تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 191875 / ڈاؤنلوڈ: 4749
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

قعقاع ایک ہزار سپاہیوں کو اپنی کمانڈ میں لئے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے منازل کو طے کرتے ہوئے اغواث کے دن اپنی وعدہ گاہ، یعنی قادسیہ کے میدان جنگ میں پہنچ جاتاہے۔ وہ اپنے سپاہیوں کو دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرتاہے اور انھیں حکم دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ایک خاص فاصلہ کی رعایت کرتے ہوئے ایک عظیم طاقت کی صورت میں میدان جنگ میں داخل ہوں تاکہ فوجیوں کی ٹولیوں کی کثرت اسلامی فوج کی ہمت افزائی کا سبب بنیں اور خود پہلی ٹولی کے آگے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اسلامی فوج کو امداد پہنچنے کی نوید دیکر حوصلہ افزائی کرتاہے اور ان سے کہتاہے، جو کام میں کروں تم بھی اسی کو انجام دینا۔ اس کے بعد تن تنہا میدان جنگ میں جاتا ہے اور اپنے ہم پلہ مد مقابل کا مطالبہ کرتاہے اور مثنی کے قاتل دشمن کے سپہ سالار ذوالحاجب کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد دشمن کے ایک اور سردار اور پہلوان بیرزانِ پارسی کو قتل کرڈالتا ہے۔ اس کی شجاعت کو دیکھ کر اسلامی فوج کے سپاہی ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : یہ وہی پہلوان ہے جس کے بارے میں ابوبکر نے کہا ہے:''جس سپاہ میں یہ پہلوان موجود ہو وہ سپاہ ہرگز شکست نہیں کھائے گی''۔قعقاع کے سپاہی اس کے حکم کے مطابق اس دن شام ہونے تک وقفے وقفے سے ٹولیوں کی صورت میں آکر اسلامی فوج کے ساتھ ملحق ہوتے ہیں اور ہر ٹولی کے پہنچنے پر قعقاع نعرۂ تکبیر بلند کرتا ہے اور مسلمان بھی اس کے جواب میں نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہیں ۔ اس طرح دوستوں کے دل قوی ہوتے ہیں اور دشمن متزلزل اور پریشان ہوجاتے ہیں ۔

اسی فرضی اغواث کے دن سعد وقاص ان گھوڑوں میں سے ایک گھوڑا قعقاع کو انعام کے طور پر دیتا ہے، جو خلیفہ عمر نے جنگ قادسیہ کے بہترین پہلوانوں کے لئے بھیجے تھے ۔ قعقاع اس روز تین بہترین رزم نامے کہتا ہے۔

اسی جنگ میں قعقاع اپنے ما تحت افراد کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں کو کپڑے سے اس طرح ڈھانپیں تا کہ وہ ہاتھی جیسے نظر آئیں پھر ان کو دس دس کی ٹولیوں میں ایرانی فوج کے گھوڑسواروں کی طرف روانہ کریں تا کہ وہ وحشت سے اپنے ہی لشکر کی صفوں کو چیرتے ہوئے بھگدڑمچائیں ، پھر خاندان تمیم کے چابک سوار بھی ان کی مدد کے لئے آگے بڑھیں ۔

عماس کی شب کو قعقاع اپنے ماتحت افراد کو دوست و دشمنوں کی نظروں سے چھپاتے ہوئے اسی جگہ پر لے جاتا ہے جہاں پر اغواث کے دن انھیں جمع کرچکاتھا، اور حکم دیتا ہے کہ اس کے افراد

۲۶۱

اغواث کے دن کی طرح لیکن اس دفعہ سو١٠٠ سو١٠٠افراد کی ٹولیوں میں میدان جنگ کی طرف بڑھیں اور

جب سو افراد کی پہلی ٹولی نظروں سے اوجھل ہوجائے تو دوسری ٹولی آگے بڑھے اور اسی ترتیب سے

دیگر ٹولیاں آگے بڑھیں ۔ اس جنگی حکمت عملی کی وجہ سے مسلمان فوج کا حوصلہ اس روز بھی اغواث کے دن کی طرح مددگار فوج کی آمد کی امیدمیں بلند ہوجاتاہے۔

جب سعد وقاص مشاہدہ کرتا ہے کہ ایرانی فوج کا ہاتھی سوار دستہ اسلامی فوج کی صفوں کو تتربتر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے تو وہ قعقاع اور اس کے بھائی کو حکم دیتا ہے کہ ان کے راہنما اور آگے آگے چلنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کردیں ۔قعقاع اور اس کا بھائی سفید ہاتھی کی دونوں آنکھیں نکال کر اسے اندھا بنا دیتے ہیں اور قعقاع تلوار کے ایک وار سے اس کی سونڈ کوکاٹ کر جدا کردیتا ہے اور بالاخر اسے مار ڈالنے کے بعد ایک لافانی رزم نامہ لکھتا ہے ۔

جنگ ''لیلة الھریر '' میں قعقاع میدان جنگ کی طرف دوڑ نے میں دیگر لوگوں کے مقابلے میں پہل کرتا ہے اور ایک شعلہ بیان تقریر کرکے اپنے سپاہیوں کو دشمن سے لڑنے کے لئے جوش دلاتا ہے اور دوسرے پہلوانوں اور دلاوروں کی مدد سے دشمن کے سپہ سالار اعظم رستم کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور مشرکین کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے ۔اس طرح ایرانی فوج کے تیس سے زائد دستوں کے دلاوروں کے مقابلے میں اسی تعداد میں اسلامی فوج کے دلاور بھی مقابلے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ان میں قعقاع اپنے ہم پلہ پہلوان قارن کو خاک و خون میں غلطاں کر دیتا ہے اور باقی ایرانی فوجی یا مارے جاتے ہیں یا فرار کر جاتے ہیں ۔اور سعد وقاص حکم جاری کرتا ہے کہ فراریوں کا پیچھا کیا جائے آخر میں سعد وقاص قعقاع کے حق میں ایک قصیدہ بڑھ کر اس کی تمجید و تجلیل کرتا ہے ۔

قادسیہ کی جنگ کی وجہ سے ایک ہزار سات سو قحطانی عورتیں اپنے شوہر وں کے مارے جانے کی وجہ سے بیوہ ہوجاتی ہیں اور قبیلہ مضر کے مہاجرین سے شادیاں کرتی ہیں ان میں قعقاع کی بیوی کی بہن ہنیدہ بھی تھی وہ اپنی بہن کے ذریعہ اپنے لئے شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں قعقاع کا نظریہ معلوم کرتی ہے اور قعقاع چند اشعار کے ذریعہ اس کی راہنمائی کرتا ہے اور فتح بہر سیر کے بارے میں شعر کہتا ہے ۔

۲۶۲

اسلامی فوج کے دریائے دجلہ کو عبور کرتے ہوئے غرقدہ نامی قبیلۂ بارق کا ایک شخص گھوڑے سے گر کر دریا میں ڈوب جاتا ہے ،قعقاع اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساحل تک کھینچ لے آتا ہے اور اسے غرق ہونے سے بچالیتا ہے ۔غرقدہ ایک قوی پہلوان تھا ۔وہ قعقاع کی ستائش کرتے ہوئے کہتا ہے '' عورتیں تجھ جیسا فرزند ہر گز جنم نہیں دے سکتیں ''

قعقاع کا فوجی دستہ'' اہوال'' کے نام سے مشہور تھا ،پہلا فوجی دستہ تھا جس نے مدائن میں قدم رکھا ۔

قعقاع ایرانی شکست خوردہ فراری سپاہیوں کا تعاقب کرتا ہے اور اس کی ایک فراری شخص کے ساتھ مڈبھیڑ ہوتی ہے ،قعقاع اسے قتل کر ڈالتا ہے اور دو چوپایوں پر بار کئے ہوئے اس کے اثاثہ پر غنیمت کے طور پر قبضہ کر لیتا ہے ۔جب ان گٹھریوں کو کھول کے دیکھتا ہے تو ان میں ایران ،روم ،ترک اور عرب بادشاہوں کا فو جی سازوسامان پاتا ہے ۔اسلامی فوج کا کمانڈر انچیف سعد وقاص قعقاع کے حاصل کئے ہوئے اس مال غنیمت میں سے روم کے بادشاہ ہر کلیوس کی تلوار اور بہرام کی زرہ قعقاع کو بخش دیتا ہے اور باقی مال خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیتا ہے ۔

جلولا کی جنگ:

جلولاء کی جنگ میں خلیفہ ،سعد وقاص کو حکم دیتا ہے کہ قعقاع کو ایک فوجی دستے کی کمانڈدے کر فتح جلولاء کے لئے ہراول دستے کے طور پر ماموریت دے اور جلولاء کو فتح کرنے کے بعد شام تک پھیلے ہوئے ایران کے مغربی علاقوں کی حکومت اس کو سونپے ۔قعقاع جلولاء کی طرف روانہ ہوتا ہے اور پناہ گاہوں میں مورچہ بند ی کئے ہوئے ایرانیوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیتاہے ۔ لیکن ایرانی اپنی پناہ گاہ کے چاروں طرف لوہے کے تیز دھار والے ٹکڑے پھیلاکر اسلامی فوج کے لئے پناہ گاہ تک پہنچنے میں رکاوٹیں گھڑی کرتے ہیں اور صرف اپنے لئے رفت و آمد کا ایک خاص اور محفوظ راستہ بناتے ہیں اور ضرورت کے علاوہ پناہ گاہ سے باہر نہیں نکلتے یہ حالت اسّی روز تک جاری رہتی ہے ۔

۲۶۳

قعقاع اس مدت میں ایک مناسب فرصت کی انتظار میں رہتا ہے اور اچانک حملہ کرکے رفت و آمد کے تنہا راستہ پر قبضہ جما لیتا ہے اور جنگی حکمت عملی سے مسلمان فوج کو حملہ کے لئے جو ش دلاتا ہے اور یہی امر دشمن کو شکست دینے کا سبب بن جاتا ہے ،اس معرکہ میں مشرکین کے ایک لاکھ فوجی کا م آتے ہیں او رباقی فرار کرتے ہیں اور مسلمان ،فراریوں کا خانقین تک پیچھا کرتے ہیں ۔ فراریوں میں سے بعض مارے جاتے ہیں اور بعض اسیر کئے جاتے ہیں ایرانی فوج کا کمانڈر مہران بھی مارا جاتا ہے ۔

قعقاع اپنی پیش قدمی کو قصر شیریں تک جاری رکھتا ہے ،حلوان کے سرحد بانوں کو قتل کرتاہے فوجی کیمپ اور شہر پر قبضہ کرکے سعد وقاص کے واپس کوفہ پہنچنے تک وہیں پر پڑائو ڈالتا ہے ۔قععقاع نے جلولاء کے بارے میں بھی شعر کہے ہیں ۔

شام سے ابو عبیدہ خلیفہ عمر سے مدد طلب کرتا ہے خلیفہ سعد کو حکم دیتا ہے کہ قعقاع کو ایک سپاہ کی کمانڈ میں ابو عبیدہ کی مدد کے لئے شام روانہ کرے ۔قعقاع چار ہزار جنگجوئوں کو لے کر شام کی طرف روانہ ہوتا ہے جب مشرکین کو قعقاع اور اس کے سپاہیوں کے آنے کی خبر ملتی ہے تو ابو عبیدہ پر سے محاصرہ اٹھا لیتے ہیں منتشر ہو جاتے ہیں اور ابوعبیدہ ،قعقاع کی مدد کے پہنچنے سے پہلے ہی حمص کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ۔عمر حکم دیتا ہے کہ قعقاع اور اس کے سپاہیوں کو بھی مال غنیمت کی تقسیم میں شریک قرار دیا جائے ۔قعقاع اس مناسبت سے بھی چند شعر کہتاہے ۔

نہاوند کی جنگ :

نہاوند میں ایرانی ،قلعہ میں پناہ لیتے ہیں اور ضرورت کے علاوہ اس سے باہر نہیں نکلتے ہیں ۔ قلعۂ نہاوند پر مسلمانوں کے محاصرہ کا کام طول پکڑتا ہے ۔آخر قعقاع ایک تدبیر سوچتاہے اور جنگ شروع کرتا ہے ،اچانک حملہ کرتا ہے ،جب مشرکین دفاع کرنے لگتے ہیں تو مسلمان پیچھے ہٹتے ہیں ، ایرانی ان کا پیچھا کرتے ہیں اور مسلمان پیچھے ہٹتے جاتے ہیں ،اس طرح دشمن کو قلعہ سے باہر کھینچ لاتے ہیں ۔ وہ اس حد تک باہر آتے ہیں کہ قلعہ میں قلعہ کے محافظوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہتا ۔اچانک مسلمان مڑ کر تلواروں سے ان پر وار کر دیتے ہیں اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیتے ہیں ،زمین ان کے خون سے بھرجاتی ہے اور ایسی پھسلنی بن جاتی ہے کہ سوار اور پیدل فوجی اس پر پھسل جاتے ہیں جب دن گزر کر رات پہنچ جاتی ہے تو ایرانی شکست کھا کر فرار کرنے لگتے ہیں ۔وہ راہ اور چاہ میں تمیز نہیں کرسکتے اور اپنی کھودی ہوئی خندق اور اس میں جلائی گئی آگ میں ایک ایک کرکے گرتے جاتے ہیں اور جل جاتے ہیں وہ اس آگ سے بھری خندق میں گرتے ہوئے فارسی زبان میں فریاد بلند کرتے ہیں '' وائے خرد'' آخر کار ایک لاکھ انسان اس آگ میں جل کر راکھ ہوجاتے ہیں یہ تعداد ان مقتولین کے علاوہ ہے جو اس جنگ کے میدان کارزار میں کام آئے تھے !

۲۶۴

نہاوند کی جنگ میں ایرانی فوج کا سپہ سالار فیروزان بھاگنے میں کامیاب ہوتا ہے او ر ہمدان کی طرف فرار کرتا ہے ،قعقاع اس کا پیچھا کرتا ہے اور ہمدان کی گزرگاہ پر اس کے قریب پہنچتا ہے ۔ لیکن گزر گاہ میں موجود شہدکا بار لے جانے والے مویشیوں کی کثرت کی وجہ سے فیروزان گزر گاہ کو عبور نہیں کر سکتا ہے ۔گھوڑے سے اتر کر پہاڑ کی طرف بھاگتا ہے اسی اثنا ء میں قعقاع پہنچ کر اسے وہیں پر قتل کر ڈالتا ہے ۔شہد کا بار لئے ہوئے مویشیوں کے سبب راستہ بند ہونے کے موضوع کی وجہ سے یہ جملہ عام ہو جاتاہے کہ '' خدا کے پاس شہد کی ایک فوج بھی ہے ''

فیروزان کے قتل ہونے کے بعد ہمدان اور ماہان کے باشندے قعقاع سے امان کی درخواست کرتے ہیں ۔امان نامہ لکھا جاتا ہے اور قعقاع اس کی تائید و گواہی میں اس پر دستخط کرتا ہے ۔ وہ اس مناسبت سے بھی اشعار کہتا ہے ۔

قعقاع ،عثمان کے زمانہ میں

خلیفہ عثمان ٣٤ھاور ٣٥ھ میں قعقاع کو کوفہ کے علاقوں کے سپہ سالار اعظم کی حیثیت سے مقرر کرتا ہے ۔

کوفہ میں شورش و فتنہ پرپا ہونے پر قعقاع دیکھتا ہے کہ سبائی مسجد کوفہ میں اجتماع کرکے خلیفہ عثمان کی معزولی وبر طرفی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔قعقاع انھیں دھمکاتا ہے ،سبائی ڈر کے مارے اپنے مطالبات کو چھپاتے ہیں او ر اظہار کرتے ہیں کہ وہ کوفہ کے گورنر کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ قعقاع ان سے کہتا ہے :تمھارا مطالبہ پورا ہوگا !اس کے بعد انھیں حکم دیتا ہے کہ متفرق ہو جائیں اور اب مسجد میں اجتماع نہ کریں ۔

جب مالک اشتر کوفہ کے گونر کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے شورشیوں اور باغیوں کو اکساتا ہے تو کوفہ کا ڈپٹی گورنر ان کو نصیحت کرتے ہوئے بغاوت کو روکتا ہے ۔قعقاع ڈپٹی گورنر کو صبر کا مظاہر ہ کرنے کا حکم دیتا ہے وہ بھی اس کی بات کو مانتے ہوئے اپنے گھر چلا جاتا ہے۔

۲۶۵

جب سبائی دوبارہ مسجد کوفہ میں ا جتماع کرتے ہیں اور عثمان کے خلاف بد گوئی کرتے ہیں تو قعقاع سبائیوں کو نصیحت کرکے ٹھنڈا کرتا ہے اور وعدہ دیتا ہے کہ عثمان کے مقرر کردہ تمام عہدہ داروں کو برطرف کر دے گا اور ان کے مطالبات قبول کئے جائیں گے ۔

جب عثمان نے مختلف شہروں کے باشندوں سے مدد طلب کی کہ اسے محاصر ہ سے نجات دلائیں تو قعقاع کوفہ سے اور دوسرے لوگ دیگر شہروں سے عثمان کی مدد کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں ۔جب عثمان کو محاصرہ کرنے والے سبائی اس خبر سے مطلع ہوتے ہیں کہ عثمان کے حامی ان کی مدد کے لئے مدینہ کی طرف آرہے ہیں تو فورا ًعثمان کا کام تمام کر دیتے ہیں عثمان کے قتل کی خبر سنتے ہی قعقاع راستے ہی سے کوفہ کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے ۔

۲۶۶

قعقاع ،حضرت علی کے زمانہ میں

جب حضرت علی ـ نے بصرہ میں جنگ جمل کے لئے کوفیوں سے مدد طلب کی اور ابو موسیٰ اشعری نے اس امر میں امام کی نافرمانی کی اور ان کے اور کوفہ کے باشندوں سے اختلافات پیدا ہوئے ،تو قعقاع مصلح کی حیثیت سے آگے بڑھتا ہے اور لوگوں کو نصیحت کرتا ہے اور انھیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لئے امام کی دعوت قبول کریں ۔لوگ اس کی نصیحت قبول کرکے امام کی فوج سے ملحق ہوتے ہیں اور خود قعقاع بھی پانچ ہزار سپاہیوں کے ہمراہ امام کی خدمت میں پہنچ جاتا ہے ۔(۱)

امام حکم دیتے ہیں کہ قعقاع ان کے ایلچی کی حیثیت سے صلح و آشتی برقرار کرنے کے لئے طلحہ ،زبیر اور عائشہ کے پاس جائے ۔قعقاع کی سر گرمیوں اور حسن نیت کی وجہ سے اختلاف وتفرقہ ختم ہونے والا تھا لیکن سبائی اس صلح و آشتی کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیتے ہیں اور طرفین کی بے خبری میں رات کی تاریکی میں دونوں فوجوں کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکا دیتے ہیں ۔

قعقاع امام کے ہمراہ جنگ میں شرکت کرتے ہوئے خود کو عائشہ کے اونٹ کے نزدیک پہنچا تا ہے اس کے بعد حکم دیتا ہے کہ اونٹ کا کام تمام کردو او ر جنگ کے خاتمہ پر جمل کے خیر خواہوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ : ''تم امان میں ہو''

ام المومنین عائشہ رو نما ہوئے ان حالات پر پشیمان ہوتی ہیں ،امام بھی پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں اور دونوں تمناکرتے ہیں کہ کاش اس واقعہ سے بیس سال پہلے مر چکے ہوتے!

امام قعقاع کو حکم دیتے ہیں کہ ام المومنین کی بے احترامی کرنے والے دو افراد کو سو سوکوڑے مارے ۔

آخر میں سیف نے ایک ایسی روایت بھی نقل کی ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ قعقاع نے صفین کی جنگ میں بھی شرکت کی ہے ۔

آخر کار معاویہ '' عام الجماعة'' کے بعد حضرت علی ـکے حامیوں اور طرفداروں کو جلاوطن کرتا ہے ۔اور قعقاع کو بھی اسی الزام میں فلسطین کے ایلیا نام کے علاقہ میں جلا وطن کرتا ہے اور ان کی جگہ پر اپنے حامیوں اور رشتہ دارون کو کوفہ میں آباد کرتا ہے ،سیف نے ان جلاوطن ہونے والوں کے نام بھی رکھے اور انھیں ''منتقل ہونے والے '' کہا ہے ۔

____________________

الف )۔تاریخ طبری طبع یورپ ٢١٦١

۲۶۷

احادیث سیف کے راویوں کا سلسلہ

لم نجد لهم ذکرا فی غیر احادیث سیف

ہم نے ان راویوں کے نام ، سیف کی روایت کے علاوہ روایتوں کی کسی بھی کتاب میں نہیں پائے۔

(مولف)

ہم نے گزشتہ فصلو ں میں قعقاع کے بارے میں سیف کی روایات پر بحث و تحقیق کی ۔ اب ہم اس فصل میں پہلے ان راویوں کے بارے میں بحث کریں گے جن سے سیف نے روایات نقل کی ہیں اور اس کے بعد ان کتابوں کا جائزہ لیں گے جن میں سیف سے رواتیں نقل کی گئی ہیں ۔

١۔وہ راوی جن سے سیف نے رواتیں نقل کی ہیں

قعقاع بن عمر تمیمی کا افسانہ سیف کی ٦٨روایات میں ذکر ہوا ہے ۔امام المورخین طبری نے ان میں سے اکثر کو اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے ۔جب ہم ان روایات کی سند کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے :

(١) اس کی ٣٨روایات میں محمد کانام راوی کی حیثیت سے ذکر ہواہے ۔سیف اس محمد کو ابن عبد اللہ بن سوادبن نویرہ بتاتاہے اور اختصار کے طور پر اسے محمد نویرہ یا محمد بن عبداللہ اور اکثر صرف محمد کے نام سے ذکر کرتا ہے ۔

(٢) اس کا ایک راوی مہلب بن عتبہ اسدی ہے جس سے اس نے اپنی پندرہ روایات نقل کی ہیں طبری اسے اختصار کے طور پر مہلب ذکر کرتا ہے ۔

(٣) یزید بن اسید غسانی ،اس کا ایک اور راوی ہے ۔اس کا نام اس نے اپنی دس روایات کی سند میں ذکر کیا ہے اور اس کی کنیت ابو عثمان بیان کی ہے ۔

۲۶۸

(٤) سیف کی آٹھ احادیث کا راوی زیاد بن سرجس احمری ہے ۔سیف اختصار کے طور پر اسے زیاد یا زیاد بن سرجس کے نام سے یاد کرتا ہے ۔

(٥) الغصن بن قاسم کنانی ۔

(٦) عبداللہ بن سعید بن ثابت جذع ،اختصار کے طور پر سیف اسے عبداللہ بن سعید یا عبداللہ کے نام سے ذکر کرتا ہے۔

(٧) ظفر بن دہی ،یہ سیف کے ان اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے ہے جنھیں اس نے خود جعل کیا ہے اور اس کی احادیث کا راوی بھی ہے ۔

(٨) قعقاع بن عمروتمیمی ،ظفر کے مانند یہ بھی اس کا ایک جعلی صحابی ہے اور اس کی احادیث کا راوی بھی ہے ،

(٩) صعب بن عطیہ بن بلال یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،جب کہ باپ بیٹے دونوں ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں اور ایک ہی انداز کی روایت کرتے ہیں ۔

(١٠) نضر بن سری الضبی ،بعض اوقات اس کا نام سیف کی احادیث میں اختصار کے طور پر نضر ذکر ہواہے ۔

(١١) ابن رفیل ،اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،رفیل کے باپ کو سیف بن عمر ،رفیل بن میسور کے نام سے یاد کرتا ہے ۔

(١٢) عبدالرحمن بن سیاہ احمر ی ،سیف اس کانام لقب کے بغیر ذکرکرتاہے۔

(١٣) مستنیر بن یزید ،اس نام سے سیف کامقصود مستنیر بن یزید نخعی ہے ۔

(١٤) قیس ،سیف اسے مستنیرکابھائی بتاتاہے ۔

(١٥) سہل ،سیف نے اسے سہل بن یوسف سلمی خیال کیاہے ۔

(١٦) بطان بشر

(١٧) ابن ابو مکنف

(١٨) طلحہ بن عبد الرحمان ،اس کی کنیت ابوسفیان بتائی ہے ۔

(١٩) حمید بن ابی شجار

(٢٠) المقطع بن ھیثم بکائی

۲۶۹

(٢١) عبد اللہ بن محفز بن ثعلبہ ،وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،باپ بیٹے دونوں سیف کی صرف ایک حدیث کے راوی ہیں ۔

(٢٢) حنظلة بن زیاد بن حنظلۂ تمیمی.

(٢٣) عروة بن ولید

(٢٤) ابو معبد عبسی

(٢٥) جریر بن اشرس

(٢٦) صعصعةالمزنی

(٢٧) مخلد بن کثیر

(٢٨) عصمة الوامکی

(٢٩) عمرو بن ریان

٢۔وہ علما ء جنھوں نے سیف سے روایتیں نقل کی ہے

١۔تمام وہ افسانے جنھیں اب تک ہم نے قعقاع کے بارے میں ذکر کیا ،انہیں پہلی بار سیف بن عمر تمیمی( وفات تقریباً ١٧٠ ھ )نے ''فتوح''اور ''جمل''نامی اپنی دوکتابوں میں ثبت و ضبط کیا ہے۔

مندرجہ ذیل علماء نے ان کتابوں سے قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے:

٢۔طبری (وفات ٣١٠ھ)نے اپنی کتاب ''تاریخ کبیر''میں ۔

٣۔الرّازی(وفات ٣٧٧ھ )نے کتاب ''جرح و تعدیل''میں ۔

٤۔ابن السکن(وفات ٣٥٣ھ ) نے کتاب ''حروف الصحابہ''میں ۔

٥۔ابن عساکر (وفات ٥٧١ ھ) نے کتاب ''تاریخ مدینہ و دمشق''میں ۔

ان سے بھی درج ذیل مؤلفین نے اپنی ادبی کتابوں میں سیف کے مطالب کو نقل کیاہے :

٦۔الاصبھانی (وفات ٣٥٦ھ ) نے کتاب ''اغانی''میں ،طبری سے نقل کیا ہے۔

۲۷۰

٧۔ابن بدرون(وفات ٥٦٠ ھ) نے ابن عبدون کے قصیدہ کی شرح میں طبری سے نقل کیا ہے۔

٨۔ابن عبد البر(وفات ٤٦٣ھ ) نے کتاب ''الاستیعاب'' میں ، سیف کے مطالب کو رازی سے نقل کیا ہے۔

٩۔ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ) نے کتاب''اسد الغابہ ''میں ،سیف کے مطالب کو ابن عبدالبر سے نقل کیا ہے۔

١٠۔ذہبی (وفات ٧٤٨ھ) نے کتاب ''التجرید''میں ابن اثیر سے نقل کیاہے۔

١١۔ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ) نے کتاب ''الاصابہ '' میں ان مطالب کو خود سیف بن عمر، طبری ، رازی ، ابن سکن اور ابن عساکر سے نقل کیا ہے۔

سیف کے افسانے تاریخ کی مندرجہ ذیل عمومی کتابوں میں بھی نقل ہوئے ہیں :

١٢۔ابن اثیر(وفات ٦٣٠ھ) نے کتاب ''تاریخ کامل '' میں طبری سے نقل کیا ہے۔

١٣۔ابن کثیر (وفات ٧٧٠ھ ) نے کتاب ''تاریخ البدایہ''میں طبری سے نقل کیاہے۔

جغرافیہ کی کتابوں میں بھی سیف کے افسانے درج کئے گئے ہیں :

١٥۔الحموی(وفات ٦٢٦ ھ) نے کتاب ''معجم البلدان''میں براہ راست سیف بن عمر سے نقل کیاہے۔

١٦۔عبد المؤمن (وفات ٧٣٠ھ) نے کتاب ''مراصدا لاطلاع'' میں حموی سے نقل کیا ہے ۔

١٧۔الحمیری(وفات ٩٠٠ھ ) نے کتاب ''روض المعطار'' میں براہ راست سیف سے نقل کیا ہے۔

قعقاع کے افسانوں کا ان کتابوں میں اشاعت پانا اس امر کاسبب بنا کہ قعقاع کا نام شیعوں کی رجال کی کتابوں میں بھی درج ہوجائے ،جیسے:

۲۷۱

١٨۔شیخ طوسی (وفات ٤٦٠ھ) نے کتاب ''رجال''میں ۔

١٩۔قہپائی (سال تألیف ١٠١٦ھ) نے کتاب ''مجمع الرجال'' میں شیخ کتاب ''رجا ل '' سے نقل کیا ہے۔

٢٠۔اردبیلی(وفات ١١٠١ھ) نے کتاب ''جامع الروات'' میں شیخ کی کتاب رجال سے نقل کیا ہے۔

٢١۔مامقانی ( وفات ١٣٥٠ھ ) نے کتاب ''تنقیح المقال'' میں شیخ طوسی کی کتاب رجال سے نقل کیاہے۔

٢٢۔شوشتری، معاصر نے مامقانی کی کتاب ''تنقیح المقال ''اور شیخ طوسی کی کتاب رجال سے نقل کیاہے۔

قعقاع کے بارے میں

سیف کی سڑسٹھ٦٧ روایتوں کا خلاصہ

قعقاع کی خبر اور اس کے حیرت انگیز افسانوی شجاعتیں اور کارنامے، مذکورہ کتابوں کے علاوہ تاریخ اسلام کے دیگر معتبر مصادر و منابع میں وسیع پیمانے پر، شائع ہوچکے ہیں ۔ اس سلسلے میں سبوں نے سیف بن عمر تمیمی سے روایت نقل کی ہے۔ کیونکہ سیف مدعی ہے اور وہی روایت کرتا ہے کہ بے مثال اور نا قابل شکست تمیمی پہلوان، قعقاع بن عمرو تمیمی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی رہ چکا ہے اور اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایتیں نقل کی ہیں ، سقیفہ بنی ساعدہ کو دیکھا ہے اور اس کے بارے میں خبر بھی دی ہے، ارتداد اور فتوحات اسلامی کی اکتس جنگوں میں شرکت کی ہے۔ ان جنگوں میں سات لاکھ سے زائد انسان قتل عام ہوئے ہیں ان کے سرتن سے جدا کئے گئے ہیں یا جل کر راکھ ہوئے ہیں ۔ قعقاع بن عمر و تمیمی ان جنگوں کا بے مثال پہلوان اور مرکزی کردار و شیر مرد تھا، اس نے١ ٣ رزم نامے لکھے ہیں ۔

سیف نے ان تمام مطالب کو٦٧،احادیث میں بیان کیا ہے اور ان میں سے ہر حدیث کو چند راویوں سے نقل کیا ہے کہ ان میں سے چالیس راوی صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہیں ۔

اسی طرح سیف نے ایسی جنگوں کا نام لیا ہے جو ہرگز واقع نہیں ہوئی ہیں اور ایسی جگہوں کا نام لیاہے جو بالکل وجود نہیں رکھتی تھیں اور وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسی جنگوں اور جگہوں کا نام لے کر ان کا تعارف کرایاہے۔

سیف منفرد شخص ہے جو تاریخ اسلا م کے چھبیس سال تک کے ایسے واقعات و حالات کی تشریح کرتا ہے جو ہرگز واقع نہیں ہوئے ہیں اور دیگر کسی بھی خبر بیان کرنے والے نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں ، بلکہ سیف نے تن تنہا ان افسانوں کی ایجاد کرکے اپنے تصور میں تخلیق اور کتابوں میں ثبت کیا ہے۔

۲۷۲

تحقیق کے منابع

ہم نے سیف کی احادیث کے راویوں کی تلاش کے سلسلے میں ان مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا جن میں تاریخ و حدیث کے تمام رایوں کے حالات درج ہیں ، مثال کے طور پر:

٭ '' علل و معرفة الرجال '' تالیف احمد بن حنبل ( وفات ٢٤١ھ)

٭ ''تاریخ بخاری '' تالیف بخاری ( وفات ٣٥٦ھ)

٭ '' جرح و تعدیل'' تالیف رازی(وفات٣٢٧)

٭ '' میزان الاعتدال '' ،والعبر''اور '' تذکرة الحفاظ''تألیف ذہبی (وفات ٧٤٨ھ

٭ ''لسان المیزان ''''تہذیب التہذیب'' ''تقریب التہیب'' اور ''تبصیرالمنتبہ'' تالیف ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ)

٭ '' خلاصة التہذیب '' تالیف صفی الدین ،کتاب کی تالیف کی تاریخ ٩٢٣ھ ہے۔

اس کے علاوہ طبقات کی کتابوں میں ،مثال کے طور پر :

٭ طبقات ابن سعد (وفات ٢٣٠ ھ )

٭ طبقات حنیفة بن خیاط (وفات ٢٤٠ھ)

اسی طرح کتب انساب میں ،جیسے :

٭ ''جمہرة انساب العرب '' تالیف ابن حزم (وفات ٤٥٤ھ)

٭ ''انساب ''سمعانی (وفات ٥٦٢ھ)

٭ ''اللباب '' ابن اثیر (وفات ٦٣٠)

۲۷۳

تحقیق کانتیجہ

ہم نے مذکورہ تمام کتابوں میں انتہائی تلاش و جستجو کی ،صرف انہی کتابوں پر اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے موضوع سے مربوط مزید دسیوں منابع و مصادر کا بھی مطالعہ کیا ،حدیث کی کتابیں جیسے مسند احمد کا مکمل دورہ اور صحاح ستہ کی تمام جلدیں ،ادبی کتابیں جیسے : ''عقد الفرید'' تالیف عبدالبر (وفات ٣٢٨ھ ) اور ''اغانی'' تالیف اصفہانی (وفات ٣٥٦ھ) اور ان کے علاوہ بھی دسیوں کتابوں کی ورق گردانی کی تاکہ سیف ابن عمر کے ان راویوں میں سے کسی ایک کا پتا چل جائے ،جن سے اس نے سیکڑوں احادیث روایت کی ہیں ،لیکن ان راویوں کے ناموں کا ہمیں سیف کے علاوہ کہیں نشان نہ ملا!اس بنا ء ہم ان تمام راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔انشاء اللہ جہاں ہم سیف کے جعلی راویوں کے بارے میں بحث کریں گے وہاں سیف کی زبانی ان کی زندگی کے حالات کی بھی تشریح کریں گے ۔

مذکورہ راویوں کے علاوہ سیف نے قعقاع کی روایات میں چند منفرد نام بھی راویوں کے طور پر ذکر کئے ہیں ،جیسے :

'' خالد کو تین روایات میں ،عبادہ کو دو روایات میں اور عطیہ و مغیرہ اور دیگر چند مجہول القاب و نام ،جن کی شناسائی کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر کیسے ممکن ہے کہ سیف کے درج ذیل عنوان کے راویوں کی پہچان کی جا سکے :

''بنی کنانہ کا ایک مرد '' ،''بنی ضبہ کا ایک مرد ''،'' طی سے ایک مرد '' بنی ضبہ کا ایک بوڑھا '' ''اس سے جس نے خود بکر بن وائل سے سنا ہے '' ،ان سے جنھوں نے اپنے رشتہ داروں سے سنا ہے ''، ابن محراق نے اپنے باپ سے '' اور'' ان جیسے دیگر مجہول راوی جن سے سیف نے روایت کی ہے ؟!

تقریبا یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سیف ابن عمرتمیمی نے ایسے راویوں کا ذکر کرتے وقت سنجیدگی کو مد نظر نہیں رکھا بلکہ لوگوں کو بے وقوف بنایا ہے اور مسلمانوں کا مذاق اڑایا ہے ۔

مذکورہ حالات کے پیش نظر قارئین کرام کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب سیف کی احادیث کے راویوں کی یہ حالت ہوتوخود سیف کی احادیث اور اس کی باتوں پر کس حد تک اعتبار اور بھروسہ کیا جا سکتا ہے ؟!

۲۷۴

چوتھا حصہ :

٢۔عاصم بن عمر و تمیمی

٭ عراق کی جنگ میں ۔

٭ ''دومة الجندل'' کی جنگ میں ۔

٭ مثنی کی جنگ میں ۔

٭ قادسیہ کی جنگ میں ۔

٭ جراثیم کے دن ۔

٭ سرزمین ایران میں ۔

٭ عاصم کے فرزند اور خاندان ۔

٭ عاصم کے بارے میں سیف کی احادیث کے راوی

۲۷۵

عاصم ،عراق کی جنگ میں

مصدر الجمیع فی ماذکروا هواحادیث سیف

جو کچھ علماء نے عاصم کے بارے میں لکھا ہے وہ سب سیف سے منقول ہے

( مولف )

عاصم کون ہے ؟

سیف بن عمر نے عاصم کو اپنے خیال میں قعقاع کا بھائی اور عمرو تمیمی کا بیٹا جعل کیا ہے اور اس کے لئے عمر و نامی ایک بیٹا بھی خلق کیا ہے کہ انشاء اللہ ہم باپ کے بعد اس کے اس بیٹے کے بارے میں بھی بحث و تحقیق کریں گے ۔

عاصم بن عمر و سیف کے افسانوی سورمائوں کی دوسری شخصیت ہے کہ شجاعت ،دلاوری ،فہم و فراست ،سخن وری اور شعر و ادب وغیرہ کے لحاظ سے بھی سیف کے افسانوں میں اپنے بھائی قعقاع کے بعد دوسرے نمبر کا پہلوان ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں عاصم بن عمرو کی یوں تعریف کی ہے :

''عاصم ،خاندان بنی تمیم کا ایک دلاور اور اس خاندان کے نامور شاعروں میں سے ہے ''

ابن عساکر بھی اپنی عظیم تاریخ میں عاصم کی یوں تعریف کرتا ہے :

'' عاصم قبیلہ بنی تمیم کا ایک پہلوان اور اس خاندان کا ایک مشہور شاعر ہے ۔''

'' استیعاب'' اور تجرید '' جیسی کتابوں میں بھی اس کی تعریف کی گئی ہے ۔تاریخ طبری میں بھی اس کے بارے میں مفصل مطالب درج ہیں اور دوسروں نے بھی تاریخ طبری سے اقتباس کر کے عاصم بن عمرو کے بارے میں مطالب بیان کئے ہیں ۔طبری ہو یا دیگر مورخین ،عاصم سے مربوط تمام روایتوں کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی کی جعل احادیث اور روایتیں ہیں ''

چونکہ طبری نے عاصم بن عمرو کے بارے میں روایات کو ١٢ھ سے ٢٩ھ کے حوادث کے ضمن میں اپنی تاریخ کی کتاب میں مفصل اور واضح طور پر درج کیاہے،اس لئے ہم بھی عاصم کے بارے میں اسی کی تالیف کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کے بعد تحقیق کرکے حقائق کے پانے کے لئے ١٢ ھ سے ٢٩ھ تک کے حوادث سے مربوط دوسروں کے بیانات کا طبری سے موازنہ کرکے تحقیق کریں گے۔

۲۷۶

عاصم ،خالد کے ساتھ عراق میں

جریر طبری نے ١٢ھ کے تاریخی حوادث وواقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

چونکہ خالد بن ولید یمامہ(۱) کے مرتدوں سے بر سر پیکار تھا،اس لئے عاصم

بن عمرو کو ہراولی دستہ کے طور پر عراق روانہ کیا۔

____________________

١لف۔ یمامہ ،شہر نجد سے بحرین تک ١٠ دن کا فاصلہ ہے۔معجم البلدان۔

۲۷۷

عاصم نے خالد کی قیادت میں ایک سپاہ کے ہمراہ المذار کی جنگ میں شرکت کی اور انوش جان نامی ایرانی سپہ سالار کے تحت المذار میں جمع ایرانی فوج سے نبرد آزما ہوا۔المقر اور دہانہ فرات باذقلی کی جنگ اور فتح حیرہ کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے طبری لکھتاہے:

خالد ،حیرہ کی طرف روانہ ہوا۔اپنے افراد اور اپناسازو سامان کشتی میں سوار کیا۔حیرہ کے سرحد بان نے اسلامی سپاہ کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے اپنے بیٹے کو بند باندھنے کا حکم دیا تاکہ خالد کی کشتیاں کیچڑ میں دھنس جائیں ، خالد،سرحد بان کے بیٹے کی فوج کے ساتھ نبرد آزما ہوا اور ان میں سے ایک گروہ کو مقر کے مقام پر قتل کیا ،سرحد بان کے بیٹے کو بھی فرات باذقلی کے مقام پر قتل کیا،سرحد بان کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیا سرحد بان بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔خالد اپنی فوج کے ہمراہ حیرہ میں داخل ہوا اور اس کے محلوں اور خزانوں پر قبضہ جمالیا۔

خالد نے جب حیرہ کو فتح کیا تو عاصم بن عمرو کو کربلا کی فوجی چھاونی اور اس کے جنگی سازو سامان کی کمانڈ پر منصوب کیا۔

یہ ان مطالب کا ایک خلاصہ تھا جنھیں عاصم اور اس کی جنگوں کے بارے میں طبری اور ابن عساکر دونوں نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے.

حموی نے سیف کی روایتوں کے پیش نظر ان کی تشریح کی ہے اور مقر کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے:

مقر ، حیرہ کی سرزمینوں میں سے فرات باذقلی کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے۔ اس جگہ پر خلافت ابوبکرکے زمانے میں مسلمانوں نے خالد بن ولید کی قیادت میں ایرانیوں سے جنگ کی ہے اور عاصم بن عمرو نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:

''سرزمین مقر میں ہم نے آشکارا طور پر اس کے جاری پانی اور وہاں کے باشندوں پر تسلط جمایا اور وہاں پر ان کو (اپنے دشمنوں کو) موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اس کے بعد فرات کے دہانہ کی طرف حملہ کیا ، جہاں پر انہوں نے پناہ لی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ہم ان ایرانی سواروں سے نبرد آزما ہوئے جو میدان جنگ سے بھاگنا نہیں چاہتے تھے۔''

۲۷۸

حیرہ کی تشریح میں یوں کہتا ہے:

حیرہ نجف سے تین میل کی دوری پر ایک شہر ہے...

یہاں تک کہ کہتا ہے:

شہر حیرہ کو حیرة الروحاء کہتے ہیں ، عاصم بن عمرو نے اس جگہ کے بارے میں یوں کہاہے:

''ہم نے پیدل اور سوار فوجوں سے صبح سویر ے حیرۂ روحاپر حملہ کیا اور اس کے اطراف میں موجود سفید محلوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیا''۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

یہ وہ مطلب ہیں جو سیف نے کہے ہیں .لیکن ہم نے سیف کے علاوہ کسی کو نہیں پایا جس نے مقر اور فرات باذقلی کے بارے میں کچھ لکھا ہو! لیکن ، حیرہ کے سرحد بان کے بارے میں جیسا کہ قعقاع ابن عمر و تمیمی کی داستان میں بلاذری سے نقل کرکے بیان کیا گیا ہے: ''ابوبکرکی خلافت کے زمانے میں مثنی نے المذار کے سرحد بان سے جنگ کی اور اسے شکست دی اور عمربن خطاب کی خلافت کے زمانے میں عتبہ بن غزوان فتح حیرہ کے لئے مأمور ہوا اور المذار کا سرحدبان اس کے مقابلہ کے لئے آیا اور ان دونوں کے درمیان جنگ ہوئی ۔ ایرانیوں نے شکست کھائی اور وہ سب کے سب پانی میں ڈوب گئے ۔ سرحد بان کا سر بھی تن سے جدا کیا گیا''۔

سند کی پڑتال:

سیف کی حدیث کی سند میں مھلب اسدی ، عبد الرحمان بن سیاہ احمری اور زیاد بن سرجس احمری کا نام راویوں کے طور پر آیا ہے اور اس سے پہلے قعقاع کے افسانے کی تحقیق کے دوران معلوم ہوچکا کہ یہ سب جعلی اور سیف کے خیالی راوی ہیں ۔

ان کے علاوہ ابوعثمان کا نام بھی راوی کے طور پر لیا گیا ہے کہ سیف کی احادیث میں یہ نام دو افراد سے مربوط ہے۔ ان میں ایک یزید بن اسید ہے۔ یہاں پر معلوم نہیں کہ سیف کا مقصود ان دو میں سے کون ہے؟

۲۷۹

پڑتال کا نتیجہ:

المذار کے بارے میں سیف کی روایت دوسروں کی روایت سے ہماہنگ نہیں ہے۔ المقر اور فرات باذقلی کی جنگوں کا بیان کرنے والا سیف تنہا شخص ہے کیونکہ دوسروں نے ان دوجگہوں کا کہیں نام تک نہیں لیا ہے چہ جائیکہ سیف کے بقول وہاں پر واقع ہوئے حوادث اور واقعات کے ذکر کی بات !!

طبری نے ان اماکن کے بارے میں سیف کی احادیث کواپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے اور اپنی روش کے مطابق عاصم کی رجز خوانی اور رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے ۔

حموی نے مقامات اور جگہوں کے نام کو افسانہ ساز سیف کی روایتوں سے نقل کیا ہے اوراس کے افسانوی سورمائوں کے اشعارورزم ناموں سے بھی استناد کیا ہے،پھر مقر کی بھی اسی طریقے سے تعریف کی ہے ۔اس سلسلے میں عاصم بن عمرو کے اشعار میں '' حیرة الروحاء ''کا اشارہ کرتے ہوئے حیرہ کاذکرکرتا ہے ،جب کہ ہماری نظرمیں ضرورت شعری کا تقاضا یہ تھاکہ سیف لفظ ''روحاء '' کو لفظ ''حیرہ''کے بعد لائے نہ کہ ']روحاء ''کو ''حیرہ''کے لئے اسم اضافہ کے طور پر لائے جیسا کہ حموی نے خیال کیا ہے َ

سیف کی روایات کا نتیجہ :

١۔ ''مقر'' نام کی ایک جگہ کا نام جعل کرکے اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرانا۔

٢۔ایرانیوں کے انوش جان نامی ایک سپہ سالار کی تخلیق ۔

٣۔فرضی اور خیالی جنگی ایام کی تخلیق جو تاریخ میں ثبت ہوئے ہیں ۔

٤۔ان اشعار کی تخلیق جو عربی ادبیات کی زینت بنے ہیں

٥۔عراق میں خالد کی خیالی فتوحات میں ایک اور فتح کا اضافہ کرنا۔

٦۔ اور آخر میں سیف کے خاندان تمیم سے تعلق رکھنے والے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کے افتخارات کے طور پر اس کی شجاعتوں ،اشعار اور کربلا کی فوجی چھاونی اور اسلحوں پر اس کی کمانڈ کا ذکر کرنا۔ ١

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

۹/۷۲; اسكى مشكلات۹/۱۲۰; اسكے آثار ۹/۷۱،۱۲۰; اسكے عوامل ۹/۲۴); خدا كى اطاعت ۹/۷۱، ۱۰/۳۵; ( اس كا دائمى ہونا ۹/۷۱; اسكى پاداش ۹/۷۲; اسكى تشويق ۹/۱۱۱; اسكے آثار ۹/۷۱)۱۰۹;اسكے عوامل ۹/۲۴;اس ميں تزلزل ۹/۱۱۷; دينى راہنماؤں كى اطاعت:(اس كا دائرہ كار ۹/۳۱); سختى كى حالت ميں اطاعت :(اس كا سبب ۹/۱۱۷ _ ۹/۱۲۰); صادقين كى اطاعت ۹/۱۱۹;عيسائي علماء كى اطاعت ۹/۳۱، ۳۲;غير خدا كى اطاعت ۹/۳۱; ممنوع اطاعت ۹/۳۱;ہدايت كرنے والوں كى اطاعت ۱۰/۳۵; يہودى علماء كى اطاعت ۹/۳۱، ۳۲

اطمينان: ر ك اولياء خدا ، شہدا، مجاہدين ، محمد(ص) ، موسى (ع) اور مو منين

اطمينان و سكون:اس سے محروم لوگ۹/ ۲۶; اس كا نزول ۹/۲۶; اسكے آثار ۹/۲۶

نيز رك: بہشت، جنگ، زكات، سختي، شب، غزوہ حنين،محمد(ص) ، مو منين اور نعمت اعتراف : ر ك اقرار

افشاء :آخرت ميں افشاء ہونا:(اس كا سخت ہونا ۹/۹۴_ اس كا نا خوش آئند ہونا ۹/۹۴)

افشاء كرنا جو حرام ہے ۹/۱۶نيز ر ك خدا اور محمد(ص)

افك : ر ك بہتان باندھن

اقتصاد:اقتصاد اور فكر و نظر۹/۶۰;اقتصادى ترقي: (اسكا پيش خيمہ ۹/۱۰۳); اقتصادى سياست: (اسكا ذمہ دار ۹/۵۸،۵۹، اسكا فلسفہ ۹/ ۱۰۳); اقتصادى مدد: (اسكے آثار ۹/۶۰) ; اقتصادى نظام : (اسكى اہميت ۹/۲۸)نيز رك اسلام اور حج

اقدار : ۹/۲۰، ۸۳،۱۰۰،۱۰۸،۱۱۷،۱۱۹،۱۲۸

اعلى اقدار ۹/۱۱۱; اقدار سے جاہل ہونا:(اسكے آثار ۹/۹۸); اقدار سے سوء استفادہ كرنا : (۹/۶۲، ۷۴، ۹۵،۱۰۷); اقدار كا معيار: ۹/۱۹، ۲۰، ۲۴، ۳۴، ۳۸، ۴۱، ۵۲،۵۳، ۵۴، ۷۹، ۸۱، ۹۳، ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۰۸، ۱۰۹، ۱۱۱، ۱۲۰; اقدار كو حاصل كرنا:(اس كا سبب ۹/۴۱; اسكى اہميت ۹/۹۹ ; ہميشہ رہنے والى اقدار كے حاصل كرنے كا آلہ۹/۱۱۱);اقدار كى حمايت كرنے كى قيمت ۹/۱۰۰;اقدار كى شناخت ۹/۱۱۲;اقدار كے خلاف منفى رويہ اپنانا ۹/۱۲۴; اقدار ميں سبقت كرنا ۹/۱۱۰;اقدار ميں مو ثر عوامل : ۹/۹۹;( انكا مذاق اڑانا ۹/۶۹ ; انكى ترويج ۹/۱۱۲; انكى حفاظت كرنے والے ۹/۱۱۲;منفى اقدار : (انكا مقابلہ ۹/۱۱۲)نيز ر ك ، تمايلات ، جاہليت ، مؤمنين اور منافقين

اقرار :اسلام كا اقرار :(اسكى اہميت ۹/۵; اسكے آثار ۹/۵،۱۱); حضرت محمد(ص) كى حقانيت كا اقرار ۹/۳۳;

۶۴۱

خدا تعالى كى امداد كااقرار ۱۰/۱۲;ربوبيت كا اقرار ۱۰/۸۸;عجز كا اقرار ۱۰/۱۲;قدرت خدا كا اقرار ۱۰/۱۲;كفر كا اقرار ۹/۷۴; گناہ كا اقرار ۹/۱۰۲ (اسكے آثار ۹/۱۰۲، ۱۰۴); ناپسنديدہ عمل كا اقرار ۹/۱۰۲

نيز ر ك انسان ، بت ، خود ، غزوہ تبوك ، فرعون ، گناہ گار لوگ اور منافقين اقوام :

اقوام كا انجام:(اس سے عبرت حاصل كرنا ۹/۷۰); كافر اقوام : (ان كا حق كو قبول نہ كرنا ۹/۷۰_ انكا ظلم ۹/۷۰_ انكا عذاب ۹/۷۰_ انكى ہلاكت ۹/۷۰_ انكى ہلاكت كے عوامل ۹/۷۰)//الحمد للہ رب العالمين : ر ك اذكار

الوہيت : ر ك عقيدہ ، عيسى (ع) اور مشركين

امام على (ع) :آپ(ع) كا ايمان ۹/۱۰۰; آپ(ع) كا برگزيدہ ہونا ۹/۳۲

امام على (ع) كا اظہار براء ت:(اس كا اعلان ۹/۲); امام على (ع) كى صداقت ۹/۱۱۹; امام على (ع) كى ولايت ۹/۲۳; امام على (ع) كے فضائل ۹/۱۹نيز ر ك آئمہ اور اطاعت

امام مہدى (ع) :آپ(ع) كا قيام ۹/۳۳;امام مہدى (ع) اور ثروت اندوز لوگ ۹/۳۴نيز ر ك آئمہ

امتحان :اس كا ذريعہ ۱۰/۸۵; اسكے موارد ۹/۱۶; امتحان كا فلسفہ ۹/۱۶،۱۲۶; جنگ كے ذريعے امتحان ۹/۱۶; جہاد كے ذريعے امتحان ۹/۱۱۷;سال ميں امتحان كى تعداد ۹/۱۲۶نيز ر ك خدا كى سنتيں ، ظالم، لوگ، منافقين اور مؤمنين

امتيں :امتوں كا ايك دوسرى كا جانشين بننا ۹/۳۹(اس كا سبب ۹/۳۹); امتوں كا دين ۱۰/ ۴۷ ;امتوں كا عاجز ہونا ۱۰/۴۹; (اسكى تقدير ۱۰/۴۹; اسكے عوامل ۱۰/۱۴) امتوں كا عذاب ۱۰/۱۳;امتوں كا ختم ہو جانا:۱۰/۴۹;امتوں كى بقا:(اسكے عوامل ۱۰/۱۴) ; امتوں كى حتمى اجل ۱۰/۴۹;امتوں كى حيات ۱۰/۴۹;(اسكى تقدير ۱۰/۴۹); امتوں كى ذمہ دارى ۱۰/۴۷;امتوں كى موت ۱۰/۴۹ ; امتوں كى ہلاكت ۱۰/۱۳;امتيں جو ختم ہوگئيں (انكے جانشين ۹/۶۹) ايك امت ۱۰/۱۹; گذشتہ امتيں (انكے كافر ۹/۶۹; انكے منافق ۹/۶۹)

امر بالمعروف :اس كا عام ہونا ۹/۷۱; اسكى اہميت ۹/۷۱،۱۱۲; اسكى پاداش ۹/۷۲; اسكے آثار ۹/۷۱نيز ر ك حقوق ، مجاہدين ، مو منين اور نيكي

امن : ر_ك بہشت ، حرمت والے مہينے،دشمن ، كفار//اموات : ر ك مردے

امور :تعجب آور امور ۹/۶۳، ۱۰/۲; ناپسنديدہ امور ۱۰/۷نيز ر ك ذكر

۶۴۲

اميد ركھنا:خدا كى ملاقات كى اميد ركھنا : (اسكے آثار ۱۰/۷)

خدا كے عطيات كى اميد ركھنا ۹/۵۹; خدا كے فضل كى اميد ركھنا ۹/۲۸،۵۹; زكات كے قبول ہونے كى اميد ركھنا ۹/۱۰۴; محمد(ص) كے فضل كى اميد ركھنا ۹/۵۹;ہدايت كى اميد ركھنا:(اسكى اہميت ۹/۱۸)نيز ر ك ابراہيم (ع) ، استغفار ، تربيت ، تزكيہ ، خوف ، گناہ گار لوگ اور مؤمنين

اميديں : ر ك آرزو

انبياء (ع) :انبياء آسمانى كتابوں ميں ۱۰/۹۴;انبياء اور سازشى لوگ ۱۰/ ۲۱;انبياء پر تہمت لگانا ۱۰/۷۴;انبياء كا اتمام حجت كرنا ۱۰/۱۳;انبياء كا بشر ہونا ۱۰/۹۴; انبياء كا حامى ۱۰/۲۱;انبياء كا علم :(اس كا محدود ہونا ۹/۱۱۴);انبياء كا قصّہ ۱۰/۹۴;انبياء كا كردار و نقش ۱۰/۲۱، ۷۵،۷۶;انبياء كا مطيع ہونا ۱۰/۷۲; انبياء كا معجزہ ۱۰/۷۴، ۷۶;انبياء كا مقام ۱۰/۷۲; انبياء كا ہدايت كرنا ۱۰/۷۴; انبياء كو جھٹلانا ۱۰/۷۴; (اس كا سبب ۱۰/۳۹; اس كا ظلم ہونا ۹/۷۰; اسكى سزا ۱۰/۳۹; اسكے آثار ۹/۷۰، ۱۰/۹۸) انبياء كو جھٹلانے والے ۱۰/۳۹،۷۴(انكا استكبار ۱۰/۹۸; انكا تجاوز كرنا ۱۰/۷۴; انكا عاجز ہونا ۱۰/۷۴;انكا كفر ۱۰/۹۸; انكا ليچڑپن ۱۰/۷۴; انكى بے عقلى ۱۰/۱۰۰; انكى پليدى كا زيادہ ہونا ۱۰/۱۰۰; انكى جہالت ۱۰/۱۰۰; انكى حق دشمنى ۱۰/۷۴; انكى نافرمانى ۱۰/۹۸; انكے دل پر مہر لگنا ۱۰/۷۴; يہ آسمانى كتابوں ميں ۱۰/۹۴);انبياء كى اطاعت نہ كرنا : (اسكے آثار ۱۰/۱۳);انبياء كى اقوام : (انكى تہمتيں ۱۰/۷۴; يہ اور آيات خدا ۱۰/۹۵ );انبيا كى بعثت ۱۰/۱۳، ۴۷(اس كا فلسفہ ۱۰/۱۳، ۳۹_ اسكے عوامل ۱۰/۴۷); انبياء كى تاريخ ۱۰/۱۳، ۴۷، ۷۴، ۷۵; انبياء كى تعليمات : (اسكى خصوصيات ۹/۷۰; ان سے استفادہ كرنا ۱۰/۱۰۱;ان سے محروم لوگ ۱۰/۱۰۱،۱۰۲); انبياء كى تنبيہ :(اس سے بے اعتنائي كرنے كى سزا، ۱۰/۱۰۲); انبياء كى حقانيت ۱۰/۹۴ (اسكے دلائل ۱۰/۱۳،۷۴); انبياء كى ذمہ دارى :(اس كا دائرہ كار ۱۰/۷۴); انبياء كى رسالت ۱۰/۳۹، ۱۰۱;انبياء كى ظلم دشمنى ۱۰/۱۳، ۳۹;انبياء كى نجات ۱۰/۱۰۳;انبياء كى ہم آہنگى ۱۰/۳۹;انبياء كے مخالفين : (انكا انجام ۱۰/۳۹; انكا عذاب ۱۰/۳۹، ۴۷; انكا فسادپھيلانا ۱۰/۸۲; انكا مجرم ہونا ۱۰/۸۲; يہ تاريخ ميں ۱۰/ ۳۹); انبياء كے مقابلے ميں آنا:(اس كا سبب ۱۰/۸۳; اس كا فساد ہونا ۱۰/۸۱)انبياء كے واضح دلائل ۹/۷۰_ ۱۰/۱۳; ( انكو جھٹلانا ۹/۷۰); موسى (ع) سے پہلے كے انبياء ۱۰/۷۴، ۹۴;نوح (ع) كے بعد كے انبياء ۱۰/ ۷۴، ۷۵، ۹۴

نيز ر ك دشمنى ، ظالم لوگ ، مشركين مكہ اور انبياء ميں سے ہر ايك//انتظار :اسكى اہميت ۱۰/۲۰

۶۴۳

انتقام لينا:ر ك منافقين//انجام :اچھاانجام : (اسكى اہميت ۹/۵۵، ۸۵)

برا انجام ۹/۲۶، ۷۳(اسكے عوامل ۱۰/۹۴)

(خاص موارد اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كئے جائيں )

انجام پر نظر ركھنا :اسكے عوامل ۹/۸۲

انجيل :اس كا كردار ۹/۱۱۱; انجيل ميں خدا كے وعدے ۹/۱۱۱نيز ر ك قرآن

انحراف :اس كا سبب ۹/۲۴; اسكے عوامل ۹/۳۴; اسكے موارد ۹/۲۴،۳۰; اسكے موانع ۹/۹۴

نيز ر ك دين ، شہر نشين ، صراط مستقيم ، عيسائي علما ، گمراہى ، معاہدہ ، منافقين اور يہودى علم اندھے: رك تشبيہات

انسان :انسان اور قرآن ۱۰/۱۰۸ ;انسان اور مفيد چار پائے ۱۰/۲۲;انسان خطرہ ٹلنے كے بعد ۹/۲۳; انسان سختى ميں ۹/ ۱۲;انسان كا اختيار ۱۰/۷۰، ۹۹، ۱۰/۳، ۴۴، ۹۶، ۹۹، ۱۰۰، ۱۰۸;انسان كا استبداد ۱۰/۲۳;انسان كا استقرار : (اسكے زمين ميں استقرار كا فلسفہ ۱۰/۱۴);انسان كا اقرار ۱۰/۱۲;انسان كا امتحان : (اسكى جگہ ۱۰/۱۴); انسان كا انجام و عاقبت۹/۳۹، ۷۰، ۸۳_ ۱۰/۴، ۸، ۲۷;انسان كا انجام ۹/۹۴،۱۰۵، ۱۰/۴، ۳۰، ۵۶;انسان كا باطن : (اسكے ظاہر ہونے كے عوامل ۹/۴۲);انسان كا تجاوز كرنا ۱۰/۲۳;انسان كا ختم ہونا : (اسكے عوامل ۱۰/۱۱; اسكے موانع ۱۰/۱۹); انسان كا خدا كے ساتھ عہد ۱۰/۲۲ ; انسان كا عاجز ہونا ۱۰/۳۸، ۴۹، ۵۰ ، ۵۳، ۱۰۰; انسان كا عمل ۹/۱۶، ۱۰۵;انسان كا غريزہ: (انسان كا سب سے طاقتور غريزہ ۱۰/۵۴);انسان كا كردار ۱۰/۴۴،۹۵ ;انسان كا مال : (اسكى قدر و قيمت ۹/۱۱۱); انسان كا مالك ۱۰/۳۰;انسان كا محشور ہونا ۱۰/۲۸; انسان كا مددگار ۹/۱۱۶; انسان كا مربى ۱۰/۲، ۳، ۱۵، ۱۹، ۳۲، ۵۷، ۶۷; انسان كا مولى ۹/۵۱، ۱۰/۳۰; انسان كا ولى ۹/۱۱۶; انسان كو تنبيہ ۹/۹۴، ۱۰۵; انسان كى اپنے سے محبت ۱۰/۵۴; انسان كى اجتماعى زندگى ۱۰/۱۹; انسان كى اخروى تفتيش ۹/۹۴;انسان كى اخروى زندگى ۹/۷۲; انسان كى بے صبرى ۱۰/۱۱; انسان كى تاريخ ۱۰/۱۹; انسان كى تقدير ۹/۵۱; انسان كى جان : (اسكى قدر و قيمت ۹/۱۱۱);انسان كى جہالت ۹/۴۱،۱۰۵; انسان كى خصوصيات ۹،۷۵، ۱۰/۴۴ ، ۹۹، ۱۰۸; انسان كى خلقت : (اس كا مبدا ۱۰/۴); انسان كى دعا ۱۰/۱۲; انسان كى ذمہ دارى ۹/ ۳۱، ۹۴; ۱۰/۶۱(اس كا مختلف ہونا ۹/۱۲۰); انسان كى روزى ۱۰/۳۱، ۵۹;انسان كى شرعى ذمہ دارياں ۹/۱۱۱;انسان كى صفات ۱۰/۱۱، ۲۱، ۲۳; انسان كى عجلت ۱۰/ ۱۱;انسان كى عہد شكنى ۱۰/۲۳;

۶۴۴

انسان كى غذا ۱۰/ ۲۴;انسان كى غفلت ۹/۱۰۵; انسان كى كافر انہ روش ۱۰/۱۲، ۲۱، ۲۳;انسان كى نيت ۹/۸، ۷۸;انسان كى ہدايت ;(اسكى اہميت ۹/۷۴; اسكے عوامل ۱۰/۲۵ );انسان كى ہدايت ۱۰/۲۵;انسان كے تمايلات ۹/۵۹; ۱۰/۵۴; انسان كے تمايلات ۹/۷۲ ، ۱۱۶ ;(ان سے استفادہ كرنا ۹/۸۹);انسان كے حقوق ۹/۳۴; انسان كے حواس : ( انكا مالك ۱۰/۳۱; انكى اہميت ۱۰/۳۱;ان ميں سے سب سے اہم ۱۰/۳۱); انسان كے راز ۹/۷۸; انسان كے فضائل ۱۰/۶۷;انسان كے مصالح : (انكى اہميت ۹/۴۱، ۷۴); انسان كے وجودى پہلو ۱۰/۹۲(اس كا جسمانى پہلو ۱۰/۹۲; اسكا روحى پہلو ۱۰/۹۲); انسان محشر ميں (اس ميں اسكى آگاہى ۱۰/۳۰); انسان ممتاز ۹/۲۰; ناشكرے انسان خطرے كے وقت ۱۰/۲۲

انصار :انصارپر خدا كى رحمت ۹/۱۱۷، انصار سے راضى ہونا ۹/۱۰۰;انصار كا ايمان ،(اسكے مرتبے ۹/ ۱۱۷); انصار كا راضى ہونا ۹/۱۰۰;انصار كا عمل : (انكے عمل كى قدر و قيمت ۹/۱۰۰);انصار كو بشارت ۹/۱۰۰;انصار كى پيروى : (اسكى قدر و قيمت ۹/۱۰۰);انصار كے فضائل ۹/۱۱۷ ;انكا مقام ۹/۱۰۰; انكے درجے۹/۱۰۰

نيز رك تابعين، غزوہ تبوك اور مہاجرين

انفاق :اسكے آثار ۹/۹۹، ۱۰۴; اسكے احكام ۹/۳۴;انفاق اپنى رغبت كے ساتھ ۹/۷۹;انفاق بے نيازى كى حالت ميں ۹/۷۹;انفاق راہ جہاد ميں ۹/۳۴ ;انفاق فقر كى حالت ميں ۹/۷۹;انفاق كا ترك كرنا : (اسكے آثار ۹/۶۷، اسكى حرمت ۹/۳۴، اسكى سزا ۹/۳۴); انفاق كا قبول ہونا: (اسكے شرائط ۹/۵۴);انفاق كى اہميت ۹/۶۷;انفاق كى پاداش ۹/۱۲۱; انفاق كى قدر و قيمت ۹/۳۴، ۷۹(اس كا معيار ۹/۷۹، ۹۹); انفاق كے مراتب ۹/۷۹;انفاق ميں اخلاص: (اسكے عوامل ۹/۹۹);انفاق ميں بے رغبتى : ۹/۵۴(اسكى سرزنش ۹/۵۴);اسكے آثار ۹/۵۴، انفاق نہ كرنے والے : (ان كا عذاب ۹/۳۴، انكى كمزوري۹/۹۸)بے قدر و قيمت انفاق ۹/۵۳; واجب انفاق ۹/۳۴

نيز رك انفاق كرنے والے ، باديہ نشين لوگ، توبہ كرنے والے ، منافقين اور مؤمنين

انفاق كرنے والے :انكا شكريہ ادا كرنا ۹/۹۹; انكا مذاق اڑانا ۹/۷۹; انكو طعنہ مارنا ۹/۷۹; انكى پاداش ۹/۱۲۱; انكى حمايت ۹/۷۹; انكے ساتھ وعدہ ۹/۹۹، انكے لئے دعا ۹/۹۹//اوّاہ :اس سے مراد ۹/۱۱۴

اولاد :اسكى جذابيت ۹/۵۵;اولاد كى تاثير ۹/۵۵، ۸۵

۶۴۵

اولاد كى كثرت : (اسكے آثار ۹/۵۵، ۸۵)نيز رك تمايلات ،خدا ، عذاب ، كفار ، محبت اور منافقين

اولياء خدا :انكا اطمينان ۱۰/۶۲;انكا ايمان ۱۰/۶۳;انكا تكامل ۱۰/۶۳;انكى صفات ۱۰/ ۶۳; انكى موت ۱۰/۶۴; انكے فضائل ۱۰/۶۲، ۶۴;اولياء خدا سے مراد ۱۰/۶۲;اولياء خدا كا تقوا ۱۰/۶۳;اولياء خدا كا مقام : (اس مقام تك پہنچنے كى اہميت ۱۰/۶۴; اس مقام كا پيش خيمہ ۱۰/۶۳;اس مقام كى اہميت ۱۰/۶۴);اولياء خدا كو بشارت ۱۰/۶۴:(انكو اخروى بشارت۱۰/۶۴; انكو دنيوى بشارت ۱۰/۶۴) ;اولياء خدا كى شخصيت ۱۰/۶۲

اولياء خدا كى كاميابى : (اسكے عوامل ۱۰/۶۴); يہ اور خوف ۱۰/۶۲، يہ اور سختياں ۱۰/۶۲;يہ اور غم و اندوہ ۱۰/۶۲

ائمہ (ع):انكى شفاعت ۹/۹۱; انكے اختيارات ۹/۱۰۳نيز رك امام على (ع) ، امام مہدى (ع) اور اہل بيت (ع)

اہانت :رك اسلام اور دين

اہل بيت(ع) :انكے دشمن ۱۰/۴۰نيز رك آئمہ (ع)

اہل عذاب: رك عذاب

اہل قبور:اہل قبور كى زيارت :( اس كا جائز ہونا ۹/۸۴; يہ صدر اسلام ميں ۹/۸۴)نيز رك محمد(ص)

اہل كتاب :ان سے جزيہ لينا ۹/۲۹; انكا كفر ۹/۲۹ ;انكى نافرماني۹/۲۹;اہل كتاب كا ايمان : (اس كا بے قدر و قيمت ہونا ۹/۲۹);اہل كتاب كى شرعى ذمہ دارياں ۹/۲۹;يہ حكومت اسلامى ميں ۹/۲۹نيز رك جہاد، عيسائي ، مجوسى اور يہودي

اہل مدين :انكا انجام ۹/۷۰;انكى آبادى ; انكى آبادى كى كثرت ۹/۷۰; انكے مادى وسائل ۹/۷۰; اہل مدين سے عبرت حاصل كرنا ۹/۷۰

اہل مصر :يہ اور فرعون كا جسم ۱۰/۹۲

اہل مكہ :رك محمد(ص)

ايثار :اس كا دعوى ۹/۸۳;ايثار غير راہ خدا ميں : (اس كا نقصان ۹/۱۱۱);ايثار كا قبول ہونا : (اسكى شرائط ۹/۱۱۱);جان كا ايثار: (اس كا ناخوش آئند ہونا ۹/۸۱;اسكى پاداش ۹/۱۱۱; اسكے آثار ۹/۱۱۱; اسكے عوامل ۹/۱۱۱);مال كا ايثار: (اس كا خوش آئند نہ ہونا ۹/۸۱; اسكى پاداش ۹/۱۱۱; اسكے آثار ۹/۱۱۱; اسكے عوامل ۹/۱۱۱)نيز رك مؤمنين

۶۴۶

ايثار كرنے والے :انكا مذاق اڑانا ۹/۷۹;انكى دلجوئي كرنا ۹/۷۹/ايك امت : ر ك امتيں

ايمان:آخرت پر ايمان ۹/۴۴: (اسكى اہميت ۹/۱۸، ۱۹; اسكے آثار ۹/۴۴)

اسكے آثار; ۹/۱۶، ۲۰،۲۱، ۶۲، ۷۱، ۷۲، ۸۸، ۱۱۱، ۱۱۹، ۱۲۰، ۱۲۳، ۱۰/۹، ۶۳، ۶۴، ۸۴، ۸۷، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۳ ; (اسكے اجتماعى آثار ۹/۷۱; اسكے اخروى آثار ۱۰/۲; اسكے انفرادى آثار ۹/۷۱); ايمان اور عمل ۹/۲۰، ۸۸، ۱۰/۹; ايمان اور فقر كا قلع قمع كرنا ۹/۷۱;ايمان اور نيك عمل ۹/۷۲; ايمان پر صبر كرنا: (اسكى پاداش ۹/۱۱۷; اسكى قدر و قيمت ۹/۱۱۷; اسكے آثار ۹/۱۱۷);ايمان سختى كى حالت ميں ۹/۱۱۷; ايمان سے محروم لوگ: ۱۰/۳۳، ۸۸، ۹۶، ۹۷، ۹۸، ۱۰۱،۱۰۲;(انكا عذاب ۱۰/۱۰۲);ايمان سے محروم ہونا :(اس كا سرچشمہ ۱۰/۹۶; اس كے آثار ۱۰/۱۰۲); ايمان عذاب كے وقت ۱۰/۵۱، ۸۸، ۹۷، ۹۸; ايمان كا پيش خيمہ ۱۰/۳۲;ايمان كا تظاہر كرنا : (اسكے عوامل ۹/۵۶);ايمان كا زيادہ ہونا:(اسكى نشانياں ۹/۱۲۴; اسكے عوامل ۱۰/۶۳);ايمان كا ظاہر ہونا : (اس كا سبب ۹/۴۵);ايمان كا كمزور ہونا : (اسكى نشانياں ۹/۱۶) ; ايمان كا مركز: ۱۰/۷۴، ۸۸; ايمان كى اہميت ۹/۵۵، ۱۰/۹ايمان كى پاداش : ۹/۲۱;ايمان كى حفاظت كرنا: (اسكى اہميت ۹/۸۵);ايمان كى حقيقت ۹/۲۳;ايمان كى دعوت ۱۰/۵۱، ۷۵;ايمان كى شرائط ۹/۱۳; ايمان كى قدر و قيمت ۹/۲۰، ۱۰/۸۴;ايمان كى نشانياں ۹/۱۶، ۱۸، ۴۴، ۹۰، ۹۴، ۱۰/۸۴;ايمان كے اسباب ۱۰/۱۰۱; ايمان كے مراتب: ۹/۱۱۹، ۱۲۴، ۱۰/۶۳;ايمان كے موانع ۱۰/۱۰۱;ايمان ميں اختيار ۱۰/۹۸; ايمان ميں پيش قدم لوگ: (انكى اخروى پاداش ۹/۱۰۰; انكے فضائل ۹/۱۰۰; انكے مادى وسائل ۹/۱۰۰; انكے معنوى وسائل ۹/۱۰۰) ايمان ميں سبقت كرنا : (اسكى اہميت ۹/۱۰۰; اسكى قدر و قيمت ۹/۱۰۰);ايمان ميں مجبور كرنا ۱۰/۹۸ بے ايمان لوگ: (انكے رنج كاسبب ۹/۸۵); بے ايماني: (اسكى سزا ۱۰/ ۱۰۲;اسكى نشانياں ۹/۴۵، ۵۴، ۶۲; اسكے آثار ۹/۴۵، ۴۶; اسكے ظاہر ہونے كا سبب ۹/۴۵);بے فائدہ ايمان : ۱۰/۵۱، ۸۸، ۹۰، ۹۷، ۹۸، ۹۹ ;تقدير پر ايمان: (اسكے آثار ۹/۵۱); توحيد پر ايمان ۹/۲، ۳; (توحيد پر ايمان كے آثار ۱۰/۱۰۷); جھوٹا ايمان : (اسكى علامتيں ۹/۹۰);خدا پر ايمان ۹/۴۴، ۱۱۹ ; (اسكى اہميت ۹/۱۸، ۱۹، ۹۹; اسكے آثار ۹/۱۸، ۴۴، ۵۱، ۵۴، ۸۶، ۹۹); خدا كى پاداش پر ايمان ۹/۱۲۰;قابل قبول ايمان ۱۰/۹۸; قابل قدر ايمان ۱۰/۹۸;قرآن پر ايمان ۱۰/۱۰۸; قيامت پر ايمان : (اسكى اہميت ۹/۹۹; اسكے آثار ۹/۱۸، ۹۹، ۱۰/۷);محمد(ص) پر ايمان : ۹/۱۱۹(اسكى اہميت ۱۰/۵۸; اسكے آثار ۹/۵۴);معاد پر ايمان : ۱۰/۴۵; (اسكے آثار ۹/۵۱); ولايت خدا پر

۶۴۷

ايمان ۹/۵۱خاص موارد اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كيجئے

''ب''

باپ : ر ك دوستى اور محبت

باد: رك ہو//بادبانى كشتي:

اس كا آسيب پذير ہونا ۱۰/۲۲; اسكى حركت كا سرچشمہ ۱۰/۲۲; اسكے ذريعہ سفر ۱۰/۲۲; يہ صدر اسلام ميں ۱۰/۲۲

باديہ نشين لوگ :انكا اجازت طلب كرنا ۹/۹۰; انكا اخلاص ۹/۹۹; انكا انفاق ۹/۹۸، ۹۹;انكا تقرب ۹/۹۹; انكا غضب ۹/۹۸; انكا كفر ۹/۹۷; انكى آرزو ۹/۹۸; انكى خصوصيات ۹/۹۷; انكى ذمہ دارى ۹/۹۷; انكى سوچ۹/۹۸;انكى كمزورى ۹/۹۸; انكى منافقت ۹/۹۷،۱۰۱; انكى ناخشنودى ۹/۹۸; باديہ نشينوں كا بہانہ بنانا ۹/۹۰;باديہ نشينوں كى بدخواہى : (اس كا وقوع پذير ہونا ۹/۹۸; اسكے آثار ۹/۹۸ );يہ اور انفاق ۹/۹۸; يہ اور جہاد ۹/۹۰; يہ اور زكات ۹/۹۸; يہ اور صدقات ۹/۹۸; يہ اور ماليات ۹/۹۸; يہ اور محمد(ص) ۹/۹۸; يہ اور محمد(ص) كى دعا ۹/۹۹نيز رك تشبيہات ،جزيرة العرب اور مو منين

باديہ نشينى :اسكے آثار ۹/۹۷نيز رك باديہ نشين لوگ اور جزيرة العرب

بارش:اس كا برسنا ۱۰/۲۴; اس كا سرچشمہ ۱۰/۲۴; اسكى اہميت ۱۰/۲۴

باطل :باطل كا كردار ۱۰/ ۳۲; باطل كو واضح كرنا(اسكى اہميت ۹/۷۰); باطل كے خلاف موقف اپنانا ، ۹/۱۰۸; باطل كے موارد ۱۰/۳۳نيز رك اظہار براء ت اور حق

باطل معبود:انكا حشر ۱۰/۲۸; يہ قيامت ميں ۱۰/۲۸نيز ر ك : مشركين اور نوح (ع)

بت:انكا آخرت ميں اقرار ۱۰/۲۹; بتوں كا بات كرنا : (انكا قيامت ميں بات كرنا ۱۰/۲۸، ۲۹ ; انكا مشركين كے ساتھ بات كرنا ۱۰/۲۸);بتوں كا شعور : (انكا قيامت ميں شعور ۱۰/۲۸، ۲۹);بتوں كى شفاعت ۱۰، ۱۸;بتوں كے گواہ ۱۰/۲۹; يہ اور توحيد كا اقرار ۱۰/۲۹; يہ اور علم خدا كا اقرار ۱۰/۲۹; يہ قيامت ميں ۱۰/۲۸، ۲۹

نيز رك بت پرست لوگ ، بت پرستى ، عقيدہ اور مشركين

۶۴۸

بت پرست لوگ : ۱۰/۳، ۲۹، ۳۴، ۳۵، ۷۱

بت پرستى :اس كا باطل ہونا ۱۰/۳۳; اس كا سرچشمہ ۱۰/۳; اس كا غير منطقى ہونا ۱۰/۳۴; اسكى گمراہى ۱۰/۳۲; اسكى مذمت ۱۰/۳۲نيز رك بت پرست لوگ، جاہليت ، قوم نوح، مشركين اور نوح(ع)

بخشش:اس سے محروم لوگ ۹/۸۰; اس كا سبب ۹/۹۹، ۱۰۲;يہ جنكے شامل حال ہے ۹/۱۱۸

(خاصموارد اپنے موضوع ميں تلاش كئے جائيں )

بخشش: رك عفو

بخل:اس كا گناہ ۹/۷۷; اسكى سزا ۹/۷۷; اسكے آثار ۹/۷۷نيز رك : بخيل لوگ، ثعلبہ بن حاطب، صدقات اور منافقين

بخيل لوگ : ۹/۶۷، ۷۹

بدخواہى :رك اسلام ،باديہ نشين لوگ ، منافقين اور مؤمنين

بدعت :اس كا حرام ہونا ۱۰/۵۹; اس كا ناشكرى ہونا ۱۰/۶۰; اسكے آثار ۱۰/۶۹; اسكے موارد ۱۰/۵۹، ۷۰

نيز رك : بدعت گھڑنے والے لوگ، عيسائي علما اور يہودى علم

بدعت گھڑنے والے لوگ:انكا گناہ ۱۰/۲۷; انكا محروم ہونا ۱۰/۶۹; انكو دھمكى ۱۰/۶۰

برابر كا بدلہ: رك ادلے كا بدلہ

برائت : رك اظہار براء ت اور تبرّ

برائي :برائي كاحكم دينا :( اس كا جرم ۹/۶۷; اس كا فسق ہونا ۹/۶۷;اس كے آثار ۹/۶۷)

بردبارى : رك صبر

برگزيدہ ہونا: رك چناؤ

برہان نظم ۱۰/۵

بڑے لوگ:بڑے لوگوں كى سازش ۱۰/۲۱; صدر اسلام كے بڑے لوگ; (يہ اور حضرت محمد (ص) ۱۰/۲۱; يہ اور قرآن ۱۰/۲۱)

بزدل لوگ:انكى نشانياں ۹/۸۷

۶۴۹

بسيج: رك جہاد،غزوہ تبوك

بشارت:اخروى بشارت ۱۰/۶۴ (اس كا سبب ۱۰/۶۴; اسكے مستحقين ۱۰/۶۴);اسكے آثار ۱۰/۸۷

دنياوى بشارت ۱۰/۶۴:(اس كا سبب ۱۰/۶۴; اسكے مستحقين ۱۰/۶۴)

(خاص موارد اپنے موضوع ميں تلاش كيجئے)

بشر :رك انسان//بصيرت :بصيرت سے محروم لوگ ۱۰/۴۳; (انكى گمراہى ۱۰/۴۳)

بعثت : رك انبياء ، محمد(ص) (ص) ، موسى (ع) اور ہارون (ع)

بغاوت :رك تجاوزكرن//بلا:اسكے اسباب ۹/۹۸نيز رك آرزو

بندگي: رك عبوديت

بنى اسرائيل :ان پر ظلم ۱۰/۹۰;انكا اختلاف ڈالنا ۱۰/۹۳;انكا توسل ۱۰/۸۶; انكا توكل ۱۰/۸۵; انكو بشارت ۱۰/۸۷; انكو دھمكى ۱۰/۹۳;انكو نصيحت ۱۰/۸۵; انكى پاكيزہ روزى ۱۰/۹۳ ;انكى تاريخ ۱۰/ ۸۳، ۸۵، ۸۶، ۸۷، ۹۰، ۹۲، ۹۳; انكى توحيد ۱۰/۸۵; انكى خواہش ۱۰/۸۶; انكى دعا ۱۰/۸۵، ۸۶;انكى ذلت ۱۰/۸۵; انكى ذمہ دارى ۱۰/۸۷; انكى رہائش گاہ ۱۰/۹۳ ;انكى شرعى ذمہ دارى ۱۰/۸۷;انكى كمزورى ۱۰/۸۷;انكى ناشكرى ۱۰/۹۳; انكے دشمن ۱۰/۹۰;انكے مومن جوان ۱۰/۸۳; ان ميں اختلاف ۱۰/۹۳; ان ميں حقوق پر ڈاكہ ڈالنا ۱۰/۹۳; بنى اسرائيل اور نماز برپا كرنا ۱۰/۸۷; بنى اسرائيل كا ايمان ۱۰/۸۳; بنى اسرائيل كا دريا سے عبور كرنا ۱۰/۹۰(عبور كرنے كا وقت ۱۰/۹۲); بنى اسرائيل كا قبلہ ۱۰/۸۷;بنى اسرائيل كى استقامت : (اسكے آثار ۱۰/۹۰)بنى اسرائيل كى زندگي:(انكى زندگى فرعون كے بعد ۱۰/۹۳; انكى زندگى فرعون كے زمانے ميں ۱۰/۹۳); بنى اسرائيل كى سرزنش ۱۰/۹۳; بنى اسرائيل كى محروميت ۱۰/ ۸۷; بنى اسرائيل كى مشكلات ۱۰/۸۵، ۹۳;بنى اسرائيل كى نجات ۱۰/۸۷،۹۰;(اس كا سبب ۱۰/۸۷; اسكے عوامل ۱۰/۹۰);بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱۰/۹۳;بنى اسرائيل كے بڑے لوگ : (انكى اذيتيں ۱۰/۸۳; انكى دشمنى ۱۰/۸۳; يہ اور بنى اسرائيل ۱۰/۸۵); بنى اسرائيل كے مؤمنين ۱۰/۸۳(انكا خوف ۱۰/۸۳; انكا شكنجہ ۱۰/۸۳; انكى اذيت كے عوامل ۹/۸۳);بنى اسرائل مصر ميں ۱۰/۸۷(وہاں پر انكى ذلت ۱۰/۸۷; وہاں پرانكى مشكلات ۱۰/۸۷); يہ اور تورات ۱۰/۹۳ ; يہ اور فرعون ۱۰/۸۵; يہ اور فرعون كے شكنجے ۱۰/ ۸۵; يہ اور كفار ۱۰/۸۶; يہ اور كفار سے نجات ۱۰/۸۶; يہ اور گھر تعمير كرنا ۱۰/۸۷;يہ قيامت ميں ۱۰/۹۳ نيز ر ك موسى اور ہارون

۶۵۰

بنى ہاشم:انكو صدقہ دينا ۹/۶۰

بوڑھے لوگ:يہ اور جہاد ۹/۸۳

بہانے بنانا:ر ك باديہ نشين لوگ ، جہاد ، شرعى ذمہ دارى ، كفار ، مشركين اور منافقين

بھائي: رك دوستى اور محبت

بھائي چارہ : رك مسلمان

بہتان باندھنا:اس كا ظلم ہونا ۱۰/۱۷; اسكى اخروى سزا ۱۰/۶۰; اسكے آثار ۱۰/۶۹، ۷۰;اسكے موارد ۱۰/۵۹، ۶۰، ۶۹; خدا پر بہتان باندھنا۹/۳۰، ۱۰/۱۷، ۳۰،۶۸نيز ر ك عيسائي ، قرآن ، محمد(ص) (ص) ، مشركين ،يہود اور مؤمنين

بہرا : رك تشبيہات

بہشت :اس كا خير ہونا ۹/۸۹; اس كا ہميشہ رہنا ۹/۷۲، ۱۰۰; اسكى حوريں ۹/۸۸; اسكى دعوت ۱۰/۲۵; اسكے چشمے ۱۰/۹;اسكے درخت ۹/۷۲،۱۰۰; اسكے گھر ۹/۷۲;اس ميں آرام ۱۰/ ۲۵; اس ميں امن ۱۰/۲۵; اس ميں سلامتى ۱۰/۲۵; اس ميں ہميشہ رہنا ۹/۸۹،۱۰۰; اس ميں ہميشہ رہنے كا سبب ۹/۱۰۰، اس ميں ہميشہ رہنے والے ۱۰/۹، ۲۶; بہشت جاويد ۹/۲۱;بہشت عدن : ۹/۷۲(اس سے مراد ۹/۷۲; اسكى فضيلت ۹/۷۲); بہشت كا وعدہ ۹/۷۲،۱۱۱; بہشت كى بشارت ۹/۱۰۰، ۱۱۱; بہشت كى پاداش ۹/۱۱۱; بہشت كى خصوصيات ۱۰/۲۵;بہشت كى نعمتيں ۹/۲۱، ۸۸، ۸۹، ۱۰۰، ۱۰/۹(اسكى مادى نعمتيں ۹/۷۲; اسكى معنوى نعمتيں ۹/۷۲;اسكى نعمتوں كى خصوصيات ۹/۲۱،۷۲; انكے مرتبے ۹/۷۲; ان نعمتوں كا دائمى ہونا ۹/۲۱،۱۰۰);بہشت كى نہريں ۹/۸۹، ۱۰۰(انكا متعدد ہونا ۹/۱۰۰); بہشت كے باغات : ۹/۲۱، ۷۲، ۸۹، ۱۰/۹ (ان كا متعدد ہونا ۹/۱۰۰، ۱۰/۹ ; ان كى خصوصيات ۹/۲۱; ان كى قدرو قيمت ۹/۲۱); بہشت كے موجبات ۹/۲۱، ۷۲، ۸۹، ۱۰۰، ۱۱۱; جنت كى لذتيں : (بہترين لذت ۱۰/۱۰; مادى لذتيں ۹/۷۲; معنوى لذتيں ۹/۷۲);( انكا متعدد ہونا ۹/۱۱۰، ۱۰/۹; انكى خصوصيات ۹/۲۱; انكى قدر و قيت ۹/۲۱)نيز ر ك بہشتى لوگ اور مؤمنين بہشتى لوگ ۹/ ۲۲، ۸۹، ۱۰۰، ۱۱۱، ۱۱۲، ۱۰/۹، ۲۶انكا سلام ۱۰/۱۰; انكى حمد ۱۰/۱۰; انكى خواہشيں ۱۰/۱۰; انكى سلامتى ۱۰/۱۰;انكے اذكار ۱۰/۱۰; انكے ليئے خدا كے عطيئے ۱۰/۱۰; بہشتى لوگوں سے راضى ہونا ۹/۷۲; بہشتى لوگوں كى دعا ۱۰/۱۰(اس كا آغاز ۱۰/۱۰; اس كا اختتام ۱۰/۱۰); بہشتى لوگوں كى لذتيں :(انكى بہترين لذتيں ۹/۷۲); بہشتى

۶۵۱

لوگوں كى نعمتيں (انكى بہترين نعمتيں ۹/۷۲); يہ اور تسبيح خدا ۱۰/۱۰

بيت المال :اسكى تقسيم ۹/۵۹نيز ر ك محمد (ص) اور منافقين

بيزارى : ر ك اظہار براء ت

بيگانہ لوگ :انكے ساتھ رابطہ ۹/۱۶; انكے ساتھ رابطے كا حرام ہونا ۹/۱۶; انكے سامنے راز فاش كرنا ۹/۱۶

بيمار لوگ :انكا معذور ہونا ۹/۹۱

بينائي :اسكى اہميت ۱۰/۳۱

بے نيازى :اس كا سرچشمہ ۹/۷۴; اسكے آثار ۹/۷۴نيز ر ك خدا اور مؤمنين

''پ''

پاداش:اسكے مراتب ۹/۶۹;پاداش اخروى : (اسكا سبب۱۰/۴،۸; اسكى قدر وقيمت ۹/۶۹; اسكے مراتب ۹/۶۹; اسكے مراتب ۹/۷۲، ۱۰/۲۶، اس ميں عدل و انصاف ۱۰/۴) پاداش كا زيادہ ہونا: پاداش اخروي; پاداش كا زيادہ ہونا ;پاداش كے مراتب ...; پاداش ميں سرعت ۱۰/۱۱; پاداش ميں مساوات ۹/۷۱،۷۲; دوگنى پاداش; عظيم پاداش ۹/۲۲;(اسكے عوامل ۹/۱۱۷، ۱۲۱); پاداش ميں مساوات ۹/۷۱، ۷۲; دوگنى پاداش ۱۰/۲۶; (اس سے مراد ۱۰/۲۶; اسكى قدر و قيمت ۱۰/۲۶);عظيم پاداش ۹/۲۲ ; پاداش كے مراتب ۹/۲۲،۱۱۷،۱۲۱; پاداش ميں سرعت ۱۰/۱۱

(خاص موارد اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كيجئے)

پارسا لوگ: ر ك متقين//پارسائي : ر ك تقو

پاك و پاكيزہ لوگ:انكى ہم نشينى ; (انكى ہمنشينى كى قدر و قيمت ۹/۱۰۸) ; انكے فضائل ۹/۱۰۸

پاكيزگى :اس كا سبب ۹/۱۰۳، ۱۰۸; اسكى اہميت ۹/۱۰۸; اسكے آثار ۹/۱۰۳، ۱۲۵نيز ر ك پاك و پاكيزہ لوگ

پانى :اس كا اثر ۱۰/۲۴

۶۵۲

نيز ر ك تمايلات

پانى پلانا: رك حاجى اور قياس

پائدارى : ر ك استقامت

پردہ چاك كرنا : ر ك افشا كرن

پرستش : ر ك عبادت

پست حوصلہ :اسكى علامتيں ۹/۸۷

پشيمانى :بے ثمر پشيمانى ۱۰/۵۱; پشيمانى كو چھپانا ۱۰/۵۴; عذاب كے وقت پشيمانى ۱۰/۵۱، ۵۴نيز ر ك ظالم لوگ ، گناہ اور مشركين

پليد لوگ : ۹/۱۷،۲۸; ۱۰/۱۰۰

انكا انجام ۹/۹۵; يہ جہنم ميں ۹/۹۵

پليدى :اس سے اجتناب ۹/۹۵; اس كا مقابلہ ۹/۹۵; اسكى نشانياں ۹/۹۵، ۱۲۵; اسكے آثار ۹/۱۲۵; اسكے عوامل ۹/۲۸، ۱۰۳، ۱۰/۱۰۰نيز ر ك پليد لوگ ، كفار ، مشركين اور منافقين

پناہ لينا:اسكے احكام ۹/۶نيز ر ك پناہ لينے والے اور كفار

پناہ لينے والے :انكا امن ميں ہونا ; (انكے امن كى حفاظت ۹/۶)

پناہ مانگنا:خدا كى پناہ مانگنا ۹/۱۱۸; خدا كى پناہ مانگنے كا سبب ۹/۱۱۸; خدا كى پناہ مانگنے كے آثار ۹/۱۱۸نيز ر ك غزوہ تبوك

پند : ر ك عبرت

پودے:انكا اگنا: (اسكى اہميت ۱۰/۲۴، اسكے عوامل ۱۰/۲۴); انكا مختلف قسم كا ہونا ۱۰/۲۴; انكى اہميت ۱۰/۲۴; انكے فوائد ۱۰/۲۴; ان ميں مركب چيزيں ۱۰/۲۴//پہچان: رك شناخت

پہلے پہلے انسان :انكا دين ۱۰/۱۹; انكا دينى اختلاف ۱۰/۱۹; انكى اجتماعى زندگى ۱۰/۱۹;انكے مشركين ۱۰/۱۹; انكے موحدين ۱۰/۱۹; ان ميں خدا شناسى ۱۰/۱۹

پيغمبر اسلام (ص) : ر ك محمد(ص)

پيكار : ر ك جنگ اور جہاد//پيمان : ر ك عہد

۶۵۳

''ت''

تابع:غير خدا كا تابع ہونا۱۰/۳۵ (اسكى مذمت ۱۰/۵۳)

تابعين:ان سے راضى ہونا ۹/۱۰۰;انكو بشارت ۹/۱۰۰; انكى اخروى پاداش ۹/۱۰۰; انكے فضائل۹/۱۰۰نيز رك انصار او ر مہاجرين(نقل كى جانے والى تاريخ كے موارد اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كئے جائيں )

تاريخ:تاريخ سے عبرت حاصل كرنا ۹/۶۹،۷۰(اسكى اہميت ۹/۷۰);تاريخ كا كردار ۱۰/۱۳;تاريخ كا نقل كرنا : (اسكے فائدے ۹/۷۰); تاريخ كى تبديلياں :(انكا سرچشمہ ۱۰/۱۳);تاريخ كى شناخت : (اسكے آثار ۱۰/۷۳)

۹ ہجرى كے واقعات ۹/۲۸

تاليف قلب:اس كا سبب ۹/۶۰; اسكى اہميت ۹/۶۰

تبرا:آز رسے تبرّا ۹/۱۱۴; اسكى اہميت ۹/۱۱۴،۱۱۶; باطل سے تبرّا ۱۰/۴۱; جہنمى لوگوں سے تبرّا ۹/۱۱۳; خدا كے دشمنوں سے تبرا ۹/۱۶، ۱۱۴، ۱۱۶; شرك سے تبّرا ۱۰/۱۰۵،۱۰۶; محمد (ص) كے دشمنوں سے تبرّا ۹/۱۶; مشركين سے تبرّا ۹/۳، ۱۱۳،۱۱۴، ۱۰/۴۱( ان سے تبراّ كے اعلان كا وقت ۹/۳;مؤمنين كے دشمنوں سے تبرّا ۹/۱۶

نيز رك ابراہيم (ع) ، امام على (ع) ، حج ، خدا ، محمد (ص) اور مشركين

تبليغ:اسكى روش۱۰/۱۶،۸۴; اسكى شرائط ۹/۱۲۲،۱۰/۴۲; اس ميں آگاہى ۹/۱۲۲; اس ميں استقامت ۱۰/۷۲; اس ميں مہربانى ۱۰/۸۴; بے فائدہ تبليغ ۱۰/۴۲;تبليغ كا فلسفہ ۹/۱۲۲;تبليغ ميں صراحت : ۱۰/۱۰۴(اسكى اہميت ۱۰/۱۰۴)

نيز ر ك اسلام ، دين ، عيسائي ، قرآن ، محمد(ص) ، مشركين ، نوح(ع) اور يہودي

تبوك : ر ك غزوہ تبوك اور مدينہ

تثليث : ر ك عيسائيت

تجاوز كرنا :اسكے آثار ۹/۱۰_ ۱۰/۷۴; تجاوز كا نقصان : (اسكے آثار ۱۰/۲۳); تجاوز كرنے كا سبب ۱۰/ ۲۳

نيز ر ك انبياء ، انسان ، بنى اسرائيل ، رشتہ دار ، مشركين اور معاہدہ تجاوز كرنے والے ۹/۱۰، ۱۰/۷۴

انكا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۱۰/۷۴نيز رك رشتہ دار

تحريف : ر ك دين اور قرآن

۶۵۴

تحريك:اسكے عوامل ۹/۲۴،۲۷،۷۴،۱۰۵،۱۰/۱۰۶

تحقير : ر ك منافقين

تربيت:اسكى جگہ ۹/۱۰۸; اسكى روش۹/۷۰، ۱۱۱_ ۱۰/۲، ۱۰۳; اس ميں اميدوار رہنا ۹/۱۰۲; اس ميں بشارت ۱۰/۲، ۱۰۳; اس ميں پاداش ۹/۱۱۱; اس ميں تشويق ۹/۱۱۱; اس ميں ڈرانا ۱۰/۲،۱۰۳

ترقي:اسكے موانع ۱۰/۷۸

تزكيہ :اس كا سبب ۹/۱۰۳، ۱۱۲; اسكى اہميت ۹/۱۰۳ ،۱۰۵; اسكى جگہ ۹/۱۰۸; اسكے عوامل ۹/۸۲، ۱۰۳،۱۰۸; اس ميں اميدوار ہونا ۹/۱۰۲نيز ر ك محبت

تسبيح : ر ك بہشتى لوگ

تسلط چاہنا:اسكے آثار ۱۰/۸۳نيز رك فرعون

تشبيہات:اندھوں كے ساتھ تشبيہ ۱۰/۴۳; باديہ نشينوں كے ساتھ تشبيہ ۹/۹۷; بہروں كے ساتھ تشبيہ ۱۰/۴۲; بے عقلوں كے ساتھ تشبيہ ۱۰/۴۲; تاريك شب كے ساتھ تشبيہ ۱۰/۲۷

تصرفات :حرام تصرفات ۹/۳۴

تعدى كرنا : رك تجاوز كرنا اور ظلم كرن

تعصب :جاہليت كى رسوم پر تعصب(اسكے آثار ۱۰/۷۸)ناپسنديدہ تعصب ۱۰/۷۸

تعلم : ر ك محمد(ص)

تعليم : ر ك اسلام اور دين

تغذيہ: رك غذ/تفتيش : رك انسان ، محشر اور مشركين

تفرقہ : ر ك اختلاف/تفسير : ر ك احكام

تفقہ : ر ك دين

تفكر :تفكر كى نشانياں ۱۰/۲۴،۳۵; يتفكر كا سرچشمہ ۱۰/۲۴

عدم تفكر : (اسكى نشانياں ۱۰/۲۴)نيز ر ك مؤمنين

۶۵۵

تفويض :اسے مسترد كرنا ۱۰/۱۰۰

تقدير :ر ك انسان، ايمان، خدا، عقيدہ اور مؤمنين

تقرب :اس كا سبب ۹/۹۹; اسكى اہميت ۹/۹۹; اسكے عوامل ۹/۹۹،۱۰/۲نيز ر ك باديہ نشين لوگ ، مؤمنين اور مشركين

تقوى :اسكى اہميت ۹/۴، ۱۰۹،۱۲۳، ۱۰/۶۳، ۶۴;اسكے آثار ۹/۴، ۷، ۳۶، ۴۴، ۱۰۹، ۱۰/۶، ۶۳، ۶۴; بے تقوى لوگ:(انكى سزا ۹/۱۱۵، انكى گمراہى ۹/۱۱۵);بے تقوى ہونا : (اسكى نشانياں ۱۰/۳۱; اسكے آثار ۹/۱۱۹);تقوى كا تسلسل:(اسكے آثار ۱۰/۶۳); تقوا كا سبب ۱۰/۴۱; تقوى كى دعوت : ۹/۱۱۹; تقوا كى نشانياں ۹/۴،۷، ۴۴، ۱۲۳;تقوى كے عوامل ۹/۱۱۹نيز ر ك : ادارے ، اولياء خدا ،برابر كا جواب دينا ،عمل، قدر و قيمت كا اندازہ لگانا ، مسجد ، مسجد قبا اور مقابلہ

تكامل :اس كا سبب ۹/۱۰۳،۱۰۸; اسكى نشانياں ۹/۱۲۴; اسكے موانع ۹/۱۰۳نيز ر ك اولياء خدا ، مؤمنين اور جہان خلقت

تكبر :اس كا سبب ۱۰/۷۵; اسكے آثار ۱۰/۵نيز ر ك فرعون اور فرعونى لوگ

تمايلات :اسلام كى طرف تمايل:(اسكى اہميت ۹/۵);ان ميں مؤثر عوامل ۹/۹۹; اولاد كى طرف تمايل ۹/۸۵; برتر قوت كى طرف تمايل ۹/۱۱۶; پانى كى طرف تمايل ۹/۷۲; خوبصورتى كى طرف تمايل ۹/۸۹ ;دنياوى تمايلات: (انكا سبب ۹/۸۵); دوام كى طرف تمايل ۹/۷۲، ۸۹;شرك كى طرف تمايل: (اسكى مذمت ۱۰/۳۲);طبيعت كى طرف تمايل ۹/۷۲;مادى وسائل كى طرف تمايل ۹/۷۲; مال كى طرف تمايل ۹/۸۵;معنوى اقدار كى طرف تمايل : (اس كا سبب ۹/۷۲)نيز رك انسان اور مؤمنين

تمثيل : ر ك مثاليں //تمدن :اسكى اہميت ۹/۹۷نيز ر ك :اسلام

تمسخر اڑانا : ر ك مزاق اڑان

توبہ :اس كا سبب ۹/۱۰۲; اسكى اہميت ۹/۲۷،۱۲۶; اسكے آثار ۹/۵، ۱۱۲، ۱۱۸; اسكے اركان ۹/۱۰۲; بے فائدہ توبہ ۱۰/۵۱; توبہ توڑنے كے موانع

۶۵۶

۹/۱۰۵;توبہ عذاب كے وقت ۱۰/۵۱; توبہ كا ترك كرنا ; (اسكى سزا ۹/۷۴) ; توبہ كا فلسفہ ۹/۷۴; توبہ كا قبول ہونا ۹/۱۰۲،۱۰۴; (اسكا سبب ۹/۱۰۲، ۱۰۴; اس كا وعدہ ۹/۱۰۴; اسكى شرائط ۹/۱۵،۲۷، ۱۰۴، ۱۰۵; اسكے عوامل ۹/۱۱۷; اسكے موانع ۹/۶۶،۱۰/۹۱); توبہ كى تشويق ۹/۳، ۲۷، ۱۰۴ ; توبہ كى دعوت ۹/۱۵،۲۷،۷۴; توبہ كے عوامل ; ۹/۱۱۸;توبہ كے موارد ۹/۱۰۲;توبہ موت كے وقت ۱۰/۹۱; توبہ ميں صداقت : (اسكے آثار ۹/۱۰۴،۱۰۵); حقيقى توبہ كى نشانياں ۹/۱۰۴;يہ اور رحمت خدا ۹/۱۱۸نيز ر ك : اسير ، جنگ ، دين ، فرعون ، قوم يونس ، كفار ، گناہگارلوگ ، مجاہدين ، مرتد ، مشركين ، منافقين اور مؤمنين

توبہ كرنے والے:اسكى قبوليت ۹/۱۰۴; ان سے مراد ۹/۱۱۲; انكا انجام ۹/۱۰۶; انكا انفاق ;(اسكا قبول ہونا ۹/۱۰۴) انكا عذاب ۹/۱۰۶; انكو نصيحت ۹/۱۰۵; انكى بخشش ۹/۱۰۶; انكى زكات ; (اسكا قبول ہونا ۹/۱۰۴) ;انكے صدقات: (انكے صدقات كى قبوليت ۹/۱۰۴)، انكى معنوى ضروريات ۹/۱۰۵ ، ۱۰۶)

توحيد :توحيد افعالى ۹/۵۱، ۵۲، ۷۴_۱۰/۵، ۶، ۱۸، ۱۰۴، ۱۰۶، ۱۰۷;(اسكے آثار۹/۵۹)توحيد ذاتى ۹/۳۱،۶۲;توحيد ربوبى ۹/۱۲۹، ۱۰/۳،۱۰،۳۱; (اس كا سبب ۱۰/۳۲; اس كا فطرى ہونا ۱۰/۱۲، ۲۲; اسكى حقانيت ۱۰/۳۲; اسكى حقانيت كے دلائل ۱۰/۱۲; اسكى شناخت كا سبب ۱۰/۶; اسكى نشانياں ۱۰/۵، ۶۷،۱۰۱; اس كے آثار ۹/۱۲۹; اسكے دلائل ۱۰/۶،۷، ۶۶، ۱۰۱; اسكے موجبات ۱۰/۱۰۱; اسے جھٹلانے والے ۱۰/۱۸; اسے درك كرنے والے ۱۰/۶;يہ جہان خلقت ميں ۱۰/۶); توحيد عبادي: (۹/۳۱، ۱۰/۳، ۳۲، ۳۴، ۳۵، ۱۰۴، ۱۰۵; اس سے روگردانى كرنے كى مذمت ۱۰/۳۲; اس كا سبب ۱۰/۱۰۴;اسكى اہميت ۱۰/۳، ۱۰۵اسكے دلائل ۱۰/۶۶; يہ تاريخ ميں ۱۰/۱۹);توحيد كا بلند ہونا :(اسكے عوامل ۹/۴۰); توحيد كى اہميت ۹/۱۱، ۳۱;توحيد كى دعوت: ۱۰/۷۱;توحيد كى كاميابى : (اس كا وعدہ ۱۰/۶۵);نعرہ توحيد ۹/۴۰نيز رك: ايمان ، بت ، بنى اسرائيل، حق، خدا ، دشمنى ، دن، ذكر ، رات ، عقيدہ ، غفلت، متقين ، مؤمنيناور نوح(ع)توحيد پرست لوگ:ان پر فضل كرنا ۱۰/۱۰۷; يہ قيامت ميں ۱۰/۱۹نيز رك پہلے پہلے انسان

تورات :تورات كا كردار ۹/۱۱۱; تورات ميں خدا كے وعدے ۹/۱۱۱; نزول تورات : (اسكى تاريخ ۱۰/۹۳)

نيز رك بنى اسرائيل اور قرآن

توسل:خدا كى ربوبيت كے ساتھ توسل ۱۰/۸۸

۶۵۷

نيز رك بنى اسرائيل اور دع

توفيق:توفيق سے محروم ہونا ۹/۴۶; سلب توفيق: (اسكے عوامل ۱۰/۸۸)

توكل:توكل كى دعوت ۱۰/۸۴;خدا پر توكل :۹/۵۱، ۱۲۹، ۱۰/۸۴;(اس كا سبب ۹/۵۱، ۱۲۹; اسكى اہميت ۹/۵۹، ۱۲۹، ۱۰/۸۴; اسكے آثار ۹/۵۹، ۱۰/۷۱، ۸۴; اسكے عوامل ۹/۱۲۹، ۱۰/۸۴)نيز رك بنى اسرائيل ، جہاد ، مؤمنين اور نوح(ع)

توكل كرنے والے لوگ:ان پر فضل ۹/۵۹; انكے ساتھ وعدہ ۹/۵۹; خدا پر توكل كرنے والے ۱۰/۸۴

تہمت : رك ، انبياء ، فرعون، قرآن ، قوم نوح، كفار مكہ ، محمد(ص) ، مشركين ، موسى ، نوح (ع) اور ہارون (ع)

''ث''

ثروت:ثروت پر اعتماد كرنا۹/۶۹; ثروت كا نقش و كردار ۹/۸۵; ثروت كے آثار ۹/۵۵،۸۵،۸۶،۹۳; ثروت كے احكام ۹/۴۳ (ثروت اندوزى كى حرمت ۹/۳۴، ثروت اندوزى كى سزا ۹/۳۴)

نيز رك ثروت اندوزى كرنے والے ، ثروت مند لوگ، طاغوتى لوگ،عذاب، فرعون اور منافقين

ثروت اندوزي:اسكا بے قيمت ہونا ۱۰/۵۸نيز رك امام مہدي(ع)

ثروتمند لوگ:ان كى ذمہ دارى ۹/۹۳; ذمہ دارى سے منہ موڑنے والے ثروتمند لوگ ۹/۹۳; (ان كو تہديد كرنا ۹/۹۴; انكى تحقير ۹/۹۳; ان كى ذلت ۹/۹۳; ان كى رسوائي ۹/۹۴; ان كى مذمت ۹/۹۳، ان كى معذرت خواہى ۹/۹۴); يہ اور غزوہ تبوك ۹/۹۳

ثعلبہ ابن حاطب:اسكا بخل ۹/۷۶; اسكى عہد شكني۹/۷۶

ثواب: ر_ك پادشاہ

''ج''

جادو :اس كا باطل ہونا ۱۰/۷۶; اسكى تاريخ ۱۰/۷۹; اسكے آثار ۱۰/۸۱; يہ فرعون كے زمانے ميں ۱۰/۷۹

نيز رك : جادوگر لوگ، قرآن، محمد(ص) اور موسى (ع)

۶۵۸

جادوگر لوگ:انكا عاجز ہونا ۱۰/ ۷۷;انكا فسادپھيلانا ۱۰/۸۱; انكى محروميت ۱۰/۷۷نيز رك فرعون

جاسوس:رك غزوہ تبوك

جاسوسي:ر ك منافقين جاہل لوگ : ۹/۶، ۱۰/۱۰۰

انكى اتباع كرنا : (اس سے نہى ۱۰/۸۹);جاہل قاصر: (اس كاگناہ ۹/۱۱۵);جاہلوں كا راستہ ۱۰/۸۹

نيز رك راہبري، موسى (ع) اور ہارن (ع)

جذبات :انكو مہار كرنا ۹/۱۱۳; انكى اہميت ۹/۱۰۳

خاندانى جذبات : ۹/۲۴، ۱۱۳; (انكے آثار ۹/۲۴)

جرائم: ۹/۱۲انكے آثار ۹/۶۶، ۱۰/۸۲;جرائم كا تسلسل : (اسكے آثار ۹/۶۶، ۱۰/۷۵);جرائم كا سد باب : (اسكے عوامل ۹/۸۱);جرائم كے ارتكاب كے موانع ۹/۳۶; جرائم كے مرتبے ۹/۸۲;جرائم كے معاونين: (ان كى بخشش ۹/۶۷);جرائم كے موارد ۹/۶۷;غير قابل بخشش جرائم ۹/۶۶، ۶۷نيز رك: ارتداد، اسلام ،بدلہ ، جنگ، جہاد، دين ، عيسائي علماء ، فساد ،منافقت، منافقين ،نيكى ، يہودى علماء//جزا: رك پاداش ، كيفر اور بدلہ

جزيرة العرب:اسكى تاريخ ۹/۹۴; اسكے لوگ ۱۰/۱۴; اس ميں مہلك عذاب ۱۰/۱۴;جزيرة العرب كے باديہ نيشن لوگ: (انكا حق كو قبول نہ كرنا ۹/۹۷; انكا كفر ۹/۹۷; انكا نفاق ۹/۹۷; انكى پست ثقافت ۹/۹۷; انكى جہالت ۹/۹۷; انكى خصوصيات ۹/۹۷; يہ اور احكام ۹/۹۷);جزيرة العرب ميں باديہ نشينى ۹/۹۷; جزيرة العرب ميں دين: (اسكى حكمرانى ۹/۹۴);جزيرة العرب ميں شہر نشينى ۹/۹۷

جزيہ:اسكى مقدار ۹/۲۹;اسكے آثار ۹/۲۹; اسكے احكام ۹/۲۹; اسكے موارد ۹/۲۹;جزيہ كا ادا كرنا: (اسكى شرائط ۹/۲۹);جزيہ كا فلسفہ ۹/۲۹نيز رك اہل كتاب اور مجوس /جعفر بن ابى طالب:انكے فضائل ۹/۱۹

جمرات: رك جمرات كو كنكرياں مارناجن پر نفرين ہے ۹/۳۰

جنگ: اس سے روگردانى كرنا ۹/۱۳; اسكى اجازت ۹/۸۳،۸۶;اسكى اہميت ۹/۱۲۲; اسكے آثار ۹/۴۲ ; اسلام كے ساتھ جنگ۹/۲، ۳; اس ميں آرام ۹/۲۶; اس ميں خدا كى امداد ۹/۱۴ ;جنگ چاہنے والوں كے ساتھ جنگ: (اسكى اہميت ۹/۱۴)

۶۵۹

;جنگ سے فرار: ۹/۲۵(اس سے توبہ ۹/۲۷; اس كا جرم ۹/۲۷; اس كا گناہ ۹/۲۷); جنگ سے معذور لوگ:(انكى تشخيص ۹/۴۳); جنگ كا آغاز كرنے والا: (اسكو سركوب كرنے كى اہميت ۹/۱۳);جنگ كا ترك كرنا: ۹/۸۳(اسكى اجازت ۹/۸۶);جنگ كا فلسفہ ۹/۱۶(اس كا بيان كرنا ۹/۱۳);جنگ كى اعلى قوتيں ۹/۴۷; جنگ كى دعوت ۹/۱۲۸;جنگ كى سختى : (اسكے آثار ۹/۴۲) ; جنگ كى شرائط ۹/۲،۴۷ ;جنگ كى كمان : ۹/۴۹ (اسكى خطاؤں كا معاف ہونا ۹/۴۳); جنگ كے احكام ۹/۲، ۵، ۱۱، ۸۳، ۸۶;جنگ ميں سستى : (اسكے عوامل ۹/۸);جنگ ميں فوجيوں كى كثرت: (اس كا كردار ۹/۲۵);جنگ ميں لغزش: (اسكے آثار ۹/۲۶); حرام جنگ ۹/۵، ۱۱; حرمت والے مہينوں ميں جنگ :۹/۵، ۳۶(اسكى حرمت ۹/۳۶);خدا كے ساتھ جنگ ۹/۲، ۳; دشمنان دين كے ساتھ جنگ ۹/۱۴ ;دشمنوں كے ساتھ جنگ ۹/۱۳، ۱۵، ۱۲۸(اسكى اہميت ۹/۱۴); دفاعى جنگ ۹/۱۰، ۳۶; دين كو كمزور كرنے والوں كے ساتھ جنگ ۹/۱۲;رہبر كے دشمنوں كے ساتھ جنگ ۹/۱۳ ; عہد توڑنے والوں كے ساتھ جنگ ۹/۱۳، ۱۵;كافر رہبروں كے ساتھ جنگ ۹/۱۳; كفار كے ساتھ جنگ : ۹/۱۱، ۱۲، ۱۲۳(اس كا فلسفہ ۹/۶); محاربين كے ساتھ جنگ ۹/۱۱; محمد(ص) كے دشمنوں كے ساتھ جنگ ۹/۱۳; مسلمانوں كے ساتھ جنگ ۹/۲، ۱۳; مشرك رہبروں كے ساتھ جنگ ۹/۱۲; مشركين كے ساتھ جنگ: ۹/۱۰، ۱۱، ۱۳(اس كا فلسفہ ۹/۶) معاہدہ كرنے والے كفار كے ساتھ جنگ ۹/۱۲;منافقين كے ساتھ جنگ ۹/۵۲نيز رك امتحان ، خوف، علما، محمد(ص) ، مسلمان، مشركين ، منافقين اور مؤمنين جنگى تياري:جنگى تيارى كا دعوا ۹/۸۳;جنگى تيارى كى پاداش ۹/۱۲۱

جہاد:اس كا فلسفہ ۹/۵، ۶، ۱۱، ۱۲، ۳۹، ۴۱، ۱۱۱، ۱۲۳اس كا وجوب ۹/۱۲۲(وجوب جہاد كا معيار ۹/۳۸);اسكے آثار ۹/۱۴، ۲۰، ۲۱، ۳۸، ۳۹، ۴۲، ۴۳، ۴۵، ۸۸، ۹۰، ۱۲۰، ۱۲۲;اس ميں افواج كو جمع كرنا ۹/۴۱(سكى اہميت ۹/۳۸); اس ميں توكل ۹/۵۱; اس ميں حوصلہ بڑھانا ۹/۴۴، ۴۷; اہل كتاب كے ساتھ جہاد: ۹/۲۹(اس كا ترك كرنا ۹/۲۹; اسكے دلائل ۹/۲۹); جہاد اديان ميں ۹/۱۱۱; جہاد سب كيلئے ۹/۴۱;جہاد سے محروم رہنا :۹/۹۲;( اسكے عوامل ۹/۴۶); جہاد سے محروم لوگ ۹/۸۳; جہاد سے معذور لوگ: ۹/۸۳، ۹۰، ۹۱، ۹۲، ۱۲۲ (انكا محفوظ رہنا ۹/۹۱; انكى بخشش ۹/۹۱; انكى حسن نيت ۹/۹۱; انكى خير خواہى ۹/۹۱; انكى دلجوئي ۹/۹۲; انكى ذمہ دارى ۹/۹۱; انكى ہمنشينى ۹/۹۳);جہاد سے معذور ہونا : (اسكے عوامل ۹/۹۱);جہاد صدر اسلام ميں ۹/۹۲; جہاد كا تدارك كرنا: (اس كا ذمہ دار ۹/۹۲);جہاد كا ترك كرنا : (اس سے راضى ہونا۹/۸۷; اس كا نقصان ۹/۳۹، ۴۹; اسكى اجازت ۹/۴۳، ۴۴، ۴۵، ۴۹، ۸۳، ۸۶; اسكى سرزنش ۹/۲۴، ۳۹);

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746