم اذا هم يبغون فى الارض بغير الحق متاع الحياة الدنيا

۹_ بے انصافى اور خودسرى كا نقصان موت كے بعد والے جہان ميں خود ان خود سراور غير منصف افرادكے دامنگير ہوگا_

انما بغيكم على انفسكم ثم الينا مرجعكم

۱۰_خدا تعالى ، انسان كے سب اعمال سے آگاہ ہے_ثم الينا مرجعكم فننبئكم بما كنتم تعملون

۱۱_موت كے بعد والے عالم ميں انسان كا اپنے سب اعمال سے آگاہ ہونا _ثم الينا مرجعكم فننبئكم بما كنتم تعملون

۱۲_دنيا ميدان عمل اور موت كے بعد والا جہان جزا و سزا كى جگہ ہے_

اذا هم يبغون متاع الحياة الدنيا ثم الينا مرجعكم فننبئكم بما كنتم تعملون

۱۳_ زيد ابن اسلم سے روايت كى گئي ہے كہ پيغمبر(ص) نے فرمايا ''لا يؤخر الله عقوبة البغى فان الله قال '' انما بغيكم على انفسكم '' (۱)

خدا تعالى ظلم كى سزا كو مؤخر نہيں كرتا كيونكہ خوا تعالى نے فرمايا ہے كہ يقينا تمہارا ظلم خود تمہارے اوپر ہے_

آخرت :آخرت مقام پاداش ۱۲; آخرت مقام سزا ۱۲

____________________

۱) الدر المنثور ج۴ ص ۳۵۲_

۴۴۵

اخلاص :اسكے اثرات۱

انسان :اس كا خود سر ہونا ۵;اس كا ظلم اور تجاوز كرنا ۲،۵; اس كا كفران ۲،۳; اسكى صفات ۳،۴،۵; اسكى عہد شكنى ۲،۴; يہ خطرہ ٹل جانے كے بعد ۲

تجاوز :اس كا سرچشمہ۶;اسكے اثرات ۹

خدا تعالى :اس كا علم ۱۰

خود :خود پر ظلم ۱۳

خودسر لوگ:انكا سرور ۷; يہ آخرت ميں ۹

خودسر ہونا :اس كاپيش خيمہ ۶; اسكے اثرات ۹

دعا :خالصانہ دعا كا قبول ہونا ۱

دنيا :اس سے ناپسنديدہ استفادہ كرنا ۸; دنيا عمل كى جگہ ۱۲

دنيا پرستى :اسكے اثرات ۶

روايت: ۱۳

ظالم لوگ :انكا سرور ۷; يہ آخرت ميں ۹

عمل :آخرت ميں عمل سے آگاہى ۱۱; اسكى فرصت ۱۲

كفران :كفران نعمت كے موارد ۸

مشركين :انكى دعا ۱

۴۴۶

آیت ۲۴

( إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاء أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالأَنْعَامُ حَتَّىَ إِذَا أَخَذَتِ الأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلاً أَوْ نَهَاراً فَجَعَلْنَاهَا حَصِيداً كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ )

زندگانى دنيا كى مثال صرف اس بارش كى ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل كيا پھر اس سے مل كر زمين سے وہ نباتات بر آمد ہوئيں جن كو انسان اور جانور كھا تے ہيں يہاں تك كہ جب زمين نے سبزہ زارسے اپنے كو آراستہ كر ليا اور مالكوں نے خيال كرنا شروع كرديا كہ اب ہم اس زمين كے صاحب اختيار ہيں تو اچانك ہمارا حكم رات ياد ن كے وقت آگيا او رہم نے اسے بالكل كٹا ہو ا كھيت بناد يا گو يا اس ميں كل كچھ تھا ہى نہيں _ ہم اسى طرح اپنى آيتوں كو مفصل طريقہ سے بيان كرتے ہيں اس قوم كے لئے جو صاحب فكر و نظر ہے _

۱_ دنياوى زندگى ايسے سر سبز كھيت كى مانند ہے كہ جسے تباہ كن آفتوں اور حوادث كا خطرہ ہے_

انما مثل الحياة الدنيا كماء حتى اذا اخذت الارض زخرفها وازينت اتاها امرنا

۲_ دنيادار لوگ اس كسان كى مانند ہيں جسے اسكے سرسبز و شاداب اور پھولنے پھلنے والے كھيت نے مست اور آپے سے باہر كرديا ہو چنانچہ وہ كمين ميں بيٹھى ہوئي سب آفتوں اور حوادث سے غافل اور آسودہ خاطر ہو كر گہرى نيند سوجائے_

۴۴۷

انما مثل الحياة الدنيا و ظن اهلها انهم قادرون عليها اتاها امرنا ليلا او نهار

۳_ خدا تعالى ، آسمانوں سے بارش برساتاہے_كماء انزلناه من السماء

۴_ پانى ، نباتات كے اگنے اور انكے پھلنے پھولنے كا سامان فراہم كرتاہے_كماء انزلنا ه من السماء فاختلط به نبات الارض

۵_ نباتات كى مختلف اور متنوع اقسام ہيں جو انسانوں اور جانوروں كى خوراك كے لئے مناسب ہيں _

نبات الارض مما يا كل الناس و الانعام

۶_ نباتات ، پانى كے ساتھ مخلوط ہيں _فاختلط به نبات الارض

۷_ نباتات، انسان اور جانوروں كى غذا كے سرچشمے ہيں _فاختلط به نبات الارض مما يا كل الناس و الانعام

۸_ نباتات، زمين كى زينت ہيں _فاختلط به نبات الارض حتى اذاا خذت الارض زخرفها وازينت

۹_ دنيا ، فريب دينے والى جگہ ہے_انما مثل الحياة الدنيا كمائ حتى اذا اخذت الارض زخرفها و ازينت

دنيا كو سر سبز اور خوبصورت كھيت كے ساتھ تشبيہ دينا مندرجہ بالانكتے كو بيان كر رہا ہے_

۱۰_دنيا نا امن جگہ ہے اور اس ميں آرام كو اپنا لينا اور اسكے مدار پر گردش كرنا ، كوتاہ نظرى كى علامت ہے_

انما مثل الحياة الدنيا كذلك نفصل الآيات لقوم يتفكرون

بعد والى آيت (و الله يدعواالى دار السلام ...) كو مد نظر ركھتے ہوئے اس آيت شريفہ ميں تمثيل اس حقيقت كو بيان كر رہى ہے كہ دنيا ايسا اقامتگاہ ہے جومہلك خطرات اور مختلف حوادث ميں گھرا ہوا ہے اور انسان كو ايسى جگہ پر اكتفا نہيں كرنا چاہيے اور اسے اپنى كوششوں كا ہدف نہيں بنانا چاہيے_ قابل ذكر ہے كہ آيت كا ذيل (لقوم يتفكرون ) بتاتا ہے كہ اہل دنيا عقل و فكر سے عارى لوگ ہيں _

۱۱_ دنيا كى باطنى حقيقت سے غفلت انسان كے اسكى ظاہرى خوبصورتى اورجلووں پر فريفتہ ہونے كا پيش خيمہ ہے_

انما مثل الحياة الدنيا كماء اذا اخذت زخرفها و ازينت كذلك نفصل الآيات لقوم يتفكرون

۴۴۸

۱۲_ قرآن كريم واضح اور ہر قسم كے ابہام سے پاك آيات كا مجموعہ ہے_كذلك نفصل الآيات

''تفصيل'' كا معنى ہے واضح كرنا اور ہر قسم كے ابہام كو دور كرنا _

۱۳_ قرآن كى ساخت آيت آيت كى صورت ميں ہے_كذلك نفصل الآيات

۱۴_ آنكھ سے نظر آنے والے نمونوں كو پيش كرنا ، خدا تعالى كا اپنى آيات كو واضح طور پر بيان كرنے كاايك طريقہ ہے_

انما مثل الحياة الدنيا كماء انزلناه كذلك نفصل الآيات لقوم يتفكرون

۱۵_ عالم طبيعت ( بارش برسنا، نباتات كا اگنا و غيرہ ) منبع تفكر اور خدا تعالى كى ربوبيت كى نشانى ہے_

كماء انزلناه من السماء فاختلط به نبات الارض كذلك نفصل الآايات لقوم يتفكرون

۱۶_ دنياوى زندگى كے ساتھ دل لگا لينا ، دنيا كى صحيح شناخت نہ ہونے كا نتيجہ ہے _

انما مثل الحياة الدنيا و ظن اهلها انهم قادرون عليها كذلك نفصل الآيات لقوم يتفكرون

۱۷_ دنيا كے ساتھ دل لگانے اور اسكے ظاہرى جلووں پر فريفتہ ہونے سے بچ كے رہناتفكر اور دور انديشى كى علامت ہے_

انما مثل الحياة الدنيا كذلك نفصل الآيات لقوم يتفكرون

۱۸_ صرف اہل فكر اور دانشور لوگ ، معارف قرآن سے بہرہ مند ہونے كيلئے لازمى قدرت ركھتے ہيں _

كذلك نفصل الآيات لقوم يتفكرون

آيات خدا :انہيں بيان كرنے كى روش ۱۴

بارش :اس كا برسنا ۳; اس كا سرچشمہ ۳; اسكى اہميت ۱۵

پانى :اس كا كردار ۴

تفكر :اسكى علامتيں ۱۷; اسكے سرچشمے ۱۵;عدم تفكر كى علامتيں ۱۰

چو پائے:انكى غذا كے سرچشمے۷

خدا تعالى :خدا تعالى كى ربوبيت كى علامتيں ۱۵; خدا تعالى

۴۴۹

كے افعال ۳

خلقت :اسكى اہميت ۱۵

دنيا :اس سے جاہل ہونے كے اثرات ۱۶; اس كا فريب دينا ۹; اس كا نا امن ہونا ۱۰

دنيا پرستي:اس سے اجتناب ۱۷; اس كا پيش خيمہ ۱۱; اسكى مذمت ۱۰; اسكے عوامل ۱۶

دور انديشى :اسكى علامتيں ۱۷

زمين :اسكى زينتيں ۸

غذا كى فراہمى :اسكے منابع ۷

غفلت :اسكے اثرات ۱۱

قرآن كريم:اس سے استفادہ ۱۸; اس سے بہرہ مند ہونے والے۱۸; اس كا واضح ہونا ۱۲;اسكى خصوصيات ۱۲،۱۳; اسكى ساخت ۱۲،۱۳; اسكى مثاليں ۱،۲

متفكرين:انكى خصوصيات ۱۸; يہ اور قرآن كريم ۱۸

مثاليں :دنيا طلب لوگوں كى مثال ۲;دنياوى زندگى كى مثال ۱; سرسبز كھيت كے ساتھ تمثيل ۱،۲;غافل كسان كے ساتھ تمثيل ۲

نباتات:انكا تنوع ۵ ; انكى اہميت ۷; انكى تركيبات ۶; انكے اگنے كى اہميت ۱۵;انكے اگنے كے عوامل ۴; انكے فوائد ۸

آیت ۲۵

( وَاللّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلاَمِ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )

اللہ ہر ايك كو سلامتى كے گھر كى طرف دعوت دتيا ہے او ر جسے چاہتا سيدھے راستہ كى ہدايت دے ديتا ہے _

۱_ بہشت ، سراسر سلامتى ، امن اور آرام كى جگہ ہے_و الله يدعوا الى دار السلام

۴۵۰

۲_ خدا تعالى لوگوں كو دنياكى نا پائدار زندگى پر فريفتہ ہونے سے ڈراتا ہے اور انہيں امن و سلامتى سے سرشار جگہ ( بہشت ) كى طرف دعوت ديتا ہے_انما مثل الحياة الدنيا و الله يدعوا الى دار السلام

۳_ انسان كا ہدايت حاصل كرنا اور راہ راست پر آجانا ، مشيت خدا كا مرہون منت ہے _

و يهدى من يشاء الى صراط مستقيم

۴_ خدا تعالى انسان كو سيدھى ، معتدل اور ہر قسم كے افراط و تفريط سے محفوظ راستے كى ہدايت كرتا ہے_

و يهدى من يشاء الى صراط مستقيم

۵_عن ابى جعفر(ع) يقول فى قول الله عزوجل: ''والله يدعوا الى دار السلام'' ان السلام هو الله عزوجل و داره الجنة (۱)

اللہ تعالى كے فرمان '' و اللہ يدعوا الى دار السلام '' كے بارے ميں امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا سلام خدا تعالى كا نام ہے اور اس كا گھر جنت ہے_

۶_عن رسول الله ''الصراط المستقيم الاسلام'' (۲)

پيغمبر اكرم (ص) سے روايت كى گئي ہے كہ صراط مستقيم، اسلام ہے_

انسان :اسكى ہدايت كے عوامل ۳;اسے ہدايت كرنے والا ۴

بہشت :اسكى خصوصيات ۱; اسكى دعوت ۲; اس ميں آرام ۱; اس ميں امن ۱;اس ميں سلامتى ۱

خدا تعالى :اسكى دعوتيں ۲; اسكى مشيت كى اہميت ۳; اسكى نواہى ۲; اسكى ہدايات ۴

دار السلام :اس سے مراد ۵

دنيا پرستى :اس سے نہى ۲

روايت :۵،۶

صراط مستقيم :اس سے مراد ۶; اسكى ہدايت ۴

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۱۷۷ح ۲_ نو ر الثقلين ج ۲ ص ۳۰۰ ح ۴۲_

۲) تفسير قرطبى ج ۴،جز ۸ص ۳۲۹_

۴۵۱

آیت ۲۶

( لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ وَلاَ يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلاَ ذِلَّةٌ أُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ )

جن لوگوں نے نيكى كى ہے ان واسطے نيكى بھى ہے اور اضافہ بھى اور ان كے چہروں پر نہ سياہى ہوگى اورنہ ذلت ، وہ جنت والے ہيں اور وہيں ہميشہ رہنے والے ہيں _

۱_ اخروى پاداش صرف نيكوكاروں كيلئے ہے_للذين احسنوا الحسنى

خبر ''للذين '' كا مبتداء'' الحسنى '' پر مقدم كرنا حصر كا فائدہ ديتا ہے_

۲_ آخرت ميں نيك لوگوں كى پاداش بہترين قسم كى پاداش ہے_للذين احسنوا الحسنى

۳_ آخرت ميں نيك لوگ بہترين پاداش كے علاوہ بے شمار اور ناقابل بيان نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے_

للذين احسنوا الحسنى و زيادة

''زيادة'' كا نكرہ لانا _ كہ جو تفخيم كيلئے ہے_ مندرجہ بالا مطلب كو بيان كر رہا ہے_

۴_ استحقاق سے بڑھ كر پاداش دينا شائستہ اور قابل قدر كام ہے_للذين احسنوا الحسنى و زيادة

۵_ آخرت ميں نيك لوگ ہميشہ خوش و خرم ، بانشاط ، محترم اور عزيز ہوں گے_للذين احسنوا و لا يرهق وجوههم قتر ولاذلة

'' رہق' ' كا معنى ہے چھپانا اور '' قتر '' كا معنى ہے سياہ دھواں اور'' ذلة'' جو كہ عزت كے مقابل ميں ہے،كا معنى خفت اور خوارى ہے يعنى نيكوكار لوگوں كے چہروں پر غم و اندوہ اور خوارى كا غبار نہيں ہو گا، اور يہ كناية ہے اس سے كہ يہ لوگ ہميشہ خوش و خرم اور محترم ہوں گے_

۶_ نيكو كارلوگ بہشتى ہيں _للذين احسنوا اولئك اصحاب الجنة

۷_ نيك لوگ، ہميشہ رہنے والى بہشت ميں ہوں گے_للذين احسنوا اولئك اصحاب الجنة هم فيها خالدون

۸_ جہان آخرت ،ہميشہ رہنے والى جگہ ہے_اولئك اصحاب الجنة هم فيها خالدون

۴۵۲

۹_عن ابى جعفر(ع) فى قوله '' للذين احسنوا الحسنى و زيادة'' فاما الحسنى الجنة و اما الزيادة فالدنيا ما اعطاهم الله فى الدنيا لم يحاسبهم به فى الاخرة (۱)

امام باقر (ع) سے اللہ تعالى كے فرمان '' نيكى كرنے والوں كيلئے بہترين پاداش اور مزيد خير ہے'' روايت كى گئي ہے كہ آپ نے فرمايا بہترين پاداش سے مراد بہشت ہے اور مزيد سے مراد دنيا ميں خدا تعالى كے عطيے ہيں خدا تعالى نے انہيں دنيا ميں جو كچھ ديا ہے آخرت ميں ان سے اس كا حساب نہيں لے گا

۱۰ _امام على (ع) سے روايت كى گئي ہے'' الزيادة غرفة من لو لؤة واحدة لها اربعة ابواب '' (۲)

اس آيت شريفہ ميں زيادہ سے مرادايك لو لو كا بنا ہوا كمرہ ہے كہ جسكے چار دروازے ہيں _

۱۱_ پيغمبر اكرم (ص) سے روايت كى گئي ہے'' الذين احسنوا'' اهل التوحيد و '' الحسني'' الجنة و''الزيادة '' النظر الى وجه الله (۳)

نيكى كرنے والوں سے مراد اہل توحيد ،''حسني'' سے مراد بہشت اور ''زيادہ'' سے مراد وجہ اللہ كى طرف نظر ہے_

آخرت :اس كا دائمى ہونا ۸; اس كى خصوصيات ۸

بہشت :اس ميں ہميشہ رہنے والے۷

بہشتى :۶پاداش:اخروى پاداش كے درجے ۲;دوگنى پاداش ۳; دوگنى پاداش سے مراد ۹،۱۰،۱۱; دوگنى پاداش كى قدر وقيمت ۴

روايت :۹،۱۰،۱۱

عمل :پسنديدہ عمل ۴مرواريد كا كمرہ :۱۰

نيكوكار لوگ:ان سے مراد ۱۱;انكا اخروى سرور ۵;انكى اخروى پاداش ۱،۲،۳; انكى اخروى عزت ۵; انكى پاداش ۹; انكے فضائل ۱،۳،۵; يہ بہشت ميں ۶،۷،۹

____________________

۱)تفسير قمى ج ۱ص ۳۱۱_ نور الثقلين ج۲ ص ۳۰۱ح ۴۷_

۲) تفسير طبرى ج ۶ص ۵۵۲_ مجمع البيان ج۵ص ۱۵۸_

۳) الدر المنثور ج ۴ ص ۳۵۷_

۴۵۳

آیت ۲۷

( وَالَّذِينَ كَسَبُواْ السَّيِّئَاتِ جَزَاء سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ مَّا لَهُم مِّنَ اللّهِ مِنْ عَاصِمٍ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعاً مِّنَ اللَّيْلِ مُظْلِماً أُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ )

اور جن لوگوں نے برائياں كمائي ہيں ان كے لئے ہر برائي كے بدلے ويسى ہى برائي ہے اور ان كے چہروں پر گناہوئں كى سياہى بھى ہوگى او رانھيں عذاب الہى سے بچانے والا كوئي نہ ہوگا _ ان كے چہر ے پر جيسے سياہ رات كى تاريكى كا پردہ ڈال ديا گيا ہو _ وہ اہل جہنم ہيں اور اسى ميں ہميشہ رہنے والے ہيں _

۱_ دنيا ميدان عمل اورآخرت جزا و سزا كى جگہ ہے_للذين احسنوا الحسنى و الذين كسبوا السيئات جزاء سيئة بمثله

۲_ قيامت والے دن خدا تعالى گناہگاروں كو سزا دينے كيلئے عدل او ر نيكوكاروں كو پاداش دينے كيلئے فضل سے كام لے گا _

للذين احسنوا الحسنى و زيادة و الذين كسبوا السيئات جزاء سيئة بمثله

نيكوكاروں كو پاداش دينے كيلئے ''الحسنى '' اور ''زيادہ'' كى تعبير فضل كو اورگناہگاروں كو سزادينے كيلئے '' جزاء سيئة بمثلہا ''كى عبارت عدل اور نفى ظلم كو بيان كر رہى ہے_

۳_ قيامت ميں گناہگار لوگ اپنے برے اعمال كى سزا سے دوچار ہوں گے _و الذين كسبوا السيئات جزاء سيئة بمثله

۴_ قيامت ميں ہر برے كام كى سزا اس برے كام كے ساتھ متناسب ہوگي_جزاء سيئة بمثله

۵_ گناہگار لوگ ، جہان آخرت ميں ايسى ذلت و خوارى ميں مبتلا ہوں گے جو ناقابل بيان ہے_

و الذين كسبوا السيئات و ترهقهم ذلة

۴۵۴

'' ذلة'' كى تنكير اس حقيقت كو بيان كر رہى ہے كہ گناہگار لوگوں كى ذلت و خوارى ناقابل بيان ہے_

۶_ گناہگار لوگ آخرت ميں خداتعالى كے غيظ و غضب اور عذاب ميں مبتلا ہوں گے_

و الذين كسبوا السيئات ما لهم من الله من عاصم

'' مالهم من الله من عاصم '' سے مراد ہے''مالهم من عذاب الله من عاصم ''

۷_ جہان آخرت ، گناہگاروں كى تنہائي اور انكى ہر قسم كى شفاعت سے محروميت كى جگہ ہے _

و الذين كسبوا السيئات مالهم من الله من عاصم

۸_ قيامت ميں گناہگار لوگوں كے چہرے تاريك رات كے ٹكڑے كى مانند سياہ ہوں گے _

و الذين كسبوا السيئات كا نما اغشيت وجوههم قطعا من الليل مظلم

۹_ گناہگار لوگ ، اہل دوزخ ہيں اور اس ميں ہميشہ رہيں گے_و الذين كسبوا السيئات اولئك اصحاب النار هم فيها خالدون

۱۰_ آخرت ميں انسان كا اچھا اور برا انجام اسكے اپنے عمل كا نتيجہ ہے_

و الذين كسبوا السيئات اولئك اصحاب النار هم فيها خالدون

۱۱_عن ابى جعفر(ع) فى قوله '' و الذين كسبوا السيئات ''قال هو لاء اهل البدع و الشبهات و الشهوات ...'' (۱)

اللہ تعالى كے اس فرمان '' جن لوگوں نے برائياں كى ہيں ...'' كے بارے ميں امام باقر (ع) سے روايت كى گئي ہے_كہ يہ اہل بدعت و شبہات اور شہوت پرست لوگ ہيں _

آخرت :آخرت مقام پاداش ۱; آخرت مقام كيفر ۱

انجام :اس ميں موثر عوامل ۱۰

انسان :اس كا انجام ۱۰

بدعت گزار لوگ :انكا گناہ ۱۱

تشبيہات :

____________________

۱) تفسير قمى ج ۱ص ۳۱۱_ نور الثقلين ج ۲ص ۳۰۲ح ۵۳_

۴۵۵

تاريك شب كے ساتھ تشبيہ ۸

جہنم :اس ميں ہميشہ رہنے والے ۹

جہنمى :۹

خدا تعالى :خدا تعالى كا اخروى فضل ۲;خدا تعالى كا عدل ۲; خدا تعالى كى پاداش ميں فضل ۲;

دنيا :دنيا ميدان عمل ۱

ذلت :اخروى ذلت كے درجے ۵

روايت ۱۱

سزا :اخروى سزا ميں عدل ۲;اس كا گناہ كے ساتھ متناسب ہونا ۴; سزا كا نظام ۴

شفاعت :اخروى شفاعت سے محروم لوگ ۷

عذاب :اہل عذاب ۶

عمل :اخروى عمل كے اثرات ۱۰; عمل كى اخروى سزا ۴; عمل كى فرصت ۱;ناپسنديدہ عمل ۴

قرآن كريم:اسكى تشبيہات ۸

قيامت :اس كى خصوصيات ۷; اس ميں رو سياہ لوگ ۸

گناہ گار لوگ:انكى اخروى بے چارگى ۷; انكى اخروى ذلت ۵; انكى اخروى سزا ۳; انكى اخروى محروميت ۷; قيامت ميں انكا منظر ۸; يہ جہنم ميں ۹; يہ قيامت ميں ۳،۶

مغضوب افراد:۶

۴۵۶

آیت ۲۸

( وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعاً ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُواْ مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَآؤُكُمْ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ وَقَالَ شُرَكَآؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ )

جس دن ہم سب كو اكٹھا جمع كريں گے اور اس كے بعد شرك كرنے والوں سے كہيں گے كہ تم اور تمھارے شركاء سب اپنى اپنى جگہ ٹھہر و اور پھر ہم ان كے در ميان جدائي ڈال ديں گے اور ان كے شركاء كہيں گے تم ہمارى عبادت تو نہيں كرتے تھے _

۱_ مشركين ، گناہگار لوگ ہيں _و الذين كسبوا السيئات و يوم نحشرهم

''نحشرہم '' ميں '' ہم '' ضمير كا مرجع''الذين احسنوا '' اور'' الذين كسبوا السيئات '' ہے'' ثم نقول للذين اشركوا ...'' قرينہ ہے كہ مشركين جملہ''الذين كسبوا السيئات '' كا ايك مورد نظر مصداق ہيں _

۲_ روز محشر اور اسكى دشواريوں كو ياد ركھنا ، اہل ايمان كو ايك نصيحت _و يوم نحشرهم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پرہے كہ '' يوم '' فعل مقدر ''اذكروا'' كا مفعول بہ ہے_

۳_ قيامت سب انسانوں ( نيك ، بد اور مومن و مشرك) كے محشوراور جمع كرنے كا دن _

للذين احسنوا و الذين كسبوا السيئات و يوم نحشرهم جميع

''نحشرہم '' كى ''ہم '' ضمير كا مرجع نيك اور برے دونوں گروہ ہيں _

۴_ قيامت والے دن مشركين كا حساب كتاب كيلئے روكا جانا اور انہيں دوسروں سے جدا كرنا_

و يوم نحشرهم جميعا ثم نقول للذين اشركوا مكانكم انتم و شركاؤكم فزيلنا بينهم ما كنتم ايانا تعبدون

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ'' بينهم '' كى

''ھم'' ضمير كا مرجع ميدان محشر ميں جمع ہونے والے سب لوگ ( نيك ، برے اور مومنين و مشركين) ہوں _ يعنى محشر ميں سب خلائق كے جمع كرنے كے بعد مشركين كو ٹھہرنے كا حكم ديا جائيگا پھر انكے اور دوسروں كے در ميان جدائي ڈال دى جائيگى _

۴۵۷

۵_ قيامت ميں مشركين كو انكے ان معبودوں كے ہمراہ محشور كيا جائيگا جنكى وہ پرستش كرتے تھے_

ثم نقول للذين اشركوا مكانكم انتم و شركاؤكم

۶_ قيامت ، خدا تعالى كے انسانوں كے در ميان فيصلہ كرنے كا دن _

و يوم نحشرهم جميعا ثم نقول للذين اشركوا مكانكم انتم و شركاؤكم فزيلنا بينهم

۷_ خدا تعالى ميدان محشر ميں مشركين اور انكے معبودوں كو روكنے كے بعد سب سے پہلے انہيں ايك دوسرے سے جدا كريگا پھر انكى تفتيش اور عدالتى كاروائي شروع كريگا _ثم نقول للذين اشركوا مكانكم انتم و شركاؤكم فزيلنا بينهم ما كنتم ايانا تعبدون

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ '' بينہم'' كى ضمير كا مرجع مشركين اورانكے معبود ہوں قابل ذكر ہے كہ تزييل ( ذيلنا كا مصدر ) كا معنى ہے دوچيزوں كو ايك دوسرے سے جدا كرنا اور انكے در ميان جدائي ڈالنا_

۸_قيامت والے دن يہ معبود ( بت) اپنى پرستش سے بے خبر ى كا اظہار كريں گے اور اس كا انكار كريں گے_

و يوم نحشرهم جميعا و قال شركاؤهم ما كنتم ايانا تعبدون

۹_ جن بتوں كى مشركين عبادت كرتے تھے آخرت ميں وہ باشعور اور بولنے پر قادر ہوں گے_

و يوم نحشرهم جميعا و قال شركاؤهم ما كنتم ايانا تعبدون

۱۰_قيامت والے دن بت ، مشركين كے ساتھ بات كريں گے_ثم نقول للذين اشركوا قال شركاؤهم ما كنتم ايانا تعبدون

انسان :اس كا محشور ہونا ۳

باطل معبود:انكا محشور ہونا ۵; يہ قيامت ميں ۵

بت :بت قيامت ميں ۸،۱۰; بتوں كا مشركين كے ساتھ بات كرنا ۱۰; قيامت والے دن بتوں كا بات كرنا۹; قيامت والے دن بتوں كا با شعور ہونا ۹

خداتعالى :

۴۵۸

اسكى قضاوت ۶;اسكى نصيحتين۲

ذكر:ذكر قيامت كى اہميت ۲

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۳،۶،۹; قيامت ميں قضاوت ۶; قيامت ميں محشوركرنا ۳

گناہ گار لوگ :۱

مشركين :انكا محشور ہونا ۵;انكا ناپسنديدہ عمل ۱;انكى اخروى تفتيش ۴،۷; انكى خصوصيات ۱; انكے خلاف آخرت ميں عدالتى كاروائي ۴،۷; قيامت والے دن ان كے بت ۹; يہ اور باطل معبود ۵;يہ قيامت ميں ۵،۷

مومنين:انہيں وصيت ۲

آیت ۲۹

( فَكَفَى بِاللّهِ شَهِيداً بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ )

اب خدا ہمارے اور تمھارے در ميان گواہى كے لئے كافى ہے كہ ہم تمھارى عبادت سے بالكل غافل تھے _

۱_ قيامت والے دن بت ، خداتعالى كو گواہ بنائيں گے كہ انہيں مشركين كى عبادت كى كوئي خبر نہ تھى _

فكفى بالله شهيدا بيننا و بينكم ان كنا عن عبادتكم لغافلين

۲_ جاہليت كے عرب، مشرك اور بت پرست تھے_فكفى ان كنا عن عبادتكم لغافلين

۳_ آخرت ميں مشركين كے بت ، باخبر ، با شعور اور بولنے پر قادر ہوں گے_

و قال شركاؤهم فكفى بالله شهيدا بيننا و بينكم ان كنا عن عبادتكم لغافلين

۴_ قيا مت والے دن مشركين كے بت ، خداتعالى كى وحدانيت اور اشياء كے ظاہر و باطن سے اسكى آگاہى كا اعتراف كريں گے_فكفى بالله شهيدا بيننا و بينكم ان كنا عن عبادتكم لغافلين

۵_ قيامت والے دن خداتعالى كى گواہى كامل اور

۴۵۹

دوسروں كى گواہى سے بے نياز كردينے والى ہوگى _فكفى بالله شهيدا بيننا و بينكم ان كناعن عبادتكم لغافلين

بت پرست لوگ ۲

بت :انكا اخروى اقرار ۴;انكے گواہ ۱; قيامت ميں انكا بات كرنا ۳; قيامت ميں انكا شعور ۳; يہ اورتوحيد كا اقرار ۴;يہ اور علم خدا كا اقرار ۴; يہ قيامت ميں ۱

جاہليت :اس ميں بت پرستى ۲; اس ميں شرك ۲

خدا تعالى :خدا تعالى كى اخروى گواہى ۵; خداتعالى كى گواہى كى خصوصيات ۵

مشركين :۲

آیت ۳۰

( هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَّا أَسْلَفَتْ وَرُدُّواْ إِلَى اللّهِ مَوْلاَهُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ )

اس وقت ہر شخص اپنے گذشتہ اعمال كا امتحان كرے گا اور سب مولائے بر حق خداوند تھالى كى بارگاہ مين پلٹا ديئے جائيں گے اورجو كچھ اقترا كررہے تھے وہ سب بھٹك كر گم ہوجائے گا _

۱_ ميدان محشر ميں لوگوں كى شديد پريشانى اور اضطراب_و يوم نحشرهم جميعا هنا لك تبلوا كل نفس ما اسلفت

بلاء ( تبلوا كا مصدر ) كا معنى ہے آزمانا _ ميدان محشر ميں ہر شخص كا آزمائش اور اپنے اعمال كو ہلكا اور بھارى كرنے ميں مشغول ہونا اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ اس دن سب لوگ اپنے كام كے انجام كے سلسلے ميں بہت پريشان اور مضطرب ہوں گے_

۲_ ميدان محشر ميں ہر شخص كا اچھا اور برا انجام اسكے اپنے

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746