تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 192915 / ڈاؤنلوڈ: 4754
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

خلیفہ کو بھی نہیں جھٹلاتا ہوں''

قاضی نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا:

'' یا علی (ع) آپ مدّعی ہیں اور مدّعی کو ایسے دو گواہ کو جو قابل قبول ہوں لانے چاہئیں اگر آپ کے پاس گواہ ہیں تو انھیں عدال میں لائیں تا کہ وہ گواہی دیں''

امیرالمومنین (ع) قاضی کو اچھی طرح پہچانتے تھے اور جانتے تھے کہ گواہی کے قبول کئے جانے کے کیا شرائط ہیں آپ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ:

'' میں اس طرح کے گواہ نہیں رکھتا''

قاضی نے کہا:

'' جب آپ کے پاس گواہ نہیں ہیں تو شریعت کی رو سے آپ کا حق ثابت نہیں ہوتا''_

چنانچہ وہ عیسائی زرہ لے کر عدالت سے باہر گیا اور تھوڑی دور چلنے کے بعد سوچنے لگا کہ کتنا بہترین دین اور کتنی عادلانہ حکومت ہے کہ ایک مسلمانوں کے پیشوا اور ایک عیسائی آدمی کو قاضی کے سامنے برابر اور مساوی قرار دیتا ہے_ مسلمانوں کا پیشوا قاضی سے کہتا ہے کہ '' بیٹھ جاؤ تمھیں ایک قاضی کی حیثیت سے قضاوت کے وقت میرا زیادہ احترام نہیں کرنا چاہیئے، قاضی کو نگاہ کرنے میں بھی طرفین میں عدالت اور مساوات برتنی چاہیئے کتنی عادلانہ قضاوت ہے کہ بغیر ثبوت کے کسی کے حق میں اگر چہ وہ مسلمانوں کا پیشوا ہی کیوں نہ ہو فیصلہ صادر نہیں کرتی_

وہ تھوڑی دیر کھڑا سوچتا رہا پھر واپس لوٹا لیکن خوشحال ہوکر نہیں بلکہ پریشانی کے عالم میں لوگوں کے سامنے قاضی سے کہتا ہے:

۲۰۱

''مسلمانو میں اس فیصلہ سے حیرت زدہ ہوں اور یقین نہیں ہوتا کہ قاضی نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے اور مسلمانوں کے پیشوا کے خلاف حکم سنایا ہے، اس عدالت کا حکم بالکل غیر جانبدارانہ تھا اور اس طرح کا فیصلہ صرف پیغمبروں (ع) کے دین میں ہی دیکھا جاسکتا ہے_

مجھے تعجب ہوتا ہے کہ امیرالمومنین (ع) و رسول خدا(ص) کا خلیفہ اور میں ایک عیسائی عدالت میں قانون کی رو سے مساوی ہیں، جہاں اسلام کا پیشوا عدالت میں حاضر ہوتا ہے اور اپنے اجتماعی مقام اور رتبہ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا

کیسے یہ ہوگیا کہ وہ قاضی کہ جسے وہی پیشوا معین کرتا ہے اس کے حق میں فیصلہ نہیں دیتا؟ کس طرح مانا جائے کہ قاضی اسلام کے رہبر و امیرالمومنین کے خلاف حکم صادر کردیتا ہے اور قضاوت کے قوانین کو ہر حیثیت سے ترجیح دیتا ہے_

یہ عدالت اور یوں فیصلہ کرنا تمھارے دین و مذہب کے حق ہونے کی نشانی ہے میں تمھارے دین کو قبول کرتا ہوں اور مسلمان ہوتا ہوں''_

اس وقت اس نے کلمہ شہادتین: اشہد ان لا الہ الّا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ''

زبان پر جاری کیا اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ:

'' خدا کی قسم حق آپ کے ساتھ ہے اور آپ اپنے دعوی میں سچے ہیں یہ زرہ آپ کی ہے جب آپ مسلمانوں کے لشکر کے

۲۰۲

ساتھ صفین کی جنگ میں جا رہے تھے تو یہ زرہ اونٹ سے گرپڑی تھی اور آپ اس سے آگے نکل گئے تھے میں نے اسے اٹھایا تھا اور اسے گھر لے آیا تھا یقینا یہ زرہ آپ ہی کی ہے اور میں معافی چاہتا ہوں''_

امیرالمومنین (ع) لوگوں کو ہدایت کرنا بہت پسند کرتے تھے اس کے مسلمان ہونے سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا:

'' تمھارے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے یہ زرہ میں تمھیں بخشتا ہوں اور یہ گھوڑا بھی تمھیں دیتا ہوں''

اس مرد نے اسلامی عالت کی عادلانہ رفتار کی وجہ سے اسلام کو محبت اور عشق سے قبول کیا اور امیرالمومنین (ع) کے خاص پیرو کاروں میں سے ہوگیا اور وہ دین اسلام کا اتنا شیفتہ ہوگیا کہ اسلامی فوج سے منسلک ہوگیا اور بہت بہادری سے نہروان کی جنگ میں شرکت کی ا ور اسلام کی حفاظت کی یہاں تک کہ اپنے کو اسلام اور انسانی آزادی کے لئے قربان کردیا اور شہادت کے بلند درجہ پر فائز ہوگیا_

توضیح اور تحقیق:

معاشرہ میں عادلانہ قوانین کا ہونا اور اس پر عمل کرانا اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اگر معاشرہ میں قانون کی حکومت ہو تو لوگ امن میں رہیں گے مطمئن ہوکر کاموں میں مشغول رہیں گے اپنی اور دوسرے لوگوں کی زندگی بہتر بنانے میں کوشا رہیں گے کیونکہ صحیح قانون کے اجراء سے ہی اختلاف اور بد نظمی کو روکا جاسکتا ہے_ لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جاسکتی ہے_

۲۰۳

قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور سبھی کو اللہ تعالی کے قوانین کا احترام کرنا چاہیئے اور اپنی مشکلات کو قانون کے دائرہ میں حل کرنا چاہیئےور عدالت کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے اگر چہ وہ حکم ان کے خلاف ہی کیوں نہ ہو_ قاضی اور قانون جاری کرنے والوں کا سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیئے حق و عدالت کی پیروی کرنا چاہیئے اور کسی بھی موقع پر غلط حمایت نہیں کرنا چاہیئے بلکہ دوستی اور دشمنی کو مدّ نظر رکھے بغیر قضاوت کرنا چاہیئے_

قرآن کی آیت:

( یا ايّها الّذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء الله و لو علی انفسکم او الوالدین و الاقربین ان یکن غنیا او فقیرا فالله اولی بهما فلا تتّبعوا الهوی ان تعدلوا و ان تلوا او تعرضوا فان الله کان بما تعملون خبیرا ) (۱)

'' اے ایمان والو عدل و انصاف کے ساتھ قیامت کرو اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور قرباء ہی کے خلاف کیوں نہ ہو جس کے لئے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کے لئے تم سے اولی ہے لہذا خبردار خواہشات کا اتباع نہ کرنا تا کہ انصاف کرسکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کرلی تو یاد رکھو کہ اللہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے''_

____________________

۱) سورہ نساء آیت ۱۳۵

۲۰۴

سوالات

یہ سوالات اس لئے ہیں تا کہ زیادہ غور و فکر کرسکو

۱)___ جب حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زرہ عیسائی کے ہاتھ میں دیکھی تھی تو اس سے کیا کہا تھا؟

۲)___ کیا اس عیسائی نے حضرت علی (ع) کی بات کو مانا تھا او رجواب میں کیا کہا تھا؟

۳)___ جب اس عیسائی نے امیرالمومنین (ع) کو زرہ واپس نہ کی تھی تو امیرالمومنین (ع) نے اس سے کیا کہا تھا؟

۴)___ قاضی نے امیرالمومنین (ع) کے ساتھ کون سا سلوک کیا اور حضرت علی (ع) نے اس سے بیٹھنے کے لئے کیون کہا تھا؟

۵)___ قاضی نے آپ کے جھگڑے میں کس طرح قضاوت کی اور کس کے حق میں فیصلہ دیا اور کیوں؟

۶)___ وہ عیسائی کیوں مسلمان ہوگیا تھا؟ اس کے مسلمان ہونے کا سبب کیا تھا؟

۷)___ اس تازہ عیسائی مسلمان کا انجام کیا ہوا تھا؟ تمھاری نظر میں وہ اس مرتبہ تک کیسے پہونچا تھا؟

۹)___ کیا بتلا سکتے ہو کہ صحیح قانون کے اجر اسے امن کا کیون احساس ہوتا ہے؟

۱۰)___ صحیح قانون کے اجرا سے ظلم و جور کو کس طرح روکا جاسکتا ہے؟

۱۱)____ قاضیوں کو طرفین سے کیسا سلوک کرنا چاہیئے؟

۲۰۵

۱۲)___ دو نزاع کرنے والوں میں سے ایک کو مدّعی کہا جاتا ہے اور جانتے ہو کہ دوسرے کو کیا کہا جاتا ہے؟

۱۳)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں عدالت و انصاف کے بارے میں مومنین کا کیا فریضہ معین کیا ہے؟

۱۴)___ عیسائی کے سا تھ امیرالمومنین علیہ السلام کے سلوک کو وضاحت سے بیان کرو_

۱۵)___ کبھی تم نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کیا ہے؟ کیا عدالت و مساوات کی رعایت کی ہے؟ کیا تم میں فیصلہ کرنے کے شرائط موجود ہیں؟

۲۰۶

اسلام میں برادری

ہم ساتویں امام حضرت امام کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے میرے دوستوں میں سے محمد نام کا ایک دوست بھی وہاں بیٹھا ہوا تھا_ امام موسی کاظم علیہ السلام میرے تبسم اور اس کی طرف دیکھنے سے سمجھ رہے تھے کہ میں محمد کو بہت چاہتا ہوں آپ کافی دیر تک ہم دونوں کو دیکھتے رہے اور پھر فرمایا:

'' محمد کو تم بہت دوست رکھتے ہو''

میں نے غرض کی:

''جی ہاں اے فرزند پیغمبر(ص) چونکہ محمد ایک متقی و با ایمان انسان ہے اور آپ کے دوستوں میں سے ہے لہذا میں اسے دوست رکھتا ہوں''_

امام علیہ السلام نے فرمایا:

'' ضرور تمھں اسے دوست رکھنا چاہیئے محمد ایک مرد مومن ہے اور تمام مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ ان کا آپس میں سلوک دو بھائیوں جیسا ہو_

کیا جانتے ہے؟ کیا جانتے ہو کہ جو مسلمان بھائی کے ساتھ خیانت کرے اور اسے دوھوکہ دے خداوند عالم اسے اپنی رحمت

۲۰۷

سے دور کردیتا ہے؟ جانتے ہو کہ بھائیوں کو ایک دوسرے کا خیرخواہ ہونا چاہیئے اور ایک دوسرے کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے؟

دیکھو کسی بھائی کو اس کی ضرورت کی چیز سے محروم نہ کرنا کیونکہ ایسا شخص خدا کی رحمت سے دور رہتا ہے_ دیکھو کبھی کسی بھائی کی غیر حاضری میں اس کی غیبت اور بدگوئی نہ کرنا یا اس کو اپنے سے دور نہ کرنا کہ خداوند عالم بھی تمھیں اپنی رحمت سے دور کردے گا_

اسلام کی رو سے مسلمان مرد اور عورت ایک دوسرے کے بھائی بہن ہیں اور اسلام نہ یہ کہ ایک دوسرے کو بھائی بہن کہہ کہ بلانے کو کہتا ہے بلکہ ان سے چاہتا ہے کہ ایک دوسرے سے بھائیوں اور بہنوں کی طرح مہربانی و صمیمیت سے مددگار ہوں_ سچّے بہن بھائی کبھی بھی ایک دوسرے سے بے تفاوت نہیں رہ سکتے اور وہ ایک دوسے کے اعضاء کی طرح ہوتے ہیں کہ اگر بدن کا ایک عضو و رد کرے تو دوسرا عضو بھی درد کرتا ہے _ مومنین بھی ایسے ہوا کرتے ہیں کہ اگر کسی مومن کو کوئی تکلیف پہونچتی ہے تو دوسرے بھی درد و رنج کا احساس کرتے ہیں اور اس مومن بھائی یا بہت کی مدد کے لئے پہونچ جاتے ہیں اور اس کے درد و رنج کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں''_

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرما ہے کہ:

۲۰۸

'' مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر برادری کا حق رکھتے ہیں اگر ایک بھائی بھوکا ہو تو کیا دوسرا بھائی اپنے پیٹ کو مختلف رنگ برنگ غذا سے پر کرسکتا ہے؟ اگر ایک بھائی پیاسا ہو تو دوسرا بھائی سیراب ہوسکتا ہے؟ اگر ایک بھائی لباس نہ رکھتا ہو تو کیا دوسرا بھائی اپنی پسند کا لباس پہن سکتا ہے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کافی حق رکھتا ہے کہ وہ اسے بجالائے''

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی چند ذمّہ داریاں میں:

۱)___ '' ملاقات کے وقت اسے سلام کرے_

۲)___ اگر بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرے_

۳)___ اگر مرجائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرے_

۴)___ اگر اسے دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کردے_

۵)___ اور سب سے اہم یہ ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرے وہی دوسرے مسلمان اور مومن کے لئے بھی پسند کرے اور جو چیز اپنے لئے پسند نہیں کرتا وہ دوسرے کے لئے بھی پسند نہ کرے''_

۲۰۹

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو فرائض ہیں انھیں بتاؤ_

۲)___ مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشے کو بیان کرو اور بتاؤ کہ مومن واقعی ایک دوسرے سے کس طرح کی رفتار کرے اور جب کوئی مومن مصیبتوں میں گرفتار ہوجائے تو دوسرے مومن کو کیا کرنا چاہیئے؟

۳)___ امام موسی کاظم علیہ السلام نے محمّد کے دوست سے جو آپ کے اصحاب میں سے تھا مومنین کے ایک دوسرے کے فرائض کے سلسلہ میں کیا فرمایا تھا؟

۲۱۰

اسلام اور مساوات

ایک دن پیغمبر اسلام(ص) اپنے چند اصحاب سے گفتگو کر رہے تھے اسی وقت جناب سلمان فارسی جو پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں محترم تھے آگئے آنحضرت (ص) نے اپنی گفتگوختم کرتے ہوئے سلمان فارسی کو بڑے احترام اور خندہ پیشانی سے اپنے پہلو میں بٹھایا_ آپ کی اس محبت آمیز رفتار اور بہت زیادہ احترام سے آپ کے ایک صحابی کو غصہ آیا اور گستاخانہ انداز میں کہا کہ:

'' سلمان کو ہمارے درمیان ہم سے بلند جگہ نہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ ہم سے نیچے بیٹھنا چاہیئے کیونکہ وہ فارسی زبان ہیں اور ہم عربی زبان'' _

پیغمبر اسلام(ص) اس صحابی کی گفتگو سے غضبناک ہوئے اور فرمایا:

'' نہیں ایسا نہیں ہے فارسی یا عربی ہونا قابل امتیاز اور فخر نہیں ہوا کرتا، رنگ اور قبیلہ فضیلت کاموجب نہیں ہوا کرتا، سفید کو سیاہ پر برتری نہیں ہے بلکہ جو چیز خداوند عالم کے نزدیک برتری کا موجب ہے وہ ''تقوی'' ہے_

جو بھی تقوی میں زیادہ ہوگا وہ اللہ کے نزدیک معزز ہوگا،

اسلام برابری کا دین ہے اور دین اسلام بے اساس و خیالی امتیازات کی مخالفت کرتا ہے_ اسلام کی نگاہ میں سلمان فارسی ، صہیب رومی، حمزہ، جعفر ابن ابیطالب اور دوسرے مسلمان سب کے سب برابر

۲۱۱

ہیں_ برتری اور فضیلت کا معیار صرف تقوی اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ کرنے میں ہے_ اللہ تعالی کے نزدیک ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ہی برتری ہوا کرتی ہے کیونکہ سب کا پیدا کرنے والا خدا ہے اور خداوند عالم نے تقوی کو فضیلت و برتری کا معیار قرار دیا ہے''_

خداوند عالم انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کی ضروریات کو پہلے سے مہیا کیا ہے اور انھیں اس کے اختیار میں دیا ہے اسی طرح خدا نے زمین کو پیدا کیا ہے تا کہ انسان اس پر زندگی بسر کرے اپنی کوشش سے اسے آباد کرے اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو اپنے اور دوسروں کے لئے روزی حاصل کرے_

انسان اللہ تعالی کی نعمتوں سے استفادہ کئے بغیر اور خاص طور سے پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا_ خداوند عالم نے پانی کو انسانوں کے اختیار میں دیا ہے تا کہ اسے پیئں اور اس سے زراعت کریں اور حیوانوں کو پالیں_ زمین کے معاون اور اس کی اندرونی دولت کو انسانوں کے فائدے کے لئے خلق کیا ہے تا کہ انسان غور و فکر کے ذریعہ دنیا کے اسرار و رموز سے واقف ہو اور ان نعمتوں سے کہ جو زمین کے اندر ہیں بہرہ مند ہو اور انھیں مخلوق خدا کی سعادت و آرام اور رفاہ کے لئے استعمال میں لائے ( زمین یا پانی، ہوا اور زمین کی دوسری دولت سارے انسانوں سے متعلق ہے اور سبھی اس سے فائدہ حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں_

سارے انسان اللہ کے بندے ہیں اور وہ زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں سفید، سیاہ، زرد، سرخ، عورت، مرد، دیہاتی، شہری، عرب اور عجم سب کے سب انسان ہیں اور سب کو حق پہونچتا ہے کہ کھانے پینے اور زندگ کے دوسرے وسائل سے بہرہ مند

۲۱۲

ہوں_ سبھی کو محنت کرنا چاہیئے اور اسلام کے قوانین کی رعایت کرتے ہوئے غیر آباد زمین کو آباد کرنا چاہیئے اور زمین کے اندر چھپی ہوئی دولت کو نکال کر اپنے معاشرہ کے فائدے کے لئے استعمال کرنا چاہیئے_

کسی انسان کو حق نہیں پہونچتا کہ وہ دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرے اور زندگی کے وسائل سے محروم کردے جس طرح خدا کے نزدیک سارے انسان برابر ہیں اسی طرح ایک اسلامی مملکت کی نظر میں بھی برابر ہیں_ اسلامی مملک کو عوام کی ضروریات کو فراہم کرنا چاہیئے اورا ن کی خوراک و پوشاک اورمسکن کا بغیر کسی جانبداری کے انتظام کرنا چاہیئے_

اسلامی حکومت کو چاہیئے کہ جہالت کو ختم کردے اور سبھی کو اسلامی تعلیم سے بہرہ مند کرے اور عوام کے علاج کے لئے ڈاکٹروں کا انتظام کرے_ اسلامی مملکت کا یہ وظیفہ ہے کہ تمام رعایا کی مدد سے مجبور اور بوڑھوں کے لئے سامان زندگی کو مہیا کرے_ اسلامی حکومت کو چاہیے کہ ذخیرہ کرنے والوں کے ظلم و تعدی کو روکے اور ان کے درمیان عدل او نصاف سے کام لے اور ان لوگوں پر زیادہ توجہ دے جو محروم و ضعیف اور سر حد و دیہات کے رہنے والے ہیں تا کہ ان کی زندگی دوسرے افراد کی زندگی کے برابر آجائے_

خلاصہ یہ ہے کہ دین اسلام عدل و انصاف، برابری اور برادری کا دین ہے_ کسی کو دوسرے پر سوائے تقوی کے کوئی امتیاز نہیں حاصل ہے صرف مومن اور پرہیزگار اپنے ایمان اورتقوی کے مراتب کے لحاظ سے ''اللہ کے نزدیک معزّز ترین وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار اور زیادہ متقی ہے''_

۲۱۳

قرآن مجید کی آیات:

( و الارض وضعها للانام ) (۱)

'' اللہ نے زمین کو لوگوں کے لئے قرار دیا ہے''

( هو الّذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ) (۲)

'' اللہ ہی تو وہ ہے کہ جس نے زمین کی ساری چیزیں تمھارے لئے خلق کی ہیں''

( انّ اکرمکم عند الله اتقیکم ) (۳)

'' معزز ترین تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو''_

____________________

۱) سورہ رحمن آیت ۱۰

۲) سورہ بقرہ آیت ۲۹

۳) سورہ حجرات آیت ۱۳

۲۱۴

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱) ___پیغمبر اسلام(ص) ، جناب سلمان فارسی کا کیوں زیادہ احترام کرتے تھے؟

۲)____ پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں انسان کے لئے کون سی چیز باعث فضیلت ہے؟ اور کیوں؟

۳)___ لارث زمین، معاون (کانیں) اور زمین میں موجود ثروت کس کی ملکيّت ہے؟ اوران کس کی اجازت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟

۴)___ حکومت اسلامی کو مسلمانوں کی مدد کے لئے کون سا اقدام کرنا چاہیئے؟

۵)____ اسلامی حکومت کو اپنی منصوبہ بندیوں میں کس کو ترجیح دینی چاہیئے؟

۲۱۵

ظالموں کی مدد مت کرو

'' بنی امیہ کی حکومت ایک غاصب اور ظالم حکومت ہے میں تمھیں اجازت نہیں دیتا کہ ظالم حکومت کی خدمت کرو اور اپنے عمل سے ان کی تائید کرو''

( امام صادق علیہ السلام)

یہ بات امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس شخص کے جواب میں کہی تھی کہ جس نے آپ سے سوال کیا تھا '' کیا میں بنی امیہ کے خلفاء کی خدمت کرسکتا ہوں؟ کیونکہ میں ایک مدت سے بنی امیہ کے دربار میں کرتا ہوں اور بہت کافی مال میں نے حاصل کیا ہے اور اس کے حصول میں بہت زیادہ احتیاط و دقّت سے بھی کام نہیں لیا ہے لہذا اب کیا کروں؟

اس مال کا جو میرے پاس موجود ہے کیا حکم ہے حلال ہے یا حرام؟ کیا میں اس کام میں مشغول رہ سکتا ہوں؟ میرا ہونا یا نہ ہونا ان کی حکومت میں کوئی اثرانداز نہیں ہوسکتا؟ اگر میں نے وہ کام انجام نہ دیا تو دوسرے موجود ہیں جو اس کام کو انجام دے دیں گے''

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:

'' اگر بنی امیہ کو مدد گار نہ ملتے تو وہ لوگوں پر ظلم نہ کرتے کیونکہ حکومت خودبخود تو نہیں چلتی بلکہ اس کے لئے وزیر، معاون، مدیر و کام کرنے والے ضروری ہوتے ہیں یہی لوگ حکوت کو چلاتے ہیں اگر تم اور تم جیسے دوسرے لوگ بنی امیہ کی مدد نہ کرتے تو

۲۱۶

وہ کس طرح لوگوں کو ہماری الہی حکومت سے محروم کرسکتے تھے؟ کس طرح وہ فتنہ اور فساد برپا کرسکتے تھے؟ اگر لوگ ظالموں کی تائید نہ کریں اور ان کے اجتماعات و محافل میں شریک نہ ہوں تو وہ کس طرح اپنے مقاصد تک پہونچ سکتے ہیں؟

نہیں ہرگز نہیں میں کسی مسلمان کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ ظالموں کی حکومت میں نوکری کرے اور اپنے کام سے ان کی مدد کرے''

سائل نے چونکہ امام علیہ السلام کے حکم کی اطاعت کرنے کا مصمّم ارادہ کیا تھا سوچنے لگا اور اپنے سے کہا کہ کیا میں اس گناہ سے اپنے آپ کو نجات دے سکتا ہوں؟ کاش میں ظالموں کی مدد نہ کرتا اب کس طرح توبہ کروں؟

امام جعفر صادق علیہ السلام توبہ کے آثار کو اس کے چہرہ پر مشاہدہ کر رہے تھے آپ نے فرمایا:

' ' ہاں تم اس سے توبہ کرسکتے ہو اور خداوند عالم تیری توبہ قبول بھی کرے گا لیکن یہ کام بہت مشکل ہے کیا اسے انجام دے سکوگے؟

جوان نے کہا کہ:

'' ہاں میں حاضر ہوں اور خداوند عالم سے اپنے ارادہ کی تکمیل میں مدد چاہتا ہوں''

امام جعفر صادق علیہ السلام تھوڑا سا روئے اور پھر فرمایا:

'' جو مال تو نے بنی امیہ کی غاصب و ظالم حکومت سے غیر شرعی طریقہ سے حاصل کیا ہے وہ تیرا مال نہیں ہے اور اس میں تیرا تصرف

۲۱۷

کرنا حرام ہے وہ تمام کا تمام اس کے مالکوں کو واپس کردو_

اگر مالکوں کو پہچانتے ہو تو خود انھیں کو واپس کرو اور اگر انھیں نہیں پہچانتے تو ان کی طرف سے صدقہ دے دو تو میں تمھارے لئے بہشت کی ضمانت لیتا ہوں''

وہ سوچنے لگا کیونکہ ساری دولت فقراء کو دینی ہوگی لیکن اس نے سوچا کہ دنیا کی سختیوں کو برداشت کیاجاسکتا ہے اس لئے کہ یہ ختم ہوجانے والی ہیں لیکن آخرت کی سختی اور عذاب دائمی ہے لامحالہ ان دو میں سے ایک کو اختیار کرنا ہوگا لہذا بہتر ہے دنیا کی تکلیف و رنج کو قبول کرلوں اور اپنے آپ کو آخرت کے دائمی عذاب سے چھٹکارا دے دوں اس نے اپنا سرا اوپر اٹھایا اور امام علیہ السلام سے عرض کیا کہ:

'' میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا''

اس کے بعد وہ وہاں سے اٹھا اور امام (ع) سے رخصت ہوکر چلاگیا_ علی بن حمزہ جو اس کا دوست اور ہمسفر بھی تھا وہ کہتا ہے کہ:

'' جب ہم کوفہ پہونچے تو میرا یہ دوست سیدھا گھر گیا مجھے کئی دن تک اس کی خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ مجھے اطلاع ملی کہ اس نے اپنی ساری دولت کو لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا ہے_ جس کو پہچانتا تھا اس کا مال اسے واپس کردیا ہے اور جسے نہیں پہچانتا تھا تو اس کی طرف سے فقراء اور ناداروں کو صدقہ دے دیا ہے یہاں تک کہ اس نے اپنے بدن کے لباس کو بھی دے دیا ہے اور پہننے کے لئے کسی سے لباس عاریة لیا ہے اب تو اس کے پاس لباس ہے اور نہ خوراک_

۲۱۸

میںنے تھوڑی خوراک و لباس اس کے لئے مہیا کیا اور اس کی ملاقات کے لئے اس کے پاس گیا اس سے مل کر بہت خوش ہو اور اس کے اس عمدہ عمل کی تعریف کی_ میری ملاقات کو تقریباً ایک مہینہ گزرا تھا کہ مجھے خبر ملی کہ وہ جوا ن بیمار ہوگیا ہے میں اس کی عیادت کے لئے گیا اور وہ جب تک بیمار رہا اس کی عیادت کو جاتا تھا اور اس کے نورانی چہرہ کو دیکھ کر خوشحال ہوتا تھا_

ایک دن میں اس کے سر ہانے بیٹھا تھا کہ اس نے میری طرف نگاہ کی اور بلند آواز میں کہا: '' بھائی امام (ع) نے اپنے عمدہ کو پورا کردیا ہے میں ابھی سے بہشت میں اپنی جگہ دیکھ رہا ہوں''

اس کے بعد اس نے کلمہ شہادتین پڑھا اوردنیا سے رخصت ہوگیا''

توضیح اور تحقیق:

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

'' ظالم ایک دوسرے کے دوست و مددگار ہوتے ہیں اور ان کے بعض دوسرے کی مدد کرتے ہیں لیکن اللہ پرہیزگاروں کا یار و مددگار ہے''_

نیز ارشاد ہوتا ہے:

'' جو لوگ ظلم کرتے ہیں ان کی طرف ہرگز میلان نہ کرو اور ان

۲۱۹

پر ہرگز اعتماد نہ کرو کہ وہ بالآخر دوزخ کی آگ میں ڈالے جائیں گے''_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:

'' قیامت کے دن اللہ تعالی کی طرف سے منادی ندا دے گا; ظالم کہاں ہیں؟ ظالموں کے مددگارکہاں ہیں؟ تمام ظالموں اور ان کے مددگاروں کو حاضر کرو یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی کہ جنھوں نے ظالموں کی حکومت میں سیاہی اور قلم سے ان کی مد کی ہے یا ان کے لئے خطوط لکھے ہیں یہ تمام لوگ حاضر ہوں گے اور خداوند عالم کے حکم سے انھیں ظالموں کے ساتھ دوزخ میں ڈالا جائے گا'' _

کیونکہ ظالم اکیلے قادر نہیںہوتا کہ وہ لوگوں کے حقوق کو غصب کرے اور ان پر ظلم و ستم کرے اپنے غیر انسانی اور پلید اہداف و اغراض تک پہونچنے کے لئے دوسروں سے مدد لیتا ہے کسی کو رشتہ اور عہدہ دے کر دھوکہ دیتا ہے اور کسی کو ما ل و دولت دے کر اپنے اردگرد اکٹھا کرتا ہے اور کسی کو ڈرا دھمکا کر اپنی طرف لاتا ہے اس طرح سے اپنی طاغوتی طاقت کو محکم و مضبوط بناتا ہے پھر خون پسینہ سے جمع کی ہوئی دولت کو غصب کرتا ہے اور دوسروں پر تجاوز کرتا ہے_

ظالم حکومت کے مامورین، طاغوت انسانوں کے لئے دوسرے لوگوں پر تجاوز اور خیانت کا راستہ ہموار کرتے ہیں وہ اس طرح سے محروم و زحمت کش افراد پر ظلم کرنے کا دروازہ کھول دیتے ہیں_ مدّاح قسم کے لوگ دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں اور طاغوت کے مکروہ چہرے کو محبوب اور پسندیدہ ظاہر کرتے ہیں، روشن فکر قسم کے خائن لوگ ان طاغوتی قوانی کو مرتب کرتے ہیں اور خائن قسم کے وزیر، طاغوتی قوانین جو لوگوں کے ضرر کے لئے بنائے جاتے ہیں ان پر عمل کراتے ہیں اور مسلّح فوج کے حاکم و کمانڈر افراد

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

''متاع فى الدنيا'' ايك مقدر سوال كا جواب ہے يعنى جب خدا تعالى نے بہتان باندھنے والے مشركين كے بارے ميں فرمايا كہ يہ كامياب نہيں ہوں گے تو يہ سوال پيدا ہوا كہ پس ان كے يہاں يہ سب دنياوى وسائل اور آرام وآسائش كيا ہے؟ خدا تعالى نے اس كا جواب ديا'' متاع فى الدنيا ...''

۳_ مشركين و كفار خدا كى طرف لوٹنے سے فرار نہيں كرسكتے_متاع فى الدنيا ثم الينا مرجعهم

۴_ موت كے بعد كا عالم، انسان كے خدا تعالى كى طرف لوٹنے كى جگہ ہے_متاع فى الدنيا ثم الينا مرجعهم

۵_ كفار و مشركين آخرت ميں شديد عذاب چكھيں گے_

الذين يفترون على الله الكذب ثم نذيقهم العذاب الشديد بما كانوا يكفرون

۶_ كفر و شرك پر برقرار رہنا اور اس پر اصرار كرنا قيامت والے دن شديد عذاب ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_

ثم نذيقهم العذاب الشديد بما كانوا يكفرون

۷_ خدا تعالى كى طرف بيٹے كى نسبت دينا ، دين ميں بدعت قائم كرنا، خدا تعالى پربہتان باندھنا اور اس پر جھوٹ بولنا : كفر اور آخرت ميں شديد عذاب كا موجب ہے_الذين يفترون على الله الكذب ...الينا مرجعهم ثم نذيقهم العذاب الشديد بما كانوا يكفرون

۸_ آخرت كے سخت عذاب سے نجات فلاح و كاميابى ہے_

لا يفلحون _متاع فى الدنيا ثم الينا مرجعهم ثم نذيقهم العذاب الشديد

بدعت :اسكے موارد ۷

بہتان باندھنا :خدا پر بہتان باندھنے كے اثرات ۷

خدا تعالى :خدا تعالى اور بيٹا ۷

خدا تعالى كى طرف بازگشت۴اس كا حتمى ہونا ۳

شرك :اس پر اصرار كے اثرات۶

۵۴۱

عذاب :اخروى عذاب سے نجات ۸; اخروى عذاب كے اسباب ۶،۷; اخروى عذاب كے درجے ۷; اسكے اہل ۵; اسكے درجے ۵،۶

كاميابى :اسكے موارد ۸

كفار:انكا اخروى عذاب ۵;انكى آسائش ۲; انكى موت كا حتمى ہونا ۳; ان كے مادى وسائل ۲

كفر :اس پر اصرار كے اثرات ۶; اسكے موارد ۷

مادى وسائل:انكا پائدار نہ ہونا ۱;انكا محدود ہونا ۱; مادى وسائل اور كاميابى ۲

مشركين :انكا اخروى عذاب ۵; انكى آسائش ۲;انكى موت كا حتمى ہونا ۳; انكے مادى وسائل ۲

موت :اسكے بعد كا عالم ۴

آیت ۷۱

( وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللّهِ فَعَلَى اللّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُواْ أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءكُمْ ثُمَّ لاَ يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُواْ إِلَيَّ وَلاَ تُنظِرُونِ )

آپ ان كفار كے سامنے نوح كا واقعہ بيان كريں كہ انھوں نے اپنى قوم سے كہا كہ اگر تمھارے لئے ميرا قيام اور آيات الہيہ كا ياد دالانا سخت ہے تو ميرا اعتماد اللہ پر ہے _ تم بھى اپنا ارادہ پختہ كرلو اور اپنے شريكوں كو بلالو اور تمھارى كوئي بات تمھارے اوپر مخفى بھى نہ رہے _ پھر جوہى چاہے كر گذر و اورمجھے كسى طرح كى مہلت نہ دو _

۱_ پيغمبر اكرم (ص) كو خدا تعالى كى طرف سے حكم تھا كہ مشركين مكہ كو تنبيہ كرنے كيلئے ان كے سامنے حضرت

نوح(ع) اور انكى قوم كا قصہ بيان كريں _و اتل عليهم نبا نوح اذ قال لقومه

''نبا '' سے مراد وہ خبر ہے جس كا سننے والے كو بڑافائدہ ہو ( مفردات راغب )

۵۴۲

۲_حضرت نوح(ع) اپنى قوم كے ساتھ نرمى ، شفقت اور رحمدلى كے ساتھ پيش آتے تھے_اذ قال لقومه ى قوم

حضرت نوح (ع) كا ''اے مشركين '' '' اے لوگوں '' وغيرہ كى بجائے ''اے ميرى قوم '' كہنا مندرجہ بالا مطلب پر دلالت كرتا ہے_

۳_ حضرت نوح (ع) كا شرك و بت پرستى كے خلاف قيام كرنا اور توحيد اور ايك معبود كى عبادت كى طرف دعوت دينا آپكى قوم كيلئے بھارى اور ناقابل برداشت تھا_ان كان كبر عليكم مقامى و تذكيرى بآيات الله

لفظ '' مقام '' تين صيغوں كے درميان مشترك ہے ، مصدر ميمي، اسم زمان ، اسم مكان مندرجہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بنا پر ہے يعنى اگر ميرا دعوت توحيد اور خدا تعالى كى آيات اور نشانيوں كى ياددہانى كا اقدام كرنا تمہارے لئے سنگين اور دشوار ہے اور

۴_ حضرت نوح(ع) اپنى قوم كو آيات خدا كى ياددہانى كراتے تھے_و تذكيرى بآيات الله

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ '' بآيات اللہ '' ميں باء استعانت كيلئے ہو نہ زائدہ _

۵_ حضرت نوح (ع) ، توحيد اور يكتا پرستى كى دعوت دينے اور شرك والى سوچ كو جڑ سے اكھاڑ پھينكنے كيلئے اپنى قوم كو خدا كى آيات اور نشانيوں كى ياددہانى كراتے تھے_مقامى و تذكيرى بآيات الله

۶_ حضرت نوح (ع) كى نبوت اور ان پر آيات الہى كا نازل ہونا آپ كى قوم كيلئے ايك دشوار اور ناقابل يقين امر تھا_

يا قوم ان كان كبر عليكم مقامى و تذكيرى بآيات الله

آيت ۷۳ ميں جملہ '' فكذبوہ'' بتاتا ہے كہ مورد بحث موضوع حضرت نوح(ع) كى رسالت اور نبوت ہے اور حضرت نوح(ع) اپنے اس دعوى كو ثابت كر رہے ہيں اور اپنى قوم كو چيلنج دے رہے ہيں _

۷_ حضرت نوح (ع) كى قوم ، مشرك اور بت پرست تھى _يا قوم فا جمعوا امر كم و شركاء كم

۸_ حضرت نوح(ع) اپنى قوم كى دشمنى اور عناد كے مقابلے ميں صرف خدا تعالى پر توكل كرتے تھے_

ان كان كبر عليكم مقامى فعلى الله توكلت

۹_ حضرت نوح (ع) نے اپنے قتل كے سلسلے ميں اپنى قوم كو

۵۴۳

چيلنج ديا اور اس كام كو انجام دينے پر انكے قادر نہ ہونے كو اپنے دعوائے نبوت كے درست ہونے كيلئے دليل كے طور پر پيش كيا _ان كان كبر عليكم مقامى فا جمعوا امركم ولاتنظرون

يہ جملہ '' فعلى اللہ توكلت '' حضرت نوح(ع) كے خدا تعالى كى لازوال قدرت پر بھروسہ كرنے كى وجہ سے ناقابل شكست ہونے كو بيان كر رہا ہے اور جملہ'' اجمعوا امركم و شركاء كم '' آپ كى قوم كى قدرت كے ناچيز ہونے كو بيان كر رہا ہے_

۱۰_حضرت نوح (ع) نے برسر عام چيلنج ديا كہ صرف خداتعالى ہى قدرت كا محور ہے اور انكى قوم كے معبود جعلى اور ہر قسم كى طاقت و قدرت سے خالى ہيں _يا قوم ان كان كبر ...فعلى الله توكلت فا جمعوا امركم و شركاء كم و لاتنظرون

۱۱_ حضرت نوح (ع) نے خدا پر توكل كركے اپنى قوم كو ہر قسم كے مقابلے كى دعوت دى _

فعلى الله توكلت فا جمعوا امركم و شركاء كم ثم لا يكن امر كم عليكم غمة ثم اقضوا الى و لاتنظرون

۱۲_ حضرت نوح(ع) نے لوگوں ميں اعلان فرماديا كہ دعوت حق كے راستے ميں ہرقسم كى مشكلات حتى كہ قتل ہونے كو بھى برداشت كرسكتا ہوں _فا جمعوا امركم و شركاء كم ثم لا يكن امركم عليكم غمة ولاتنظرون

۱۳_ حضرت نوح (ع) كو اپنى رسالت كى حقانيت پر مكمل ايمان اور اطمينان تھا _

فعلى الله توكلت فا جمعوا امركم و شركاء كم ثم لا يكن امركم عليكم غمة ولاتنظرون

۱۴_خدا پر توكل ، انسان كى تمام مشكلات كے سامنے استقامت اور پائدارى كا سامان فراہم كرتا ہے_

ان كان كبر عليكم مقامى فعلى الله توكلت فا جمعوا امركم

۱۵_صحيح انداز ہ لگانا ، قوتوں كو جمع كرنا اور قاطع و بر وقت فيصلہ كرنا مبارزت اور مقابلے كے اصولوں ميں سے ہے_

فا جمعوا امركم و شركاء كم ثم لا يكن امركم عليكم غمة ثم اقضوا الى ولا تنظرون

آنحضرت(ص) :آپ(ص) اور مشركين ۱; آپ(ص) كى ذمہ دارى ۱

استقامت :اسكے عوامل ۱۴

بت پرست لوگ۷

۵۴۴

توحيد :اسكى دعوت ۳،۵

توكل :خدا پر توكل كے اثرات۱۴

عبرت:اس كے عوامل ۱

قوم نوح:اس سے عبرت ۱;اس كا شرك ۷;اس كا عاجز ہونا ۹;اسكى بت پرستى ۷; اسكى تاريخ كا بيان كرنا ۱; اسكى دشمنى ۸;يہ اورحضرت نوح(ع) كى طرف وحى ۶; يہ اورحضرت نوح(ع) كى نبوت ۶

مبارزت:اسكے اصول ۱۵; اس ميں اندازہ لگانے كى اہميت ۱۵; اس ميں عزم كرنے كى اہميت ۱۵; اس ميں قوتوں كو جمع كرنا ۱۵

مشركين :۷مشركين مكہ :انكو تنبيہ ۱

نوح(ع) :انكا ايمان۱۳;انكا توكل۸،۱۱;انكا چيلنج۹;انكا قصہ ۹،۱۰،۱۲;انكا مقابلہ ۳; انكى استقامت ۱۲; انكى تبليغ كى روش ۴،۵; انكى توحيد ۱۰; انكى دعوت ۳،۵،۱۱;انكى شرك دشمنى ۳،۵;انكى مشكلات ۳; انكى مہربانى ۲; انكى نبوت كى حقانيت كے دلائل۹; انكے پيش آنے كى روش۲; يہ اور باطل معبود ۱۰; يہ اور بت پرستى ۳; يہ اور قوم نوح ۲،۳ ،۴،۵، ۸،۹، ۱۰،۱۱

ياددہانى كرانا:

قوم نوح كو ياددہانى كرانا ۴

آیت ۷۲

( فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى اللّهِ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ )

پھر اگر تم انحراف كرو گے توميں تم سے كوئي اجر بھى نہيں چاہتا_ ميرا اجر تو صرف اللہ كے ذمہ ہے اور مجھے حكم ديا گيا ہے كہ ميں اس كے اطاعت گذاروں ميں شامل رہوں _

دعوت كو قبول كرنے ۱_حضرت نوح(ع) نے اپنى قوم پر حجت تمام كردى ليكن قوم نے بغير كسى دليل كے ان سے روگردانى كى اور انكى سے اعراض كيا_فان توليتم فما سا لتكم من اجر

يہ آيت ، سابقہ آيت كا تسلسل ہے كہ جو حضرت نوح(ع) كے چيلنج اور انكے اپنى قوم پر حجت تمام كردينے كو بيان كر رہى ہے_

۵۴۵

۲_ حضرت نوح(ع) اپنى رسالت كو انجام دينے كيلئے لوگوں سے ذرہ برابر اجرت كا مطالبہ نہيں كرتے تھے_

فان توليتم فما سا لتكم من اجر

۳_ حضرت نوح(ع) اپنے آپ كو خدا كا بھيجا ہوا سمجھتے تھے اور انہوں نے اعلان فرمايا كہ ميرى اجرت اور مزدورى صرف خدا كے ذمے ہے_ان كان كبر عليكم مقامى و تذكيرى بآيات الله فان توليتم فما سا لتكم من اجر ان اجرى الا على الله

۴_ دعوت حق اور تبليغ دين كى پاداش اور مزدورى خدا كے ذمے ہے_ان اجرى الا على الله

۵_ حضرت نوح(ع) دعوت والے معاملے ميں خدا تعالى كے مطيع تھے اور صرف اسكے حكم پر عمل كرتے تھے_

و امرت ان اكون من المسلمين

۶_ فرامين الہى كے سامنے سر تسليم خم كردينا انبياءے الہى كا ايك مرتبہ ہے_امرت ان اكون من المسلمين

۷_ حضرت نوح(ع) نے اپنى قوم كى طرف سے اپنى دعوت كو پسند نہ كرنے كے مقابلے ميں اپنے مضبوط عزم كا اعلان كيا اور اپنے كام كو پورى شدت كے ساتھ جارى ركھنے پر زور ديا اور اس پر اصرار كيا _

فا جمعوا امركم و شركاء كم و امرت ان اكون من المسلمين

انبياء (ع) :انكا مطيع ہونا۶; انكا مقام ۶

تبليغ:اس ميں استقامت ۷

حق :اسكى دعوت كى پاداش ۴

قوم نوح:اس پر حجت كا تمام كرنا ۱; اسكى نافرمانى ۱

نافرماني:حضرت نوح(ع) كى نافرمانى ۱

حضرت نوح(ع) :انكا اجر رسالت ۲،۳;انكا حجت تمام كرنا ۱; انكا قصہ ۷; انكا مطيع ہونا ۵; انكى استقامت ۷; انكى دعوت ۵;انكى دعوت كى خصوصيات ۲; انكى نافرمانى ۱; انكى نبوت ۳; حضرت نوح(ع) اور انكى قوم كى ناخشنودى ۷

۵۴۶

آیت ۷۳

( فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلاَئِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِينَ )

پھر قوم نے ان كى تكذيب كى تو ہم نے نوح (ع) اور ان كے ساتھيوں كو كشتى ميں نجات ديدى اور انھيں زمين كا وارث بناديا اور اپنى آيات كى تكذيب كرنے والوں كو ڈبوديا تو اب ديكھئے كہ جن كو ڈرايا جاتا ہے ان كے نہ ماننے كاانجام كيا ہوتا ہے _

۱_حضرت نوح(ع) كى قوم نے آپكى سچائي كى د ليليں اور شواہد كے باوجود آپكى نبوت كو قبول نہ كيا اور آپ پر جھوٹ بولنے كى تہمت لگائي _يا قوم ان كان كبر عليكم مقامى فان توليتم فماسا لتكم من اجر فكذبوه

۲_ خدا تعالى نے حضرت نوح(ع) كى قوم پر مہلك عذاب اس وقت نازل كيا جب اس نے آپ كى رسالت كى قطعى دليلوں كے باوجود اس كا انكار كيا اور آپ پر جھوٹ بولنے كى تہمت لگائي _اذ قال لقومه يا قوم ان كان كبر عليكم مقامى فعلى الله توكلت فا جمعوا فان توليتم فماسا لتكم من اجر فكذبوه فنجينه

۳_خدا تعالى نے حضرت نوح(ع) اور آپ(ع) كے ساتھ كشتى ميں سوار سب لوگوں كو غرق ہونے سے نجات دى _

فنجينه و من معه فى الفلك

۴_ خدا تعالى نے حضرت نوح(ع) اور انكے ساتھ كشتى ميں سوار سب لوگوں كو غرق ہونے والوں كا جانشين اور انكى سرزمين كا وارث قرار ديا _فنجينه و من معه فى الفلك و جعلناهم خلائف و اغرقنا الذين كذبوا

۵_ خدا تعالى نے قوم نوح(ع) كے اس گروہ كو پانى ميں غرق كرديا جس نے آيات الہى كو جھٹلا يا تھا_

و اغرقنا الذين كذبوا بآياتنا

۵۴۷

۶_ آيات الہى كو جھٹلانے والے مہلك عذاب كے مستحق اور اسكے خطرے سے دوچار ہيں _و اغرقنا الذين كذبوا بآياتنا

۷_ خدا تعالى نے قوم نوح(ع) كو مہلك عذاب ميں مبتلا كرنے سے پہلے ڈرايا اور خبردار كيا تھا_

و اغرقنا الذين كذبوا بآياتنا فانظر كيف كان عاقبة المنذرين

۸_ خدا تعالى نے حضرت نوح(ع) كے مددگاروں كے نيك انجام اور انكو جھٹلانے والوں كے برے انجام كو بيان كركے پيغمبر اكرم (ص) اور مومنين كو تسلى دى اور مشركين كو مہلك عذاب كى دھمكى دى _

و اتل عليهم نبا نوح فانظر كيف كان عاقبة المنذرين

۹_ گذشتگان كے برے انجام ميں غور و فكر اور اس سے عبرت حاصل كرنا ضرورى ہے_

فانظر كيف كان عاقبة المنذرين

۱۰_ تاريخ ، اور معاشروں كى ترقى اور تباہى كے عوامل كى شناخت كا معاشرتى حركت كو صحيح سمت دينے ميں مؤثر كردار ہے_فنجينه و جعلناهم خلائف و اغرقنا الذين كذبوا بآياتنا فانظر كيف كان عاقبة المنذرين

آيات خدا :انہيں جھٹلانے والوں كا عذاب ۶;انہيں جھٹلانے والوں كى سزا ۵

تاريخ :اسكى شناخت كے اثرات۱۰

خدا تعالي:اس كا ڈرانا ۷;اسكى امداد ۳; اسكى تسلياں ۸; اسكى تنبيہ ۷; اسكى دھمكياں ۸; اسكے افعال ۵

سرزمين :قوم نوح كى سرزمين كے وارث ۴

عبرت :اسكے عوامل ۸،۹

عذاب :اسكے اہل ۶; مہلك عذاب كى دھمكى ۷،۸

قوم نوح:اس پر اتمام حجت ۷; اس پر مہلك عذاب ۲;اس سے عبرت حاصل كرنا ۸;اس كا ليچڑپن ۱; اسكى تہمتيں ۱;اسكى سزا ۵;اسكے جانشين ۴; اسے ڈرانا ۷; اسے غرق كرنا ۵

گذشتہ اقوام :انكے انجام سے عبرت حاصل كرنا ۹

محمد(ص) :آپ(ص) كو تسلى ۸

۵۴۸

مشركين :انكو دھمكى ۸

معاشرہ:معاشروں كى تباہى كے عوامل كى شناخت ۱۰; معاشروں كى ترقى كے عوامل كى شناخت ۱۰; معاشروں كى ہدايت كے عوامل ۱۰

مومنين :انكو تسلى ۸

نوح(ع) :ان پر ايمان لانے والوں كا انجام ۸;ان پر تہمت كے اثرات ۲; ان پر جھوٹ بولنے كى تہمت لگانا ۱; انكا قصہ۳،۴; انكو جھٹلانے كے اثرات ۲; انكو جھٹلانے والوں كا انجام ۸;انكو جھٹلانے والے۱; انكى نجات ۳; انكے ہمسفرلوگوں كى نجات ۳

آیت ۷۴

( ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ رُسُلاً إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَآؤُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُواْ لِيُؤْمِنُواْ بِمَا كَذَّبُواْ بِهِ مِن قَبْلُ كَذَلِكَ نَطْبَعُ عَلَى قُلوبِ الْمُعْتَدِينَ )

اس كے بعد ہم نے مختلف رسول ان كى قوموں كى طرف بھيجے اور وہ ان كے پاس كھلى ہوئي نشانياں لے كر آئے ليكن وہ لوگ پہلے انكار كرنے كى بنا پر ان كى تصديق نہ كر سكے اور ہم اسى طرح ظالموں كے دل پر مہر لگاديتے ہيں _

۱_ خدا تعالى نے حضرت نوح(ع) اور حضرت موسى (ع) كے درميان والے زمانے ميں عظيم پيغمبروں كو بھيجا_

و اتل عليهم نبا نوح ثم بعثنا من بعده رسلا ثم بعثنا من بعد هم موسى

۲_ حضرت نوح(ع) اور حضرت موسى (ع) كے درميا ن والے زمانے ميں بھيجے گئے ہر نبى كى ذمہ دارى تھى اپنى قوم كو ہدايت كرنا_و اتل عليهم نبا نوح ثم بعثنا من بعده رسلا الى قومهم ثم بعثنا من بعدهم موسى

۳_ حضرت نوح(ع) كے بعد آنے والے پيغمبروں نے جب اپنى اپنى قوم كى طرف سے جھٹلانے اور مقابلہ كرنے كا سامنا كيا تو اپنے دعوى كى سچائي كو ثابت كرنے كيلئے لوگوں كے سامنے واضح دلائل اور معجزات پيش كئے_ثم بعثنا من بعده رسلا الى قومهم فجاؤهم بالبينات

ہو سكتا ہے اس آيت ميں ''بينات'' معجزوں كو بھى شامل ہو_

۵۴۹

۴_ حضرت نوح(ع) كے بعد جو بھى پيغمبر آيا اسكى قوم اسكے مقابلے ميں كھڑى ہوگئي ، اسكى رسالت كا انكار كيا اور اس پر جھوٹ بولنے كى تہمت لگائي_ثم بعثنا من بعده رسلا الى قومهم فجاؤ هم بالبينات فما كانوا ليؤمنوا بما كذبوا به من قبل

''فجائوہم '' ميں ''فا'''' فصيحہ '' ہے اور اپنے سے پہلے جملے كے حذف ہونے پر دلالت كر رہى ہے اور در اصل يوں تھا'' ...رسلا الى قومهم فكذبوهم فجائوهم بالبينات ...''

۵_ حضرت نوح(ع) كے بعد آنے والے پيغمبروں نے باوجود اسكے كہ واضح دليليں اور معجزے دكھائے ليكن انہيں جھٹلانے والوں نے جھٹلانے اور ايمان نہ لانے پر اصرار جارى ركھا_

فجاؤهم بالبينات فما كانوا ليؤمنوا بما كذبوا به من قبل

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ '' قبل'' كا مضاف اليہ ضمير ہو جو اس ''مجي ي'' كى طرف لوٹ رہى ہو جو '' جائوہم بالبينات '' سے سمجھ آرہا ہے_

۶_ پيغمبروں كو جھٹلانے والى اقوام كے دلوں پر چونكہ مہريں لگى ہوئي تھيں اسلئے واضح دلائل اور معجزات كے باوجود وہ انكى نبوت كو قبول كرنے پر قادر نہيں تھے_فما كانوا ليؤمنوا بما كذبوا به من قبل كذلك نطبع على قلوب المعتدين

''فما آمنوا بما كذبوا بہ '' كى بجائے'' فما كانوا ليؤمنوا'' كى تعبير بتاتى ہے كہ ايك قسم كى ركاوٹ تھى جوانہيں ايمان لانے سے روك رہى تھي_ بعد والے جملے ميں اس مانع كو '' طبع قلوب'' كے ساتھ بيان كيا گيا ہے_

۷_ پيغمبروں كى رسالت كو جھٹلانا تاريخ ميں ہميشہ رہا ہے_فكذبوه ثم بعثنا من بعده رسلا فما كانوا ليؤمنوا بما كذبوا به من قبل

۸_ خدا تعالى نے حضرت نوح(ع) كے بعد آنے والے پيغمبروں كو جھٹلانے والوں كے دلوں پر انكے اندر ظلم اور حق دشمنى كے راسخ ہونے كى وجہ سے مہر لگادى تھى _فماكانوا ليؤمنوا بما كذبوا به من قبل كذلك نطبع على قلوب المعتدين

اسم فاعل '' المعتدين '' كو بغير زمانے كے لحاظ اور مفعول كے لانا بتاتا ہے كہ مبداء اشتقاق ''اعتدا'' جھٹلانے والوں كى ذات ميں موجود تھا_

۹_ حضرت نوح(ع) كے بعد آنے والے پيغمبروں كو جھٹلانے

۵۵۰

والے متجاوز اور حق دشمن لوگ تھے_فما كانوا ليؤمنوا بما كذبوا به من قبل كذلك نطبع على قلوب المعتدين

۱۰_ انسان كے نفس ميں تجاوز اور حق دشمنى كا راسخ ہوجانا اسكے دل پر مہر لگنے اور اسكے ہدايت كو قبول نہ كرنے كا سبب بنتا ہے_فماكانوا ليؤمنوا كذلك نطبع على قلوب المعتدين

۱۱_تجاوز كرنے والوں كے دلوں كو ہدايت قبول كرنے كے قابل نہ چھوڑنا خدا تعالى كى تبديل نہ ہونے والى سنت اور قانون ہے_كذلك نطبع على قلوب المعتدين

۱۲_ دل، كفر و ايمان كا مركز ہے_فما كانوا ليؤمنوا كذلك نطبع على قلوب المعتدين

۱۳_ امام صادق (ع) سے ( نسل آدم ) كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا''... فمنهم من ا قر بلسانه فى الذر و لم يؤمن بقلبه فقال الله '' فما كانوا ليؤمنوا بما كذبوا به من قبل'' (۱)

ان ميں سے بعض نے عالم ذر ميں زبان كے ساتھ اقرار كيا ليكن دل سے ايمان نہ لائے اسى كو خدا تعالى نے يوں فرمايا ہے '' ايمان نہيں لاتے اس پر كہ جسے پہلے جھٹلا چكے ہيں ''

انبياء:ان پر تہمت لگانا ۴; انكا معجزہ ۳; انكا ہدايت كرنا ۲; انكو جھٹلانے والوں كا تجاوز گر ہونا ۸،۹; انكى اقوام كى تہمتيں ۴;ان كى تاريخ ۱،۲،۴،۵،۷;انكى حقانيت كے دلائل ۳; انكى ذمہ دارى كا دائرہ كار ۲; انہيں جھٹلانا ۷; انہيں جھٹلانے والوں كا عاجز ہونا ۶;انہيں جھٹلانے والوں كا ليچڑپن ۵;انہيں جھٹلانے والوں كى حق دشمنى ۸،۹; انہيں جھٹلانے والوں كے دلوں پر مہر لگانا ۶،۸; انہيں جھٹلانے والے ۴،۵،۸،۹;حضرت موسى (ع) سے پہلے كے انبياء ۱،۲;حضرت نوح(ع) كے بعد كے انبياء ۱،۲ ،۳ ،۴ ،۵ ،۸،۹

ايمان :اس كا مركز۱۲

تجاوز :اس كے اثرات ۱۰تجاوز كرنے والے ۸،۹

انكا ہدايت ناپذير ہونا ۱۱

حق:حق دشمن لوگ ۸،۹; حق دشمنى كے اثرات ۱۰

خدا تعالي:

____________________

۱) تفسير قمى ج ۱ ص ۲۴۸_ نور الثقلين ج ۲ ص ۹۶ح ۳۵۳_

۵۵۱

اسكى سنتيں ۱۱; اسكے افعال ۸

دل:اس كا كردار ۱۲;اس پر مہر لگنے كے اثرات ۶; اس پر مہر لگنے كے عوامل ۱۰

روايت :۱۳

كفر:اس كا مركز ۱۲;اسكے عوامل ۱۳; يہ عالم ذر ميں ۱۳

ہدايت :اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۱۰

آیت ۷۵

( ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَى وَهَارُونَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآيَاتِنَا فَاسْتَكْبَرُواْ وَكَانُواْ قَوْماً مُّجْرِمِينَ )

پھر ہم ان رسولوں كے بعد فرعون اوراس كى جماعت كى طرف موسى (ع) اور ہارون كو اپنى نشانياں دے كر بھيجاتو ان لوگوں نے بھى انكار كرديا اور وہ سب بھى مجرم لوگ تھے _

۱_حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون (ع) كى بعثت ، حضرت نوح كے بعدآنے والے عظيم پيغمبروں كى بعثت كے بعد تھى _و اتل عليهم نبا نوح ثم بعثنا من بعده رسلاً ثم بعثنا من بعد هم موسى و هارون

۲_ خدا تعالى كى طرف سے موسى اور ہارن (ع) كو حكم تھا كہ وہ اپنى رسالت كا فرعون اور حكومت كے ديگر ذمہ دار لوگوں كے سامنے اعلان كريں اور انہيں ايمان كى طرف دعوت ديں _ثم بعثنا من بعدهم موسى و هارون الى فرعون و ملائه

ملا كا معنى ہے سردار لوگ (لسان العرب)

۳_ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون (ع) كے پاس اپنى نبوت كو ثابت كرنے كيلئے كئي معجزات تھے_

ثم بعثنا موسى و هارون بآياتنا

بعد والى آيت كے اس جملے '' قالوا ان ہذا لساحر مبين'' سے استفادہ ہوتا ہے كہ اس آيت ميں '' آى ت ''سے مراد وہ كام ہيں جنہيں انجام دينے كى بشر ميں توانائي نہيں ہے بلكہ يقينا يہ خدا كے ا فعال ہيں جو انسان كے ہاتھوں انجام پاتے ہيں _

۴_ ہارون (ع) : رسالت اور فرعون اور حكومت كے ديگر سر كردہ افراد كا مقابلہ كرنے ميں حضرت موسى كے شريك تھے_

۵۵۲

ثم بعثنا من بعدهم موسى و هارون الى فرعون و ملائه

۵_ معجزات ، خدا تعالى كے افعال ہيں جو انبياء (ع) كے ذريعے وقوع پذير ہوتے ہيں _ثم بعثنا بآياتنا

مندرجہ بالا نكتہ آيات ( معجزات ) كے ''نا '' كى طرف مضاف ہونے سے حاصل ہوتا ہے _

۶_ فرعون اور اسكے ساتھي، لوگوں كے نظرياتى تمايلات ميں بنيادى كردار ركھتے تھے_

ثم بعثنا من بعد هم موسى و هارون الى فرعون و ملائه

چونكہ خدا تعالى نے موسى و ہارون كو; كہ جنہيں لوگوں كى ہدايت كيلئے مبعوث كيا گيا تھا; بلاواسطہ طور پر فرعون اور اسكے ساتھيوں كى طرف بھيجا اس سے مندرجہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

۷_ فرعون اور اسكے ساتھيوں نے موسى و ہارون كى رسالت كى حقانيت كى نشانيوں كا مشاہدہ كرنے كے باوجود انكى رسالت كا انكار كيا_ثم بعثنا من بعدهم موسى و هارون الى فرعون و ملائه بآياتنا فاستكبروا

۸_ فرعون اور اسكے ساتھيوں كا احساس برترى ، انكے موسى و ہارون كى رسالت كو قبول كرنے سے مانع تھا_

ثم بعثنا من بعدهم موسى و هارون الى فرعون و ملائه بآياتنا فاستكبروا

۹_ فرعون اور اسكے ساتھى تباہى پھيلانے والے اور مجرم لوگ تھے_الى فرعون و ملائه و كانوا قوما مجرمين

۱۰_ فرعون اور اسكے ساتھيوں كا مسلسل جرم كرنا، انكے موسى و ہارون كى رسالت كو قبول كرنے سے سركشى كا عامل بنا _ثم بعثنا موسى و هارون الى فرعون و ملائه بآياتنا فاستكبروا و كانوا قوما مجرمين

۱۱_ مسلسل جرم اور تباہ كارى انسان كے اندر استكبارى اور حق كو قبول نہ كرنے والى فطرت كے پيدا ہونے كاسبب بنتى ہے_فاستكبروا و كانوا قوما مجرمين

استكبار:اس كا پيش خيمہ ۱; اسكے اثرات ۸

انبياء (ع) :انكا نقش وكردار ۵;انكى تاريخ ۱; حضرت نوح (ع) كے بعد كے انبياء ۱

۵۵۳

ايمان :اسكى دعوت ۲

جرائم :انكے دوام كے اثرات ۱۱

حق:اسے قبول كرنے كے موانع ۸;اسے قبول نہ كرنے كا پيش خيمہ ۱۱; اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۱۰

خدا تعالي:اسكے افعال ۵

فرعون :اس كا استكبار ۸; اس كا حق كو قبول نہ كرنا ۸،۱۰;اس كا فساد پھيلانا ۹،۱۰;اس كا كردار ۶; اس كا ليچڑپن ۷; اس كا مجرم ہونا ۹; يہ اور لوگوں كا عقيدہ ۶

فرعونى سردار:انكا استكبار ۸; ان كا حق كو قبول نہ كرنا ۸،۱۰;انكا فساد پھيلانا ۹،۱۰;انكا كردار ۶; انكا ليچڑپن ۷;انكا مجرم ہونا ۹; يہ اور لوگوں كا عقيدہ ۶

فساد پھيلانا :اسكے استمرار كے اثرات ۱۰،۱۱

مجرمين :۹

معجزہ :اس كا سرچشمہ ۵

موسى :انكا مبارزت كرنا ۴; انكو جھٹلانے والے ۷،۸،۱۰; انكى بعثت كى تاريخ ۱;انكى دعوت ۲; انكى رسالت ۲; انكى رسالت كا شريك ۴; انكى نبوت كے دلائل ۳; انكے معجزوں كا متعدد ہونا ۳; يہ اور فرعون ۲،۴; يہ اور فرعونى سردار ۲،۴

حضرت ہارون (ع) :انكا مبارزت كرنا ۴; انكو جھٹلانے والے ۷،۸،۱۰; انكى بعثت كى تاريخ ۱;انكى دعوت ۲; انكى رسالت ۲،۴; انكى نبوت كے دلائل ۳; انكے معجزوں كا متعدد ہونا۳; يہ اور فرعون ۲،۴; يہ اور فرعونى سردار ۲،۴

۵۵۴

آیت ۷۴

( فَلَمَّا جَاءهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُواْ إِنَّ هَـذَا لَسِحْرٌ مُّبِينٌ )

پھر جب موسى ان كے پاس ہمارى طرف سے حق لے كر آئے تو انھوں نے كہا كہ يہ تو كھلا ہو جادو ہے _

۱_ معجزہ ايك واقعى اور حق امر كا وقوع پذير ہونا ہے_فلما جاء هم الحق من عندنا قالوا ان هذالسحر مبين

۲_ حضرت موسى (ع) نے اپنى اور ہارون (ع) كى نبوت كو ثابت كرنے كيلئے فرعون اور اسكے ساتھيوں كو وہ عظيم معجزہ دكھايا كہ جسكے حق اور الہى ہونے ميں كسى قسم كا شبہ نہ تھا _فلما جاء هم الحق من عندنا

۳_ معجزہ خدا تعالى كا فعل ہے جو انبياء(ع) كے ذريعے وقوع پذير ہوتا ہے_فلما جاء هم الحق من عندنا

۴_ انبياء (ع) كے معجزات الہى سرچشمہ كے حامل ہيں _فلما جاء هم الحق من عندنا

۵_ فرعون اور اسكے ساتھيوں نے حضرت موسى (ع) كے عظيم معجزے كا مشاہدہ كرنے كے باوجود اسے واضح جادو قرار ديا اور حضرت موسى (ع) پر جادوگر ہونے كى تہمت لگائي_فلما جاء هم الحق من عندنا قالوا ان هذا لسحر مبين

۶_فرعون اور اسكے ساتھيوں كى طرف سے حضرت موسى كے عظيم معجزے پر جادو كى تہمت لگانے كا سرچشمہ انكى سركش اورمجرمانہ فطرت تھى _فاستكبروا و كانوا قوما مجرمين_ فلماجاء هم الحق من عندنا قالوا ان هذا لسحر مبين

۷_ سحر اور جادو ، باطل اور حقيقت سے خالى ہے_فما جاء هم الحق من عندنا قالوا ان هذا لسحر مبين

۵۵۵

انبياء (ع) :انكا معجزہ ۴;انكا نقش و كردار ۳

جادو :اس كا بطلان ۷

خدا تعالى :اسكے افعال ۳

فرعون :اسكى تہمتوں كا سرچشمہ ۶; اسكى تہمتيں ۵;اسكى نافرمانى كے اثرات ۶; اسكے فساد پھيلانے كے اثرات ۶; يہ اور موسى (ع) ۵،۶

فرعونى سردار :انكى تہمتوں كا سرچشمہ ۶;انكى تہمتيں ۵ ; انكى نافرمانى كے اثرات ۶;انكے فساد پھيلانے كے اثرات ۶;

يہ اور موسى ۵،۶

معجزہ :اس كا سرچشمہ ۳،۴; اس كى حقيقت ۱

موسى (ع) :ان پر جادو كى تہمت ۵،۶; انكا فرعون كے سامنے استدلال ۲; انكا فرعونى سرداروں كے سامنے استدلال۲; انكے معجزے كى حقانيت ۲

ہارون(ع) :انكے معجزے كى حقانيت ۲

آیت ۷۷

( قَالَ مُوسَى أَتقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءكُمْ أَسِحْرٌ هَـذَا وَلاَ يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ )

موسى نے جواب ديا كہ تم لو گ حق كے آنے كے بعد اسے جادو كہہ رہے ہو كيا يہ تمھار ے نزديك جادو ہے جب كہ جادو گر كبھى كا مياب نہيں ہوتے _

۱_ حضرت موسى (ع) نے فرعون اور اسكى حكومت كے ذمہ دار لوگوں كى اسلئے سرزنش اور مذمت كى كہ انہوں نے اس معجزے كا انكار كيا جسكے حق ہونے ميں كوئي شك و شبہ نہيں تھا_قال موسى اتقولون للحق لما جاء كم ا سحر هذا

۲_ حضرت موسى (ع) نے فرعون اور اسكے ساتھيوں كى طرف

۵۵۶

سے معجزے كے انكار اور اسے جادو قرار دينے پر اظہار تعجب كيا _ا سحر هذا

۳_ معجزہ، ايك واقعى اور حقيقى امر ہے_ا تقولون للحق لما جاء كم ا سحر هذا

۴_ حضرت موسى (ع) نے اپنے كام كے جادو ہونے كى نفى كى اور اسكے معجزہ ہونے كو واضح اور غير قابل ترديد قرار ديا _

ا تقولون للحق لما جاء كم ا سحر هذا

استفہام انكارى ، اسم اشارہ اور سابقہ جملے كو مدنظر ركھتے ہوئے جملہ '' ا سحر ہذا'' كا معنى يوں ہوگا يہ عمل جادو نہيں ہے اور اسكے حق اور معجزہ ہونے كا انكار تعجب آور ہے_

۵_ جادوگر لوگ كاميابى سے محروم ہيں _لا يفلح الساحرون

۶_ حضرت موسى (ع) پہلے سے ہى اپنے اہداف كى كاميابى اور فرعون كى شكست كو جانتے تھے_و لا يفلح الساحرون

فلاح كا معنى ہے كاميابى اور ہدف كا پالينا (مفردات راغب)

۷_ حضرت موسى (ع) نے اپنے جادوگر ہونے كى نفى كرنے كے ساتھ ساتھ فرعون اور اسكے ہم نواؤں كو شكست كى دھمكى دى اور انكے سامنے اپنى يقينى كاميابى كا اعلان كيا _و لا يفلح الساحرون

۸_ جادوگر لوگ كامياب ہونے اور اپنے اہداف تك پہنچنے كى توانائي نہيں ركھتے _لا يفلح الساحرون

جادوگر لوگ:انكا عاجز ہونا ۸; انكا محروم ہونا ۵

فرعون :اسكى دھمكى ۷; اسكى مذمت ۱

فرعونى سردار:انكو دھمكى ۷; انكى مذمت ۱

كاميابى :اس سے محروم لوگ ۵

معجزہ :اسكى حقيقت ۳

موسى (ع) :انكا تعجب ۲; انكا قصہ ۲،۴،۷;انكى پيشين گوئي ۶،۷; انكى دھمكياں ۷; انكى طرف سے مذمت ۱; انكے معجزہ كا واضح ہونا ۴; يہ اور جادوگر ہونا ۴،۷; يہ اور فرعون ۱،۲; يہ اور فرعون كى شكست ۷; يہ اور فرعونى سردار ۱،۲;يہ اور فرعونى سرداروں كى شكست ۶،۷

۵۵۷

آیت ۷۸

( قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاء فِي الأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ تم يہ پيغام اس لئے لائے ہو كہ ہميں باپ دادا كے راستے سے منحرف كردو او ر تم دونوں كو زمين ميں حكومت و اقتدار مل جائے اور ہم ہرگز تمھارى بات ماننے والے نہيں ہيں _

۱_ فرعون اور اسكے حاشيہ برداروں نے حضرت موسى (ع) كى باتيں سننے كے بعد ان پر اور حضرت ہارون پر حكومت گرانے كى كوشش كرنے كا الزام لگايا_قال موسى قالوا ا جئتنا لتلفتنا عما وجدنا عليه آباء نا و تكون لكما الكبريائ

۲_فرعون اور اسكے حاشيہ برداروں نے حضرت موسى (ع) پر تہمت لگائي كہ انكى كوشش ہدايت كيلئے نہيں بلكہ انہں اپنے آباء و اجداد كى سنت اور روش سے ہٹانے اور سرزمين مصر اور اسكى حكومت پر قبضہ كرنے كيلئے ہے_

قالوا ا جئتنا لتلفتنا عما وجدنا عليه آباء نا و تكون لكما الكبرياء فى الارض

۳_ فرعون اور اسكے حاشيہ برداروں نے حضرت موسى اور حضرت ہارون پر قدرت كو صرف اپنے ہاتھ ميں ركھنے كى تہمت لگائي _و تكون لكما الكبرياء فى الارض

مندرجہ بالا نكتہ'' تكون'' كى خبر كے اسكے اسم پر مقدم ہونے سے كہ جو ہو سكتا ہے حصر كيلئے ہو حاصل ہوتا ہے_

۴_ گذشتہ لوگوں كى جاہلانہ رسوم كى اندھى تقليد، تكامل ميں ركاوٹ بنتى ہے_قالوا ا جئتنا لتلفتنا عما وجدنا عليه آباء نا

۵_ حضرت موسى (ع) كے زمانہ رسالت ميں سرزمين مصر كى حكومت اور قدرت فرعون اور اسكے حاشيہ برداروں كے ہاتھوں ميں تھى _

۵۵۸

قالوا ا جئتنا و تكون لكما الكبرياء فى الارض

۶_ دين اور سياست كا آپس ميں گہرا رابطہ ہے اور يہ ايك دوسرے سے جدا نہيں ہوسكتے_

قالوا ا جئتنا لتلفتنا عما وجدنا عليه آباء نا و تكون لكما الكبرياء فى الارض

۷_ فرعونى معاشرے كے اجتماعى نظام كى بنياد جاہلانہ اور موروثى ثقافت و نظريات پر تھى _

ا جئتنا لتلفتنا عما وجدنا عليه آباء نا و تكون لكما الكبرياء فى الارض

۸_ فرعون اور اسكے حاشيہ بردار لوگ اپنى قدرت و طاقت كى بقا گذشتہ لوگوں كے طرز زندگى كے دفاع ميں سمجھتے تھے_

قالوا ا جئتنا لتلفتنا عما وجدنا عليه آباء نا و تكون لكما الكبرياء فى الارض

۹_ فرعون اور اسكے حاشيہ برداروں نے موسى و ہارون كو بتايا كہ وہ انكى دعوت كو قبول نہيں كريں گے اور انكے سامنے نہيں جھكيں گے_و ما نحن لكما بمؤمنين

''لكما'' كے لام كے قرينے سے كلمہ ''مؤمنين'' ميں جھكنے كا معنى تضمين كيا گيا ہے_

تعصب:جاہليت كى متعصب رسوم كے اثرات ۴; ناپسنديدہ تعصب ۴

تكامل :اسكے موانع ۴

دين :دين و سياست ۶

سرزمين :سرزمين مصر كى تاريخ ۵; سرزمين مصر كے حكمران ۵

فرعون :اس كاكفر ۹; اس كا ليچڑپن ۹; اسكى تہمتيں ۱،۲،۳; اسكى سوچ۸; اسكى قدرت ۸;اسكے زمانے كے معاشرے كى خصوصيات ۷; يہ اور سرزمين مصر ۵; يہ اور گذشتہ لوگوں كى رسوم ۸;يہ اور موسى (ع) كى دعوت ۹; يہ اور ہارون (ع) كى دعوت ۹

فرعونى سردار:انكا كفر ۹; انكى تہمتيں ۱،۲،۳; انكى سوچ۸; انكى قدرت ۸;يہ اور گذشتہ لوگوں كى رسوم ۸; يہ اور مصر كى سرزمين ۵; يہ اور موسى (ع) كى دعوت ۹; يہ اور ہارون (ع) كى دعوت ۹

موسى (ع) :ان پر طاقت حاصل كرنے كى تہمت لگانا ۱،۲،۳; يہ اور سرزمين مصر ۲; يہ اور فرعون كا تختہ الٹنا ۱

ہارون(ع) :ان پر طاقت حاصل كرنے كى تہمت لگانا ۱،۳; يہ اور فرعون كا تختہ الٹنا ۱

۵۵۹

آیت ۷۹

( وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِي بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ )

اور فرعون نے كہا كہ تمام ہوشيار ماہر جادو گروں كو ميرے پاس حاضر كرو _

۱_ فرعون نے حضرت موسى (ع) اور انكے عظيم معجزے كا مقابلہ كرنے كيلئے سب ماہر اور قابل جادوگروں كو دارالحكومت ميں حاضر كرنے كا حكم ديا _و قال فرعون ائتونى بكل ساحر عليم

۲_ حضرت موسى (ع) كى شخصيت نے فرعون كو اسقدر پريشان كيا اور اسے دھمكايا كہ فرعون نے انكے مقابلے كى قيادت خود كرنے كا فيصلہ كيا_و قال فرعون ائتونى بكل ساحر عليم

۳_ فرعون كے زمانے ميں سحر اور جادو ايك رائج علم تھا اور بہت سارے ماہر جادوگر مصر ميں رہتے تھے_

قالوا ان هذا لسحر و لا يفلح الساحرون و قال فرعون ائتونى بكل ساحر عليم

۴_ فرعو ن نے حضرت موسي(ع) اور ہارون (ع) كا مقابلے كرنے كيلئے جادو كا سہارا ليا _

قال فرعون ائتونى بكل ساحر عليم

جادو:اسكى تاريخ ۳; يہ فرعون كے زمانے ميں ۳

سرزمين :سرزمين مصر ميں جادوگر۳

فرعون :اس كا جادو سے مدد لينا ۴;ا س كا قصہ ۴;اس كا مقابلہ ۱،۲; اسكے حكم۱; اسكے مقابلے كى روش ۴; يہ اور جادوگروں كو جمع كرنا ۱;يہ اور موسى (ع) ۲،۴; يہ اور موسى (ع) كا معجزہ ۱; يہ اور ہارون(ع) ۴

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746