تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 193076 / ڈاؤنلوڈ: 4754
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كا جنگ بھڑكانا ۸;صدر اسلام كے مشركين كى دشمنى ۶;صدر اسلام كے مشركين كى سازشيں ۶; صدر اسلام كے مشركين كى فوجى طاقت۰ا; صدر اسلام كے مشركين كى قسم ۵; مشركين كا معاہدہ ۵; مشركين كے ساتھ

معاہدہ ۳; معاہدہ توڑنے والے مشركين ۴; معاہدہ كرنے والے مشركين ۵

معاہدہ:صدر اسلام ميں صلح كا معاہدہ ۳; معاہدہ امن ۴

آیت ۱۴

( قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ )

ان سے جنگ كرو اللہ انھيں تمھارے ہاتھوں سے سزا دے گا اور رسول كرے گا اور تمھيں ان پر فتح عطا كر ے گا اور صاحب ايمان قو م كے دلوں كو ٹھنڈا كر دے گا_

ا_ پيمان شكنى كرنے والے اور جنگ چاہنے والے دشمن كے ساتھ جنگ كى ضرورت_

الا تقاتلون قوماً نكثوا ايمانهم قتلوهم

''قاتلوہم '' ميں ضمير ''ہم'' سابقہ آيت (قوماً نكثوا ايمانہم و ہم بدء و كم اول مرة) ميں پيمان شكنى كرنے والے اور جنگ كا آغاز كرنے والے مشركين كى طرف لوٹ رہى ہے_

۲_ خدا تعالى دشمنان دين كى شكست و ذلت اور مومنين كى كاميابى اور عزت چاہتا ہے_

قاتلوهم يعذبهم الله با يديكم و يخز هم و ينصر كم عليهم

۳_ دشمنان دين كى نابودى و ذلت اور اپنى كاميابى ،ان كے ساتھ جنگ ميں پوشيدہ ہے _

قاتلوهم يعذبهم الله با يديكم و يخز هم و ينصركم عليهم

۴_ جنگ كرنے والے مومنين ميدان جنگ ميں ارادہ خدا ( اسلامى افواج كى كاميابى اور دشمن كى ذلت اور نابودى ) كے وقوع پذير ہونے كا مظہر ہيں _يعذبهم الله با يديكم و يخز هم و ينصر كم عليهم

خدا تعالى نے دشمن كے خلاف جنگ كرنے كا حكم دينے كے بعد انكى نابودى و شكست اور مومنين كى كاميابى كو اپنى طرف نسبت دى ہے حالانكہ يہ سب انہيں كى جنگ كا نتيجہ تھا اس كا مطلب يہ ہے

۴۱

كہ انسانوں كے بارے ميں خدا تعالى كا ارادہ خود انہيں كے افعال كے ذريعے وقوع پذير ہوتا ہے_

۵_ جنگ كا زمانہ ، خدا تعالى كى طرف سے مومنين كى غيبى امداد كے ظہور كا زمانہ ہے _

قاتلوهم يعذبهم الله با يديكم و ينصر كم عليهم

۶_ مومنين كى اپنے مكتب كى اقدار تك رسائي خود انہيں كے جہاد اور كوشش ميں مضمر ہے_قاتلوهم يعذبهم الله بايديكم

۷_ خدا تعالى نے صدر اسلام كے مومنين كو مشركين كے ساتھ نبرد آزما ہونے كى صورت ميں انہيں يقينى كاميابى كى نويد سنائي _قاتلوهم يعذبهم الله با يديكم و ينصركم عليهم

۸_ صدر اسلام كے پيمان شكنى كرنے والے مشركين كى ذلت و نابودى اور سپاہ اسلام كى كاميابى ، ستم ديدہ مومنين كے سينوں كى دوا تھى _يعذبهم الله با يديكم و يخزهم و ينصركم عليهم و يشف صدور قوم مؤمنين

۹_ صدر اسلام كے مومنين كے دل مشركين كے رنج و آزار پہنچانے كى وجہ سے زخمى ہوچكے تھے _

و يشف صدور قوم مؤمنين

اسلام :صد ر اسلام كى تاريخ۷،۹

جنگ:جنگ چاہنے والوں كے ساتھ جنگ كى اہميت ا;جنگ ميں خدا تعالى كى امداد ۵; دشمنان دين كے ساتھ جنگ ۳; دشمن كے ساتھ جنگ كى اہميت

جہاد:اسكے اثرات۶

خدا تعالى :ارادہ خدا كے مظاہر ۴; خدا تعالى كى بشارتيں ۷

خدا تعالى كا كام كرنے والے:۴

دشمن :دشمن كى ذلت كا سرچشمہ۴; دشمن كى ذلت كى شرائط ۳;دشمن كى ذلت كے عوامل ۴; دشمن كى موت كا سرچشمہ۴; دشمن كى نابودى كے شرائط ۳; دشمن كى ہلاكت كے عوامل ۴; معاہدہ توڑنے والے دشمن

دين :دشمنان دين كى ذلت ۲; دشمنان دين كى شكست ۲; دين كے اہداف كا وقوع پذير ہونا ۶

كاميابى :اسكا پيش خيمہ ۴; اسكى بشارت ۷; اسكے شرائط ۳; اسكے عوامل ۴

۴۲

مجاہدين :انكى كاركردگى ۴;انكى كاميابى ۸

مشركين :انكى ذلت كے اثرات ۸; صدر اسلام كے مشركين كى اذيتيں ۹; مشركين، معاہدہ كو توڑنے والے ۸

مومنين :انكى امداد۵;انكى كاميابى ۲،۷; صدر اسلام كے مومنين كو بشارت ۷; صدر اسلام كے مومنين كے رنج والم۹; مومنين كى ذمہ دارى ۶; مومنين كى عزت ۲; مومنين كے دلوں كى شفا ۸;مومنين كے دلوں كى شفا كے عوامل ۸

آیت ۱۵

( وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللّهُ عَلَى مَن يَشَاءُ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )

اور ان كے دلوں كا غصہ دور كردے گا اور الله جس كى توبہ كو جاہتا ے قبول كر ليتا ہے كہ وہ صاحب علم بھى ہے اور صاحب حكمت بھى ہے _

ا_ صدر اسلام كے مومنين كے دل ،پيمان شكنى كرنے والے مشركين كى نسبت غيظ و عضب سے بھرے ہوئے تھے_

الا تقتلون قوما نكثوا ايمانهم و يشف صدور قوم مؤمنين و يذهب غيظ قلوبهم

۲_ صدر اسلام كے مومنين كے دلوں ميں موجود آتش غضب كى ٹھنڈك كا ذريعہ ، تجاوز كرنے والے مشركين كى ذلت و نابودى _قاتلوهم يعذبهم الله و يذهب غيظ قلوبهم

۳_ خدا تعالى كى طرف سے پيمان شكنى كرنے والے مشركين كو توبہ كاراستہ كھلا ہونے كى ياد دہانى _

الاتقتلون قوما نكثوا ايمانهم و يتوب الله على من يشائ

۴_ خدا تعالى كفار و مشركين كو توبہ ( شرك كو ترك كركے اسلام كو قبول كرلينا) كى دعوت ديتا ہے_

الاتقتلون قوما نكثوا ايمانهم و يتوب الله على من يشائ

۵_ خدا تعالى كا توبہ قبول كرنا اسكى مشيت اور مرضى پر منحصر ہے نہ توبہ كرنے والوں كے استحقاق كى بنا پر_

و يتوب الله على من يشائ

۶_ خدا تعالى كے مشركين و كفار كى توبہ اور ان كے اسلام

۴۳

كو قبول كرنے كا سرچشمہ اسكا علم و حكمت ہے_و يتوب الله على من يشاء و الله عليم حكيم

۷_ پيمان شكنى كرنے والے دشمن كے ساتھ جنگ كا حكم اور انہيں توبہ كرنے اور دامن اسلام ميں پلٹ آنے كى دعوت دينے كا سرچشمہ خدا تعالى كا علم و حكمت ہے_قاتلوهم و يتوب الله على من يشاء و الله عليم حكيم

۸_ خدا تعالى عليم ( بہت جاننے والا) اور حكيم ( حكمت والا)ہے_و الله عليم حكيم

اسلام:اسلام كى طرف دعوت۳،۴،۷; دشمنان اسلام كو دعوت ۷; صدر اسلام كى تاريخ

اسماء اور صفات:حكيم۸; عليم ۸

توبہ :اسكى دعوت ۴،۷; اسكے قبول ہونے كے شرائط ۵

جنگ:دشمن كے ساتھ جنگ۷; معاہدہ توڑنے والوں كے ساتھ جنگ ۷

خدا تعالى :اس كا علم ۶،۷;اسكى حكمت ۶،۷; اسكى دعوت ۴; اسكى دعوت كى خصوصيات۷; اسكى مشيت ۵; اسكے احكام كى خصوصيات ۷

شرك:اسكو ترك كرنے كى دعوت ۴

كفار:ان كا اسلام قبول كرنا۶; انكو دعوت۴; انكى توبہ قبول ہونا۶

مشركين :انكا اسلام قبول كرنا ۶; انكو دعوت ۴; انكى توبہ ۳; انكى توبہ كا قبول ہونا ۶;انكى ذلت كے اثرات ۲; انكى مرگ كے اثرات ۲; مشركين، عہد شكنى كرنے والے

مومنين:انكا غصہ ٹھنڈا كرنے كے عوامل ۲;انكى خوشى كے عوامل ۲; صد راسلام كے مومنين كا غيظ و غضب

ياددہاني:معاہدہ توڑنے والے مشركين كو ياددہانى ۳

۴۴

آیت ۱۶

( أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُواْ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّهُ الَّذِينَ جَاهَدُواْ مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُواْ مِن دُونِ اللّهِ وَلاَ رَسُولِهِ وَلاَ الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً وَاللّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ )

اور ان كے دلوں كا غصہ دور كردے گا اور اللہ جس كى يہ ہے كہ تم كو اسى طرح چھوڑ ديا جائے گا جب كہ اللہ نے ابھى يہ بھى نہيں ديكھا ہے كہ تم ميں جہاد كرنے والے كون لوگ ہيں جنھوں نے خدا _ رسول اور صاحبان ايمان كو چھوڑكر كسى كو دوست نہيں بنايا ہے اور اللہ تمھار ے اعمال سے خوب باخبر ہے_

ا_ لوگوں كو صرف ايمان لے آنے كى وجہ سے اپنے آپ سے امتحان الہى كو معاف نہيں سمجھنا چاہيے _

ام حسبتم ان تتركوا و لما يعلم الله الذين جاهدوا منكم

۲_ اہل ايمان كا امتحان خدا تعالى كى قطعى سنت ہے_ام حسبتم ان تتركوا و لما يعلم الله الذين جاهدوا منكم

۳_ خدا تعالى كے امتحان كا مقصد حقيقى مومنوں كو دوسروں سے جدا اور ممتاز كرنا ہے _

ام حسبتم ان تتركوا و لما يعلم الله الذين جاهدوا منكم

۴_ زمانہ جنگ و كارزار، خدا تعالى كے امتحان اور صحيح مومنوں كے ممتازہونے كا زمانہ ہے_

ام حسبتم ان تتركوا و لما يعلم الله الذين جاهدوا منكم

۵_ مومنين كے ساتھ دوستى يا دشمنوں اور بيگانوں كے ساتھ خفيہ روابط كا استوار كرنا، امتحان الہى اور حقيقى مومنوں كے ممتازہونے كا ميدان ہے_

ام حسبتم ان تتركوا و لما يعلم الله الذين ...لم يتخذوا من دون الله و لا رسوله و لا المؤمنين و ليجة

۶_ خدا ، پيغمبر اور مومنين كے ساتھ دوستى اور انكے دشمنوں

۴۵

سے بيزارى حقيقى ايمان كى نشانيوں ميں سے ہے_و لم يتخذوا من دون الله و لا رسوله و لا المؤمنين و ليجة

۷_ صدر اسلام كے مسلمانوں كے در ميان بعض كمزور ايمان اور اغيار كے ساتھ مرتبط لوگوں كا موجود ہونا_

و لم يتخذوا من دون الله و لا رسوله و لا المؤمنين و ليجة

۸_ خدا تعالى كى طرف سے كمزور ايمان لوگوں كو اغيار كا ہم راز ہونے اوران تك مسلمانوں كے اسرار پہنچانے كے بارے ميں دھمكى آميز تنبيہ _ام حسبتم ان تتركوا و لما يعلم الله الذين و لم يتخذوا من دون الله و لا رسوله و لا المؤمنين و ليجة

۹_ اغيار كے ساتھ خفيہ روابط استوار كرنے اور ان تك مسلمانوں كے اسرار پہنچانے كى حرمت _

ام حسبتم ان تتركوا و لما يعلم الله الذين لم يتخذوا من دون الله و لا رسوله و لا المؤمنين و ليجة

۰ا_ميدان جنگ ميں شركت سے روگردانى ، دشمنوں كے ساتھ خفيہ روابط كا استوار كرنا اور ان تك مسلمانوں كے راز منتقل كرنا كمزور ايمان كى نشانياں ہيں _

ام حسبتم ان تتركوا و لما يعلم الله الذين جاهدوا منكم و لم يتخذوا من دون الله و لا رسوله و لا المؤمنين و ليجة

اا_ لوگوں كے ظاہر اور پنہان كاموں كے بارے ميں خدا تعالى كى مكمل آگاہى _و الله خبير بما تعملون

احكام : ۹

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۷

اغيار:ان تك راز كا پہنچانا ۸،۹; ان كے ساتھ ارتباط كا حرام ہونا ۹; ان كے ساتھ رابطہ ۷

امتحان :جنگ كے ذريعے امتحان ۴; فلسفہ امتحان ۳; موارد امتحان۵

انسان:اس كا عمل

ايمان :اسكى نشانياں ۶; اسكے آثار ا;اسكے كمزور ہونے كى نشانياں ۰

بيزارى :بيزاري،پيغمبر (ص) كے دشمنوں سے۶; بيزارى ،

۴۶

دشمنان خدا سے ۶; بيزاري، مومنين كے دشمنوں سے ۶

جنگ :اس كافلسفہ ۴

جہاد:اس ميں شركت سے گريز كرنا۰

خدا تعالى :اس كا امتحان ۳، ۴، ۵; اس كا علم غيب ۱ا;اسكى دھمكياں ۸; اسكى سنت ۲; اسكے امتحان كا سب كيلئے ہونا

خدا تعالى كى سنتيں :

امتحان كى سنت ۲

دشمن:ان كے ساتھ رابطہ ۵،۰

دوستى :دوستى پيغمبر (ص) كے ساتھ۶; دوستى خدا كے ساتھ۶; دوستى دشمن كے ساتھ ۵; دوستى مومنين كے ساتھ ۵،۶

راز افشا كرنا:اسكى حرمت ۹

محرمات :۹

مسلمان :ان كے راز افشاء كرنا ۹،۰ا; صدر اسلام كے مسلمانوں كو تنبيہ۸; صدر اسلام كے مسلمانوں كى كمزورى ۷

مومنين:انكا امتحان ا،۲; انكى تشخيص ۳،۴،۵

آیت ۱۷

( مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ الله شَاهِدِينَ عَلَى أَنفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُوْلَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ )

يہ كام مشركين كا نہيں ہے كہ وہ مساجد خدا كو آباد كريں جبكہ وہ خو د اپنے نفس كے كفر كے گواہ ہيں _ ان كے اعمال بر باد ہيں اور وہ جہنم ميں ہميشہ رہنے والے ہيں _

ا_ مشركين مساجد كو آباد كرنے اور ان كى رسيدگى كرنے كى صلاحيت نہيں ركھتے _

۴۷

ما كان للمشركين ان يعمروا مساجد الله

۲_مساجد كے امور مشركين كے حوالے كردينا جائز نہيں ہے _ما كان للمشركين ان يعمروا مساجد الله

۳_ مساجد بنانے كا فلسفہ خداكے حضور، خضوع و خشوع كا اظہار ہے_ما كان للمشركين ان يعمروا مساجد الله

عبادت گاہوں كو ''مسجد'' سے تعبير كرنے سے مندرجہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے _

۴_ مساجد : مقدس مقامات، خدا كے متعلقہ اور اسكى ملكيت ہيں _مساجد الله

مساجد كا اللہ كى طرف اضافہ ، اضافہ تشريفيہ ہے جو مساجد كے تقدس كو نماياں كررہا ہے_

۵_ مشركين ، نجس اور كفر سے آلودہ ہيں _شاهدين على انفسهم بالكفر

۶_ صدر اسلام ميں فتح مكہ سے پہلے مسجد الحرام كى توليت (اسكى آباد كارى اور اسكے امور كى رسيدگي) كفر پيشہ مشركين كے ہاتھوں ميں تھى _ما كان للمشركين ان يعمروا مساجد الله شاهدين على انفسهم بالكفر

۷_ مشركين كے نيك اعمال ، خدا تعالى كے ہاں بے قدر و قيمت اور فاسد ہيں _

ما كان للمشركين ان يعمروا مساجد الله اولئك حبطت اعمالهم

۸_ كفار كے نيك اعمال كے حبط و فاسد اور بے قدر و قيمت ہونے كى وجہ انكا خدا كے ساتھ كفر ہے_

ما كان للمشركين ان يعمروا مساجد الله شاهدين على انفسهم بالكفر اولئك حبطت اعمالهم

۹_ شرك ناقابل بخشش گناہ ہے_ما كان للمشركين اولئك حبطت اعمالهم و فى النارهم خلدون

۰ا_ مشركين جہنمى ہيں اور ہميشہ جہنم كى آگ ميں رہيں گے _ما كان للمشركين و فى النار هم خالدون

احكام ،۲:

پليد لوگ ۵

جہنم :جہنم ميں ہميشہ رہنے والے ۰

خدا تعالي:خدا كى ملكيت۴

۴۸

خضوع :اسكى اہميت ۳

شرك :اسكى بخشش ۹;اسكا گناہ ۹

عمل :اسكے بے كارہونے كے عوامل ۸

كفار :ان كے عمل كا حبط ہونا ۸

كفر :خدا تعالى كے ساتھ كفر كرنے كے اثرات۸محرمات،۲

مسجد:اسكا تقدس ۴; اسكا مالك ۴; اسكى آبادكارى ا; اسكى توليت ا،۲; اس كے احكام ۲;اسكے بنانے كا فلسفہ۳

مسجد الحرام :اسكى تاريخ ۶; صدر اسلام ميں اسكى توليت ۶

مشركين :انكا پسنديدہ عمل ۷; انكا كفر ۵; انكى پليدگى ۵; انكى نالائقى ا،۲;ان كے عمل كا بے كار ہونا۷; مشركين اور مسجد الحرم۶;مشركين جہنم ميں ۰

مقدس مقامات:۴

آیت ۱۸

( إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلاَّ اللّهَ فَعَسَى أُوْلَـئِكَ أَن يَكُونُواْ مِنَ الْمُهْتَدِينَ )

اللہ كى مسجدوں كو صرف وہ لوگ آباد كرتے ہيں جن كا ايمان اللہ اور روز آخرت پر ہے او رجنھوں نے نماز قائم كى ہے زكوةادا كى ہے اور سوائے خدا كے كسى سے نہيں ڈرے يہى وہ لوگ ہيں جو عنقريب ہدايت يافتہ لوگوں ميں شمار كئے جائيں گے_

ا_ مساجد كى آبادكارى اور ان كے امور كے سنبھالنے كى صلاحيت صرف سچے مومنين كے پاس ہے_

انما يعمر مساجد الله من آمن بالله و اليوم الآخر و لم يخش الا الله

۴۹

۲_ صالح مومنين، مساجد كے امور كے ذمہ دار ہيں _انما يعمر مساجد الله من آمن بالله و لم يخش الا الله

۳_ مساجد بنانے كا فلسفہ خدا تعالى كے حضور خضوع و خشوع كا اظہار ہے _انما يعمر مساجد الله

۴_ مساجد; مقدس مقامات ، خدا تعالى سے متعلقہ اور اسكى ملكيت ہيں _مساجد الله

مساجد كا اللہ كى طرف اضافہ '' اضافہ تشريفيہ'' ہے جو مساجد كے تقدس كو بيان كررہا ہے_

۵_ كفار، مشركين اورلاابالى اور نمازو زكات كى پابندى نہ كرنے والے مسلمان مساجد كى آبادكارى اور انكے امور كو سنبھالنے كى صلاحيت نہيں ركھتے_انما يعمر مساجد الله من آمن بالله و اليوم الآخر و اقام الصلوة و آتى الزكاة

۶_دين كے بنيادى اورايك دوسرے سے جدا نہ ہونے والے دو ركن ايمان ( خدا اور قيامت كا اعتقاد) اور عمل ( نماز قائم كرنا اور زكات ادا كرنا) ہيں _انما يعمر مساجد الله من آمن بالله و اليوم الآخر و اقام الصلاة و آتى الزكاة

۷_ نماز قائم كرنا اور زكات ادا كرنا شريعت الہى كى اہم ترين ذمہ دار ياں ہيں _و اقام الصلاة و آتى الزكاة

مندرجہ بالا نكتے پر يہ چيز دلالت كرتى ہے كہ خدا تعالى نے ايمان كى شرط ذكر كرنے كے بعد شرعى ذمہ داريوں ميں سے صرف نماز اور زكات كا تذكرہ كيا ہے_

۸_ نماز قائم كرنا، زكات ادا كرنا، خدا تعالى سے ڈرنا اور غير خدا سے نہ ڈرنا سچے ايمان كى نشانياں ہيں _

من آمن بالله و اليوم الآخر و اقام الصلاة و آتى الزكاة و لم يخش الا الله

۹_ خدا اور روز قيامت پر ايمان، نماز قائم كرنا اور زكات ادا كرنا اور غير خدا سے نہ ڈرنا صراط مستقيم تك پہنچنے اور ہدايت پالينے والوں ميں شمار ہونے كا پيش خيمہ ہيں _من آمن بالله و اليوم الآخر فعسى اولئك ان يكونوا من المهتدين _

۰ا_ سچے مومنين كو ايمان اور نيك اعمال كا حامل ہونے كے باوجود صرف اپنى ہدايت كى اميد كرنى چاہيے اوراس پرمطمئن اور مغرور نہيں ہونا چاہيے _من آمن بالله فعسى اولئك ان يكونوا من المهتدين

اا_ابو سعيدخدرى سے روايت ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا : ''اذا را يتم الرجل يعتاد المسجد فاشهدوا له بالا يمان قال الله : انما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم

۵۰

الآخر''جب كسى كو مسجد كا عادى ديكھو تو اسكے ايمان كى گواہى دو كيونكہ خدا تعالى نے فرمايا ہے كہ اللہ تعالى كى مساجد كو وہ لوگ آباد كرتے ہيں جو خدا اور روز آخرت پر ايمان ركھتے ہيں _(۱)

اميد:ہدايت كى اميد ركھنے كى اہميت ۰

ايمان:آخرت پر ايمان كى اہميت ۶; ايمان كى نشانياں ۸; خدا پر ايمان كى اہميت ۶: قيامت پر ايمان ۹

خدا تعالي:اسكى مالكيت ۴

خضوع :اسكى اہميت ۳

خوف:خوف خدا كى اہميت ۸،۹; غير خدا كا خوف ۹

دين:اسكے اركان ۶

روايت :زكات :اسكى اہميت ۶،۷،۸; اسكے اثرات ۹; زكات ترك كرنے والوں كى نالائقى ۵

عُجب:اس سے اجتناب ۰

كفار:انكى نالائقى ۵

مسجد:اس كا مالك ۴; اس كا مقدس ہونا۴; اسكو آباد كرناا; اسكى آباد كارى اا; اسكى آباد كارى كى اہميت۵;اسكى تعمير كا فلسفہ ۳;اسكى توليت ۱، ۲;اسكى توليت كى اہميت ۵

مشركين :انكى بے لياقتى ۵

مقدس مقامات ۴

مومنين:انكى ذمہ دارى ۰ا;ان كے فضائل ا،اا; صالح مومنين كى ذمہ دارى ۲

نماز:اسكو قائم كرنے كى اہميت۶،۷،۸;اسكو قائم كرنے كے اثرات ۹;تاركين نماز كى بے لياقتى ۵

ہدايت:اسكے عوامل ۹

ہدايت يافتہ لوگ:۹

____________________

۱)الدر المنثور ج ۴ ص ۴۰ا_

۵۱

آیت ۱۹

( أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ يَسْتَوُونَ عِندَ اللّهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ )

كيا تم نے حاجيوں كے پانى پلانے اور مسجد الحرام كى آبادى كو اس كا جيسا سمجھ ليا ہے جو اللہ اور آخرت پر ايمان ركھتا ہے اور خدا ميں جہا د كرتا ہے _ ہر گزيہ دونوں اللہ كے نزديك برابر نہيں ہو سكتے اور اللہ ظالم قوم كى ہدايت نہيں كرتا ہے_

ا_خدا تعالى كى طرف سے ان مسلمانوں كى مذمت جو حاجيوں كو پانى پلانے اور مسجد الحرام كى سرپرستى كو راہ خدا ميں جہاد كے برابر قرار ديتے تھے اور خود كو راہ خدا ميں جہاد كرنے والے مومنيں كے ہم پلہ سمجھتے تھے_

اجعلتم سقاية الحاج و عمارة المسجد الحرام كمن آمن بالله و اليوم الآخر و جاهد فى سبيل الله

۲_ نيك كردار كافر اور مشرك كو مومن مجاہدكے برابر قرار دينا نادرست كام اور قابل ملامت عمل ہے_

اجعلتم سقاية الحاج و عمارة المسجد الحرام كمن آمن بالله و اليوم الآخر و جاهد فى سبيل الله

۳_ مسجد الحرام كى سرپرستى اور زائرين كعبہ كو پانى پلانا جاہليت كے عربوں كے درميان اہم اور قابل فخر كام تھا_

اجعلتم سقاية الحاج و عمارة المسجد الحرام

۵۲

كمن آمن بالله و جاهد فى سبيل الله

۴_ كافر و مشرك كا نيك ترين عمل، خدا تعالى كے نزديك كمترين قيمت بھى نہيں ركھتا_

اجعلتم سقاية الحاج و عمارة المسجد الحرام كمن آمن بالله و الله لايهدى القوم الظالميں

مندرجہ بالا مطلب اس آيہ شريفہ ميں دو اہم نكات سے حاصل ہوتا ہے_

ا_ حاجيوں كو سيراب كرنا اور مسجد الحرام كو آباد كرنا مشركين كا بہترين عمل تھا_

۲_ خدا تعالى نے بظاہرانہيں نيك عمل مشركين كو ستمگر متعارف كرايا ہے_

۵_ انسانوں كے نيك اعمال كى قيمت صرف خدا تعالى اور روز قيامت پر ايمان كى صورت ميں ہے_

اجعلتم سقاية الحاج و عمارة المسجد الحرام كمن آمن بالله و اليوم الآخر

۶_ راہ خدا ميں جہاد مومنين كا بہترين اور سب سے زيادہ قيمتى عمل ہے _

اجعلتم سقاية الحاج كمن آمن بالله و اليوم الآخر و جاهد فى سبيل الله

۷_ جہاد كى قدر و قيمت تب ہے جب وہ راہ خدا ميں ہو_و جاهد فى سبيل الله

۸_ كفار و مشركين ستمگر لوگ ہيں _و الله لا يهدى القوم الظالمين

۹_ ستمگر لوگ ہدايت الہى سے محروم ہيں _و الله لا يهدى القوم الظالمين

۰ا_ ابو بصير نے امام محمد باقر يا امام جعفر صادق عليہما السلام سے اللہ تعالى كے اس فرمان (اجعلتم سقاية الحاج و عمارة المسجد الحرام كمن آمن بالله و اليوم الآخر ) كے بارے ميں روايت كى ہے ' 'نزلت فى حمزة و على و جعفر والعباس وشيبة ...وكان على (ع) و حمزة و جعفر الذين آمنوا بالله و اليوم الآخر وجاهدوا فى سبيل الله لا يستوون عندالله '' يہ آيت شريفہ حمزہ ، على ، جعفر، عباس اور شيبہ كے بارے ميں نازل ہوئي كہ يہ (عباس اور شيبہ ) حاجيوں كو سيراب كرنے اور كعبہ كى سرپرستى كے منصب پر افتخار كررہے تھے تو خدا تعالى نے يہ آيت نازل فرمائي: كيا حاجيوں كو سيراب كرنے اور كعبہ كو آباد كرنے كو اس شخص كے عمل جيسا قرار ديتے ہو جس كا خدا و روز قيامت پر ايمان ہے اور راہ خدا كا مجاہد ہے ؟ يہ خدا كے يہاں مساوى نہيں ہيں _(۱)

____________________

ا)كافى ج ۸ ص ۲۰۴ ح ۴۴۵ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۹۳ا ح ۷۸ _

۵۳

اقدار :ان كامعيار ۴،۵،۷

امام على (ع) :آپ (ع) كے فضائل ۰

ايمان :آخرت پر ايمان كى اہميت۵; خدا پر ايمان كى اہميت ۵

جاہليت :زمانہ جاہليت ميں اقدار كا معيار۳

جعفر ابن ابى طالب:ان كے فضائل ۰/جہاد:اسكى قيمت ا،۶،۷

حاجى لوگ:حاجيوں كو سيراب كرنے كى فضيلت ۰ا; زمانہ جاہليت ميں حاجيوں كو سيراب كرنا ۳

حمزہ :آپ كے فضائل ۰

خدا تعالى :خدا تعالى كى طرف سے سرزنش

راہ خدا :اسكى قدر و قيمت ۷

شيبہ :اسكے فضائل ۰

ظالم لوگ :۸انكى محروميت۹

عباس ابن عبدالمطلب:

ان كے فضائل۰

عمل :ناپسنديدہ عمل ۲

عمل صالح:بہترين عمل صالح۶; عمل صالح كى اہميت ۵

قياس:توليت مسجد كا قياس جہاد كے ساتھ ا; حاجيوں كو سيراب كرنے كا قياس جہاد كے ساتھ۱; مشرك كا قياس مومن كے ساتھ،۲; مومن كا قياس كا فر كے ساتھ ۲; ناپسنديدہ قياس ا،۲

كفار :انكا ظلم ۸; ان كے عمل صالح كا بے قيمت ہونا ۴

مجاہدين :ن كے فضائل ا،۲

مسجد الحرام :اسكى توليت ا; زمانہ جاہليت ميں مسجد الحرام كى توليت ۳;

مسلمان:ا ن كى مذمت /مشركين :

۵۴

انكا ظلم۸; ان كے عمل صالح كابے قيمت ہونا ۴; نيكوكار مشركين ۲

مومنين :ان كے فضائل ا،۲

ہدايت :اس سے محروم لوگ ۹

آیت ۲۰

( الَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللّهِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ )

بيشك جو لوگ ايمان لے آئے اور انہوں نے ہجرت كى اور راہ خدا ميں جان اور مال سے جہاد كيا وہ اللہ كے نزديك عظيم درجہ كے مالك ہيں اور در حقيقت وہى كامياب بھى ہيں _

ا_ خدا تعالى كى طرف سے صدر اسلام كے ہجرت اور جہاد كرنے والے مومنين كى تقدير و تعريف _

الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا اعظم درجة عند الله

۲_ ايمان ، ہجرت اور جان و مال كے ساتھ جہاد كا خدا تعالى كے نزديك برترين در جہ اور قدر و قيمت ہے_

الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا باموالهم و انفسهم اعظم درجة

۳_ خدا تعالى كے يہاں ايمان با عمل كى اہميت ہے_الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا اعظم درجة عند الله

۴_ ہجرت اور جہاد كى بڑى قيمت اس صورت ميں ہے جب يہ راہ خدا ميں ہوں _

الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا فى سبيل الله

۵_ مال كے ساتھ جہاد اسى طرح ضرورى ہے جس طرح جان كے ساتھ جہاد_و جاهدوا فى سبيل الله باموالهم و انفسهم

۶_ راہ خدا ميں ہجرت اور جہاد كرنے والے مومنين كا خدا تعالى كے يہاں برترين مرتبہ اور سب سے بڑا درجہ ہے_

الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا اعظم درجة عند الله

۵۵

۷_ حقيقى سعادت اور كاميابى ، راہ خدا ميں جہاد اور ہجرت كرنے والے مومنين كيلئے ہے_

الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا اولئك هم الفائزون

۸_ ايمان ، ہجرت اور راہ خدا ميں جان و مال كے ساتھ جہاد، انسان كے سعادت حاصل كرنے كے اصلى عوامل ہيں _

الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا اولئك هم الفائزون

اقدار:۲انكا معيار۳،۴

انسان :ممتاز انسان ۶

ايمان :اسكى قدر و قيمت ۲،۳; اسكے اثرات ۸; ايمان اور عمل ۳

جہاد:جہاد كى اہميت ۵; جہاد كى قدر و قيمت ۲،۴; جہاد كے اثرات ۸;جہاد مالى كى اہميت ۵;جہاد مالى كي

قدر و قيمت ۲; جہاد مالى كے اثرات۸

راہ خدا :اسكى قدر و قيمت ۴

سعادت:اسكے عوامل ۸

عمل :اسكى قدر وقيمت ۳

كامياب لوگ : ۷

مجاہدين:انكا مقام ۶;انكى سعادت ۷; انكى كاميابى ۷; صدر اسلام كے مجاہدين كے فضائل

مومنين :ان كا مقام۶; انكى سعادت ۷; انكى كاميابى ۷;ان كے فضائل

مہاجرين :انكا مقام ۶;انكى سعادت ۷; انكى كاميابى ۷; صدر اسلام كے مہاجرين كے فضائل

ہجرت :اس كى قدر و قيمت ۲،۴;اسكے اثرات۸

۵۶

آیت ۲۱

( يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ )

الله ان كو اپنى رحمت ،رضامندى اور باغات كى بشارت ديتا ہے جہان ان كے لئے دائمى نعمتيں ہوں گى _

ا_ راہ خدا ميں ہجرت و جہاد كا نتيجہ خدا تعالى كى بشارتوں كا حصول ہوتا ہے_

الذين آمنوا و هاجروا وجاهدوا فى سبيل الله يبشرهم ربهم

۲_ راہ خدا ميں ہجرت اور جہاد كرنے والوں پر خدا كى خاص رحمت كا نزول ہوتا ہے_

هاجروا و جاهدوا فى سبيل الله يبشرهم ربهم برحمة منه

كلمہ '' رحمة'' كو نكرہ لانا اس حقيقت كو بيان كرتا ہے كہ راہ خدا ميں ہجرت اور جہاد كرنے والے مومنين پر خدا تعالى كى خاص رحمت نازل ہوگي_

۳_ مقام رضوان (خدا تعالى كا انسان سے مكمل راضى ہونا ) كا مل جانا خدا تعالى كى طرف سے ہجرت اور جہاد كرنے والے مومنين كيلئے خاص عطيہ ہے_هاجروا و جهدوا فى سبيل الله يبشرهم ربهم و رضوان

۴_ رضوان الہى ( خدا كا راضى ہونا) سے بہرہ مندہونا ; ايمان ، ہجرت اور جہاد كى راہ پر چلنے كا نتيجہ ہے_

الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا يبشرهم ربهم برحمة و رضوان

۵_ ايمان اور راہ خدا ميں ہجرت اور جہاد كرنے كے ثمرات ميں سے بہشت كے متعدد باغات كا حصول ہے_

الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا فى سبيل الله يبشرهم ربهم و جنت

۶_ ہجرت اور جہاد كرنے والے مومنين كيلئے بہشت كے باغات كى نسبت خدا تعالى كى خاص رحمت اور رضوان بہت عظيم نعمت ہے_

۵۷

هاجروا و جاهدوا فى سبيل الله يبشرهم ربهم برحمة منه و رضوان و جنات

رحمت و رضوان كو جنات سے پہلے ذكر كرنا مندرجہ بالا مطلب پر دلالت كرتا ہے _

۷_ بہشت كے باغات ، خدا تعالى كى نعمتوں سے سرشار ہيں _جنات لهم فيها نعيم

نعيم كا معنى ہے كثير اور فراوان نعمت( مفردات راغب)

۸_ بہشت كے باغات كى يہ نعمتيں دائمى اور ناقابل زوال ہيں _جنات لهم فيها نعيم مقيم

۹_ رحمت، رضوان الہى اور دائمى نعمتوں سے سرشار بہشت كے باغات كا حصول انسان كى كاميابى كا ايك نمونہ ہے_

و اولئك هم الفائزون ۰ يبشرهم ربهم برحمة منه و رضوان و جنات لهم فيها نعيم مقيم

ايمان:اسكى جزا ۵;اسكے اثرات۴

بہشت :اسكے باغات ۸; اسكے باغوں كى قدر وقيمت ۶;بہشت جاودان ۹; بہشت حاصل كرنے كے اسباب ۵;بہشت كى نعمتوں كا دائمى ہونا ۸; بہشت كى نعمتوں كى خصوصيات ۸;بہشت كى نعمتيں ۷; بہشت كے باغوں كى خصوصيات ۷

جہاد:اسكى جزا۵;اسكے اثرات ا،۴

خدا تعالي:خدا كى بشارتيں ا; خدا كى خاص رحمت ۲،۳،۶; خدا كى رحمت ۹; خد ا كى رضا ۳،۹; خدا كى نعمتيں ۷; رضائے الہى كے عوامل۴

رحمت :اسكے مستحقين۲،۶

كاميابى :اسكى نشانياں ۹

مجاہدين :ان كا مقام۳،۶ ;ان كے فضائل ۲

مقام رضوان ،۳،۴اسكى قدر و قيمت ۶

مومنين :انكا مقام ۳،۶

مہاجرين :انكا مقام ۳،۴;ان كے فضائل۲

ہجرت :اسكى جزا۵;اسكے اثرات ا،۴

۵۸

آیت ۲۲

( خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً إِنَّ اللّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ )

وہ انھى باغات ميں ہميشہ رہيں گے كہ الله كے پاس عظيم ترين اجر ہے _

ا_ عالم آخرت ، جاوداں اور فنانہ ہونے والا ہے _و جنات لهم فيها نعيم مقيم خالدين فيها ابد

۲_ ہجرت اور جہاد كرنے والے مومنين كيلئے بہشت كى نعمتوں سے سرشار باغات ميں دائمى زندگى ہے_

الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا و جنات لهم فيها نعيم مقيم _ خا لدين فيها ابد

۳_ آخرت كى دائمى نعمتيں ، ہجرت اور جہاد كرنے والے مومنين كے عمل كا اجر اور بدلہ ہيں _

الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا جنات لهم خالدين فيها ابدا ان الله عنده اجر عظيم

اجر كا معنى ہے '' كا م كى اجرت''

۴_ ہجرت اور جہاد كرنے والے مومنين كيلئے خدا كى جزاعظيم جزا ہے_الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا ان الله عنده اجر عظيم

۵_ عظيم اجر اور پاداش صرف خدا تعالى كے يہاں ہے_ان الله عنده اجر عظيم

ہو سكتا ہے ''عندہ ''كا ''اجر عظيم ''پر مقدم كرنا حصركيلئے ہو_

۶_ ہجرت اور جہاد كرنے والے مومنين كيلئے خدا تعالى كى رحمت و رضوان اوربہشت كے علاوہ اسكے يہاں ايك اور خاص اور عظيم اجرہے_الذين آمنوا و هاجروا و جاهدوا و جنات ان الله عنده اجر عظيم

(ان الله عنده اجر عظيم ) كے جملہ كا ، كہ جس كا معنى عام اور كلى ہے; ہجرت اور جہاد كرنے والے مومنين كى گوناگون پاداش كے بعد ذكر كئے جانے سے مندرجہ بالا نكتہ حاصل كيا جاسكتا ہے_

آخرت :اس كا جاودان ہوناا; اسكى خصوصيات

۵۹

بہشتى لوگ ۲،۶

پاداش :پاداش كے مراتب۴،۵،۶;عظيم پاداش۴،۵،۶

حيات:حيات اخروى كا جاودان ہونا ۲; حيات جاودان كو پانے والے۲

خدا تعالي:خدا كى پاداش۴،۵،۶; خدا كى رضا ۶

رحمت :رحمت پانے والے ۶

عمل :اسكى پاداش ۳

مجاہدين :انكى پاداش ۳،۴،۶; ان كے فضائل۲

مقام رضوان :۶

مومنين :انكى پاداش ۳،۴،۶; ان كے فضائل ۲

مہاجرين :انكى پاداش ۳،۴،۶; ان كے فضائل ۲

نعمت :اخروى نعمتوں كا جاودان ہونا ۳; نعمت حاصل كرنے والے۲

آیت ۲۳

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ آبَاءكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاء إَنِ اسْتَحَبُّواْ الْكُفْرَ عَلَى الإِيمَانِ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ )

ايمان والو خبر دار اپنے باپ دادا اور بھائيوں كواپنا دوست نہ بناؤ اگر وہ ايمان كے مقابلہ ميں كفر كو دوست ركھتے ہوں اور جو شخص بھى ايسے لوگوں كو اپنا دوست بنائے گا وہ ظالموں ميں شمار ہوگا_

ا_ كفار اور دشمنان دين كے ساتھ دوستى حرام ہے_يا ايها الذين آمنوا لا تتخذوا اولياء ان

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۲۔ خداوند عالم نے سورۂ صافات میں فرمایا ہے :( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ) ہم نے دنیاوی آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی۔( ۱ )

سوال یہ ہے کہ اگر ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ تمام ستاروں کی منزل آسمان دنیا کے نیچے ہو جبکہ ماضی کے ستارہ شناس اور دانشوروں(نجومیوں) کا کہنا ہے : اکثر ستاروںکی منزل دنیاوی آسمان کے اوپر ہے ؛ ہمارے زمانے کے علمی نظریات اس سلسلہ میں کیاہیں؟ ان دونوں سوالوں کے جواب میں ہم بہ فضل الٰہی یہ کہتے ہیں:

۱۔ پہلے سوال کا جواب

خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء کو قرآن کریم کے ساتھ اس لئے بھیجا تاکہ تمام لوگوں کو مقرر کردہ آئین کے مطابق ہدایت کریں، جیسا کہ خود ہی فرماتا ہے :

الف:( قل یا ایها الناس انی رسول الله الیکم جمیعاً... )

کہو : اے لوگو! میں تم سب کی طرف خدا کا (بھیجا ہوا )رسول ہوں ...۔( ۲ )

ب:( واوحی الی هذا القرآن لانذر کم به و من بلغ... )

یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ تم کو اور ان تمام افراد کو جن تک یہ پیغام پہونچے ڈرائوں۔

اسی لئے قرآن کریم اپنے کلام میں تمام لوگوں کو (یا ایھا الناس) کا مخاطبقرار دیتا ہے اور چونکہ ہر صنف اور گروہ کے تمام لوگ مخاطب ہیں لہٰذا کلام تمام انسانوں کی فہم اور تقاضائے حال کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ ہر زمان و مکان کے اعتبار سے تمام لوگ سمجھیں، جیسا کہ مقام استدلال و اقامہ برہان میں خالق کی وحدانیت اور معبود کی یکتائی ( توحید الوہیت) کے موضوع پر فرماتا ہے :

کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق ہوا ہے ؟

آسمان کی طرف نگاہ نہیں اٹھاتے کہ کیسے بلند کیا گیا ہے ؟

پہاڑوں کی طر ف نہیں دیکھتے کہ کیسے استوار اور اپنی جگہ پر محکم اور قائم ہے ؟

زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح ہموار اور بچھائی گئی ہے ؟

____________________

(۱)صافات۶

(۲)اعراف۱۵۸

۸۱

لہٰذا یاد دلائو اس لئے کہ تم فقط یاد دلانے والے ہو، تم ان پر مسلط اور ان کومجبور کرنے والے نہیں ہو۔( ۱ )

توحید ربوبیت کے سلسلہ میں مقام استدلال واقامہ ٔبرہان میں فرماتا ہے :

جو پانی پیتے ہو کیا اس کی طرف غور و خوض کرتے ہو؟! کیا اسے تم نے بادل سے نازل کیا ہے یا ہم اسے نیچے بھیجتے ہیں؟! ہم جب چاہیں ہر خوشگوار پانی کو تلخ اور کڑوا بنا دیںلہٰذا کیوں شکر نہیں کرتے؟( ۲ ) ...اب اگر ایسا ہے تو اپنے عظیم پروردگار کی تسبیح کرو اور اسے منزہ جانو۔

اب اگر خدا وند عالم اس کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرتا اور مقام استدلال میں اربوں ستاروں اور کروڑوں آسمانی کہکشاؤں کے نظام حرکت و سکون کا تذکرہ کرتا، یا انسانون کی صرف آنکھ کو محور استدلال بناتا اور اس میں پوشیدہ لاکھوں باریک خطوط کا ذکر کرتا اور اس میں موجود خون کے سفید و سرخ ذرّات کے بارے میں کہتا،یا انسان کے مغزسراور اس کے لاکھوں پیچیدہ زاویوں سے پردہ اٹھاتا، یا اسباب قوت ہاضمہ یا انواع و اقسام کی بیماریوں اور اس کے علاج کا ذکر کرتا جیسا کہ بعض لوگ سوال کرتے ہیں:

کیوں خدا وند عالم نے جسم انسانی کہ جس کواس نے پیدا کیا ہے اس سے مربوط ہے علم و دانش کو قرآن میں کچھ نہیںبیان کیا؟آیااس طرح کے موارد قرآن میں نقص اور کمی کے مترادف نہیں ہیں؟

خدا کی پناہ ! آپ کیا فکر کرتے ہیں؟ اگر خصوصیات خلقت جن کا ذکر کیا گیا ،قرآن کریم میں بیان کی جائیں تو کون شخص ان کے کشف سے پہلے انہیں درک کر سکتا تھا؟ اور اگر انبیاء لوگوں سے مثلاً کہتے: جس زمین پر ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں وہ خورشیدکے ارد گرد چکر لگاتی ہے اور خورشید زمین سے ۲۳ ملین میل کے فاصلہ پر واقع ہے؛ یہ منظومہ شمسی راہ شیر نامی کہکشاں کے پہلو میں واقع ہے کہ اس کہکشاںمیں ۳۰ کروڑ ستارے ہیں اور ان ستاروں کی پشت پر سینکڑوں نامعلوم عوالم ہیں اور پیچیدہ گڑھے پائے جاتے ہیں وغیرہ۔

آپ کا کیا خیال ہے ؟ اگر امتیںاس طرح کی باتیں پیغمبروں سے سنتیں تو انبیاء کوکیا کہتیں؟ جبکہ وہ لوگ پیغمبروںکو صرف اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کو خدا کی توحید اور یکتا پرستی کی دعوت دیتے تھے، دیوانہ کہتے تھے جیساکہ خدا وند عالم ان کے بارے میں فرماتا ہے:

( کذبت قبلهم قوم نوح فکذبوا عبدنا و قالوا مجنون )

____________________

(۱)غاشیہ۱۷۔۲۲

(۲)واقعہ۷۰۔۶۸و۷۴

۸۲

۱۔اس سے پہلے قوم نوح نے ان کی تکذیب کی؛یہاں تک کہ ہمارے بندے نوح کو دروغگو سمجھااور دیوانہ کہا۔( ۱ )

۲۔( کذلک ماا تی الذین من قبلهم من رسولٍ اِلاقالوا ساحراومجنون )

اس طرح سے ان سے قبل کوئی پیغمبر کسی قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوا مگر یہ کہ انہوں نے اسے ساحر اور مجنون کہا۔( ۲ )

۳۔( ویقولون انه لمجنون )

وہ (کفار و مشرکین)کہتے ہیں وہ (خاتم الانبیائ) دیوانہ ہے۔( ۳ )

اب ان خیالات اور حالات کے باوجود جو گز شتہ امتوں کے تھے اگر اس طرح کی باتیں بھی پیغمبروں سے سنتے تو کیا کہتے ؟اصولی طور رپر لوگوںکی قرآن کے مخاطب لوگوںکی کتنی تعداد تھی کہ ان علمی حقائق کو سمجھ سکتی ، ایسے حقائق جن کو دانشوروں نے اب تک کشف کیا ہے اور اس کے بعد بھی کشف کریں گے کس طرح ان کے لئے قابل فہم اور درک ہوتے؟

اس کے علاوہ جن مسائل کو آج تک دانشوروں نے کشف کیا ہے کس حد تک علمی مجموعہ میں جگہ پاتے ہیں؟ جبکہ خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء پر قرآن اس لئے نازل کیا تاکہ یہ کتاب لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہو۔ اور لوگوںکو اس بات کی تعلیم دے کہ وہ کس طرح اپنے خدا کی بندگی کریں؛ اوراس کے اوامر اور نواہی کے پابند ہوں اور کس طرح دیگر لوگوں سے معاملہ کریں، نیز جن چیزوں کو خدا نے ان کے لئے خلق کیا ہے اور ان کا تابع بنا یا ہے کس طرح راہ سعادت اور کمال میں ان سے استفادہ کریں۔

خدا وند عالم نے قرآن کریم اس لئے نازل نہیں کیاکہ آب و ہوا، زمین ، حیوان اور نبات کی خصوصیات سے لوگوں کو آگاہ کرے بلکہ یہ موضوع انسانی عقل کے فرائض میں قرار دیا یعنی ایسی عقل جسے خدا وند عالم نے عطا کی ہے۔ تاکہ ان تمام چیزوں کی طرف بوقت ضرورت، مختلف حالات اور مسائل میں انسانوں کی ہدایت کرے۔

ایسی عقل کے باوجود جو انسان کو خدا نے بخشی ہے انسان اس بات کا محتاج نہیں تھا کہ خدا وند عالم قرآن کریم میں مثلاً ''ایٹم'' کے بارے میں تعلیم دے، بلکہ انسان کی واقعی ضرورت یہ ہے کہ خدا وند عالم اس طرح کی قوت سے استفادہ کرنے کے طور طریقے کی طرف متوجہ کرے تاکہ اسے کشف اور اس پر قابو پانے کے

____________________

(۱)قمر۹

(۲)ذاریات۵۲(۳)قلم۵۱

۸۳

بعداس کو انسانی فوائد کے لئے روبہ کار لائے ، نہ یہ کہ نوع بشر اور حیوانات کی ہلاکت اور نباتات کی نابودی کے لئے استعمال کرے۔

لہٰذا واقعی حکمت وہی ہے جو قرآن کریم نے ذکر کی ہے اور استدلال اور برہان کے موقع پر مخلوقات کی اقسام بیان کی ہے۔

البتہ یہ بات علمی حقائق کی جانب قرآن کریم کے اشارہ کرنے سے منافات نہیں رکھتی ہے ،وہ حقائق جو نزول قرآن کے بعد کشف ہوئے ہیں اور قرآن نے کشف سے پہلے ہی ان کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اس بات کی واضح اور بین دلیل ہیں کہ قرآن کریم خالق ہستی اور پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اور جس طرح خاتم الاوصیاء حضرت علی نے بیان کیا ہے کہ عجائب قرآن کی انتہا نہیں ہے ۔

یہ قرآ ن کے عجائب میں سے ہے کہ اس میں جہاں بھی مخلوقات کی خصوصیتیں بیان ہوئی ہیں وہ ان علمی حقائق سے کہ جو دانشوروں کے ذریعہ پوری تاریخ اور ہر زمانے میں کشف ہوئے ہیں، مخالف نہیں ہیں ۔

۲۔ د وسرے سوال کا جواب

بعض دانشور گروہ نے بعض ادوار میں قرآن کریم میں مذکور کچھ چیزوں کے بارے میں تاویل و توجیہ کی ہے اوران غلط و بے بنیاد نظریات سے جو ان کے زمانے میں علمی حقائق سمجھے جاتے تھے تطبیق دی ہے؛جیسے ہفت گانہ آسمانوں کی توجیہ ہفت گانہ افلاک سے کی ہے جو گز شتہ دانشوروں کے نزدیک مشہور نظر یہ تھا ، اور یہ ، بطلیموس جو تقریباً ۹۰ ء سے ۱۶۰ ء کے زمانے میں گز را ہے اس کے نظریہ کے مطابق ہے :

بطلیموس کا نظریہ

آسمان اور زمین گیند کی شکل کے ہیں کہ بعض ان میں سے پیازکے تہہ بہ تہہ چھلکوں کے مانندہیں ان کرّات کا مرکز زمین ہے کہ جس کا ۳۴ حصہ پانی سے تشکیل پایا ہے ، زمین کا بالائی حصہ ہو ا ہے اور اس کے اوپر آگ ہے ان چار عنصر پانی ، مٹی، ہوا اور آگ کو عناصر اربعہ کہتے ہیں، ان کے اوپر فلک قمر ہے، جو فلک اول ہے ۔ اس کے بعد فلک عطارد، پھر فلک زہرہ، پھر خورشید پھر مر یخ اس کے بعد مشتری اور اس کے بعد زحل ہے ان افلاک کے ستاروںکو سیارات سبعہ کہتے ہیں،فلک ثوابت کہ جن کو بروج کہتے ہیں وہ ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے بعد اطلس نامی فلک ہے جس میں کوئی ستارہ نہیں ہے ؛ ان دانشوروںنے ان ساتوں آسمانوںکی ہفت گانہ سیارات کے افلاک سے ،کرسی کی فلک بروج سے نیز عرش کی نویں فلک سے توجیہ و تاویل کی ہے ۔

۸۴

ان لوگوں نے اسی طرح قرآن و حدیث میں مذکور بعض اسلامی اصطلاحات کی بے بنیادفلسفیانہ نظریوں اور اپنے زمانے کے نجومی خیالوں سے توجیہ اور تاویل کی ہے اور چونکہ ان بعض نظریات میں ایسے مطالب پائے جاتے ہیں کہ جو قرآن کریم کی تصریح کے مخالف ہیں؛ انہوںنے کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کے نظریات کو ان نظریوں کے ساتھ جمع کر دیں، مرحوم مجلسی نے اس روش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

جان لو! کہ یہاں پر ایک مشہور اعتراض ہے اور وہ یہ ہے کہ: علم ہیئت کے تمام ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ آسمان اول پر چاند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے اور تمام گردش کرنے والے ستارے ایک فلک میں گردش کر رہے ہیں اور ثابت ستارے آٹھویں فلک پر ہیں، جبکہ قرآن کریم کی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سارے کے سارے یا اکثر ،آسمان دنیا پر پائے جاتے ہیں( ۱ ) ، اس کے بعد وہ دئے گئے جواب کو ذکر کرتے ہیں۔

اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ آیت اور اس کی تفسیر یکے بعد دیگرے ذکر کی جائے گی لہٰذا مرحوم مجلسی کی نقل کردہ دلیلوں سے یہاں پر صرف نظر کرتے ہیں۔ اور صرف اس زمانے کے عظیم فلسفی میرباقر داماد کی بات کو حدیث کی تاویل کے ضمن میں ذکر کررہے ہیں۔

ایک غیر صحیح تاویل اور بیان

سید داماد(میر باقر داماد) ''من لا یحضرہ الفقیہ'' کے بعض تعلیقات میں لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: عرش وہی فلک الافلاک ہے اور جو امام نے اسے مربع (چوکور) جانا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فلک کی دورانی حرکت کی وجہ سے اس میں ایک کمر بند اور دو قطب پید اہوتے ہیں؛ اور ہر بڑا دائرہ جو کرہ کے اردگرد کھینچا جاتا ہے اس کرہ کو نصف کر دیتا ہے اور فلک بھی کمر بندی اور دائرہ ای حرکت کی وجہ سے جوا ن دو قطب سے گزرتا ہے چار حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔ اور عرش جو کہ دور ترین فلک ہے اور کرسی جو کہ ثابت ستاروں کا فلک ہے یہ دونوں بھی نصف النہار ،منطقة البروج اور قطبوں سے گزرتا ہے ، چار حصوں میں تقسیم ہوجاتے

ہیں اور دائرہ افق جو فلک اعلی کی سطح پر ہے نصف النہار اور مشرق و مغرب کے دائرہ کی وجہ سے چار حصوں میں

____________________

(۱) ولقد زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ، صافات ۶.

۸۵

تقسیم ہوتا ہے اور اس کا ہر حصہ اس مجموعہ میں اس طرح واقع ہوتا ہے کہ چہار گانہ جہتوں( جنوب و شمال ، مشرق و مغرب) کو معین کر دیتا ہے ۔ فلسفیوں نے فلک کو انسان کے مانند فرض کیا ہے جو اپنی پشت کے بل سویا ہوا ہے اس کا سر شمال کی طرف، پائوں جنوب کی طرف داہنا ہاتھ مغرب اور بایاں ہاتھ مشرق کی طرف نیز تربیع اور تسدیس دائرہ کی ابتدائی شکلیں ہیںجو اپنی جگہ پر بیان کی گئی ہیںکہ تربیع ان دو قطروں سے جو خود ایک دوسرے پرقائم ہیں اور ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیںحاصل ہوتی ہے اور تسدیس نصف قطر سے، اس لئے کہ۶۱ ،کا نصف قطرکے برابر ہے اور ۴۱ دور ایک مکمل قوس ہے اور جتنا ۴۱سے کم ہوگا تو باقی بچا ہوا ۴۱ کی حد تک پہنچنے تک اس کا کامل اور پورے ہونے کا باعث بنے گا۔

اور فلک اقصیٰ( آخری فلک) مادہ ، صورت اور عقل کا حامل ہے کہ وہی عقل اول ہے اور اسے عقل کل بھی کہاجاتا ہے اور نفس کا حامل ہے کہ وہی نفس اول ہے اور اسے نفس کل بھی کہتے ہیں او ریہ نفس،مربع ہے جو نظام ہستی کے مربعات میں سب سے پہلا مربع ہے ۔

یہاں پر دوسری جہتیںبھی پائی جاتی ہے جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے اور جو چاہتا ہے کہ اسے سمجھے وہ مزید کوشش کرے؛ مرحوم مجلسی کہتے ہیں کہ ان توجیہات کا قوانین شرع اور اہل اسلام کی اصطلاحوں سے موافق نہ ہونا پوشیدہ نہیں ہے ۔( ۱ )

اس کے علاوہ بعض دانشوروںنے قرآن کریم کی تفسیر اسرائیلیات سے کی ہے، بعض لوگوں نے

ان جھوٹی روایات سے جن کی نسبت پیغمبر کی طرف دی گئی ہے بغیر تحقیق و بررسی کے قرآن کی تفسیر کی ہے ؛اور یہی چیز باعث بنی کہ قرآن اور اسلامی اصطلاحات و الفاظ کا سمجھناقرآن و حدیث کی تلاوت کرنے والوں پر پوشیدہ اور مشتبہ ہو گیا ہے ہم نے بعض ان غلط فہمیوں کو کتاب ''قرآن کریم اوردو مکتب کی روایات '' میں ''قرآن رسول کے زمانے میں اور اس کے بعد '' کے حصہ میں ذکر کیا ہے ۔

بحث کا خلاصہ

اول: سماء : آسمان ، لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جو تمہیںاوپر سے ڈھانپ لے اور ہر چیز کا آسمان اس

کا اوپری حصہ اوراس کی چھت ہے اور قرآن کریم میں جہاں یہ لفظ مفرد استعمال ہوا ہے تو کبھی تو اس کے معنی

____________________

(۱) بحار : ۵۸ ۵۔ ۶.

۸۶

اس زمین کے ارد گرد فضا کے ہیں جیسے :

۱۔( الم یروا الیٰ الطیر مسخرات فی جو السمائ )

کیا انہوں نے فضا میں مسخر پرندوں کو نہیں دیکھا؟!( ۱ )

۲۔( و انزل من السماء مائً ) اس نے آسمان (فضا)سے پانی نازل کیا۔( ۲ )

اور کبھی اس سے مراد ستارے اور بالائی سات آسمان ہیں ، جیسے:

( ثم استویٰ الیٰ السماء فسواهن سبع سمٰوات )

پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اورترتیب سے سات آسمان بنا ئے۔( ۳ )

اور جہاں پر لفظ سماء جمع استعمال ہوا ہے اس سے مراد ساتوں آسمان ہیں جیسا کہ گز شتہ آیت میں ذکر ہوا ہے ۔

دوسرے: آغاز خلقت: خدا وند عالم خود خبر دیتا ہے کہ آسمان اور زمین کی خلقت سے پہلے پانی کی تخلیق کی اور گز شتہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے زمین کو اسی پانی سے خلق کیا ہے اور آسمان کو اس زمین کے پانی اور اس کی بھاپ سے خلق کیا ہے ۔ اور زمین و آسمان کے تخلیقی مراحل اور اس میں موجود بعض موجودات جس کے ضمن میں انسان کی ضروریات زندگی بھی شامل ہیںچھ دور میں کامل ہوئے ہیں؛ اور خداوند عالم نے تمام نورانی ستاروں کو آسمان دنیا کے نیچے قرار دیا ہے اور جو اخبار خلقت سے متعلق خدا وند عالم نے ہمیں دئے ہیں اتنے ہیں کہ لوگوں کی ہدایت کی لئے ضروری ہیں اور عقل انسانی اس سے زیادہ ابتدائے خلقت سے متعلق مسائل اور کہکشائوں اور سیاروں کی حقیقت کو درک نہیں کر سکتی ہے۔

بعض دانشوروںنے خود کو زحمت میں مبتلا کیا ہے اور قرآن میں آسمان اور ستاروں کی توصیف کے سلسلہ میں اپنے زمانے میں معلوم مسائل سے ان کو علمی تصور کرتے ہوئے توجیہ و تاویل کی ہے ؛ جیسے آسمانوںکے معنی کی تاویل ہفت گانہ آسمان سے کہ اسے قطعی اور یقینی مسائل خیال کرتے تھے، لیکن آج اس کا باطل ہونا واضح اور آشکار ہے ۔

اسی طرح بعض آیتوں کی اسرائیلی روایتوں سے تفسیر کی ہے ایسی رو ش اس وقت بھی مسلمانوں میں رائج ہے اور اس سے اسلامی معاشرے میں غلط نظریئے ظاہر ہوئے کہ ان میں سے بعض کی آئندہ بحثوں میں خدا وند عالم کی تائید سے تحقیق و بررسی کریں گے۔

____________________

(۱)نحل۷۹(۲)بقرہ۲۲(۳)بقرہ۲۹

۸۷

۳۔ چوپائے اور چلنے والی مخلوق

خدا وند عالم ان کی خلقت کے بارے میں فرماتا ہے :

۱۔( والله خلق کل دابة من ماء فمنهم من یمشی علیٰ بطنه و منهم من یمشی علیٰ رجلین و منهم من یمشی علیٰ اربع یخلق الله ما یشاء ان الله علیٰ کل شیء قدیر )

خدا وند عالم نے چلنے والی ہرمخلوق کو پانی سے خلق کیاہے ان میں سے بعض پیٹ کے بل چلتی ہیں اور کچھ دو پیر وںسے چلتی ہیں اورکچھ چار پیروں پر چلتی ہے ، خدا جو چاہتا ہے خلق کرتا ہے ، کیونکہ خدا وند عالم ہر چیز پر قادر اور توانا ہے ۔( ۱ )

۲۔( وما من دابةٍ فی الارض ولا طائرٍ یطیر بجناحیه الا امم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیء ثم الیٰ ربهم یحشرون )

زمین پر چلنے والی ہر مخلوق اور پرندہ جو اپنے دو پروں کے سہارے اڑتا ہے سبھی تمہاری جیسی امت ہیںہم نے اس کتاب میں کچھ بھی فروگز اشت نہیں کیا ہے، پھر سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف محشور ہوں گے۔( ۲ )

۳۔( ولِلّٰه یسجد ما فی السمٰوات وما فی الارض من دابة )

زمین و آسمان میں جتنے بھی چلنے والے ہیں خدا وند عالم کا سجدہ کرتے ہیں۔( ۳ )

کلمہ کی تشریح:

دابة: جنبندہ، صنف حیوانات میں ہر اس حیوان کو کہتے ہیں جو سکون و اطمینان کے ساتھ راہ چلتا ہے

____________________

(۱)نور۴۵

(۲)انعام۳۸

(۳)نحل۴۹

۸۸

اور قرآن کریم میں دابة سے مراد روئے زمین پر موجود تمام جاندار(ذی حیات)ہیں۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے خلق کیا ہے، زمین میں کوئی زندہ موجود اور ہوا میں کوئیپرندہ ایسا نہیں ہے جس کا گروہ اور جرگہ آدمیوںکے مانند نہ ہو، چیونٹی خود ایک امت ہے اپنے نظام زندگی کے ساتھ، جس طرح انسان ایک نظام حیات اور پروگرام کے تحت زندگی گز ارتا ہے ، اسی طرح پانی میں مچھلی اور زمین پر رینگنے والے اور اس کے اندر موجود حشرات ،کیڑے مکوڑے اور دوسرے جانورہیں انسانوں ہی کی طرح سب، امتیں ہیں کہ ہر ایک اپنے لئے ایک مخصوص نظام حیات کی مالک ہے ہم خداوندعالم کی تائید اور توفیق کے سہارے ''ہدایت رب العالمین'' کی بحث میں اس طرح کی ہدایت کی کیفیت کو کہ اس نے تمام چلنے والی ( ذی روح )امتوں کے لئے ایک خاص نظام حیات معین فرمایا ہے؛ پیش کریں گے۔

۸۹

۴۔ جن اور شیاطین

الف۔ جن ّو جانّ

جِنّ:. مستور اور پوشیدہ''جَنَّ الشیء یا جَنَّ عَلیَ الشیئِ'' ، یعنی اسے ڈھانپ دیا، چھپا دیا، پوشیدہ کر دیا، جیسا کہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

( فلما جن علیه اللیل ) جب اسے شب کے پردے نے ڈھانپ لیا۔( ۱ )

لہٰذا جن ّو جانّ دونوں ہی درج ذیل تشریح کے لحاظ سے ناقابل دید اور پوشیدہ مخلوق ہیں۔

۱۔( وخلق الجان من مارج من نار )

جن کو آگ کے مخلوط اور متحرک شعلوں سے خلق کیا۔( ۲ )

۲۔( والجان خلقناه من قبل من نارالسموم )

اور ہم نے جن کو انسان سے پہلے گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے خلق کیا۔( ۳ )

ب۔ اس سلسلے میں کہ یہ لوگ انسانوں کی طرح امتیں ہیں خدا وند عالم فرماتا ہے :

( فی اممٍ قد خلت من قبلهم من الجن والأِنس )

وہ لوگ ( جنات) اپنے سے پہلے جن و انس کی گمراہ امتوں کی سر نوشت اور ان کے انجام سے دوچار ہوگئے۔( ۴ )

ج۔ سلیمان نبی نے انہیں اپنی خدمت گزاری کے لئے مامور کیا ہے، اس سلسلے میں فرماتا ہے :

( و من الجن من یعمل بین یدیه باِذن ربه و من یزغ منهم عن امرنا نذقه من

____________________

(۱)انعام ۷۶

(۲) الرحمن ۱۵

(۳) حجر ۲۷

(۴)فصلت۲۵

۹۰

عذاب السعیر یعملون له ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیاتٍ )

جنوں کا بعض گروہ سلیمان کے سامنے ان کے پروردگار کی اجازت سے کام کرتا تھا؛ اور ان میں سے جوبھیہمارے حکم کے برخلاف کرے گا ، اسے جھلسا دینے والی آگ کا مزہ چکھا ئیں گے؛ وہ لوگ سلیمان کے تابع فرمان تھے اور وہ جو چاہتے تھے وہ بناتے تھے جیسے ، عبادت خانے ، مجسمے ، کھانے کے بڑے بڑے ظروف جیسیحوض اور غیر منقول( اپنی جگہ سے منتقل نہ ہو نے والی) دیگیں وغیرہ۔( ۱ )

د۔ سلیمان کے لشکر میں جن بھی شامل تھے اس سلسلے میں فرماتا ہے کہ وہ ایسے تھے کہ فلسطین اور یمن کے درمیان کے فاصلہ کوسلیمان نبی کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی طے کر کے واپس آجایا کرتے تھے۔

خدا واند عالم ان میں سے ایک کی سلیمان سے گفتگو کی یوں حکایت کرتا ہے :

( قال عفریت من الجن انا آتیک به قبل ان تقوم من مقامک و انی علیه لقوی امین )

جنوں میں سے ایک عفریت (دیو)نے کہا: میں اس تخت کوآپ کے پاس،آپ کے اٹھنے سے پہلے حاضر کر دوں گا اور میں اس کام کے لئے قوی اورامینہوں۔( ۲ )

ھ ۔ جن غیب سے بے خبر اور ناآگاہ ہیں اس بابت فرماتا ہے۔

( فلما قضینا علیه الموت مادلهم علیٰ موته الا دابة الارض تاکلمنسأته فلما خرَّ تبینت الجن ان لوکانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المهین )

جب ہم نے سلیمان کو موت دی تو کسی نے ان کو مرنے کی خبر نہیں دی سوائے دیمک کے اس نے سلیمان نبی کے عصا کو کھا لیااور وہ ٹوٹ کر زمین پر گرگیا۔ لہٰذا جب زمین پر گر گئے تو جنوں نے سمجھا کہ اگر غیب کی خبر رکھتے تو ذلت و خواری کے عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔( ۳ )

و ۔ اورحضرت خاتم الانبیاء کی بعثت سے پہلے ان کے عقائد اور کردار کو انہیں کی زبانی بیان فرماتا ہے :

۱۔( و انه کان یقول سفیهنا علٰی الله شططاً )

اور ہمارا احمق ( ابلیس) خدا وند عالم کے بارے میں ناروا باتیں کہتاتھا۔( ۴ )

۲۔( و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احداً )

____________________

(۱)سبا۱۲۔۱۳(۲)سورہ ٔ نمل : ۳۹.(۳)سبا۱۴(۴)جن۴

۹۱

بیشک ان لوگوں نے ویسے ہی خیال کیاجیسے تم خیال کرتے ہوکہ خدا وند عالم کسی کو مبعوث نہیں کرے گا۔( ۱ )

۳۔( وانه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقاً )

یقینا بعض انسانوںنے بعض جنوں کی پناہ چاہی اور وہ لوگ ان کی گمراہی اور طغیانی میں اضافہ کا باعث بنے۔( ۲ )

ز۔ خاتم الانبیا کی بعثت کے بعد ان کی سرقت سماعت( چوری چھپے بات اچکنے ) کے بارے میں خود انہیں کی زبانی فرماتا ہے :

۱۔( وانا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهباً )

اور ہم نے آسمان کی جستجو کی؛ تو سبھی کو قوی الجثہ محافظوں اور شہاب کے تیروں سے لبریز پایا۔( ۳ )

۲۔( واِنا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجد له شهاباً رصداً )

اور ہم اس سے پہلے خبریں چرانے کے لئے آسمانوں پربیٹھ جاتے تھے، لیکن اس وقت اگر کوئی بات چرانے کی کوشش کرتاہے تو وہ ایک شہاب کو اپنے کمین میں پاتاہے۔( ۴ )

ح۔ جنوںکے اسلام لانے کے بارے میں فرماتا ہے : ان لوگوںنے کہا:

۱۔( و انا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قدداً )

اور ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح افراد ہیں؛ اور ہم مختلف گروہ ہیں۔( ۵ )

۲۔( و انا منا المسلمون و منا القاسطون فمن اسلم فاُولائک تحروا رشداً )

ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہے اوربعض ظالم ؛ جو اسلام قبول کرے وہ راہ راست کا سالک ہے۔( ۶ )

ب۔ شیطان

شیطان، انسان جنات اور حیوانات میں سے ہر سرکش، طاغی اور متکبر کو کہتے ہیں۔

خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

۱۔( ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زیناها للناظرین٭ و حفظناها من کل شیطان

____________________

(۱)جن۳(۲)جن۶(۳)جن ۸(۴)جن۹(۵)جن۱۱(۶)جن۱۴

۹۲

رجیم٭ الا من استرق السمع فاتبعه شهاب مبین)

اور ہم نے آسمان میں برج قرار دئیے اور اسے دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا اور اسے ہر شیطان رجیم اور راندہ درگاہ سے محفوظ کیا؛ سوائے ان کے جواستراق سمع کرتے ہیں او رچوری چھپے باتوں کو سنتے ہیں تو شہاب مبین ان کا پیچھا کرتا ہے اور بھگاتا ہے ۔( ۱ )

۲۔( انا زیّنا السماء الدنیا بزینة الکواکب٭ و حفظاً من کل شیطانٍ مارد ٭لا یسمعون الیٰ الملاء الأَعلیٰ و یقذفون من کل جانبٍ٭ دحوراً ولهم عذاب واصب٭ الا من خطف الخطفة فاتبعه شهاب ثاقب )

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی تاکہ اسے ہرطرح کے شیطان رجیم سے محفوظ رکھیں وہ لوگ ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے حملہ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ شدت کے ساتھ الٹے پائوں بھگا دئے جاتے ہیں اور ان کیلئے ایک دائمی عذاب ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایک لحظہ اور آن کے لئے استراق سمع کے لئے آسمان سے نزدیک ہو تے ہیں تو شہاب ثاقب ان کا پیچھا کرتا ہے۔( ۲ )

۳۔( ولقد زیّنا السماء الدنیا بمصابیح و جعلنا ها رجوماً للشیاطین واعتدنا لهم عذاب السعیر ) ( ۳ )

ہم نے آسمان دنیا کو روشن چراغوں سے زینت بخشی اور انہیں شیاطین کو دور کرنے کا تیر قرار دیا اور ان کے لئے ڈھیروں عذاب فراہم کئے۔

۴۔( وکذلک جعلنا لکل نبی عدواً شیاطین الانس و الجن یوحی بعضهم الیٰ بعض زحزف القول غروراً ولو شاء ربک ما فعلوه فذرهم وما یفترون٭و لتصغیٰ الیه افئدة الذین لا یؤمنون بالآخرة و لیرضوه ولیقترفوا ما هم مقترفون )

اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے شیاطین جن و انس میں سے دشمن قرار دیا، وہ لوگ خفیہ طور پر فریب آمیز اور بے بنیاد باتیں ایک دوسرے سے کہتے ہیں تاکہ لوگوں کو فریب دیں اور اگر پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہیں کرتے؛لہٰذا انہیں ان کی تہمتوں کے ساتھ ان کے حال پر چھوڑ دو! نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت سے انکار کرنے والوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں گے اور ان سے راضی ہو جائیں گے؛اور جو چاہیںگے گناہ انجام دیں گے۔( ۴ )

____________________

(۱)حجر۱۶۔۸(۲)صافات۶۔۱۰(۳)ملک۵(۴)انعام۱۱۲۔۱۱۳

۹۳

۵۔( انا جعلنا الشیاطین اَولیاء للذین لا یؤمنون )

ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست قرار دیا ہے جو بے ایمان ہیں۔( ۱ )

۶۔( ان المبذرین کانوا اِخوان الشیاطین و کان الشیطان لربه کفوراً )

اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان خدا وند عالم کابہت ناشکرا ہے۔( ۲ )

۷۔( ولا تتبعوا خطوات الشیطان انه لکم عدو مبین، انما یامرکم بالسوء و الفحشاء و ان تقولوا علٰی الله ما لا تعلمون )

شیطان کا اتباع نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ، وہ تمہیںصرف فحشا ء اور منکرات کا حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ جس کو تم نہیں جانتے ہو خدا کے بارے میں کہو۔( ۳ )

۸۔( الشیطان یعدکم الفقر و یامرکم بالفحشاء والله یعدکم مغفرة منه و فضلاً و الله واسع علیم )

شیطان تمہیں فقر اور تنگدستی کا وعدہ دیتا ہے اور فحشاء کا حکم دیتا ہے لیکن خدا تمہیں بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے، یقینا خدا صاحب وسعت و علم ہے ۔( ۴ )

۹۔( و من یتخذ الشیطان ولیاً من دون الله فقد خسر خسراناً مبینا٭ یعدهم و یمنیهم وما یعدهم الشیطان الا غروراً )

جو بھی خد اکے بجائے شیطان کو اپنا ولی قرار دیتا ہے ، تووہ کھلے ہوئے (سراسر) گھاٹے میں ہے، وہ انہیںوعدہ دلاتا اور آرزو مندبناتاہے جبکہ اس کا وعدہ فریب اور دھوکہ دھڑی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔( ۵ )

۱۰۔( انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوة و البغضاء فی الخمر و المیسر و یصدکم عن ذکر الله وعن الصلوة فهل انتم منتهون )

شیطان تمہارے درمیان شراب، قمار بازی کے ذریعہ صرفبغض و عداوت ایجاد کرنا چاہتا ہے اور ذکر خدا اور نماز سے روکنا چاہتا ہے ، آیا تم لورک جاؤ گے؟( ۶ )

۱۱۔( یا بنی آدم لایفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنة ینزع عنهما لبا سهما

____________________

(۱)اعراف۲۷(۲)اسرائ۲۷(۳)بقرہ۱۶۸۔۱۶۹(۴)بقرہ ۲۶۸.(۵)نسائ۱۱۹۔۱۲۰(۶)مائدہ۹۱

۹۴

لیریهما سوء اتهما انه یراکم هو وقبیله من حیث لا ترونهم) ( ۱ )

اے آدم کے فرزندو! شیطان تمہیں دھوکہ نہ دے ، جس طرح تمہارے والدین کو جنت سے باہر نکالا اور ان کے جسم سے لباس اتروا دیا تاکہ ان کی شرمگاہ کوانہیں دکھلائے ، کیونکہ وہ اور اس کے ہمنوا ایسی جگہ سے تمہیں دیکھتے ہیں اس طرح کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔

ج۔ ابلیس

الف۔ ابلیس لغت میں اس شخص کے معنی میں ہے جو حزن و ملال، غم و اندوہ، حیرت اور ناامیدی کی وجہ سے خاموشی پر مجبور؛ اور دلیل و برہان سے عاجز ہو۔

خدا وند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :

( ویوم تقوم الساعة یبلس المجرمون )

جب قیامت آئے گی تو گناہگار اور مجرم افراد غم و اندوہ ، یاس اور نامیدی کے دریا میں ڈوب جائیں گے۔( ۲ )

ب۔ قرآن کریم میں ابلیس اس بڑے شیطان کا'' اسم علم'' ہے جس نے تکبر کیا اور سجدہ آدم سے سرپیچی کی؛ قرآن کریم میں لفظ شیطان جہاں بھی مفرد اور الف و لام کے ساتھ استعمال ہوا ہے اس سے مراد یہی ابلیس ہے ۔

ابلیس کی داستان اسی نام سے قرآن کریم کی درج ذیل آیات میں ذکر ہوئی ہے:

۱۔( اِذ قلنا للملائکة اسجدو لآدم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه افتتخذونه و ذریته اولیاء من دونی و هم لکم عدوبئس للظالمین بدلاً )

جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کا سجدہ کرو! تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جوقوم جن سے تھا اور حکم الٰہی سے خارج ہو گیا ! آیا اسے اور اس کی اولاد کو میری جگہ پر اپنے اولیاء منتخب کرتے ہو جب کہ وہ لوگ تمہارے دشمن ہیں؟ ستمگروں کے لئے کتنا برابدل ہے ۔( ۳ )

۲۔( ولقد صدق علیهم ابلیس ظنه فأتبعوه الا فریقاً من المؤمنین وما کان له علیهم من

____________________

(۱)اعراف۲۷(۲)روم۱۲(۳)کہف۵۰

۹۵

سلطانٍ...)

یقینا ابلیس نے اپنے گمان کو ان کے لئے سچ کر دکھایا اور سب نے اس کی پیروی کی سواء کچھ مومنین کے کیونکہ وہ ان پر ذرہ برابر بھی تسلط نہیں رکھتا۔( ۱ )

اس کی داستان دوسری آیات میں شیطان کے نام سے اس طرح ہے :

۱۔( فوسوس لهما الشیطان لیبدی لهما ما ووری عنهما من سوأتهما...و ناداهما ربهما الم انهکما عن تلکما الشجرة واقل لکما ان الشیطان لکما عدو مبین )

پھر شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا تاکہ ان کے جسم سے جو کچھ پوشیدہ تھا ظاہر کرے اور ان کے رب نے انہیں آواز دی کہ کیا تمہیں میں نے اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟! اور میں نے نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ؟!( ۲ )

۲۔( الم اعهد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انه لکم عدو مبین )

اے آدم کے فرزندو! کیا میں نے تم سے عہد نہیںلیا کہ تم لوگ شیطان کی پیروی نہ کروکیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے؟!( ۳ )

۳۔( ان الشیطان لکم عدو فاتخذوه عدواً انما یدعوا حزبه لیکونوا من اصحاب السعیر ) ( ۴ )

یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے لہٰذا اسے دشمن سمجھو وہ صرف اپنے گروہ کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اہل نار ہوں!

کلموںکی تشریح

۱۔ مارج: مرج مخلو ط ہونے کے معنی میں ہے اور مارج اس شعلہ کو کہتے ہیں جو سیاہی آتش سے مخلوط ہو۔

۲۔ سموم: دو پہر کی نہایت گرم ہوا کو کہتے ہیں، اس وجہ سے کہ زہر کے مانند جسم کے سوراخوں کے اندر اثر کرتی ہے ۔

۳۔ یزغ : منحرف ہوتا ہے ،و من یزغ منهم عن امرنا ، یعنی تمام ایسے لوگ جو راہ خدا سے

____________________

(۱)سبا۲۰۔۲۱

(۲)اعراف۲۰۔۲۲

(۳)یس۶۰

(۴)فاطر ۶.

۹۶

منحرف ہوتے ہیں۔

۴۔ محاریب: جمع محراب، صدر مجلس یا اس کی بہترین جگہ کے میں ہے یعنی ایسی جگہ جو بادشاہ کو دوسرے افراد سے ممتاز کرتی ہے وہ حجرہ جو عبادت گاہ کے سامنے ہوتا ہے ، یاوہ مسجدیںجہاں عبادت ہوتی ہے ۔

۵۔ جفان : جفنہ کی جمع ہے ،کھانا کھانے کا ظرف اور برتن۔

۶۔ جواب:کھانا کھانے کے بڑے بڑے ظروف کو کہتے ہیں جو وسعت اور بزرگی کے لحاظ سے حوض کے مانند ہوں۔

۷۔ راسیات:راسیہ کی جمع ہے ثابت اور پایدار چیز کو کہتے ہیں۔

۸۔ عفریت: (دیو)جنوںمیں سب سے مضبوط اور خبیث جن کو کہتے ہیں۔

۹۔ رصد : گھات میں بیٹھنا، مراقبت کرنا، راصد و رصد یعنی پاسدار و نگہبان ''رصدا'' آیت میں کمین کے عنوان سے محافظ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

۱۰۔ طرائق: طریقہ کی جمع ہے یعنی راہ، روش اور حالت خواہ اچھی ہو یا بری۔

قدداً: قدة کی جمع ہے جو ایسے گروہ اور جماعت کے معنی میں ہے جس کے خیالات جدا جدا ہوں اور طرائق قدداً یعنی ایسی پارٹی اور گروہ جس کے نظریات الگ الگ ہوں اور سلیقے فرق کرتے ہوں۔

۱۱۔ قاسطون:قاسط کی جمع ہے اور ظالم کے معنی میں ہے ، قاسطان جن ،ان ستمگروں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ہے ۔

۱۲۔ رشد: درستگی اورپائداری ؛ضلالت و گمراہی سے دوری۔

۱۳۔سفیہ: جو دین کے اعتبار سے جاہل ہو؛ یابے وقوف اوربے عقل ہو۔

۱۴۔ شطط: افراط اور زیادہ روی؛ حق سے دوررہ کر افراط اور زیادہ روی کو کہتے ہیں۔( وقلنا علیٰ الله شططاً ) یعنی حق سے دور باتوں کے کہنے اور خدا کی طرف ظالمانہ نسبت کے دینے میں ہم نے افراط سے کام لیا۔

۱۵۔ یعو ذون:پناہ مانگتے ہیں، یعوذبہ ، اس کی پناہ چاہتے ہیں اور خود کو اس سے منسلک کرتے ہیں۔

۱۶۔ رھقاً:طغیاناً و سفھاً ''زادوھم رھقا''یعنی ان کی سرکشی ، بیوقوفی اورذلت و خواری میں اضافہ ہوا۔

۱۷۔ دابةالارض:زمین پر چلنے والی شۓ ، دابة تمام ذی روح کا نام ہے خواہ نر ہوں یا مادہ، عاقل ہوں یا غیر عاقل لیکن زیادہ تر غیر عاقل ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہاں پر ''دابة الارض'' سے مراددیمک ہے جو لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔

۹۷

۱۸۔ منساتہ:اس کا عصا، عرب جس لکڑی سے جانوروںکو ہنکاتے ہیں اس کو منساة کہتے ہیں۔

۱۹۔ غیب:غیر محسوس، یعنی ایسی چیز جو حواس کے ذریعہ قابل درک نہ ہو اور حس کی دسترس سے باہر ہو یا پوشیدہ ہو؛ جیسے : خدا وند خالق اور پروردگار کہ جس تک انسان اپنی عقل اور تدبیرکے سہارے اسباب و مسببات میں غور و فکر کر کے پہنچتا ہے اور اسے پہچانتا ہے نہ کہ حواس کے ذریعہ اس لئے کہ نگاہیں اسے دیکھ نہیں سکتیں اس کی بے مثال ذات حس کی دسترس سے باہر اور حواس اس کے درک سے عاجز اور بے بس ہیں، نیز جو چیزیں پوشیدہ اور مستور ہیں جیسے وہ حوادث جو آئندہ وجود میں آئیں گے یا ابھی بھی ہیں لیکن ہم سے پوشیدہ ہیں اور ہمارے حواس سے دور ہیں، یا جو کچھ انبیاء کی خبروں سے ہم تک پہنچا ہے ،یہ دونوں قسمیں یعنی : وہ غیب جس تک رسائی ممکن نہیں ہے اور حواس کے دائرہ سے باہر ہیں،یاوہ غیب جوزمان اور مکان کے اعتبار سے پوشیدہ ہے یا وہ خبریں جو دورو دراز کے لوگوں سے ہم تک پہنچتی ہیں ساری کی ساری ہم سے غائب اور پوشیدہ ہیں۔

۲۰۔ رجوم: رجم اور رُجْم کی جمع ہے یعنی بھگانے اور دور کرنے کا ذریعہ

۲۱۔زخرف:زینت، زخرف القول: باتوںکو جھوٹ سے سجانا اور آراستہ کرنا۔

۲۲۔ یوحی : یوسوس، ایحاء یہاں پر وسوسہ کرنے کے معنی میں استعمال ہواہے ۔

۲۳۔ غرور: باطل راستہ سے دھوکہ میں ڈالنا اور غلط خواہش پیدا کرنا۔

۲۴۔ یقترف ومقترفون: یقترف الحسنة او السیئة، یعنی حاصل کرتا ہے نیکی یا برائی، مقترف ، یعنی : کسب کرنے اور عمل کرنے والا۔

۲۵۔مبذرین : برباد کرنے والے ، یعنی جو لوگ اپنے مال کو اسراف کے ساتھ عیش و عشرت میں صرف کرتے ہیں۔ اور اسے اس کے مصرف کے علاوہ میں خرچ کرتے ہیں۔

۲۶۔ خطوات الشیطان: شیطان کے قدم، خطوہ یعنی ایک قدم،( ولا تتبعوا خطوات الشیطان ) یعنی شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اور اس کے وسوسوں کی جانب توجہ نہ کرو۔

۲۷۔ فحشائ:زشت اور بری رفتار و گفتار اور اسلامی اصطلاح میں نہایت برے گناہوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

۲۸۔ مَیْسِر:قمار ( جوا) زمانہ جاہلیت میں عربوں کا قمار''ازلام'' اور ''قداح''کے ذریعہ تھا۔

۹۸

ازلام : زَلَم کی جمع، تیر کے مانند لکڑی کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر لکھتے تھے: میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے اور دوسرے پر لکھتے تھے کہ میرے پروردگار نے نہی کی ہے اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور ایک ظرف میں ڈال دیتے تھے اگر امر و نہی میں سے کوئی ایک باہرآتا تھا تو اس پر عمل کرتے تھے۔ اوراگر غیر مکتوب نکلتا تھا تو دوبارہ تیروں کو ظرف میں ڈال کر تکرار کرتے تھے، ازلام کو قریش ایام جاہلیت میں کعبہ میں قرار دیتے تھے تاکہ خدام اور مجاورین قرعہ کشی کا فریضہ انجام دیں۔

قِداح: قدح کی جمع ہے لکڑی کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو طول میں دس سے ۱۵ سینٹی میٹر اور عرض میں کم، وہ صاف اور سیدھا ہوتا ہے کہ ایک پر ''ہاں'' اور دوسرے پر ''نہیں'' اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور اس کے ذریعہ جوا اور قرعہ انجام دیتے تھے۔

۲۹۔ سوأئتھما: عوراتھما، ان دونوں کی شرمگاہیں۔

۳۰۔قبیل:ایک جیسا گروہ اور صنف، ماننے والوں کی جماعت کہ آیہ میں : انہ یراکم ھو و قبیلہ اس سے مراد شیطان کے ہم خیال اور ماننے والے ہیں۔

۳۱۔ فَسَقَ فسق، لغت میں حد سے تجاوز کرنے اور خارج ہونے کو کہتے ہیں۔ اور اسلامی اصطلاح میں حدود شرع اور اطاعت خداوندی سے فاحش اور واضح دوری کو کہتے ہیںیعنی بدرفتاری اور زشت کرداری کے گندے گڑھے میں گر جانے کو کہتے ہیں؛ فسق کفر، نفاق اورگمراہی سے اعم چیز ہے ۔ جیسا کہ خداوند سبحان فرماتا ہے :

۱۔( وما یکفر بها الا الفاسقون )

فاسقوں کے علاوہ کوئی بھی میری آیتوں کا انکار نہیں کرتا۔( ۱ )

۲۔( ان المنافقین هم الفاسقون ) یقینا منافقین ہی فاسق ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)بقرہ۹۱

(۲)توبہ۶۷

۹۹

۳۔( فمنهم مهتدٍ و کثیر منهم فاسقون )

ان میں سے بعض ہدایت یافتہ ہیں اور بہت سارے فاسقہیں۔( ۱ )

فسق ایمان کے مقابل ہے جیسا کہ ارشادہوتاہے:

( منهم المؤمنون واکثرهم الفاسقون )

ان میں سے بعض مومن ہیں اور زیادہ تر فاسق ہیں۔( ۲ )

د۔ روائی تفسیر میں جن کی حقیقت

سیوطی نے سورۂ جن کی تفسیر میں ذکر کیا ہے :

جنات حضرت عیسیٰ اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان فاصلہ کے دوران آزاد تھے اور آسمانوں پر جاتے تھے،جب خداوند عالم نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث کیا تو آسمان دنیا میں ان کا جانا ممنوع ہو گیا اور ان کاشہاب ثاقب کے ذریعہ پیچھا کیا جاتا تھا اور بھگا دیا جاتا تھا۔ جنات نے ابلیس کے پاس اجتماع کیا تو اس نے ان سے کہا: زمین میں کوئی حادثہ رونما ہوا ہے جائو گردش کرو اور اس کا پتہ لگائو اور مجھے اس واقعہ سے باخبر کرو کہ وہ حادثہ کیا ہے ؟ پھر اکابر جنوں کے ایک گروہ کو یمن اور تہامہ کی طرف روانہ کیا ۔ تو ان لوگوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نمازصبح کی ادائیگی میں مشغول پایا جو ایک خرمہ کے درخت کے کنارے قرآن پڑھ رہے تھے؛ جب ان کے قریب گئے تو آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش رہو،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو وہ سب کے سب اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انذار میں مشغول ہو گئے کیونکہ ایمان لا چکے تھے پیغمبر بھی ان کی طرف اس آیت کے نزول سے پہلے متوجہ نہیں ہوئے تھے ۔

( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن )

کہو!مجھے وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوںنے میری بات پر کان دھرا.

کہاجاتا ہے کہ یہ گروہ اہل نصیبین کے سات لوگوں کا تھا۔( ۳ )

جو کچھ بیان ہوا ہے جن، شیاطین اور ابلیس کے مختصر حالات تھے جو قرآن کریم میں ذکر ہوئے ہیں لیکن جو کچھ روایات میں ذکر ہوا ہے وہ در ج ذیل ہے :

____________________

(۱)حدید۲۶(۲)آل عمران۱۱۰

(۳) تفسیر الدر المنثور ج۶ ص ۲۷۰.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746